(Last Updated On: )
یوں آج بھی رہائی ہماری نہیں ہوئی ۔۔
جو روبکار ہونی تھی جاری , نہیں ہوئی ۔۔
مدت ہوئی نظام کا حصہ بنے ہوئے ۔۔
عزت کسی کو جان سے پیاری نہیں ہوئی ۔۔
قائل ، ہماری بات سمجھنے کے باوجود ۔۔
خلق _ خدا بھی ساری کی ساری نہیں ہوئی ۔۔
جاگے ہوؤں کی آنکھ ہی اب تک نہیں کھلی ۔۔
سوۓ ہوؤں پہ نیند ہی طاری نہیں ہوئی ۔۔
وحشت ہی کیا جو جان کے لالے نہیں پڑے ۔۔
ماتم ہی کیا جو گریہ و زاری نہیں ہوئی ۔۔
اسکو کبھی شمار میں لایا نہیں گیا ۔۔
خلقت کبھی خواص پہ بھاری نہیں ہوئی ۔۔
آخر ہمارا وار بھی خالی چلا گیا ۔۔
نجمی ہماری ضرب ہی کاری نہیں ہوئی ۔۔