برطانیہ میں دامادوں اور سسرال کے درمیان اکثر ٹھنی رہتی ہے
کسی بھی شہر میں لینڈ کرنے سے پہلے طیارہ جب فضا سے زمین کے قریب ہوتاہے اس وقت اوپر سے جو منظر دکھائی دیتاہے وہ ہمیشہ سے میرے لئے بہت پرکشش ہوتا ہے۔ مانچسٹر بھی اوپر سے انتہائی دلکش، خوبصورت اور صاف ستھرا شہر نظر آ رہا تھا۔ یہ سڈنی کی طرح اونچا، نیچا اور ڈھلوان زمین پر بسا ہوا ہے۔ ڈھلوانوں پر بنے ہوئے سرخ ٹائلوں والے اور سرسبز درختوں میں گھرے مکانات، چمکتی ہوئی کشادہ سڑکیں اور قطاروں میں سفر کرتی ہوئی رواں دواں کاریں ایک انتہائی دلکش منظر پیش کر رہی تھیں۔
مانچسٹر ا ئر پورٹ پر بھی ویسی ہی گہما گہمی تھی جیسی مَیں اسلام آباد میں دیکھ اور بھگت کر آیا تھا۔ اس وقت شائد ایک سے زیادہ پروازیں پاکستان سے آئیں تھیں اس لئے ائیر پورٹ پر ہر طرف پاکستانی ہی نظر آرہے تھے۔ کچھ تو پاکستان سے آئے تھے۔ زیادہ تعدا د استقبال کرنے والوں کی تھی۔ جہاز سے اُترتے ہی لوگ بھاگم بھاگ جا کر قطار میں کھڑے ہوگئے۔ یہ وہی لوگ تھے جو اسلام آباد میں تھے تو قطار بندی سے بے نیاز تھے۔ لیکن یہاں اترتے ہی ایسے منظم انداز میں قطار میں کھڑے ہو ئے تھے جیسے گھر سے سکول میں آ گئے ہوں۔ سچ ہے جیسا دیس ویسا بھیس۔
مَیں حسبِ معمول سُست روی سے چلتااور لوگوں کی بھاگ دوڑ سے محفوظ ہوتا ہوا قطار کے آخر میں جا کر کھڑا ہوگیا۔ قطار شیطان کی آنت کی طرح طویل تھی۔ لیکن امیگریشن کے عملے نے جلد ہی دوسرے کاؤنٹروں پر بھی سٹاف بٹھا دیا اور ایک کے بجائے تین قطاریں بن گئیں۔برطانوی امیگریشن پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر بال کی کھال نکال رہے تھے۔ نئے آنے والوں کو الگ بٹھایا جا رہا تھا تاکہ ان کا تفصیلی انٹرویو کیا جاسکے ۔ اُردو مترجم کا بھی بندوبست تھا۔میرے آسٹریلین پاسپورٹ پر انہوں ے بلا ترد د مہر لگا کر پروانہ راہداری عطا کر دیا۔
یہ بھی دلچسب بات ہے کہ آسٹریلیا سے روانہ ہوتے وقت میرا پاکستان سمیت سات ممالک میں جانے کا ارادہ تھا۔ لیکن اتفاق دیکھئے کہ سڈنی سے روانگی سے قبل صرف ایک ملک کا ویزہ لینا پڑا اور وہ میری جنم بھومی یعنی پاکستان تھا۔ یورپ میں آسٹریلین پاسپورٹ کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ برطانیہ اور فرانس کی انٹری کے وقت پاسپورٹ پر مہر لگتی ہے ۔ جبکہ یورپ کے دیگر ممالک تو یہ تردد بھی نہیں کرتے اور صرف پاسپورٹ دیکھنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
سامان کی ٹرالی لے کر باہر نکلا تو مَیں نے متلاشی نظروں سے انتظار میں کھڑے افراد میں اپنے دوست آصف کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ مجھے شدت سے سگریٹ کی طلب محسوس ہورہی تھی ۔ میں نے سوچا باہر چل کر ایک سگریٹ پی لوں۔ اتنی دیر تک آصف نظر نہیں آیا تو اس کے موبائل پرفون کر وں گا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ وہیں کہیں موجود ہوگا۔ گیٹ سے نکلا تو آصف اندر داخل ہو رہا تھا۔اتفاق سے پہلے مَیں نے اُسے پہچانا۔ حالانکہ پچھلے چھ برسوں میں ہم دونوں کے چہروں پر تبدیلی آ چکیتھی۔ میرے چہرے سے مونچھیں غائب ہو چکی تھیں۔ جبکہ آصف پاکستان میں ہوتا تھا تو کلین شیو تھا۔ لیکن برطانیہ میں جا کر اس نے مونچھیں بڑھالی تھیں۔ شایدانگریزوں پر رُعب ڈالنے کے لئے۔
ہم چھ برس کے بچھڑے ہوئے تھے۔ گلے مل کر ساری کسریں پوری کرنے کی کوشش کی۔ مَیں نے کہا اب بس بھی کروکہیں گورے ہمیں ’’ گے‘‘ نہ سمجھنے لگیں۔ خیر اس ائیر پورٹ پر تو ایسے مناظر عام تھے۔ لیکن یورپ اور آسٹریلیا میں مرد مردوں کے گلے لگتے کہیں نظر نہیں آتے۔ البتہ جنسِ مخالف کے درمیان یہ عمل جا بجا نظر آتا ہے ۔ ان ممالک میں مرد اگر مرد سے گلے مل رہا ہو تو ان کے تعلقات آپس میں وہی ہوتے ہیں جو پاکستان میں میاں بیوی کے درمیان ہوتے ہیں۔سڈنی میں آکسفورڈ سڑیٹ اور اس کا ملحقہ علاقہ ایسے ہی مرد وں اور عورتوں کے لئے مشہورہے ۔ اس علاقے میںمردوں کے علاوہ بڑی تعداد میں ہم جنس پرست عورتیں بھی رہتی ہیں۔ ان کے اپنے کلب ہیں۔ سال میں ایک دفعہ سڈنی میںان کا بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے جہاں دنیا بھر کے گے اور لزبین جمع ہوتے ہیں۔ وہ سڈنی کی مصروف سڑکوں پر پریڈ بھی کرتے ہیں جسے دور دراز سے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔
آصف کے ساتھ اس کا ایک دوست چوہدری ارشد بھی تھاجو بعد میں میرا بھی بہت اچھا دوست بن گیا۔ چوہدری دلچسپ آدمی تھا۔ وہ دو سال پہلے برطانیہ میں بسنے والی اپنی کزن سے شادی کر کے وہاں پہنچا تھا۔ یعنی دامادوں کے اس طبقے سے اس کا تعلق تھا جو آج کل برطانیہ کی پاکستانی کیمونٹی میں ایک الگ طبقے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔ دراصل پچیس تیس سال پہلے آنے والے پاکستانیوں کے بچے جوان ہو چکے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی مسائل کا ایک ریلا بھی در آیا ہے۔ ظاہر ہے یہ مسائل اس نئی نسل کو پاکستانی کلچر پر کاربند رکھنے کی کوششوں سے متعلق ہیں۔ یورپ کے مادر پدر آزاد معاشرے میں پلنے والی یہ نسل ان پابندیوں کو اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ اس طرح والدین اور بچوں کے درمیان ایک کشمکش سی رہتی ہے۔ اگر والدین بچوں کی شادیاں پاکستان میں کر بھی دیں تو مسائل ختم نہیں ہوتے بلکہ ان کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے۔
وہاں والدین کی حتی الوسع یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کی شادیاں پاکستان میں اپنے بھانجوں ، بھانجیوں ، اور بھتیجے ، بھتیجیوں سے کی جائیں ۔ جو لڑکیاں پاکستان سے بیاہ کر برطانیہ لائی جارہی ہیں وہ تو پاکستانی معاشرے کی پروردہ ہوتی ہیں۔ یعنی باپوں ، بھائیوں اور خاوندوں سے ڈری سہمی اللہ میاں کی گائے کی طرح ہوتی ہیں۔ جس کھونٹے سے باندھ دو بندھ جاتی ہیں ۔ جس کے ساتھ وداع کردو اس کے ساتھ ساری زندگی گزار لیتی ہیں۔ وہ پاکستان میں بے زبان ہوتی ہیں تو برطانیہ جیسے دور دراز ملک میں جا کر اپنے خاوند اور ساس سسر کے ساتھ کوئی مسئلہ کھڑا کرنے کوشش کیسے کریں گی ۔البتہ لڑکوں کا مسئلہ الگ ہے ۔ چاہے وہ پاکستان میں کسی پس ماندہ گاؤں سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتے ہوںکسی حد تک اپناحق جانتے ہیں۔ ٹی وی ، اخبارات اور رسائل نے انہیں دنیا بھرکی معلومات فراہم کی ہوتی ہیں۔ من مانی کرنا وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پاکستان جیسے مردوں کے معاشرے میں ان کے بولنے پر اور حق طلبی پر بھی کوئی خاص پابندی بھی نہیں ہے ۔ برطانیہ پہنچ کر بھی وہ باہر کی دنیا سے جلد آشنا ہو جاتے ہیں۔ برطانیہ میں دامادوں کے اس طبقے اور ان کے سسرال کے درمیان اکثر ٹھنی رہتی ہے۔ برطانوی قانون بیرون ملک کی گئی شادیوں کو اکثر شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ آسٹریلیا کی طرح وہاں بھی شروع کے دو سال کے اندر اگر برطانوی شہریت کا حامل لڑکا یا لڑکی شادی کا بندھن توڑ دے تو بیرون ملک سے آنے والے اس کے شریکِ حیات کو برطانیہ سے واپس بھیج دیا جا تا ہے ۔ یہ قانون اکثر دا مادوں کے خلاف ہتھیار بلکہ’ نکیل‘ کے طور پر استعمال کیا جا تا ہے ۔ ان دو سالوں میں اکثر داماد سر جھکا کر وقت گزارتے ہیں۔ دامادوں کے اس طبقے سے گاہے گائے صدائے احتجاج بلند ہوتی رہتی ہے ۔ دوسری طرف ان کے ساس سسر کو بھی ان سے کئی شکایتیں ہوتی ہیں۔
برطانیہ میں پرائیویٹ ریڈیو کا ایک چینل چوبیس گھنٹے اُردو پروگرام پیش کرتا ہے ۔مجھے اس چینل پر ایک دن دامادوں اور سسرالی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان ایک نہائت ہی دلچسپ مباحثہ سننے کا موقعہ ملا۔ جس سے دونوں طبقوں کے مسائل ،شکایات اور خیالات کا علم ہوا۔ وہ وقت دور نہیںجب آسٹریلیا کی پاکستانی کیمیونٹی میں بھی ایسے ہی مسائل زیرِ بحث ہونگے۔ کیونکہ اسی اور نوے کی دہائی میں نقل مکانی کرنے والے پاکستانیوں کے بچے اب شادیوں کی عمروں تک پہنچ چکے ہیں۔
چوہدری ارشدنے اپنی آدھی تنخواہ لٹا دی
اگلی صبح ناشتے کے بعد مَیں آصف کے ساتھ اس کی فیکٹری گیا۔ آصف کی بیڈ ہیڈز(Bed Heads) بنانے کی فیکٹری تھی۔ اس فیکٹری کے کارکنان کی کل تعداد دو تھی۔ یعنی آصف اور اس کا دوست چوہدری ارشد!اس طرح یہ دو افراد مالک ، ملازم، ڈیلیوری پرسن، ڈیزائنر، کلینر اور ڈرائیور کا کام خود ہی کرتے تھے۔ آصف نے کچھ عرصہ پہلے یہ کام شروع کیا تھا جو آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کر رہاتھا۔ مَیں دوپہر تک وہاں رہا ۔اس دوران بیڈ ہیڈز کی ڈیلیوری کے لئے آصف کے ساتھ باہر بھی گیا۔ جہاں بھی گیا پاکستانیوں سے واسطہ پڑا۔ خود اس فیکٹری کے ارد گرد کے تمام کاروبار پاکستانیوں کے ہی تھے ۔ ان میں سے کئی شلوار قمیض میں ملبوس کام کرتے دکھائی دئیے۔ ایک طرف ویلڈنگ شاپ تھی جسے جہلم کے خادم حسین چلا رہے تھے۔ دوسری طرف موٹر ورکشاپ تھی جس کے مالک لاہور کے خواجہ کریم صاحب تھے۔
عام دکانوں اور کاروباری مراکز پر انگریزی کے ساتھ ساتھ اُردو کے سائن بورڈ بھی موجود تھے۔ حتیٰ کے پبلک سکولوں پر بھی اُردو کے سائن بورڈ موجود تھے۔ کئی بورڈوں پر تحریر تھا کہ یہاں بچوں کے لئے دینی اور قرآن کی تعلیم کا بھی بندوبست ہے ۔ Dewsberry کا یہ چھوٹا سا شہر بریڈفورڈ، لیڈز اور ہیڈرزفیلڈ کے درمیان واقع ہے ۔ ان تینوں شہروں سے اس کا فاصلہ دس بارہ میل سے زیادہ نہیں ہے ۔ اس لئے لوگ آسانی سے ان میں سے کسی بھی شہر میں کام کرکے شام کو گھر واپس آسکتے ہیں ۔ اس علاقے میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔مانچسٹر جو برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے وہ بھی چند گھنٹوں کی ڈرائیو پر ہے ۔
آسٹریلیا سے جانے والوں کے لئے یورپ میں مختلف شہروں کے درمیان یہ فاصلے نہ ہونے کے برابر محسوس ہوتے ہیں ۔ کیونکہ سڈنی سے برسبین اور ملبورن کا فاصلہ ایک ہزار کلو میٹر سے کم نہیں ہے ۔ ایڈیلیڈ اور ہوبارٹ کا اس سے دوگنا فاصلہ ہے۔ جبکہ پرتھ کے لئے پانچ گھنٹے کا فضائی سفر کرنا پڑتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں وہ برطانیہ ،جس کی سلطنت میں کسی دور میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اب سکڑ کر چند گھنٹوں کی مسافت تک محدود ہوگیا ہے ۔
اس دوران میری ملاقات کئی انگریزوں سے ہوئی۔ ان کا ظاہری اخلاق متاثر کن تھا۔ لیکن کچھ کا تعصب باہر آنے میں دیر نہ لگی۔ ایک انگریز کے شوروم میں مَیں اور آصف بیڈ ہیڈ کی ڈیلیوری کے لئے گئے ۔ جب آصف نے اسے میرے بارے میں بتایا کہ مَیں سڈنی میں رہتا ہوں تو وہ رشک بھری آواز میں بولا ’’ تم کتنے خوش قسمت ہو۔ مَیں ساری زندگی آسٹریلیا جانے اور اس کے دلکش بیچوں پرنہانے کے خواب دیکھتا رہا لیکن ابھی تک اس کی تعبیر نہیں ملی‘‘
مَیں نے کہا’’ میرا معاملہ اس کے برعکس ہے ‘‘
اس نے کہا ’’ وہ کیسے ؟‘‘
مَیں نے جواب دیا’’ خواب دیکھنے کے لئے سونا ضروری ہے۔ جبکہ مَیں جب بھی کسی آسٹریلین بیچ پر جاتا ہوں تو رات کو نیند ہی نہیں آتی۔ ویسے بھی ہم پاکستانی پانی کو دور دور سے دیکھتے ہیں تاہم پانی کے باہر موجود مخلوق کو زیادہ شوق سے دیکھتے ہیں‘‘۔
وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا’’ آصف تمہار ا دوست بہت زندہ دل ہے۔ اس کا Sense of humour ( حسِ مزاح) خالصتاَ آسٹریلین ہے‘‘
مَیں نے کہا’’ ہاں ! آسٹریلین کے Sense of humour میں تو کوئی شک نہیں۔ یہ ان کا Sense of humour ہی تو ہے کہ انہوں نے اکیسویں صدی میں بھی ملکہ برطانیہ کے زیر نگیں رہنا پسند کیا‘‘
انہی دنوں آسٹریلیا میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے آسٹریلین عوام نے جمہوریہ بننے کے بجائے ملکہ برطانیہ کی علامتی بادشاہت کے زیرِ نگیں رہنے کا انتخاب کیا تھا۔ میں نے یہ بات اسی تناظر میں کی تھی۔انگریزوں کے لئے ان کا شاہی خاندان انتہائی عزت کا حامل اور ان کی روایتوں کا آمین ہے ۔ جمہوری ملک ہونے کے باوجود وہ بادشاہ یاملکہ سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔ شاہی خاندان ان کی زندگیوں میں اس طرح رچا بسا ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے ان کا ذکر کرتے نہیں تھکتے ۔ ملکہ یا شاہی خاندان کے ا فراد کا ذکر ہو تو ان کی آنکھیں محبت سے چمک اٹھتی ہیں ۔ وہ ملکہ یا بادشاہ کے خلاف کچھ سننے کے لئے تیار نہیںہوتے۔ میری بات سن کر وہ انگریز بھی چونکا اور پینترا بدلتے ہوئے بولا ’’لگتا ہے دیگر پاکستانیوں کی طرح آپ کو بھی انگریزوں کی روا یات زیادہ پسند نہیں ہیں ، حالانکہ ایشین ممالک میں جمہوریت سے زیادہ آمریت کو پسند کیا جاتا ہے ‘‘
یہ اس انگریز بہادر کا براہِ راست پاکستان کے سیاسی حالات پر طنز تھا۔( ان دنوں جنرل مشرف اقتدار پر قابض تھا ) مَیں نے اگر ان کی روایتی کمزوری کو نشانہ بنایا تھا تو اس نے پاکستان کے سیاسی حالات کو ذہن میں رکھ کر مجھے رگیدنے کی کوشش کی تھی۔ مَیں نے کہا’’ آپ نے تھوڑی دیر پہلے مجھے آسٹریلین کہہ کر میرے Sense of humour کی تعریف کی تھی اور اب میرے پاکستانی پسِ منظر پر طبع آزمائی فرما رہے ہیں ۔ جہاں تک آمریت کو پسند کرنے کا تعلق ہے۔ جس وقت دنیا میں جمہوریت پروان چڑھ رہی تھی اس وقت ہم غیروں کی آمریت کے شکنجے میں کسے ہوئے تھے۔ انہوں نے جس وقت ہمارا ملک چھوڑا ،اس وقت ہم معاشی ، سماجی اور سیاسی طور پر مکمل غلام تھے۔ اتنے گہرے زخم اتنی جلدی مندمل نہیں ہوتے۔ لیکن ہمیں زخم لگانے والے یاد ہیں ‘‘
آصف نے ہماری گفتگو کوتلخی کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ کر مداخلت کی اور ہم وہاں سے واپس چل دئیے ۔ اس وقت تک مجھ پر اس انگریز کے ظاہری اخلاق کی قلعی کھل چکی تھی۔ ان کے تعصب کا تعفن نمایاں ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ بعد میں آصف نے بتایا کہ یہاں برطانیہ میں گوروں اور پاکستانیوں کے درمیان ایک کشمکش اور سرد جنگ کی سی کیفیت ہے۔ متعصب گورے اپناروایتی احساسِ برتری چھپا نہیں سکتے اور پاکستانیوں کو چاہے وہ تین نسلوں سے یہاں رہ رہے ہوں اپنے برابر نہیں سمجھتے۔ جہاں موقع ملتاہے وار کرنے میں دیر نہیںکرتے۔ دوسری طرف پاکستانی اپنی محنت اور قابلیت سے معاشی طور پر کافی مضبوط ہو چکے ہیں۔ آئین اور قانون ان کا ساتھ دیتا ہے اور وہ اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ۔ متعصب انگریزوں کو پاکستانیوں کی اعلیٰ تعلیم، اچھی نوکریاں اور ان کے کاروبار ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں اچھے لوگ بھی ہیں۔ دوسرا یہ کہ قانون کی حکمرانی ہے اس لئے کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ۔
دوپہر کا کھاناہم نے گھر پر کھایا۔ اس کے بعد ہم تینوںیعنی مَیں ، آصف اور چوہدری ارشد بلیک پول کے لئے روانہ ہوگئے۔ بلیک پول برطانیہ کا ساحلی شہر ہے۔یہ Dewsberryسے تقریباَ اڑھائی گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے۔ جس میں زیادہ تو موٹر وے ہے، جس کی سپیڈ اسی (۸۰) میل(کلو میٹر نہیں) فی گھنٹہ ہے۔راستے کے مناظر بہت دلکش اور حسین تھے ۔سر سبز و شاداب میدان ، ہرے بھرے درخت ، لہلہاتی فصلیں اور جا بجا رنگ برنگے پھولوں کے کھیت آنکھوں میں ٹھنڈک پیدا کر رہے تھے۔اس دن موسم بھی اچھا تھا۔ نرم اور رُوپہلی دھوپ ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ اگرچہ ہوا میں خنکی تھی لیکن دھوپ کی وجہ سے سردی نہیں تھی۔ اردگرد کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے اور چوہدری ارشد کی خوش گپیاں سنتے سنتے ہم بلیک پول پہنچ گئے۔
یہ شہر ساحل سمندر پر واقع ہے۔ یہاں بیچ پر سمندر کاپانی گدلا بلکہ کالا اور بدبو دار ہے۔ لہذا نہانے کے لائق نہیں ہے ۔ بس ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر کا نظارہ ہی کیا جاسکتا ہے ۔ سمندر کے کنارے ایک پُر رونق سڑک واقع ہے۔ اس سڑک پر سینکڑوں کے حساب سے ہوٹل بنے ہوئے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں بے شمار سیاح آکر ٹھہرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں دکانیں بھی زیادہ تر اسی نوع کی ہیں کہ صرف سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتی ہیں۔ مثلاََ نوادرات ، مصنوعی زیورات، ٹی شرٹیں ، نقشہ جات اور سیاحوں کے لئے معلوماتی مواد وغیرہ وغیرہ ۔ دکانیں خوب سجی ہوئی اور دیدہ زیب ہیں۔ لیکن اس پورے بازار میں ایک چیز جو عام نظر آئی وہ مصنوعی جنسی اعضاء تھے۔وہ دکانوں پر اس طرح سجے تھے جیسے پھلوں کی دکان پر سیب اور کیلے سجے ہوتے ہیں۔ چوہدری ارشد ہر دکان کے آگے کھڑا ٹک ٹک دیکھتارہ جاتا۔ ہمیں واپس جا کر اسے پکڑ کر آگے لانا پڑرہا تھا۔
پورے علاقے میں سیاحوں کی بہتات تھی۔چوہدری ارشد ہر منٹ کے بعد کسی نہ کسی حسینہ سے ٹکرا رہا تھا۔ اس کے فوراََ بعد وہ معافی مانگ لیتابلکہ اس کے ساتھ ہی چل پڑتا۔ ایک دو سے اس نے جھڑکیں بھی سنیں ۔ لیکن وہ مرد ِ میدان اپنے مشنسے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں تھا۔ ہمیں بار بار دھکیل کر اسے آگے بڑھانا پڑ رہا تھا۔
اس سڑک کے آخر میں گولڈ کوسٹ آسٹریلیا کی طرز کا برطانیہ کا مشہور ونڈر لینڈ ہے۔ جہاں بڑی بڑی اور بہت زیادہ تعداد میں رائڈز (جھولے) ، اِن ڈورکارریس، کشتی رانی اور دوسری بے شمار تفریحی کھیل تماشے موجود ہیں۔اس ونڈر لینڈ سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لئے ایک پورا دن یاا س سے بھی زیادہ وقت درکار ہے ۔ یہ جگہ بچوں کے لئے زیاد ہ موزوں ہے۔مجھے ان میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ پھر بھی ہم دو تین رائڈز پر گئے ۔ ان میں سے کچھ تو اتنی خطرناک محسوس ہوتی ہیں کہ کمزور دل لوگوں کو وہاں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔ایسی ہی ایک رائڈ پر جانے کے لئے جب ہم ٹکٹ لینے لگے تو چوہدری ارشد نے کہا’’ تم لوگ جاؤ! مَیں یہیں ٹھہروں گا‘‘
آصف نے گھور کر اسے دیکھا اور کہا’’ کیوں ! تمہیں کیا تکلیف ہے ؟‘‘
چوہدری کہنے لگا’’ مجھے ڈر لگتا ہے۔ مَیں یہیں تمہارا انتظار کروں گا ‘‘
آصف نے کہا ’’اگر یہاں سے ہلے تو مَیں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘
چوہدری نے وعدہ کیا کہ وہ ہمیں وہیں ملے گا۔
وہ دونوں دوست تھے لیکن آصف کا رول بڑے بھائیوں والا زیادہ تھا۔ ہم آدھ گھنٹے بعد واپس آئے تو چوہدری ارشد کا دور دور تک کوئی پتا نہ تھا۔ ہم تقریباََ پندرہ بیس منٹ اس کا وہیں انتظار کرتے رہے لیکن چوہدری ارشد ایسے غائب تھا جیسے گدھے کے سر سے سینگ! آصف اسے برُا بھلا کہہ رہا تھا’’ وہ ضرور کسی لڑکی کے پیچھے چلا گیا ہے۔ نہ جانے کتنی دور گیا ہے اور پتا نہیں کب واپس آئے گا؟‘‘
مَیں نے اسے تسلی دی’’ فکر نہ کرو۔ ادھر ہی ہو گا جلد آ جائے گا‘‘
ہم اِدھر اُدھر گھومنے لگے۔ ہماری نظریں کسی اور تماشے سے زیادہ چوہدری ارشد کی متلاشی تھیں۔ گھومتے گھومتے کافی وقت گزر گیا۔ تھکن سے ٹانگیں شل ہوچکی تھیں۔بھوک بھی ستا رہیتھی۔چوہدری ارشد کے بغیر ہم کھانا نہیں کھاناچاہتے تھے۔ مگر جب ڈیڑھ گھنٹہ گزر جانے کے باوجود وہ واپس نہ آیا تو ہم ایک فش اینڈ چپس شاپ میں چلے گئے۔کھانا لے کر پھر ہم اسی جگہ واپس آگئے جہاں چوہدری کے واپس آنے کی توقع تھی۔یہ وہی جگہ تھی جہاں ہم اسے چھوڑ کر رائڈ پر گئے تھے ۔
کافی دیر بعد وہ منہ لٹکائے واپس آتا دکھائی دیا۔ وہ چھ بجے ہم سے الگ ہوا تھا اور اب آٹھ بج رہے تھے۔ آصف تو اسے دیکھتے ہی برس پڑا۔ مَیں نے بڑی مشکل سے اسے ٹھنڈا کیااور چوہدری ارشد سے پوچھا کہ وہ کہا ںچلا گیا تھا؟ اس نے بڑی معصومیت سے بتایا ’’ آپ لوگوں کے چلے جانے کے بعد میں بنچ پر بیٹھ کرسگریٹ پینے لگا۔ اتنے میں ایک گوری آئی۔ اس نے مجھ سے سگریٹ طلب کی۔ مَیں نے اسے سگریٹ دی تو وہ وہیں میرے پاس بیٹھ گئی۔ اس نے پوچھا کہ تمھارے ساتھ کوئی اورہے یا اکیلے ہو؟ میرے منہ سے ’’غلطی سے‘‘ نکل گیا’’ مَیں تو اس دنیا میں بالکل اکیلا ہوں میرے ساتھ کون ہوگا؟ ‘‘
فلمیں دیکھ دیکھ کر تھوڑی سی اداکاری بھی آگئی ہے۔ مَیں نے اداکار محمد علی کی نقل کرتے ہوئے چند آنسو بھی بہا دیئے ۔ میری اس اداکاری کا جو اثر ہوا وہ میری توقع سے بھی زیادہ تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے میرے آنسو صاف کئے۔ مَیں نے اسے ڈرنک آفر کی تو وہ کہنے لگی کہ اس کے ڈنر کا ٹائم ہو گیا ہے ۔ دو ڈرنکس اور ڈنر کرانے میں دو گھنٹے اور پچاس پونڈ صرف ہوگئے‘‘
مَیں نے پوچھا’’ اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘
’’ڈرنک پینے اور کھانا کھانے کے بعد اس نے مجھ سے دس پونڈ لیکر پوکر مشین میں ہارے اور مزید طلب کئے۔ جب مَیں نے اسے بتایا میرے پاس مزید رقم نہیں ہے تو اچانک اسے خیال آیا کہ گھر میں اس کا خاوند اس کا انتظار کر رہا ہے۔
مَیں نے کہا ’’ تم نے پہلے نہیں بتایا کہ تم شادی شدہ ہو‘‘
کہنے لگی ’’ پہلے تم نے پوچھا ہی نہیں !‘‘
اور پھر وہ چلی گئی!‘‘
آصف چوہدری کی باتیں سنتے ہوئے دانت پیس رہا تھا۔ جب چوہدری نے بات ختم کی تو اس نے کہا ’’تمہیں پتا ہے کہ ساٹھ پونڈ تمہاری تنخواہ کا نصف ہوتے ہیںجوتم نے ایک آوارہ عورت پرمفت میں لٹا دئے‘‘
اس وقت تک چوہدری بھی خاصا پشیمان ہو چکا تھا۔ مَیں نے اسے تسلی دی اور کہا ’’ ایسا تو ہوتا ہے ایسے کاموں میں! لیکن کسی بھی تجربے سے جو سبق حاصل ہوتا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے‘‘
تھوڑی دیر بعد ہم واپسی کے سفر پر گامزن تھے۔ اس وقت تک سب کا موڈ بحال ہو چکا تھا۔چوہدری پھر چہک رہا تھا۔ راستے میں ایک موٹر وے سے آصف مطلوبہ ایگزٹ نہ لے سکا۔واپس آنے کے لئے اگلا ایگزٹ تیس میل کے بعد تھا ۔اس طرح ذرا سی غلطی سے سفر میں ساٹھ میل کا اضافہ ہوگیا۔راستے میں آصف کی فرمائش پر چوہدری ارشد نے ہمیں بہت سے پوٹھو ہاری شعر سنائے۔ اس نے مجھ سے بھی فرمائش کی ، تو مَیں نے کہا ’’پوٹھو ہار کی مردم خیز زمین اور اس کے سوندھی سوندھی خوشبو سے مجھے بھی بہت پیار ہے۔اس مٹی میں ہی میری نمو ہوئی ہے اور یہی مٹی میرا مدفن بنے گی۔ لیکن اتفاق سے پوٹھوہاری شعروںکا کبھی شوق نہیں رہا! کبھی کبھار سن ضرور لیتا ہوں ، ہاں مَیں آپ کو غالبؔ، فیضؔ، فرازؔ، ناصرؔ کاظمی ، اور پروینؔ شاکر کا کلام ضرور سنا سکتا ہوں ‘‘
پھر راستے بھریہی سلسلہ جاری رہا ۔چوہدری ارشد پوٹھوہاری شعر سناتا رہا۔مجھے اُردو کے جو شعر یاد تھے ان سے جواب دیتا رہا اور آصف فلمی گانوں سے ہمارا ساتھ دیتارہا۔ گھر پہنچتے پہنچتے رات کے بارہ بج گئے۔
کراچی کا ستر سالہ سنیاسی باوا لندن میں
مَیں نے آسٹریلیا سے روانگی سے قبل ہی یورپ میں اپنے قیام کا بندوبست کر لیا تھا۔ برطانیہ کے علاوہ دوسرے یورپی ممالک کا سفر میں ایک گروپ کے ہمراہ کر رہا تھا۔ ٹریفالگر نامی اس مشہور ٹریولنگ کمپنی نے آرام دہ کوچ، ڈرائیور ، گائیڈ اور ہوٹلنگ کا پورا بندوبست کیا ہوا تھا۔ حتٰی کہ مشہور اور قابلِ دید مقامات پر جانے کے لئے ٹکٹ بھی خریدے ہوئے تھے۔
جہاں تک برطانیہ میں قیام کا تعلق ہے اس کا ایک حصہ تویارک شائر کے قیام پر مشتمل تھا۔ وہاں مَیں اپنے دوست آصف کی وجہ سے ہی گیا تھا اور اسی کے پاس ٹھہرنا تھا۔ دوسرے حصے میں چار دن کیلئے لندن کی سیاحت شامل تھی۔ مَیں نے وہاں قبل از وقت ہو ٹل بک نہیں کروایا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ مَیں آصف کو بھی وہاں لے کر جانا چاہتا تھا۔ حالانکہ اس نے کاروباری مصروفیات کی وجہ سے وہاں جانے سے معذرت کر لی تھی۔ لیکن مَیں پھر بھی توقع کر رہا تھا کہ یار ک شائر جا کر اسے ساتھ چلنے پر قائل کر لوں گا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ لندن میں میرا ایک اور قریبی دوست علی بھی رہتا تھا۔ مَیں نے سوچا کہ اس کے ذریعے قیام کا بندوبست ہو جائے گا۔
لیکن وہاں جا کر اپنی آنکھوں سے آصف کی مصروفیا ت دیکھیں تو یقین آگیا کہ اس کا نکلنا واقعی مشکل ہے ۔ یارک شائر سے ہی مَیں نے علی کو فون کیا ۔ علی میرا بچپن کا دوست ہے۔ربع صدی پرمحیط اس دوستی میں دونوں کے خاندان بھی پوری طرح شامل ہو چکے ہیں ۔ جس دن مَیں گوجر خان سے مانچسٹر کے لئے روانہ ہو رہا تھا علی کی دادی اور اس کاچچا اگلے دن سے ہی ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ میری روانگی کے وقت بھی وہ وہیں تھے۔
میرا فون علی کی ساس نے اٹھایا جو اس کی چچی بھی ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ علی کام پر گیا ہوا ہے۔ مَیں نے ان سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ علی کو میرا یہ فون نمبر دے دیں اور بتا دیں کہ مَیں یارک شائر میں ہوں اور عنقریب لندن آنے والا ہوں اور یہ کہ علی اس نمبر پر فون کر کے مجھ سے بات کرے۔ علی کا اس رات فون نہیں آیا ۔دوسرے دن صبح مَیں نے دوبارہ فون کیا اس بار علی سے بات ہوگئی۔ اس نے خوشی اور محبت کا اظہار کیا اور کہنے لگا کہ لندن آؤ تو ملاقات ضرور کرنا۔ مَیں نے کہا ’’ ’’بھائی ! مَیں کل صبح لندن آنے والا ہوں۔ ٹور پر روانہ ہونے سے پہلے یہ چار دن لندن رک کر اس کی سیر کرنا چاہتا ہوں ‘‘
علی نے پوچھا ’’لندن میں کہاں ٹھہرو گے ؟‘‘
مَیں حیران ہوا کہ علی جیسے دوست نے یہ سوال پوچھا ہے۔ بہرحال مَیں نے کہا’’ ابھی مَیں نے ہوٹل بک نہیں کرایا۔ آج دن میں کروالوں گا اور پھر وہاں جا کر تمہیں اطلاع دوں گا‘‘
مَیں اور آصف ایک ٹریول ایجنسی میں گئے اور لندن کے علاقے بیز واٹرBays Water))میں واقع ایک ہوٹل میں کمرہ بک کروالیا۔ مَیں نے آصف کو علی کے عجیب رویے کے بارے میں بتایا۔ اس نے پوچھا ’’ کیا وہ سسرال میں تو نہیں رہتا؟‘‘
مَیں نے کہا ’’ہاں ! وہ شروع سے انہی کے ساتھ رہ رہا ہے ‘‘
آصف بولا ’’پھر وہ مجبور ہے۔ وہ خود مہمانوں کی طرح رہ رہا ہوگا کسی دوسرے کو مہمان کیا بنائے گا‘‘
لیکن یہ عذر میرے لئے قابلِ قبول نہیں تھا۔مَیں پچیس سال پہ محیط علی سے دوستی پر غور کر رہا تھا تو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یورپ کے اس سرد موسم میں کسی انسان کے جذبات بھی اتنی جلدی سرد ہوسکتے ہیں۔ اگر علی مجھے اعتماد میں لے کر کوئی مجبوری بتاتا تو مَیں ذرا بھی برا نہیں مناتا۔لیکن اس کا رویہ اور الفاظ برف میں لپٹے محسوس ہوئے تھے۔یہ پاکستانیوں والا مزاج بالکل نہیں تھا۔ وہ چند سالوں میں انگریزوں سے زیادہ انگریز بن گیا تھا۔ مَیں نے لندن میں علی سے نہ ملنے کا فیصلہ کیا۔ ویسے بھی بقول اس کے ویک اینڈ کے علاوہ اسے سانس لینے کی فرصت نہیں ہوتی۔ جبکہ مَیں یہاں لمبی لمبی بلکہ ٹھنڈی سانسیں لینے کیلئے آیا تھا۔ لمبی سانسیں پارکوں کے پر فضا مقامات پر اور ٹھنڈی سانسیں مصروف بیچوں پر!
یورپ جا کر اور وہاں کے لوگوں سے مل کر مَیں نے اندازہ لگایا کہ یورپ کی زندگی آسٹریلیا سے کہیں زیادہ تیز اور مصروف ہے۔یہ تیزی اور مصروفیت پاکستان کی نسبت تو بہت ہی زیادہ ہے۔ بلکہ پاکستان میں تو یہ مصروفیت خال خال ہی دکھائی دیتی ہے ۔ آسٹریلیا میں بھی ڈالر کمانے کی دوڑ لگ چکی ہے۔ لیکن لوگ پھر بھی دوستوں ، رشتہ داروں اور دوسری تقریبات کے لئے وقت نکال ہی لیتے ہیں ۔ اس طرح پاکستان سے آنے والوںکو بھی مجموعی نہ سہی توانفرادی طور پر ضروری مدد فراہم کرتے رہتے ہیں۔ سڈنی کے ایک سابقہ قونصلیٹ جنرل کے مطابق یہاں کے لوگ ہر وقت دعوتیں دینے اور کھانے کے موڈ میں رہتے ہیں ۔
یورپ اور خصوصاََ امریکہ میں زندگی کا بہائو تیز اور اس کے مطالبے زیادہ ہیں ۔
ڈالروں اور پونڈوں کی اس دوڑ میں مصروف لوگوں کو بعض اوقات یہ یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے اس دوڑ میں اپنے پیاروں اور چاہنے والوں کو کہیںکھو دیا ہے ۔ جب انہیں احساس ہوتا ہے اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ سب کچھ ہونے کے باوجود تہی دامن نہ سہی تو تہی دل ضرورہوچکے ہوتے ہیں ۔کچھ پاتے ہیں تو بہت کچھ کھو بھی دیتے ہیں۔شاید زندگی اسی پانے اور کھونے کا نام ہے۔
اس دن میرا لنچ آصف کے بھائی کے گھر تھا۔ وہ کافی عرصہ سے برطانیہ میں مقیم ہیں ۔ان کا اپنا بزنس اوراپناگھر ہے ۔ ماشاء اللہ خوشحال گھرانا ہے۔ وہاں سے نکل کر ہم بریڈ فورڈ جانے کے لئے تیار ہورہے تھے کہ اچانک آصف کا ایک دوست ساجدآن پہنچا۔ ساجد کے والدین بہت عرصہ پہلے برطانیہ آئے تھے۔ ساجد یہیں پلا بڑھا تھا اور انگریزوں ہی کی طرح انگریزی بولتا تھا۔ اس نے آتے ہی اعلان کیا کہ آج بقیہ میزبانی کا فریضہ وہ انجام دے گا۔ اس نے ہمیں اپنی نئی مرسیڈیز میں بٹھایا اور تھوڑی دیر بعد جیسے ہم ہوا میں تیرتے ہوئے بریڈ فورڈ کی طرف رواں دواں تھے۔ گاڑی تو بہت اچھی تھی ہی ! ساجد ڈرائیور بھی کمال کا تھا۔ جب آصف نے اسے آہستہ چلانے کا کہا تو بولا ’’ فکر نہ کرو!اس علاقے کی پولیس مجھے ٹکٹ نہیں دے سکتی۔ سبھی میرے ریسٹورانٹ پر آکر کھانا کھاتے ہیں‘‘ گویا پاکستانیوں نے یہاں کی پولیس کو بھی’ کانا‘ کر لیا تھا۔
تھوڑی دیر میں ہم برطانیہ کے منی پاکستان بریڈ فورڈ میں موجود تھے ۔ بریڈ فورڈ اتنا بڑا شہر نہیں ہے ، نہ ہی اس میں کوئی قابلِ ذکر تاریخی مقامات اور عمارتیں ہیں۔ لیکن اس میں برطانیہ کی تاریخی عمارتیں ، سڑکیں اور پرانے طرز ِ تعمیر کی حاملشاہکار بے شمار عمارتیں ہیں ۔ گردونواح میں سیکڑوں صنعتی یونٹ ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کے بے شمار تارکین وطن پاکستانیوں نے اس علاقے کو اپنا مسکن بنایا ۔ آصف اور ساجد مجھے بریڈ فورڈ کے سب سے بڑے شاپنگ سنٹر میں لے گئے جو تین منزلہ تھا۔ مجھے شاپنگ سینٹر سے دلچسپی نہیں تھی۔ ویسے بھی ان کی نظر میں یہ بہت بڑا تھا۔جبکہ سڈنی میں میرے علاقے میں واقع’’ ویسٹ فیلڈ پیراماٹا‘‘ جو بارہ منزلوں پر مشتمل ہے کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہ تھا۔
ہم بریڈ فورڈ کے مختلف علاقے کی سڑکوں اور گلیوںمیں گھومتے رہے ۔بے شمار پاکستانی خواتین و حضرات چلتے پھرتے نظر آرہے تھے ۔ ان میں سے اکثر پاکستان کے قومی لباس (شلوار قمیض ) میں اور کچھ پنجاب کی سوہنی دھرتی کے روایتی لباس یعنی کرتے اور تہہ بند میں تھے ۔ کئی مقامات پرایسے ہی لباس میں ملبوس متعدد بزرگ حضرات فرنٹ یارڈ پر چارپائیاں ڈال کر بیٹھے نظر آئے۔ انہوں نے اپنے آگے حقے رکھے ہوئے تھے اور گاؤں کی چوپال کی طرح گپ شپ میں مصروف تھے۔ آصف نے بتایا کہ پاکستان کا حقہ اور تمباکو وہاں باآسانی دستیاب ہے ۔بلکہ پاکستان کی بنی ہوئی مٹھائیاں، پاکستانی آم اور دیگر پھل بھی دکانوں سے مل جاتے ہیں ۔ آسٹریلیا کی نسبت پاکستان سے فاصلہ بہت کم ہونے کی وجہ سے انہیں پاکستان سے رسل و رسائل کی زیادہ سہولتیں میسر ہیں ۔
اگرچہ لندن سے جنگ اخبارروزانہ چھپتا ہے جو پورے برطانیہ بلکہ یورپ کے دوسرے شہروں میں بھی جاتا ہے ، اس کے باوجود دیگر پاکستانی اخبارات بھی آسانی سے مل جاتے ہیں۔ جنگ کے ذکر سے مجھے یاد آیا کہ جنگ لندن کے چند روزہ مطالعے سے مجھے علم ہوا کہ پاکستانیوں کے مختلف گروپوں اور کچھ خاندانوں میں دشمنیوں کا سلسلہ وہاں بھی چل رہا ہے ۔ اگرچہ برطانیہ میں قانون کی سختی ان کی سدِ راہ ہے۔لیکن پھر بھی انہیں جہاں موقع ملتا ہے ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ چند قتل بھی ہو چکے ہیں۔ مار پیٹ کا سلسلہ تو اکثر چلتا رہتا ہے ۔گویا پاکستان میں شروع کی ہوئی دشمنیوں کی آگ لندن کی یخ ہوائوں میں بھی سرد نہ ہوسکی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی پاکستانی جو آپس کے جھگڑوں میں مصروف رہتے ہیں اگر ان کے کسی اہل وطن پر کوئی غیر حملہ کرے تو برداشت نہیں کرپاتے۔ میرے برطانیہ پہنچنے سے چند دن پہلے ایک ایسے ہی جھگڑے میںجو پاکستانیوں اور جمیکا کے کالوں کے درمیان ہوا تھا، ایک کالا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھاتھا۔
جنگ لندن میں چند اور دلچسپ چیزیں بھی نظر آئیں ، مثلاََ کراچی کا ستر سالہ سنیاسی باوا یہاں بھی موجود تھا۔پچیس سال قبلجب میں پہلی مرتبہ کراچی گیا تو اس ستر سالہ سنیاسی باوے کے اشتہار کراچی کی دیواروں پر نظر آئے۔ میں گیارہ سال تک وہاں رہا۔ اس دوران اس باوے کا اشتہار مختلف علاقے کی دیواروں پر ہمیشہ دکھائی دیتا رہا۔ گیارہ سال میں یہ بابا ستر سال سے ذرا بھی آگے نہیں بڑھا۔ اس کے مزیددس سال بعد جب مَیں پھر کراچی گیا تو وہ تب بھی سترسال کا ہی تھا۔یہ ’’باوا ‘‘تمام لاعلاج امراض مثلاََ مردانہ کمزوری، زنانہ اور مردانہ خفیہ امراض، بواسیر ، دائمی زکام اور بوڑھوں کو جوان کرنے تک ہر ناممکن کو ممکن کر سکتا ہے ۔ گویا دنیا بھر کے ڈاکٹراور سائنسدان کروڑوں ڈالر خرچ کرکے جن بیماریوں کا علاج دریافت نہیں کر سکے یہ باوا ان سب امراض کو چٹکی بجاتے ٹھیک کر سکتا تھا۔ یہی ستر سالہ سنیاسی ’’باوا‘‘ اس وقت یورپ کے لوگوں کو اپنے تیر بہدف نسخوں سے مستفید کرنے کے لئے لندن پہنچا ہو ا تھا۔
جنگ لندن میںاس کے علاوہ ایک عامل بابا کا اشتہاربھی روزانہ اخبار کی زینت بن رہا تھا۔یہ بابا بھی ناممکن کو ممکن کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتاتھا۔ مثلاََ محبت میں ناکامی، کاروبار میں ناکامی ، بے روزگاری،شوہر کے بے التفاتی ، بیوی کی بے وفائی ، ساس کو قابو کرنا، بہو کو نکیل ڈالنا، باس کا دل موم کرنا اور اولاد کا نہ ہونا، ان سب مسائل کو یہ بابا راتوں رات حل کر سکتا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جہالت ہے اس لئے ایسے فراڈیوں کو گل کھلانے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن لندن جیسے ترقی یافتہ شہر میں بھی یہ لوگ اپنی فنکاری سے بھولے بھالے لوگوں کو زیر ِدام لارہے ہیں۔ گویا ہماری روایتی تو ہم پرستی کہیں بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔اس صورتِ حال پر ایک مصرعہ علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ عرض کروں گا!
لندن میں بھی نہ چھوٹے مجھ سے آدابِ توہم پرستی
بریڈ فورڈ میں ایک بہت ہی مشہور پاکستانی ریسٹورنٹ ممتاز محل ہے ۔ یہ وہاں کے ایک بہت بڑے کاروباری پاکستانی کی ملکیت ہے۔ ان حضرت کے کئی اسٹور اوردوسری کمرشل عمارتیں بھی ہیں۔ ساجد ہمیں ڈنر کے لئے وہاں لے گیا۔ حالانکہ اس کا اپنا بھی ریسٹورانٹ ہے۔ ( اکثر ریسٹورانٹ کے مالک اپنے ریسٹورانٹ میں کھانا نہیں کھا تے ، نہ جانے کیوں ؟) ممتاز محل ریسٹورانٹ کا ہال محل کی طرح ہی خوبصورت اور وسیع تھا۔ اس کا عملہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس اور نہایت چاک و چو بند تھا۔ ہال میں مدہم روشنیاں ، آرام دہ خنکی اور مدھر سی موسیقی کی تانیں کانوں میں رس گھو ل رہی تھیں۔جب کھانا آیا تو اس کا ذائقہ لا جواب تھا۔ ہر ڈش اور ہر نان کسی فن کار طباق کے فن کامنہ بولتا ثبوت تھا۔بھوک زیادہ نہ ہونے کے باوجود ہم نے مختلف ڈشوں اور ان کی روایتی لسی سے پورا پورا انصاف کیا۔ اس ریسٹورانٹ کا بنا ہوا پیک کھانا بر طانیہ کے بڑے بڑے سٹوروں میں بھی دستیاب ہے۔
وہاں سے نکل کر ہم Dewsberry میں واقع ایک میوزیم میں گئے۔ اس چھوٹے سے میوزیم کے گردونواح میں خوبصورت اور گھنا باغ ہے ۔ ساجد نے ہنستے ہوئے بتایاکہ یہ محبت زدہ جوڑوں کے لئے منفرد جگہ ہے۔ اس میوزیم کا ایک حصہ بر صغیر پاک و ہند کے مناظر پر مشتمل تصاویرکے لئے مخصوص تھا۔ داتا دربار لاہور کا ایک خوبصورت منظر آنکھوں کو تراوت بخش رہاتھا۔ شاہی مسجد کی شاندار پینٹنگ ایک دیوار پر آویزاں تھی۔ سکھوں کا گردوارہ اور گنگا میں اشنان کرتے ہوئے ہندوؤں کا ایک منظر بھی نہایت خوبصورتی اور مشاقی سے کینوس پر منتقل کیاگیا تھا۔گھر واپس آتے آتے رات کے دس بج گئے۔دوسرے دن میں لندن کے لئے روانہ ہو رہا تھا۔
جب اشیاء کے نرخبتاتی تو چڑیل لگتی تھی
۱۸ جولائی کی صبح ہم ابھی ناشتے میں مصروف تھے کہ ساجد اپنی مرسڈیز کے ساتھ آپہنچا۔ ناشتے کے فورـــــاََ بعد وہ ہمیں لے کر لیڈز کی طرف روانہ ہو گیا۔ لیڈز بھی بریڈ فورڈ کی طرح بیس پچیس منٹ کی مسافت پر تھا ۔ میں نے لیڈز اوول دیکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔لیڈز کا اوول بھی سڈنی کرکٹ گرائونڈکی طرح سرسبز اور خوبصورت ہے۔ اس وقت دو کائونٹیزمیں میچ جاری تھا۔ گرائونڈمیں تما شائیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ تاہم جو تماشائی میدان میں موجود تھے وہ دلکش سہانے موسم اور اُجلی دھوپ سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہے تھے ۔یورپ اور آسٹریلیا میں لوگ کھیلوں سے بھر پور انداز میں لطف اٹھاتے ہیں ۔وہ ٹولیوں کی شکل میں میدانوں میں جاتے ہیں ۔ٹھنڈے اور گرم مشروبات کا دور چلتا رہتا ہے۔ ہنسی مذاق اور ہلکی پھلکی نعرے بازی بھی جاری رہتی ہے۔ ان کی ٹیم ہارے یا جیتے وہ دونوں صورتوں میں کھیل انجوائے کرتے ہیں۔ اکثر لوگ اپنی ٹیم کے یونیفارم کے رنگ کے کپڑے پہن کر آتے ہیں اوراپنے پسندیدہ کلب کے جھنڈے اٹھائے ہوتے ہیں۔ کھانے پینے ،ہنسی مذاق اور اچھے کھیل سے تماشائی دن کے ہر لمحے کو بھرپور اور یادگار انداز میںمناتے ہیں۔
لیڈز میںآصف کے کچھ دوست رہتے تھے۔ ہمارا لنچ اس دن اُن کے ہاں تھا ۔ہم اس اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے تو یوں محسوس ہوا کہ خطہّ پوٹھوہار میں ہونے والی کسی گانے کی محفل میں پہنچ گئے ہوں۔ اس فلیٹ میں چار لڑکے رہتے تھے۔ ان میں سے دو اپنے سسرال والو ںسے ناراض ہو کر وہاں آئے تھے اور دو طالبعلم تھے۔ چاروں کا تعلق گوجرخان سے تھا ۔ ہم جب وہاں پہنچے تو کل چھ ا فراد وہاں موجود تھے۔ ایک نے ڈھولک پکڑی ہوئی تھی۔ دوسرے کے ہاتھ میں ستار( گٹار) تھی اور تیسرے نے تانبے کا ایک تھال اُلٹا رکھا ہوا تھا ۔باقی تینوں تالیوں اور نعروںسے ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ پوٹھوہاری شعر خوانوں کا اندازِ گائیکی منفرد اور طرز جُداہے۔ شروع میں یہ انداز عجیب محسوس ہوتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کی ردم اور تال اور گائیکی کا انداز اچھا لگنے لگتا ہے ۔ مجھے اگرچہ اس طرح کے گانوں کا زیادہ شوق نہیں ہے پھر بھی گاہے گاہے سُن کر لطف اندوز ہوتا ہوں۔
ان تمام دوستوں نے ہمارا والہانہ استقبال کیا ۔گانے کی محفل جاری رہی۔ ساتھ ساتھ کھانے کا دور چلتا رہا ۔جو شوقین تھے ان کے لئے نائونوش کا بھی بندوبست تھا۔ یورپین زندگی میں اس طرح کی چیزیں اکثر دیکھنے میں آتی رہتی ہیں۔کھانے کے بعد تمام دوست دو گاڑیوں میں مجھے اسٹیشن چھوڑنے کے لئے گئے ۔اچھا خاصا جلوس کا ماحول بن گیا۔ میرا سامان پہلے ہی میرے ساتھ تھا۔ انہوں نے
( (Hudersfieldکے اسٹیشن سے مجھے لندن کی ٹرین پر بٹھایا۔ وہاں ساجد نے میری ایک نہ چلنے دی اور ٹکٹ کے پیسے زبردستی اداکئے۔ ۶۵ پو نڈ کی رقم کم نہ تھی ۔خصوصاََ اس صورت میں کہ ساجد سے میری ملاقات صرف ایک دن قبل ہی ہوئی تھی ۔ ان دو دنوں میں اس نے مجھے اپنے خلوص ، محبت ،بے تکلفی اور دریا دلی سے بے حد متاثر کیا تھا۔ آصف اور دوسرے تمام دوستوں نے بہت محبّت اور خلوص سے الوداعی معانقہ کیا اور میں ٹرین میںسوار ہو گیا۔
یورپ میںیہ میراپہلاٹرین کا سفر تھا۔ان کاکرایہ آسٹریلیاکی نسبت بہت زیادہ ہے۔مثلاََ d dersfiel Hudسے لندن کایہ سفر صرف۳ گھنٹے کا ہے۔ جبکہ ۶۵ پونڈ آسٹریلیا کے تقریباً دوسو ڈالر کے برابر ہیں۔آسٹریلیا میں دوسو ڈالر میں اس سے چار گنا سفر کیا جا سکتا ہے۔تاہم یہ ٹرین انتہائی آرام دہ ،صاف ستھری اور جدید ترین سہولتوںسے آراستہ تھی۔ٹرین کے اندر کا ماحول بالکل بین الاقوامی پرواز کی مانند تھا۔ ویسے ہی آرام دہ سیٹیں ،صاف ستھرے ٹوائلٹ اور با اخلاق عملہ!جہاز کی طرح ٹرین کے میزبان ٹرالی میں تمام مشروبات ،چائے ،کافی اور اسنیکس وغیرہ سروکررہے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ان میںکوئی چیز مُفت نہیں تھی ۔قیمت ادا کر کے کچھ بھی خرید سکتے ہیں۔ ائرہوسٹس کی طرح ٹرین کی میزبان بھی نوجوان، دلکش اور خوش اخلاق تھی۔وہ چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ سجائے ہوئی تھی۔لیکن جب ڈرنک یا کافی کی قیمت بتاتی تھی تو بالکل چڑیل لگتی تھی۔
شمالی برطانیہ کا یہ دیہی علاقہ جہاں سے ہماری ٹرین گزر رہی تھی، انتہائی خوبصورت ہے۔سر سبزوشاداب فارم دونوںجانب اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسان مرد اور عورتیں ،رنگا رنگ فصلیں ،اونچے نیچے پہاڑی علاقے،بل کھاتی وادیاں،غرضیکہ قدرت کی صناّعی کے نمونے جابجا بکھرے تھے ۔ٹرین کے اندر کا ماحول بھی کافی رنگین تھا۔کئی دلکش چہرے اٹھکیلیاںکرتے دکھائی دے رہے تھے۔میں جس سیٹ پر کھڑ کی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اس پر تین افراد کی گنجائش تھی۔ لیکن وہاں میرے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ البتہ میرے بالکل سامنے ایک انگریز بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کبھی تو کتاب پڑھتا اور کبھی باہر کے نظارے دیکھنے لگتا۔
پہلے ایک گھنٹے میںہمارے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی ۔میںجانتا تھا کہ انگریز پہل کرنا پسند نہیں کرتے ۔ لیکن اگر دوسرا ان کو مخاطب کر لے تو پھر ریڈیو کی طرح بجنے لگتے ہیں۔بالکل یہی ہوا۔ میں نے اس سے ان مناظر کی خوبصورتی کی بات کی تو اس کا بٹن آن ہو گیا ۔اس نے بتایا کہ وہ لندن میں کام کرتا ہے اور Hudersfield میں اسکا آبائی گھر ہے۔ لہذا وہ پانچ دن لندن میں رہتا ہے اور دو دن یہاں اپنی فیملی کے ساتھ گزارتا ہے۔
وہ ویک اینڈ گزار کر واپس لندن جارہا تھا۔اس نے بتایا ’’ میںاپنے بچّوں کو لندن کے شوروغُل اور کثافت زدہ ماحول سے دور یہاں دیہات میں پروان چڑھانا چاہتا ہوں۔ اس کی وجہ سے مجھے پانچ دن فیملی سے دور رہنا پڑتاہے اور ہر ہفتے یہ مہنگا سفر بھی کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کی صحت مند ماحول میں نشوونما کیلئے یہ قربانی دینی پڑرہی ہے۔‘‘
میںسوچ رہا تھا کہ پاکستان میں لوگ گائوںچھوڑکر شہروں میں اس لئے جا بستے ہیں کہ وہاں بچوں کی بہتر پرورش اور تعلیم و تربّیت ہوگی ۔اب آہستہ آہستہ دیہات خالی ہو رہے ہیں اور شہر آبادی کے بوجھ سے دبے جا رہے ہیں۔ حالانکہ لندن کے مقابلے میں کراچی ،لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی جیسے شہر انتہائی کثافت زدہ اور شوروغُل سے بھر پور ہیںلیکن ہم پھر بھی وہیں رہنا پسند کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ تو روزگار ، بچوں کی تعلیم اور علاج معالجے کی بہتر سہولتوں کی وجہ سے شہروں میں رہنے پر مجبور ہیں ۔ کچھ لوگ شوقیہ اور بلا ضرورت بھی شہروں میں ٹکے رہتے ہیں۔جو چار جماعتیں پڑھ جاتا ہے اسے گاؤں کی زندگی زہر لگنے لگتی ہے۔ کچھ تو صرف بیگمات کی فرمائش پر ہی شہروں کے ڈربوں میں بند رہ کر زندگی گزار دیتے ہیں جہاں نہ تازہ ہوا ہے اور نہ خالص خوارک، صرف نمائشی چکا چوندہے۔
بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ بات ہو رہی تھی، اس انگریز بہادر کی جو مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ مَیں کہاں سے آیا ہوں۔ مَیں نے اسے بتایا ’’ بنیادی طور پر میرا تعلق پاکستان سے ہے لیکن مَیں آسٹریلیا میں رہتا ہوں۔ اب یورپ کی سیر کے لئے نکلا ہوں‘‘
وہ انگریز جس کا نام مارک تھا، کہنے لگا’’ اوہ ! آسٹریلیا ! بہت خوبصورت ملک ہے۔ تم بہت خوش قسمت ہو کہ اتنی اچھی جگہ رہتے ہو۔ مَیں طالبعلمی کے زمانے میں ایک دفعہ وہاں گیاتو میرا دل واپس آنے کو نہیں چاہ رہاتھا۔ کبھی کبھی مَیں سوچتا ہوں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اگر ممکن ہوا تو آسٹریلیا میں جا بسوں گا اور بقیہ زندگی وہیں گزاروں گا‘‘
یہ پہلی اور آخری دفعہ نہیں تھا کہ کسی یورپین نے اس خواہش کا اظہار کیاتھا۔ اس دورہ ِیورپ کے دوران میری بے شمار یورپین ، امریکن اور ساؤتھ افریکن باشندوں سے ملاقات رہی۔ ان میں سے درجنوں نے آسٹریلیا میں رہنے کی خواہش ظاہر کی۔ بعض نے کوششیں بھی کیں لیکن انہیں مستقل سکونت کا ویزہ نہ مل سکا۔ویسے بھی آسٹریلیا میں سب سے زیادہ تارکینِ وطن یورپ خصوصاََ برطانیہ سے متعلق ہی ہیں ۔
مارک نے بتایا کہ اس نے ماہر تعلیم کی حیثیت سے دوسال بنگلہ دیش میں بھی گزارے ہیں۔ اس دوران اس کو دلچسپ تجربات ہوئے۔ اس کے بعد مارک سے کھلی گپ شپ شروع ہوتی رہی۔ ایک مرحلے پر وہ کہنے لگا’’ میرے خیال میں اگر بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش اکھٹے ہوتے تو وہ زیادہ مضبوط اور خوشحال ملک ہوتا‘‘
مَیں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا’’ میرے خیال میں رقبہ یا آبادی زیادہ ہونے سے کسی ملک کی مضبوطی یا اس کے باشندوں کی خوشحالی مشروط نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو سابقہ سویت یونین اب سمٹ کر روس نہ بن گیا ہوتا‘‘
مارک کہنے لگا’’وہ تو درست ہے لیکن بھار ت تو پھر بھی بڑا ملک ہے لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش نے الگ ہو کر غلطی کی ہے۔ آخر کل تک یہ ایک ہی ملک تھا۔ ایک ہی جیسے لوگ وہاں رہتے ہیں۔ آج سب اکھٹے کیوں نہیں رہ سکتے ‘‘
مَیں نے کہا’’ یہاں پر میں ایک غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں کہ پورے بر صغیر میں ایک ہی جیسے لوگ رہتے ہیں۔ صرف ایک رنگ ہونے سے وہ ایک جیسے نہیں ہیں۔ بر صغیر میں درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مختلف مذاہب ہیں۔ رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت میں بھی ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہیں۔جہاں تک آپ کا یہ خیال ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھارت کے ساتھ رہتے تو بہتر تھا، وہ بھی درست نہیں ہے۔ کیوں کہ بھارت میں صرف ہندو ہی خوشحال اور آزاد زندگی گزار سکتے تھے۔ بھارت میں آج اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ میرے اس دعوے کا بین ثبوت ہے‘‘
مارک نے کہا’’ یہ اس خطے کی بد قسمتی ہے کہ وہاں مذہبی انتہا پسندی بہت زیادہ ہے۔ میرے خیال میں پاکستان اور بھار ت میں اختلافات انہی انتہا پسندوں کی وجہ سے ہیں۔ اگر مذہب کا اتنا عمل دخل نہ ہوتا تو یہ تین نہیں ایک ملک ہوتااور شاید سپر پاور ہوتا‘‘
مَیں نے کہا’’ معاف کرنا !اس معاملے میں آپ کو مکمل علم نہیں ہے ۔پاکستان مذہب کی بنیاد پر وجود ضرور آیا تھا لیکن یہ ہندو ؤں کیخلاف اعلان جنگ نہیں تھا۔ یہ بات بھی اپنے ذہن میں رکھیں کہ اس خطے کے مسلمان ایک آزاد اور خود مختار مملکت چاہتے تھے ۔جہاں وہ آزادانہ اپنی مذہبی اور ثقافتی روایات پر عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کر سکیں ۔ لیکن تقسیمِ ہند کے عمل کو غیر منصفانہ بنا کر پاکستان اور ہندوستان میں اختلافات کے جو بیج بوئے گئے ہم آج تک اس وقت کی بوئی ہوئی زہریلی فصلکاٹ رہے ہیں۔ جہاں تک بنگلہ دیش کا تعلق ہے۔ بنگالی مذہب نہیں، زبان کی بنیاد پر ہم سے الگ ہوئے تھے۔ لہذا یہ کہنا کہ برصغیر کی تقسیم صرف مذہب کی بنیاد پر ہوئی ہے ، درست نہیں ہے ۔ ویسے بھی پاکستان اب ایک اٹل حقیقت ہے ۔ یہ بحث اب فضول ہے ‘‘
مارک بولا’’ مَیں یہ بات تو تسلیم کرتا ہوں کہ برطانیہ نے ہندوستان بہت عجلت میں چھوڑا اور بہت سے مسائل ادھورے رہ گئے، جو بعد میں زیادہ گمبھیر ہوتے گئے۔ لیکن ہندوستا ن اور پاکستان نے خود بھی تو ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ یورپ نے اپنے کئی دیرینہ مسائل آسانی سے حل کر لئے ہیں ۔ آخروہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ ‘‘
مَیں نے کہا’’ وہ اس لئے کہ ہندوستا ن اور پاکستان کے مسائل حل کروانے کے بجائے انہیں مزید پیچیدہ کر دیا جا تا ہے۔ مثلاََ کشمیر پر اقوام متحدہ کی ریفرنڈم والی قرارداد موجود ہے۔ لیکن سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور دوسرے بااثر ممالک اس قرارداد پر عمل کرانے کی بجائے اس معاملے میں عدم مداخلت کی پالیسی پر گامزن ہوگئے۔ اب وہ واضح طور پر بھارت کی طرف دار ی کرنے لگے ہیں۔ اس طرح ان ممالک کا نہ صرف کروڑوں ڈالر کا اسلحہ اور ہتھیار فروخت ہو رہے ہیں بلکہ انہیں نمبرداری دکھانے کا زیادہ موقع مل رہا ہے۔ جہاں تک یورپ کا تعلق ہے۔ یورپی ممالک نے اپنے اختلافات کم کئے ہیں،ختم نہیں ہوئے۔ یورپ کے ممالک جو سائز میں اتنے ہیں کہ ایک دن میں چھ ممالک میں بذریعہ کار گھوما جا سکتا ہے۔ ایک کلچر، ایک مذہب، ایک لباس اور اب ایک کرنسی رکھتے ہوئے، ایک ملک کیوں نہیں بن جاتے؟ہندووئں اور مسلمانوں میں تو کوئی قدر مشترک ہے ہی نہیں۔ پھر وہ اتنی آسانی سے کیسے اکھٹے بیٹھ سکتے ہیں‘‘
مارک ہنستے ہوئے کہنے لگا’’ آپ کی دلیلیں دل کو لگتی ہیں۔ مَیں استادوں کا استاد ہوں اور خود کو برصغیر کے معاملات کا ماہر سمجھنے لگا تھا۔ لیکن آج پتہ چلا ہے کہ کوئی میرا بھی استاد موجود ہے۔ مجھے آپ سے مل کر اور بات کر کے حقیقی خوشی محسوس ہو رہی ہے‘‘
مَیں نے کہا’’ مجھے بھی یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ برصغیر کے معاملات میں اتنی دلچسپی لیتے ہیں۔ جہاں تک استادی کا تعلق ہے، میں بھی استاد رہ چکا ہوں۔ لیکن صرف اپنے شاگردوں کا۔یہ آپ کی عظمت ہے کہ مجھے استاد کہہ رہے ہیں ‘‘
انہی باتوں میں ہماری ٹرین لندن میں داخل ہوگئی ۔ مارک اپنا فون نمبر دے کر میرے سے پہلے اسٹیشن پر اُتر گیا۔