(Last Updated On: )
یوں نہ وارفتۂ حیرانی ہو
اپنی ہستی کا نہ زندانی ہو
کھوکھلا رنگ ہی باقی نہ بچے
نور میں ایسی نہ ویرانی ہو
ایک بکھرا ہوا منظر ہوں میں
اور نِکھروں جو پریشانی ہو
پھر اُٹھے شوقِ طلب سے طوفاں
پھر وہی بے سر و سامانی ہو
اپنی سانسوں کی نمی ختم ہوئی
اس سے بڑھ کر کوئی آسانی ہو
ٹوٹتے شعلے زمین پر بِکھرے
اسلمؔ اب کیا سخن افشانی ہو
٭٭٭