“چھوٹے خان!” درشہوار نے مشوانی کو روکا تھا۔
“جی بی بی!” مشوانی نا چاہتے ہوئے بھی رک گیا تھا۔
“کیوں خوار کرتے ہیں خود کو اسکے پیچھے؟” درشہوار نجانے کیوں اسے تکلیف دینا چاہ رہی تھی۔
“بی بی محبت تو وہ زہر ہے جو رگ رگ میں سما جاتا ہے، جس پر ہر تریاق بےاثر ہو جاتا ہے۔” مشوانی نے کہا تو درشہوار بولی:
“میں بھی تو آپ۔۔۔۔۔ ”
“بی بی کوئی ایسی بات مت کریں کہ میں شرمندہ ہو جاؤں۔ میں مجبور ہوں کچھ نہیں دے سکتا آپ کو۔” مشوانی نے اسے پہلے ہی روک دیا تھا۔
“عجیب بات ہے نا کہ محبت مجھے آپ سے اور آپ کو کسی اور سے۔فرض کریں کہ اسے کسی اور سے ہو جائے یا پھر؟” درشہوار نے کاری وار کیا تھا۔
“درشہوار بی بی!” مشوانی کی آواز پہلی بار حویلی کی کسی عورت کے سامنے بلند ہوئی تھی کیونکہ درشہوار کی بات نے اسکے چہرے کا رنگ تک متغیر کر دیا تھا۔ اس کے لیے اس بات کا احساس ہی سوہان روح تھا کہ وہ کسی اور سے محبت کر بیٹھے۔
” تو ثابت ہوا کہ صرف درشہوار خان نے کے محبوب کو کسی اور سے محبت کرنا جائز ہے مگر مشوانی کے محبوب کو نہیں۔”
مشوانی غصے سے جا چکا تھا۔
درشہوار کی آنکھیں پانی سے بھر چکی تھیں۔
اسکی ہر کوشش ناکام تھی۔
وہ کسی اور سے محبت کرتا تھا۔
ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“ان پہ زعم تھا آپ کو؟ یہ جو آپ کی بیٹی کو بدکردار کہتے ہیں؟” مہمل خان گھنٹے سے رقیہ بیگم کے سامنے چکر کاٹ رہی تھی مگر وہ پوری بات سے انجان پریشان بیٹھی تھیں۔
“کیا ہوا ہے؟” رقیہ بیگم نے اسے پکڑ کر بٹھایا۔
“یہ امریز خان سمجھتا کیا ہے خود کو؟ ہاں؟ میں مشوانی قبیلے کی روتی دھوتی لڑکی نہیں ہوں اور نہ درشہوار کی طرح اندر ہی اندر سازشیں کرتی میں مہمل خان ہوں۔ جہانگیر خان یوسفزئی کی بیٹی میں اپنے کردار پہ ایک لفظ برداشت نہیں کرونگی۔” مہمل چیخ رہی تھی اور اسکے الفاظ حویلی کی دیواریں ہلا کر رکھ گئے تھے۔ اسے یہ زعم تھا کہ وہ وہ جہانگیر خان کی بیٹی ہے اور اس زعم میں وہ کسی کا تلخ لہجہ سننا گوارا نہیں کرتی تھی مگر امریز خان مشوانی اسے غضبناک کر چکے تھے۔
“زبان بند کرو تم درشہوار کے بارے میں ایک لفظ مت کہنا میری بہن تمہارے جیسی نہیں ہے۔” امریز خان اسکی آواز سن کر آئے تھے اور باقی سب بھی آ چکے تھے۔
سب کے لیے یہ ایک عجیب بات تھی کہ حویلی میں کوئی عورت آواز بلند کر دے۔
“ہاں وہ میرے جیسی نہیں ہے جو ببانگ دہل بات کرے۔ وہ سامنے قربانی دے کر عظیم بن جاتی ہے اور پیچھے سب کی غیر موجودگی میں وہ مجھے ظالم کہتی ہے اور اپنی محبت کا رونا روتی ہے۔ سب سمجھتی ہوں میں۔ میرے کردار پہ بات کرنے والے پہلے اپنے کعبہ تو سیدھا کریں۔” مہمل غصے سے پاگل ہو چکی تھی۔ اسے غصہ یوسفزئی خاندان والا ملا تھا۔وہ صحیح کہتی تھی کہ وہ اپنے تایا پر گئی ہے کیونکہ وہ سامنے موجود کسی بھی شخص کی پرواہ کئے بغیر بولتی تھی۔ ہاں وہ مہمل خان تھی جو منہ پھٹ تھی۔
“مہمل خان! زبان قابو میں رکھیں اپنی۔” دارجی کی آواز بلند ہوئی تھی۔
“دارجی آپ مشوانی اور درشہوار کا نکاح کر دیں یہ لڑکی اس قابل نہیں کہ ہمارے خاندان کی بہو بنے۔” امریز خان کا لہجہ غضبناک تھا۔
“آپ کے خاندان میں شادی کرنا کون چاہتا ہے؟ جائیں کسی اور کو بیوقوف بنائیں۔ جو لوگ اپنی بہنوں کو اس بات پر لاوارث چھوڑ دیں کہ انھوں نے اپنی مرضی سے قبیلے سے باہر شادی کیوں کی وہ میرے منہ لگتے اچھے نہیں لگتے۔” مہمل نے امریز خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا جبکہ مشوانی پریشانی سے سب دیکھ رہا تھا۔ آج اسے بھی مہمل خان پر غصہ آ رہا تھا۔
“تم واقعی یوسفزئی ہو، زہریلی ناگن سے زیادہ زہر ہے تم میں۔” امریز خان اس سے پہلے کہ اور کچھ سناتے مشوانی کی آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا جسکی بانہوں میں رقیہ بیگم بے ہوش ہو چکی تھیں۔
“پھپھو جان!” مشوانی ان کا چہرہ تھپتھپا رہا تھا۔
“امی!” مہمل پریشانی سے آگے بڑھی۔
“یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔” امریز خان نے اسے سنایا جس پر دارجی نے امریز خان کو خاموش کروایا تھا۔ جبکہ مہمل کی تنی رگیں اب ڈھیلی پڑ رہی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
“امی ٹھیک تو ہو جائیں گی نا؟” مہمل مشوانی سے پوچھ رہی تھی جو ہسپتال کے کوریڈور میں کھڑا تھا۔
“تم سے پوچھ رہی ہوں کچھ بتاؤ نا!” مہمل نے اسے جھنجھوڑا تھا۔
“مہمل سب کو مزید پریشان مت کرو۔” مشوانی نے اسکے ہاتھ جھٹکے۔
“میری ماں اندر آپریشن تھیٹر میں ہے انھیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ واحد رشتہ میری زندگی کا زندگی موت کی کشمکش میں ہے اور تم کہہ رہے ہو میں پریشان کر رہی ہوں سب کو؟” مہمل نے اس سے پوچھا تھا۔
“دراجی دیکھ لیں یہ واقعی پاگل جنونی لڑکی ہے۔” امریز نے مظفر مشوانی سے کہا جو ڈاکٹر کے باہر آنے پر ان کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
“ڈاکٹر کیسی ہیں وہ؟” دارجی نے پوچھا۔
“ان کے دل کے والوز کب سے بند تھے مگر سرجری نہیں کروائی گئی۔ ہم نے آپریشن کیا ہے آگے جو اللہ کو منظور۔” ڈاکٹر کہہ کر چلا گیا جبکہ مہمل کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔
اسے رقیہ بیگم نے کبھی نہیں بتایا کہ انکے دل کے والوز بند ہیں۔ جب بھی ان کی طبیعت خراب ہوتی تو وہ کہتی بس معمولی تکلیف ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مشوانی مہمل کو حویلی لے جاؤ۔” دارجی نے ساکت کھڑی مہمل کو دیکھ کر کہا۔ وہ سمجھ سکتے تھے کہ وہ کس کرب سے گزر رہی ہے۔ ساری زندگی محرومیوں میں گزاری تھی۔ ایک ماں باپ ہی تو تھے اسکے پاس اور اب باپ جا چکا تھا اور ماں ہسپتال میں پڑی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
“مہمل!” زرش خانم (مہمل کہ ممانی، مشوانی کی والدہ) نے اسے اٹھایا جو ہسپتال سے آنے کے بعد بڑی مشکل سے سوئی تھی۔
“امی!” مہمل چیخ مار کر اٹھی تھی۔
“امی کیسی ہیں!” مہمل نے پوچھا تو وہ نظریں چرا گئیں اور اسے باہر آنے کا کہہ کر خود کمرے سے نکل گئیں تھیں۔
مہمل جب باہر آئی تو شام کا اندھیرا چھا رہا تھا۔ یہ وقت تو اسے ہمیشہ اداس کرتا تھا جب ہر چیز زوال پذیر ہو جاتی تھی۔ شاید آج بھی کسی کا زوال ہو چکا تھا۔
اور رقیہ بیگم سامنے چارپائی پر پرسکون نیند میں تھیں جبکہ اس دنیا کے نفوس بے چین انکے سرہانے رو رہے تھے۔ انھیں کیا معلوم کہ رقیہ بیگم کی روح دوسرے جہان میں چلی گئی ہے جہاں کوئی ظالم نہیں ہے۔ وہ تو سکون پا چکی ہیں۔وہ تو اب اس دنیا کے غموں سے آزاد ہیں۔
مہمل جو سفید کرتا اور کالی کیپری پہنے تھی دوپٹہ شانوں پر پھیلائے باہر آئی تو اسے اپنی آنکھوں پر دھوکے کا گمان ہوا تھا۔
بکھرے بال، سرخ آنکھیں لئے جب اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے چادر ہٹا کر رقیہ بیگم کا چہرہ دیکھا تو اسے یوں لگا کہ جیسے اسکے جسم سے ساری ہمت ختم ہو چکی ہو۔
تو ثابت ہوا کہ مہمل خان اکیلی ہی جئے گی۔
مہمل بےدم ہو کر نیچے گری تھی۔
“مہمل!” ماہ گل، زرش خانم درشہوار اور مشوانی کی بہن پلوشہ اسکی طرف بڑھی تھیں۔
“امی کیسے جا سکتی ہیں؟ انھیں نہیں معلوم کہ مہمل اکیلی ہے؟” مہمل کے سوال ہر کسی کا دل چیر رہے تھے۔ دارجی بھی اسکی بات سن کر بے چین ہوئے تھے۔
اتنے سالوں بعد بہن سے ملے تھے۔ ابھی تو سہی سے معافی بھی نہ مانگی تھی اپنی زیادتیوں کی کہ وہ دنیا سے چلی گئی۔ کتنی صابر بہن تھی ان کی ساری زندگی ظلم سہہ کر بھی اف نہیں کی ہمیشہ شکر ادا کیا۔ تبھی تو آخری وقت میں اس کے چہرے پہ سکون تھا۔
جنازہ اٹھا لیا گیا۔ مہمل کے شانوں سے دوپٹہ ڈھلک کر زمین پر گر چکا تھا۔ مگر آنکھوں میں ویرانی ہر کسی کا دل ہلا دیتی تھی۔کیسی قسمت تھی مہمل خان کی کہ کوئی اپنا اسکے ساتھ نہیں رہا۔ اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ کچھ کرے اس نے بس ہاتھ اٹھا کہ آخری بار ماں کو الوداع کہا تھا، اس ماں کو جسے ساری زندگی اس نے ستایا تھا اپنی ضدیں جس سے منائی تھیں۔ اسکی ماں جیسا تو کوئی تھا نہیں۔
گھر سونا کر جاتی ہیں
مائیں۔۔۔۔۔۔
جانے کیوں مر جاتی ہیں؟
– – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – –
مہمل خان واپس کراچی جا چکی تھی۔
زندگی کا سفر رواں دواں تھا۔
وہ اب اپنے گھر میں نہیں رہتی تھی البتہ شبنم خالہ وہیں تھیں کیونکہ ان کا بیٹا انھیں اپنے گھر نہیں رکھتا تھا بس خرچہ دے دیتا تھا۔ اس کو کیا معلوم کہ یہ ماں باپ کیا ہوتے ہیں کوئی مہمل سے پوچھتا۔
مہمل نے اسفر کے ساتھ مل کر عمیر کو اغوا کیا جس پر شاہ کو لگا یہ سب مشوانی کی ملی بھگت سے ہوا ہے اور ان میں لڑائی ہوئی یوں مہمل اور اسفر سعید نے مل کر شاہ اور مشوانی کو سب سے پہلے دور کیا۔
یہ انتقام کا آغاز تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
آج اس کا میڈیکل پورا ہو چکا تھا۔
مشوانی اس کے فلیٹ میں بیٹھا تھا۔
“شادی کر لو مشوانی!” مہمل نے اس کے لیے کافی بناتے ہوئے کہا۔
“تم سے؟” مشوانی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اب بہت کچھ بدل چکا تھا۔
“نہیں درشہوار سے!” مہمل نے اسے کافی کا مگ پکڑایا۔
“مہمل پلیز میں نہیں کر سکتا۔ تم نہیں ملتی نہ سہی مگر میں کسی اور کو حق نہیں دے سکتا اور نہ تمہاری جگہ!” مشوانی نے اسکی پیشکش سے انکار کر دیا تھا۔
“کیوں تھکاتے ہو خود کو۔ یہ انتظار لاحاصل ہے۔” مہمل نے اسکی آنکھوں میں جھانکا تھو جو نظریں چراتا اٹھ گیا تھا۔
“مجھے منظور ہے یہ انتظار!” مشوانی کہہ کر جا چکا تھا جبکہ اس کا کافی کا مگ یونہی ٹھنڈا ہو رہا تھا۔
یونہی فاصلوں کو سجائے رکھ یہی انتظار رہنے دے
میرے ذہن و دل کے سکون پر میرا اختیار رہنے دے
تیری چاہتوں کے جو درد ہیں مجھے سب خوشی سے قبول ہیں
میری چشم نم کا گماں نہ کر مجھے اشکبار رہنے دے
تیری بے بسی بھی بجا سہی میری خواہشیں بھی غلط سہی
تجھے ہر قدم پہ خوشی ملے مجھے سوگوار رہنے دے
میری گفتگو میں جو درد ہے یہی درد میرا نصیب ہے
میں بھلا چکا ہوں قرار کو مجھے بےقرار رہنے دے
میرے دل کی آتش کرب کو میری روح کے جلتے فشار کو
کئی بار تو نے بجھا دیا مگر اب کی بار رہنے دے
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
“اپنی ہر کامیابی اپنے ماں باپ کے ساتھ منائی تھی اسنے مگر آج نہ ماں اس کے ساتھ تھی نہ باپ۔
دونوں کی یاد اسے ستا رہی تھی خصوصا اپنی ماں کی کہ جن سے آخری وقت میں وہ ناراض رہتی تھی۔
میں اک چھوٹی سی بچی ہوں
تری انگلی تھام کے چلتی تھی
تو دور نظر سے ہوتی تھی
میں آنسو انسو روتی تھی
خوابوں کا اک روشن بستہ
تو روز مجھے پہناتی تھی
جب ڈرتی تھی میں راتوں کو
تو اپنے ساتھ سلاتی تھی
ماں تو نے کتنے برسوں تک
اس پھول کو سینچا ہاتھوں سے
جیون کے گہرے بھیدوں کو
میں سمجھی تیری باتوں سے
میں تیری یاد کے تکیے پر
اب بھی رات کو سوتی ہوں
ماں میں چھوٹی سی اک بچی
تیری یاد میں اب تک روتی ہوں
(اقبال حسن)
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل خان نے اسفر سعید کے ساتھ مل کر یوسفزئی خاندان کی بربادی کا پلان بنا لیا ہے۔
پہلے نقلی کاغذات بنائے گئے نور یوسفزئی کے نام سے جنکو دیکھ کر اصل اور نقل کا فرق کرنا مشکل تھا کیونکہ اسفر سعید وکیل تھا اس لیے پکا کام کیا تھا اس نے۔
مشوانی کو ملک سے باہر ایک پراجیکٹ کے لیے بھیج دیا گیا اور پھر نور اور شاہ کا سفر شروع ہوا جس میں نجانے کب مہمل (نور یوسفزئی) کو شاہ سے محبت ہو گئی جبکہ اسفر ہمیشہ اسے فون پر سمجھاتا تھا۔
انتقام کی کہانی ختم ہونے والی ہے۔
اسوہ اور اسفند جا چکے ہیں اب باقیوں کی باری ہے۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
“میر یوسفزئی ولد جہانداد خان یوسفزئی کیا آپ کو بعوض حق مہر سکہ رائج الوقت مہمل نور خان ولد جہانگیر خان یوسفزئی۔۔۔۔۔۔۔” ایجاب و قبول کا مرحلہ بخوبی طے ہوچکا تھا جبکہ نور یوسفزئی اس بات پر حیران تھی کہ شاہ کو اسکی اصلیت پتہ چلی مگر وہ پھر بھی آرام سے بیٹھا رہا۔
“مبارک ہو مہمل نور خان یوسفزئی!” شاہ اسکے پاس آ کر بولا۔
“تم۔۔۔۔!”مہمل نور کے الفاظ کہیں گم ہو کر رہ چکے تھے۔
“میں مشوانی نہیں ہوں میں شاہ ہوں۔ تم نے گیم کرنا چاہی میں نے گیم کر دی۔ اسفر پر شک مت کرنا وہ تمہارا وفادار رہا ہے۔ مجھے محبت بھی ہوئی تو دشمن اور دوست کی محبوبہ سے مگر میں دل سے نہیں دماغ سے چلتا ہوں۔ عمیر خان بابا اور باقی سب تمہیں پہچانتے ہیں اور ہاں مشوانی سے معافی میں مانگ چکا ہوں ہم پھر دوست ہیں۔” شاہ کے انکشافات نے اسے ہلا دیا تھا۔
جس انتقام کے لیے وہ برسوں تیاری کرتی رہی وہ سب ملیا میٹ ہو چکا تھا جبکہ جہانداد خان کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ اس کے اندر آگ کے شرارے بھر رہی تھی۔
“ویسے محبت نے تمہیں مات دی ورنہ مجھے کبھی پتہ نہ چلتا تمہارے بارے میں۔ تم یہاں آئی حویلی میں ٹھہری جبکہ پیچھے تمہارا فلیٹ میرے لیے موجود تھا جہاں سے سب حقیقت پتہ چل گئی۔ اگر تم میرے لیے شادی میں آنے کی بجائے وہاں سے گیم کرتی تو بچ جاتی۔ لیکن میں محبت کی وجہ سے کہہ رہا ہوں انسانوں کی طرح حویلی میں رہو ورنہ بہت برا ہوگا۔” شاہ کا لہجہ دھمکی آمیز تھا۔
اسی لمحے وہ وہاں پہنچا جو اسکے عشق میں رل چکا تھا۔
مہمل کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
مشوانی سب سمجھ چکا تھا۔
اسے بھی محبت ہرا گئی تھی۔
یہ محبت کرنے والے کبھی نہیں جیتتے محبت بس مات کا سبب بنتی ہے۔
اسکے آنسو سب بیان کر رہے تھے کہ اسکے پلانز برباد ہو چکے تھے۔
کسی کی آنکھ پرنم ہے، محبت ہو گئی ہو گی
زبان پر قصہ غم ہے ‘ محبت ہو گئی ہو گی
کبھی ہنسنا کبھی رونا،کبھی ہنس ہنس کر رو دینا
عجب دل کا یہ عالم ہے، محبت ہو گئی ہو گی
خوشی کا حد سے بڑھ جانا بھی’ اب اک بے قراری ہے
نہ غم ہونا بھی اک غم ہے، محبت ہوگئی ہو گی
کسی کو سامنے پا کر، کسی کے سرخ ہونٹوں پر
انوکھا سا تبسم ہے، محبت ہو گئی ہو گی
جہاں ویران راہیں تھیں ، جہاں حیران آنکھیں تھیں
وہاں پھولوں کا موسم ہے، محبت ہو گئی ہو گی
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
ابھی تو شاہ نے اس کے ساتھ ہوئی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کے لیے اسے قبول کیا تھا۔ وہ زبردستی اسے قید کرنے والا تھا لیکن شاہ چاہتا تھا کہ وہ جلد مہمل نور کو منا لے کیونکہ ظلم تو بہر حال اس کے ساتھ ہوا ہے۔
ایسے میں اسے کال پہ بہن اور بہنوئی کا انجام پتہ چلا۔
اسوہ اور اسفند کے مرنے کی خبر سنی تو شاہ جو ابھی مہمل کو معاف کرنے کا سوچ رہا تھا مشتعل ہو گیا۔
“تم باز نہیں آئی نا۔” شاہ دھاڑا تھا۔
“میری بہن کو مارتے وقت تمہاری ماں باز آئی تھی؟” مہمل ٹرانس سے باہر نکل چکی تھی یا پھر یہ مشوانی کے آنے سے ملنے والی ہمت تھی۔
“میں نے تم سے بے انتہا محبت کی تھی تمہیں معاف کرنا بھی چاہتا تھا مگر تم۔۔۔۔۔۔۔” شاہ اپنے بال نوچ رہا تھا۔ وہ وہاں سے لمبے ڈگ بھرتا ہال سے نکلا تھا۔
مہمل کا دل ڈوبا تھا۔ تو کیا اسکی محبت اس سے نفرت کر بیٹھی تھی۔
کہانی کے تین کرداروں کو محبت پھنسا بیٹھی ہے۔ وہ جو کرنا چاہتے ہیں وہ نہیں کر سکتے۔
اس سے پہلے کہ کچھ اور ہوتا مہمل نے اچانک مشوانی کی پستول اٹھائی تھی جو ہر وقت بھری رہتی تھی اور لوڈڈ بھی ہوتی تھی۔
“مہمل نہیں وہ تمہیں معاف کر دیگا ایسا مت کرو۔” مشوانی نے اسے روکنا چاہا مگر اس نے ہاتھ اٹھا کر منع کر دیا۔
سارا یوسفزئی خاندان آج جمع ہوا تھا۔
مہمل نے آنکھیں ایک دفعہ زور سے بند کی تھیں۔
مومنہ آپی، دانیال، جہانگیر خان، رقیہ بیگم اور اپنی محرومیاں اس کی آنکھوں کے سامنے آئیں تھیں۔
اور پھر وہ جنونی ہو چکی تھی۔
محبت نے جو جنون ختم کیا تھا۔
وہ آج ایک بار پھر سے جاگ چکا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...