“ارے واہ بھئی ساسو جی آپ نے دن بدن جوان ہوتی جا رہی ہو”
شفیق کمرے کے اندر آتا ہوا کشمالا کو دیکھ کر بولا جو کہ تازہ تازہ اپنے بالوں کو رنگ کیے بیٹھی تھی
“لو جی تم بھی چلے آئے ہو آج یہاں۔۔۔ چلو آ ہی گئے ہو تو یہی بیٹھ جاؤ”
کشمالا کو دلآویز کا شوہر اور اپنا یہ چھچھورا دماد سب سے زیادہ زہر لگتا تھا۔۔۔ آج کشمالا اپنی بڑی بیٹی دلآویز کے آنے پر جتنا خوش تھی اس کے شوہر کو دیکھ کر بدمزا سی ہوگئی
“اور سناؤ شفیق میاں اپنے گھر کی، تمہاری ماں اور بہنیں تو بہت خوش ہوگیں آج کل”
کشمالا شفیق کو ریکھ کر کوئی طنز کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی، مگر شفیق بھی اسی کا داماد تھا اس لئے پان چباتا ہوا کشمالا کی بات سن کر ہنسنے لگا
“آپ حویلی والے بڑے لوگ ہم غریبوں کا ایسے ہی خیال رکھتے رہے گے۔۔۔ پھر ہمارا خوش ہونا تو بنتا ہی ہے”
خاموش بیٹھی ہوئی دلآویز اپنے شوہر کو دیکھنے لگی
چند دنوں پہلے ایک بہت بڑی زمین کا فیصلہ شمشیر جتوئی کے حق میں ہوا، اس زمین کا پیسہ شمشیر جتوئی نے فیروز جتوئی اور شمروز جتوئی کے بچوں میں برابر کا تقسیم کردیا تھا یوں دل آویز کو ملنے والے پیسوں سے اس کے سسرال والے اور شوہر بہت خوش تھاا
“دادا سائیں اور سسُر جی نظر نہیں آرہے،،، کہیں دونوں باپ بیٹے سیر سپاٹوں میں موجیں کرنے تو نہیں نکلے ہوئے”
شفیق پورے ہال میں نظریں گھماتا ہوا کشمالا سے معنی خیزی سے پوچھنے لگا،،، سیر سپاٹے اور موجوں سے اُس کی کیا مراد تھی یہ کشمالہ خوب سمجھتی تھی جبکہ دلاویز خاموش بیٹھی ہوئی اپنے شوہر کی باتوں سے شرمندہ ہونے لگی
“وہ دونوں مردانے میں مردوں کے درمیان موجود ہیں اور بھلا مردوں میں تمہارا کیا کام،، اس لیے میں نے تمہیں یہی بیٹھنے کی دعوت دی، سیر سپاٹوں کی عمر تو اب تمہاری بھی نہیں رہی شفیق میاں۔۔ میرا مشورہ مانو تو اب مسخرہ پن چھوڑ کر زرا بردباری سے کام لینا شروع کردو”
جتنی سنجیدگی سے کشمالا اسے بھگو بھگو کہ لگا رہی تھی۔۔۔۔ وہ اتنا ہی زیادہ ہنس ہنس کر کشمالا کا خون جلائے جا رہا یہاں تک کہ پان کی لالی اس کے ہونٹوں سے چھلکنے لگی
“ارے میری پیاری سی ساسو جی سیر سپاٹوں سے عمر کا کیا تعلق،، دل جوان ہونا چاہیے مرد کا۔۔۔ کیوں بھئی دل صحیح کہہ رہا ہے نہ تیرا شوہر”
شفیق اب دلآویز کو مخاطب کرتا ہوا بولا جو ملول نظروں سے شفیق کو دیکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کر رہی تھی
“شانو شفیق میاں کے لیے اگالدان لے کر آ۔۔۔۔ تاکہ وہ منہ سے پیک تھوک سکیں
کشمالا اپنا غصہ ضبط کرتی ہوئی شانوں سے بولی
“ارے یہ تو شانو کی بیٹی مانو ہے ناں۔۔۔۔ کتنی جلدی جوان ہوگئی ہے” شفیق 17 سالہ مانو کو للچائ ہوئی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا جو کہ بلاوجہ میں شرماتی ہوئی اگالدان شفیق کے سامنے رکھ رہی تھی
“اے مانو چل باورچی خانے میں اپنی ماں کے پاس جا”
شفیق کی نظروں میں چھپی ہوئی غلاظت سے حویلی کے تمام فرد ہی واقف تھے۔۔۔ یہی وجہ تھی کشمالا شفیق کو دل ہی دل میں دل بھر کر کوسنے دیتی اور دلآویز سب کے سامنے شرمندہ ہوتی
“شفیق میاں دو جوان لڑکیوں کے باپ ہو تم، یہاں وہاں نظریں دوڑانے کی بجائے اب ان کے مستقبل کی فکر کرو،، میرے مخلصانہ مشورے پر ذرا سنجیدگی سے سوچنا۔۔۔۔ دلاویز میرے کمرے میں آ جا،، شفیق میاں جب تک اپنا دل ٹی وی دیکھ کر بہلا لیں گے”
کشمالا دلاویز کو بولتی ہوئی خود وہاں سے اٹھ کر چلی گئی اور شفیق برا مانے بغیر اگالدان میں پان کی پیک تھوکتا ہوا ریموٹ کنٹرول ہاتھ میں لے کر ٹی وی دیکھنے لگا
*****
“تم پھر میرا دماغ کھانے میرے کمرے میں چلی آئی”
صبح ہی صبح ژالے کو اپنے کمرے میں دیکھ کر تیمور خان اپنے منہ کے زاوئیے بگاڑتا ہوا بولا
“معاف کرنا خان، مگر میں زنگ لگی چیزیں نہیں کھاتی اور تمہارے کمرے میں، میں صرف اپنے کام سے آئی ہو”
ژالے بولتی ہوئی مزے سے صوفے پر بیٹھی
“یہ بھی شکر ہے صرف زنگ لگا ہے میرے دماغ کو، ورنہ جب سے تم اس گھر میں آئی ہو کھوپڑی میں دماغ بچا ہے یہی بہت بڑی بات ہے، ویسے تم یہاں پر بیٹھی کیو ہو جو بھی بولنا ہے کھڑے کھڑے بولو اور فوراً نو دو گیارہ ہوجاو”
تیمور خان ہمیشہ کی طرف بنا لحاظ کے بولا اور ٹاول ہاتھ میں پکڑے واش روم جانے لگا
“کیا خان تم بھی ہر وقت مرچیں چبائے رہتے ہو، کبھی کبھی پیار سے مسکرا لیا کرو، یقین کرو مسکراتے ہوئے تم زیادہ اچھے لگو گے”
ژالے اُس کو مشورہ دیتی ہوئی صوفے سے اٹھی وارڈروب کھول کر تیمور خان کے لیے کپڑے نکالنے لگی
“میں پیار سے مسکرا لیا کرو اور وہ بھی تمہیں دیکھ کر، اچھا مزاق ہے،، اور یہ سفید کلف لگا ہوا قمیض شلوار میں نہیں پہنو گا، اگر نکالنا ہے تو ڈھنگ کے کپڑے نکالو”
تیمور خان اس کے منتخب کیے سوٹ کو دیکھ کر بولا تو ژالے کے مسکراتے لب ایک پل کے لیے سکھڑے
“اگر تم یہ کپڑے پہنتے تو مجھے خوشی ہوتی خیر ژالے اپنے خان کی خوشی میں بھی خوش ہے”
وہ تیمور خان کو بولتی ہوئی قمیض شلوار دوبارہ وارڈروب میں رکھنے لگی۔۔۔ تیمور خان نے دیکھا اس کے ہونٹ اب مسکرا نہیں رہے تھے اور تیمور خان اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ نہیں چھین سکتا تھا۔۔۔
“رہنے دو اگر یہ قمیض شلوار نکال ہی دیا ہے تو آج یہی پہن لو گا، اب جلدی بولو کس کام سے آئی تھی”
تیمور خان اس کے ہاتھ سے اپنے کپڑے لیتا ہوا پوچھنے لگا تو ژالے بے ساختہ مسکرا دی
“یونہی تھوڑی نہ خان پر دل ہارا ہے”
ژالے بہت آئستہ سے بڑبڑائی
“کیا”
تیمور خان کو واقعی سنائی نہیں دیا ژالے نے اس کو کیا بولا
“میں کہہ رہی تھی وہ جو میری سہیلی ہے ناں زرمینے”
ژالے ایک دم سے تیمور خان کو بولنے لگی
“اب یہ نہ کہنا کہ تمہیں اس کے گھر چھوڑ کر آؤ،، اس کا بھائی سالا ایک نمبر کا کمین۔ ۔۔۔
تیمور خان غصے میں بولنے لگا
“اوئے خان، گالی نکال کر زبان گندی کرنے کی ضروت نہیں ہے،، مانا اُس کا بھائی لفنگا ہے مگر میری سہیلی بری نہیں۔۔۔ اُس کے باوجود اگر تم چاہتے ہو کہ میں زرمینے کے گھر نہیں جاؤ تو پھر میں نہیں جاؤ گی”
ژالے تیمور خان کو ٹوکتی ہوئی بولی۔۔۔ وہ اکثر تیمور خان کو اس کی بری باتوں پر ایسے ہی ٹوک دیتی۔۔۔ تیمور خان اس کی باتوں پر کم ہی اپنے کان دھرتا
“نوازش ہے آپ کی خالہ جی، اب ذرا میرے کمرے سے باہر جاؤ تاکہ میں شاور لے لو”
تیمور خان گھڑی میں ٹائم دیکھتا ہوا ژالے سے بولا
“میں نے تمہاری بات مانی ہے اور میں زرمینے کے گھر نہیں جا رہی ہوں،، اب تمہیں آج کے دن میری بات ماننی ہوگی”
ژالے اپنے دونوں ہاتھ سینے پہ باندھتی ہوئی تیمور خان کو دیکھ کر بولی
“بول بھی دو اب” تیمور خان بیزار ہو کر بولا وہ جانتا تھا جب تک ژالے کی بات نہیں سنے گا وہ اس کے کمرے سے ٹلنے والی نہیں
تیمور خان کی بیزار شکل دیکھ کر ژالے کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ ۔۔ ژالے چلتی ہوئی تیمور خان کے قریب آئی اس نے جیسے ہی اپنے ہاتھ تیمور خان کے چہرے کے آگے بڑھائے۔۔۔ تیمور خان ویسے ہی اپنا چہرہ پیچھے کرتا ہوا ژالے کو گھور کر دیکھنے لگا
تیمور خان کے گھورنے پر ژالے نے اس سے بھی زیادہ بڑی بڑی آنکھوں سے تیمور خان کو گھورا۔۔۔ اب تیمور خان خاموش کھڑا ہوں ژالے کی کاروائی دیکھ رہا تھا۔۔۔ اور وہ مزے سے اس کی مونچھوں کو تاؤ دے کر اوپر کر رہی تھی
“کلف کپڑوں میں اچھا لگتا ہے انسان میں نہیں،، اپنے اندر کا کلف نکال پھینکو خان۔۔۔ آنٹی سے آکڑ کر بات مت کیا کرو،، کل کھانے کی میز پر تمہارے رویے سے اُن کا کافی دن دکھا ہوگا۔۔۔۔ میں کلف زدہ کپڑوں میں آج ایک نرم انسان کو دیکھنا چاہوں گی، جو اپنی ماں سے اپنے کل کے روئیے کی معافی مانگے”
ژالے بہت نرم لہجے میں تیمور خان کو دیکھتی ہوئی سمجھانے لگی جیسے وہ کوئی چھوٹے بچے کو سمجھ آ رہی ہو
“میری امی کی چمچی ہو تم پوری” تیمور خان اپنی مونچھوں سے اس کے ہاتھ جھٹک کر بولا
“جیسے تم دادی حضور کے چمچے ہو”
وہ تیمور خان کے بال بگاڑتی ہوئی بولی
“میں کسی کا چمچا ومچا نہیں ہوں میں دادی حضور سے پیار کرتا ہوں”
وہ ژالے کا ہاتھ پکڑ کر سنجیدگی سے بولا
“تو پھر دوسرے کے پیار کو بھی چمچا گری کا نام مت دو۔۔۔ میں بھی آنٹی سے پیار کرتی ہو”
ژالے تیمور خان سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر اس کے کمرے سے باہر نکل گئی
وہ کچن میں موجود رات کے لئے کھانا بنا رہی تھی تب اسے خوشگوار حیرت کا احساس ہوا۔۔۔ اس نے تیمور خان کو کمرے سے نکلتا ہوا دیکھا وہ کلف لگے سفید قمیض شلوار میں زرین کے گرد اپنا بازو حائل کیے آستگی سے اسے کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔ ژالے کچن کی کھڑی سے یہ منظر دیکھ کر مسکرانے لگی
“بہت بہت شکریہ تمہارا”
تیمور خان کے گھر سے باہر جانے کے بعد زرین کچن میں آکر ژالے سے بولی
“کس بات کا آنٹی” ژالے ناسمجھنے والے انداز میں زرین کو دیکھ کر پوچھنے لگی
“یہ تو تیمور خان والا کمال کیا ہے تم نے اس کی بات کر رہی ہوں”
زرین مسکرا کر ژالے کو دیکھتی ہوئی بولنے لگی
“میں نے کوئی کمال نہیں کیا آنٹی،، آج خان کا اچھا موڈ تھا”
ژالے انجان بنتی ہوئی بولنے لگی تو زرین نے اس کے پاس آ کر اس کے دونوں ہاتھ تھامے
“تم اچھی لڑکی تو ہی، بہت اچھی بہو بھی ثابت ہوگی اس حویلی کی”
زرین کی بات سن کر ژالے کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا
“آنٹی”
وہ بےیقینی سے پوری آنکھیں کھولے زرین کو دیکھنے لگی
“خان تمہاری آنکھوں میں پنپتے ہوئے جذبے کو پہچان سکے یا نہ پہچان سکے مگر خان کی ماں پہچان سکتی ہے”
زرین بولتی ہوئی ژالے کے ہاتھ پر نرمی سے دباؤ ڈال کر وہاں سے چلی گئی
****
“ہماری ٹکٹ کینسل کیوں نہیں کروائی آپ نے شمروز،، اب میں اِس حالت میں ضیغم کو چھوڑ کر اعجاز بھائی کے پاس تو جانے سے رہی”
رمشا سوپ کا پیالا بیڈ پر بیٹھے ہوۓ ضیغم کو دیتی ہوئی شمروز سے بولی۔۔۔ جو کہ ضیغم کے بیڈ روم میں آکر رمشا سے،، اُس کے اور بچوں کی پیکنگ کے بارے میں پوچھ رہا تھا
“اِس بات کا شکوہ تم مجھ سے نہیں اِسی سے کرو،، اِس کے کہنے پر میں نے ٹکٹ کینسل نہیں کروائے تھے۔۔۔ اب تم جانو اور یہ”
شمروز جتوئی کے جواب دینے پر رمشا ضیضم کو گھورنے لگی
اسد اور وفا کے اسکول کی چھٹیاں تھی،، رمشا کا چھوٹا بھائی اسے اور بچوں کو اپنے پاس اسلام آباد بلوا رہا تھا مگر تین دن پہلے، جب شمروز جتوئی ضیغم کو زخمی حالت میں گھر لے کر آیا تھا تب رمشا نے اپنے اسلام آباد جانے کا پروگرام کینسل کردیا تھا
“چچی تین دن گزر گئے ہیں اب تو سر کی پٹی بھی کُھل چکی ہے میں بالکل ٹھیک ہوں،، چاچو کے کہنے پر ہی گھر میں ریسٹ کر رہا تھا اور اب تو اس بیڈ پر لیٹے لیٹے اُکتا چکا ہوں،، میں خود کل سے آفس جاؤ گا۔۔۔ اس لئے آپ اپنا اور بچوں کا پروگرام خراب نہیں کریں پلیز”
ضیغم نہیں چاہتا تھا کہ اس کی وجہ سے رمشا اور بچوں کا پروگرام خراب ہو ویسے بھی اب اس کو اپنا آپ بالکل فٹ محسوس ہو رہا تھا
سر کی چوٹ بالکل ٹھیک ہو چکی تھی مگر جب اُس نے شمروز جتوئی کو بتایا کہ یہ سردار اکبر خان کے پوتے تیمور خان کی کارستانی ہے تب شمروز جتوئی نے اسے خاموشی اختیار کرنے کو کہا جو کہ ایسے بالکل ٹھیک نہیں لگا مگر وہ شمروز جتوئی کی بات نہیں ٹالتا تھا اس لئے خاموش ہوگیا۔۔۔ شمروز جتوئی نے ہی اس واقعہ کا ذکر خاص طور پر ہوئی حویلی میں کرنے سے بھی منع کر دیا تھا
****
“اوہو اب کیا ہوگیا ہے اس کار کو”
روشانے بیزار ہو کر بولی۔۔۔ ایک ہفتے پہلے وہ سردار اسماعیل خان کے ساتھ شہر آ گئی تھی پہلے تو وہ کالج وین میں جایا کرتی تھی مگر اِس بار سردار اسماعیل خان نے نہ جانے کیا سوچ کر اس کے لیے ڈرائیور ارینج کردیا تھا جو اسے ہاسٹل سے لے کر کالج چھوڑتا اور کالج سے ہاسٹل
“گاڑی کا ٹائر پنچر ہو گیا ہے میم”
ڈرائیور کی بات سن کر روشانے میں کوفت کے عالم میں اس کو دیکھا آج اُسے کالج جلدی پہنچنا تھا اور وہ ویسے بھی لیٹ ہوگئی تھی اوپر سے گاڑی کی خرابی کا سن کر اُس کا موڈ ہی خراب ہونے لگا
“کالج کا راستہ یہاں سے دس قدم کے فاصلے پر رہ گیا ہے میں پیدل چلی جاتی ہو آپ ایسا کرو دو بجے تک مجھے کالج سے پک کر لینا”
اُسے کہیں آس پاس شاپ نہیں دکھ رہی تھی جو وہ گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرتا کرتی اس لیے ڈرائیور کو ہدایت دے دی ہوئی گاڑی سے اتر گئی
سر پر اوڑھے ہوئے دوپٹے کو مزید درست کرتی ہوئی وہ فٹ پاتھ پر چلنے لگی۔۔۔ وہ تو شکر تھا کہ ہفتے پہلے اسماعیل خان کے ساتھ شہر آنے پر دادی حضور اور تیمور خان نے خاص اعتراض نہیں کیا مگر اب تیمور خان کی دن بدن بڑھتی ہوئی بد تمیزی اور غصّے سے اسے خوف آنے لگا تھا روشانے تیمور خان کو سوچتے ہوئے روڈ کراس کر رہی تھی تب سامنے سے آتی ہوئی گاڑی کا ہارن نہیں سن پائی۔۔۔۔ شمروز جتوئی کے چیخنے اور ضیغم کے بریک لگانے پر روشانے نے جلدی سے روڈ کراس کرنا چاہا تبھی تیز رفتار سے آتی ہوئی بائیک سے وہ بری طرح ٹکرائی۔۔۔ بائیک والا خود بھی بائیک سمیت سڑک پر گرا ہوا تھا،، ضیغم نے سڑک پر بیہوش گری ہوئی لڑکی کو دیکھا جس کے گرد لوگوں کا ہجوم لگنا شروع ہونا گیا تھا۔۔۔ بائیک والا تو ہوش و حواس میں تھا مگر وہ لڑکی بے ہوش ہو چکی تھی شمروز جتوئی کے کہنے پر ہی ضیغم نے کار سائڈ پر کھڑی کی
“چاچو یہ تو وہی ہے اپھو کی بیٹی”
ضیغم نے جتنی حیرت سے شمروز جتوئی کو کہا وہ روشانے کو غور سے دیکھنے لگا
ایک لڑکی آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ میں موجود بوتل سے روشانے کے منہ میں پانی ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی
“یہ میری بھانجی ہے۔۔۔ بیٹا اٹھو”
شمروز جتوئی آگے بڑھ کر بولا اُس لڑکی کو بتاتا ہوا ساتھ ہی روشانے کو بھی اٹھانے لگا
“سر، ان کے سر پر چوٹ آئی ہے اِن کو تو فوری ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے”
وہ لڑکی شمروز جتوئی سے بولی۔۔۔ ضیغم اُن کے پاس آکر روشانے کو اٹھا کر کار کی طرف لے جانے لگا
****
“پیشنٹ کا نام کیا ہے”
ڈاکٹر نے شمروز جتوئی کو دیکھ کر سوال کیا
“روشانے”
جواب ضیغم نے دیا جس پر شمروز جتوئی ضیغم کو دیکھنے لگا۔۔۔ ضیغم نے کندھے اچکا کر شمروز کو لاعلمی کا اظہار کیا مگر ڈاکٹر کو تو کوئی نہ کوئی نام بتانا تھا اب نہ جانے اپھو نے اس کا کیا نام رکھا تھا
“جی تو مسٹر شمروز گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے روشانے کا پاوں مُڑنے کی وجہ سے ہلکی سی موچ آئی ہے جو اس آئینٹمینٹ کے مساج سے کل تک ٹھیک ہو جائے گی اور سر پر دو اسٹیچس آئے ہیں مگر یہ شکر ہے کہ سر کے اندرونی حصے پر کوئی چوٹ نہیں آئی۔۔۔ آپ چاہیں تو روشانے کو گھر لے جاسکتے ہیں”
ڈاکٹر شمروز جتوئی کو دیکھتا ہوا بولا شمروز جتوئی اور ضیغم ایک دوسرے کو دیکھنے لگے
روشانے کے کالج کے ڈریس سے ان دونوں کو یہ تو اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ یہی قریب کالج میں پڑھتی ہے مگر وہ یہاں پر کہاں رہتی ہے یہ ان دونوں کو علم نہیں تھا
بقول ڈاکٹر کے وہ اسٹیٹیچس لگنے کے دوران خوف سے وہ دوبارہ بے ہوش ہو گئی تھی مگر وہ بھی کوئی خاص فکر کی بات نہیں تھی
شمروز جتوئی اور ضیغم اسے اپنے گھر پر لے کر آگئے اگر رمشا اور بچے گھر پر موجود ہوتے تو روشانے کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے مگر کل ہی ضیغم اور شمروز جتوئی ان تینوں کو اسلام آباد کی روانگی کے لیے ائیرپورٹ چھوڑ کر آئے تھے
*****
“احتیاط سے لٹاؤ” ضیغم روشانے کے بے ہوش وجود گھر لا کر بیڈ پر لٹانے لگا تب شمروز جتوئی ضیغم سے بولا
ضیغم نے ایک نظر روشانے کے چہرے پر ڈالی اور شمروز جتوئی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ شمروز جتوئی ابھی تک روشانے کو دیکھ رہا تھا
“یہ تو واقعی ہو بہو رباب سے ملتی ہے ضیغم”
شمروز جتوئی روشانے کا چہرہ دیکھ کر ضیغم سے مخاطب ہوا
“اور خوبصورت بھی کتنی ہے”
بےخودی کے عالم میں وہ کیا کہہ گیا اس کو احساس تب ہوا جب شمروز جتوئی اُسے گھور کر دیکھنے لگا
“میرا مطلب ہے کہ چہرے پر کس قدر معصومیت ہے، کسی معصوم بچے کے جیسی کیوٹنیس”
ضیغم کھسیا کر شمروز جتوئی کو اپنی بات کی وضاحت دینے لگا
“یہ چھوٹی بچی ہی ہے ابھی”
شمروز جتوئی آبرو اچکا کر اپنے بھتیجے کو جتانے لگا
“جی معلوم ہے بچی ہے اور آپ کی بھانجی بھی”
ضیغم گھور کر شمروز جتوئی کو دیکھتا ہوا بولا
“ویسے تمہیں اس کا نام کیسے معلوم ہوا”
شمروز جتوئی ضیغم کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جس پر ضیغم ہنسا
“وہ تو ڈاکٹر کے سامنے میں نے ایسے ہی بول دیا تھا،، جب اپھو سے ملنے گیا تھا تب ان سے ایسے ہی کہہ دیا تھا کہ اس کا نام روشانے رکھیے گا، اب معلوم نہیں انہوں نے اس کا نام کیا رکھا ہے”
ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا شمروز جتوئی کو بتانے لگا
“یار سمجھ میں نہیں آرہا یہ بچی ہوش میں کیسے آئے گی،، ہم اسے یہاں پر لے تو آئے ہیں۔۔۔ مگر کالج ٹائم ختم ہونے کے بعد جب یہ واپس گھر نہیں پہنچے گی تو سب پریشان ہوں گے،، کہیں اس بچی کیلئے کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو جائے”
شمروز جتوئی فکرمند ہوتا ہوا ضیغم سے بولا
“اس کا بیگ کہاں رکھا ہے آپ نے،، اس میں اس کا سیل فون موجود ہوگا ہم اس کے گھر کال کرکے انفارم کردیتے ہیں اور ساتھ ہی صبح والی ٹریجیڈی کے بارے میں بھی بتا دیتے ہیں”
ضیغم اس کا بیگ اور فائل دیکھ کر بولا جو کہ شمروز جتوئی نے روم میں آکر ٹیبل پر رکھا تھا
“نہیں پہلے اِسے ہوش میں لانا چاہیے پھر جو یہ کہے گی وہی کریں گے۔۔۔ میں نہیں چاہتا یہ بچی کسی بھی مسئلہ کا شکار ہو”
شمروز جتوئی ضیغم سے بولتا ہوا روشانے کے پاس آیا
“بیٹا کے کھولیے” شمروز جتوئی روشانے کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہؤا شفقت سے بولا مگر وہ ویسے ہی لیٹی رہی تب ضیغم بھی اس کے پاس آیا
“روشانے،،، فوراً آنکھیں کھولو”
ضیغم روعب دار آواز میں روشانے کو دیکھ کر بولا تو ایک دم روشانے نے اپنی آنکھیں کھولی
آآآآآآ
روشانے نے آنکھیں کھولنے کے ساتھ ہی اپنے سامنے کھڑے دو آدمیوں کو دیکھا۔۔۔ جن میں سے ایک وہی تھا جس نے تیمور خان کی بری طرح پٹائی کی تھی۔۔۔ دادی حضور نے بتایا تھا کہ وہ اسکی فیملی کے دشمن ہیں،،، تبھی وہ بیڈ سے اُٹھ بیٹھی اور زوردار آواز میں چیخنے لگی
“بیٹا آپ اتنی زور سے چیخ کیوں رہی ہو، خاموش ہو جائیں پلیز”
اُس کے چیخنے پر شمروز جتوئی روشانے کو سمجھاتا ہوا بولا مگر روشانے کی چیخوں کے آگے اُس کی آواز کہیں دب سی گئی تھی۔۔۔ وہ شمروز جتوئی کے قریب آنے پر مزید زور لگا کر چیخنے لگی
“اے خاموش بالکل، دماغ ٹھیک ہے تمہارا،، یا تمہیں ہمارے کانوں کے پردے پھاڑ کر ہمہیں بہرہ کرنا ہے”
ضیغم اُس سے بھی زیادہ زور سے دھاڑ کر بولا تو روشانے ایک دم خاموش ہو گئی اور ضیغم کو دیکھ کر جلدی سے دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپانے لگی جیسے کہیں سے تیمور خان نکل آئے گا اور اُسے بے پردہ دیکھ کر مار ڈالے گا
“دیکھیں پلیز،، میں آپ دونوں کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے گڈنیپ کرکے آپ دونوں کو کیا ملے گا۔۔۔ آپ لوگ پلیز مجھے چھوڑ دیں مجھ پر رحم کریں”
یہ لوگ اس کے گھرانے کے دشمن تھے اور اس کی بےہوشی کا فائدہ اٹھا کر اُسے یہاں اپنے ساتھ لے آئے تھے۔۔۔ روشانے کو ضیغم کو دیکھ کر ایسا ہی کچھ سمجھ میں آیا تھا۔۔۔ جبکہ شمروز جتوئی اور ضیغم اس کی بات سن کر منہ کھولے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے
“تم اپنے آپ کو سمجھ کیا رہی ہو،، تم کسی ریاست کی شہزادی ہو یا پھر آسمان سے اتنی کوئی حور،، جو ہم تمہیں اغوا کریں گے۔۔۔ یا پھر تمہیں ہم دونوں شکل سے یا حُلیہ سے غنڈے موالی لگ رہے ہیں،، حد ہوتی ہے چاچو واپس پھینک کر آئیں اس ٹینشن کو یار”
ضیغم روشانے کی سوچ پر اُس کو ڈانٹتا ہوا بولا تو روشانے اُس کے ڈانٹنے میں سے مزید سہم کر رونے لگی اس کا چہرہ ابھی بھی دوپٹے میں چھپا ہوا تھا مگر آنکھوں سے نکلتے آنسو نمایاں ہو رہے تھے
“کیا کر رہے ہو ضیغم ڈراؤ تو نہیں بچی کو،، وہ رو رہی ہے”
شمروز جتوئی روشانے کی حالت دے کر ضیغم سے بولا۔۔۔۔ پھر روشانے کے پاس آکر اسے نرمی سے بولا
“بیٹا آپ روڈ کراس کر رہی تھی تب ایک بائیک آپ سے ٹکرا گئی تھی جس کی وجہ سے آپ بیہوش ہوگئیں۔۔۔ زخمی تھی تو میں اور ضیغم آپ کو اسپتال لے گئے آپ کا ایڈریس معلوم نہیں تھا اس لئے یہاں اپنے گھر لے آئے۔۔۔ ویسے بھی آپ غیر نہیں ہوں، آپ کو شاید علم نہ ہو میں آپ کی ماما کا سگا بھائی ہو یعنی آپ کا ماموں”
شمروز جتوئی نے اسے سارے حالات تفصیل سے بتانے کے ساتھ اپنا اور اس کا رشتہ بھی بتایا تاکہ کم سے کم وہ اُن دونوں سے خوف زدہ نہ ہو اور اپنے آپ کو محفوظ سمجھے۔۔ جبکہ روشانے اب خوفزہ نہیں بلکہ پریشان ہو کر باری باری اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی
“میں اپنی تائی ماں سے بات کرنا چاہتی ہوں”
روشانے نے پریشان ہو کر اتنا ہی بولا تو ضیغم نے ٹیبل پر رکھا ہوا اس کا بیگ اٹھا کر روشانے کو تھمایا جس میں سے روشانے نے اپنا موبائل نکالا اور زرین کو کال ملانے لگی
“ہیلو،، تائی ماں میں روشانے”
موبائل پر زرین کی آواز سن کر روشانے کو ایک بار پھر رونا ّآنے لگا جبکہ روشانے کے منہ سے اُسی کا نام سُن کر شمروز جتوئی اور ضیغم چونک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے
“روشی بچے مجھ کو بتاؤ تو کیا ہوا ہے،، تم ٹھیک تو ہو ناں”
زرین جوکہ نیوز چئینل دیکھ کر ویسے ہی پریشان بیٹھی تھی اور روشانے کو کال کرنے کا سوچ رہی تھی روشانے کے رونے پر وہ مزید پریشان ہوگئی
“تائی ماں میرے سر پر اور پاؤں پر چوٹ لگی ہے مجھے بہت درد بھی ہو رہا ہے”
شمروز جتوئی اور ضیغم کو دیکھ کر وہ اپنے ایکسیڈنٹ کا تو بھول ہی گئی تھی جب شمروز جتوئی نے اسے بتایا کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا تب اسے یاد آیا کہ وہ اچھی خاصی زخمی ہے،، ابھی وہ روتی ہوئی یہ بات زرین کو بتا رہی تھی
شمروز جتوئی پریشان کھڑا روشانے کی گفتگو سن کر ضیغم کو دیکھنے لگا۔۔۔ ضیغم نے ضبط کرتے ہوئے روشانے کے ہاتھ سے اس کا موبائل لیا اور سلام کرنے کے بعد پوری تفصیل سے زرین کو آج صبح والا واقعہ بتایا
اس کے بعد اس نے اپنا اور اپنے خاندان کا تعارف بھی کروایا ساتھ ہی وہ زرین کو تسلی دینے لگا کہ وہ بے فکر ہو جائے۔۔۔ اور اپنا شہر والا ایڈریس بتا دے تاکہ وہ روشانے کو باحفاظت گھر پہنچا دے
“بیٹا آپ نے شاید نیوز نہیں دیکھی تھوڑی دیر پہلے کسی بڑے سیاسی رہنما کو مار دیا ہے،، جس کی وجہ سے پورا شہر بند کروایا جا رہا ہے جگہ جگہ حالات خراب ہیں اور ٹریفک بری طرح جام۔۔۔ روشی وہاں آپ لوگوں کے پاس محفوظ رہے گی،، میں خود ڈرائیور کو کال کر کے سمجھا دوں گی وہ صبح روشی کو آپ کے ایڈریس لے کر یہاں حویلی آجائے گا”
زرین کو ضیغم سے بات کرکے تھوڑی تسلی ہوئی تھی مگر کال رکھنے کے بعد اب گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی کیونکہ یہ بات اگر گھر کے کسی دوسرے فرد کو معلوم ہوگئی تو روشانے اور اس کی شامت لازمی آنی تھی۔۔۔ وہ ضیغم کا ایڈریس کو نوٹ کر چکی تھی،، اب اسے بانو (ملازمہ)کے شوہر اعتماد میں لینا تھا وہ بھروسے مند آدمی تھا جو روشانے کو باحفاظت حویلی لے آتا
****
رات کا آخری پہر چل رہا تھا تب روشانے کو اپنے چہرے پر مردانہ انگلیوں کا لمس محسوس ہوا کوئی اس کی آنکھوں کو چھوتا ہوا اس کے گالوں پر انگلیاں پھیر رہا تھا، ، اس کے ہونٹوں پر انگلیاں پھیرتا ہوا جب اس نے روشانے کے گلے ڈوپٹہ کھینچا تو روشانے کی آنکھ کھل گئی
****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...