(Last Updated On: )
ذات آشوب/ اول
’خموشیوں میں،
نطق کے فساد کی خبر ملی
طویل گفتگو میں نا مرادیاں لہو کی ہیں
یہاں ہر ایک شخص، ایک درد کا مریض ہے
کوئی چراغ سے نگاہ کی ضیا جلا چکا
کوئی چراغ سے بدن کی روشنی بجھا چکا
کوئی ہوائے دشت میں جنوں کا مرحلہ لیے
کوئی نسیم صبح سے نفس نفس ہوا لیے
مگر
زوالِ ذات کا پڑاؤ ہر زمین پر
زوالِ ذات بیشتر
زوالِ ذات عام رہ گزر
مجھے
ہر ایک آدمی ٹوٹتا، بکھرتا اپنے حُلیے سے ہی چیختا ہوا ملا
ہر ایک چشم نیند سے خموش ہے
ہر ایک سر، وبالِ دوش ہے
عجیب بات ہے۔ نجات کوش یاں کوئی نہیں
اس سے بڑھ کے وجہِ رنج و امتحاں کوئی نہیں
٭٭٭