یوسف اختراردو کے دوسرے اہم ماہیا نگاروں کی نسبت قدرے تاخیر سے ماہیا نگاری کی طرف آئے لیکن انہوںنے مختصر سے عرصہ میں اپنی عمدہ اور خوبصورت ماہیا نگاری سے اپنی تاخیر کی تلافی کر دی ہے۔ ان کے ماہیوں میں محبوب کی یاد سے لے کر انسانی مسائل تک جذبات کا اظہار دیہاتی ماحول کے تناظر میں ہوا ہے۔ یہ دیہاتی ماحول جہلم کے دریا کے پانی سے چلتا ہوا ہزارہ کے دریائے سرن سے ہوتا ہوا کشمیر کے دریائے نیلم کے کنارے تک آباد ہوتا چلا جاتا ہے۔
جہلم ترے دھاروں کی
بھول نہیں سکتے
ہم آگ چناروں کی
کچھ کھیت ہیں سرسوں کے
توڑ کے مت جانا
یہ رشتے برسوں کے
بہتا ہے سرن ڈھولا
صبح بنارس کی
تو پہلی کرن ڈھولا
گاﺅں سے نکل آئے
دھوپ میں ہجرت کی
چھاﺅں سے نکل آئے
نوخیز جوانی میں
سپنے ڈوب گئے
نیلم ترے پانی میں
کیوں آگ لگاتے ہو
دھان کے کھیتوں میں
سورج کو اُگاتے ہو
یوسف اختر کے ماہیوں میں خوشی کی کھلی کھلی کیفیت ملتی ہے ۔وصل اور جدائی دونوں میں ہی محبت کا مسرت آمیز اظہار ملتا ہے جیسے ا نہیں یقین ہو کہ جدائی عارضی سی ہے اور جدائی کے ان لمحات کے بعد پھر وصل نصیب ہوگا۔ان کے ایسے چند ماہیے دیکھیں:
کچنار کے پھول آئے
دل تری ٹیبل پر
ساجن ہم بھول آئے
برگد کی چھاﺅں کو
بھول نہیں سکتے
گوری ترے گاﺅں کو
ان چاندنی راتوں کے
بھید نہیں کھلتے
ڈھولا تری باتوں کے
ہم دل کو ٹٹولیں گے
پیار کے دعوے کو
میزان پہ تولیںگے
تصویر کرے کوئی
وصل کے لمحے کو
زنجیر کرے کوئی
اس دل کو وہ الجھائے
بیٹھ کے کھڑکی میں
جب زلف کو سلجھائے
دریا کی روانی ہے
ہاتھ ہواﺅں کے
اب اپنی کہانی ہے
اک بات کہوں ڈھولا
کانٹوں سے ہم نے
پھولوں کو نہیں تولا
ماہیے میںخوشی کی ایسی کیفیت یوسف اختر کی خاص پہچان ہے کیونکہ اردو میں ابھی تک اس نوعیت کے ماہیے بہت کم کہے گئے ہیں۔ ان کے اس مزاج کے باعث ان کے ماہیوں میں غم کے مضامین میں بھی دکھ کے احساس کے باوجود جیسے خوشی کی کوئی زیریں لہر سی محسوس ہوتی ہے۔ شاید یہ دکھ کو دکھ دینے والے کی مہربانی سمجھ کر قبول کرنے کا رویہ ہے ۔ ان کے ایسے چند ماہیے دیکھیں:
یادوں کے دئیے رکھنا
ہجر کے موسم میں
ہونٹوں کو سئیے رکھنا
اس شب کی سیاہی میں
روتے رہے ساجن
ہم تیری جدائی میں
ہراپات مسوری کا
زخم نہیں بھرتا
اس چاند سے دوری کا
تنہا نہیں ہو جانا
شہر کی گلیوں میں
رسوا نہیں ہو جانا
ٹوٹے ہوئے تاروں سے
آس لگاتے ہو
ہم ہجر کے ماروں سے
خوشبو کے سفیروں کا
کون پتہ دے گا
اب تیرے فقیروں کا
پربت پر شام اتری
صدیوں کی تنہائی
ڈھولا مرے نام اتری
کچھ پیار بھری باتیں
اپنا اثاثہ ہیں
دو چار ملاقاتیں
یوسف اختر کے بعض ماہیوں میں سماجی اور سیاسی بے رحمی کا ذکر بھی آیا ہے۔ اس حوالے سے پہلے کراچی اور کشمیر کے بارے میںان کے یہ دو ماہیے دیکھیں:
یہ شہر نگاراں ہے
خون کی سرخی ہے
کیا رنگ بہاراں ہے (کراچی)
انگار برستے ہیں
پھولوں کی وادی
میں خار برستے ہیں (کشمیر)
یوسف اختر کے لہجے میں جو ملائمت ہے اس کا نتیجہ ہے کہ عمومی غیر منصفانہ سماجی صورتحال پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بھی وہ ایک حد سے زیادہ بلند آہنگ اور تلخ نہیں ہوتے۔اس موضوع کو چھوتے ہوئے یوسف اختر کا ملائم لہجہ ان کے ماہیوں کو نعرہ بننے سے بچا لیتا ہے۔ ان کے اس نوعیت کے چند ماہیے دیکھیں:
آنکھوں سے کشید ہوئے
حرف جو ہونٹوں کے
مقتل میں شہید ہوئے
کچھ سوچ کے نکلے تھے
خواب پرندوں کے
پر نوچ کے نکلے تھے
دولت کے پجاری ہیں
سچ کو چھپاتے ہیں
یہ کیسے لکھاری ہیں
کیسے ہو شناسائی
دھوپ کی بستی میں
کہیں چھاﺅں نہیں آئی
احساس یہ کب ہو گا
لہجے کی تلخی
کا کچھ تو سبب ہو گا
ناکردہ گناہوں کی
قید بہت کاٹی
ان شہر پناہوں کی
رشتوں سے محبت، بعض رشتوں کے ٹوٹنے کا دکھ اور بعض ٹوٹے ہوئے رشتوں کی المیہ صورتحال یوسف اختر کے ماہیوں میں یوں آئی ہے:
کچھ کانچ سے گہنوں کے
رشتے ٹو ٹ گئے
اک بھائی سے بہنوں کے
ریکھا تھی ہتھیلی پر
بھائی الجھ بیٹھے
بابل کی حویلی پر
خوش پھرتا ہے ماں جایا
بھائی کے بچوں نے
کھانا بھی نہیں کھایا
ماں کا رشتہ بڑا مقدس اور معتبر رشتہ ہے اردو ماہیے میں اس رشتے کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس رشتے کے تعلق سے یوسف اختر کے ماہیے مضمون کی تکرار کا احساس دلاتے ہیں۔ ماں کی دعا کا مضمون پہلے ہی سو رنگ سے باندھا جا چکا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اب اردو ماہیے میں اس سے ہٹ کر بھی کوئی بات کہی جائے۔ بہر حال ماں کی دعا کے حوالے سے یوسف اختر کے یہ دوماہیے بھی دیکھ لیں:
گھنگھور گھٹائیں ہیں
سایہ فگن سر پر
میری ماں کی دعائیں ہیں
ہم رہتے ہیں چھاﺅں میں
رکھتی ہے یاد ہمیں
ماں اپنی دعاﺅں میں
یوسف اختر کے ماہیوں میں نفس مضمون کی تکرار کی ایسی مثالیں بہت کم ہیں۔ عمومی طور پر ان کے ماہیوں میں خیال کی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے ماہیے پنجاب اور کشمیر کے سنگم پر واقع ہزارہ کے خوبصورت علاقہ کی مٹی سے جڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان میں پنجابی اور ہزاروی ثقافت کے ساتھ ساتھ پوٹھوہار ی اور کشمیری کلچر کے ہلکے ہلکے اثرات بھی ابھرے ہیں۔ یوں اردو میں ان کا لہجہ ماہیے سے ہم آہنگ ہو کر اس سے آگے بھی جاتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے چند خوبصورت ماہیے دیکھیں:
اجڑی ہوئی راہوں میں
اس نے گراڈالا
اپنی ہی نگاہوں میں
بچپن کی کہانی پر
بنیادیں رکھیں
بہتے ہوئے پانی پر
برسات میں پھاگن کی
یاد بہت آئی
بھولے ہوئے ساجن کی
اک خواب چنا ہوتا
رات کے آنگن سے
مہتاب چنا ہوتا
دیوار میں در رکھنا
چاہ کی پونجی کو
سنبھال کے گھر رکھنا
کبھی آکے مل ڈھولا
دیس پرائے میں
اکتا گیا دل ڈھولا
جینے تو دیا ہوتا
زہر جدائی کا
پینے تو دیا ہوتا
کاغذ کے گلابوں کی
کون چنے کرچیں
ٹوٹے ہوئے خوابوں کی
کوئی چنری ململ کی
سونے نہیں دیتی
چھن چھن تری پائل کی
زنجیر ہے پاﺅں کی
راہ نہیں بھولے
ڈھولا ترے گاﺅں کی
آنکھوں سے دورہوئے
خواب تھے شیشے کے
جو چکنا چور ہوئے
پھولوں کی نمائش میں
رستہ بھول گئے
ہم چاند کی خواہش میں
اگر یوسف اختر اپنی ماہیا نگاری میں اسی انداز سے آگے بڑھتے رہے تو اپنے منفرد لہجے کو مستحکم کر لینے کے بعد تمام ماہیا نگاروں میں اپنے رس اور نغمگی کے باعث الگ سے پہچانے جائیں گے ۔ اردو ماہیے کو یوسف اختر جیسے نغمہ ریز اور خوبصورت ماہیا نگار نے ابھی بہت کچھ دینا ہے۔
٭٭٭٭