ایک رات اس کے من میں ایک خواہش رد آئی۔جس پر اس نے چند لمحے سوچا اور پھر فوراً ہی اس کا اظہار اختر سے کر دیا۔یہ بڑی خوبصورت سی خواہش تھی۔چلتی ہوئی باتوں کے دوران اچانک اس نے پوچھا ۔
’’اختر۔!آپ دیکھنے میں کیسے ہیں؟‘‘
’’کیا مطلب۔!دیکھنے میں انسان ہی لگتا ہوں۔‘‘اس نے بات کو سمجھتے ہوئے شوخی سے کہا۔
’’نہیں،میرا مطلب۔آپ اتنی خوبصورت اور پیاری شاعری کرتے ہیں کہ دل کو چھو لیتے ہیں ۔اب یہ خواہش کچھ غلط بھی نہیں ہے کہ دیکھنے میں آپ کیسے ہیں؟‘‘ اس نے بھی اپنی بات کی وضاحت کر دی۔
’’یہ کیا بات ہوئی بھلا۔بھئی ویسا ہی ہوں ۔جیسے عام انسان ہوتے ہیں۔ہاں اگر ناک نقشے کی بات کرتی ہو تو میں ٹھیک ہوں۔کم ازکم کہیں سے بے ڈھنگا نہیں ہوں۔‘‘اس نے پھر اسی شوخی میں جواب دیا تھا۔
’’میں آپ کو دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘اس نے حتمی انداز میں اپنے دل کی خواہش کہہ دی۔
’’کیسے دیکھ سکیں گی۔تم اتنی دور رہتی ہو۔نہ تم مجھے مل سکتی ہو اور نہ میں تمہارے پاس آ سکتا ہوں۔‘‘اس نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔
’’آپ کی تصویر بھی تو کہیں شائع ہوئی ہوگی نا۔۔آپ کسی میگزین میں اپنی تصویر شائع کروا دیں ۔میں دیکھ لوں گی۔‘‘اس نے فیصلہ کس انداز میں صلاح دے دی۔
’’ایسا ممکن تو ہے ،لیکن آج تک میں نے تصویر شائع کروائی ہی نہیں۔‘‘اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’کیوں،کوئی مذہبی معاملہ۔۔۔؟‘‘ اس نے پوچھا
’’نہیں،ایسی کوئی بات نہیں،بس یونہی۔۔۔‘‘اس نے پھر سنجیدگی ہی سے کہا۔اب وہ کیا بتائے کہ اس نے خود کو پہلے ہی چھپا رکھا ہے اور قلمی نام سے لکھ رہا ہے۔
’’یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔‘‘اس نے حیرت ملی ناراضگی سے کہا،تب اس نے یونہی بہانہ بناتے ہوئے کہہ دیا۔
’’میں اپنا مجموعہ کلام شائع کراؤں گا۔تب اس پر تصویر بھی لگا دوں گا۔تب تم دیکھ لینا۔‘‘
’’کب۔۔کب۔۔۔شائع ہو گا مجموعہ۔۔۔‘‘اس نے بے چینی سے کہا۔
’’جب میرے پاس پیسے ہوں گے۔تمہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ بے چارے شاعروں کو اپنی کتابیں خود چھپوانا پڑتی ہیں۔پھر خود ہی بیچنا بھی پڑتی ہیں۔میں اتنا معروف شاعر توہوں نہیں کہ کوئی پبلشر مجھے مفت میں چھاپ دے ۔میرے جیسا غیر معروف بے روزگار شاعر کتاب چھپوا کر اپنے ہی ہاتھوں ذہنی اذیت نہیں سہہ سکتا۔یہ خود کش حملے والی بات ہے نا۔۔۔‘‘اس نے یونہی اوٹ پٹانگ ہانکتے ہوئے ایک حقیقت بیان کر دی، جو بہت تلخ تھی۔
’’کتنا خرچ آئے گاکتا ب پر،وہ میں دے دیتی ہوں۔جتنی جلدی ممکن ہو سکے آپ کتاب لے آؤ۔‘‘وہ پھر سے اچانک فیصلہ کن انداز میں بولی تو وہ چونک گیا۔اس لئے نادی ؔ کی بات کو نظرا نداز کرتا ہوا بولا۔
’’اچھا ،ہم اس موضوع پر پھر کسی وقت بات کریں گے۔ہاں اس سے پہلے کیا موضوع چل رہا تھا۔‘‘اس نے پہلو تہی کرتے ہوئے کہا تو وہ خواہ مخواہ میں ضدی ہو گئی۔اس لئے اپنی رو میں بولی۔
’’نہیں۔!آپ مجھے بتاؤ۔کتنا خرچ ہو گا۔اپنا اکاؤنٹ نمبر بتاؤ۔میں اس میں رقم بھجوا دوں گی۔‘‘
’’تم یہ سب رہنے دو۔میں نے کتاب شائع کروانی ہو گی تو وہ ہو جائے گی۔‘‘اس نے بڑے سکون سے کہا۔
’’میں آپ کو دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘اس نے بچوں جیسی ضد کر لی۔
’’تو ٹھیک ہے ۔آ جاؤاور آ کر مجھے مل لو۔‘‘وہ سکون سے بولا،اسے معلوم تھا کہ وہ اس سے نہیں مل سکتی۔یہ مجبوری خود نادیؔ نے اسے بتائی تھی۔
’’آپ کو معلوم ہے کہ میں نہیں مل سکتی۔آپ کی تصویر دیکھنے کے لیے میں یہ بھی کہہ سکتی ہوں کہ آپ اپنی تصویر کسی میگزین ہی میں چھپوالیں۔مگر اب جبکہ میں کتاب شائع کروانے کی بابت کہہ چکی ہوں تو آپ میری اتنی سی خواہش پوری نہیں کر سکتے۔‘‘نادیؔ نے پورے خلوص نے کہا تھا اس لئے اس کا لہجہ تھوڑا بھیگ بھی گیا۔
’’نہیں ۔!میں ایسا نہیں کر سکتا۔مجھے یہ قطعاً پسند نہیں کہ کوئی مجھے یہ احساس دلائے کہ میں اپنی کتاب بھی نہیں چھپوا سکتا۔اس لئے اپنی بے جا ضد چھوڑوا ور اس موضوع کو بدل دو۔ہم کوئی اور بات کرتے ہیں۔‘‘اس نے کافی حد تک سخت لہجے میں کہا تھا تو وہ تیزی سے بولی۔
’’اس طرح تو میں بھی کہہ سکتی ہوں کہ آپ نے میرے خلوص بھرے جذبات کو ٹھکرا دیا ہے۔میں ایک اچھے دوست کی طرح کام آنا چاہتی ہوں اور آپ۔۔۔۔‘‘
’’صرف اپنی اس خواہش کے لئے کہ مجھے دیکھ سکو۔خیر۔ہم پھر بات کریں گے۔اس وقت فون بند کر دینا ہی بہتر ہو گا۔‘‘اس نے کہا اور کچھ سنئے بغیر فون بند کر دیا۔نادیؔ بے جان فون کو دیکھتی ہی رہ گئی۔اس نے پلٹ کر اختر کو کال کی تو اس کا فون بند ملا۔اسے یقین ہو گیا کہ اب وہ بات نہیں کرے گا۔اس نے یہی سوچا کہ کل تک اس بات کا اثر زائل ہو جائے گا۔دوبارہ وہ ایسے کسی موضوع پر بات نہیں کرے گی۔جس سے اس کی انا مجروع ہو۔سو اس رات اختر کی باتوں میں بھیگی سو گئی۔لیکن اگلی رات اختر نے کوئی رنسپانس نہیں دیا۔کال جاتی رہی مگر اس نے ریسو نہ کی۔کیا وہ ناراض ہو گیاہے؟ یا پھر کوئی اور معاملہ ہے۔میں نے اتنی بے جا ضد تو نہیں کی تھی۔یہی سوچتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی واحد کھڑکی سے آن لگی۔جہاں آ کر وہ اپنے آپ سے الجھنے لگی۔
کھڑکی سے باہر کے سارے منظر تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ چاند بھی جیسے اس سے روٹھ گیا ہوا تھا۔حویلی کی دیوار پر لگے برقی قمقمے جہاں تک روشنی پھیلا سکتے تھے ،وہاں تک کے سارے منظر اسے اپنے ساتھ جاگتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے ۔ ورنہ اس سے آگے کھیتوں اور درختوں پر اندھیرا اترا ہوا تھا۔دور گاؤں کے کچے پکے گھروں میں کہیں کہیں دّیے کی مانند روشنی جھلملا رہی تھی۔نجانے کتنی دیر تک وہ یونہی ان تاریک منظروں کا حصہ بنی رہی تھی۔شاید وہ ان منظروں سے اُکتا کر سو چکی ہوتی اگر وہ اپنے آپ سے نہ الجھتی ۔اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اختر اس کی فون کال نظرانداز بھی کر سکتا ہے؟ وہ مسلسل کال کر رہی تھی اور وہ ریسو نہیں کر رہا تھا۔سیل فون بند ہوتا تو اسے چین آ جاتا۔اگر وہ مصروف ہے تو محض ایک پیغام بھیج دے کہ وہ مصروف ہے۔پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ اس نے اتنی بارکوشش کی ہو۔پہلی بار پلٹ کو اس کا رنسپانس نہیں دیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ اسے طرح طرح کے خیال آنے لگے تھے۔نجانے اس کے ساتھ کیا وجہ ہے؟کیا وہ ناراض ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں نجانے کیسے کیسے خیال اس کے من میں اتر آئے تھے۔اس نے اپنے اندر ہی سے اٹھنے والے وہم اسے ڈراتے رہے۔کوئی ایسا متبادل ذریعہ بھی نہیں تھا کہ جس سے وہ کسی بھی معاملے کی تصدیق کر سکتی۔
نادیؔ خود میں الجھی ہوئی تھی۔اختر ایک فون کا ل کی دوری پرتھا۔یہی یقین تھا اور یہی ایک رابطہ،وہ اس کے لیے محض ایک آواز ہی نہیں تھا بلکہ نجانے کتنے خوابوں کی بنیاد بن گیا تھا۔اس کا لہجہ نادیؔ کے من میں سپنوں کا شہر آباد کر چکا تھا۔صرف اسی آواز نے اس کے ایوان ذہن میں کتنے چہروں کی تصویریں لگ چکی تھیں۔ہر چہرہ مکمل تھا مگروہ کسی سے بھی مطمئن نہ تھی۔وہ نت نیا چہرہ تخلیق کرتی چلی جا رہی تھی۔بس اختر کی آواز تھی جو اس کی ذات کے گرد حصار بن کر چھا گیاتھا۔اور وہ لفظ لفظ اسے اپنی ذات میں یوں اتارتی چلی جا رہی تھی ،جیسے بارش میں بھیگی ہوئی کوئی لڑکی،شفاف پانی کی ٹھنڈک اپنی روح تک محسوس کرے۔
نادیؔ کی الجھن ایک خیال کی وجہ سے تھی جو اس کے ذہن میں دھویں کی مانند پھیل گیا تھااو ر اس نے نادی کی ساری سوچیں مفلوج کر دی ہوئیں تھیں۔اسے یہ خوف لا حق ہو گیا تھا کہ اگر اختر گم ہو گیا اور اس سے رابطہ نہ ہو سکا تو پھر وہ اسے کیسے تلاش کر پائے گی۔آواز کی کچی ڈور ٹوٹ گئی تو پھر وہ کس کے سہارے اس تک رسائی پا سکے گی؟وہ کس طرح کے صحرا میں آ گئی ہے۔جہاں نہ کوئی راستہ ہے اور نہ کوئی منزل۔ غیرمادی سراب،جیسے وہ چھو نہیں سکتی۔فقط اس کا احساس ہے۔یہ بھی نہ رہا تو وہ کیا کرے گی؟انہی لمحات میں کوئی شے چھن سے اس کے اندر ٹوٹ گئی تو وہ بے ساختہ چونک گئی،کیا وہ اختر کے لیے اتنا ہی جذباتی ہو گئی ہے؟کہیں وہ اس سے محبت تو نہیں کرنے لگی۔کیا وہ ایک رائیگاں سفر پر چل نکلی ہے؟وہم،حیرت اور انکشاف نے اس کے اندر ہلچل مچا دی۔وہ خود کو یقین دلاتے دلاتے تھک کو چور ہوتی چلی جا رہی تھی۔اسے لگا جیسے وہ کسی پری کی مانند خوبصورت منظروں میں اڑتی چلی جا رہی ہے۔رائیگاں سفر کی تھکن اور اس کی آبلہ پائی کی دکھن اس نے پورے وجود میں محسوس کی۔تب اس کی آنکھوں سے چشمے ابل پڑے۔وہ بے حس و حرکت کھڑی ان تاریک منظروں میں جھانکنے لگی جو اس کے من میں بھی اتر آئے تھے۔اسے ہوش اس وقت آیا جب صبح کی اذان اس کے کانوں میں پڑی۔تب وہ مایوس ہو کر کھڑی سے ہٹ گئی۔
***
شعیب بائیک لے کر گھر سے نکلا تو اپنے ذہن پر خاصا دباؤ محسوس کر رہا تھا۔اس کا ارادہ تھا کہ وہ بھاء حمید کی ورکشاپ جائے گالیکن پارک سے سامنے سے گذرتے ہوئے اس نے اپنا ارادہ بدل لیا۔اس نے بائیک پارکنگ میں کھڑی کی اورخود دھیمے قدموں سے چلتا ہوا ایک سنگی بینچ پر آ بیٹھا۔وہ ایک فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔کیونکہ رات جب وہ کھانا کھا چکا تو اس کی امی کچن سے چائے بنا کر لے آئی۔انہی لمحوں میں نادیہ کی کال آنا شروع ہو گئی۔اس نے دوبار نظر انداز کیا،پھرتیسری بار اس نے فون ’’خاموشی‘‘پر لگا دیا۔اس کی امی بڑے غور سے اس کی الجھن دیکھ رہی تھی۔ان کے چہرے پر سنجیدگی تنی ہوئی تھی۔اس لیے شعیب نے مگ اٹھا لیا اور کوئی بات نہیں کی۔تب اس کی امی نے ہی پوچھ لیا۔
’’کون تنگ کر رہا ہے تمہیں؟‘‘
’’کوئی نہیں ،امی بس یونہی۔۔۔‘‘اس سے اپنی ماں کے سامنے جھوٹ بولا ہی نہیں گیا۔اس لئے ادھوری سی بات کرکے گرم چائے کا سپ لے لیا۔
’’دیکھ ۔!اب تو ایک انتظامی آفیسر بن جانے والا ہے ۔جس کی اپنی ایک الگ سے منفرد حیثیت ہوتی ہے۔تمہیں عام لوگوں سے ذرا ہٹ کر رہنا ہو گااور یہ لمبی لمبی کالیں تمہیں اب زیب نہیں دیتیں۔جان چھڑا لے ان سے جو تمہیں رات رات بھر سونے نہیں دیتیں۔‘‘امی نے ڈھکے چھپے انداز میں اسے سرزش کی تھی۔
’’بس امی ،یہی ایک فون کال سنتا ہوں۔یہ فارغ دن ہیں نا۔۔جب مصروفیت ہو گئی تو یہ خودبخود ختم ہو جائے گی۔‘‘اس نے یونہی بے جا سی دلیل دے دی تھی۔
’’میں جانتی ہوں بیٹا کہ تم کردار کے بہت اچھے ہو۔لیکن بعض اوقات معاملات اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ بندہ پھر چاہے بھی تو ان سے اپنا دامن نہیں بچا پاتا۔ جذبات انسان کے بہکاوے کا سبب بھی بن جاتے ہیں ۔اس احتیاط بہتر ہوتی ہے۔ باقی تم خود سمجھ دار ہو۔‘‘امی نے بڑے دکھی لہجے میں اسے نصیحت کر دی تا کہ وہ محتاط رہے۔
’’ٹھیک ہے امی،جیسا آپ چائیں۔‘‘اس نے مزید بحث نہ کرنے کی غرض سے فوراً بات مان لی۔
اصل میں شاعری کی وجہ سے بہت سارے لوگ اسے فون کالز کرتے تھے ۔اسی تبصرہ و تنقید کے باعث اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کی شاعری پڑھنے والوں کا ردعمل کیا ہے۔نجانے کتنے لوگ آئے اور گئے۔کسی سے ایک آدھ بار بات ہوتی تھی،کسی سے چند دن یا پھر کوئی چند ہفتے بات کرتا رہتا۔یہ لوگ جس طرح آتے اسی طرح اندھیری دنیا میں غائب ہو جاتے ۔ یوں جیسے کبھی ملے ہی نہ ہوں۔کسی نے خود تعلق توڑ لیا اور کسی سے خود اس نے بات کرنا پسند نہ کی۔بات شاعری کے محور سے ہٹ کر،کسی اور راستے پر ڈالنے کی کوشش ہوتی،شعیب وہیں رک جاتا۔یہ فقط نادیہ ہی تھی،جس کے ساتھ تعلق کچھ زیادہ ہی ہو گیا تھا۔اس نے فقط شاعری پر بات کی تھی اور اسی حوالے سے زندگی کو سمجھنا چاہا تھا۔خود شعیب کے لیے یہ کردار بہت دلچسپ بن گیا تھا۔
’’کیا سوچنے لگے ہو بیٹا۔‘‘امی نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ چونک گیا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘اس نے ایک ہی سانس میں چائے کا مگ حلق میں انڈیلتے ہوئے کہا۔امی نے مزید کوئی بات نہ کی اور خالی مگ اٹھا کر کچن میں چلی گئیں۔وہ اٹھا اور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔اسے معلوم تھا کہ سارے دن کی تھکی ہوئی ماں اب سو جائیں گی۔اس رات وہ نادیہ سے بات نہیں کرسکا۔اس نے فون بند کیا اورسوجانے کی کوشش کرنے لگا مگر ساری رات وہ یونہی بے چین رہا۔سوتے جاگتے اس نے وہ رات بتا دی تھی۔
وہ پارک کے پر سکون ماحول میں نادیہ ہی کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا۔صبح جب اس نے فون کھولا تو پیغامات کی بھر مار تھی جو رات بھر وہ وقفے وقفے سے بھیجتی رہی تھی۔اس نے یہ طے کر لیا تھا کہ اب وہ کسی سے تعلق نہیں رکھے گا۔لیکن کیا وہ نادیہ کو بھی چھوڑ دے گا؟ سوال اسے خود بے چین کیئے دے رہا تھا۔اس کی زندگی میں آنے والی وہ واحد لڑکی تھی جوبے ضرر ثابت ہوئی تھی۔وہ جتنی بھی باتیں کرتی بھی سبھی،اس کے یا اس کی شاعری کے بارے ہی میں ہوتی تھیں۔کہیں بھی کسی لالچ کا شائبہ نہیں تھا۔وہ صرف اور صرف زندگی کے بارے میں باتیں کیا کرتی تھی۔نادیہ نے اپنی ذات کے اردگرد ایک حصار بنا رکھا تھا۔اور اس نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جو اس حصار میں جھانکنے کی اجازت دے رہی ہو۔اس نے بڑی خوبصورتی سے اپنی ذات کو الگ کرکے رکھا ہوا تھا۔وہ بینچ پر بیٹھا بہت دیر تک سوچتا رہا۔اس کے اپنے من میں کوئی ایسا تھا کہ سارے دلائل ہی نادیہ کے حق میں جا رہے تھے۔یہ الگ بات تھی کہ وہ اس سے ناطہ توڑے مگر اس کے پاس کوئی جواز نہیں تھا۔انہی لمحات میں نادیہ کا پیغام اس کے سیل فون پر آ گیا ۔جس میں یہی سوال تھا کہ آخر وہ اپنی خاموشی کی وجہ تو بتا دے؟تب جواز نہ ہونے کی کم مائیگی مزید بڑھ گئی۔شعیب نے لاشعوری طور پر اس کے نمبر پش کر دیئے ۔چند لمحوں بعد ہی رابطہ ہو گیا۔
’’اختر۔!ایسی کیا وجہ ہو گئی تھی جو آپ نے فون نہیں سنا۔‘‘نادیہ کے لہجے میں انتہائی تجسس ملا خوف تھا۔
’’بس یونہی،رات میری طبیعت خراب تھی۔اب ٹھیک ہوں۔‘‘اس نے نرم لہجے میں جواب دیا۔
’’اوہ۔!مجھے ڈر تھا کہیں آپ گم ہی نہ ہو جائیں۔‘‘وہ جھجکتے ہوئے خوشگوار لہجے میں صاف گوئی سے بولی تو شعیب کو اس کی معصومیت بہت اچھی لگی۔
’’اور اگر میں کسی دن واقعی ہی گم ہو گیا تو۔۔؟‘‘اس نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
’’میں نہیں جانتی کہ میرے ساتھ کیا ہو گا۔لیکن اتنا احساس ہے کہ میں زندگی کے خوبصورت ترین احساس سے محروم ہو جاؤں گی۔جو میری زندگی میں خوشگواریت لے آیا ہے۔‘‘وہ جذب سے بولی
’’کیا میرے ساتھ تعلق کو تم اتنی ہی اہمیت دیتی ہو۔‘‘اس کے حیرت سے پوچھا۔انہی لمحات میں اسے اپنی امی کا خدشہ درست معلوم ہوا۔
’’ہاں۔!ایسا ہی ہے۔اور یقین جانیںیہ انکشاف مجھے رات ہی ہوا تھا۔آپ کے تعلق سے اب میں اپنی تنہا اور سپاٹ زندگی میں خوبصورت اور من موہنے خیالوں کا ہجوم اپنے ہمراہ پاتی ہوں جو مجھے تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتے اور یہ بھی کہ اب مجھے سپاٹ زندگی کی اذیت سہنا پڑتی ہے۔‘‘وہ پتہ نہیں کس حد تک جذباتی ہو چکی تھی۔
’’فرض کیا میں تمہاری زندگی سے نکل جاؤں تو پھر۔۔۔؟‘‘اس نے ایک خیال کے تحت پوچھا۔
’’جب وہ وقت آئے گا تو دیکھ لوں گی۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھیگ گئی تھی۔پھر فوراً ہی خود پر قابو پاتے ہوئے بولی ’’تو میں آئندہ آپ کو ڈسٹرب نہیں کروں گی۔‘‘
’’بات یہ ہے نادیہ۔!میں بے روزگار بندہ،نوکری کی تلاش میں ہوں۔مجھے ان چند دنوں میں ایک نوکری کی امید ہے۔اگر یہ نوکری لگ گئی تو پھر وقت بے وقت کی مجبوری تو ہو جائے گی نا۔۔۔راتوں کو دیر دیر تک کیسے باتیں کر سکیں گے۔۔‘‘اس نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’اختر۔!آپ شاعر ہیں۔آپ تو اس بات کو ضرور سمجھتے ہوں گے۔بعض تعلق ایسے ہوتے ہیں اگر ان سے برسوں بات بھی نہ ہو تو بھی تعلق کے برقرار رہنے کا احساس رہتا ہے۔یہ میرا وعدہ ہے ۔میں آپ کی کسی کامیابی میں آڑے نہیں آؤں گی۔‘‘وہ پر سکون انداز میں بولی۔
’’ٹھیک ہے ۔۔اگر ہم بات نہ بھی کرسکے تو ہمارے درمیان خوشگوار تعلق کا خوبصورت احساس ضرور رہے گا۔‘‘اس نے کہا اور ایک دم سے پر سکون ہو گیا۔رات سے جو لاشعوری پریشانی اس سے لپٹی ہوئی تھی وہ ایک لمحے میں اس سے آزاد ہو گیا۔اس نے سوچ لیا تھا کہ چند دنوں میں نادیہ اسے بھول جائے گی۔جس طرح وہ بہت سارے لوگوں کو بھول گیا ہے۔نادیہ کے لیے فقط یہی تھا کہ دھیرے دھیرے اسے چھوڑ دیا جائے۔بہانہ تو اس کے ہاتھ لگ ہی چکا تھا۔انہی لمحات میں ایسا کچھ من میں در آیا تھا کہ جس سے پورے وجود میں انجانا غبار پھیل گیا تھا۔ایسا کیوں ہوا تھا،خود اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔وہ پارک سے اٹھا اور بھاء حمید کی ورکشاپ چل دیا۔
اگلے دو دنوں میں وہ بہت مصروف رہا تھا۔نادیہ سے بات ہی نہ کر سکا۔اسے سلامت نگر نامی قصبے میں جا کر ڈیوٹی کرنے کاحکم نامہ مل گیا تھا۔سلامت نگر تحصیل ہیڈکوارٹر تھااور وہاں کا سب سے بڑا انتظامی آفیسر متعین ہوا تھا۔وہ قصبہ لاہور سے بہت دور تھا۔شعیب سوچ میں پڑ گیا کہ پتہ نہیں وہاں کا ماحول کیا ہو گا۔اس نے پہلے وہ علاقہ نہیں دیکھا ہوا تھا۔ایسے میں وہ اپنے ساتھ امی کو لے کر جائے یا نہیں۔اسی شش و پنج میں اس نے یہی فیصلہ کیا کہ شروع کے دنوں میں وہ خود وہاں کاماحول دیکھے گا،پھر بعد میں حالات دیکھ کر اپنی امی کو بلالے گا۔وہ گھر آیا تو بہت خوش تھا۔اس کی امی نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں بیٹا۔!پھر کہاں ملی تمہیں ڈیوٹی ،میں بھی تمہارے ساتھ جا سکوں گی یا نہیں؟‘‘
’’امی۔!یہی تو سوچ رہا ہوں۔میں نے معلومات لی ہیں۔وہ علاقہ بہت دور ہے یہاں سے،پتہ نہیں کیسا ماحول ہو گا سلامت نگر کا۔۔۔‘‘
’’کیا۔۔کیا کہا تو ہے۔۔کون سی جگہ ہے۔؟‘‘اس کی اماں نے ہذیانی انداز میں پوچھا تو شعیب چونک گیا۔یہ اس کی امی کو کیا ہوا ہے ایک دم سے۔اس نے جگہ کے بارے میں دوبارہ بتایا تو اس کی امی کی حیرت اتنی شدید تھی کہ چہرے کا رنگ پیلا پڑگیا۔جیسے وہ بہت زیادہ خوف زدہ ہو گئی ہوں۔شعیب کے لیے یہ ردعمل حیرت انگیز تھا۔سلامت نگر کے نام سے ان کی یہ حالت ایسی کیوں ہو گئی تھی۔تبھی اس نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’اماں،کیا ہوا ہے آپ کو۔۔آپ کی حالت ایسے کیوں ہو گئی ہے؟‘‘
’’ہیں۔!کچھ نہیں۔۔۔مجھے کچھ نہیں ہوا۔۔تم اپنی ڈیوٹی بدلوا لو۔۔کہیں اور چلے جاؤ۔۔‘‘وہ بے ربط سے لہجے میں بولی
’’لیکن کیوں اماں؟‘‘اس نے شدت سے پوچھا تو اس کی امی چند لمحے اس کی طرف دیکھتی رہی پھر ایک دم سے خود پر قابو پاتے ہوئے بولیں۔
’’اتنی دور ۔۔اگر نہ جاؤ تو بہتر ہے۔پہلی بار مجھ سے جدا ہو کر اتنی دور جا رہے ہو نا۔۔تو عجیب سی حالت ہو گئی ہے میری۔۔اتنی دور اگر نہ جاؤ تو بہتر ہے۔۔‘‘ اس کی امی نے پر اعتماد لہجے میں کہا ۔تب وہ اٹھا اور اپنی ماں کو اپنے ساتھ لگا کر بڑے پیار سے بولا
’’میں کوشش کروں گا کہ وہاں نہ جاؤں۔۔لیکن یہ سرکاری احکام ہیں۔پہلی بار اچھا نہیں لگتا۔میں جلدی وہاں سے تبادلہ کروا لوں گا۔۔یا پھر آپ کو بہت جلدی وہاں بلوا لوں گا۔۔۔اور اگر آپ میرے ساتھ ہی جانا چاہتی ہیں تو چلیں۔‘‘اس نے حتمی انداز میں کئی سارے آپشن اپنی ماں کے سامنے رکھ دیئے۔
’’تم بیٹا،جلدی سے تبادلہ ہی کروا لینا۔پھر کسی اچھی سی جگہ پر میں تمہارے ساتھ ہی رہوں گی۔۔۔‘‘امی نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی۔‘‘اس نے کہا تو امی وہاں سے اٹھتے ہوئے بولیں۔
’’میں تمہارے لیے چائے بناتی ہوں۔‘‘
امی کچن میں چلی گئی تو شعیب سوچ میں پڑگیا ۔امی نے کبھی بھی ایسے ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اگر ماں اپنے بچوں کے بارے میں جانتی ہے تو بچوں کو بھی ماں کی بدلی ہوئی معمولی سے حالت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔سلامت نگر کے نام پر وہ یوں جذباتی کیوں ہوگئیں تھیں۔یہ محض اس کی دوری کی وجہ سے تھا پھر کوئی اور بات تھی؟کچھ تھا ،ورنہ وہ یوں ایک دم سے کھو نہ جاتیں۔ایسا کیا تھا؟کافی دیر تک سوچتے رہنے کے باوجود اس کی سمجھ میں نہیںآیا۔پھر اس کی امی چائے لے آئی۔وہ اس موضوع پر بات کرنا چاہتا تھا لیکن اپنی امی کی حالت دیکھ کر وہ ہمت ہی نہ کر سکا۔یونہی ادھر ادھر کی باتوں میں چائے ختم کر کے وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔اسے بہر حال سلامت نگر جانے کی تیاری کرنا تھی۔
ََََََ***
زبیدہ خاتون اپنے کمرے میں اندھیرا کئے جاگ رہی تھی۔وہ بستر پر پڑی مسلسل سوچتی چلی جا رہی تھی۔اس کی آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہیں تھا۔اس کے سامنے ایک اور امتحان آ گیا تھا۔ زندگی کا ایک طویل حصہ جو اس نے ریاضت میں گذارا تھا،وہ رائیگاں جانے والا تھا۔وہ ماضی، جس سے وہ خود آنکھیں چرا جایا کرتی تھی۔شعیب سے کیسے بیان کر سکتی تھی ۔ اگر بتاتی ہے تواس کا بیٹا ٹوٹ کر رہ جاتا۔کتنی مشقت بھری محنت سے اس نے شعیب کو پروان چڑھایا تھا۔اپنے بیٹے کو وہ جس مقام پر دیکھنا چاہتی تھی ۔وہ اس مقام تک پہنچ گیا تھا۔اب اگر اس کے ماضی کی جھلک بھی اس پر عیاں ہو جاتی ہے تو وہ اپنے مقام کی اونچائی سے پستیوں میں جا گرتا۔یہی وجہ تھی کہ وہ سلامت نگر کا نام سنتے ہی اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پائی تھی۔مگر اسے اپنا آپ سنبھالنا پڑا۔وہ ماضی بے نقاب ہو جانے کے خوف سے خاموش ہو گئی تھی۔ورنہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ شعیب کسی طور بھی وہاں جائے۔یہ وہی دیارتھا جہاں اس کا ماضی بکھرا پڑا تھا۔نجانے اسے کیوں یقین سا ہو گیا تھا کہ اگر وہ سلامت نگر چلا گیا تو کسی نہ کسی حوالے سے اس کا ماضی عیاں ہو جائے گا اور پھر جو طوفان اٹھے گا، اس کا سراسر نقصان ان دونوں ماں بیٹے کا تھا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ شعیب کو سلامت نگر جانے سے روک لے۔اس کا وہاں جانا اسے قطعاً قبول نہیں تھا۔مگر وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔زندگی اسے کس موڑ پر لے آئی تھی یہ تو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پھر سے اسے سلامت نگر سے واسطہ پڑ سکتا ہے، جہاں پیر سائیں کی حویلی تھی۔جس میں اس کا بچپن ہی نہیں،جوانی کے ایام بھی گذرے تھے۔
ان دنوں زبیدہ بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی۔عام لڑکیوں کی مانند اس کے من میں بھی خوابوں،خواہشوں اور امیدوں کا جہاں آباد ہو چکا تھا۔یقیناًان میں اتنی شدت نہ ہوتی اگر وہ بھی عام لڑکیوں کی طرح حویلی کے اردگرد بسی بستیوں میں سے کسی ایک بستی میں رہتی ہوتی۔حویلی میں آباد پیر گھرانے کی وہ بھی ایک فرد تھی۔لیکن عورت ہونے کے ناطے اس کی ذرا سی بھی حیثیت نہیں تھی جو ایک عام سی لڑکی کی ہوتی ہے۔وہ روایات کی زنجیروں میں بندھی ہوئی تھی۔اس نے ہمیشہ ایک عام سی لڑکی کی طرح سانس لینے کی آرزو کی تھی۔وہ پرندوں کی طرح آزاد فضاؤں میں اُڑنا چاہتی تھی ۔نیلے آسمان کو چھونے کی خواہش کرتی تھی۔ بادلوں میں تیرنے کی آرزومند تھی۔مگر جیسے ہی خود کو دیکھتی ،اسے اپنے پر بندھے ہوئے ملتے اور وہ بے بسی سے حویلی کی چاردیواری میں پھڑپھڑا کر رہ جاتی۔اس کی دنیا محض اتنی سی تھی کہ وہ ہر جمعرات کو دربارشریف پر اپنی ملازماؤں کے ساتھ چلی جاتی۔وہ پورے جسم پر حجاب اوڑھے ہوتی۔اس کی آمد پر وہاں موجود خواتین اس کے اردگرد جمع ہو جاتیں۔وہ فاتحہ خوانی کے لیے تھوڑی دیر ٹھہرتی اور پھر پلٹ کر واپس حویلی آ جاتی۔بس یہ اس کی کل کائنات تھی۔
پھر ایک دم سے اس کی زندگی میں طوفان آ گیا۔اس نے کاشف کو پہلی بار دربار شریف پر ہی دیکھا تھا۔وہ مزار کے اندر کھڑا پورے جذب سے محوِدعا تھا اور زبیدہ مزار کے باہر کھڑی جالیوں میں سے اندر دیکھ رہی تھی۔کاشف کے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی اس کے دل کی دنیا اتھل پتھل ہو گئی۔یہاں دربار شریف پر آتے جاتے اس نے نجانے کتنے چہروں کو دیکھا تھا۔کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ اس کے من کے موسم میں ذرا سی بھی تبدیلی آ جائے۔اس کے اندر تو ایک طویل خزاں کا موسم بس چکا تھا۔کاشف پر نگاہ پڑتے ہی موسم اچانک بدل گیا تھا۔اسے احساس ہونے لگا کہ خزاں کے بعد اب بہار کی آمد آمد ہے ۔اس نے یوسف ؑ اور زلیخا کا قصہ بڑی دفعہ سنا تھا۔اسے کبھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ زنانِ مصر نے اپنے ہاتھ کیوں کاٹ لیے تھے۔اگرچہ وہ نہ تو زلیخا تھی اور نہ ہی سامنے کھڑا کاشف یوسف تھامگر زبیدہ کو سمجھ آ رہی تھی کہ زنانِ مصر کی انگلیاں کس طرح کٹ گئیں تھیں۔اونچا لمبا قد،گلابی لشک مارتا ہوا سفید رنگ،بھرا بھرا جسم، بھاری مونچھیں،چھوٹے چھوٹے سیاہ بالوں پر سفید جالی دار ٹوپی،براؤن کرتے اور سفید گھیرے دار شلوار میں وہ کس اور ہی جہاں کا فرد لگ رہا تھا۔زبیدہ نے اسے دیکھا اور پھر دیکھتی ہی رہ گئی۔کاشف نے فاتحہ خوانی کی ،کچھ دیر مودب کھڑا رہا اور پھر وہاں سے چلا گیا۔زبیدہ کو یوں لگا جیسے اس کا اپنا آپ بھی اسی کے ساتھ چلا گیا ہے۔وہ وہاں سے حویلی پلٹ آئی لیکن اسے یوں لگا جیسے وہ اپنا سب کچھ وہیں دربار پر چھوڑ آئی ہے۔انسان کا ایک اپنا پن ہی تو ہوتا ہے اس کے پاس۔وہ ہی نہ رہے تو پھر باقی کیا بچتا ہے۔
موسمِ خزاں میں جذبات کی ہلکی ہلکی پھوار میں جب ہجر کے بادل چھا جائیں تب پھوار تیز بارش میں بدل ہی جایا کرتی ہے اور بہار آنے کی نوید مل جاتی ہے۔ایسے میں سوچوں کی نئی نئی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں۔ابھی خوشبو نہیں پھیلی تھی مگر خوشبو کے احساس ہی سے وہ مدہوش ہونے لگی تھی۔جذبات کی بارش میں بھیگی ،خوشبو کے احساس سے مدہوش اور محدود سوچوں کے حصار میں قید وہ خود کو ایک نئے جہاں کا باشندہ تصور کرنے لگی۔ساری دنیا ایک کاشف کی ذات میں سمٹ آئی تھی۔جیسے یہ شائبہ تک نہیں تھا کہ کوئی اسے اتنا ٹوٹ کر چاہنے لگا ہے کہ اس کا اپنا آپ بھی نہیں رہا۔وہ اگلی جمعرات دربارشریف پر گئی تو کاشف اسے کہیں بھی دکھائی نہیں دیا۔وہ معمول سے کہیں زیادہ وقت وہاں رہی۔لیکن دیدار نہ پا سکی اور مایوس لوٹ آئی۔وہ دل ہی دل میں اسے دیکھنے کی حسرت لیے نجانے کتنی بار دعا کر چکی تھی۔پھر ایک دن اسے یوں لگا جیسے اس کی ساری دعائیں قبول ہو گئیں۔وہ حیرت سے بت بن گئی ۔وہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی ہوئی تھی،جہاں سے حویلی کے مردان خانے کا تھوڑا سا صحن دکھائی دیتا تھا۔کاشف وہاں کھڑا اسے دکھ رہا تھا۔وہ ایک دم پسینے میں نہا گئی اور بے ترتیب سانسیں لیے کتنی ہی دیر تک اپنے بیڈ پرپڑے سوچتی رہی۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ خواب ہے یا حقیقت۔۔۔
کاشف محکمہ انہار میں دوسرے درجے کا آفیسر تھا۔وہ محکمے کی طرف سے سلامت نگر آیا تھا۔اس وقت زبیدہ کے والدپیر سائیں تھے۔جنہوں نے اپنی زمینوں کے لیے نہر کے بندوبست کی خاطر عملے کو بلوایا تھا۔اسی لیے کاشف اور دیگر اہلکاروں کو مردان خانے میں رہنے کے لیے جگہ دی گئی۔وہیں سلامت نگر میں ان کا تین مہینے رہنے کا پراجیکٹ تھا۔وہ سب لوگ صبح کے نکلے، شام ڈھلے واپس آتے۔زبیدہ اور کاشف کی پہلی بار نگاہیں چار ہوئیں تو پھر یہ آنکھ مچولی چل نکلی۔وہ سارا دن اس کے انتظار میں گذار دیتی۔صبح کا ذرا سا وقت یا پھر شام کو تھوڑی سی دیر کے لیے وہ اسے دیکھ سکتی تھی۔اس سے بات کرنے کی خواہش دن بدن بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔لیکن حویلی میں رہتے ہوئے ایسا ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔زبیدہ کی خاص ملازمہ شرماں مائیؔ کو اس کی دلچسپی کے محور کے بارے معلوم ہو گیا۔وہ اس راز سے واقف ہوئی تو ایک راستہ نکل آیا۔ ان دونوں کے درمیان پیغام رسانی کا وہ واحد ذریعہ بن گئی۔جس کے باعث دونوں میں تعلق پروان چڑھنے لگا۔شرماںؔ مائی پر تو نوازشات کی بارش ہونے لگی۔تقریباًدو مہینے یونہی گذر گئے۔شرماں ؔ مائی کا کچا گھر پکا ہو گیا اور زبیدہ کو احساس ہی نہیں ہوا کہ دن کس طرح گذر گئے۔ورنہ تو اس حویلی میں دن گذارنا مشکل ہو جایا کرتا تھا۔ان دونوں میں تعلق اس عروج پر آ گیا کہ ملنے کی خواہش انہیں بے جان کرنے لگی۔
ایک شام زبیدہ کو یہ پیغام ملا کہ مردان خانے میں کوئی نہیں ہے۔سارے ساتھی اہلکار اپنے اپنے گھروں کو گئے ہوئے ہیں۔اگر کوئی راستہ نکل سکتا ہے تو آ جائے۔موقعہ ہے ۔پیغام ملتے ہی وہ ماہی بے آب کی مانند تڑپنے لگی ۔رات ذرا گہری ہوئی تو شرماں مائی کی وساطت سے وہ مردان خانے میں جا پہنچی ۔پورے جسم کو وہ بڑی سی چادر میں لپٹائے اندھیرے ہی کا حصہ معلوم ہو رہی تھی۔دالان میں کھڑا کاشف اس کا منتظر تھا۔وہ دونوں آمنے سامنے ہوئے تو کتنی دیر تک وہ ایک دوسرے سے ایک لفظ بھی نہ کہہ سکے۔بس نگاہوں ہی نگاہوں میں ایک دوسرے کو اپنے من میں اتارتے رہے۔زبیدہ کا دل پورے وجود سمیت دھڑک رہا تھا۔کتنے ہی لمحے یونہی بیت گئے ۔تب کاشف نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔
’’زبیدہ ۔!میں جانتا ہوں کہ ہمارے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے۔جیسے نہ تم پار کر سکتی ہو اور نہ میں۔کیوں نہ ہم اپنے بڑھتے قدموں کو روک لیں،ورنہ پچھتاوا ہمارا مقدر بن جائے گا۔
’’میں تو یہ فاصلہ کب کا پار کر چکی ہوں۔ہاں،اگر آپ نہ پار کر سکتے ہوں تو یہ الگ بات ہے۔اسے میں اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لوں گی۔‘‘اس نے مایوسی کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے کہا۔
’’جذبے اگر سچے ہوں نا تو کچھ بھی نا ممکن نہیں ہے۔میری بات چھوڑو،اپنی کہو ، صرف باتوں سے یا خیالوں میں فاصلے پار نہیں ہوا کرتے۔حقیقت کچھ اور ہے ۔میں نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی عتاب نازل ہو۔‘‘اس نے پورے خلوص سے کہا۔
’’آپ مجھے اپنے مضبوط سہارے کا احساس دلا دیں ۔میں آپ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کو تیار ہوں۔اس سفر میں چاہیں جتنی مشکل آئے۔‘‘وہ محبت سے سرشار لہجے میں بولی۔
’’اگر ایسی بات ہے تو چلو،اس دنیا سے نکل چلتے ہیں اور دور کہیں اپنی دنیا بسا لیتے ہیں۔‘‘کاشف نے اچانک فیصلہ کن انداز میں کہا تووہ پوری جان سے چونک گئی۔اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ حویلی سے باہر کی دنیا میں بھی سانس لے سکتی ہے۔کوئی نئی دنیا بھی بن سکتی ہے۔اُسے یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کی شادی نہیں ہو پائے گی۔اس کا احساس بہت پہلے اسے دلا دیا گیا تھااور اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ ساری زندگی اسی حویلی میں گذرنی ہے ۔یہی وہ لمحات تھے جب زبیدہ نے بھی فیصلہ کر لیا۔
’’ٹھیک ہے میں تیار ہوں۔‘‘اس نے ایک دم سے اپنے فیصلے کا اظہار کر دیا۔
’’تو جاؤ،واپس چلی جاؤ اور اس لمحے کا انتظار کرو،جب میں تمہیں یہاں سے لے جاؤں گا۔‘‘کاشف نے اس یقین واعتماد سے کہا کہ پورے وجود سے بھیک گئی۔وہ انہی قدموں پر پلٹ کر اپنے کمرے تک آن پہنچی اور اسی وقت سے اس لمحے کا انتظار کرنے لگی تھی۔پھر وہ کبھی نہیں ملے۔بس ایک درسرے کو دیکھ لیا کرتے تھے۔دن یونہی انتظار میں گھلتے رہے ۔تب ایک شام شرماں مائی نے زبیدہ خاتون تک یہ پیغام پہنچایا کہ آج رات یہاں سے نکل جانا ہے۔وہ لمحہ لمحہ انتظار کرتی ہوئی اس لمحے تک آن پہنچی ،جب اس نے حویلی سے باہر قدم رکھ دیا۔وہ کاشف کے ساتھ،حویلی سے بہت دور لاہور کی گنجان آبادی میں آ گم ہوئی۔کاشف اسے اپنے گھر نہیں رکھ سکا۔کیونکہ وہ خوف زدہ ہو گئے تھے۔بعد میں ہوا بھی ایسے ہی تھا۔وہ تو نکاح کے بعد ایک الگ گھر میں رہنے لگے اور حویلی والے کاشف کو تلاش کرتے اس کے گھر والوں تک پہنچ گئے۔انہوں نے محکمانہ دفتر ہی کو ذریعہ بنایا تھا۔کاشف نے چھٹی لے رکھی تھی۔حویلی والوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ زبیدہ اور کاشف نکاح کر چکے ہیں اور زبیدہ ایک بچے کی ماں بننے والی ہے تو خاموشی چھا گئی ۔کاشف ان کے سامنے ڈٹ گیا تھا۔کاشف ہی کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ اس کا بڑا بھائی ظاہر شاہ ان دونوں کے حق میں تھا لیکن چھوٹا دلاور شاہ ان کی جان کا دشمن بن گیا تھا۔یہ تو کاشف کے آفیسر درمیان میں پڑ گئے اور قانونی چارہ جوئی کے بعد بات عدالت تک جانے والی تھی کہ اچانک ایسی خاموشی چھائی تھی کہ جیسے اس کا وجود حویلی والوں کے لیے کبھی تھا ہی نہیں۔وہاں حویلی میں کیا ہوا،کیا نہیں ہوا؟ اسے کوئی خیر خبر نہ ملی تھی۔وہ ان سے دور کیا ہو گئی کہ سب کچھ بھول کر اپنی دنیا میں کھو گئی۔یہاں تک جب شعیب چند سال کاہوا تو کاشف اس دنیا میں نہ رہا۔زبیدہ نے وہیں بسیرا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔اس کے سامنے اپنے بیٹے کی پرورش تھی۔جس میں وہ پوری طرح کامیاب ٹھہری تھی۔ زندگی بڑے سکون سے گذر رہی تھی کہ اس کی زندگی میں پھر سے سلامت نگر آ گیا۔وہ ساری رات اپنی بے بسی سے الجھتی رہے تھی۔جس وقت اذانیں ہونا شروع ہوئیں تو اسے اپنے ماضی سے پلٹنا پڑا۔انہی لمحات میں اس نے ایک دم سے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے بیٹے پر اس وقت تک یہ راز افشاء نہیں کرے گی ،جب تک حالات ایسا نہیں چائیں گے۔ممکن ہے بہت جلد اس کا تبادلہ ہو جائے۔اس کا راز، راز ہی میں رہے اور اس کا مان یونہی برقرار رہے۔تب اس نے اپنے بیٹے کے ساتھ نہ جانے کا بھی فیصلہ کر لیا۔کہیں کوئی جذباتی لمحہ اس کا ماضی کھول کر نہ رکھ دے اس نے یہ سب طے کیا اور پرسکون ہو کر اٹھی اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہو گئی۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...