کالج میں چھوٹے سے باغیچہ میں ہری گھاس پہ آتی پالتی لگائے بیٹھی تھی۔ سعدیہ کی دور سے لہراتی ہوئی آواز کانوں سے ٹکرائی۔ ’’پیریڈ فری؟‘‘۔
’’ہاں یار!‘‘ میں نے اثبات سے سر ہلایا۔ ’’تو پھر چلیں مٹر گشت پہ‘‘ سعدیہ نے ہال کی چھت کی ریلنگ کے ساتھ لگے ہوئے کہا اور پھر سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی اپنے لفظوں سے بھی پہلے میرے پاس پہنچ گئی۔
ہمارا کالج انگریز سرکار کی عطا تھا۔ عالی دماغوں کا تعمیر کردہ موسم کی سختی کی پرواہ نہ کرنے والی عمارت اپنی پرانی آن بان اور استقامت سے سر اُٹھائے کھڑی تھی۔ کھلے میدان، گھنے درخت۔
ہم دونوں کندھوں پر بیگ لٹکائے گھنے اونچے درختوں کے بیچ بنی راہداری پر ٹہلنے لگیں۔
ایک ایک کر کے ڈار کے بکھرے پنچھی بھی شامل ہوتے گئے۔ چار پانچ سہیلیوں کا جتھا، قہقہے لگانا، آنے جانے والوں پر فقرے کسنا، چکر پھیریاں لیتا اُڑتا جانا۔
ٹک شاپ پہنچتے ہی سعدیہ کو کوئی ضروری کام یاد آ جاتا۔ وہ سب کو وہیں چھوڑ کر پلٹ جاتی۔ چلبلی سی لڑکیوں کو اس کے ضروری کام پہ دھیان دینے کی فرصت ہی کہاں تھی!
وہ اس بات پہ ہی چیں بجبیں رہتیں۔ ’’لڑکوں کا بوائز کالج اور ہمارا وومن کالج؟ یہ کیا بات ہوئی بھئی!‘‘۔
کنٹین کے بجائے سعدیہ کا وقت لائبریری میں گزرتا۔ ابھی تو اس نے اپنے پیر زمین پر بھی نہیں ٹکائے تھے کہ سر سے باپ کا سایہ اُٹھ گیا تھا۔
ماں کی گود میں کانٹے سے اگ آئے۔ آٹھ نو ماہ کی سعدیہ کو اس کی نانی نے اپنی گود میں لے لیا۔ شاید اپنی بیٹی کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی۔ اسی ’’بوجھ‘‘ ہونے کے احساس نے سعدیہ کو حساس بنا دیا۔
اپنے تعلیمی کیرئیر کے بارے بہت فکر مند رہتی۔ ’’جانے ماں یونیورسٹی میں ایڈمشن بھی دینے دے گی کہ پھر بوجھ کو کسی اور کندھے پہ لاد دے گی‘‘۔
گھر میں تو ایسے بھی وہ بن بلائے مہمان کی طرح تھی۔ نانی کے گزر جانے کے بعد جب اپنے گھر کو لوٹی تو اپنا گھر اجنبی ہو گیا تھا۔ روکھی سوکھی روٹی میں ایک اور ’’شریک‘‘ آ گیا۔ رویوں میں سوکھا پن آنا ہی تھا۔
چاروں بہنیں ریل کے ڈبوں کی طرح لاتعلقی سے ایک دوسرے سے منسلک تھیں۔
چیونٹوں کی قطار کی طرح ایک ہی لائن میں چلتے ہوئے کالج آتیں۔ لائن کے آخر میں سعدیہ ذرا زیادہ فاصلے پر ہوتی۔
کالج میں تو وہ فور سٹار سٹیٹس کی حامل تھی۔ ڈبیٹ ہو کہ مشاعرہ یا ڈرامہ، ہر ایونٹ میں سعدیہ موجود ہوتی۔
میں انگریزی کی کلاس میں ہمیشہ سعدیہ کے پہلو میں دبک کر بیٹھتی تھی۔ اس طرح سعدیہ پر پڑتی میڈم کی مہرباں نظروں کا ’’جھونگا‘‘ مجھے بھی مل جاتا تھا۔
اُس دن میڈم صنوبر کا مزاج کڑاہی میں اُبلتے تیل جیسا تھا۔ تڑا تڑ انگریزی ڈائس سے فائر ہو رہی تھی۔ میں نے جلدی سے کتاب کے صفحے پلٹے کہ دیکھوں کہاں سے پڑھا رہی ہیں۔ سعدیہ میرے ہاتھ پہ ہلکا سا تھپڑ لگا کر مسکراتے بولی ’’پڑھا نہیں رہی ڈانٹ رہی ہیں‘‘۔
ارد گرد سے کھی کھی کی دبی سی ہنسی کی آواز اُبھری۔ اگلی رو میں سے کسی نے ڈانٹا۔ ’’اوئے چپ‘‘۔ آخر میم تھک ہار اُردُو میں بولیں۔ ’’دیکھو! کیسے بلینک فیس لئے بیٹھی ہیں‘‘۔
کتابوں کے حاشیے پر لکھ لکھ کر ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے ہاتھ لمحہ بھر کو ساکت ہو گئے۔
میں نے چونک کر سیاہ چہرے کی تلاش میں اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی۔ سعدیہ ماتھے پر ہاتھ مار کر بولی۔
’’اری او چغد! بلیک نہیں بلینک‘‘۔
’’کاش بازار سے عقل ملتی تجھے رتی ماشہ لے دیتی‘‘۔
اسی سہ پہر میں سعدیہ کے گھر گئی۔ کسی خوشحال ہندو کی بنائی ہوئی پرانی خستہ حال حویلی تھی۔ جس کی اطراف کی دیواریں گر چکی تھیں۔
گہرے سبز رنگ کے پتوں والے آم کے درخت حویلی کے چاروں طرف تھے۔ حویلی کے گول برامدے کے سامنے دو نیم کے قد آور درخت شاید صدیوں سے یونہی سر جوڑے کھڑے تھے۔ درختوں کے ساتھ بوگن ویلیا کی بیل لپٹی تھی۔ نیم کی شاخوں میں سے بوگن ویلیا کے آتشی گلابی پھول جھانکتے تھے۔
سرخ اینٹوں اور چوبی دروازوں والی حویلی بہت دیدہ زیب رہی ہو گی۔ لیکن وہ کسی سہانے خواب کی بھیانک تعبیر کی طرح تھی۔ جا بجا اکھڑی ہوئی اینٹیں، کٹا پھٹا فرش، روشن دانوں میں چڑیوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ جھولتے کراہتے لکڑی کے دروازے، کئی کھڑکیوں کے نصف پٹ غائب تھے۔ جن پر موٹے گتے کے ٹکڑے کیلوں کے ساتھ ٹھوک دئیے گئے تھے۔
اس حویلی میں پہلے سعدیہ کے دادا اور اب چچا رہتے تھے۔ چچا نے خدا ترسی میں اس بڑی حویلی کا چھوٹا سا کمرہ سعدیہ کی ماں کو دان کر دیا تھا۔
حویلی کے ایک بڑے کمرے میں سعدیہ کے دادا کا پرانی کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ میں جب بھی سعدیہ کے گھر جاتی گھبرا ہی کر پلٹتی تھی۔ لیکن کیریوں اور کتابوں کی کشش مجھے پھر اس حویلی میں لے جاتی۔
سموری دم اُٹھائے گلہریاں ایک درخت سے دوسرے درخت کی جانب دوڑ لگا رہی تھیں۔ میرے قدموں کی چاپ زمین سے اُٹھا کر ایک گلہری وہیں تھم گئی۔ اُٹھی دم کو فرش پر ٹکا کر آسن جما لیا۔ اگلے دونوں پنجے تھوتھنی کے پاس جوڑے گول بٹن جیسی آنکھوں سے مجھے بغور دیکھ رہی تھی۔
مجھے دیکھتے ہی سعدیہ کی آنکھوں میں پریشانی در آئی۔ ’’یہ کتاب واپس کرنے آئی ہوں۔۔۔‘‘
’’کوئی اور کتاب دے دو‘‘۔
میں نے سعدیہ کے ہاتھ میں کتاب پکڑاتے ہوئے کہا، سعدیہ نے کتاب ایک ہاتھ میں لے کر دوسرے ہاتھ سے میرا ہاتھ تھام لیا۔ خاموشی سے بلی سے قدم اُٹھاتی چوڑے شہتیروں اور اونچی چھت والے کاریڈور سے گزر کر ایک بڑے کمرے میں داخل ہوئی۔ میں سایہ سمان سا تھ ساتھ تھی۔
دیواروں کے ساتھ قد آدم لکڑی کے ریک رکھے تھے جن میں گرد سے اٹی ہوئی کتابیں ٹھونس ٹھانس رکھی ہوئی تھیں۔
سعدیہ نے فراخدلی سے کہا: ’’جو کتاب چاہتی ہو، اُٹھا لو‘‘۔ میں نے طائرانہ نظر کتابوں پر ڈالتے ہوئے ایک کتاب اچک لی۔
کتاب اُٹھا کر واپسی کی راہ لی۔ سورج مہاراج چاہے افق کنارے لگے تھے لیکن تپش ہنوز برقرار تھی۔ تمازت محسوس کرتے میں نے سوچا۔ ’’کبھی جھوٹے منہ پانی کا بھی نہیں پوچھتی‘‘۔
سوچ نے پھر زقند لگائی۔ ’’کالج میں ہم سب سہیلیاں بہانے بہانے سے ایک دوسرے کو ٹریٹ دیتی ہیں مجال ہے جو کبھی سعدیہ نے شرکت کی ہو‘‘۔ گھر تو پانچ منٹ ہی کے فاصلے پر تھا۔ اس دوران سوچ نے مزید اڑان بھری اور پانچ منٹوں ہی میں سعدیہ سے ٹریٹ بٹورنے کا ماسٹر پلان تیار ہو گیا۔
اگلے دن کالج میں سرگوشیوں کا تبادلہ ہوتا رہا، سعدیہ انگلش ٹیچر میڈم صنوبر کی چہیتی تھی۔ انہوں نے چند اہم نظموں کی سمری بنا کر فائل سعدیہ کے حوالے کی کہ فوٹو اسٹیٹ کروا کر اصل واپس کر دے۔
بریک میں ہم سب باسکٹ بال گراؤنڈ کے اطراف بنی سیڑھیوں کے ایک کونے میں بیٹھے کھلاڑیوں کو مشق کرتے دیکھ رہے تھے۔
سعدیہ نے بے پرواہی سے فائل اپنے بیگ کے اوپر رکھ دی۔ کچھ لمحوں ہی میں فائل غائب تھی۔ اِدھر اُدھر سب نے دیکھا، کہیں ہوتی تو نظر بھی آتی۔
میرا ہاتھ تھامے رکھنا سعدیہ کی نہیں سعدیہ کے ہاتھ کی عادت تھی۔ خود اس کو بھی خبر نہیں ہوتی تھی کہ کب اس کا ہاتھ لپک کر میرے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ کسی کے مذاق کرنے پر کہ ’’اگر ہاتھ نہ تھامو گی تو گر جاؤ گی کیا!!‘‘، وہ چونک کر اپنے ہاتھ میں میرا ہاتھ دیکھنے لگتی۔
سعدیہ نے حسب معمول میرا ہاتھ تھاما، سارا کالج کھدیڑ رکھ دیا۔ بار بار ایک ہی سوال دہراتی۔ ’’اب کیا کریں؟‘‘۔
میں آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی کا سگنل اس کے دل کو بھیجتی۔ ذرا دیر کو دلاسہ دل کے ساتھ رہتا پھر دامن چھڑا جاتا۔ سعدیہ یونہی بیقرار ہر راہ گزر کو روک کے پوچھتی۔ ’’آپ نے۔۔۔؟‘‘۔
اس کے بس میں ہوتا تو ہر لڑکی کے بیگ کی تلاشی بھی لیتی۔
میں نے اپنی ساری کلاسز ڈراپ کر دیں اُسی کے ساتھ رہی۔
پھر کسی نے خبر دی کہ نوٹس بورڈ پر ایک نیا نوٹس چسپاں ہے۔ ’’سعدیہ بتول کے گمشدہ اوراق ہمارے پاس ہیں۔ تاوان میں ایک لیٹر کوک ادا کی جائے‘‘۔
سعدیہ کے چہرے پہ تو ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ اس نے مدد طلب نظروں سے میری طرف دیکھا۔
میں نے بے نیازی سے کندھے اچکاتے جواب دیا۔ ’’ایک بوتل کوک ہی تو ہے‘‘۔
پھر جملے کو ذرا بڑھاوا دیا۔ ’’اپن کی جیب تو آج خالی ہے ورنہ ایک بوتل کوک کی بھی کوئی بات تھی‘‘۔
سعدیہ نے بے بسی سے مجھے دیکھتے ہوئے پھر میرا ہاتھ تھام لیا۔
اب اس کے قدم سٹاف روم کی جانب اُٹھ رہے تھے۔
چند کرسیاں خالی تھیں۔ کچھ کرسیوں پر ہیولے سے تھے۔ سٹاف روم میں میڈم صنوبر کے علاوہ سب دھندلکے میں تھا۔
گول دستی آئینہ ہاتھ میں پکڑے دوسرے ہاتھ کی چھنگلی سے ہونٹوں پر جمی لال بھبھِوکا لپ اسٹک درست کر رہی تھیں۔
ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے آئینہ پرس میں رکھ کر لپ اسٹک کو اس کے پہلو میں لٹا دیا۔
’’جی؟‘‘ سوالیہ نظریں ہماری طرف اُٹھیں۔ ’’میم۔۔۔‘‘ سعدیہ ذرا رکی۔ تھوک حلق سے نگلا۔ ’’میم!۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘
’’کیا میم میم لگا رکھی ہے، بات مکمل کرو‘‘۔ میم صنوبر درشتی سے بولیں۔
’’میم! وہ نوٹس گم ہو گئے ہیں‘‘۔
سعدیہ نے یہ چند لفظ گھسیٹ ہی کر منہ سے نکالے۔
میم جس جناتی زبان میں کلاس میں لیکچر دیا کرتی تھیں، اسی میں شروع ہو گئیں، نہ کاما نہ سٹاپ۔ سعدیہ پہ تو جیسے بارش برس رہی ہو، سر جھکائے شرابور کھڑی رہی، پھر اپنے پسینے سے پسیجے ہوئے ہاتھ سے میرے برف ہوئے ہاتھ کو تھاما اور خاموشی سے سٹاف روم سے باہر آ گئی۔
نوٹس بورڈ کے پاس رکھے بنچ پہ ہی ہم دونوں بیٹھ گئیں۔ جانے کتنی دیر یونہی کالج گیٹ کی طرف جاتی لڑکیاں دیکھا کئے۔
چاروں اور بکھری آوازیں مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح سنائی دیتی تھیں۔ اکلوتا سیلنگ فین ایسے جھول رہا تھا کہ جیسے ابھی گرا۔
میری گردن پہ منوں بوجھ تھا، اُٹھائے اُٹھ نہیں رہی تھی۔ بیگ کی کھلی زپ کی آواز تیز دھار کی طرح جلد پہ کٹ سا لگاتی گئی۔
خون رگوں میں پھر رواں ہوا۔ میں نے بیگ سے چڑی مڑی فائل نکالی اور سعدیہ کی طرف بڑھا دی۔
سعدیہ کے ہاتھ اس کی گود میں سہمے کبوتروں کی مانند بے حس و حرکت پڑے تھے۔ میری طرف ایک ٹک دیکھتی ہوئی بڑی بڑی نیلگوں سمندر آنکھوں میں جیسے ٹائی ٹینک ڈوب رہا تھا۔
اتنا ہی بول پائی: ’’تم۔۔۔‘‘
پھر لفظ بھی دغا دے گئے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...