سرور عالم راز سرورؔ(امریکہ)
آج منشی خوشیؔ محمد کے چچا حاجی تفضلؔ حسین مرحوم کا چالیسواں تھا۔ حاجی صاحب مرحوم نے تقریباـ’’ اسی سال کی عمر پائی تھی۔ متقی ، پرہیزگار ، صوم و صلوۃ کے پابند بڑے پیارے بزرگ تھے۔ ان کی نیکی اور خدا ترسی کا چرچا دور دور تک تھا اور لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ کیا چھوٹے کیا بڑے ہر ایک کا ’’دادا میاں، دادامیاں!‘‘کہتے ہوئے منھ سوکھتا تھا۔ اس عمر میں وہ اوروں کے لئے کچھ کر تو نہیں سکتے تھے لیکن سب سے ہنس کر ملتے اور منھ بھر بھر کر دعائیں دیتے تھے۔ اُن کے جنازے پر شہر کا شہر ٹوٹ پڑا تھا اور جریب کی چوکی سے لے کر روٹی والی گلی تک سے سوگوار لوگ شرکت کے لئے آئے تھے۔ لوگوں کا کہناتھا کہ اس سے پہلے ایسا شاندار جنازہ کسی اور کا نہیں اٹھا تھا۔
حاجی صاحب مرحوم کی اپنی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اور تینوں بیٹیا ں اپنے اپنے گھروں کی تھیں۔ وہ منشی جی کوبیٹے کی طرح عزیز رکھتے تھے اور منشی جی بھی چچا جان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ مدت ہوئی ضد کر کے حاجی صاحب اور چچی کو اپنے ساتھ رہنے کے لئے لے آئے تھے کہ بڑھاپے میں تنہاچھوڑنا ان کو منظور نہیں تھا۔ مختارؔ بیڑی جو منشی جی سے اللہ واسطے کا بیر رکھتا تھا ان کی اس سعادتمندی پر گالیوں کے درمیان اپنے اطمینان کا اظہار کر دیا کرتا تھا : ’’منشی جی نے ساری عمر چار سو بیسی کی مگر ایک یہی کام سالا انہوں نے اچھا کیا۔‘‘
حاجی تفضل ؔحسین مرحوم منشی جی کی کچہری کی ملازمت سے کچھ خوش نہیں تھے۔ عموما’’ کچھ بھتیجہ کی محبت میں اورکچھ مصلحت کے پیش نظر خاموش دل ہی دل میں کڑھتے رہتے تھے مگر کبھی کبھی دبی زبان سے ٹوک بھی دیتے: ’’بیٹا کیوں ایسی بدذات نوکری جان کو لگا رکھی ہے ؟ نہ اللہ خوش اور نہ ہی دنیا والے۔ چھوڑدو اس کو۔ اللہ بڑا راز ق ہے، کہیں بہتر نوکری دلوا دے گا۔ اور کچھ نہیں تو کوئی چھوٹی موٹی دوکان ہی کر لینا۔ کمائی تو حلال کی ہو جائے گی۔‘‘
منشی جی سر جھکائے، آنکھیں چرائے ’’ہوں ، ہاں‘‘ کر کے ادھر اُدھر کھسک جاتے۔ وہ بھی آخر کیا کرتے۔ ایک تو اچھی تنخواہ کی نوکریاں کوئی بازار میں تھوڑی بک رہی تھیں کہ گئے اور خرید لائے۔ کیسے کیسے بی اے، ایم اے خالی خولی مارے مارے پھر رہے تھے۔ بس کنڈکٹری تک کے لئے بھی بڑی سفارش اور بھر پیٹ رشوت چاہئے تھی۔ پھرکچہری کی نوکری ایسی کیا بری تھی؟ اللہ نے یہ ملازمت دلوائی تھی تو اس کو چھوڑ کر کفران نعمت کے گنہگارکیوں ہوتے۔ اب دیکھئے کہ وہ ہر صبح ’’توکلت علی اللہ‘‘ کہہ کر گھر سے نکلتے تھے اور شام کو اللہ کے فضل وکرم سے جیب بھر لاتے تھے۔ آخر ان کو آٹھ افراد کا گھر بھی تو چلانا تھا۔ برادری میں اپنی ساکھ قائم رکھنی تھی ۔ بیٹیوں کی شادیاں کرنے کو پڑی تھیں۔ ٹھیک ہے، تھوڑی سی ہیرا پھیری کرنی ہوتی تھی، سو وہ کون سی نوکری یا کس دوکانداری میں نہیں کرنی پڑتی تھی؟ جس اللہ نے کچہری کی نوکری دلوائی تھی وہی معاف بھی کر دے گا۔ انشا اللہ!
ویسے منشی جی کے دل میں حاجی صاحب مرحوم کی باتوں سے ایک چور سا بیٹھ گیا تھا۔ شاید اُسی نے اُن کو چالیسویں کی فاتحہ کا زبردست انتظام کرنے پر مجبور کیا تھا۔ ہفتہ بھر پہلے سے ان کا بیٹا ولی محمدؔ دور دور تک دعوت نامہ لے کرگیا تھا:’’اگلی سنیچر کو ہمارے گھر دادا جان کی چالیسویں کی فاتحہ ہے۔عصر کی نماز کے بعد قرآن خوانی ہے ، پھر فاتحہ ہو گی۔ مغرب کی نماز چوراہہ کی مسجد میں ہے اور پھر کھانا۔ اباجی نے بہت بہت کہا ہے کہ ضرور آویں۔‘‘
ولیؔ محمد جب خلیلؔ خاں کی بزازے کی دوکان پر دعوت دینے آیا تھا تو میں اور مختارؔ بیڑی وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ ولیؔ محمد کی رٹی رٹائی تقریر مختارؔ اپنی چندھی آنکھوں کومچ مچ کر کے سنتا رہا۔ وہ عام طور سے ایسے موقعوں پر خاموش نہیں رہتا تھا مگر شاید اس مرتبہ حاجی صاحب مرحوم کا لحاظ کر کے بڑے جبر سے بیٹھا رہا۔ اُدھر ولیؔ محمد گیا اور اِدھر مختارؔ بیڑی نے مُڑ کر خلیلؔ خاں کے منھ پر چاند مارکہ بیڑی کا دُھواں پھونکتے ہوئے پوچھا: ’’کیوں برخوردار! جاؤگے سالے چالیسویں کا مال کھانے؟‘‘
خلیلؔ خاں نے اس بدتمیزی پر تیوری چڑھا کر جواب دیا: ’’ہاں ہاں! جائیں گے کیوں نہیں؟ اللہ کے کام سے جی چرائیں گے کیا ؟ اور یہ تم ہر وقت بے لگام کیوں رہتے ہو، کوئی بات بغیر گالی دئے نہیں کہہ سکتے کیا؟‘‘
مختارؔبیڑی بے اختیار اپنی مخصوص ہنسی سے بے حال ہو گیا۔’’کھی کھی کھی! ہاں ہاں کرتے کیوں نہیں ہیں ، مگر صرف تمہاری بھابھی سے! تم جیسے گھامڑوں سے نہیں!‘‘
اس نے خلیلؔ خاں کو آنکھ ماری : ’’ مگر تو چالیسویں میں جا کر کرے گا کیا سالے؟ یہ کیا ان کم بختوں نے بیسواں چالیسواں لگا رکھا ہے۔ سب سالی ہندوؤں کی رسمیں پال رکھی ہیں ۔ بیٹھ کر قورمہ اور بریانی پر ہاتھ صاف کریں گے اور پھر سالن میں نمک ٹھیک نہ ہونے کی شکایت کریں گے۔ حاجی صاحب بیچارے تو سدھار گئے، اب یہ سب سالے مفت خورے تو انہیں یاد بھی نہیں کریں گے کبھی۔‘‘
تقریر سے فارغ ہو کر اس نے میری جانب دیکھا جیسے میری تائید چاہ رہا ہو۔ میں نے جھٹ سڑک پر سے گذرتی ہوئی اینٹوں سے لدی گاڑی پر یوں نگاہیں گاڑدیں جیسے گاڑ ی دیکھنے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ میں مختارؔبیڑی سے خوب واقف تھا۔ کون اس کانٹے دار جھاڑی سے الجھ کر اپنا دامن تار تار کراتا!
خلیلؔ خاں نے معاملہ رفع دفع کرنے کے لئے مختارؔ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا : ’’تم تیار رہنا۔ میں اُدھر ہی آ جاؤں گا پھر اِس خبیث اور کاظمؔ کو لیتے ہوئے منشی جی کی طرف چلیں گے۔ میں تو عصر گھر سے ہی پڑھ کر نکلوں گا۔‘‘
یہ آخری جملہ بالکل غیر ضروری تھا اور اس کا مقصد ہم بے دین لوگوں کو جتاناتھا کہ ’’تمہارے ساتھ میری دنیا تو مجبورا’’ خراب ہورہی ہے مگر عاقبت پرتومجھے اختیار ہے!‘‘ مختارؔ بیڑی پر ایسے اوچھے حملے کا پہلے کب اثر ہوا تھا جوآج ہوتا۔ بیڑی نالی میں پھینک کر دوکان کے تختہ سے اٹھتا ہوا بولا: ’’ ابے ، جب اپنی نماز پڑھے تو ہمارے لئے بھی پڑھ لینا ! ثواب ملے گا۔ آخر لوگ دوسروں کی طرف سے حج وج بھی تو کرتے ہیں، پھر نماز میں سالا ایسا کیا سُرخاب کا پر لگا ہو اہے؟ اور ہاں بیٹا! چالیسویں والے دن ہمیشہ کی طرح فاقہ کرنا نہ بھولنا ورنہ وہاں پیٹ بھر نہیں کھا پائے گا۔ اچھا سلامالیکم!‘‘
خلیلؔخاں جھلا کر کوئی سخت جواب دینے ہی والا تھا کہ مختار ؔبیڑی پلٹ کر چل دیا اور میں بھی کھسیانی مسکراہٹ میں دانت نکوس کر اس کے پیچھے روانہ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منشی خوشی محمدؔ نے حاجی صاحب کی فاتحہ کا واقعی بڑا زبردست انتظام کر رکھا تھا۔ ساری گلی بجلی کے قمقموں سے جگمگا رہی تھی۔ دو طرف قناتیں لگا کردریاں بچھا دی گئی تھیں فرشی انتظام تھا۔ بیچ میں لمبا زرد رنگ کا نقشین دسترخوان بچھا ہوا تھا جس پر شکرپاروں کے بے ڈول ڈزائن کے درمیان نہایت بھونڈے سیاہ حرفوں میں جگہ جگہ یہ شعر لکھا ہوا تھا:
شکر بجا آر کہ مہمان تو۔۔روزئی خود می خورد از خوان تو
دسترخوان کے دونوں طرف پھسکڑا مارے لوگوں کی قطار بقول مختاؔربیڑی ’’لمبے لمبے ہاتھ مار رہی تھی‘‘۔ قورمہ ، زردہ، بریانی اور نان! آ ج جی بھر کر کھالو میاں! کل سے پھر وہی گھر کا پھیکا سیٹھا کھانا ملے گا! ایک کونہ میں رحمانیؔ یتیم خانہ سے بلوائے ہوئے پندرہ بیس بچے خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے۔ معمولی پرانے کپڑے پہنے، بڑھے ہوئے بال، بھوکی ویران آنکھیں اور تیزی سے چلتے ہوئے ہاتھ، جسیے ڈر ہو کہ کوئی آ کر سامنے سے کھانا اٹھا کر نہ لے جائے۔ اُن کے ساتھ دسترخوان پر ایک بزرگ بھی بیٹھے کھا رہے تھے۔ نکلتا ہوا قد، کھلی رنگت، سفید براق سی داڑھی، چہرہ کی رونق نورانی آنکھوں میں لگے سُرمے سے اور بڑھ گئی تھی۔ سر پر دوپلی ٹوپی، بدن پر ڈھیلا ڈھالا لمبا گیروا کرتا اور بڑے گھیر کا پاجامہ، کاندھے پر سرخ چار خانہ دار رومال اور ہاتھ میں کالے منکوں کی بڑی سی تسبیح جو اس وقت بحالت مجبوری اپنے گھٹنے کے پاس دری پر رکھی ہوئی تھی۔ شاید رحمانیؔ یتیم خانے کے نگراں تھے۔ ہم انہیں دوسری جگہوں پر بھی یتیموں کے ساتھ دیکھ چکے تھے۔ نہایت بے ضرر سے انسان تھے۔ جہاں بھی موت یا زندگی کے کسی موقع پر یتیم خانے سے بچے بلوائے جاتے تھے یہ بزرگ بھی ساتھ ہوتے تھے۔ خاموشی سے آتے، جتنی دیر بیٹھتے تسبیح پھیرتے رہتے تھے اور کھاناختم ہونے پر خاموشی سے یتیموں کی ٹولی کے ساتھ ہی واپس چلے جاتے تھے۔ لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔
محفل کی ہما ہمی میں باورچی گھر سے مہمانوں کو کھانا پہنچانے والوں کو بھلا کہاں فرصت تھی کہ یتیم بچوں کی جانب توجہ کرتے۔ وہ ویسے ہی کیا کم مصروف تھے۔ چاروں طرف سے برابر آوازیں آ رہی تھیں:
’’بھئی ! ذرا گرم چاول کا طباق ادھر بڑھادیں ۔ یہ چاول تو بالکل ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔‘‘
’’میاں! کیا سالن ہی سالن لارہے ہو! بوٹیاں تو جیسے ہیں ہی نہیں۔‘‘
’’مرزاجی! ذرا رائتے کا ڈونگا ادھر کھسکا دیں۔ اور ہاں نان بھی!‘‘
’’ واہ واہ صاحب، واہ واہ! کھانا کس قدر اچھا ہے۔ حاجی صاحب کی روح کیسی خوش ہورہی ہوگی۔‘‘
یہ تو معلوم نہیں کہ حاجی صاحب مرحوم کی روح کتنی خوش تھی۔ البتہ یتیم بچے ضرور سہمی سہمی نظروں سے پلیٹوں کودیکھ رہے تھے۔ مختارؔبیڑی کو ان کی بیکسی پر تاؤ آ گیا تھا ۔ اپنا کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا ، کسی سے تو اس نے کچھ نہیں کہا، بس باورچی خانے سے کھانے کی کھیپ جلدی جلدی لا کر یتیموں میں تقسیم کرنے لگا ۔ خلیلؔ خاں اس کی اس احمقانہ حرکت پر سر ہلا کر قورمہ کی طرف پھر متوجہ ہو گئے تھے، جیسے کہہ رہے ہوں کہ : ’’ اس پاگل کا کیا ہے۔ ایسی حرکتیں تو یہ روز ہی کرتا رہتا ہے! لا حول ولا قوۃ!‘‘
کھانا کھا کر یتیم بچے جانے کے لئے کھڑے ہوئے تو مختارؔ نے جیب سے کچھ نوٹ نکال لئے جو شاید کل ہی شام ہم سے تاش میں جیتے تھے۔ وہ بچوں کے پاس گیا اور ہر بچہ کے ہاتھ میں پانچ پانچ روپے رکھنے لگا۔ بچے اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ان کی زندگی میں شاید یہ پہلا موقع تھا جب کوئی ان سے ہمدردی سے پیش آیا تھا۔ ایک بچہ نے روپے دیکھ کر کہا: ’’ساب ہم اس کا کیا کریں گے؟‘‘
مختارؔ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’ بیتا! کچھ لے کر کھا لینا۔‘‘
اس بچہ نے مایوسی سے روپے مختارؔ بیڑی کی ہتھیلی پر واپس رکھ کر جواب دیا: ’’ساب ہم یتیم کھانے واپس جائیں گے تو مولی ساب ہم سے سب چھین لیں گے۔ ہمیں تھوڑی ملے گا۔‘‘
مختارؔ بیڑی اکدم غصہ سے تھر تھر کانپنے لگا۔ ’’ابے کیسے لے لیں گے، ان کے باپ کا مال ہے کیا؟ چلو میرے ساتھ ۔ میں ابھی مولی ساب سے بات کرتا ہوں۔ سالوں کادماغ خراب ہو گیاہے۔‘‘
لڑکا سہم ہی تو گیا۔ ڈرتے ڈرتے بولا: ’’مگر ساب یہاں تو مولی ساب نہیں ہیں۔ پھر انہیں معلوم ہوگا کہ ہم نے شکایت کی ہے تو بہت ماریں گے۔‘‘
مختار اب بے قابو ہو چلا تھا: ’’ابے ماریں گے کیسے، میں جو موجود ہوں۔ وہ مولی ساب سامنے بیٹھے ہیں۔ تو چل میرے ساتھ۔ ابھی ٹھیک کئے دیتا ہوں میں سب کو !‘‘ اُس نے ان بزرگ صورت نگراں کی جانب اشارہ کیا جو بڑی سی ڈکار لے کر تسبیح ہاتھ میں لٹکائے جانے کو تیا رتھے۔
یتیم بچہ نے ایک نظر اُن بزرگ کو دیکھا اور پھر مسکرا کر مختارؔ سے بولا: ’’ساب! یہ مولی ساب تھوڑی ہیں۔ یہ تو مالوم نہیں کون ہیں۔ یتیم کھانے کے درواجے پر بیٹھے رہتے ہیں اور جب ہم لوگ کہیں کھانے پر جاتے ہیں تو ساتھ ہو لیتے ہیں۔ ان کا تو روج کا یہی کام ہے۔‘‘
اڑا اڑا دھم! مختارؔ سکتہ کی سی حالت میں کھڑا کا کھڑا رہ گیاجیسے کسی نے ہاتھ گھما کر اس کو ایک زناٹے کا تھپڑ رسید کر دیا ہو۔ ابھی وہ اس کیفیت سے نکل نہیں سکا تھا کہ خلیلؔخاں نے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا اور مجھے ساتھ آنے کا اشارہ کر کے مختارؔ بیڑی کے ساتھ گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس دن کے بعد سے مختارؔ کچھ کھویا کھویا سا رہنے لگا ۔ تاش کھیلتے کھیلتے سوچ میں ڈوب جاتا مگر اتنا بھی نہیں کہ ہار جائے! چال ڈھال کا پرانا والہانہ پن البتہ قدرے کم ہو گیا تھا۔ گالیاں وہ عادتاََ اب بھی دیتا تھا لیکن ان میں پہلی سی بے ساختگی اور پھکڑپن نہیں تھا۔ کہاں تو خلیلؔخاں اسے نیکی کی تلقین کرتے تھے اور سید کاظمؔ حسین اس کی گالیوں پر بھنا کر جوابی گالی رسید کرتے تھے اور کہاں اب اس کی خاموشی سے پریشا ن تھے۔ طرح طرح سے اسے چھیڑتے اور چٹکیاں لیتے مگر وہ ان کی حرکتوں پر مسکرا کر چاند مارکہ بیڑی کا دھواں ہَوا میں اڑا دیتا۔ میرا خیا ل تھا کہ وہ یا تو اداکاری کر رہا تھا یا پھر چالیسویں والے دن کی بات کا اثر وقت کے ساتھ خود ہی ختم ہو جائے گا۔ مختار ؔبیڑی کے سنورنے اور شرافت کا چولا اختیار کر لینے کا تصور بھی ہمارے لئے مشکل تھا۔ آخر چور چوری سے تو جا سکتا ہے، ہیرا پھیری سے تو کب جاتا ہے؟
ایک شام ہم تینوں مختا رؔ کے گھر بیٹھے ہوئے تھے۔ کلثومؔ بھابھی چائے لے کر آئیں تو خلیلؔ خاں سے نہیں رہا گیا اور مختارؔ کی خاموشی اور بیدلی کی شکایت کر بیٹھے۔ بھابھی جیسے بھری بیٹھی تھیں:
’’اے ہے ! بھائی صاحب، میں تو خود دُگدھا میں پڑی ہوئی ہوں۔ جنے ان کو کیا ہو گیا ہے! گھر سے پہلے بھی انہیں کون سی دلچسپی تھی اور اب تو یوں رہوے ہیں جیسے مُوا کسی غیر کا گھر ہو۔ میں تو سمجھوں ہوں کہ ان کو کسی کی نظر لگ گئی ہے!‘‘
ان کی ایسی معصوم بات پر میں بیساختہ مسکرا دیا اور کاظمؔ تو باقاعدہ کھی کھی کھی کر نے لگا۔ خلیلؔخاں البتہ کھنکھارنے کے بہانے انگوچھا منھ پر رکھ کر اپنی مسکراہٹ چھپا گئے۔ مختارؔبیڑی اور نظر؟ لا حول ولا قوۃ! میں نے کلثومؔ بھابھی سے کہا: ’’بھابھی ، آپ بھی کیا بات کرتی ہیں! یہ نظر وظر کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔سب وہم ہے وہم! چند روز میں دیکھئے گا کہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا یہ!‘‘
کاظمؔ حسین نے جیسے نہلے پر دہلا مارا :’’ ارے بھابھی! کیسی نظر اور کہاں کی نظر! ذرا اس شکل کو تو دیکھو۔ ایمان کی کہو بھلا ایسی صورت کو نظر لگ سکتی ہے؟‘‘
کلثومؔ بھابھی نے اَدبدا کر اپنے شوہرِنامدار کی طرف دیکھا توظالم نے مسکراکر انہیں آنکھ مار دی! وہ غریب ہڑبڑا کر ایسی جھینپیں کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ ہم لوگوں کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔ کاظمؔ تو کرسی سے لڑھک کر فرش پر لوٹ پوٹ ہو گیا اور کلثوم ؔبھابھی اپنی ہنسی دوپٹہ کے پلو میں چھپائے مصنوعی غصہ سے بڑبڑاتی ہوئی کمرہ سے نکل گئیں:’’توبہ، توبہ! نہ اللہ مارا وقت دیکھیں، نہ آدمی پہچانیں۔ نگوڑی کوئی تُک ہے آخر؟ اس عمر کو پہنچ گئے مگر اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ ایں نہیں تو!‘‘
اُس دن سے یہ ضرور ہُوا کہ مختارؔ بیڑی کی طبیعت کا غبارتیزی سے چھٹنے لگا اور جلدی ہی وہ اپنی پرانی حرکتوں پر آ گیا۔ اب یہ اور بات ہے کہ اس کی بحالیء طبیعت کے ساتھ تاش کی بازیاں بھی تیز ہو گئیں اور اسی تناسب سے ہماری جیبیں بھی خالی ہونے لگیں۔ مگر سچ پوچھئے تو یہ سودا ایسا مہنگا نہیں تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بازار کچھ مندا چل رہا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے میں خلیلؔخاں کی دوکان پر پہنچا تھا تو اس نے شکایت کی تھی۔ ویسے بھی اس کا کہنا تھا کہ ہفتہ کے درمیانی دنوں میں لوگ خریداری کم کرتے تھے۔ اسی لئے تو سرکار کی طرف سے منگل کو بازار بند کرنے کا حکم تھا۔ ویسے خلیلؔ خاں کی شکایت کرنے کی عادت پرانی تھی۔ بازار کی شکایت نہ کرتا تو بیوی بچوں کا گلہ کرتا یا ہندوستان پاکستان کے کرکٹ میچوں پر تقریر کرتا۔ ادھر جب سے اس پر اسلام کے دورے پڑنے لگے تھے وہ موقع بے موقع نماز اور روزے کی فضیلت، قیامت کے ہوش رُبا منظر اور دوزخ کی آگ سے بھی ہم لوگوں کو ڈرانے کی ناکام کوشش کرنے لگا تھا۔ مختارؔبیڑی اُس کی باتوں پر مسکرا کر بیڑی کا ایک لمبا کش لیتا اور اُس کے چہرہ پر دُھواں پھونک کر کہتا:’’سالے کی گھر میں بھابھی کے سامنے بولتی بند رہتی ہے تو یہاں دوکان پر بیٹھ کر باتیں بگھارتا ہے۔ نامرد ہے سالا نامرد!‘‘
خلیل خانؔ اس کو خونخوار نظروں سے دیکھ کر رہ جاتااور کسی گاہک کی جانب متوجہ ہو جاتا۔ تبلیغی جماعتؔ کا ممبر بن جانے کے بعد سے اس نے مختار بیڑیؔ سے گالم گلوج کا تبادلہ تقریباَبند کر دیا تھا۔ چونکہ عادت بہت پرانی تھی اس لئے اس کایکسر ختم ہو جانا ذرا مشکل تھا، کبھی نہ کبھی منھ سے کچھ نکل ہی جاتا تھا۔ میں سارے مسائل خلیل خانؔ کی منگوائی ہوئی چائے کی پیالی میں غرق کرتا ہوا سڑک پر لوگوں کا ہجوم دیکھتا جا رہا تھا کہ اس کا لڑکا جلیلؔ سائیکل بھگاتا ہوا دوکان پر پہنچا اور تیزی سے بریک لگا کر سائیکل کو دوکان کے تختے پر دھم سے لگا کر ہانپتا کانپتا دوکان پر چڑ ھ آیا۔ اس کے چہرہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔’’ابا جی! اباجی! جلدی سے چلئے۔ مختارؔچچاکو چوٹ لگ گئی ہے۔ وہ ادھر چوراہہ پر ! بڑی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔‘‘
’’ایں! کیا کہتا ہے بھئی؟ مختارؔ کو چوٹ لگ گئی ہے؟ تو نے خو د دیکھا ہے کہ سنی سنائی اڑارہا ہے؟‘‘ خلیل خاںؔ نے پوچھا۔
’’نہیں ، اباجیؔ! خدا کی قسم، میں نے خود دیکھا ہے۔ اُدھر چوراہہ پر موٹر سے ٹکر ہو گئی ہے۔ ‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔
ہم لوگ بھاگم بھاگ ہانپتے کانپتے چوراہہ پر پہنچے تو وہاں سیکڑوں آدمیوں کا مجمع لگا ہوا تھا۔ چیخ پکار مچی ہوئی تھی۔ بھیڑ کو چیر کر ہم دونوں آگے بڑھے تو سڑک کے کنارے مختار بیڑیؔ کا خون سے لت پت بے جان جسم پڑا ہوا تھا جس پر اس کے سرہانے بیٹھے کاظم حسینؔ نے اپنا کوٹ پردہ کے لئے ڈال رکھا تھا اور خود سڑک پر سرپکڑے رو رہا تھا۔ آہ ! مختاربیڑیؔ! یہ کیا ہو گیا؟ خلیل خانؔ بے اختیار مختارؔ کے بے جان جسم سے لپٹ کر دہاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ اس کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ میرا حال بھی خراب تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہماری ساری کائنات ہی اڑا اڑا دھم کر کے ہمارے ارد گرد ملبہ کا ڈھیر ہو کر رہ گئی ہو۔آنکھیں باربار مختارؔ پر جاتیں اور پھر خون کی اس باریک لکیر کے ساتھ ساتھ دور تک چلی جاتیں جو نالی میں جا گری تھی۔ بھیڑ میں لوگوں کی بھنبھناہٹ کی آوازیں کانوں میں گونج رہی تھیں:
’’ارے رام رام! یہ کیا ہو گیا؟ کون تھے یہ صاحب؟‘‘
’’چچ چچ چچ! مرگیا بے چارہ! پتہ نہیں کون ہو گا۔ ارے بھیاکوئی پولس اور اسپتال بھی گیا کہ نہیں؟‘‘
’’سالی ٹریفک بھی تو بالکل اندھی ہو گئی ہے۔ روج جہاں تہاں ایکسیڈنٹ ہوتے رہتے ہیں سالے!‘‘
’’ ارے بھائی! اللہ کی مرضی میں کسی کاکیا دخل ہے۔ ان کی اسی طرح لکھی تھی۔ ہم کو بھی ایک دن جانا ہے!‘‘
اور ادھر پہلوانؔ پنواڑی دوکان کے تختہ پر منھ میں ڈبل پان دبائے اچھل اچھل کرہر آنے والے کو وہ قصہ سنا رہاتھا جس کو معلوم نہیں وہ پہلے کتنی بار سنا چکا تھا۔
’’ ارے بھیا! ہم نے سب کچھ اپنی پاپی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جوانی کسم اب تلک ساری تصویر پھلم کی مافک آنکھوں میں گھو م رہی ہے۔ کوئی جھوٹ تھوڑی بول رہے ہیں! اُدھر پلّی سڑک سے مکھتارؔ باؤجی آرہے تھے۔ روج اسی ٹائم آتے تھے اور چاند مارکہ بیڑی کا بنڈل اور ماچس لیتے تھے۔ بڑے اچھے آدمی تھے بیچارے۔تو بھیا! کیا ہوا کہ جنے کدھر سے ایک بچہ دوڑ کرسالی سڑک پار کرنے لگا اور اُدھر سے آ رہی تھی دندناتی ہوئی جیپ! بچہ تو جرور ہی دب کر مر جاتا۔ پر مکھتارؔ باؤ جی اک دم سڑک کے بیچوں بیچ کود پڑے اور چھلانگ لگا کر بچہ کو نالی میں پرے دکھیل دیا۔ پر بھیا! وہ کُھد کو نہیں بچا سکے اور جیپ سے پچ سے دب گئے۔ باپ رے باپ! اتنا کھون نکلاجیسے کسی نے نلکا کھول دیا ہو۔ سب ہم نے دیکھا بھیا! کوئی جھوٹ تھوڑی بول رہے ہیں!۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی سہ پہرہم تین دوستوں نے مختارؔ کی میت کو غسل دیا۔ جتناپانی استعمال ہو ا اتنے ہی آنسو بھی شامل ہو گئے ہو ں گے۔ بالٹیاں بھر بھر کر پانی ختم ہوگیا مگراس کے زخموں سے خون کا رسنا بند ہی نہیں ہوتا تھا۔ کفن پہنایا تو جا بجا جیتے جاگتے خون کے دھبے رہ گئے تھے جیسے وہ دنیاکوبتانا چاہتے ہوں کہ ’’دیکھو! شہید ایسے ہوتے ہیں!‘‘ اُدھر کلثومؔ بھابی پڑوسنوں کے درمیان فرش پرگم سم سکتے کے عالم میں بیٹھی تھیں۔ اِدھر اُدھر سے رہ رہ کر بچوں کی سسکیوں کی آواز سے یہ طلسم ٹوٹ جاتا تھا۔ سارا محلہ جمع تھا اور فضا سوگوار تھی۔
نماز چوراہہ کی مسجد کے باہر ہوئی۔ سیکڑوں لوگ قطار اند رقطار کھڑے تھے۔ ایک کاظم حسینؔ ہی تھا جو میت کے سرہانے زمین پر گھٹنوں میں سردئے بیٹھا تھا۔ کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اس سے نمازکے لئے کہتا۔ جنازہ اٹھا تو وہ گہری سانس لے کر ساتھ ہو لیا اورتمام راستہ سر جھکائے اپنے خیالوں میں گم چلتا رہا۔ اُدھر خلیل خاںؔ نے گہوارے کا ایک پایہ سبنھالا تو پھر چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ کوئی کاندھا بدلنے کو آگے بڑھتا تو ہاتھ کے اشارہ سے منع کر دیتا۔ آدھے میل چل کر جب قدم لڑکھڑانے لگے تو لوگوں نے سمجھا بجھا کر کاندھا بدل لیا۔ دیکھتے دیکھتے جریب کی چوکی کا قبرستان آ گیا۔ مختارؔ اب اپنی منزل کو پہنچ رہا تھا۔
میت کو قبر میں اتارنے کے لئے میں پیروں کی جانب اتر گیا اور کاظم حسینؔسرہانے۔لوگوں نے ’’ہوشیاری سے! ذرا سنبھل کے بھائی! بسم اللہ!‘‘ کی آوازوں کے درمیان میت کو نیچے اتارا اور ہم دونوں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ اس کو سبنھال کر آہستہ سے زمین پررکھ دیا۔کاظم حسینؔ نے جھک کر کفن کے سرہانے کے بندکھولے اور اپنے بدن کی آڑ میں قبرمیں جھانکتے ہوئے لوگوں کی نظر بچا کر میت کے دائیں شانے کے نیچے کچھ رکھ دیا۔ میری نظر پڑی تو میں بے اختیار چَونک پڑا ! ارے! یہ کیا؟ میرے منھ سے کچھ نکلنے ہی والاتھا کہ کاظمؔ نے نظر اُٹھا کر میری جانب دیکھا۔ اُف! کس قدرکرب تھا اُن آنکھوں میں! کیسی اُداسی! کیسی گھٹن! جیسے وہ مجھ سے کہہ رہا ہو:
’’خدا کے لئے خاموش رہو سرورؔ! مجھے اپنے دوست کو یہ آخری تحفہ دے لینے دو۔ پھر تو میں اسے کچھ نہیں دے سکوں گا۔‘‘اور میں نے خاموشی سے نگاہیں جھکا لیں۔ میت کے پیروں کی طرف کے بند کھولے اور خلیلؔ خاں کا نیچے بڑھا ہوا ہاتھ پکڑ کر قبر سے باہر آ گیا۔ کاظمؔ حسین نے قبر تختوں سے پاٹ دی اور آخری تختہ لگانے سے پہلے جھری میں سے اندر جھانکا جیسے خدا حافظ کہہ رہا ہو اور پھر آخری تختہ بھی لگا دیا گیا۔ ایک طرف سے آواز آئی: ’’مٹی دے دیجئے!‘‘ لوگوں نے دھپا دھپ تین تین مٹھیاں مٹی قبر میں ڈال دی اور ہاتھ جھاڑ کر ادھر اُدھر کھڑے ہو گئے۔ گورکن نے پھاؤڑے سے قبر بھر دی۔ لوگوں نے فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھائے اورپلٹ کر اپنے اپنے گھروں کوروانہ ہو گئے۔ مختارؔ بیڑی اب افسانہ بن چکا تھا۔
روایت مشہور ہے کہ قبر میں میت کے پاس فرشتے آتے ہیں اورمرحوم سے سوال و جواب کرتے ہیں۔ میں تھکا ہاراگھر کی جانب واپس جا رہا تھاتو سوچ رہا تھا کہ جب اللہ کے بھیجے ہوئے وہ فرشتے مختارؔ کے پاس آئے ہوں گے تو اُس کے پاس رکھے ہوئے چاند مارکہ بیڑی کے بنڈل کودیکھ کر کیاکہا ہو گا؟