(Last Updated On: )
رات بھر گہرے لہو میں موت کی آواز سنتا
سنسناتی آندھیوں کے راز سنتا
شہِ رگ احساس کے نیلے سُریلے ساز سنتا
میں بہت مدہوش تھا
اپنی گھٹتی روشنی میں
چاندنی کی چاند چادر میں
ہری شاخیں پھنسی تھیں … کس طرح کیا ہو گیا تھا؟
کون تھا جس نے لیے تھے، وار وہ بھی پے بہ پے
تیز ہوتی جا رہی تھی ضرب کی لے
کیا ہماری ذات کی مٹی میں ہستی نقشِ پا کی طرح
بالکل بجھ گئی تھی؟
سوچتا ہوں: سوچتا کیوں ہوں؟
سلاسل دور تک پھیلے ہوئے ہیں اور جو وسعت بچی ہے
اس میں سائے ہیں سلاسل کے بچھے
جائے ماندن ہے نہ اب تو پائے رفتن؟
اس لیے ویراں حویلی کی اُسی اُجڑی ہوئی بیٹھک میں
(جس میں اک صدی پہلے چمکتی رونقیں تھیں)، آج
اک ٹوٹی ہوئی قندیل تھامے۔ اک پرانی بنچ پر بیٹھا ہوا
رات بھر گہرے لہو میں موت کی آواز سنتا
کون تھا…؟
میں تو نہ تھا …!!
٭٭٭