(مطبوعہ ’’برگِ آوارہ‘‘ حیدرآباد)
یوسف ظفرؔ
یوسف ظفرؔ بھی ۷ مارچ کو راہی ملک عدم ہوئے۔ راولپنڈی کی سر زمین پر ایک نظم اور بجھ گئی۔ وہ یکم دسمبر ۱۹۱۴ء کو پیدا ہوئے تھے۔ زخم خوردہ شاعری کرنے والا یہ شاعر اردو نظم کا ایک نرالا ہی شخص تھا جس نے جذبات بھی پیش کیے، احساس بھی تازہ کیے اور کمال یہ کہ نظموں کا ایسا لہجہ کہ معلوم ہوتا ہے اردوئے معلی کی ندی بہہ رہی ہو۔۔۔
انداز بیان میں ڈرامائی زاویہ، ترنم اور کلاسیکی انداز۔۔۔ کالی داس کی طرح قدرت سے بے حد متاثر اچھی طرح منقش شاعری کرنے والا شاعر بھی فردوس کا سفر اتنی آسانی سے کر گیا کہ لوگ ایسا سوچ بھی نہ پائے تھے۔ چراغ جلتے ہیں، بلب چمکتے ہیں لیکن بجھنے والے چراغوں کی روشنی ابھی ہمارے سینوں میں محفوظ رہے گی۔
یوسف ظفر کا طرز کلام دیکھیے:
ایک لفظ اور حکومت کی کڑی زنجیریں
ایک لفظ اور حقارت کے سمندر کا جلال
ایک لفظ اور سکوت مہ و انجم ٹوٹے
ایک لفظ اور چھلک جائے شراب مہ و سال
(الفاظ)
ہر اک صدا میں گھلی ہوئی ہے ہر اک نفس میں بسی ہوئی ہے
یہ کون ہے، کون ہے جو یوں میری زندگی میں رچی ہوئی ہے
٭٭٭