پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد ڈاکٹر سید زوار حسین شاہ
صدر شعبۂ اُردو و اقبالیات اسسٹنٹ پروفیسر
اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور ایس ۔ ای کالج بہاول پور
میرا اور ڈاکٹرسید زوار حسین شاہ کا تعلق تقریباً بیس اکیس برس سے ہے لیکن گزشتہ چار پانچ سال ایسے گزرے ہیں جن میں اوّل اُردو مجلس بہاول پور (۱) کی ادبی نشستوں میں شامل ہونا رابطے کی اہم ترین صورت تھی ۔ رابطے کی دوسری صورت یہ تھی کہ سید زوار حسین شاہ میرے ساتھ ’’نسیم امروہوی……حیات اور کارنامے‘‘ (۲) کے موضوع پر پی ۔ایچ۔ڈی کا کام کر رہے تھے۔ ذرا غور کیجیے کہ زوار حسین جیسا صاحبِ ذوق طالب علم اور نسیم امروہوی جیسا جیّدعالم موضوع ہو تو پھر کیسے کیسے مباحث موضوعِ بحث نہ بنتے ہوں گے۔
نسیم امروہوی غزل گو شاعر بھی ہیں اور مرثیہ نگار بھی،مؤرخ بھی ہیں اور زبان دان بھی جبکہ لغت نگاری اُن کا اوڑھنا بچھونا تھا۔اسی حوالے سے اسم، فعل، حرف، لفظ،جملہ، روزمرہ، محاورہ، ضرب الامثال،علم بیان، صنائع بدائع،عروض گویا سب کچھ زیر بحث آتا رہتا تھا۔ اس ساری گفتگو کے دوران میں شاہ جی ایک بات تسلسل سے دہرایا کرتے تھے اور وہ یہ کہ تمام زبانوں کی بنیاد’’ فعل‘‘ہونا چاہیے جبکہ ہمارے ماہرین لسانیات نے فعل کی بجائے اسم کو موضوع بنا رکھا ہے۔بات دل کو لگتی تھی لیکن مشکل یہ تھی کہ اس موضوع پر کام کون کرے؟اور اس نقطۂ نظر کو کس طرح پایۂ ثبوت تک پہنچایا جائے۔
اِس ضمن میں ایک دو آسانیاں بھی تھیں مثلاً ایک آسانی تو یہ تھی کہ ہم اِس مشکل کام کا بیڑا اُٹھا لینا چاہتے تھے۔ دوسری آسانی یہ تھی کہ ڈاکٹر جی الانہ(۳) اور ڈاکٹر یوسف خشک (۴)سے لے کر ڈاکٹر صابر آفاقی (۵) اور ڈاکٹر اعجاز بیگ (۶)تک سے ہماری نیاز مندی کا تعلق تھااور ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہم خط لکھیں گے یا خود پہنچ جائیں گے تو انہیں ہمارے استفسارات کا جواب دینا ہی پڑے گا۔تیسری خوب صورت بات یہ تھی کہ نسیم امروہوی اور اُن کا سارا کام اُردو زبان دانی پر مشتمل تھانیز وہ خالصتاً اُردو زباں دان طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔سید زوار حسین شاہ خالصتاً سرائیکی زبان بولنے والے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،اِن کے آباء واجداد مبارک پور ضلع بہاول پور کے رہنے والے تھے یا اِس سے بھی پہلے کبیر والا ضلع خانیوال سے ۔ بہر حال یہ دونوں قصبات خالص سرائیکی زبان بولنے والے علاقوں پر مشتمل ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سید زوار حسین شاہ سرائیکی کی حمایت یا مخالفت میں کوئی اُلٹا سیدھا نظریہ پیش کررہے ہیں جبکہ میری کوئی زبان ہی نہیں تھی۔تفصیل اِس اجمال کی یہ ہے کہ تقسیم ملک سے پہلے میرے والدین کا وطن سلطان پور تحصیل جگادری ضلع انبالہ مشرقی پنجاب تھا جو خالصتاً ہریانوی زبان بولنے والے افراد کا علاقہ ہے۔ہجرت کے بعد وہ مظفر گڑھ میں آبسے جہاں ہریانوی ، پنجابی اور سرائیکی بولنے والوں کی کثرت تھی ۔ میں بوسن روڈ کالج ملتان میں داخل ہوا تو مجھے کسی بھی زبان پر کامل دسترس نہیں تھی اور میرے جملے ہر زبان کے مختلف الفاظ کا مرکب ہوتے تھے۔مجبوراً فیصلہ کیا کہ آج کے بعد اُردو کے علاوہ کوئی علاقائی زبان نہیں بولوں گا۔یہ الگ بات کہ اُردو زبان کی تعلیم وتدریس ہی میرا شوق اور ذریعۂ رزق بن گئی۔گویا ہم تینوں یعنی نسیم امروہوی، سید زوار حسین شاہ اور میں تین مختلف تہذیبوں ، علاقوں اور بظاہر زبانوں سے متعلق لوگ تھے۔اِسی لیے ہم پر کسی خاص زبان کی مخالفت یا حمایت کا الزام نہیں لگایا جاسکتا تھا۔
اِسی اثناء میں مقتدرہ قومی زبان کا پرچہ ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘ اسلام آباد مطبوعہ ستمبر ۲۰۰۳ء ملا۔سرورق ہی حیران کن تھا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا ’’اُردو کب اور کہاں پیدا ہوئی‘‘(۷) گویا یہ مسئلہ تاحال حل نہیں ہوسکا۔درحقیقت یہ مسئلہ حل ہوہی نہیں سکتا۔ اِس لیے کہ یہ خالصتاً علمی مسئلہ ہے اور ہم نے اِسے سیاسی مسئلہ بنالیا ہے۔اگر اِسے علمی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے۔لیکن کیا اِس میں کوئی شک باقی رہ گیا ہے کہ ہم نے اور بہت سی دکانوں کی طرح اُردو کی پیدائش کے حوالے سے بھی ایک دکان سجا رکھی ہے۔یہ بات ممکن ہے اور کبھی کبھار ہوتی بھی رہتی ہے کہ ایک شخص کے ایک سے زیادہ مدفن بن جائیں۔لیکن یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص یہ دعویٰ کرے کہ میرے مقاماتِ پیدائش ایک سے زیادہ ہیں۔اِسی طرح یہ بات تو ممکن ہے کہ ایک جوڑا یہ دعویٰ کرے کہ اُس کے بچے ایک یا ایک سے زیادہ ہیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی بچہ یہ دعویٰ کرے کہ میں ایک سے زیادہ ماؤں کا بچہ ہوں۔اگر یہ دعویٰ ناقابل تسلیم ہوتو پھر یہ بات کیسے مانی جاسکتی ہے کہ اُردو زبان دہلی، دکن، سندھ اور پنجاب میں مختلف اوقات میں پیدا ہوسکتی ہے جبکہ محمد حسین آزاد،نصیر الدین ہاشمی، سید سلیمان ندوی، حافظ محمود شیرانی اور خاطر غزنوی نے اپنی کتب آبِ حیات (۸)،دکن میں اُردو(۹)،نقوشِ سلیمانی (۱۰)،پنجاب میں اُردو (۱۱) اور اُردو زبان کا ماخذ،ہندکو(۱۲) میں یہی دعوے کیے اور اِن دعوؤں کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اِن بزرگوں میں کوئی شخصیت ایسی نہیں جس کی علمیت ،محنت اور قابلیت پر حرف گیری کی جاسکے ۔لیکن ایک بات اور بھی یقینی ہے کہ جس طرح میں اور زوار حسین شاہ زبان ،زبانوں کے علم، زبانوں کی تاریخ اور ماہیت سے محض ناواقف ہیں ، اِسی طرح یہ بزرگ بھی ہر طرح کا علم رکھنے اور محقق ہونے کے باوجود علمِ لسانیات سے بڑی حد تک نابلد تھے ورنہ محمد حسین آزاداُردو کو صرف دِلّی اور نواحِ دِلّی کی زبان قرار نہ دیتے اور اِسی طرح نصیر الدین ہاشمی صرف دکن، سید سلیمان ندوی صرف سندھ اور حافظ محمود شیرانی صرف پنجاب کو اُردو کا مولد قرارنہ دیتے ۔دراصل ان بزرگوں سے دو تین بڑی غلطیاں ہوئیں جن کے نتیجے میں یہ حقائق کا ادراک نہ کرسکے۔
پہلی غلطی کو ہم تعصب کی بجائے صرف عصبیت کا نام دے سکتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کو ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے نتیجے میں دہلی سے بھاگ کر لاہور آنا پڑا۔وہ لاہور آئے تو اُن کے پاس ذوقؔ کے غیر مطبوعہ کلام اور دہلی کی بے ربط و تحقیق یادوں کے سوا کچھ نہ تھا۔اُنہوں نے انگریزوں کے حکم پر کئی سفر کیے اور انجمن پنجاب میں خدمات کے علاوہ اپنی یادیں’’آبِ حیات‘‘ کے نام سے مرتب کیں۔آبِحیات میں اپنے چھُٹے ہوئے وطن اور وہاں کے شعراء کا ذکر تو کیا ہی، ساتھ ہی دہلی کو اُردو کا مولد بھی قرار دے ڈالا۔ یہ اُن کی عصبیت اور علمِ لسانیات سے نا واقفیت کی دلیل تھی۔خیر ایک دقت بھی مولانا محمد حسین آزاد کو درپیش تھی کہ وہ اِس طرح کے لسانی مطالعے کے لیے سارے برصغیر کا سفر بھی نہیں کرسکتے تھے۔
نصیر الدین ہاشمی کے لیے حالات کسی قدر ساز گار تھے لیکن اُن کے نتائج اِس لیے قابل توجہ نہ رہے کہ وہ بھی دکن،دکن کی سیاسی وتجارتی تاریخ اور قبل از اسلام یا بعد از اسلام دکن میں عربوں کی آمد سے دھوکا کھاگئے ۔دوسرے دکن کی محبت نے اُنہیں خاص طرح کے نتائج مستخرج کرنے پر مجبور کردیا ورنہ وہ جس قدر محنتی محقق تھے اُس کا اندازہ صرف اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے ’’ آبِ حیات‘‘ میں پیش کردہ ’’اُردو شاعری کا باوائے آدم‘‘والا نظریہ فوراً ہی مسترد کردیا اور ثابت کیا کہ ولی دکنی سے پہلے اُردو شاعری میں کئی اصناف میں بڑے بڑے شعراء پیدا ہوچکے تھے اور آنے والے محققین و مؤرخین ادب مثلاً ڈاکٹر جمیل جالبی نے نصیر الدین ہاشمی کے نقطۂ نظر کی حقانیت ثابت کردی۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ صرف دکن کو اُردو کا مولد قرار دینے والا نظریہ درست نہیں ہوسکتا۔
مولانا سید سلیمان ندوی یعنی مولانا شبلی نعمانی کا شاگرد اور جانشین کم تر درجے کا عالم نہیں ہوسکتا۔ ’’سیرت النبیؐ‘‘کی تکمیل اور ’’نقوشِ سلیمانی‘‘ کے مضامین ان کی علمیت کی بین دلیل ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سید صاحب بہت بڑے عالم دین ہونے کے باوجود لسانیات کے ماہر نہ تھے۔ غالباً انہوں نے تو صرف یہ دیکھا کہ اگر عربوں سے میل جول کے نتیجے میں اُردو وجود میں آئی تو یہ میل جول دکن کی بجائے سندھ کے علاقے میں زیادہ ہوا جہاں محمد بن قاسم دو ہزار کے قریب عرب سپاہیوں کے علاوہ اسی قدر ایرانی مسلمانوں کے ساتھ آیا۔ سندھ کو فتح کیا اور طویل عرصے تک یہاں مسلمان حکومت قائم رہی۔ مقامی زبانوں کے صرف عربی ہی نہیں بلکہ فارسی لفظ بھی شامل ہوئے اور ایک نئی زبان معرضِ وجود میں آگئی۔ میں عصبیت کی بجائے سادگی کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہوں گا کہ مولانا نے ایک بالکل غلط نظریہ پیش کردیا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حافظ محمود شیرانی اُردو میں ایک معتبرمحقق کی حیثیت رکھتے ہیں۔’’مقالات شیرانی‘‘ اور ’’پنجاب میں اُردو‘‘ اس دعوے کی روشن دلیل ہیں۔ ڈاکٹر وحید قریشی کے مطابق پروفیسر شیرانی نے ’’پنجاب میں اُردو‘‘ ایک اور جیّد عالم علامہ عبداللہ یوسف علی کی خواہش پر لکھی۔ ڈاکٹر وحید قریشی لکھتے ہیں:۔
’’پروفیسر شیرانی مرحوم (اکتوبر ۱۸۸۰ء۔۱۵فروری ۱۹۴۶ء) جن دنوں (۱۹۲۱ء۔۱۹۲۸ء) اسلامیہ کالج لاہور میں اُردو کے لیکچرار تھے علامہ عبداللہ یوسف علی (پرنسپل) کی خواہش پر انہوں نے ’’پنجاب میں اُردو‘‘ تحریر کی۔ یہ کتاب پہلی دفعہ ۱۹۲۸ء میں انجمن ترقئ اُردو کی طرف سے شائع ہوئی۔‘‘(۱۳)
اس ساری کتاب کو دیکھا جائے تو یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ اُردو برج بھاشا سے ہرگز نہیں نکلی جیسا کہ مولانا محمد حسین آزاد نے ’’آبِ حیات‘‘ میں دعویٰ کیا ہے (۱۴) لیکن ہم یہ بات بھی ماننے کے لیے تیار نہیں کہ پنجاب اُردو زبان کا مولد اور پنجابی اُردو زبان کی ماں ہے۔ درحقیقت حافظ محمود شیرانی سے بھی وہی غلطی سرزد ہوئی جو اس سے پہلے دوسرے صاحبانِ علم کر رہے تھے کہ اسماء کی فہرستیں دے کر اُردو اور اپنی پسندیدہ علاقائی زبان کے تعلق کو واضح کرنے کی سعی کی گئی ۔مثلاً حافظ محمود شیرانی کہتے ہیں:۔
’’اُردو میں برج لہجے سے پنجابی لہجہ کا سخت مقابلہ رہا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں ایک لفظ دونوں لہجوں میں بولا جا رہا ہے مثلاً بادل، بدّل ، بازار، بزار، چھاج اور چھج۔‘‘(۱۵)
شیرانی صاحب نے یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ برج اور پنجابی کا لہجے کا اختلاف ہے پھر بھی برج بھاشا اور پنجابی کو دو مختلف زبانیں تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے۔ یہی غلطی ان کے بعد دوسرے لوگوں نے بھی دہرائی۔ اور اُردو کو مختلف علاقوں سے متعلق کرتے چلے گئے۔ اس کی ایک بڑی مثال ڈاکٹر مہر عبدالحق کی کتاب ’’اُردو اور ملتانی زبان کے لسانی روابط‘‘ ہے۔‘‘(۱۶)
گزشتہ دنوں مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آبادنے خاطر غزنوی کی ایک تصنیف ’’اُردو زبان کا ماخذ، ہندکو‘‘ شائع کی ہے۔ اِس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر فتح محمد ملک صدرِ نشین مقتدرہ قومی زبان لکھتے ہیں:۔
’’سرحد میں ترقی پسند ادبی تحریک کے ان قائدین نے اٹک کے اس پار کے تہذیب و فن کو شاعر، مؤرخ، نقاد اور ماہر لسانیات کی نظر سے دیکھا اور دکھایا ہے۔ پشتو ادب و شعر کو اُردو دنیا سے روشناس کرانے کے علاوہ ان تخلیقی فن کاروں نے یہ نیا لسانی نظریہ بھی پیش کیا ہے کہ اُردو زبان صوبہ سرحد میں بولی جانے والی زبان ہندکو کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ میں اب تک اس دعویٰ کو اُردو زبان سے والہانہ محبت پر مبنی سمجھتا رہا مگر آج جب خاطر غزنوی کی کتاب ’’ہندکو…… اُردو زبان کاماخذ‘‘(۱۷)کی ورق گردانی کی تو کھلا کہ اس لسانی نظریے کی بنیاد بہت مضبوط ہے‘‘۔(۱۸)
یہ بات قابل توجہ ہے کہ جہاں سے سرائیکی علاقہ ختم ہوتا ہے وہیں سے ہندکو زبان کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے اور جہاں سے ہندکو کا علاقہ ختم ہوتا ہے وہاں سے کشمیر اور جموں کے علاقے شروع ہو جاتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مری سے جموں تک دس بارہ مختلف بولیاں بولی جاتی ہیں۔ جن میں سرائیکی، ہندکو، گجری اور کشمیری وغیرہ شامل ہیں۔ جموں میں اُردو زبان و ادب کے حوالے سے ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘ اسلام آباد کے ایک صفحے کا صرف ایک کیپشن دیکھنا کافی ہوگا جو نمایاں کرکے یوں لکھا گیا ہے:۔
’’یہ کہہ دینا بھی بے جا نہ ہوگا کہ خطۂ جموں اُردو کی ان ابتدائی بستیوں میں سے ایک ہے جہاں اُردو کا بیج سب سے پہلے بویا گیا‘‘۔(۱۹)
اس مضمون کا آغاز دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔پروفیسر ظہور الدین کہتے ہیں:۔
’’یہاں ابتداً یہ جان لینا ضروری ہے کہ تہذیبی و تمدنی ہی نہیں سیاسی و سماجی اعتبار سے بھی ریاست جموں کشمیر ہمیشہ سے برصغیر کا جزو لاینفک رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اُبھرنے والی اکثر روایتوں پر ملک گیر سطح پر ہونے والے تجربات کے اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں۔ گویا برصغیر سے باہر ہونے والے تجربات نے بھی وقتاً فوقتاً اسے اسی طرح متاثر کیا ہے جس طرح ان سے مجموعی اعتبار سے برصغیر متاثر ہوتا رہاہے‘‘۔(۲۰)
گویا پروفیسر ظہور الدین اُردو کو صرف جموں وکشمیر کی زبان قرار نہیں دیتے بلکہ جنوبی و شمالی پنجاب کے ساتھ ساتھ مشرقی پنجاب، راجستھان، سندھ ، بلوچستان، صوبہ سرحد، اُتر پردیش، دکن بلکہ بنگال تک کی زبان تصور کرتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگالی زبان کے بہت سے حصے ایسے ہیں جو برصغیر کا ہر باشندہ ذرا سی کوشش سے بہت آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔مثلاً’’تمارنام کیہ‘‘ وغیرہ کس کی سمجھ میں نہیں آئے گا ۔تو پھر پنجاب میں اُردو، دکن میں اُردو، سندھ میں اُردو، بلوچستان میں اُردو اور کشمیر میں اُردو وغیرہ کے معنی کیا ہوئے؟ یوں لگتا ہے کہ یا تو یہ تمام نظریے غلط ہیں یا پھر ان میں اہل علم نے حقیقت کی کوئی ایک جھلک دیکھی ہے اور مکمل حقیقت کو اپنی نگاہوں سے اوجھل رکھا ہے۔ یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ اُردو سارے برصغیر اورجموں وکشمیر میں بولی جاتی رہی ہے اور بولی جاتی رہے گی تو مکمل حقیقت سامنے آجاتی ہے۔
مذکورہ بالا تقریباً سبھی کتب میں اُردو کو ایک آریائی زبان قرار دیا گیا ہے لیکن ہماری مشکل اُس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اہل علم اُردو کو آریائی زبان بھی نہیں مانتے۔ اِس حوالے سے اقتباس طویل تو ہوگا لیکن اس سلسلے میں بہت سی گرہیں کھلتی چلی جائیں گی اور عین الحق فرید کوٹی کی کاوش اور اُن کا نقطۂ نظر بھی کھل کر سامنے آجائے گا۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:۔
’’اِس سلسلے میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے تو ایک پوری کتاب ’‘پاکستانی کلچر‘‘ لکھ ڈالی، فیض اور پروفیسر کرار حسین، ڈاکٹر اجمل اور ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر وحید قریشی ، جیلانی کامران اور سجاد باقر رضوی، انور سدید اور فتح محمد ملک نیز حمید احمد خان، ڈاکٹر سید عبداللہ اور مولانا صلاح الدین احمد ایسے مفکر ین اور ناقدین نے اس سلسلے میں اظہار خیال کیا کیونکہ زبان ثقافت کا جزو لاینفک ہوتی ہے لہٰذا جب پاکستان میں ثقافتی جڑوں کی تلاش شروع ہوئی تو لامحالہ اُردو زبان کی جڑیں دریافت کرنے کا رجحان بھی منظر عام پر آگیا۔ مولانا محمد حسین آزاد نے اپنے وقت میں برج بھاشا کو اُردو کی ماں قرار دیا تھا اور ان کے بعد حافظ محمود شیرانی نے پنجابی کو۔ اسی طرح نصیر الدین ہاشمی نے اُردو کا رشتہ قدیم دکنی سے جوڑ دیا تھا۔ مگر اب مراجعت کے اس رجحان کے تحت جو ثقافتی جڑوں کی تلاش پر منتج ہوا تھا اُردو زبان کی جڑیں ماضی بعید میں تلاش کرنے کی کوششیں ہونے لگیں۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری نے پالی پراکرت سے اُردو کا رشتہ جوڑا اور یوں ماضی میں تقریباً ڈھائی ہزار سال پیچھے ہٹ گئے۔ ڈاکٹر سہیل بخاری نے مہاراشٹری کو اُردو کی اصل بتایا۔’’اُردو شاعری کا مزاج‘‘میں اُردو کی جڑیں وادیٔ سندھ کی تہذیب میں تلاش کی گئیں۔ مگر اِس سلسلے میں سب سے مضبوط اور منظم کام عین الحق فرید کوٹی کا تھا جنہوں نے اُردو کا رشتہ دراوڑی زبانوں سے جوڑ کر جڑوں کی تلاش کے کام کی گویا تکمیل کردی‘‘۔(۲۱)
یاد رہے کہ اُردو زبان کی قدیم تاریخ‘‘ عین الحق فرید کوٹی نے لکھی۔ خلیل صدیقی، جعفر علی اثر لکھنوی، ڈاکٹر شوکت سبز واری اور سید قدرت نقوی مرحوم جیسے ماہرین لسانیات نے دیکھی اور اس حوالے سے ان کے مشورے بھی عین الحق فرید کوٹی کے شامل حال رہے۔
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ سابق ڈائریکٹر شعبۂ تعلیمات سندھ یونی ورسٹی نے اس کا مفصل تعارف لکھا اور ڈاکٹر وزیر آغا جیسے نقاد نے ’’ایک جائزہ‘‘ کے نام سے مختصر سا دیباچہ لکھا۔ اس کے علاوہ فہرست ابواب پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوتا ہے کہ عین الحق فرید کوٹی نے کتاب لکھنے میں بے حد محنت کی ہے۔
ستمبر ۲۰۰۳ء کے ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘ اسلام آباد کے صفحۂ اوّل پر ڈاکٹر خالد حسن قادری کی تحریر کا ایک اقتباس دیا گیا ہے جو کچھ یوں ہے:۔
’’اُردو غیر آریائی زبان ہے۔ سنسکرت سے اس کا مطلق کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کی ابتدائی جڑیں موئن جو دڑو اور ہڑپہ میں ڈھونڈ نی چاہئیں‘‘۔(۲۲)
ڈاکٹر خالد حسن قادری کے نظریے کے حوالے سے مختلف تفصیلات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ کہنا کافی ہوگا کہ اخبارِ اُردو کے مذکورہ بالا شمارے میں پروفیسر فتح محمد ملک نے ’’اُردو کا مولد اور ماخذ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر خالد حسن قادری کے نظریے کی بے حد تحسین فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’’خالد حسن قادری نے جستجو جاری رکھی اور بالآخرمضبوط لسانی، تاریخی اور تہذیبی استدلال کے ساتھ اُردو کو عربی سے ماخوذ ثابت کردکھایا۔ فرید کوٹی صاحب جس بات کو فقط مذہبی جذباتیت قرار دیتے ہیں اُسے قادری صاحب ایک سائنسی حقیقت سے تعبیر کرتے ہیں‘‘۔(۲۳)
اس سے قطع نظر کہ مذکورہ بالا تحسین کے کیا نتائج نکلتے ہیں ہم ڈاکٹر خالد حسن قادری کے نظریے پر محمد پرویش شاہین کے تنقیدی بلکہ تنقیصی مضمون کا ایک اقتباس دیکھتے ہیں:۔
’’اُنہوں نے اپنے مضمون میں مقدس شہروں، اساطیر وغیرہ کے نام بھی دیئے ہیں۔ بات لمبی ہوجائے گی ورنہ میں یہاں سینکڑوں نام عبرانی یا ارضِ فلسطین اور افغانستان اور صوبہ سرحد کے مقامات، شہروں، گاؤں وغیرہ اور کوروپانڈو، پنج پنجال، شیوا، برہما، رام چندر جی اور ان کا تخت، سیتاجی کی کہانی، تخت سلیمان، موسیٰ کا مصلیٰ وغیرہ دے دیتا۔ میرے خیال میں عام تحقیق میں بھی لیکن لسانیاتی تحقیق میں مقامات، جگہوں، اشخاص ، دریاؤں ، پہاڑوں وغیرہ کے نام بھی مطالعے کے مستحق ہیں‘‘۔(۲۴)
گویا محمد پرویش شاہین اِسی غلطی کے اعادے کا مشورہ دے رہے ہیں جو مولانا آزاد و حافظ شیرانی سے لے کر عین الحق فرید کوٹی اور ڈاکٹر خالد حسن قادری تک کے نظریوں میں نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ زبانوں اور اس طرح کے نظریات کا انحصار اسماء پر ہونا چاہیے یا افعال پر؟ ہم دیکھتے ہیں کہ اسم عام طورپر تبدیل نہیں ہوتا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ انسانوں کے ساتھ سفر کرتا رہتاہے پھر نئی ایجادات جہاں جہاں تک پہنچتی ہیں یہ اسماء بھی وہاں وہاں تک پہنچ جاتے ہیں۔ جدید دور میں ٹیلی وژن اور کمپیوٹر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بھارتی پوری کوشش کرلیں تو بھی دور درشن ہندوستان میں تو شاید چل جائے مگر باقی دنیا میں وہی ٹی۔ وی چلے گا ۔ ہاں عرب ’’ٹ‘‘ نہیں بول سکتے تو وہ ٹیلی وژن کی جگہ تیلی وزن کہیں گے اور وہ تمام لوگ جو تخفیف کے قائل ہیں اس اسم کو تی۔ وی کہنے لگیں گے۔ اِسی طرح ریڈیو کو تمام عرب ریدیو اور برصغیر کے باشندے ریڈیو، ریڈوا، ریڈو کہہ کر کام چلاتے ہیں۔ گویا جو بات ہم کہنا چاہتے ہیں اس کے مطابق اوّل تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بالفرض بولنے والوں کی کوئی مجبوری ہوئی تو تلفظ میں معمولی تبدیلی ہوگی۔ چند اسماء دیکھیے جو دوسری زبانوں سے اُردو میں آئے مثلاًٹیلی وژن، ٹیلی فون، فیکس، انٹرنیٹ ، ریل، ریلوے، اسٹیشن، ڈاکٹر، انجینئر، سکول، کالج، یونی ورسٹی، آفس ، ٹیبل پین، پینسل، بال پوائنٹ، پن، سیٹ، موٹر، مکینک، کار، ٹریکٹر، بس ، ٹیوب ویل، سائیکل، روڈ، موبائل، ٹیپ ریکارڈ، ٹائر، بال ، کرکٹ، ہاکی، ٹیبل ٹینس، فٹ بال، پارلیمنٹ، سپیکر، لاؤڈ سپیکر، بلب، تسبیح، جائے نماز، گل، رنگ، رہوار، راہب،راکب، ذوالفقار، دیو، دینار، دست، دہقان، درہم، نگاہ، چشم، پا، درس گاہ ، در، دختر، اختر اور اخگر وغیرہ ۔ یہ تمام اسم ہم نے دوسری زبانوں اور تہذیبوں سے جوں کے توں قبول کیے۔ اسماء کی یہ فہرست کافی طویل ہوسکتی ہے مگر حوالے کے لیے اتنا کافی ہے۔
دراصل اسم کی مثال کتے جیسی ہے کہ وہ گھر کا پابند نہیں ہوتا بلکہ اہل خانہ کا وفا دار رہتا ہے اور اہل خانہ کے ساتھ سفر کرتا ہے ۔ جبکہ زبانوں اور افعال کی مثال بلّی جیسی ہے جو اہل خانہ کی پابند ہونے کی بجائے گھر کی پابند رہتی ہے۔ اہل خانہ گھر چھوڑ دیں، سفر پہ چلے جائیں یا گھر فروخت کردیں، بلّی اہل خانہ کے ساتھ نہیں جاتی۔ بالکل اِسی طرح زبان اور افعال بھی گھٹتے بڑھتے ہوئے اپنے ہی علاقے میں مقیم رہتے ہیں کیونکہ فعل کا تعلق زمین اور معاشرت سے ہوتا ہے ۔ لہٰذا زبان کا انحصار اور اس کی شناخت اسم کی بجائے فعل سے کی جانی چاہیے۔ زبانوں کے اشتراک یا عدم اشتراک کے بارے میں بنیادی اصول دخیل الفاظ کی فہرستیں مرتب کردینا نہیں ہونا چاہیے نیز اسماء کے اشتراک سے بھی کام نہیں چلتا بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ افعال کا اشتراک کس قدر ہے اور زبان کا بنیادی ڈھانچہ کیسا ہے؟
جب ہم سندھ سے کشمیر، مغربی پنجاب سے مشرقی پنجاب اور شمالی ہند سے جنوبی ہند تک کے علاقوں کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان تمام علاقوں میں بولی جانے والی مختلف زبانوں /بولیوں میں بیشتر افعال یکساں طورپر مستعمل ہیں۔ البتہ کہیں کہیں صورتِحال کے ساتھ کچھ نئے افعال بھی پیدا ہوگئے ہیں مثلاً کچھ مشترک افعال دیکھیے۔ رُلنا، رُلانا، پینا، سونا، بیٹھنا، مڑنا، جاگنا، لڑنا، بھڑنا، تولنا، بولنا ، ہنسنا، رونا، آنا، جانا، کرنا، مرنا، چلنا، پھرنا، رہنا ، سہنا، کھیلنا، کودنا، اَکڑنا، سکڑنا، بنانا، کھانا، پینا، توڑنا، ملنا، سینا، چڑھنا، گھڑنا، مٹنا، مٹانا وغیرہ ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان زبانوں میں اُردو کی طرح افعال لازم، متعدی اور فعل مجہول بھی موجود ہیں۔ اس حوالے سے خالصتاً علمی بحث کرنے کی بجائے بانگر کے لہجے میں ایک نامعلوم شاعر کا شعر دیکھیے:۔
چالن کا ناں ونجو ونجو ناٹن کا ناں کو
تولن کا ناں دھریا پڑوپا لینا ایک نہ دینا دو
اتفاق ملاحظہ فرمایئے کہ اس شعر میں سات افعال موجود ہیں جن میں سے چار افعال اُردو کے تمام علاقوں میں یکساں مروّج ہیں۔ جبکہ ناٹن صرف حصار اور روہتک کے لہجے میں پایا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مصدر ونجن سرائیکی، سندھی اور ہندکو زبان میں مستعمل ہے۔ یہاں پر ایک مغالطہ پیدا ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اُردو زبان میں مصدر کی نشانی مصدر کے آخر میں موجود ’’نا‘‘ہے۔ جیسا کہ جاگنا، کھانا، پینا وغیرہ۔ لیکن اگر ہم حافظ محمود شیرانی کی کتاب ’’پنجاب میں اُردو‘‘ کے اسباق یاد رکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اہل زبان نے اُردو میں کئی قیامتیں ڈھائی ہیں۔ مثلاً بلاوجہ مرغی کے مقابلے میں مرغا کی جگہ مرغ مستعمل کرلیا ہے اسی طرح مصدر کے اختتام پر موجود ’’ں‘‘اُڑادیا ہے ورنہ ہم بولتے ہوئے اس نون غنّہ کا اعلان ضرور کرتے ہیں۔ مثلاً کھانا، پیناوغیرہ۔ یہاں ایک اور بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ اہل زبان نے نہ صرف نون غنّہ کو اُڑا دیا ہے بلکہ غیر ضروری طورپر مصدر کے آخر میں الف کا اضافہ بھی کردیاہے۔ اگر ہم اُردو میں موجود مصدر کے آخری الف کو ہٹا دیں تو اُردو زبان کا مصدر بھی فارسی کے مصدر کی طرح حرف ’’ن‘‘ پر اختتام پذیر ہوگا ۔ جیسا کہ سندھی، سرائیکی، پنجابی، راجستھانی، ہریانوی، پوٹھوہاری، کشمیری اور گجری وغیرہ میں اب بھی ہے۔ ہم ذرا سی توجہ سے اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ وادیٔ گنگا اور سندھ میں موجود زبانوں/بولیوں کے اکثر الفاظ میں یکسانیت نظر آتی ہے۔ اگر کہیں چھوٹی موٹی تبدیلی ہے تو وہ وہاں کے خاص موسمی، معاشی اور سیاسی، حالات کی وجہ سے ہے۔٭
ہم نے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے مولانا محمد حسین آزاد کی تصنیف ’’نیرنگِ خیال‘‘ کا ایک اقتباس سندھی، سرائیکی، پنجابی، ہریانوی، ہندکو اور کشمیری علماء کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ بھیجا کہ وہ اس اقتباس کا اپنی زبان میں ترجمہ فرما دیں۔ جن احباب کو ہم نے خطوط اور مذکورہ اقتباس بھیجا ان میں سے سندھی زبان کے محقق ڈاکٹر محمد یوسف خشک، سرائیکی زبان کے ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز، پنجابی زبان کے ڈاکٹر اعجاز بیگ، ہریانوی علاقے کے باسی رانا عبدالحکیم پٹیالوی (حال مقیم بہاول پور) نے نہ صرف ہمارے خطوط کا جواب دیا بلکہ مذکورہ اقتباس کا ترجمہ بھی بھجوایا تاہم ڈاکٹر صابر آفاقی نے ترجمہ بھجوانے کی بجائے نمونے کے طورپر اپنا کلام اور خط ارسال فرمایا۔ نیز لکھا کہ اسی خط کو نثر کا نمونہ سمجھا جائے۔ مولانا محمد حسین آزاد کی تصنیف نیرنگِخیال کا اقتباس اور اس کے تراجم پیش خدمت ہیں۔
نیرنگِ خیال سے اقتباس:۔
’’نہ گرمی میں تہ خانے سجانے پڑتے نہ سردی میں آتش خانے روشن کرتے۔ قدرتی سامان اور اپنے جسموں کی قوتیں ایسی موافق پڑی تھیں کہ جاڑے کی سختی یا ہوا کی گرمی معلوم ہی نہ ہوتی تھی۔ ٹھنڈے اور میٹھے پانی نہروں میں بہتے تھے۔ چلتے چشموں پر لوگ جھکتے اور منہ لگاکر پانی پیتے تھے، وہ شربت سے سوا مزہ اور دودھ سے زیادہ قوت دیتے تھے۔ جسمانی طاقت قوتِ ہاضمہ کے ساتھ رفیق تھی۔ بھوک نے ان کی اپنی ہی زبان میں ذائقہ پیدا کیا تھا کہ سیدھے سادے کھانے اور جنگلوں کو پیداواریں رنگا رنگ نعمتوں کے مزے دیتے تھے، آب و ہوا قدرتی غذائیں تیار کرکے زمین کے دستر خوان پر چن دیتی تھی، وہ ہزار مقوی اور مفرح کھانوں کے کام دیتی تھی۔ صباو نسیم کی شمیم میں ہوائی خوشبوؤں کے عطر مہک رہے تھے۔ بلبلوں کے چہچہے، خوش آواز جانوروں کے زمزمے سنتے تھے۔ خوب صورت خوب صورت چرند پرند آس پاس کلیل کرتے پھرتے تھے۔ جا بجا درختوں کے جھرمٹ تھے، انہی کے سائے میں سب چین سے زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ عیش وآرام کے قدرتی سامان اِس بہتات سے تھے کہ ایک شخص کی فراوانی سے دوسرے کے لیے کمی نہ ہوتی تھی اور کسی طرح ایک سے دوسرے کو رنج نہ پہنچتا تھا۔ سب کی طبیعتیں خوشی سے مالامال اور دل فارغ البال تھے‘‘۔(۲۵)
مذکورہ اقتباس کا سندھی ترجمہ:۔
’’ترجمو‘‘:۔ نہ گرمی م تھہ خانا سینگارباھئاء نہ سي ء م سگریون ساں رکبیون ھیون۔قدرتي شین ء پنھنجي جسمن جون طاقتون ایتریون پرپورھیون جو سیاري جا سخت سي ء یا گرمي جي لُک محسوس ئي کانہ تیندي ھئي۔ تداء مناپاٹي واھن م واھندا ھئا، وھندر چشمن تي ماٹھو جُھکي پنھنجي اُج اجھائیندا ھئا۔ اھي شربت کانسواءِ مناء کیر کان ودیک طاقت دیندر ھئا، جسماني سگھہ سان گدو گد ھاضمي جي سگھہ جو بہ سات ھوندو ھیو۔انھن جي پنھنجي جب م بک ھک اھرو سواد پیدا کیو ھیو جو عام سادا کاداء جھنگ جون پیدائشون رنگا رنگ نعمتن جو لطف دیندیون ھیون، آبھوا زمین جي دسترخوان تي بھترین قدرتي غذا تیار کري رکندي ھئي جیکا ھزارین طاقتنء فرحت دیندر کادن جو کم دیندي ھئی۔صبح جي منري ء سُرھي ھِیر م ھوائي سگندن جا عطر مھکندا ھئا۔ بلبلن جون لاتون ء جانورن جو سریلیون جھونگارون بدبیون ھیون۔ سھٹا، سھٹا پکي ء جانور ھیدي ھودي راندیون کندا نظر ایندا ھئا۔ ھرھند وٹن جا جُھگتاھوندا ھئا۔ جن جي چانو م سب سکون سان زندگي گزاریندا ھئا۔ھي عیش ء آرام دیندر قدرتي سامان ایترا ودیک ھئا جو ھک شخص جي فراواني سان بئي لاءِ کمي نہ تیندي ھئي ء کنھن بہ نموني ھک کي بئي کان تکلیف نہ پھچندي ھئي، سَیئي خوش طبع ء دل جا امیر ھوندا ھئا۔(۲۶)
اقتباس کا سرائیکی ترجمہ:۔
ناں ہُنالے وچ بھوئیں ہیٹھلے کوٹھے سِجھاونے پوندے ناں سیالے وچ بھاہ دی بخاری سوجھل کرنی پوندی۔ اللہ سوہنے دیاں بنائیاں شہیں تے آپلے جُسّیاں دیاں طاقتاں اینجھے راس آیاں ہَن جو سیالے دا کُراڑ یا و ا دی تاپش دا پتہ ای ناں لگداہا۔ ٹھڈے تے مٹھے پانی نہریں وچ واہندے ہن۔ واہندے ڈھنڈھیں ٹوبھے(چشمے) تے لوک نودے تے منہ لاکراہیں پانی پیندے ہن۔ اوہ شربت توں وَدھ چس تے کھیر تووَدھ طاقت ڈینڈے ہن۔ جُسے دی طاقت ہاضمے دی تیزی نال کٹھی تھی گئی ہئی۔ بکھ نے انہا ندی آپنی ہی جبھ وچ ذائقہ پا ڈتا ہا جو سدھے سادے کھانونے تے جنگلیں دے چھوڑ ونکو ونک دے نعمتاں دی چَس ڈیندے ہن۔ واپانی اللہ سئیں دے آلون بنائے کھاجے تیار کرتے بھوئیں دے کنڈورے تے سجھا ڈیندے ہن۔ اوہ ہزار طاقت ڈیون تے روح فراغ کرن آلے کھاؤنیاں دا کم ڈیندی ہئی۔ سویل دی لُرّی دی خشبو آلی واوِچ اُڈنے خشبوئیں دے عِطر مہکدے پئے ہن۔ بُلبلیں دے چہکارے ، سُریلے زناوراں دی سُراں چاڑھن سُنیندے ہن۔ سوہنے سوہنے پکھی تے مال نیڑے تیڑے کھِڈ کاریاں کریندے وَدّے ہن۔جاہ جاہ ونین دے جُھرمٹّے ہن۔ اُنہاں دی چھاں وچ سبھ بے چنتے حیاتی نبھیندے پئے ہن۔ایہہ عیش تے آرام دے خدائی سَمان اِتلے ڈھگ سارے ہن جو ہک بندے کول وافر ہن بے کنوں گھاٹ ناں تھیندی ہئی تے کہیں طراحویں ہک کوں بے کنوں رنجکی نہ تھیندی ہئی۔ سبھ دے طبیتاں خوشیں کنوں رجیاں تے دل ڈھکیں کنوں پاک ہن۔(۲۷)
اقتباس کا پنجابی ترجمہ:۔
نہ گرمیاں وچ گھرنیاں سجانیاں پیندیاں سن نہ سردیاں وچ اَگ دان جلانے پیندے۔ رب سببوں سریر وچ ایہوجہی طاقت آجاندی سی کہ کنی دی ٹھنڈ یاں گرمی ہوندی پتہ ای نہ چلدا۔ ٹھنڈے تے میٹھے پانی نہراں وچ وگدے سن۔ وگدے چشمیاں تے لوکائی نیویں ہوکے تے منہ لاکے پانی پیندے سن۔ او ہ شربت نالوں وی ودھ سواد تے دودھ نالوں ودھ طاقت دیندے سن۔ سریر دا زور تے ہاضمہ دی طاقت اوہدے نال ہوندی سی۔ بھُک نے اونہاں دی اپنی بولی وچ سواد پیدا کردتا سی۔ ساد مُرادے کھانے تے جنگلاں دی پیداوار رنگا رنگی نعمتاں دے مزے دیندے سن۔ آب وہوا تے قدرتی کھان پین دیاں شیواں تیار کرکے بھوئیں دے دسترخوان تے رکھ دتیاں سن۔ اوہ طاقت تے ہلکے پھلکے کھانیاں دا کم دیندیاں سن۔فجر ویلے دی ٹھنڈی تے خوشبو دیاں بھری ہوئیاں ہوا والی عطر دی داشتا کھلا دیندیاں سن۔ بُلبلاں دی چہکار تے سوہنی واج والے جنوراں دیاں واجاں سندے ساں۔ سوہنے سوہنے اُڈارو اِیدھر اُدھر کلولاں کردے پئے سن۔ تھاں تھاں تے لوئیاں دے جھنڈ سن۔ جنہیاں دی چھاں تھلے سب چین تے سکھ دی زندگی گزار رہے سن۔ایہہ سوچ تے آرام رب سببوں ملن والیاں شیواں انہاں ہون کرکے اِک بندے دے سوکھے ہون نال دوجے نو تھوڑ نہیں سی ہوندی تے اِیس طراحی اِک دوجے نوں کوئی رنج نہیں سی کردا۔ سب اندروں اپنے خوش ہوندے سن تے اوہناں دے دلاں تے کوئی بھار نہیں سی ہوندا۔(۲۸)
اقتباس کا ہریانوی ترجمہ:
نہ گرمی ماں بھنورا سجانے کی جرورت پڑے تھی۔ نہ جاڈے ماں آگ بالن کی ضرورت۔ قدرت کا بخسا ہویا مال ار اپنی جان کا جور ایسی بھلی تھی کہ جاڈا اور گرمی نہیں لگے تھی۔
نہرماں ٹھنڈے مٹھے پانی چلیں تھے لوگ مودھے پڑ پڑ پانی پیویں تھے۔
سربت ار دودھ جیسا مجا تھا ار جان بنے تھی۔ ہاجمے بڑی ٹھیک رہیں تھے۔ بھوک ماں کواڑ پاپڑ ہو جیں تھے۔ ار جنگل ارپیڑ کے نت نئے پھل کھاویں تھے۔ پیل پنجو اللہ کی نعمتوں کا مجا لیواں تھے۔یو ساری قدرتی کھراک تھی ار بہترین کھانے کا مجا تھا۔ سکی پاکی روٹی کھاکے کنبہ بگلاں بجاوے تھا۔کھیت کیار ماں ایسی خسبوئی تھی کہ آج کال کے عطراں نے بھی دور دھریں تھی۔ نہر کے کنارے پہ لیٹ کے ہر جنور کی بولی سندے ار بڑے بھلے لگدے۔
جگہ جگہ بڑے بڑے رُکھ تھے اُن کی چھاواں ماں جندگی گزاراں تھے اراللہ کا سکر ادا کریں تھے۔ ایک مانس کے مال ماں دوسرے کا بھی حصہ ہووا تھا نہ کوئی کسے نے دکھ دے تھا نہ کوئی چوری چکاری کرتے تھا۔ سب اپنی اپنی جگہ پہ خس رہیں تھے۔
چھوری چھورے ایک لنگوٹ میں کھیلا کریں تھے۔ سب کی دھی بیٹی برابر تھی۔(۲۹)٭
مولانا محمد حسین آزاد کی تصنیف ’’نیرنگِ خیال‘‘ کے مذکورہ اقتباس میں آنے والے افعال اور اِس اقتباس کے سندھی، سرائیکی، پنجابی اور ہریانوی زبانوں/ بولیوں کے تراجم میں آنے والے افعال کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے۔
اُردو
سندھی
سرائیکی
پنجابی
ہریانوی
سجانے پڑتے
سینگارباہأ
سجھاونے پوندے
سجانیاں پیندیاں
سجانے پڑے تھی
روشن کرتے
رکبیون ہیون
کرنی پوندی
جلانے پیندے
پڑی تھیں
یرپورہیون
آیاں ہن
آجاندی سی
ہوتی تھی
تیندی ہیئ
لگدا ہا
چلدا
لگے تھی
بہتے تھے
وہندا ہا
واہندے ہن
وگدے سن
چلیں تھے
چلتے
وہندژ
واہندے
وگدے
جھکتے
جھکی
نودے
نیویں
مودے
پیتے تھے
اجھائندا ہأ
پیندے ہن
پیندے سن
پیویں تھے
دیتے تھے
دیندرہأ
ڈیندے ہن
دیندے سن
چن دیتی تھی
کري رکندی ہئی
چن ڈیندے ہن
رکھ دتیاں سن
مہک رہے تھے
مھکندا ہأ
مہکدے پئے ہن
چہچہے
سرییون
چہکارے
چہکار
سنتے تھے
بدبیون ہیون
سنیدے ہن
سندے ساں
کرتے پھرتے تھے
ایندا ہأ
کریندے ودے ہن
کردے پئے ساں
بسر کرتے تھے
گزاریندا ہأ
نبھیندے پئے ہن
گزار رہے سن
گزاراں
پہنچتا تھا
پھچندی ہئی
تھیندی ہئی
کردا
درج بالا الفاظ کی فہرست مرتب کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیاہے کہ جو افعال ایک سے زیادہ مرتبہ آئے ہیں انہیں صرف ایک مرتبہ لکھا جائے۔علاوہ ازیں سندھی، سرائیکی اور پنجابی کے مترجمین نے تو حتی المقدور مولانا آزاد کے اقتباس کا لفظی ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہریانوی زبان کے مترجم نے مذکورہ اقتباس کا آزاد ترجمہ کیا ہے۔ اس لیے ان کے ترجمے سے کم سے کم افعال فہرست میں آسکے ہیں۔ دیگر مترجمین نے بھی جہاں آزاد ترجمے کی کوشش کی ہے وہاں افعال کا اختلاف سامنے آیا ہے ورنہ افعال کا ازحد اشتراک موجود ہے۔٭
مولانا محمد حسین آزاد کے مذکورہ اقتباس کے علاوہ ہم نے عام بول چال میں مستعمل کچھ جملوں کے تراجم بھی سندھی، سرائیکی، پنجابی اور ہریانوی زبانوں میں کرائے ہیں تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ آج کی مستعمل اُردو اور اِن زبانوں /بولیوں میں کس حد تک اشتراک ہے؟ عام بول چال کے اُردوجملے اور ان کے تراجم پیش خدمت ہیں۔
عام بول چال میں استعمال اُردو جملے:۔
بچہ ماں سے کیا کہہ رہاہے؟ آپ کدھر چلے گئے تھے؟ میں نے ساری بات سن لی۔ کیا آپ نے بھی میری بات پہ توجہ کی؟ ریل گارڑی کیوں رُک گئی ہے؟ تمہیں بیٹھے بیٹھے کیا ہوگیا؟ پیٹرول کے بغیر کاربھی نہیں چلتی۔ اچھے بچے نہیں روتے۔ بہادر آدمی ڈرتا نہیں ہے۔حالات کیا بگاڑ لیں گے؟
آخر تم سوتے کیوں نہیں؟ نیند کا ماتا جاگے گا کیوں؟ آپ نے اپنی دنیا کب بسائی؟کتا کس پر بھونک رہا ہے؟ تم کیا لکھ رہے ہو؟ بچے کتاب پڑھ رہے ہیں۔(۳۰)
سابق وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی ، اسلام آباد ڈاکٹر جی ۔الانہ کی طرف سے اُردو جملوں کا سندھی ترجمہ:۔
بار پنھنجي ءَ ماء کي چوي تو۔
اما تون کیڈا نھن ھلي وَئي ھئیئن۔مون سبي گالھ بدی ورتي آھي۔چا اوھان بہ منجھنجي گالھ طرف توجھ دتو؟ریل گادي چو رُکیي وکئي آھي؟
توھان کی ویني ویني چائي ویو؟ پیٹرول کان سواء کاربہ کانہ ھلندي۔
سُنابار رُئندا نہ آھن ، بھادر ماٹھو رجندا نہ آھن، حالتون چا بگار یندیون؟
آخر توں سمھین جونتو؟ ندجي مَمتا چو جا گندي؟
اوھان پنھنجي دنیا کڈھن آباد کیتی؟
کتو کنھن تي پیو پؤنکي؟
تون چا پیو لکین؟
بار کتاب پڑھي رھیا آھن۔(۳۱)
مذکورہ اُردو جملوں کا سرائیکی ترجمہ جو معروف شاعر اور نقاد جناب خورشید ناظر نے کیا:۔
بال ما کوں کیا اکھیندا پے؟
تساں کڈے ٹر گبے ہا وے ؟
میں سبھو گالھ سن گھدی۔
کیاتساں میڈی گالھ تے دھیان ڈتے؟
گاڈی کیوں رک گئی ہے
تیکو بیٹھے بٹھانیں کیا تھی گیئے؟
پٹرول با جھوں موٹر نی چلدی۔
چنگے بال نیں روندے۔
بہادر آدمی نی ڈردا۔
حالات کیا وگاڑ گھِنسِن۔
آخر توں سَمدا کیوں نیں؟
نندر دا ماریا کیوں جاگسی۔
تساں اپنی دنیا کڈن وسائی؟
کتاکیں کوں بھونکدا پے؟
تُساں کیا پے لکھدے وے؟
بال کتاب پڑھدے پین۔(۳۲)
مذکورہ اُردو جملوں کا پنجابی ترجمہ جو سابق صدر شعبۂ پنجابی گورنمنٹ ایس ۔ ای کالج پروفیسر ڈاکٹر اعجاز بیگ نے کیا:۔
بال ماں نوں کیہ کیندا پیا اے۔ کتھے ٹُر گئے سو۔میں تہاڈی ساری گل سُن لئی اے کیہ تُسیں میری گل تے وی غور کیتا اے۔ ریل گڈی کیوں کھلو گئی اے تہانوں بیٹھے بیٹھے کیہ ہوگیا اے۔ پٹرول توں بغیر گڈی نہیں چلدی۔ چنگے بال روندے نہیں؟دلیر جوان ڈر دا نہیں۔ حالات اوہدا کجھ نہیں وگاڑ سکدے۔
تینوں نیندر نہیں آؤندی۔ نیندرا کیوں اُٹھے گا۔ تسی اپنی وکھری دنیا کدوں دی وسالئی اے۔ کتا کدے تے بھونکن ڈہیا اے۔ بال کتاب پڑھ رے پئے ہین۔(۳۳)
مذکورہ اُردو جملوں کا ہریانوی ترجمہ جو معروف شاعر رانا عبدالحکیم پٹیالوی نے کیا:۔
چھورا (بالک) ماں سے کے کہہ ریا سے؟ بھئی توں کڑے /کت گیا تھا؟ منے ساری بات سُن لی سے۔ کے تنے بی میری بات پہ دھیان دیا سے؟ یاریل گاڈی کیوں کھڑی ہوگئی سے؟تنے بیٹھے بٹھائے کے ہو گیا سے؟ بِنا پٹرول کے گاڈی بھی نہ چال دی۔ رون آے بالک اچھے نیں ہوویں۔ نڈر مانس ڈر ے کونی۔ بخت کے کرے گا؟ یار تو سوندا کیوں نیں؟ نندایا سے جاگے گا کیوں؟ تنے اپنی دنیا (سنسار) کد بسائی سے؟ کتا کس نے بھونکے سے؟ تیں کے لکھ ریا ہے؟ بالک کتاب پڈان سے۔(۳۴) ٭
اب ہم ان جملوں میں آنے والے افعال کا موازنہ پیش کرتے ہیں تاکہ اُردو اور دیگر مقامی زبانوں بولیوں کے اشتراک کی حقیقت کھل کر سامنے آسکے۔ موازنہ ملاحظہ فرمایئے۔
اُردو
سندھی
سرائیکی
پنجابی
ہریانوی
کہہ رہا ہے
توچوي
آکھدے
کیندا پیا اے
کہہ ریا سی
چلے گئے تھے
ہلیا ویا ہیو
چلے گئے ہاوے
ٹر گئے سو
گیا تھا
سن لی
بدي ورلی
سن گدھی
سن لئی اے
سن لئی سے
رک گئی ہے
بھي رہی آ
رک گئی اے
کھلو گئی اے
کھڑی ہو گئی سے
ہوگیا
تھی گے
ہوگیا اے
ہوگیا سے
چلتی
ہلندی
چلدی
چلدی
چالدی
روتے
روئن
روندے
روندے
رون
ڈرتا
ڈجن
ڈردا
ڈردا
ڈرے
بگاڑلیں گے
وگاڑیندا
وگاڑگھن سن
وگاڑ سکدے
کے کرے گا
سوتے
سمھو
سمدے
نیندر
سوندا
جاگے گا
جاگیندو
جاگسی
اٹھے گا
جاگے گا
بسائی
وسائی
وسائی
وسالئی اے
بسائی
بھونک رہا ہے
پونکی گوپیو
بھوکدا پئے
بھوکن ڈیا اے
بھونکے سے
لکھ رہے ہو
تالکھو
لکھدے پئے ہو
لکھ ریا سے
پڑھ رہے پین
پڑھن
پڑھدے پن
پڑھدے پئے ہن
پڈان
ان سولہ جملوں میں آنے والے افعال میں صرف سندھی کے دو افعال بظاہر مختلف نظر آتے ہیں ایک کہنا اور دوسرا رکنا کے مقابل میں چوي اور بیھي آئے ہیں اور یہ بھی اس لیے کہ سندھی میں حرف ’’ک‘‘ عموماً ’’چ‘‘ سے بدل جاتا ہے یا پھر اُردو میں حرف ’’ب‘‘ سے شروع ہونے والے اکثر الفاظ سندھی ، پنجابی اور سرائیکی میں ’’و‘‘ سے شروع ہوتے ہیں۔ اسی طرح ’’ت‘‘ ،’’د‘‘ بھی اپنی جگہ تبدیل کرتے ہیں۔ غور کیجیے افعال کا اس قدر اشتراک ہمارے نقطۂ نظر کی تائید کرتا نظر آتا ہے کہ یہ مختلف بولیاں بنیادی طورپر ایک زبان کے مختلف لہجے اور روپ ہیں ورنہ اُردو کسی خاص عہد اور علاقے کی زبان نہیں۔ نہ یہ کسی خاص بولی/زبان سے پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ اُردو ان علاقائی بولیوں کی ترقی یافتہ شکل ہے۔
اب ہم اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے دوسری دلیل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔زبان کے اختلاف کے لیے افعال کی مغائرت کے ساتھ ساتھ جملوں کی ساخت کا مختلف ہونا بھی ضروری ہے یعنی فاعل، فعل، مفعول اور حروف کا ایک جملے میں کسی خاص ترتیب یا قاعدے سے آنا۔ مولانا آزاد کے اقتباس اور روزمرہ استعمال کے جملوں کے تراجم پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت کھلتی ہے کہ ان تمام بولیوں اور اُردو میں جملے کی ساخت میں حیرت ناک حد تک ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ہم مولانا محمد حسین آزاد کی تصنیف نیرنگِ خیال سے لیے گئے اقتباس کے پہلے جملے کی تحلیل کرکے اس کا موازنہ مذکورہ تراجم سے کرتے ہیں۔ موازنہ ملاحظہ کیجیے۔
آزاد کا اُردو جملہ:۔
’’ نہ گرمی میں تہ خانے سجانے پڑتے نہ سردی میں آتش خانے روشن کرنے پڑتے‘‘۔
تحلیل:۔
نہ (حرف نفی)، گرمی (اسم کیفیت)، میں (حرف ربط)، تہ خانے (مفعول/اسم)، روشن کرنے پڑتے (فعل /مصدر)۔
نہ (حرف نفی)، سردی (اسم کیفیت)، میں(حرف ربط)، آتش خانے(مفعول/اسم)،روشن کرنے پڑتے (فعل/مصدر)
اس جملے کی ساخت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کے دو حصے ہیں۔ہر حصے میں حرفِ ربط ’’میں‘‘ مفعول سے پہلے اور اسم کے بعد آیا ہے۔جملے کے دونوں حصوں کا اختتام مصادر پر ہوا ہے۔ اب ہم مختلف زبانوں/ بولیوں سے اس جملے کے تراجم اور ان کا تجزیہ و تحلیل پیش کرتے ہیں۔
سندھی ترجمہ اور اس کی تحلیل:
’’نہ گرمی م تھہ خانا سینگار باھا مہ سئَمہ سگریون ساں رکبیون ھیون‘‘۔
نہ(حرف نفی)، گرمی (اسم کیفیت)، م (حرف ربط)، تھہ خانا (مفعول)، سینگار باھأء (فعل/مصادر)۔
نہ (حرف نفی)، سئَ(اسم کیفیت)، م (حرف ربط)، سگریون(مفعول)، ساں رکبیون ھیون(فعل/مصادر)۔
سرائیکی ترجمہ اور اس کی تحلیل:
’’ناں ہنالے وچ بھوئیں ہیٹھلے کوٹھے سجاونے پوندے ناں سیالے وچ بھاہ دی بخاری سوجھل کرنی پوندی‘‘۔
ناں(حرف نفی)،ہنالے(اسم کیفیت)، وچ(حرف ربط)، بھوئیں ہیٹھلے کوٹھے (مفعول)، سجھاونے پوندے(فعل /مصادر)۔
ناں (حرف نفی) ،سیالے )اسم کیفیت)، وچ (حرف ربط)،بھاہ دی بخاری(مفعول)، سوجھل کرنی پوندی(فعل مصادر)۔
پنجابی ترجمہ اور اس کی تحلیل:
’’نہ گرمیاں وچ گھرنیاں سجانیاں پیندیاں سن نہ سردیاں وچ اگ دان جلانے پیندے‘‘۔
نہ(حرف نفی)، گرمیاں (اسم کیفیت)، وچ (حرف ربط)، گھرنیاں (مفعول)،سجانیاں پیندیاں سن(فعل /مصادر)۔
نہ(حرف نفی)، سردیاں(اسم کیفیت)، وچ (حرف ربط)،اَگ دان(مفعول)جلانے پیندے (فعل /مصادر)۔
ہریانوی ترجمہ اور اس کی تحلیل:
’’نہ گرمی ماں بھنورا سجانے کی جرورت پڑے تھی نہ جاڈے ماں آگ بالن کی ضرورت‘‘۔
نہ (حرف نفی) گرمی (اسم کیفیت)، ماں(حرف ربط) بھنورا (مفعول)، سجانے پڑے تھی (فعل/مصادر)۔
نہ (حرف نفی) ،جاڈے(اسم کیفیت)، ماں (حرف ربط)، آگ (اسم)، بالن(مصدر/فعل)۔
ان چاروں تراجم اور اُردو جملے میں یہ قدر مشترک پائی جاتی ہے کہ ان میں اسم، فعل، مفعول اور حروف کا استعمال قواعد کی رو سے ایک جیسا ہے۔ جملے کی ساخت میں مکمل یکسانیت نظر آتی ہے۔٭
اب روزمرہ استعمال میں آنے والے ایک اُردو جملے کی ساخت اور پھر اس جملے کے مذکورہ زبان /بولیوں کے تراجم اور تحلیل ملاحظہ کیجیے۔
اُردو جملہ:۔ بچے کتاب پڑھ رہے ہیں ۔
تحلیل:۔بچے (اسم فاعل)، کتاب(مفعول)، پڑھ رہے ہیں(فعل مصدر)۔
سرائیکی جملہ:۔بال کتاب پڑھدے پن(لفظ بال میرا من تک کے زمانے کے نثر نگاروں کے ہاں موجود ہے اور بال بچے مرکب کی صورت میں آج بھی موجود ہیں)۔
تحلیل:۔ بال(اسم فاعل)، کتاب(مفعول)، پڑھدے پن(فعل مصدر)۔
سندھی ترجمہ :۔بار کتاب پڑھي رھیاآھن(جی الانہ)
تحلیل:بار (اسم فاعل)،کتاب (مفعول)، پڑھي رھیا آھن(فعل/مصدر)۔
پنجابی ترجمہ:۔بال کتاب پڑھدے پئے نے
بال (اسم فاعل)، کتاب(مفعول)، پڑھدے پئے نے(فعل/مصدر)۔
ہریانوی ترجمہ:۔ بالک کتاب پڑان سے
بالک(اسم فاعل)، کتاب (مفعول)، پڑان سے(فعل/مصدر)۔
اس اُردو جملے کی ساخت اور پھر تراجم کی ساخت پر غور کیا جائے تو پتا چلے گا کہ اُردو اور ان زبانوں/بولیوں میں جملے کی ساخت کے اصول یکساں ہیں۔ اُردو میں عام بول چال کے جملوں میں عموماً فاعل، مفعول اور فعل کی ترتیب ہوتی ہے۔ یہی ترتیب ان چاروں زبانوں/بولیوں میں بھی نظر آتی ہے۔٭
اُردو اور اُن زبانوں کے اشتراک کی ایک اور صورت بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور وہ یہ کہ اُردو، سندھی،سرائیکی، پنجابی، ہریانوی، پوٹھوہاری، ہندکو اور گجری وغیرہ میں جب کسی بھی قسم کا سوال کیا جاتا ہے تو عموماًسوالیہ لفظ حرف ’’ک‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ صرف سندھی زبان میں کہیں کہیں حرف ’’ک‘‘ ،’’چ‘‘ سے بدل جاتا ہے ورنہ باقی زبانوں /بولیوں میں مکمل یکسانیت ملتی ہے۔ مثلاً کتھاں، کیویں، کدوں، کدی، کون، کیا، کیوں، کیسا وغیرہ ۔
گوجری/کشمیری کے تراجم کوشش کے باوجود کے تراجم کوشش کے باوجود ہم تک نہیں پہنچے البتہ ڈاکٹر صابر آفاقی نے گوجری زبان میں راقم(سید زوار حسین شاہ) کے نام خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ اسی کو گوجری زبان کا نثری نمونہ سمجھا جائے۔ ڈاکٹر صابر آفاقی کا خط اور اس کا اُردو ترجمہ پیش خدمت ہے:۔
مکرمی پروفیسر صاحب
سلام مسنون!
تمہاری چٹھی مناں مل گئی اے۔ ہوں سفر ماتھو نیڑا نی تمنا جواب دے نہ سکیو۔ تم نے گوجری شاعری کو نمونو منگیو اے۔ اس واسطے ہوں اپنوں کلام گھل رہیو ہوں۔ نثر کو نمونو اس چٹھی کے ذریعے تمنا مل جائے کو۔
شکریو کہ تم نے میرا نال واقفی کی تے خط لکھیو۔ اللہ تمنا ں خوش رکھے۔
تھارو بھرا
صابر آفاقی(۳۵)
اُردو ترجمہ:تمہاری چٹھی مجھے مل گئی ہے۔ میں سفر میں ہوں نزدیک نہیں کہ تمہیں جواب د ے سکوں۔ تم نے گوجری شاعری کا نمونہ مانگا ہے اس واسطے میں اپنا کلام بھیج رہا ہوں۔ نثرکا نمونہ اس چٹھی کے ذریعے تمہیں مل جائے گا۔
شکریہ تم نے میرے ساتھ دوستی کے لیے خط لکھا۔
تمہارا بھائی
صابر آفاقی
اس خط کو ہم دو حوالوں سے زیر بحث لائیں گے۔ پہلے افعال کے اشتراک کے حوالے سے پھر جملوں کی ساخت کے اعتبار سے ۔ ہم دونوں زبانوں کے مشترک ہونے کے بارے میں ثبوت فراہم کریں گے۔ افعال کا نمونہ ملاحظہ کیجیے۔
گوجری
اُردو
مل گئی اے
مل گئی ہے
دے سکیو
دے سکوں
منگیو اے
مانگا ہے
گھل رہیا ہوں
بھیج رہا ہوں
مل جائے کو
مل جائے گا
لکھیو
لکھا
رکھے
رکھے
ڈاکٹر صابر آفاقی کے خط میں ایک فعل ’’گھل‘‘ بمعنی بھیجنا ایسا ہے جو اُردو میں آج کل مستعمل نہیں ہے۔ اگرچہ گھلنا بمعنی بھیجنا سندھی، سرائیکی، پنجابی اور دیگر زبانوں میں بڑا معروف ہے اور کثیر الاستعمال ہے۔ شاید یہ اہل دِلّی یا اہل لکھنؤ کی اصلاح زبان کی نذر ہوگیا ورنہ خط میں آنے والے افعال اُردو میں بھی موجود اور مستعمل ہیں۔ دوسری بات کی وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ جملے کی ساخت کے اِعتبار سے گوجری اور اُردو میں ایسی یکسانیت ہے کہ گوجری زبان اُردو ہی کی شکل معلوم ہوتی ہے۔٭
اسی طرح ہم سرائیکی، سندھی اور پنجابی زبان کے معروف شعراء کا کچھ کلام اور ان کے کلام میں مستعمل افعال کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ حضرت مادھولال حسین (۱۵۹۳ء ……۱۸۳۹ء)کے کلام کا ایک بند ملاحظہ فرمایئے۔ واضح رہے کہ مادھو لال حسین کی ساری زندگی لاہور میں گزری۔
کڈھ کلیجہ کیتم بیرے
سو بھی لائق ناہی تیرے
ہور توفیق ناہی کجھ میرے
پیو کٹورا پانی دا
تن من اپنا پرزے کیتا
-تینوں مہر نہ آئی میتا
کہے حسین فقر نمانا
تیں باجھوں کوئی ہور نہ جاناں
(۳۶)
مادھو لال حسین کے مذکورہ بند میں جو افعال آئے ہیں وہ یہ ہیں۔ کڈھ، کیتم، پیو، کیتا، کہے ، جاناں۔ یہ تمام افعال سرائیکی، سندھی، پنجابی، ہندکواور گجری زبانوں میں بھی ملتے ہیں۔ اُردو میں بھی یہ افعال مستعمل ہیں۔ وسطی پنجاب کے معروف صوفی شاعر حضرت سلطان باہوؒ (متوفی۱۴۹۱ء) کا تعلق ضلع جھنگ سے تھا۔ ان کا نمونۂ کلام بھی ملاحظہ کیجیے۔
دِل دریا سمندروں ڈونگے کون دلاں دیاں جانڑے
وچ ہن بیڑے وچ ہن جھیڑے وچ ملاح مہانڑے
چوداں طبق دل دے اندر جتھے عشق تنبو ونج تانڑے
فاضل سٹ فضلیت بیٹھے جداں دل لگا ٹکانڑے
(۳۷)
سلطان باہوکے مذکورہ بند میں صرف ایک فعل ’’سٹ‘‘ ایسا ہے جو اب اُردو میں مستعمل نہیں ہے۔ باقی تمام افعال اُردو اور دیگر زبانوں میں موجود ہیں۔اِسی طرح شاہ لطیف کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔
پانی متھے جھوپڑا مورکھ انج مرن
دم نہ سنجانن دا نہوں کرن مٹھیں جیاں
(۳۸)
اس شعر میں آنے والے تینوں فعل تمام علاقائی زبانوں میں موجود ہیں۔
ان معروف شعراء کے کلام میں افعال کی یکسانیت ہمیں یہ رستہ سمجھارہی ہے کہ یہ بولیاں دراصل ایک ہی زبان کے مختلف روپ ہیں، جنہیں خوامخواہ ایک دوسرے کا غیر بنانے کی سعی ہو رہی ہے۔٭
اگر درج بالا مباحث واضح ہوگئے ہوں تو اس میں ایک دلیل مزید توجہ طلب ہے کہ کسی شخص یا شے کے نام نسبتوں کے حوالے سے دوچار ہی ہوسکتے ہیں۔ لیکن اُردو کا معاملہ اِس سے بالکل جدا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کہتے ہیں:۔
’’شیکسپیئر کے بقول نام میں کیا رکھا ہے لیکن اُردو کے معاملے میں یہ درست نہیں۔ کیونکہ مختلف ادوار میں اُردو کے نام بدلتے رہے ہی نہیں بلکہ ہر عہد کا نام بعض لسانی اور تہذیبی خصوصیات کا مظہر بھی رہا۔ یوں یہ نام بعض اوقات اس مخصوص عہد کے لیے ایک بلیغ استعارہ بھی بن جاتے ہیں‘‘۔(۳۹)
اس طرح دیکھیں تو اُردو میں اُردو، اُردوئے معلی،ہندوی، ہندی، ریختہ،زبان اُردو، زبان شاہ جہان آباد ، دہلوی، دکنی، دکھنی، ہندوستانی، لنگوا ہندوستانی، مورز، گجری، گجراتی، گوجری ، پاکستانی اور گجروی وغیرہ نام ملتے ہیں۔(۴۰)
اگر اُردو کے اس قدر نام ہوسکتے ہیں اور رہے ہیں تو سندھی اُردو، سرائیکی اُردو، پنجابی اُردو، راجستھانی اُردو، کشمیری اُردو اور ہندکو اُردو کیوں نہیں ہوسکتے؟ جبکہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حافظ محمود شیرانی نے پنجاب میں بولے جانے کی وجہ سے اسے پنجابی کی بیٹی اور نصیر الدین ہاشمی نے اسی زبان کو دکن میں بولے جانے کی وجہ سے دکنی کہہ دیا ہے۔ درج بالا مباحث سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اُردو سندھ، پنجاب، دکن یادہلی اور لکھنؤ کے جن جن علاقوں میں سفر کرتے ہوئے مختلف لہجے چھوڑتی گئی اسے علاقائی نسبت سے اُردو کہا جانے لگا۔ پھر ان علاقوں میں معاشرتی اتصّال نہ ہونے کی وجہ سے یہ لہجے اسماء اور افعال کے تھوڑے تھوڑے اختلاف کے سبب مختلف زبانیں محسو س ہونے لگے ورنہ اُردو ایک ہی زبان ہے جو ان سب علاقوں میں لہجوں کے معمولی سے فرق کے ساتھ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔٭
جن زبانوں /بولیوں کا ذکر ہم نے اس مقالے کے حوالے سے کیا ہے ان میں ایک اور قدر مشترک یہ ہے کہ ان میں اعداد کی گنتی تقریباً یکساں نظر آتی ہے۔ چارٹ ملاحظہ فرمایئے۔
اُردو
پنجابی
سرائیکی
سندھی
ہریانوی
ایک/اک
اِک
ہک
ہک
اِک /ایک
دو
دو
ڈو
ڈو
دو
تین
تِن
ترئے
ٹرئے
تِن/تین
چار
چار
چار
چار
چار
پانچ
پنج
پنج
پنج
پنج/پانچ
چھ
چھ
چھی
چھی
چھ
سات
ست
ست
ست
سات/ست
آٹھ
اَٹھ
اٹھ
اَٹھ
اَٹھ/اٹھ
نو
نوں
نوں
نوں
نوں
دس
دس/دہ
ڈہ
ڈہ
دس
اسی طرح ہندکو کی ایک اور پٹی ملاحظہ فرمایئے:۔
اُردو
پنجابی
سرائیکی
سندھی
ہریانوی
اکہتر
اکہتر
اکہتر
اکہتر
اکہتر
بہتر
بہتر
بہتر بہتر
بہتر
بہتر
تہتر
تہتر
تہتر
تہتر
تہتر
چوہتر
چوہتر
چوہتر
چوہتر
چوہتر
پچھتر
پنجھتر
پنجھتر
پنجھتر
پچھتر
چھہتر
چھہتر
چھہتر
چھہتر
چھہتر
ستتر
ستتر
ستتر
ستتر
ستتر
اٹھہتر
اٹھہتر
اٹھہتر
اٹھہتر
اٹھہتر
اناسی
اناسی
اناسی
اناسی
اناسی
اسی
اسی
اسی
اسی
اسی
صرف یہی نہیں بلکہ اگر ہم مختلف موسموں،انسانوں،جانوروں،پھلوں،سبزیوں،رنگوں اور احساسات وغیرہ کا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو پتا چلے گا کہ اکثر مقامات پر اِن میں یکسانیت موجود ہے۔مثلاًلفظ خوش اور خوشی کو دیکھیے تو زیادہ سے زیادہ بولنے والے اس سے ’’کھس‘‘اور ’’کھسی‘‘بول سکتے ہیں۔بصورت دیگر ڈیرہ غازی خان سے کلکتہ تک یہی لفظ بولا ، سمجھا اور لکھا جاتا ہے اور جہاں لفظ تبدیل ہو رہاہے وہاں کوئی لہجے کی کوئی نہ کوئی مجبوری حائل ہے یعنی ہریانہ کے لوگ خ اور ش بول ہی نہیں سکتے۔
اس کے علاوہ بہت سے لفظ اس طرح بھی بن گئے اور بولیاں معرض وجود میں آگئیں جس میں برصغیر کی خصوصی معاشرت کا خاص دخل موجود تھا۔ مثلاً کچھ علاقوں کے لوگوں نے لفظ ’’لیے‘‘ میں نون غنہ کا اضافہ کرکے ’‘لئیں‘‘بولنا شروع کردیا۔ بہت سے لوگوں نے طرح کو طرحاں کہنا شروع کردیا۔ بہت سے لوگ کلثوم کو قثلوم یا چاقو کو قاچو کہنے لگے تو اس سے نئی زبان یا الگ سے زبان وجود میں نہیں آئے گی جب کہ برصغیر میں پہلے جاگیر دار معاشرے اور پھر انگریزوں نے جان بوجھ کر لوگوں کو علم سے دور رکھا۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ اُردو سارے برصغیر کی اکلوتی زبان ہے جو ہر جگہ اپنی علاقائی تبدیلیوں کے ساتھ ملتی ، پھولتی اور بڑھتی رہی ۔یہ الگ بات کہ اس نے اپنے ارتقا کے آخری مدارج دہلی اور لکھنؤمیں طے کیے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اہل لکھنؤ اور اہل دہلی نے اصلاح زبان کے نام پر ہزاروں الفاظ کو اُردو کے دائرے سے باہر نکال کر روزمرہ و محاورے کے نام پر اُردو کے دامن کو وسیع کرنے کی بجائے سمٹنے پر مجبور کردیا۔ اُن میں اکثر الفاظ ہماری دیہی معاشرت سے تعلق رکھتے تھے۔
اگر ہم اس ساری بحث کو سمیٹنا چاہیں تو یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ برصغیر کی بیشتر زبانیں سندھی، سرائیکی، راجستھانی، پنجابی، ہریانوی، ہندکو، پوٹھوہاری، کشمیری، گوجری، دکنی، ہندوستانی، ہندی، ہندوی، دہلوی اور ریختہ وغیرہ سب کی سب اُردو ہی کی مختلف شکلیں ہیں اور مختلف زمانوں اور علاقوں میں اُردو کے مختلف مدارج سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اور اس کے لیے آخری دلیل یہ ہے کہ سرائیکی بولنے والا عام سوجھ بوجھ کا آدمی پنجابی اور اپنے گھر میں پنجابی بولنے والاعام سوجھ بوجھ کا حامل شخص آسانی سے سرائیکی سمجھ لیتا ہے۔ اور یہی حال باقی دوسری زبانوں کا ہے۔ اس کے لیے عملی مثالیں روزانہ دیکھی جاسکتی ہیں۔ یعنی آپ اپنے ٹی۔وی میں گوجری، کشمیری، پنجابی،سرائیکی اور ہندکو کو زبانوں/ بولیوں کے پروگرام دیکھ لیجیے جنہیں بڑی آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے یا پھر کوئی آدمی ذرا زحمت کرے نواب شاہ سے بہاول پور، ملتان، ڈیرہ غازی خان، مری، کشمیر، گورداس پور، انبالہ، راجستھان، حیدر آباد دکن اور بہار تک کے علاقوں کا چکر لگالے تو اُسے پتا چلے گا کہ چند فی صد افعال و مصادر کے علاوہ تقریباً سارے برصغیر میں ایک ہی زبان بولی جا رہی ہے۔ اِسی بات کو ایک اور طریقے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم ملک صدرِ شعبۂ اُردو ، اورینٹل کالج نے اپنی کتاب ’’پاک چین مکالمہ‘‘ میں اِس طرح پیش کیا ہے۔
’’ اُردو کسی علاقے کی مادری زبان نہیں مگر ہر صوبے کی زبان کے اتنے قریب ہے کہ ہر صوبے والا اِسے اپنی زبان سمجھتا ہے۔‘‘(۴۱)
اِسی طرح شہید ملت جناب لیاقت علی خاں نے اپریل ۱۹۴۷ء میں علی گڑھ کی صوبائی ایجوکیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’اُردو اور ہندوستانی کا مسئلہ بہت صاف ہے۔ اس پر بحث اور استدلال بہت ہوچکا ہے۔ ہم خوب سمجھتے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کانگریس کی نیت کیا ہے۔ لفظی بھول بھلیوں سے اب ہمیں باہر نکل آنا چاہیے۔ نہ ہم دھوکا دینا چاہتے ہیں اور نہ دھوکا کھانا چاہتے ہیں۔ صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ اُردو بولیں گے اور اُردو لکھیں گے۔ اپنے بچوں کو اُردو میں تعلیم دیں گے اور اپنی زبان کو سوائے اُردو کے اور کچھ نہیں کہیں گے۔ ہم نے اس ہندوستانی کی خاطر اور ہندوؤں کی خاطر عربی چھوڑی، ترکی چھوڑی اور وہ زبان اختیار کی جو اس ملک میں بنی ہے اور سوائے اس ملک کے کہیں اور بولی اور لکھی نہیں جاتی۔ اب ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہم والمیک کی زبان بولیں۔ ہم نہ بولیں گے۔ ہم ہندو مسلم اتحاد کی خاطر بہت آگے بڑھ چکے ، اب نہ بڑھیں گے جسے ہم سے ملنا ہو یہاں آکر ملے۔ ہم اپنی آخری حد پر کھڑے ہیں۔‘‘(۴۲)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر برصغیر میں بولی جانے والی زبانیں/بولیاں اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہی ہیں تو پھر یہ ایک دوسرے سے مختلف کیوں نظر آتی ہیں؟ اس سوال کے کئی اسباب موجود ہیں مثلاً ہر علاقے کی جغرافیائی حالت کی وجہ سے جہاں انسانوں میں تبدیلیاں آتی ہیں وہیں زبانوں/ بولیوں میں بھی تغیر آجاتا ہے مثلاً ساحلی ، میدانی، صحرائی اور پہاڑی انسان بھی انسان ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہو جاتے ہیں اور زبانیں/بولیاں بھی۔
ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ اُردو کے نام نہاد مراکز میں اصلاح زبان کے نام پر کئی مرتبہ قواعد میں بگاڑ پیدا کیا گیا۔ جو علاقے ان مراکز سے جتنے دور تھے اِسی قدر اصلاح کے نام پر بگاڑسے محفوظ رہے۔ مثلاً کشمیری، ہندکو، سرائیکی، سندھی، راجستھانی اور پنجابی وغیرہ میں ہر جگہ مرغی کا مذکر مرغا ہی ہے ۔ ورنہ اہل اُردو نے غلط العام اور پھر غلط العوام جیسی اصطلاحیں گھڑ کر اُردو کا حلیہ بگاڑ دیا جب کہ اہل زبان، اہل دہلی و لکھنؤ ، خلاف محاورہ اور خلاف روزمرہ کی رٹ نے اُردو کو عامی اور عوامی زبان بننے سے روک دیا۔ ذرا غور کیجیے کہ آج سارے پاکستان میں موبائل فون کی وجہ سے ’’بیل (Bell)مارنا‘‘ کا محاورہ رائج ہوگیا ہے اور اگر اسے قبول نہ کیا جائے تو یہ اُردو کے ساتھ انصاف ہوگا یا بے انصافی تصور کی جائے گی۔
اُردو کے ساتھ خرابی کی ایک صورت ’’اِملاء‘‘ نے بھی پیدا کی ہے۔ اس حوالے سے صرف ایک مصدر کی مثال کافی ہوگی۔ ہم جانتے ہیں کہ اُردو کے مقابلے میں دوسری علاقائی بولیاں/زبانیں حروف علّت ’’ا‘‘،’’و‘‘،’’ی‘‘کو محذوف کردیتی ہیں ۔ اِس بات کو سامنے رکھتے ہوئے مصدر ’’چھوڑنا‘‘ میں حروف علّت’’واؤ‘‘ حذف کیجیے اور باقی لفظ کو لکھنے کی کوشش کیجیے۔ قیامت یہ ہے کہ باقی لفظ میں سے ’’ڑ‘‘ کو نیچے کھینچ کر لکھا جائے تو ’’چھڑنا‘‘ بنے گا اور اگر اس شکل میں لکھا جائے جیسا کہ حرف ’’ڑ‘‘ تنہا آتا ہے تو یہی لفظ ’’چھڈنا‘‘ بن جائے گا۔ لیکن اہل پنجاب نے اپنی سہولت کی وجہ سے پیش کو زبر میں تبدیل کرلیا ہے۔یہاں ایک اور دلچسپ حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرنا چاہیے مثلاً سرائیکی زبان میں دو لفظ یعنی’’کھڑاون ‘‘اور ’’کھڈاون‘‘کو دیکھیے۔ ان الفاظ میں پہلے لفظ کے معنی تنگ کرنے اورچھیڑنے کے ہیں جب کہ دوسرا لفظ کھیل سے مشتق ہے لیکن صرف ’’ڈ ‘‘اور ’’ڑ‘‘کی تبدیلی سے یہ لفظ اور اِن کے معنی بدل جاتے ہیں اور آج کل مشکل یہ ہے کہ بہت سے طالب علم بلکہ اب تو اساتذہ بھی اِس طرح کے حروف کا خیال نہیں رکھتے جس کی وجہ سے اِملاء کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور انہی مسائل نے اُردو کی بہت سی شکلیں پیدا کردی ہیں۔
یاد رکھیے کہ ان تمام زبانوں/بولیوں کا اُردو کے ساتھ پیدا ہونے والا اختلاف در حقیقت اعراب کی وجہ سے بھی ہے جس کی مثال اوپر والے لفظ سے بھی واضح ہوتی ہے لیکن اس کی مثال میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اُردو کا لفظ ’’ظاہر‘‘ ہے لیکن اہل پنجاب ’’ہ‘‘ پر ہمیشہ زبر لگاکر بولتے ہیں۔
ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے الفاظ میں سے کسی بھی وجہ سے کچھ حرف محذوف کردیئے گئے یا کسی شخصی غلطی کی وجہ سے لفظ کی بگڑی ہوئی شکل رائج ہوگئی۔ مثلاً سانپ اور سپ، ناگ اور نانگ اور کوشش یا کوشت وغیرہ اپنی اصل کی بنیاد پر یکساں الفاظ ہیں۔ جب کہ بعض علاقوں میں کچھ حروف ادا کیے ہی نہیں جاسکتے جب تک خاص مشق باہم نہ پہنچالی جائے مثلاً ’’ث‘‘،’’ح‘‘’،’ذ‘‘،’’ژ‘‘،’’ع‘‘،’’غ‘‘،’’ق‘‘،’’ء‘‘ وغیرہ جب کہ یہ مشکل اپنی جگہ موجود ہے کہ آج کی نسل ’’ث‘‘، ’’س‘‘، ’’ص‘‘، ’’ت‘‘،’’ط‘‘،’’ذ‘‘،’’ز‘‘،’’ض‘‘،’’ظ‘‘،’’الف‘‘،’’غ‘‘اور ’’ء‘‘ وغیرہ کی آوازوں کو الگ الگ ادا کرنے اور پہچاننے سے قاصر ہے۔ یہ بات تو بہت عام ہے کہ بعض اہل زبان لفظ ’’لیے‘‘ کو ’‘لینیں‘‘اور ’’طرح‘‘ کو’’طرحاں‘‘ بولتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے اور ان مسائل کو یکجا کیا جائے تو پتا چلے گا کہ یہ سب بولیاں اور زبانیں مختلف نہیں بلکہ ایک ہی درخت کی مختلف شاخیں ہیں۔
یوں تو یہ نظریہ خالص علمی اور لسانی بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے اور اس کا مقصد سیاسی ہرگز نہیں ہے مگر اس نظریے کے سامنے آنے سے جو نتائج مستخرج ہونے ہیں ان کا پاکستان کی قومی اور معاشرتی زندگی پر نہایت خوش گوار اور مثبت اثرات پڑنے کی توقع ہے۔وہ عوامل جو کسی معاشرے کے افراد کو یکجا اور متحد رکھتے ہیں ان میں زبان کا اشتراک بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کے موجودہ معروضی حالات میں لسانی نظریے، علاقائی اور لسانی عصبیت سے آگے بڑھ کر تعصب کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس صحیح لسانی نظریے کی بدولت مختلف طبقات ایک دوسرے سے متصادم ہونے کی بجائے متحد و متفق ہوں گے ۔یوں قومی و علاقائی یک جہتی کو فروغ حاصل ہوگا۔
دوسرا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اُردو زبان کے محدود دائرے کو وسعت نصیب ہوگی اور علاقائی الفاظ بغیر کسی ہچکچاہٹ اور معذرت خواہانہ لب و لہجے کے استعمال ہونے لگیں گے۔ یوں اُردو کے ذخیرۂ الفاظ میں ہزاروں لاکھوں الفاظ کا اضافہ ہوگا۔ خاص طورپر وہ الفاظ جو ایک زمانے تک اُردو میں مستعمل رہے اور جنہیں اصلاح زبان کے نام پر راندۂ درگاہ قرار دے دیا گیا۔ نتیجتاً بعض نازک اور نفیس کیفیات کے بیان کے لیے اُردو داں طبقہ خود کو بے بس سمجھنے لگا ۔وہ سسکتے ہوئے لفظ بھی پھر سے ہماری لغت کا حصہ بن جائیں گے۔
اہل دہلی اور لکھنؤ نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے جو محاذ آرائی شروع کی تھی اس کا لازمی نتیجہ اُردو زبان کے نقصان کی صورت میں نکلا۔ انہوں نے نہ صرف ایک دوسرے کی زبان کو غیر مستند کہا بلکہ معمولی معمولی باتوں پر ایسے طوفان کھڑے کیے کہ اُردو زبان میں بات چیت کرنے والے افراد اس مخمصے کا شکار ہوگئے کہ نجانے ہم مضافاتی لوگوں کو کیا نام دیا جائے گا؟ لہٰذا موجودہ نظریے کی پذیرائی کی صورت میں اُردو لکھنویت اور دہلویت کی قید سے بھی آزاد ہو جائے گی۔
مولانا محمد حسین آزاد سے لے کر خاطر غزنوی تک کے لسانی محققین کے نظریات کی بنیاد کیونکہ علاقائی عصبیت پر رکھی گئی ہے اس لیے عام علمی و لسانی سطح پر تو خرابی پیدا ہونا ہی تھی لیکن اس کی وجہ سے ہم حقیقت سے بھی دور جا پڑے اور انہی لسانی نظریات کے باعث علاقائی تعصبات نے قومی یک جہتی کو شدید نقصان پہنچایا۔
موجودہ لسانی نظریے کی بدولت ایسی کتب اور لغات سے بھی نجات مل جائے گی جو زبان کو مختلف خانوں میں تقسیم کرتی نظر آتی ہے مثلاً اُردوئے قدیم اور اُردو کی قدیم لغت وغیرہ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی لفظ کبھی بوڑھا یا قدیم نہیں ہوتا مسئلہ صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ کب، کس نے اور کہاں استعمال کیا؟
سراج الدین علی خان آرزو سے اُردو میں اصلاحی کوششیں شروع ہوئیں اور پھر کبھی اُردو میں بلاوجہ ہندی اور علاقائی الفاظ کو خارج کرنے کی مذموم کوششیں کی گئیں اور کبھی عربی وفارسی کے الفاظ کو بلا ضرورت برتنے کی سعی فرمائی گئی اور یہ نہیں دیکھا گیا کہ زبان اگر زندہ زبان ہے تو اس کے لیے اس طرح کے انجکشن قوت بخش ہونے کی بجائے آخر کار ضرر رساں ثابت ہوں گے۔ یہی سب کچھ ہوا بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ زبان کو ایک نامیاتی وحدت سمجھنا چاہیے جس میں ضرورت کے مطابق اجزاء خود بخود شامل ہوتے جائیں گے اور غیر ضروری اجزاء خود بخود نکلتے چلے جائیں گے۔ اصلاحی کوششیں اس حوالے سے سعیٔ لاحاصل ہیں۔چنانچہ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ موجودہ لسانی نظریے کی قبولیت عام کے باعث اُردو زبان کے قدرتی ارتقا کا عمل تیز تر ہوگا اور قومی اور ملکی بنیادوں کو مستحکم کرنے میں زبان اپنا قدرتی کردار ادا کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ:۔(یہ مضمون لکھا جا چکا تو ہم نے اُستادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب ،سابق پرنسپل اورینٹل کالج پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے درخواست کی کہ وہ اِس مضمون کو تنقیدی نقطۂ نظر سے ملاحظہ فرمائیں ۔ ساتھ ہی ہم نے/۲۷نومبر ۲۰۰۵ء کو اُردو مجلس بہاول پور کے زیر اہتمام ایک علمی جلسے کا اہتمام کیا جس میں اہلِ شہر کی کثیر تعداد نے شرکت فرمائی جب کہ اِس اجلاس میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب بطورِ صدرِ مجلس اور پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب صاحب بطورِ مہمان اعزاز شریک ہوئے ۔ مضمون پڑھا گیا تو ڈاکٹر اسد اریب صاحب نے فرمایا کہ اُردو زبان کے لیے ایک معیار کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے اور رہنا چاہیے اور اگر لکھنؤ اور دہلی میں اہلِ زبان نہیں رہے تو بھی اُردو لغات موجود ہیں جنہیں معیار بنایا جانا چاہیے ورنہ ایک کھچڑی پک جائے گی اور زبان، زبان نہیں رہے گی۔بطورِ صدرِ مجلس اُستادِ محترم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کا فرمان یہ تھا کہ اِس مضمون میں میرے خیالات کا تواردہو گیا ہے ۔میں پوری ایمان داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ سارے برصغیر کی ایک ہی زبان ہے اور اِس کا نام اُردو ہے ۔اِس بات کا احساس ایک شہر میں رہتے ہوئے شایدکبھی نہ ہولیکن اگر ہم سفر شروع کردیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ بہاول پور سے کلکتہ تک تھوڑے سے تغیر کے ساتھ ایک ہی زبان بولی جا رہی ہے لیکن شفیق اورزوار حسین شاہ کو اِس موضوع پرایک مضمون لکھنے کی بجائے زیادہ محنت کرکے ایک کتاب لکھنا چاہیے ۔)
حوالہ جات
۱۔ اُردو مجلس بہاول پور ستمبر۱۹۷۸ء میں پروفیسر عابد صدیق کی کوششوں سے معرضِ وجود میں آئی تھی۔ اس کے پہلے سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر اورنگ زیب عالم گیر تھے جو ان دنوں اورینٹل کالج لاہور میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ دوسرے سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر محمد انور صابر اور تیسرے پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف سلیمانی رہے ہیں۔ ان دنوں اُردو مجلس بہاول پور کے سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر زوار حسین شاہ ہیں۔ آخر الذکر تینوں اساتذہ کا تعلق شعبۂ اُردو گورنمنٹ ایس ۔ ای کالج بہاول پور سے ہے۔ اُردو مجلس بہاول پور کے ہفتہ وار تنقیدی اجلاس ۷۔دسمبر ۲۰۰۰ء کو عابد صدیق کی رحلت کے بعد بھی جاری رہے۔
۲۔ اس مقالے پر سید زوار حسین شاہ کو پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری ایوارڈ ہوچکی ہے۔
۳۔ سابق وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی ، اسلام آباد۔
۴۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبۂ اُردو شاہ عبداللطیف بھٹائی یونی ورسٹی، خیر پور میرس۔
۵۔ سابق صدرِ شعبۂ اُردو وکشمیریات ،آزاد کشمیر یونی ورسٹی ،کشمیر۔
۶۔ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز بیگ،سابق صدرِ شعبۂ پنجابی، ایس ۔ای کالج بہاول پور۔
۷۔ سرورق، ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘ اسلام آباد ۔ستمبر۲۰۰۳ء۔
۸۔ آبِحیات ، محمد حسین آزاد ، سنگِ میل پبلی کیشنز، اُردو بازار لاہور، سن ندارد۔
۹۔ دکن میں اُردو، نصیر الدین ہاشمی، انشاء پریس ، لاہور۔۱۹۴۰ء۔
(نوٹ) دکن میں اُردو کا پہلا ایڈیشن پہلے دیباچے کے مطابق ۷۔صفر ۱۳۴۲ھ میں شائع ہوا۔ یا اس کا دیباچہ مذکورہ تاریخ کو لکھا گیا۔
۱۰۔ نقوش سلیمانی، سید سلیمان ندوی، اُردو اکیڈمی سندھ، دوسرا ایڈیشن ۱۹۶۷ء۔
(نوٹ) دیباچے کے مطابق ’’نقوش سلیمانی‘‘ کا پہلا ایڈیشن ۱۹۵۱ءمیں شائع ہوا۔
۱۱۔ پنجاب میں اُردو، حافظ محمود شیرانی، مرتبہ:ڈاکٹر وحید قریشی، کتاب نما لاہور، طبع چہارم ۱۹۷۲ء۔
(نوٹ) پنجاب میں اُردو کا پہلا ایڈیشن ۱۹۲۸ء میں شائع ہوا۔
۱۲۔ اُردو زبان کا ماخذ……ہندکو،خاطر غزنوی، مقتدرہ قومی زبان پاکستان، طبع اوّل ۲۰۰۳ء۔
۱۳۔ حرفِ آغاز پنجاب میں اُردو، حافظ محمود شیرانی، مرتبہ:ڈاکٹر وحید قریشی، کتاب نما لاہور ، طبع چہارم۱۹۷۲ء، صفحہ نمبر۷۔
۱۴۔ آبِحیات،مولانا محمد حسین آزاد، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، سن ندارد۔ صفحہ نمبر۱۰۔
۱۵۔ پنجاب میں اُردو ،حافظ محمود شیرانی، مرتبہ:ڈاکٹر وحید قریشی، کتاب نما لاہور، طبع چہارم،۱۹۷۲ء، صفحہ نمبر۱۲۲۔
۱۶۔ اُردو اور ملتانی زبان کے لسانی روابط، ڈاکٹر مہر عبدالحق، اُردو اکادمی، بہاول پور، باراوّل ۱۹۶۷ء۔
۱۷۔ جیسا کہ فتح محمد ملک نے لکھا ہے۔
۱۸۔ نئی کتابیں، تبصرہ: پروفیسر فتح محمد ملک، اُردو زبان کا ماخذ……ہندکو، ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘
اسلام آباد،ستمبر ۲۰۰۳ء، صفحہ نمبر۲۹۔
۱۹۔ جموں میں اُردو زبان و ادب، پروفیسر ظہور الدین، ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘اسلام آباد، فروری ۲۰۰۴ء، صفحہ نمبر۱۹۔
۲۰۔ جموں میں اُردو زبان و ادب، پروفیسر ظہور الدین، ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘اسلام آباد، فروری ۲۰۰۴ء، صفحہ نمبر۱۹۔
۲۱۔ ایک جائزہ ، ڈاکٹر وزیر آغا، مشمولہ اُردو زبان کی قدیم تاریخ، عین الحق فرید کوٹی، اورینٹ ریسرچ سنٹر، طارق کالونی
لاہور، طبع اوّل جون۱۹۷۲ء، صفحہ نمبر۱۹۔۲۰۔
۲۲۔ ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘اسلام آباد ، ڈاکٹر خالد حسن قادری، ستمبر۲۰۰۳ء۔
۲۳۔ اُردو کا مولد اور ماخذ، فتح محمد ملک، ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘اسلام آباد، ستمبر۲۰۰۳ء، صفحہ نمبر۹۔
۲۴۔ ڈاکٹر خالد حسن قادری کا نظریہ، محمد پرویش شاہین، ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘ اسلام آباد، فروری ۲۰۰۴ء، صفحہ نمبر۳۱۔
۲۵۔ نیرنگِ خیال، مولانا محمد حسین آزاد، مضمون ’’آغا آفرینش میں باغ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہوگیا‘‘۔
کشمیر کتاب گھر، اُردو بازار لاہور، دسمبر۱۹۸۳ء، صفحہ نمبر۲۲۔۲۳۔
۲۶۔ نیرنگِ خیال کے مذکورہ اقتباس کا سندھی ترجمہ۔ از :ڈاکٹر محمد یوسف خشک، صدرِ شعبۂ اُردو ، شاہ عبداللطیف بھٹائی یونی ورسٹی،خیرپور میرس۔
۲۷۔ نیرنگِ خیال کے مذکورہ اقتباس کا سرائیکی ترجمہ۔از:ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز، اُستاد شعبۂ اُردو ، گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ۔
۲۸۔ نیرنگِ خیال کے مذکورہ اقتباس کا پنجابی ترجمہ ۔از:پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد بیگ،سابق صدر شعبۂ پنجابی ، گورنمنٹ ایس ۔ ای کالج بہاول پور۔
۲۹۔ نیرنگ خیال کے مذکورہ اقتباس کا ہریانوی ترجمہ۔از: عبدالحکیم رانا پٹیالوی ۔
۳۰۔ اُردو بول چال میں مستعمل عام جملے۔ از:پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد۔
۳۱۔ مذکورہ اُردو جملوں کا سندھی ترجمہ۔از: ڈاکٹر جی ۔الانہ، سابق وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد۔
۳۲۔ مذکورہ اُردو جملوں کا سرائیکی ترجمہ۔از: خورشید ناظر ۔ شاعر و ادیب ، بہاول پور۔
۳۳۔ مذکورہ اُردو جملوں کا پنجابی ترجمہ۔از:ڈاکٹر اعجاز احمد بیگ، بہاول پور۔
۳۴۔ مذکورہ اُردو جملوں کا ہریانوی ترجمہ۔از: عبدالحکیم رانا پٹیالوی۔
۳۵۔ مکتوب بنام سید زوار حسین شاہ۔از:ڈاکٹر صابر آفاقی، سابق صدر شعبۂ اُردو، آزاد کشمیر یونی ورسٹی، مظفر آباد۔
۳۶۔ تاریخ ادبیاتِ مسلمانانِ پاک وہند،مضمون۔ پنجابی کی خصوصیات ،
جلد تیرہویں،از:ڈاکٹر فقیر محمدفقیر بہ اشتراک ادارہ پنجاب یونی ورسٹی لاہور،طبع اوّل۱۹۷۱ء، صفحہ نمبر۲۳۵۔
۳۷۔ تاریخ ادبیاتِ مسلمانانِ پاک وہند،مضمون۔تصوف اور صوفی شعراء ، از :ڈاکٹر عبدالغنی۔
جلد تیرہویں،از:ڈاکٹر عبدالغنی ،بہ اشتراک ادارہ پنجاب یونی ورسٹی لاہور،طبع اوّل۱۹۷۱ء، صفحہ نمبر۲۹۶۔جیسا کہ متن میں ہے۔
۳۸۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا یہ شعر اور کچھ دوسرے سندھی شعراء کے اشعار ، جاوید چانڈیو،
صدرِ شعبۂ سرائیکی، اسلامیہ یونی ورسٹی ، بہاول پور نے بھجوائے جو مضمون کے ضمیمہ الف میں شامل ہے۔
۳۹۔ اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ۔ از: ڈاکٹر سلیم اختر، سنگِمیل پبلی کیشنز لاہور، طبع چہارم ۔
ستمبر۱۹۷۸ء، صفحہ نمبر۱۲۹تا۱۳۰۔
۴۰۔ ایضاً صفحہ نمبر۱۲۹تا۱۳۰۔
۴۱۔ پاک چین مکالمہ، از:پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم ملک ، بک ہوم مزنگ روڈ لاہور،۲۰۰۴ء ،صفحہ نمبر۴۲۔
نوٹ: ( واضح رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم ملک ایم ۔اے اُردو ، ایم ۔اے لسانیات اور ایم ۔اے فارسی ہیں۔اپنے تینوں امتحانوں میں طلائی تمغوں کے حامل ہیں اور اگر وہ یہ بات فرما رہے ہیں تو اپنے تجربے اور علم کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں)
۴۲۔ سرِ ورق ،ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘ اسلام آباد، اکتوبر ۲۰۰۵ء ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان صوتی علامات کا ایک ایسا مواصلاتی نظام ہے جس کی مدد سے انسانی سماج کے افراد
آپس میں مل جل کر کام کرتے ہیں۔اس کی ایجاد انسانی فطرت کا تقاضا اور انسانیت کا شرف ہے۔اس
کا مقصدِ بیان کائنات،اس کی بنیاد انسانی گویائی اور اس کی وسعت انسانی سوچ کی پرواز ہے۔
زبان تاریخی ادوار میں نہیں ،مکانی علاقوں میں منقسم ہے۔اس کی زمانیت ایک وہم اور
مکانیت ایک ایقان ہے۔اس کی ولادت ایک واقعہ اور وفات ایک افسانہ ہے۔اس کی تفسیر ایک التباس
اور بوقلمونی ایک حقیقت ہے۔ ۔۔۔۔۔اردو زبان کے متعلق اب تک جو تحقیق ہوئی ہے اس میں بے شمار الجھنیں اس لئے پیدا ہوتی ہیں کہ آج تک اس کی جنم بھومی کا سراغ نہیں لگ سکاہے۔چونکہ ادب شہروں
میں پلتا ہے اور بولی دیہات میں پھیلتی ہے لہٰذا اردو کا دیس بھی دیہات میں تلاش کرنا چاہئے۔
( ڈاکٹر سہیل بخاری کے مضمون اردو زبان کا آغاز و ارتقاء سے اقتباس
مطبوعہ ماہنامہ ادبِ لطیف لاہور سالنامہ ۱۹۸۸ء)