یہ ہی تو راز الفت ہے کہ
ہر آنسو رخ موڑا
نور اپنے روم میں ائی کمرے کا درواذ بند کیا اور ایک کٹی ہوئی شاخ کی طرح زمیں پر بیٹھ گئی وہ ٹوٹ گئی آنسو باہر انے کے لیے تیار تھے وہ رونے گئی جانتی تھی کہ جو آج ہو تھا وہ سب ہو گا وہ تیار تھی لیکن پھر سے نئے سرے سے تکلیف ہو اس کو
آج وہ پھر سے ٹوٹ گئی جیسے بارا سال پہلے ٹوٹی تھی لیکن اس وقت میں اور آج میں زمیں آسمان کا فرق تھا بارا سال پہلے اس کے ماں بابا اس کے ساتھ تھے لیکن آج اس کے پاس کوئی اپنا موجود نہیں تھا نہ ہی پیار کرنے والی ماں اور نہ ہی بابا وہ سسکی اور ایک نام اس کے ہونٹوں پر تھا ماں پلیز میں تکلیف میں ہو بابا آپ کی بیٹی تھک گئی ہے
اس نے روتے ہوے کہا لیکن پھر اس نے اپنے آنسو صاف کیے لیکن ماں بابا آپ کی بیٹی مضبوط ہے وہ نہیں رو گئی
میں نفرت کرتی ہو آپ لوگوں سے اب نور احمد اور حریم سے مخاطب تھی اور وہ اٹھی وضو کیا نماز ادا کی اور دعا میں خدا سے اپنے لیے سکون مانگا
کچھ لوگوں دعاوں میں سکون مانگتے ہے لیکن یہ بھول جاتے ہے کہ انہوں نے اللہ کی مخلوق کو پریشان کیا ہے یہ ہی حال اس وقت نور کا تھا اس نے اپنے باپ سے کیسے بات کی ان کو کنتی تکلیف دی تو وہ کیسے سکون میں ہو سکتی تھی
ڈاکٹر ایا اور اس نے حریم کو انجکیشن دیا کچھ ضروری باتے کی اور چلا گیا
احمد اپنی بیوی کو دیکھا رہا تھا آج انتے سال بعد
وہ وقت کے ساتھ کمزور ہو گئی تھی
سب اس کے روم میں موجود تھے شاہ اور بلال بیڈ پر بیٹھے تھے
بلال بچے جاو آپ اور شاہ آپ بھی جاو آپنے روم میں ہو یہاں احمد نے کہا
پر ڈیڈ مجھے یہاں ہی رہنا ہے ماما کے پاس بلال نے کہا بلال رات بہت ہو گئی ہے جاو ویسے بھی حریم کو صبح ہی ہوش ائے گا چلو احمد نے کہا
بلال نے گہرا سانس لیا اور شاہ کی طرف دیکھا تو شاہ نے آنکھیں ہی آنکھیں میں کچھ اشارہ کیا
ٹھیک ہے ڈیڈ لیکن آپ بھی پریشان نہیں ہویے گا سب ٹھیک ہو جائے گا بلال نے کہا
اس کی بات پر احمد نے بلال کو گلے سے لگیا اور انشاءاللہ کہا احمد کو شائد اس چیز کی ضرورت تھی
دو دونوں روم سے باہر ائے دونوں ہی خاموش تھے لیکن پھر شاہ بولا بلال تو ٹھیک ہے
اس کی بات پر بلال نے آنکھیں زور سے بند کر کے کھولی اور جواب دیا پتا نہیں تو شاہ اس کا ہاتھ تھام کر اس کو روم میں لایا ۔
بلال جو تیرے دل میں ہے مجھے بتاوں شاہ نے کہا
شاہ میری بہن کے ساتھ اتنا سب ہو گیا اور وہ اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا میری ڈول نے اتنی تکلیف میں تھی بلال نے قرب سے کہا
بلال جو ہو گیا اس کو ہم نہیں بدل سکتے لیکن ہم نور کو خوش رکھنے کی کوشش کر سکتے ہے اس کی نفرت ختم کرنے کی کوشسش کر سکتے ہے شاہ نے کہا
ہاں جو کچھ آج ہوا اس کو بھول نہ اسان نہیں ہے بلال نے کہا
سب ٹھیک ہو جاے گا شاہ نے کہا اچھا اب تم جاو نور کے پاس بلال نے کہا اور شاہ سر ہلاتا ہو چلا گیا
شاہ روم میں ایا تو نور سو چوکی تھی کچھ وقت وہ نور کو دیکھتا رہا
اتنا سب کچھ ہو ہے اس لڑکی کے ساتھ میں وعدہ کرتا ہو نور میں آپ کو بہت خوشیاں دو گا آپ سب بھول جاو گئی شاہ نے خود سے عہد کیا اور فریش ہونے چلا گیا
کچھ وقت بعد واپس ایا اب وہ کچھ پر سکون تھا اس نے گہرا سانس لیا اور بیڈ کی دوسری سائیڈ پر لیٹ گیا اور نور کو دیکھنے لگا
نور کو دیکھا کر اس کے چہرہ پر مسکراہٹ ائی اور اس کی طرف جھکا اور ماتھے پر لب رکھے
دور کہی فجر کی آزان ہو رہی تھی نور کی آنکھ کھولی اس کی نظر شاہ کی طرف گئی تو شاہ اس کو دیکھا رہا تھا
شاہ ساری رات نور کو دیکھتا رہا اور اس کے بارے میں سوچتا رہا
دونوں کی نظریں ملی دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ایک کی آنکھوں میں حیرات اور دوسرے کی آنکھوں میں پیار اور نرمی تھی
نور نے گھبرا کر کڑوٹ لی تو شاہ مسکرایا اور اس نے نور کو کھیچ کر اپنے قریب کیا اس کی حرکت پر نور کا سانس بند ہو گیا
شاہ نے اس کا رخ اپنی طرف کیا اور اس کو دیکھنے لگا یہ یہ آپ نور اور بھی کچھ کہتی شاہ نے اس کی بات کاٹی
ششش شاہ نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھی اور اپنی پیشانی اس کی پیشانی پر رکھی
دونوں ایک دوسرے کی دھڑکنوں کو سن رہے تھے اور ایک دوسرے کو محسوس کر رہے تھے روم میں ایک محبت بھری خاموشی تھی
مسٹر آفیسر نور نے خاموشی کو توڑا جی شاہ نے کہا مجھے نماز پڑھنی ہے نور نے کہا تو وارث نے سر اٹھا کر نور کو دیکھا اور مسکرایا
اس کے ماتھے پر لب رکھے اور اس کو کہا جاو
نور کے چہرے پر حیا کے زنگ تھے وہ وضو کر کے واپس ائی تو شاہ بھی اٹھا اور فریش ہوا مسجد کی لیے نکالا
نور نے نماز ادا کی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھے تو اس کی آنکھیں کے سامنے صبح والا منظر ایا اس کے ہونٹوں پر ایک شرملی سی مسکاں ائی نور نے گہرا سانس لیا اور دعا مانگئی
کیا وارث مجھے سے محبت کرتے ہے نور نے خود سے سوال کیا ہاں شائد دل سے ایک آواز ائی نور اب آنیئہ کے سامنے خود کو دیکھا رہی تھی
مجھے اس راشتہ کو وقت دینا چاھیے
میں حوبصورت ہو نور نے خود سے کہا زندگی میں پہلی بارا نور نے خود کو حوبصورت کہا تھا پھر وہ کچھ سوچ کر مسکرائ اور الماری کی طرف بڑھی
یار مجھے تو شاپنگ کی ضرورت ہے نور نے سوچا
اور پھر الماری سے ایک اچھا سا ڈریس نکالا اور فریش ہونے چلی گئی
وہ واپس ائی اور تیار ہونے لگئی نور کو شروع سے ہی میک آپ کا شوق تھا لیکن اس کی ماں اس کو کرنے نہیں دیتی تھی وہ کہتی تھی کہ نور میک آپ شادی کے بعد کر نا اور ان کی بات پر نور کا منہ جاتا تھا
آج نور کو اماں کی بات یاد ائی تو ایک آنسو اس کی آنکھ سے گرا جس کو اس نے بے دردی سے صاف کیا تھا
آنکھیں میں جل لگا چہرے پر بی بی کریم اور ہونٹوں پر لائیٹ زنگ کی لپسٹ لگئی کم وقت میں ہی وہ تیار ہو گئی اور اب وہ کانوں میں ٹوپز پہلنے لگئی تھی اس ہی وقت روم کا درواذ کھولا اور شاہ اندر ایا نور کو آنیئہ کے سامنے اور تیار دیکھ کر وہ کھو گیا
نور آنیئہ میں اس کا عکس دیکھ کر انجان بنتے ہوے اپنا کام کرتی رہی کچھ وقت بعد شاہ کو ہوش ایا اور چلتا ہوا نور کے پاس ایا کہی جا رہی ہے۔ آپ وارث نے پوچھا نہیں ایک الفاظ میں جواب ایا
وارث حیران پریشان سا الماری کی طرف بڑھا وہ سوچ رہا تھا کہ نور کو ہوا کیا ہے
سنیے میں نے آپ کے کپڑے نکال دیے ہے آپ فریش ہو جاے نور نے کہا اور ایک نظر آنیئہ میں خود کو دیکھا اور صوفہ پر بیٹھ گئی
جبکہ شاہ کو شاک لگ اس کی بات پر وہ تو اس سے بات نہیں کرتی تھی آج اس کو ہوا کیا تھا کہ اس کے کام کر رہی تھی
وہ فریش ہو کر واپس ایا تو نور صوفہ پر بیٹھی فون استعمال کر رہی تھی وہ چلتا ہو آنیئہ کے سامنے ایا اس ہی وقت روم کا درواذ نوک ہو اور بوا ناشتہ لے کر اندر ائی
بوا آپ یہ واپس لے جائے ہم نیچے ارہے ہے نور نے ان سے اسلام لینے کے بعد کہا اور بوا مسکراتی ہوئی واپس چلی گئی
جبکہ شاہ کو تین جٹھکا لگ تھا وہ پریشان سا نور کو دیکھا رہا تھا
جو کچھ کل ہو تھا وہ سوچ رہا تھا کہ نور اب کبھی روم سے باہر نہیں نکالے گئی لیکن وہ نارمل بی ہیو کر رہی تھی جیس کچھ ہوا ہی نہیں
نور مڑی اور شاہ کی شکل دیکھ کر اس کو بہت ہسنی ائی لیکن وہ ضبط کر گئی چلے اس نے وارث سے کہا ہاں وارث نے خود کو کمپوز کرتے ہوے کہا
___________________
وہ دونوں نیچے ائے تو سب ناشتہ کی ٹیبل پر موجود تھے سوائے بلال کے
نور سب کو اسلام کیا سب حیران سے نور کو دیکھا رہے تھے کیونکہ وہ اکیسڈنٹ کے بعد آج نیچے ائی تھی وہ کھانا اپنے روم میں ہی کھاتی تھی
بڑی ماں بلال بھائ کہاں ہے نور نے دعا سے پوچھا تو وہ مسکرای اپنے روم میں ہے آتا ہی ہو گا دعا نے کہا
میں بھائ کو بلا کر لاتی ہو نور نے کہا اور چلی گئی
جبکہ شاہ کو پھر سے شاک لگ تھا نور کا دعا کو بڑی ماں کہنا اس کو سمجھ نہیں ارہا تھا کہ نور کو ہوا کیا ہے
____________________
نور بلال کے روم میں ائی تو وہ تیار ہو رہا تھا بھائ ناشتہ پر میں آپ کا انتظارا کر رہی تھی چلے نور نے بلال کا ہاتھ پکرا
جبکہ بلال مسکرا بھی نہیں سکا اور حیران تھا نور کیسے نارمل بی ہیو کر سکتی ہے
وہ دونوں نیچے ائے سب ناشتہ میں مصروف تھا سوائے وارث کے جو وہ نور کے بارے میں سوچ رہا تھا بھائ کیا لے گئے نور نے بلال سے پوچھا بچے آپ کھاو میں خود لے لو گا بلال نے کہا
یار بتاے نا بھائی نور نے کہا ٹھیک ہے سیٹنچ دے دو بلال نے کہا اور حیرات سے شاہ کو دیکھا رہا تھا جو خود گہرئ سوچ میں تھا
مسٹر آفیسر آپ کیا لے گئے نور نے اب شاہ کو دیکھا جو کہ ناشتہ نہیں کر رہا تھا
شاہ اس کی بات پر ہوش میں ایا کچھ نہیں شاہ نے کہا اور جوس گلاس میں ڈالا
کیوں آپ ناشتہ کیے بغیر آفیس جاے گئے نور نے پوچھا
ایک اور شاک لگ شاہ کو
آج سے پہلے وہ کچھ کھاتا ہے کہ نہیں نور کو اس بات کی فکر نہیں ہوتی تھی
جی شاہ نے جواب دیا ویسے یہ بات ٹھیک نہیں ہے آپ یہ لے نور نے کہا اور ایک سیٹنچ اس کی پلیٹ میں رکھ
نور نے مسکرا کر سب سے کچھ نا کچھ بات کی سوائے احمد اور حریم کے اور یہ بات شاہ اور بلال نے نوٹ کی تھی جبکہ حریم اور احمد اپنی ڈول کو خوش دیکھا کر خوش تھے
شاہ اور بلال نے سب کو خدا حافظ کیا اور پورچ میں ائے
یہ سب کیا تھا بلال نے نور کے بارے میں پوچھا شاہ جو خود پریشان تھا بلال کی بات سن کر گہرا سانس لیا بلال ابھی وہ کچھ اور کہاتا نور نے اس کو آواز دی اور اس کے پاس ائی
مسٹر آفیسر آپ واپس کب ائے گئے نور پوچھا جبکہ شاہ کو ایک اور شاک لگ
5 بجے تک شاہ نے حیران ہوتے ہوے کہا
کیا آپ جلدی نہیں اسکتے آج نور نے پوچھا کیوں آپ کو کوئی کام تھا شاہ نے پوچھا جی کام تو تھا لیکن اچھے بھائ آپ کب تک گھر آئے گئے نور اب بلال سے مخاطب تھی
بچے میں تو 2 بجے تک اجاو گا کیا کام ہے بلال جو ان دونوں کی بات سن رہا تھا بولا
ٹھیک ہے بھائ مجھے شاپنگ پر جانا ہے کچھ ضروری چیزیں لینی ہے نور نے کہا
ٹھیک بچے میں لے جاو گا بلال نے کہا اور نور کے سر پر ہاتھ رکھ کر گاڑھی میں بیٹھ گیا
نور طبعیت ٹھیک ہے آپ کی شاہ نے آخر کار پوچھا لیا
جی ٹھیک ہے نور نے کہا
اوکے میڈیسن ٹائم پر لینا اور یہ پسیے ہے کچھ اور کارڈ اس سے شاپنگ کر لینا میں اگر فری ہوتا تو خود لے جاتا آپ کو اللہ حافظ شاہ نے کہا اور اس کے ماتھے پر لب رکھے اور گاڑھی کی طرف بڑھا
جبکہ نور اس کو گھورتی رہ گئی بے شرم انسان نور نے کہا اور اندر کی طرف بڑھی۔۔۔