’’دیکھیں زویا،میں آپ سے کسی بھی صورت میں کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتا،آپ پلیز چلی جائیں یہاں سے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے آج بے رخی کے سارے ہی ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ ڈاکٹر زویا ابھی بھی ڈھٹائی سے ان کے سامنے جم کر کھڑی تھیں۔
’’میں ایسے نہیں جاؤں گی،پہلے آپ مجھے معاف کریں۔۔۔۔‘‘ڈاکٹر زویا نے بیچارگی کے ساتھ اُس دشمن جان کو دیکھا۔جو آج صدیوں کے فاصلے پر کھڑا تھا۔
’’میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ مجھ سے معافی مانگنے کی بجائے سکینہ کے والدین سے معافی مانگیں۔ جن پر آپ کی وجہ سے ایک بڑی قیامت آئی ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے اجنبی انداز اپنایا۔انہیں نہ جانے کیوں اس لڑکی کو دیکھ کر اپنا فشار خون بلند ہوتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔
’’میں ان سے معافی مانگ کر ہی آپ کے پاس آئی ہوں۔۔۔‘‘ڈاکٹر زویا کی بات پر انہیں جھٹکا لگا۔’’کیا کہا ہے آپ نے ان سے۔۔۔؟؟؟‘‘وہ ایک دم ہی کھڑے ہوئے۔
’’میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے۔اُس دن میری ہی باتوں کی وجہ سے سکینہ کی طبیعت خراب ہوئی تھی۔‘‘ ڈاکٹر زویا کی بات پر انہیں دھچکا سا لگا۔
’’ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو۔۔۔‘‘وہ غصّے سے بڑ بڑائے۔
’’کوئی اور فضول بات تو نہیں کی آپ نے ان سے۔۔۔‘‘ وہ ایک دم ہی بے چین ہو کراٹھ کھڑے ہوئے۔
’’اب میں اتنی بھی ظالم نہیں ہوں ڈاکٹر خاور ،مجھے احساس ہے کہ کون سی بات اُن کے لیے تکلیف کا باعث بن سکتی ہے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر زویا کا لہجہ عجیب ہوا۔
’’کاش تھوڑا سا احساس آپ پہلے بھی کر لیتیں،تو کم از کم آج سکینہ اس حالت میں آئی سی یو میں نہ ہوتی۔۔۔‘‘وہ نہ چاہتے ہوئے بھی گلہ کر گئے۔
’’آئی ایم سوری ڈاکٹر خاور، میں نے یہ بہت گھٹیا حرکت کی،یقین کریں مجھے ساری ساری رات نیند نہیں آتی،سکینہ کا چہرہ میرے ذہن سے ہٹتا ہی نہیں۔۔۔‘‘ زویا کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔
’’انسان بہت ظالم اور خود سر ہوتا ہے۔جب اُس کے ہاتھ میں ہلکا سا بھی کسی چیز کا اختیار آجائے تو وہ اُس کا استعمال بیدردی سے کرتا ہے۔آپکو پتا تھا ناں کہ سکینہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی،اس لیے آپ نے سارا زہر اُس کے سامنے اگل دیا۔اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو آپ کبھی بھی ایسا نہیں کر سکتیں تھیں۔‘‘ ڈاکٹر خاور کے لفظوں میں ایک تلخ حقیقت پوشیدہ تھی۔زویا نے بے اختیار اپنی نگاہیں چرائیں۔
’’لیکن میں نے یہ سب آپ کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کیا تھا ڈاکٹر خاور۔۔۔۔‘‘ ڈاکٹر زویا کا یہ جملہ پورے ہوش و حواس کے ساتھ آفس میں قدم رکھتی عائشہ نے سنا تھا۔وہ پہلے ہی قدم پر ٹھٹک گئی۔سامنے ہی ڈاکٹر خاور اپنی کرسی کے پاس کھڑے تھے جب کہ ان کے سامنے آنسو بہاتی ڈاکٹر زویا کو دیکھ کر عائشہ کو لگا جیسے وہ کسی غلط موقعے پر یہاں آ گئی ہو۔
’’سوری،میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔۔۔۔‘‘وہ ایک دم ہی مڑی۔
’’عائشہ ،میری بات تو سنو۔۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور بے تابی سے اُس کے پیچھے لپکے۔ڈاکٹر زویا کو آج پہلی دفعہ لگا کہ وہ ہار گئیں ہیں۔وہ وہیں ان کے آفس کی کرسی پر بیٹھ کر دھواں دھار رو پڑیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے آج آنسوؤں پر ان کا کوئی زور نہیں تھا۔
’’یہاں بیٹھو،اور آرام سے بات کرو ،مجھ سے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر بڑے استحقاق بھرے انداز سے زبردستی بینچ پر بٹھایا۔ ’’ہر بات پر ایسے اوور ری ایکٹ نہیں کرتے۔‘‘
انہوں نے ہلکی سی جھنجھلاہٹ سے اُس کا ناراض چہرہ دیکھا۔
’’میں نے کیا ،کہا آپ سے۔۔۔۔‘‘ اُس نے اپنے نچلا لب کچلتے ہوئے ڈاکٹر خاور کا پریشان انداز دیکھا۔
’’ادھوری باتیں اورادھورے جملے سن کر اپنی مرضی کی داستانیں تخلیق کرنے والے لوگ ہمیشہ دکھ ہی اٹھاتے ہیں۔۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
’’ساری دنیا کی لڑکیوں کو اپنے پیچھے لگا رکھا ہے آپ نے،آخر مسئلہ کیا ہے آپ کے ساتھ۔۔۔۔‘‘وہ بُری طرح چڑ کر بولی۔ڈاکٹر خاور اُس کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنسے۔ صبح کی دلکشی میں ایک دم ہی اضافہ ہوا۔
’’میں نے تھوڑی لگایا ہے،خود آتی ہیں میرے پیچھے۔۔۔۔‘‘انہوں نے مزید چڑایا اور وہ چڑ بھی گئی۔ ’’ہاں ایسے ہی شہزادہ گلفام ہیں ناں آپ۔۔۔۔‘‘
’’خیر اس میں کوئی شک بھی نہیں۔۔۔‘‘ انہوں نے اپنی فرضی کالر اوپر کیے ۔ان کے غیر سنجیدہ انداز پر عائشہ کی آنکھیں آنسو ؤں سے لبریز ہوئیں۔ ڈاکٹر خاور کے دل کو کچھ ہوا۔
’’مائی گاڈ تم کتنی شکی مزاج لڑکی ہو عائشہ۔۔۔۔‘‘ انہوں نے بہت محبت سے اُس کے بازو پر ہاتھ رکھا جسے اُس نے بڑی بے رخی سے جھٹک دیا تھا۔وہ اُس کی اس حرکت پر ایک دفعہ پھر مسکرائے۔’’ایک بات اپنے ذہن میں رکھ لو ، ساری دنیا کی لڑکیاں بھی اگر میرے پیچھے ہوں تو تمہارے خوش ہونے کے لیے یہ احساس کافی نہیں کہ میں صرف ایک لڑکی کے پیچھے ہوں‘‘ انہوں نے دانستہ ہلکا پھلکا انداز اپنایا۔ عائشہ کے چہرے سے تناؤ کچھ کم ہوا۔
’’مجھے کیا پتا۔۔۔۔‘‘ اُس کا غصّہ ابھی بھی کم نہیں ہوا ۔
’’میری طرف دیکھ کر کہو،تمہیں نہیں پتا۔۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے شرارت سے اُس کی ٹھوڑی کو اوپر کر کے اُس کی آنکھوں میں جھانکا۔وہ گڑ بڑا سی گئی۔ اُ س کا بلش ہوتا چہرہ انہیں لطف دے گیا
’’اب یہ محترمہ کون سی داستان امیر حمزہ سنا رہی تھیں۔ سکون نہیں ہے انہیں۔۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ کی سوئی ابھی بھی ڈاکٹر زویا میں اٹکی ہوئی تھی۔
’’ہوں ۔۔۔سوال تو خاصا مختصر ہے، لیکن جواب خاصا لمبا ہے۔اس لیے میرے ساتھ ڈاکٹرز کیفے تک چلو، راستے میں بتاتا ہوں۔۔۔‘‘ انہوں نے بازو سے پکڑ کر اُسے اٹھایا پھر راستے میں وہ اُسے آہستہ آہستہ ساری بات بتاتے گئے۔عائشہ کی آنکھیں کھلتی گئیں۔
’’اُف یہ خوبصورت چہرے اتنے بے رحم کیوں ہوتے ہیں۔۔۔‘‘ عائشہ کا دکھ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
’’سب ایسے نہیں ہوتے،ہاں جو ایسے ہوتے ہیں ،وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے انہیں دوسروں کا دل دکھانے کا پرمٹ دے رکھا ہے۔‘‘ انہوں نے ڈبل روٹی پر جیم لگاتے ہوئے سادگی سے جواب دیا۔
’’کیا واقعی ڈاکٹر زویا کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ سکینہ آپ سے محبت کرتی ہے یا حقیقت میں ایسا تھا۔۔۔‘‘ عائشہ کے سوال پر ان کا جیم لگاتا ہاتھ فضا میں معلق ہوا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ انہوں نے دانستہ ہلکے پھلکے لہجے میں پوچھا۔
’’ایسا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔۔۔۔‘‘ عائشہ نے سادگی سے کہا۔
’’اچھا فرض کرو، اگر واقعی ایسا ہو تو کیا سکینہ کا یہ قصور اتنا بڑا ہے کہ اُس کی ذات کی تذلیل کی جائے اور اُسکی دھجیاں تک اڑا دی جائیں۔‘‘وہ تھوڑا سا تلخ ہوئے۔
’’ہر گز نہیں، محبت پر بھلا کب کسی کا زور چلتا ہے اور سکینہ بیچاری تو بہت معصوم سی لڑکی تھی۔۔۔‘‘ عائشہ کی سادگی ،ڈاکٹر خاور کے دل کو چھو گئی۔وہ یک ٹک اُسے دیکھتے رہ گئے۔
’’ایک بات بتاؤ ،عائشہ، کیا محبت ظاہری چہروں کو دیکھ کر ہوتی ہے،کیا تم اس بات پر یقین رکھتی ہو۔؟؟؟ انہوں نے کھوجتی نگاہوں سے عائشہ کو دیکھا۔
’’ظاہری خوبصورتی کے عکس کو بھی ہم جھٹلا نہیں سکتے۔۔۔‘‘وہ صاف گوئی سے بولی۔
’’جس محبت کی میں بات کر رہا ہوں وہ ان چیزوں سے بے نیاز ہوتی ہے۔جس محبت کی تم بات کر رہی ہو،وہ محبت نہیں ایگری منٹ ہوتا ہے،جس میں ہم اگلے بندے کی شخصیت، اُس کا اسٹیٹس، تعلیم،جاب اور بہت سے دوسرے لوازمات دیکھ کر متوجہ ہوتے ہیں۔۔۔‘‘ ان کی تلخی عائشہ کا دل دکھا گئی۔
’’ڈاکٹر خاور ،میں بھی ایسی ایگریمنٹ ٹائپ محبتوں پر یقین نہیں رکھتی ،لیکن افسوس کہ ہم جس معاشرے میں سانس لیتے ہیں وہاں ان سب چیزوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔‘‘ عائشہ نے فورا ہی صفائی دی تو وہ پھیکے سے انداز سے زبردستی مسکراتے ہوئے بولے۔
’’میں ایسے معاشر ے کے دوغلے پن سے نفرت کرتاہوں،جہاں سکینہ جیسی لڑکی کو اگر مجھ جیسے شخص سے محبت ہو جائے تو معاشرہ اُسے ’’اوقات‘‘میں رہنے کے درس دینے لگے ،اور اگر مجھ جیسے شخص کی زندگی میں ایسی معذور لڑکی آجائے تو معاشرہ اُسے قبول ہی نہ کرے۔ کیسا بد بو دار معاشرہ ہے ہمارا، ہم لوگوں کو ان چیزوں کی سزا دیتے ہیں،جن میں ان کا کوئی دوش نہیں ہوتا۔‘‘ ڈاکٹر خاور کی باتوں پر عائشہ گھبرا گئی۔
’’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘اُس کی آنکھوں میں خوف کی لہر پوری قوت سے نمودار ہوئی۔
’’مجھے صرف اتنا کہنا ہے ،عائشہ تم معاشرے کے عام لوگوں کی طرح مت سوچا کرو،مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ کم از کم تم سب لوگوں کو جینے کا حق دیا کرو،تم دنیا کی واحد لڑکی ہو،جو مجھے ایسے ہی سمجھتی ہو جیسا کہ میں ہوں۔مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تم میرا پرتو ہو۔تمہیں دیکھ کر مجھے دنیا اچھی لگتی ہے۔‘‘ان کی آنکھوں میں عائشہ کے لیے اتنی محبت تھی کہ اُس کے سارے خدشے اور وہم بھاپ بن کر اڑ گئے۔
***************
’’سخت ناراض ہوں میں آپ سے،آپ نے تو مجھے ہر معاملے میں دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیا ہے۔۔۔‘‘رامس اُس دن اچانک ہی عائشہ کے گھر چلا آیا اور وہ جو لان میں اپنا کینوس رکھے ایک پینٹنگ پر کام کرنے میں مصروف تھی۔اُس کی بات پر چونک گئی۔
’’یہ تم کیوں ،ناراض ہو کر پہاڑ پر چڑھے بیٹھے ہو۔۔۔‘‘ عائشہ نے اُسے چھیڑا،جو منہ پھلائے لان چئیر پر بیٹھا تھا اُس کے سامنے رکھی چائے اور دوسرے لوازمات ٹھنڈے ہو رہے تھے لیکن اُس نے بھی شاید آج انہیں ہاتھ نہ لگانے کی قسم کھا رکھی تھی۔
’’آپ کے بھائی کی ڈیٹ فکس ہو گئی۔آپ نے مجھے بتایا تک نہیں۔۔۔۔‘‘ رامس کے شکوے پر وہ ہنسی۔’’توبہ ہے کیسے لڑکیوں کی طرح گلے کر رہے ہو،میں اور ماما خود جا کر تمہارے ہاں کارڈ دے کر آئے ہیں اور تمہاری ماما کو ساری تفصیل بھی۔‘‘
’’لیکن آپ نے یہ تو نہیں بتایا تھا کہ آپ لوگ میری ہی کزن پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔۔۔‘‘ رامس کی بات پر وہ ایک دفعہ پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ’’اُف آج تو تم بہت جلے کٹے الفاظ کا استعمال کر رہے ہو۔۔۔۔‘‘
’’جب دل پر چوٹ لگتی ہے تو پھر ایسے ہی راگ دل سے نکلتے ہیں۔‘‘ اُ س نے بُرا سا منہ بنا کر کہا تو عائشہ جھٹ سے بولی۔’’اب ایسی بھی کوئی چوٹ نہیں جتنی دہائی تم دے رہے ہو۔‘‘
’’غضب خدا کا میری ہی سگی پھپھو زاد کے ساتھ آپ لوگ رشتہ کر آئے اور کانوں کان خبر تک نہ ہونے دی۔۔۔‘‘رامس نے نروٹھے انداز سے کہا۔
’’بائے گاڈ ،ہمیں تو خود پتا نہیں تھا وہ تو تمہارے کزن شہیر نے ذکر کیا تو پتا چلا۔۔۔۔‘‘ عائشہ نے اُسے صفائی دینے کی کوشش کی۔
’’جانے دیں،اب اتنی بھی اوور ایکٹینگ نہ کریں آپ۔۔۔‘‘ رامس کو قطعاً بھی یقین نہیں آیا۔
’’اُف ،کتنے فضول انسان ہو تم،پتا تو ہے تمہیں ،میری ناک کے نیچے سے بڑے بڑے طوفان گذر جاتے ہیں اور مجھے پتا ہی نہیں چلتا۔‘‘
’’یہ فخر کی نہیں بلکہ شرم کی بات ہے۔۔۔۔‘‘ رامس کی بے تکلفی پر اُس نے گھور کر اُس دیکھا۔ جو جوتے کی نوک سے اچھی خاصی لان کی گھاس کا بیڑا غرق کر رہا تھا۔
’’اچھا ،انسانوں کی طرح بیٹھو،اس معصوم گھاس پر غصّہ نکالنے کی ضرورت نہیں۔چائے گرم کرواؤں تمہارے لیے۔۔۔‘‘ عائشہ نے دلچسپی سے اُس کا خفا خفا سا چہرہ دیکھا۔
’’ہر گز نہیں پئیوں گا۔۔۔۔‘‘ اُس نے صاف انکار کیا۔
’’اچھا ،پھر بتاؤ کہ تمہارا موڈ کیسے ٹھیک ہو گا۔۔۔۔‘‘ عائشہ اپنا کام چھوڑ کر اب اُس کے سامنے آن بیٹھی۔
’’آپ مجھے ،نابیہ اور ثنائیلہ کو کسی اچھی سی جگہ پر ڈنر کروائیں۔۔۔۔‘‘اُس کی فرمائش پر وہ حیران ہوئی۔’’وہ کس خوشی میں ۔۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’اپنے بھائی کی میری کزن کے ساتھ شادی کی خوشی میں۔۔۔‘‘ جھٹ سے وضاحت ہوئی۔
’’چلو،تمہاری خاطر یہ نقصان بھی اٹھا لیتے ہیں۔۔۔‘‘عائشہ کی آنکھیں شوخی سے جگمگائیں۔ ’’ویسے یہ نابیہ وہ ہی ہے ناں،جس پر تم نظر رکھے بیٹھے ہو۔۔۔؟؟؟‘‘
’’
بالکل وہ ہی ہے۔۔۔‘‘اُس کا موڈ ایک دم خوشگوار ہوا۔ ’’آپ ملیں ہیں اُس سے۔۔۔۔؟؟؟‘‘اُس نے عجلت بھرے انداز سے پوچھا۔
’’ہاں سرسری سی ملاقات تو ہوئی ہے تمہاری کزن کے ہاں۔۔۔۔‘‘ عائشہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’پھر کیسی لگی وہ آپ کو۔۔۔؟؟؟‘‘ رامس کی بے تابی پر وہ مسکرائی۔
’’لڑکی تو اچھی خاصی ٹھیک ہے،ذہنی حالت بھی ٹھیک لگ رہی تھی اُس کی ،پھر وہ تمہارے لیے کیسے مان گئی۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ نے اُسے چھیڑا۔
’’ذہنی حالت ہی تو ٹھیک نہیں ہے،ورنہ بھلا وہ کیسے مانتی ۔۔۔۔‘‘ اُس نے خود بھی اپنا مذاق اڑایا جو عائشہ کو بالکل اچھا نہیں لگا۔’’کیوں،تم میں کس چیز کی کمی ہے۔۔۔‘‘؟؟؟
’’یہ تو آپ اپنی سائیکلوجسٹ فرینڈ سے پوچھیں ،پوری ایک لسٹ مرتب کر کے آپ کے ہاتھ میں تھما دیں گی۔‘‘ وہ تھوڑا سا سنجیدہ ہوا’’تمہارا تو پتا نہیں ،لیکن اُس کے بارے میں مجھے پتا ہے کہ اُس میں کس چیز کی کمی ہے۔۔۔‘‘عائشہ نے ہنستے ہوئے اُسے دیکھا ۔جس کے چہرے پر تحیر کے سائے نمایاں تھے۔
’’کس چیز کی۔۔۔۔؟؟؟‘‘رامس نے سوالیہ نگاہوں سے اُسے دیکھا۔
’’عقل کی۔۔۔‘‘ عائشہ کی بات پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔ اُسے بے تحاشا ہنستے ہوئے دیکھ کر عائشہ بھی مسکرا دی اور اُس نے دل ہی دل میں اُسے ہمیشہ ہنستے رہنے کی دعا دی۔
****************
’’وہ بہت خوبصورت،سرسبز،خوشنما اور سرخ گلابوں سے ڈھکی ایک وادی تھی۔تاحدّ نگاہ ہریالی اور پس منظر میں سر سبز و شاداب پہاڑوں پر خورد رو پھول ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی نے آسمان سے ستارے توڑ کر وہاں ٹانک دیے ہوں۔۔۔۔
’’اس خوبصورت اور دل آویز وادی میں وہ چاندی کے جسم والی لڑکی سفید رنگ کے پریوں کے لباس میں آسمان سے اتری کوئی حور لگ رہی تھی۔وہ اس قدر دلکش اور حسین دکھائی دے رہی تھی کہ اُس پر نظر ٹھہرانا دشوار ہو رہا تھا۔وہ اپنے دونوں بازو پھیلائے آسمان سے گرنے والی پھوار کو اپنی ہتھیلیوں پر محسوس کر رہی تھی ۔اُسے اچانک کچھ ہوا اور اُس نے وادی میں موجود تتلیوں کے ساتھ رقص کرنا شروع کر دیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے رقص میں کسی پہاڑی چشمے کی سی دیوانگی اور تیزی آگئی ۔اُس کا جسم اس کے اختیار میں نہیں رہا ۔وہ خود کو روئی کے گالوں سے بھی ہلکا محسوس کر رہی تھی۔فخر و غرور کی لہریں اس کے پورے وجود کا احاطہ کر چکی تھیں۔‘‘
’’ایک دم ہی منظر بدلا ۔۔۔۔۔اُس چاندی کے جسم والی لڑکی کا پاؤں پھسلا اور وہ خود کو بہت بلندیوں سے نیچے پستیوں میں گرتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔اُس نے سخت خوفزدہ نظروں سے زمین کی پستیوں کو دیکھا جو اس کا مقدر بننے والی تھیں۔وہ بڑی قوت سے بے تحاشا کیچڑ اور غلاظت سے بھری زمین پر گری ۔اُس کا سارا وجود زلزلوں کی زد میں آگیا تھا۔اُس نے گہرا سانس لے کر اپنے چٹختے ہوئے اعصاب کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کی ۔وہ اب آنکھ کی پتلیوں کو گھما کر اپنے ارد گرد پھیلی تیرگی اور فضا میں پھیلی بدبو کو محسوس کر رہی تھی۔اُسے اپنے کیچڑ زدہ جسم سے گھن آرہی تھی۔اُس نے ہاتھ بڑھا کر اپنے جسم کو ٹٹولا تو خوف کی ایک سرد لہر نے اُس کے وجود کو لپیٹ میں لے لیا۔
اُسے محسوس ہوا کہ بہت سے حشرات الارض اُس کے وجود سے چمٹے ہوئے ہیں اس نے سانس روک کر ایک عجب دیوانگی سے ایک پتنگے نما چیز کو کھینچا تو اُسے یہ دیکھ کر دھچکا لگا کہ وہ ایک مردہ پتنگا تھا۔اُس کی آنکھیں تیرگی سے مانوس ہوئیں تو اُسے احساس ہوا کہ اُس کا سارا ہی جسم ان مردہ پتنگوں کے لباس سے ڈھکا ہوا تھا۔خوف،وحشت اور سراسمیگی کے عالم میں اُس نے اپنے چہرے کو ٹٹولاتو اُسے اپنی رگوں کو خوف سے منجمند کر دینے والی انہونی کا احساس ہوا۔
اسی وقت اُسے ادراک ہوا کہ وہ کسی گہری کھائی میں گری ہوئی ہے اور اوپر سے آنے والی ہلکی سی روشنی کی لکیر کے ساتھ ہی اُس نے سیلن زدہ دیوار کے پاس گرا شیشے کا ٹکڑا دیکھاتو اُس نے لپک کر اٹھا لیا۔اُس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہی اُس کے منہ سے نکلنے والی چیخ بہت دلخراش اور بے ساختہ تھی۔
’’اُس کے خوبصورت جسم کے اوپر ایک بوڑھی مادہ گدھ کا بدصورت چہرہ سجا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔‘‘
بہت ہی خوفناک۔عجیب اور دل دہلا دینے والے خواب کے زیر اثر اُس کی آنکھ کھلی ۔ماہم نے مضطرب و متوحش آنکھوں سے اپنے کمرے میں کسی نادیدہ شے کو تلاش کرنا چاہا ۔کمرہ بالکل خالی تھا اور زیرو واٹ کے بلب کی روشنی میں اس نے فورا اٹھ کر سنگھار میز کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا چہرہ دیکھا۔۔۔۔ایک پرسکون سی سانس اُس نے فضا میں خارج کی ۔
اُس کے وجود کے اوپر اس کا اپنا ہی چہرہ تھا جو اس وقت پسینے سے تر ،وحشت زدہ اور خوف میں ڈوبا ہوا تھا۔اُس نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر ایک دفعہ پھر خود کو یقین دلایا ۔وہ اب عجیب دیوانگی کے عالم میں اپنے کپڑوں کو جھٹک رہی تھی۔اُسے لگا تھا کہ کہیں کوئی ایک آدھ مرا ہوا پتنگا اس کے وجود کے ساتھ چمٹا ہوا نہ رہ گیا ہو۔ اس وقت رات کے دو بج رہے تھے۔باہر سیاہ رات کے ہولناک سنّاٹے میں جھینگروں کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔
’’لیکن اُسے نہ جانے کیوں یہ وہم لاحق ہو گیا تھا کہ وہ بوڑھی گدھ کہیں آس پاس ہی ہے۔اس خیال نے اُسے ایک دفعہ پھر بے چین کر دیا ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بہت ہی عجیب،فضول اور بے تکا سا خواب ہے یہ تو۔۔۔۔‘‘ صبح ڈائننگ ٹیبل پر ماہم ، ثمن آپی اور ماما کے سامنے نہ چاہتے ہوئے بھی ذکر کر گئی۔جسے سنتے ہی ثمن آپی نے کھل کر تبصرہ کیا۔
’’اچھا ،مجھے تو یہ کوئی خبردار کر دینے والا خواب لگ رہا ہے بہت با معنی سا۔۔۔‘‘ماما تھوڑا سا پریشان نظر آئیں۔
’’کم آن ماما،آجکل کے دور میں بھلا کون خوابوں پر یقین کرتا ہے۔۔۔۔‘‘ ثمن نے مذاق اڑایا۔
’’خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ سچے خوابوں کی حقیقت کو کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا۔ کئی دفعہ ایسے خواب ،مستقبل کی کئی پریشانیوں سے بچا جاتے ہیں۔میں کسی عالم سے پوچھوں گی۔‘‘ماما حد درجہ سنجیدہ نظر آ رہی تھیں۔
’’لوجی ،تم نے ماما کو اچھے کام پر لگا دیا۔اچھا ہے بزی رہیں گی۔۔۔۔‘‘ ثمن نے طنزیہ نگاہوں سے ماہم کو دیکھا جو آج اچھی خاصی پژ مردہ سی دکھائی دے رہی تھی۔
’’ماما ، گدھ تو مردہ جسم کا گوشت کھاتی ہے ناں۔۔۔‘‘ماہم کی سوئی ا بھی بھی اپنے خواب میں ہی اٹکی ہوئی تھی۔
’’تم کن چکروں میں پڑ رہی ہو یار۔ جسٹ کول ڈاؤن، بی ریلکس۔۔۔‘‘ثمن آپی بیزار ہوئیں۔
’’آپ سوچ بھی نہیں سکتیں آپی،صبح ہونے تک مجھے یہی محسوس ہوتا رہا کہ وہ گدھ میرے بیڈ روم میں ہے۔۔۔۔‘‘ ماہم حقیقتاً پریشان تھی۔
’’کم آن ماہم، تمہارے بیڈ روم میں صرف تم ہوتی ہو،اب کیا تمہیں خود پر گدھ کا گمان ہوتا رہا یہ بات البتہ بہت مضحکہ خیز ہے۔۔۔‘‘ ثمن آپی نے پائن ایپل جوس بڑی نزاکت سے پیتے ہوئے ماہم پر طنز کیا جو اُسے خاصا ناگوار گذرا لیکن نہ جانے کیوں وہ چپ رہی۔
’’بیٹا تم ٹینشن نہ لو، اللہ بہتر کرے گا۔ میں تمہارا صدقہ بجھواتی ہوں کہیں۔۔۔۔‘‘ ماما نے ماہم کی اُتری ہوئی شکل دیکھ کر تسلی دی تو ایک دفعہ پھر ایک طنزیہ مسکراہٹ ثمن کے چہر ے پر پھیل گئی۔ جب کہ ماہم ہنوز الجھن کا شکار نظر آ رہی تھی۔
***************
’’ڈاکٹر علی،آجکل کہاں گم ہیں آپ،کوئی لفٹ ہی نہیں کروا رہے۔۔۔۔‘‘خاور کو ماہم کی فون کال اُس وقت ملی جب وہ سکینہ کے آئی سی یو کے بالکل باہر تھے۔ان کی نگاہیں سکینہ کے زرد چہرے پر تھیں جس پر زندگی کے رنگ آہستہ آہستہ مدھم ہوتے جارہے تھے۔
’’کہاں جانا ہے،بس زندگی کے جھمیلے ،سکھ کا سانس لینے کہاں دیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے زبردستی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔’’ویسے آپ کہاں گم ہیں آجکل۔۔؟؟؟‘‘
’’میں آجکل معذور بچوں کی فلاح و بہبو د کے لیے ایک میوزیکل شو کی تیاریوں میں تھی۔۔۔۔‘‘ماہم کی بات نے ڈاکٹر خاور کو حیران کیا۔
’’اٹس امیزنگ،کب ہے فنکشن۔۔۔؟؟؟‘‘ انہوں نے فوراً ہی دریافت کیا۔
’’یکم جنوری کو ،نئے سال کا آغاز کسی نیک کام سے کرنا چاہیے ناں۔۔۔۔‘‘ دوسری جانب ماہم کی اداکاری عروج پر تھی۔
’’دیٹس گڈ، میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے گا۔۔۔۔‘‘انہوں نے فورا ہی اپنی خدمات کی پیشکش کی جسے سن کر ماہم کا چہرہ کسی گلاب کے پھول کی طرح کھل اٹھا۔
’’جی ضرور، آپ کی ہیلپ کے بغیر تو میں ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی۔۔۔۔‘‘ماہم کی بات نے انہیں ٹھٹک کر رکنے پر مجبو رکیا’’وہ کیوں بھئی۔۔۔؟؟؟‘‘وہ خود کو پوچھنے سے نہیں روک پائے۔
’’بھئی سچ بات کہوں ،مجھے ایسے چئیریٹی پروگرامز کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ،اس لیے کہہ رہی ہوں۔۔۔‘‘ ماہم کی صاف گوئی پر وہ مسکرائے۔
’’اپنی دوست عائشہ کی خدمات حاصل کریں ناں۔۔۔‘‘ انہوں نے جان بوجھ کر اُسے چھیڑا۔دوسری جانب عائشہ کا نام سن کر ماہم کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔
’’وہ آجکل اپنے بھائی کی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہے۔۔۔۔‘‘ اُس نے فورا ہی وضاحت کی۔
’’اچھا۔۔۔!!! ویسے ان کی اپنی شادی کب ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ خاور کو اب اُس سے بات کرنے میں لطف آنے لگا۔
’’اُس کی بھی جلد ہی ہو جائے گی۔۔۔۔‘‘ماہم نے گڑبڑا کر جواب دیا۔
’’انگیجمنٹ تو ہو چکی ہے ناں،اُس کی ،آئی تھنک،آپ کے پیشنٹ رامس علی کے ساتھ۔۔۔۔؟؟؟‘‘خاور کی بات پر وہ ایک دفعہ پھر سٹپٹا سی گئی۔
’’جی ۔۔۔جی۔۔۔‘‘ اُس نے مختصرا جواب دیا۔پہلی دفعہ احسا س ہوا کہ بعض دفعہ بہت چھوٹے چھوٹے اور بے ضرر سے جھوٹ بھی گلے پڑ جاتے ہیں اور ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو
جاتا ہے۔۔۔۔
’’آپ کب فارغ ہونگے، آپ سے ملنے کو دل کر رہا ہے۔۔۔۔‘‘ ماہم نے جان بوجھ کر بات پلٹی۔
’’میں فارغ ہی ہوں ،آپ ہوسپٹل آ جائیں۔آج سنڈے کی وجہ سے او۔پی ۔ڈی بند ہے۔اس لیے کوئی خاص مصروفیت نہیں۔‘‘ ڈاکٹر خاور کی دعوت پر ماہم کے دل میں کئی پھول ایک ساتھ ہی کھل اٹھے۔اسی وجہ سے وہ ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد مطلوبہ وارڈ میں تھی۔میرون کلر کے سوٹ میں اُس کی شہابی رنگت دمک رہی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ آج اُس نے اپنی تیاری میں خصوصی محنت کی ہو۔یہی وجہ تھی کہ وہ جہاں جہاں سے بھی گذر رہی تھی ۔لوگ اُسے بے اختیار ٹھٹک کر دیکھنے پر مجبور تھے۔لوگوں کی توصیفی نگاہیں وہ اپنا حق سمجھ کر وصول کرتی تھی ۔اُس کی راج ہنس جیسی گردن ایسے وقت میں تن سی جاتی اور آنکھوں سے فخر انبساط کی لہریں نکلنے لگتیں۔
’’یہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ ماہم نے انہیں آئی سی یو کی طرف جاتے دیکھ کر بڑی نزاکت سے ناک چڑھا کر پوچھا۔
’’میری ایک پیشنٹ ہے سکینہ،ذرا اُس کی ہارٹ بیٹ اور پلس ریٹ چیک کر لوں،پھر آپکو اچھی سی کافی پلاتے ہیں۔‘‘ڈاکٹر خاور کی بات پر ماہم کے چہرے پر مایوسی کے رنگ بہت واضح پھیلے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس موقعے پر اسے ،ان کی فرض شناسی ایک آنکھ نہ بھائی ہو۔
’’علی، آپ کیا سنڈے کو بھی آف نہیں کرتے۔۔۔۔‘‘اُس نے خود کو سنبھالتے ہوئے بڑے متحمل لہجے میں پوچھا۔وہ ماہم کی بات پر مسکرائے۔
’’آپ کو شاید علم نہیں کہ مجھے اپنے پروفیشن سے عشق ہے اور کسی بھی عشق میں کامیابی بغیر خواری کے نہیں ملتی۔۔۔‘‘وہ آئی سی یو کا دروازہ کھولتے ہوئے سنجیدگی سے بولے تھے۔’’ویسے میں سنڈے کو آف بھی لے لیتا ہوں کبھی کبھی،لیکن آجکل سکینہ کی وجہ سے میرا زیادہ وقت یہیں گذر رہا ہے۔۔۔‘‘
’’سکینہ۔۔۔۔‘‘ ماہم نے الجھ کر ان کا چہرہ دیکھا۔وہ سامنے بیڈ پر وینٹی لیٹر کے سہارے سانس لیتی لڑکی کو بہت عقیدت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ماہم کو سخت الجھن کا احساس ہوا۔سکینہ پر ایک نظر ڈال کر ہی اُسے جھر جھری سی آ گئی۔
’’استغفراللہ۔۔۔۔‘‘ماہم کے منہ سے بے ساختہ پھسلا۔ڈاکٹر خاور چونکے۔’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟‘‘
’’اللہ تعالی نے اس لڑکی کو بناتے ہوئے کتنی نا انصافی سے کام لیا ہے۔بیچاری پر دوسری نظر ڈالنے کو بھی دل نہیں کرتا۔۔۔‘‘ ماہم کی نزاکت،ڈاکٹر خاور کے لیے سخت کوفت کا باعث بنی۔
’’کیوں، اس لڑکی میں ایسا کیا ہے جو اس پر دوسری نظر نہیں ڈالی جا سکتی۔۔۔‘‘ان کی آنکھوں سے چھلکتی برہمی ماہم کو مضطرب کر گئی۔
’’میرا مطلب تھا کہ اللہ ،اس بیچاری کو صحت دے دیتا۔۔۔۔‘‘ماہم نے گڑبڑا کر بات سنبھالنے کی کوشش کی لیکن کمان سے نکلا تیر پوری قوت سے اگلے شخص کے دل میں پیوست ہو چکا تھا۔ڈاکٹر خاور نے سکینہ کے بالکل پاس کھڑی اُس جسمانی طور پر انتہائی خوبصورت لڑکی کی بدصورتی کو پہلی دفعہ محسوس کیا۔
’’میری نظر میں یہ دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہے کیونکہ اس کا دل بہت پیارا تھا۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے سکینہ کے ہاتھ کو چھوا۔ماہم نے بہت عجیب نگاہوں سے ڈاکٹر خاور کو دیکھا۔
اُسے پہلی دفعہ ان کی ذہنی حالت کچھ مشکوک لگی۔
’’میرا خیال ہے ماہم ،میں شاید آپ کو ٹائم نہ دے سکوں،مجھے ابھی ابھی یاد آیا ہے کہ مجھے ماما کو لے کر اپنی پھپھو کے ہاں جانا ہے۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے اپنی رسٹ واچ سے ٹائم دیکھتے ہوئے ماہم کو ہری جھنڈی دکھائی۔ان کا موڈ ایک دم ہی خراب ہوا تھا۔ان کی بات پر ماہم کے چہرے پر ایک تاریک سایہ لہرایا۔
’’اٹس ۔او۔کے علی،مجھے بھی ثمن آپی کو پک کرنا ہے،پھر ملاقات ہو گی۔۔۔‘‘ماہم نے خود کو سنبھالتے ہوئے فوراً کہا اور آؤ دیکھا نہ تاؤ،فوراً ہی کمرے سے نکل گئی۔ڈاکٹر خاور آئی سی یو میں رکھی اُس چئیر پر بیٹھ گئے۔انہیں وہاں بیٹھے ہوئے تقریباً آدھا گھنٹہ ہوا تھا جب عائشہ پھولوں کا ایک بکے لیے بڑی تیزی سے اندر داخل ہوئی۔
’’تھینکس گاڈ،آپ یہاں ہیں۔میں سارا وارڈ چھان آئی ہوں۔۔۔‘‘اُس نے اپنی سانسیں بحال کرتے ہوئے ڈاکٹر خاور کے اداس چہرے کی طرف دیکھا۔
’’آپ کو کیا ہوا۔؟چہرے پر بارہ کیوں بجے ہوئے ہیں۔۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس نے بکے، بیڈ کی سائیڈ میز پر رکھتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا تو انہوں نے لمبا سانس لیا۔
’’عائشہ،تمہیں سکینہ کیسی لگتی ہے۔۔۔۔؟؟؟‘‘ ڈاکٹر خاور نے اچانک پوچھا وہ سادگی سے مسکرائی۔
’’کیا مطلب ،کیسی لگتی ہے۔؟؟؟‘‘ وہ روانی میں بولی۔ ’’سکینہ تو بہت پیاری اور معصوم لڑکی ہے۔میں جب جب بھی اس سے ملی ہوں مجھے اس کی معصومیت نے بہت اٹریکٹ کیا ہے۔
اللہ اُسے صحت کاملہ عطا فرمائے۔۔۔‘‘ عائشہ کے لفظوں کی سچائی اُس کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔’’آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔۔۔؟؟؟‘‘
’’ویسے ہی ،آج کسی نے کہا کہ اس کے چہرے پر دوسری نگاہ ڈالنے کو دل نہیں کرتا۔۔۔‘‘وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بتا گئے۔
’’استغفراللہ۔۔۔‘‘عائشہ کے لہجے سے خفگی جھلکی۔’’کتنی فضول اور واہیات قسم کی بات کی ہے جس نے بھی کی ہے۔جہالت کی انتہاء نہیں کہ ہم اللہ کی تخلیق کردہ چیزوں کا تمسخر اڑا رہے ہیں
اللہ ہم پر رحم کرے۔۔۔‘‘ اُس نے صاف گوئی سے تبصرہ کیا۔
’’پتا نہیں کیوں،مجھے بہت بُرا لگا۔۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کی بات پر وہ مسکرائی۔ ’’بُرا لگنا بھی چاہیے،میں اگر آپ کی جگہ ہوتی تو شاید اُس شخص سے لڑ پڑتی۔۔۔‘‘ عائشہ کی بات پر ڈاکٹر خاور کے چہرے پر پھیلنے والی مسکراہٹ بہت بے ساختہ تھی۔
’’پتا ہے علی ،میں آج صبح ،سکینہ کے امی،ابّا کو اپنے گھر لے کر گئی تھی۔۔۔۔‘‘ عائشہ کی اگلی بات نے ڈاکٹر خاور کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا۔انہیں احساس ہوا کہ واقعی آج صبح سے انہوں نے دونوں میاں بیوی کو نہیں دیکھا ۔
’’خیریت تھی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ان کی حیرت پر وہ بڑے مزے سے بولی۔ ’’موحد بھائی کی شادی ہے ناں اگلے ہفتے ، تو ماما سے میں نے کہا کہ ان دونوں کو بھی بلاتے ہیں۔ماما نے کہا شادی پر تو بلا لیں گے تو آج انہیں گھر ویسے ہی لے آؤ۔۔۔‘‘
’’اچھا، وہ چلے گئے آرام سے۔۔۔؟؟؟‘‘ وہ حیران ہوئے۔
’’آرام سے کہاں،بڑی مشکلوں سے ایک گھنٹے کے لیے لے کر گئی تھی۔اب بھی میں اور رامس اُنہیں چھوڑنے آئے تھے۔۔۔‘‘ اُ س کی اگلی بات نے ڈاکٹر خاور کو مزید حیران کیا۔
’’یہ رامس ،کچھ زیادہ ہی تمہارے گھر کے چکر نہیں لگانے لگ پڑا۔۔۔۔‘‘ ان کا موڈ ایک دم ہی خوشگوار ہو ا۔
’’بھئی موحد کی شادی کے انتظامات اُس نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھے ہیں۔۔۔۔‘‘عائشہ ہنسی۔
’’اللہ ہی خیر کرے۔اپنا کمرہ تک تو اُس سے سیٹ نہیں ہوتا۔شادی کا انتظام کیسے سنبھالے گا۔‘‘ڈاکٹر خاور کے لہجے میں اپنے چھوٹے بھائی کے لیے محبت کی فراوانی تھی۔
’’اُس کاکمرہ سیٹ کرنے کے لیے بھی ہم نے ایک لڑکی کی خدمات ہمیشہ کے لیے حاصل کرنے کا سوچ لیا ہے۔‘‘عائشہ کی شوخی ڈاکٹر خاور کو اچھی لگ رہی تھی۔انہوں نے سوالیہ
نگاہوں سے عائشہ کو دیکھا جس کی آنکھوں میں جگنو چمکے۔
’’ہے ایک لڑکی،آپ کو پھر بتاؤں گی۔ابھی جلدی میں ہوں۔۔۔‘‘ وہ شرارت بھرے لہجے میں بولی۔’’ہاں ایک اور بات۔۔۔‘‘وہ پلٹی ،اپنے بیگ سے ایک لنچ بکس نکال کر ان کی جانب بڑھایا۔
’’میں نے پہلی دفعہ فرائیڈ رائس بنائے تھے،سوچا آپ کے لیے بھی لے جاؤں۔۔۔‘‘
’’تھینک یو۔۔۔۔‘‘ وہ مسکرائے۔۔۔۔
’’ہاں ،وہ نمک تھوڑا سا تیز ہو گیا ہے،آپ رائتہ ساتھ لے لیجئے گا۔پھر گذارا ہو جائے گا۔۔۔۔‘‘ وہ اپنا کان کھجاتے ہوئے تھوڑا سا جھینپ کر بولی۔
’’اٹس اوکے،میرا معدہ لکڑ ہضم ہے،آپ کو مستقبل میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔‘‘ڈاکٹر خاور کی شرارت پراُس کے رخسار تپ گئے۔وہ ہڑبڑا کر جو کمرے سے نکلی تو سامنے بند روازے سے ٹکرا گئی۔
’’دھیان سے،کیا ہو گیا ہے،کیوں سرکاری دروازے توڑ رہی ہیں۔۔۔‘‘ٖڈاکٹر خاور کی شوخی پر اُس نے مصنوعی ناراضگی سے گھور کر دیکھا اور تیزی سے نکل گئی۔جب کہ وہ اس کی بوکھلاہٹ پر کافی دیر تک مسکراتے رہے۔
****************
’’آج پورے بیس دن ہو گئے ہیں سکینہ کے ابّا۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کے لہجے میں اداسی گویا رچ بس گئی تھی۔
’’نہیں ،بیس دن ، سات گھنٹے اور پچیس منٹ۔۔۔۔‘‘اللہ دتّا کمہار نے فوراً ہی تصحیح کی۔جمیلہ مائی نے نم آنکھوں سے اپنے مجازی خدا کو دیکھا۔ سبز رنگ کے بڑے بڑے خانوں والی تہبند پر سفید رنگ کا کرتا پہناہوا تھااور خاکی رنگ کی گرم چادر اچھی طرح لپیٹ رکھی تھی۔دسمبر کی یخ بستگی نے پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔موسم خزاں اس دفعہ اپنے اندر وحشتیں بھی سمیٹے ہوئے تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے درخت ٹنڈ منڈ سے ہوگئے ۔زرد پتے سڑکوں پر آوارہ گھومتے ہوئے لوگوں کے قدموں تلے آ کر کچلے جاتے۔
’’سکینہ کی کتنی خواہش تھی کہ وہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر گرتی ہوئی برف دیکھے۔۔۔۔‘‘جمیلہ مائی اس وقت ہسپتال کے لان میں رکھے بینچ پر بیٹھی اچانک ہی بولی۔
’’موسم کی پہلی برفباری تو شمالی علاقہ جات میں ہوبھی چکی ہے۔۔۔۔‘‘اللہ دتے نے اُس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
’’پگلی کہتی تھی،امّاں میری قسمت میں کیا حبس کے گرم موسم ہی ہیں۔اُسے پتا ہی نہیں موسم بدل چکا ہے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے لمبی آہ بھری۔موسم سرما کی ٹھنڈی ہوا ،سکھ چین اور املتاس کے درختوں کو چھو کر ان کے جسم سے ٹکراتی تو ایک جھرجھری کا احساس پیدا ہوتا۔
’’موسم تو لمحے میں بدل جاتے ہیں چاہے وہ انسان کے اندر کے ہوں یا باہر کے۔۔۔۔‘‘ اللہ دتے نے زرد پتوں کو دیکھتے ہوئے رنج بھرے لہجے میں کہا۔
’’اُس سے زیادہ تیزی سے تو تایا ،لوگ بد ل جاتے ہیں۔۔۔‘‘ جاجی بھی خاموشی سے ان دونوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔دونوں نے چونک کر اُسے دیکھا۔
’’جاجی پتّر ،تو گھر کیوں نہیں چلا جاتا،تیری بے بے بہت پریشان ہے۔۔۔‘‘ اللہ دتے نے بہت محتاط انداز سے کہا تو وہ پھیکے سے انداز کے ساتھ مسکرا دیا۔
’’میری بے بے کے پاس تو ،میرے علاوہ اُس کے چار پتّر اور ہیں،لیکن تایاتم لوگوں کے پاس تو کوئی نہیں۔۔۔‘‘جاجی نے فورا ہی نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’پتّر،ہمارے پاس رب سوہنے کی ذات ہے اور جس کے پاس اُس کی ذات کا سہارا ہو ،وہ اکیلا تھوڑی ہوتا ہے۔‘‘اللہ دتے نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’کچھ بھی کہہ لے تایا،لیکن میں تم لوگوں کو چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گا،نہ آج ،نہ کل۔۔۔‘‘جاجی کے لہجے میں چھلکتا عزم جمیلہ مائی کو خوفزدہ کر گیا۔وہ جانتی تھی کہ جاجی کی بے بے زبان کی کتنی کڑوی ہے۔اب تک تو اُس نے پورے پنڈ میں دہائی ڈال رکھی ہوگی۔
’’دیکھ پتّر،یہاں پتا نہیں کتنے دن لگے، ڈاکٹر کہتے ہیں ،کومے کے مریض چاہے تو دس دنوں میں ہوش میں آ جائیں اور نہ آئیں تو دس دس سال تک نہیں آتے۔۔۔‘‘ اللہ دتا فکرمندی سے بولا تھا ۔اُسے کل ہی تو اُس کی بے بے نے فون کر کے سختی سے اعجاز کو واپس بھجوانے کا کہا تھا۔
’’تایا، مجھے کہیں نہیں جانا،میں ابّے سے خود بات کر لوں گا۔بس تو مجھے دوبارہ نہ کہنا۔۔۔۔‘‘اعجاز کے لہجے میں ہلکی سی ناراضگی در آئی۔
’’اچھا،چل ٹھیک ہے،نہ جا، پر اپنے کمرے میں رکھا باجرے کا لفافہ تو اٹھا کر لے آ،میں ذرا سکینہ کی چڑیوں کو ڈال دوں۔‘‘ جمیلہ مائی نے اُسے بہانے سے اندر بھیجا اور پھر اپنے شوہر کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’ایک تو بیچارا ہمارے خیال سے یہاں رکا ہوا ہے،اوپر سے تو اُسے زبردستی واپس بجھوا رہا ہے۔کیا سوچتا ہو گا بیچارا۔۔۔؟؟؟‘‘
’’بھلیے لوکے، اُسی کا خیال کر رہا ہوں خوامخواہ ہمارے ساتھ خجل خوار ہو رہا ہے اتنی ٹھنڈ میں۔۔۔‘‘ اللہ دتے نے دانستہ ہلکا پھلکا انداز اپنایا۔
’’ضرور،اس کی بے بے نے فون کر کے کوئی نہ کوئی ساڑا نکالا ہو گا۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کی کھوجتی نگاہوں پر اللہ دتا مسکرایا۔جمیلہ مائی کو کسی اور تصدیق کی ضرورت نہیں تھی۔’’دیکھا،میرا اندازہ درست نکلا ناں،کیا کہہ رہی تھی جاجی کی بے بے۔۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’کیا کہنا ہے اُس بیچاری نے،اپنے پتّر کے لیے پریشان ہو رہی تھی۔۔۔۔‘‘ اللہ دتے نے بات کو ٹالنے کی غرض سے کہا لیکن آگے بھی جمیلہ مائی تھی جو اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ جاجی کی بے بے کی فطرت سے بخوبی واقف تھی۔
’’کچھ نہ کچھ تو کہا ہوگا ،اُس نے اور بھی۔۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کی کھوجتی نگاہیں ہنوز اپنے میاں پر جمی ہوئی تھیں۔
’’ایک گل تو بتا سکینہ کی ماں،جب تجھے پتا ہے ،جاجی کی ماں نے کیا کہا ہوگا،پھر دوبارہ دوبارہ پوچھ کر اپنا دل جلانے کا فائدہ۔۔۔‘‘ اللہ دتے کی صاف گوئی پر ایک رنج کی لہر جمیلہ مائی کے چہرے پر چھلکی۔
’’چل اٹھ، عصر کا ویلا ہو رہا ہے،اُس کے بعد پھر اپنی دھی رانی کو ملنے جائیں گے،ہمیں اڈیک رہی ہوگی۔۔۔‘‘ اللہ دتے نے ہلکے پھلکے انداز میں جمیلہ مائی کو اٹھایا جو آسمان پر پھیلی سرخی کو خوفزدہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
’’سکینہ کے ابّا، دیکھ ، آسمان کتنا سر خ ہو رہا ہے۔۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کی نظروں کے تعاقب میں اُس نے بھی دیکھا اور وہیں جم کر کھڑا رہ گیا۔ پورے آسمان پر لگتا تھا جیسے ایک حشر برپا ہو۔ایسا ہی ایک حشر ان کی زندگیوں میں بھی برپا ہو چکا تھا اور وہ ابھی تک اُس سے بے خبر تھے۔
’’تایا۔۔۔۔سکینہ۔۔۔۔۔۔‘‘کوریڈور کے اختتام پر جاجی کے منہ سے نکلنے والی چیخ نے جمیلہ مائی اور اللہ دتاّ کو ایک لمحے میں کسی انہونی کا احساس بخشا ۔وہ دونوں کوریڈور کے آغاز میں ہکا بکا کھڑے سامنے کا منظر دیکھ رہے تھے۔جاجی، ڈاکٹر خاور کے ساتھ لپٹا ہوا دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا جب کہ وہ اپنے نچلے ہونٹ کو کچلتے ہوئے خود بھی ضبط کی انتہا ء پر تھے۔ ان کا چہرہ ضبط کی کوشش میں سر خ ہو رہا تھا۔ جمیلہ مائی نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنے دل سے نکلنے والی سسکی کو بمشکل دباتے ہوئے خوفزدہ نگاہوں سے اپنے شوہر کا چہرہ دیکھا۔جو اس وقت کسی چٹان کی طرح مضبوط اور سپاٹ نظر آ رہا تھا۔دونوں کے قدموں سے چلنے کی سکت چھننے لگی۔جمیلہ مائی نے بے ساختہ دیوار کا سہارا لیا۔
’’اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔۔۔۔‘‘اللہ دتا کمہار نے اپنی بیوی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قدرے سختی سے کہا۔جمیلہ مائی کے دل سے نکلنے والی آہیں اندر ہی کہیں دفن ہو گئیں۔ اُسے اپنے پیروں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی اُس نے غیر دانستہ طور پر اپنے شوہر کا بازو مضبوطی سے پکڑ لیا،جو اُسے پکڑے ہوئے کوریڈور کے اختتام پر پہنچ گئے تھے۔ایک ایک قدم کسی بلڈوزر کی طرح بھاری محسوس ہو رہا تھا۔
’’آئی ایم سوری ،چاچا جی۔۔۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور ، اللہ دتا کمہار کے گلے سے لگ کر صرف اتنا ہی کہہ سکے۔ ایک تیز رفتار ٹرین دونوں میاں بیوی کے پرخچے اڑاتی ہوئی گذر گئی۔
’’انّا لللّہ وانا علیہ راجعون۔۔۔۔‘‘ اللہ دتا کمہار کے لبوں سے نکلا اور اُس نے ایک لمبی سانس فضا میں خارج کی۔مارگلہ کی پہاڑیوں پر بادل ایک دم ہی چمکے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف جل تھل ہو گیا۔
’’میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ آپ میری بات مان لیں گے آپ نے مجھے ہمیشہ کے لیے اپنا مقروض کر دیا ہے۔۔۔۔‘‘ سکینہ کی وفات کو تیسرا دن تھا جب ڈاکٹر خاور پرائیوٹ وارڈ کے اُس کمرے میں دونوں میاں بیوی کے سامنے بیٹھے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔انہوں نے سکینہ کو ایچ ایٹ اسلام آباد کے اسی قبرستان میں دفن کیا تھا جہاں پہلی دفعہ سکینہ کو موت کا احساس بہت خوبصورت لگا تھا۔ جاجی اس بات کے لیے قطعا بھی تیار نہیں تھا۔اللہ دتا کمہار کے باقی خاندان کے لوگوں نے بھی بہت شور مچایا،لیکن جمیلہ مائی اور اللہ دتا کمہار ،ڈاکٹر خاور کی بات کو ٹال نہیں سکے۔
’’مجھے ایک دفعہ سکینہ نے کہا تھا کہ وہ اس شہر سے کبھی بھی نہیں جانا چاہتی۔یقین مانیں ،میں نے صرف اس وجہ سے آپ سے کہا،ورنہ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ آپکو اس وجہ سے کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘وہ سر جھکائے بہت خفت زدہ انداز سے بولے۔کمرے میں گھٹن کا احساس اچانک ہی بڑھ گیا۔انہوں نے اٹھ کر کھڑکی کھولی۔ہر سوخزاں کا حزن و ملال
بکھرا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔سفیدے اور شیشم کے درختوں پر اداسی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔کولتار کی سیاہ اوس میں بھیگی سڑک پر زرد پتوں کی چادر بچھی ہوئی تھی۔
’’ڈاکٹر صاحب ، آپ ایسی باتیں نہ کریں،ہمیں شرمندگی ہوتی ہے۔۔۔۔‘‘اللہ دتا کمہار کے چہرے پر ایک بے بس کر دینے والی مسکرا ہٹ ٹھہر گئی۔
’’مجھے معلوم ہے جاجی ،میری اس بات پر بہت خفا ہے،لیکن مجھے امید ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی میری بات کو ضرور سمجھ جائے گا۔‘‘ڈاکٹر خاور کے لہجے میں محسوس کیے جانے والا رنج صاف چھلک رہا تھا۔سکینہ کو یہاں دفن کرنے کے فیصلے پر جاجی نے بہت احتجاج کیا،سب کی منتیں کیں اور جب کوئی نہیں مانا تو وہ خفا ہو کر چلا گیا۔
’’وہ تو کملا ہے بیٹا،مان جائے گا۔وقتی غصّہ ہے ،خود بخود ختم ہو جائے گا۔ہمیں چھوڑ کر کہاں جائے گا۔۔۔‘‘اللہ دتا کمہار کی آنکھوں میں نمی لہرائی۔سرد ہوا کے جھونکے کمرے میں داخل ہو گئے تھے۔خفیف سی کپکی کا احساس پیدا ہوا تو ڈاکٹر خاور نے کھڑکی بند کر دی۔
’’امّاں جی ،آپ بھی کچھ بولیں ناں۔۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے جمیلہ مائی کو دیکھا جو پچھلے تین دن سے بالکل خاموش تھی۔سکینہ کی میّت کو ڈاکٹر خاور کے گھر لے جایا گیا،وہیں سے ان کے سیکٹر کی جامع مسجد میں جنازہ ہوا۔اس تمام عرصے میں جمیلہ مائی کے لبوں پر ایک سکوت طاری تھا۔عائشہ پورے دو دن ان کے ساتھ رہی اور انہیں بار بار بولنے پر مجبور کرتی رہی لیکن وہ ہوں ،ہاں سے زیادہ کسی بات کا جواب نہیں دے رہی تھیں۔
’’ایک بات کہوں ڈاکٹر صیب۔۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کی آنکھوں میں نمی گھلنے لگی۔ڈاکٹر خاور نے نگاہ اٹھا کر انہیں دیکھا۔آنسو روانی سے جمیلہ مائی کی گالوں پر لڑھکنے لگے۔
’’میں سال چھ مہینے بعد کبھی اس ہسپتال میں آؤں تو کیا مجھے وڈے ڈاکٹر اس کمرے میں کچھ ٹیم گذارنے دیں گے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کے لہجے میں اس قدر التجا تھی کہ ڈاکٹر خاور کو لگا جیسے کسی نے ان کا دل آرے سے کاٹ کر رکھ دیا ہو۔
.’’میری دھی کو اس کمرے سے بہت پیار تھا۔اس کھڑکی میں بیٹھ کر وہ اپنی سہیلی چڑیوں کو دانہ ڈالتی تھی۔ہاتھ باہر نکال کر بارش کی کن من کو محسوس کرتی تھی۔اس چھت کے نیچے اُس نے مجھ سے دنیا جہاں کی باتیں کیں، اس کمرے کی ایک ایک اینٹ سے مجھے سکینہ کی خوشبو آتی ہے۔۔۔‘‘آنسوؤں کی وجہ سے وہ اپنا جملہ مکمل نہیں کر سکیں۔اللہ دتا کمہار ایک دم ہی اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔
’’دیکھیں امّاں جی، جب تک میں اس ہسپتال میں ہوں ،میرا آپ سے وعدہ ہے،لیکن اس کے بعد کیا ہو،میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔‘‘ڈاکٹر خاور نے صاف گوئی سے جواب دیا تو وہ اثبات میں سرہلا گئیں۔
’’پتّر ایک اور بات کہوں ،تجھ سے،غصّہ تو نہیں کرے گا۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کو آج نہ جانے کیا ہوگیا تھا۔تین دن کے بعد اُس نے چپ شاہ کا روزہ توڑا تھا ۔ڈاکٹر خاور نے اثبات میں سر ہلایا
’’میری دھی ،دل کی بہت سادہ تھی اور سادہ لوگ اپنی سادگی میں وڈی وڈی چیزوں کی آرزو ،کرنے لگتے ہیں۔پتر تو ،اُس کی کسی بات کو دل پر نہ لینا،تو سمجھ رہا ہے ناں ،میں کیا کہہ رہی ہوں۔‘‘جمیلہ مائی نے ڈھکے چھپے الفاظ میں جو کچھ انہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی وہ ایک لمحے میں سمجھ گئے ۔
’’امّاں جی،کیسی دل کو دکھانے والی باتیں کرتی ہیں،جو ہوا بس ہوا۔آپ بس سکینہ کے لیے دعا کریں۔‘‘ڈاکٹر خاور نے ان کے بازو پر ہاتھ رکھ کر خلوص دل سے کہا تو وہ پھیکے سے انداز میں مسکرا کر انہیں مزید حیران کر گئیں۔
’’اب کیا دعا کروں پتر، اللہ سوہنے کے پاس ہے،یہاں سے بہت اچھی جگہ پر چلی گئی ہے میری دھی،اللہ نے اُسے مزید آزمائش سے بچا لیا۔مجھے یقین ہے میری دھی رانی بہت خوش ہوگی وہاں۔۔۔۔‘‘
’’ہاں ،یہ آپ نے بہت اچھی بات کی ہے۔۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور مسکرائے۔ ’’امّاں جی،آپ سے ایک چیز مانگوں ،اگر آپ انکار نہ کریں تو۔۔۔‘‘
’’میرے پاس تو پتر ایسی کوئی چیز ہی نہیں۔۔۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اپنی گرم چادر سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے انہیں حیرت سے دیکھا۔
’’سکینہ کی یہ لوہے کی ڈرمی،آپ مجھے دے دیں۔۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور کی فرمائش پر جمیلہ مائی ہکا بکا رہ گئی۔اُس نے سخت تعجب سے اُس پرانی سی لوہے کی بد رنگی ڈرمی کو دیکھا جس میں سکینہ اپنی چیزیں چھپا چھپا کر رکھتی تھی۔
’’میں اسے بہت سنبھال کر رکھوں گا۔۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کے لہجے میں چھپا اصرار اور آنکھوں سے چھلکتاجذبہ جمیلہ مائی کو گنگ کر گیا ۔اُسے لگا جیسے اُس کی قوت گویائی سلب ہو کر رہ گئی ہو۔
وہ بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے سامنے بیٹھے اُس اسپائنل سرجن کو دیکھی جا رہیں تھیں جو بڑی مہارت سے ان سے آنکھیں چراتے ہوئے بھی خود کو آشکارکر گیا تھا۔
***************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...