مبشر احمد میر(گجرات)
حسن نظارے میں ہو، آواز میں یا تحریر میں، ایک مرتبہ تو دیکھنے، سننے یا پڑھنے والے کی بصارت، سماعت یا تخیل کو مسحور کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اکثر افراد اس حسن سے لذت کشید کرنے کے بعد نظیر اکبر آبادی کی تقلید میں ع ٹک دیکھ لیا، دل شاد کیا اور چل نکلے۔۔گنگناتے اپنی راہ لیتے ہیں۔ زیادہ متاثر ہونے والے مذہبِ عشق اختیار کر لیتے ہیں لیکن جلد ہی عشق کی کٹھنائیوں سے گھبرا کر ع اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔۔کا عذر پیش کر کے بنک کے باہر یوٹیلٹی بلز ادا کرنے والوں اور یوٹیلٹی سٹورز سے چینی خریدنے والوں کی قطاروں میں مقام پانے کی سعی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
تاہم دنیا کبھی سچے عاشقوں سے خالی نہیں ہوئی۔ آج بھی محبوب کی ایک جھلک دیکھ کر یا کسی خوش بیاں راوی سے محبوب کے حسن کی تعریف سن کر ہزار جان سے عاشق ہونے والے دیوانے موجود ہیں۔ ایسے ہی ایک عاشق کا نام طارق حبیب ہے جو ۱۹۹۴ء میں اپنے دوست عطااللہ سے مشتاق احمد یوسفی کی تعریف سن کر ایسا عاشق ہوا کہ غمِ دوراں اور غمِ معاش کے باوجود ہمہ وقت یوسفی کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے۔
یوسفؑ پر عاشق ہونے والی زلیخا بوجوہ اپنے مذموم عشق میں ناکام رہی لیکن یوسفی پر عاشق ہونے والا طارق حبیب اپنے معصوم عشق میں کامیاب ٹھہرا۔ اس کے کامیاب عشق کا ثبوت تادمِ تحریر تین تخلیقات کی صورت میں دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ ان میں سے اولین سہ ماہی ’’شبیہ‘‘ خوشاب کا ’’مشتاق احمد یوسفی نمبر‘‘ (جنوری ۱۹۹۵ء تا مارچ ۱۹۹۶ء) ہے۔ دوسری تخلیق ۱۹۹۷ء میں شائع ہونے والی ’’مشتاق احمد یوسفی …… چراغ تلے سے آبِ گم تک‘‘ نامی مرتبہ کتاب ہے۔ تیسرا نمبر ۲۰۰۳ء میں زیورِ طباعت آراستہ ہونے والی ’’یوسفیات‘‘ کا ہے۔
طارق حبیب کے بیان کے مطابق یوسفیات، ’’در اصل وہ مقالہ ہے جو میں (یعنی طارق حبیب) نے ۱۹۹۵ء میں ایم۔اے (اردو) کے دوران میں تحریر کیا تھا۔‘‘ (۱) اسی مقالے کا مصالحہ جمع کرتے ہوئے انہیں ’’شبیہ‘‘ کا ’’مشتاق احمد یوسفی نمبر‘‘ ترتیب دینے اور ’’مشتاق احمد یوسفی …… چراغ تلے سے آبِ گم تک‘‘ مرتب کرنے کا موقع ملا۔ باالفاظِ دیگر ’’یوسفیات‘‘پر کام کرتے ہوئے انہیں ’’مشتاق احمد یوسفی نمبر‘‘ اور ’’مشتاق احمد یوسفی …… چراغ تلے سے آبِ گم تک‘‘ بطور بونس ملیں۔ ٭٭٭
رشید حسن خان ایک باریک بیں اور سخت کوش محقق ہونے کے ناطے یونی ورسٹیوں میں ہونے والی تحقیقی کام کے معیار سے نالاں تھے۔ اصولاً ان کا موقف درست ہے لیکن یونی ورسٹیوں کے نوخیز، نوسکھیے کھوجیوں سے جن کے وسائل محدود ہوں مزید براں سر پر شعبہ امتحانات کی مقرر کردہ وقت کی تلوار بھی لٹک رہی ہو ایسے مقالے کی توقع کرنا جو اغلاط سے مبرا ہو حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔یہی سبب ہے کہ اکثر مقالہ نگار زبانی امتحان کے موقع پر دھڑکتے دل اور لڑکھڑاتی ٹانگوں کے ساتھ ممتحن کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ نگران کی سپر موجود ہونے کے باوجود ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے لرزتی زبان سے دریافت کیے گئے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔ ان کی حالتِ زار دیکھ کر ممتحن کو اللہ کی عطا کردہ صفتِ رحمیت جوش میں آتی ہے، نگران کی شفاعت بھی کمک بہم پہنچاتی ہے اور امیدوار کو اذنِ کامیابی ملتا ہے۔حصولِ کامیابی کے بعد اکثر بھولے بھالے اور معصوم مقالہ نگار شادی کے پندرہ برس بعد بچے کو جنم دینے والی عورت کی طرح اپنے اکلوتے مقالے کو چومتے چاٹتے باقی زندگی بتا دیتے ہیں، جو سیانے ہوتے ہیں وہ مقالے کو سات غلافوں میں لپیٹ کر کسی تجوری میں محفوظ کر دیتے ہیں اور یونی ورسٹی کی عطا کردہ سند کے تعویز سے جہادِ زندگانی کی منزلیں سر کرتے ہیں۔البتہ کچھ طلبا ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں سچ مس تحقیق و تنقید میں مزہ آنے لگتا ہے، ہوتے ہوتے یہ مزہ نشے میں بدل جاتا ہے اور وہ تحقیق و تنقید میں نئی نئی راہیں تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ طارق حبیب کا شمار ایسے ہی طالبانِ علم میں ہوتا ہے۔ اگر چہ ہم میں اکثریت ایسے مردوں کی ہے جو ساری زندگی ایک ہی بیوی کے ناز اُٹھاتے گزار دیتے ہیں۔
٭٭٭
ہیر، ’’رانجھا، رانجھا‘‘ پکارتے خود بھی رانجھا ہو گئی۔ طارق حبیب بھی مشتاق احمد یوسفی پر کام کرتے ہوئے بعض جہتوں سے مشتاق احمد یوسفی کے رنگ میں رنگے گئے۔ خاکم بدہن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’مشتاق احمد یوسفی کے لکھنے کی رفتار کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقدمے سمیت ایک سال کی رفتار اور نسبت سے لکھا گیا۔ جس میں بلا شبہ ایک بڑے فن کار کا صبر و ضبط، ریاضتِ فن اور سنجیدہ اندازِ فکر شامل ہے۔‘‘ (۲)
۱۹۹۵ء میں پہلی مرتبہ مشتاق احمد یوسفی پر مقالہ لکھنے کے بعد اس کے پانچ ابواب پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے یہی رفتار طارق حبیب کی رہی۔ ان کے اپنے بیان کے مطابق، ’’۱۹۹۵ء سے ۲۰۰۰ء تک میں نے یہ مقالہ کئی بار نئے سرے سے تالیف کرنے کی کوشش کی۔‘‘ (۳)
قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا، ۱۳ جون ۲۰۰۳ء کو یوسفیات کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں، ’’صاحبو! یہ کتاب دو برس قبل چھپ چکی ہوتی اگر مصنف اسے ایک بار پھر نئے سرے سے تصنیف کرنے کی کوشش نہ کرتا۔‘‘ (۶)
لیجیے ! طارق حبیب تو مشتاق احمد یوسفی سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئے۔ یوسفی نے ایک سال میں ایک مضمون یا باب تو لکھ لیا، طارق حبیب نے پانچ ابواب اور ایک پیش لفظ پر مشتمل کتاب پر نظر ثانی کرنے میں آٹھ سال لگا دیے۔ چنانچہ یوسفیات پڑھنے سے پہلے ہی قاری کو یقین آ جانا چاہیے کہ کتاب حتی الامکان سقم سے پاک اور مشتاق احمد یوسفی کے بارے میں معلومات سے پر ہو گی۔
٭٭٭
اسی یقین کے ساتھ میں نے ’’یوسفیات‘‘ کا مطالعہ شروع کیا۔ پہلا باب جس میں مشتاق احمد یوسفی کا خاندانی پسِ منظر اور سوانح بیان کیے گئے ہیں پڑھا تو سخت مایوسی ہوئی۔ طارق حبیب نے تمام تر احوال کا تانا بانا مشتاق احمد یوسفی سے ۱۱ اپریل ۱۹۹۵ء کو لیے گئے انٹرویو سے بنا ہے۔ انہوں نے اسی انٹرویو کو کہیں اپنے اور کہیں مشتاق احمد یوسفی کے معین الفاظ میں بیان کر کے یہ فرض کر لیا کہ،ع حقِ بندگی ہم ادا کر چلے ایک جگہ تاریخ پیدائش کی بحث اُٹھائی لیکن کسی نتیجے پر پہنچے بنا ادھوری چھوڑ دی۔ حالانکہ مشتاق احمد یوسفی کے اپنے بیان کے مطابق ان کے والد ۱۹۱۵ء سے ۱۹۳۱ء تک ٹونک میں پولیٹکل سکرٹری رہے۔ (۵) اُس دور کے کسی پولیٹکل سکرٹری سے یہ توقع کرنا کہ بلدیہ کے رجسٹر میں اپنے بچے کی پیدائش کا اندراج نہ کرائے محال ہے۔ اگر کوشش کی جائے تو آج بھی اُس دور کے ریکارڈ سے یوسفی کی تاریخ پیدائش معلوم کی جا سکتی ہے۔
ع مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ اسی طرح طارق حبیب کے مطابق، ’’۱۹۴۶ء میں ہی مشتاق احمد یوسفی پرونشل سول سروس میں آ گئے۔ دسمبر ۱۹۴۹ء تک ڈپٹی کمشنر اور اڈیشنل ڈپٹی کمشنر رہے۔‘‘ (۶)پھر اردو سے سرکاری زبان کا اعزاز چھننے پریہ سارے اختیارات و مراعات چھوڑ چھاڑ کر پاکستان چلے آنے کا فیصلہ کر لیا۔
مجھے طارق حبیب یا مشتاق احمد یوسفی کے بیان کی صداقت پر کوئی شبہ نہیں لیکن دل کی تسلی اور معترض کا منہ بند کرنے کے لیے ثبوت درکار ہے۔ جس کا بہم پہنچانا طارق حبیب کی ذمہ داری ہے۔
کتاب کا دوسرا باب طنز و مزاح کی روایت پر ہے۔ اس باب کی تیاری میں طارق حبیب نے کافی محنت کی ہے۔ مقالے کی نظرِ ثانی کے دوران اگر یہ باب موجودہ باب چہارم میں کھپا دیا جاتا تو قاری کے لیے مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری کو سمجھنا مزیدسہل ہو جاتا۔ تاہم موجودہ ترتیب عصرِ حاضر میں یونی ورسٹیوں کے زیرِنگرانی لکھے جانے والے تحقیقی مقالات کے مطابق ہے۔
کتاب کے تیسرے باب سے طارق حبیب کے جوہر کھلنا شروع ہوتے ہیں۔ یہ باب لکھنے میں انہوں نے بڑی محنت اور دقتِ نظر سے کام لیا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی جو بد قسمتی سے صرف مزاح نگار کی حیثیت سے معروف ہیں کی تحریرات میں انہوں نے اُنیس۱۹ایسے موضوعات تلاش کیے ہیں جن میں سے تقریباً ہر ایک پر جامع مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح طارق حبیب نے بعد میں آنے والے محققین کے لیے جو مشتاق احمد یوسفی پر کام کرنا چاہیں بہت سے امکانات روشن کر دیے ہیں۔ تاہم ایک موضوع ایسا بھی ہے جس پر مشتاق احمد یوسفی کی مطبوعہ کتب میں مزید تحقیق کا کوئی امکان نہیں چھوڑا۔ وہ موضوع ’’یوسفی کی تنقید‘‘ ہے۔ یہ اور بات کہ انہوں نے عجز سے کام لیتے ہوئے ع حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا کی صدا بلند کرتے ہوئے مختلف ادبی جرائد میں بکھرے ہوئے مشتاق احمد یوسفی کے تنقیدی مضامین اور تبصروں کو یک جا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
’’یوسفیات‘‘ کے باب چہارم میں طارق حبیب نے مشتاق احمد یوسفی کی تحریر میں موجود مزاح نگاری کے حربوں کی بھرپور جائزہ لیا ہے۔ اس باب میں تحریف نگاری کا حصہ ایسا ہے جسے الگ مقالے کی صورت میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔
’’یوسفیات‘‘ کے آخری باب میں طارق حبیب نے مشتاق احمد یوسفی کے فنی و فکری ارتقا کا مجموعی جائزہ لیا ہے ۔ اس باب میں یوسفی کے اسلوب پر اردو ادب کے ممتاز اہلِ قلم کے اثرات کا جائزہ لینے کے علاوہ نئی نسل کے مزاح نگاروں پر مشتاق احمد یوسفی کے اثرات کا جائزہ بھی لیا ہے۔ یہی نہیں انہوں نے مشتاق احمد یوسفی کا سرقہ کرنے والے ایک معروف مزاح نگار کی تخلیکات کا تفصیلی پوسٹ مارٹم بھی کر ڈالا۔ آخری باب کا یہ حصہ خصوصاً طارق حبیب کی محنتِ شاقہ اور باریک بینی کے مظہر ہے۔
تاہم اس باب میں مشتاق احمد یوسفی کے ایک بیان کا حوالہ نمبر ۷۰لکھا گیا ہے۔ اسی طرح انگریزی کے معروف نقاد جانسن کے ایک تبصرے کا حوالہ نمبر ۲۹۵دیا گیا ہے۔ باب کے آخر میں حوالہ جات و حواشی کے تحت ہر دو نمبروں کے سامنے ’’حوالہ ندارد‘‘ درج ہے۔ باوجود کوشش کے میں اس کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔ میری دانست میں اگر طارق حبیب کی رسائی بنیادی ماخذ تک نہی ہو سکی تو ثانوی ماخذ کا حوالہ بھی دیا جا سکتا تھا۔
ان چند کوتاہیوں سے قطع نظر طارق حبیب نے ’’یوسفیات‘‘ کے مختلف ابواب میں بڑے سلیقے اور مہارت سے مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کا مختلف جہتوں سے بھرپور تجزیہ کیا ہے، جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ البتہ کتاب کا پہلا باب مزید توجہ کا طالب ہے۔ ممکن ہے طارق حبیب، مشتاق احمد یوسفی کی مانند کسی کی ذاتی زندگی کو کریدنا ناپسند کرتے ہوں لیکن اگر کسی کام کا بیڑا اُٹھایا جائے تو تا حدِ امکان اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا تحقیق کی شرطِ اول ہے۔ ٭٭٭
حوالہ جات ۱۔ طارق حبیب، یوسفیات، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۰۳ء، ص ۹
۲۔ ایضاً، ص ،۱۹۵ ۳ایضاً، ص ۹ ۴ایضاً، ص ۱۱
۵ایضاً، ص ۲۳ ۶ایضاً، ص ۳۰