(Last Updated On: )
طاہر عدیم
یوں نہ ہو کہ ایک دن ہوں یہ ستارے درمیاں
فاصلے بڑھتے ہی جاتے ہیں ہمارے درمیاں
عزم کرتا ہے نئے انداز سے ہر مرتبہ
ٹوٹ جاتے ہیں نہ جانے کیوں سہارے درمیاں
رنجشیں پہلے بھی ہوتی تھیں مگر ایسی نہ تھیں
کون حائل ہو گیا آخر ہمارے درمیاں
خود ہی کرتا ہے وہ طوفانِ بَلا کے رُوبرُو
خود ہی کرتا ہے سمندر میں کنارے درمیاں
ساری ترکیبیں ‘ کنائے ‘ رمزِفن طاہرؔ عدیم
آگے پیچھے ‘ دائیں بائیں ‘ استعارے درمیاں