”اب کیسی طبیعت ہے تمہاری ماریہ؟ ”وہ سب ماریہ کے کمرے میں بیٹھے تھے۔جبھی آسٹن نے اس کی طبیعت کے بارے میں دریافت کیا۔
”ٹھیک ہوں۔ ” وہ تکیہ دیوار کے ساتھ کھڑا کرکے اس سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
”ریکارڈنگ ہوگئی؟” چارلس نے اپنا اوور کوٹ اتارا۔
”ہاں ۔ ” اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
”اچھا ہے۔ ” ٹالی نے سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھایا اور چائے کا آرڈر دینے لگی۔
”کل ہم دریائے نیلم کی شوٹنگ کریں گے۔ اس کے بعد ناران کاغان کی طرف موو کریں گے۔ یہ جگہ بہت اچھی ہے لیکن اگر ہم ایک ایک چیز کی شوٹنگ کریں گے تو ڈاکومینٹری بہت طویل ہوجائے گی۔ کیا خیال ہے؟ ”آرنلڈ نے آئندہ کا لائحہ عمل تریتب دیا۔
”ہاں ٹھیک ہے۔ویسے بھی ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ہمیں واپس بھی جانا ہے۔ ”ٹالی اس ساری گفتگو کے دوران پہلی دفعہ بولی تھی۔
”ماریہ اگر تمہاری ساری ریکارڈنگز مکمل ہوگئی ہوں تو تم واپس چلی جانا ۔تمہاری ماما وہاں بہت پریشان ہیں۔ہم لوگ کچھ دن بعد آجائیں گے۔ ” آسٹن نے ماریہ کے چہرے کو دیکھا جس پر کوئی تاثر نہیں تھا اوروہ کھوئی کھوئی سی لگ رہی تھی۔
”بہتر۔ ” اس کا انداز اب بھی ویسا ہی تھا۔
ویٹر کمرے میں چائے دے گیا تھا۔وہ سب چائے سے محظوظ ہونے لگے۔
”تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں ماریہ؟ ”وہ آسٹن تھا جو ماریہ کے لیے جلدی پریشان ہوجایا کرتا تھا۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں۔ ” پتا نہیں وہ خود کو مطمئن کررہی تھی یا پھر آسٹن کو۔
”چائے پینے کے بعد تم آرام کرلینا۔ نہیں تو یہاں کسی ڈاکٹر سے مل لیتے ہیں۔ دوائی سے جلدی آرام آجائے گا۔ ” وہ کب اسے یوں بیمار سا دیکھ سکتا تھا۔
”نہیں ، اس کی ضرورت نہیں۔ بس سر میں درد ہورہا ہے۔ جلد ٹھیک ہوجائے گا۔ ” وہ کنپٹی کو دائیں ہاتھ سے مسلنے لگی۔جیسے وہاں سچ میں درد ہورہا ہو۔
”جیسے تمہاری مرضی۔ ” وہ دوبارہ چائے پینے لگا۔ لیکن دھیان ابھی بھی ماریہ کی طبیعت کی جانب تھا۔
کیونکہ وہ آسٹن تھا۔
ماریہ نامی کتاب کو پڑھنے والا۔۔۔۔
کہ اچھے دوست ایسے ہی کیا کرتے ہیں۔۔۔
وہ سب اپنے اپنے پروگرامز کو ترتیب دینے لگے۔ ماریہ ان سب باتوں سے بیگانہ ہوئی تھی کیونکہ دل کسی اور کی جانب پلٹا تھا۔
(۔۔۔۔۔۔۔)
شادرا کی سلطنت میں سردیوں کی ایک خوبصورت شام اتری تھی۔
ایسی شام کے جس کا سحر ہر ذی نفس کو مسحور کررہا تھا۔بلند پہاڑوں پر دھند اپنی حکومت جمانے کے لیے بلندیوں سے اتر رہی تھی اور وہ تھے کہ اس دھند میں لپٹے ہی جارہے تھے۔
رات نے اترنے سے پہلے شام کی صورت میں اپنی آمد کا پیغام دیا تھا۔
وہ دریا پر اپنی ڈاکو مینٹری کا حصہ تقریبا مکمل کر چکے تھے۔
”ماریہ کیوں چڑیلوں کی طرح بال کھول کر کھڑی ہو یہاں؟ ”یہ چارلس تھا جسے ماریہ کے لمبے بال اچھے نہیں لگتے تھے۔
”ہاں وہ میرا بینڈ گیسٹ ہاؤس میں ہی رہ گیا تھا۔ ” ماریہ جو بلندی پر کھڑی تھی ۔نیچے اس کی جانب پلٹی۔
”جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ تمہیں بال کھولنا پسند نہیں تھا۔ ” آسٹن بھی ان کی گفتگو میں شامل ہوا تھا۔
”تم لوگ اتنی جلدی ڈالتے ہو کہ میری آدھی چیزیں تو کمرے میں ہی رہ جاتی ہیں۔ ” وہ مسکراہٹ سجائے ان کے قریب آچکی تھی۔
”اتنے پیارے تو بال ہیں ماریہ کے ،بالکل راپنزل کی طرح۔ ” ٹالی اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکرائی تھی۔
جوابا وہ بھی مسکرائی تھی۔
وہ ایک چوٹی پر کھڑے تھے اور دریا کا بلندی سے شوٹ لے رہے تھے۔
”راپنزل سے یاد آیا کہ یہ جگہ کتنی خواب ناک سی لگتی ہے۔بالکل کسی فئیری لینڈ کی طرح۔۔۔۔ ” وہ اب نیچے کی طرف آرہے تھے۔جبھی ایک آواز نے ماریہ کےقدم جکڑ ے تھے۔
وہ رکی تھی۔ آواز اتنی دور نہیں تھی۔
لیکن اتنے قریب بھی نہیں تھی۔۔۔۔
”کیا ہوا ماریہ؟ ”اس کے یوں رکنے پر سب نے رک کر اسے دیکھا تھا۔لیکن وہ کسی سحر میں آچکی تھی۔ اس سحر نے اسے خود سے باندھ کر اپنی جانب کھینچا تھا۔
وہ آواز کی جانب بھاگنے لگی۔
”ماریہ ۔۔۔۔ماریہ ! کدھر جارہی ہو؟”آسٹن اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔
اسے کچھ سنائی نہیں دیا تھا۔
سوائے اس کے جسے وہ بچپن سے سنتی آرہی تھی۔
”ماریہ رک جاؤ۔۔۔۔” اس کے یوں دیوانہ وار بھاگنے پر وہ پریشان ہوا تھا۔
وہ بھاگ رہی تھی۔ لمبے بال شاردا کے جھرنوں کو مات دینے لگے تھے۔
وہ گر رہی تھی۔۔۔
گر کر اٹھ رہی تھی۔۔۔
بھاگ رہی تھی۔۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ اس جگہ پر پہنچ چکی تھی جہاں سے آواز آرہی تھی۔
تیز ہوتی سانس کے ساتھ اس کے قدم اس جگہ پر جا کر رک گئے تھے۔ وہاں کچھ لوگ بڑے بڑےپتھروں پر بیٹھے تھے۔اس نے وہاں ان دونوں میں سے ایک کو دیکھا تھا جو کہ سامنے کھڑے شخص کی دھن کی پر مسحورسا ہورہا تھا۔
وہی منظر۔۔۔
وہی جگہ۔۔۔
اسی طرح بہتا دریا۔۔۔بلند و بالا پہاڑ۔۔
پہاڑوں پر اترتی دھند۔۔۔
اور اس جگہ پر وائلن بجاتا وہ شخص۔۔۔
اور اس وائلن سے نکلتی وہی دھن جو وہ پچھلے کئی سالوں سے سنتی آرہی تھی۔۔۔وہ ہزار دھنوں میں سے بھی اس دھن کو پہچان سکتی تھی۔
اور پوری دنیا کے انسانوں میں سے اس شخص کو جس کی پیٹھ اس کی جانب تھی۔
وہ چن ریسٹ پر ٹھوری ٹکائے اس دھن کو شاردا کی ہواؤں کے سپرد کررہا تھا۔
کیا یہ سارا منظر روح نکالنے کے لیے کافی نہیں تھا؟
کیا یہ لندن کی اس لڑکی کا سانس روکنے کے لیے کافی نہیں تھا کہ جسے اس خواب نے بچپن سے پریشان کررکھا تھا کہ جس کی تعبیر کا حصہ اسے پاکستان کی اس وادی میں نظر آرہا تھا جس کا نام تک اس نے کبھی نہیں سنا تھا۔
”بند کرو اسے بجانا۔ ”وہ اچانک چلائی تھی۔
اس کی آواز پر وہ سب پلٹے تھے۔ تب تک آسٹن لوگ بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔
دھن یکدم تھمی تھی۔ وہ اجنبی پلٹا تھا۔
اور اس کے ساتھ ہی ماریہ کا سانس حلق میں ہی کہیں اٹکا تھا۔
شاردا کہ وہ بلند پہاڑ اسے چاروں طرف گھومتے نظر آئے تھے۔
ان سب کی طرح وائلن بجانے والا بھی حیرت میں مبتلا ہوا تھا اور اس کے ساتھ آسٹن لوگوں کے لیے بھی یہ حرکت ناقابلِ یقین تھی۔
”خدا کے لیے اسے مت بجاؤ۔ ” وہ رونے لگی۔
”سب ٹھیک ہے؟ ” وہ وائلن وہاں بیٹھے ایک مقامی باشندے کر پکڑا کر آگیا۔ وہ وائلن اسی باشندے کا تھا۔
”یہاں آؤ گی تو ماتم بن جاؤ گی۔”
”یہاں آؤ گی تو ماتم بن جاؤ گی۔”
وہی آواز اس کے دماغ میں گونجی تھی۔
یہ آواز حقیقت سے کتنے مشابہہ تھی۔۔۔۔۔
”کون ہو تم؟ ”وہ براہِ راست اس کی آنکھوں میں جھانکی تھی۔وہ معاملہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔اسی لیے باقی سب کی طرح وہ بھی خاموشی سے کھڑا رہا۔
”میں پوچھ رہی ہوں کون ہو تم؟” اب کی بار اس نے اسے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر پیچھے کی جانب دھکا دیا تھا۔
پیچھے سے آتے اس کے دوست نے اسے تھاما تھا ورنہ وہ پشت کے بل گرسکتا تھا۔
”ماریہ ! تم ہوش میں تو ہو؟” اس کی اس حرکت پر آسٹن نے اسے بازو سے پکڑ کر ہلایا تھا۔لیکن وہ اس کی جانب متوجہ نہیں ہوئی تھی۔
”تم کیسے وہ ہوسکتے ہو؟” وہ ایک قدم آگے بڑھی تھی۔
”کیسے؟” بھوری آنکھیں پانی سے بھری تھیں۔اور اس کے بال شاردا کی ٹھنڈی ہواؤں سےاڑنے لگےتھے۔
جبکہ وہ لب بھینچے اس کی کاروائی کو دیکھتا رہا۔ اس کے رخساروں کے ننھے گڑھے بھی پریشان سے دکھائی دینے لگے تھے۔
”ماریہ! کیسی باتیں کررہی ہو؟” ٹالی نے اسے پیچھے کی جانب کھینچا تھا۔
جبکہ وہ اس شخص کے قدموں سے کچھ فاصلے پر گرگئی تھی۔
ہاں شادرا نے اسے گھٹنوں کے بل زمین پر گرتے دیکھا تھا۔ جیسے کوئی نیلسن کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے۔
آسٹن اس منظر کو کیسے دیکھ سکتا تھا؟
وہ کیسے ماریہ کو کسی کے سامنے یوں گرتا دیکھ سکتا تھا؟
لیکن وہ خاموش رہا۔
کہ ایسے میں یہی بہتر ردِ عمل ہوتا ہے۔
وہ اجنبی شخص بھی کسی احساس کے تحت اس کے سامنے ایک گھٹنامین پر ٹکا کراور دوسرا کھڑا کرکے بیٹھا تھا۔
شارداکے بلند پہاڑوں نے انہیں ایک دوسرے کے سامنے یونہی بیٹھے دیکھا تھا۔
وہ خاموشی سے اس کی بھوری آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
وہ بھی بے بسی اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی۔وہ پرسکون ہوچکی تھی۔
کتنے ہی لمحے گزرے تھے اس منظر کو کہ جسے شاردا کا سب سے خوبصورت منظر کہا جاسکتا تھا۔
”کسی پہاڑ سے گر گئی تھی تم؟” اس نے نہایت راز داری سے پوچھا۔
اس نے ناسمجھی کے عالم میں نفی میں دھیرے سے سر ہلایا۔
”تو پھر اس طرح کی حرکت ایک نارمل انسان تو نہیں کرسکتا ناں؟” وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بڑے پیار سے پوچھ رہا تھا۔
”کیا مطلب؟” بھوری آنکھیں سکڑی تھیں۔
جوابا وہ کھڑا ہوا تھا۔اور ایک ہاتھ اسے اٹھانےکی خاطر اس کی جانب بڑھایا۔ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر اٹھ گئی۔
اسی ہاتھ کو پکڑے اس نے ماریہ کی توجہ ااپنے دونوں جانب مبذول کروائی جہاں سب تماشائی بنے کھڑے تھے۔
وہ ساری بات سمجھ چکی تھی۔ اس نے سرعت سے اس سے اپنا ہاتھ چھڑایا تھااور اس سے دو قدم دورہوئی تھی۔
”تمہیں کوئی غلط فہمی ہورہی ہے ۔ ”اب کی بار اس کا دوست سامنے آیا تھا۔
”غلط فہمی؟” اس نے باری باری ان دونوں کی طرف دیکھا۔
”جی غلط فہمی۔کیونکہ میرا خیال ہے کہ تم پاکستان سے نہیں ہو اور میرا یہ دوست کبھی پاکستان سے باہر گیا نہیں۔ ایسے میں اگر تم یہ سب باتیں کہو تو اسے غلط فہمی نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے؟” اس نے ماریہ کے لیے سوالیہ نشان چھوڑا تھا۔
”ہم معذرت چاہتے ہیں۔ دراصل ہمیں خود نہیں پتا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ برائے مہربانی برا مت منایئے گا۔ ” ٹالی ان دونوں سے مخاطب تھی۔
” کوئی بات نہیں۔ ” اب کی بار اس کے گالوں کے ننھے گڑھے نمایاں ہوئے تھے۔
ماریہ نے ان گڑھوں کو دیکھا تھا۔
اور پھر اپنے دل کو ان میں ڈوبتے دیکھا تھا۔
اس سارے معاملے میں چارلس اور آرنلڈ ابھی بھی خاموش کھڑے تھے۔
”میں ہوں چارلس۔ ” چارلس نےآگے آکر ملانے کے ہاتھ ان کی جانب بڑھایا۔
”ارتضی حدید۔ ”میجر ارتضی نے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔
”بلال احمد۔ ”میجر بلال نے ایک دلکش مسکراہٹ سے اپنا تعارف کروایا تھا۔
”آرنلڈ۔ ”آرنلڈ نے بھی چارلس کا عمل دہرایا تھا۔
”ٹالی۔ ”ٹالی نے جھک کر انہیں اپنے مخصوص انداز میں کہا۔
”اور میں آسٹن۔ ” آسٹن نے بھی ان سے باری باری ہاتھ ملایا۔
ماریہ خاموش سی کھڑی تھی۔وہ بہت ہرٹ ہوئی تھی شاید۔
”اور یہ ہے ہماری دوست ماریہ۔ ”ٹالی نے اس کا تعارف بھی کروایا۔
میجر ارتضی نے اس کے چہرے کو ایک نظر دیکھا تھا وہ واقعی ایک پری تھی جو شاردا کی وادیوں میںبھٹک کر اتری تھی۔
”پاکستان میں خوش آمدید۔ ” میجر بلال نے انہیں اپنے ملک میں خوش آمدید کہا تھا کہ۔۔۔
اس ملک کے باشندے ایسے ہی تو کیا کرتے ہیں۔
”شکریہ۔ ”آسٹن پی کیپ اتار کر جھکا۔ یہ اس کا شکریہ کہنے کا ایک خاص انداز تھا جسے وہ کبھی کبھی ہی اپناتا تھا۔
”اگر تم لوگوں کو یہاں پاکستان میں کسی قسم کی رہنمائی کی ضرورت ہو تو بلا جھجک مجھ سے رابطہ کرسکتے ہو۔ یہ میرا کارڈ ہے ۔ اس پر میرا نام لکھا ہوا ہے۔ ”میجر ارتضی نے اپنے والٹ سے ایک کارڈ نکال کر آسٹن کی جانب بڑھایا۔
”شکریہ ۔”اس نے مسکراتے ہوئے وہ کارڈ تھام لیا۔
”اب ہم چلتے ہیں ۔تم سے مل کر اچھا لگا۔ ” آسٹن واپس جانے کے لیے مڑا اور اس کے ساتھ ہی اس کے سب دوست۔
بھوری آنکھوں نے ان ڈملپز کو دیکھا تھا اور بس یہی وہ غلطی تھی جو انجانے میں ان سے سرزد ہوچکی تھی اور شاید یہی غلطی اس کی زندگی کو ماتم بنانے والی تھی۔
میجر ارتضی نے اسے جاتے دیکھا تھا۔
وہ بھوری آنکھیں ایک پہیلی کی مانند ان کے سامنے آئی تھیں۔
ایسی پہیلی جو سلجھنے سے پہلے مزید الجھی تھی۔
کہ جسے سلجھانے کے لیے میجر ارتضی دریائے نیلم کے کنارے اپنی ذات سے الجھے تھے۔
وہ لوگ جا چکے تھے۔
”ارتضی سچ بتاؤ آرمی جوائن کرنے سے پہلے تمہارا اس سے کوئی چکر تو نہیں تھا؟” اسے جاتے دیکھ کر میجر بلال نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے پوچھا۔
”تو یہ بات تم اس سے پوچھ لیتے۔ ”میجر ارتضی ٹراؤزر کی پاکٹس میں ہاتھ چھپا کر چل دیے۔
”یار ہوسکتا ہے کہ جسے تم پری سمجھ رہے ہو وہ تمہاری کسی پرانی محبوبہ کی بھٹکتی آتما ہو۔۔۔۔” وہ نہایت سوچ کر بولے۔
”اوں ہوں۔۔۔” جواباانہوں نے میجر بلال کو گھورا۔
”میں نے کہا کہ ہوسکتا ہے۔” انہوں نے اپنی بات پہ زور دیا۔
”تمہارا قتل بھی میرے ہاتھوں ہوسکتا ہے۔”میجر ارتضی نے ایک بھاری پتھر اٹھا کر میجر بلال کو دے مارنا چاہا۔
’’دیکھنا پھر میری آتما بھی یونہی تمہارے پاس آیا کرے گی۔تم مجھ سے بچنے کے لیے بھاگا کرو گے۔
۔پھر جہاں جہاں تم، وہاں وہاں میں۔۔۔کوسو گے اس گھڑی کو جس میں تم نے اس معصوم کا قتل کیا ہوگا۔ ‘‘ بند مٹھی کمر پر ٹکائے وہ ان کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔
’’تمہاری آتما کو میں نے ایک بوتل میں بند کرکے اسی دریا میں بہا دینا ہے۔ پھر جہاں جہاں یہ پانی ،وہاں وہاں تمہاری آتما۔پھر کوسو گے اس وقت کو جس میں تمہیں آتما بننے کا خیال آیا تھا۔‘‘ انداز وہی تھا جو اب سے تھوڑی دیر پہلے میجر بلال کا تھا۔
’’کاش میں تم سے رینک میں سینئر ہوتا۔‘‘ میجر بلال کی حسرت بلند پہاڑوں نے سنی۔
”ہاہاہاہاہا۔”میجر ارتضی کا ایک بے ساختہ قہقہہ دریائے نیلم کی لہروں کے سنگ بہا تھا۔
”بیٹا میرے ہوتے ہوئے تیری یہ خواہش،خواہش ہی رہے گی۔” انہوں نے میجر بلال کی گردن کے قریب سے بائیں کندھے کو اپنے مضبوط پنجے میں لیکر پوری قوت سے دبایا۔
”آآااااااااااا۔” ایک چلاتی آواز شاردا کی وادی میں گونجی تھی۔اگر وہ مزید قوت لگاتے تو قریب تھا کہ میجر بلال کہ گردن ایک جانب کو لڑھک چکی ہوتی۔
”اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خواب کی تعبیر کے لیے مجھے تمہارا خون بہانا پڑے گا؟” گردن کے قریب سے کندھا سہلاتے ہوئے وہ ان سے دوقدم دور ہوئے تھے۔
”یس۔آف کورس میجر۔” میجر ارتضی نے کندھے اچکائے۔
’’ویسے اس کی ضرورت نہیں پیش آئے گی کیونکہ تمہارا خون چوسنے کے لیے ایک عدد آتما اس سرزمین پر اتر چکی ہے۔‘‘ میجر ارتضی رکے۔
رک کر ایڑیوں کے بل ذرا سا ان کی جانب گھومے۔
’’دل تو کررہا ہے کہ تمہاری آتما کی بجائے تمہیں ہی اس دریا میں ڈبو ڈالوں۔‘‘ وہ دانت پیس کررہ گئے۔
ننھے گڑھے خفگی سے بھرے تھے۔
’’اگر تیرا دل اسی میں خوش ہے تو ٹھیک ہےدے دو دھکا۔‘‘ انہوں نے خود کو اس قربانی کے لیے پیش کیا تھا۔چہرے پر معصومیت ایسی تھی کہ کسی بھی ظالم کا دل نہ چاہتا کہ انہیں دریائے نیلم کے پانی کے حوالے کر ڈالے۔وہ دریا کے کنارے پر کھڑے ہوگئے۔
’’ڈرامے باز کہیں کا۔‘‘ میجر ارتضی نے انہیں کالر سے پکڑ کرپیچھے کی جانب کھینچا تھا۔
’’حد سے زیادہ ڈرامے باز ہوگیا ہے تو۔اللہ کی پناہ۔‘‘ انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
ان کی اس بات پر درائے نیلم کے شفاف پانی نے میجر بلال کے ہونٹوں پر ایک شفاف مسکراہٹ دیکھی تھی۔
’’بس تمہاری صحبت کا اثر ہورہا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے بازو جھاڑے۔
’’بلال مجھے لگتا ہے کہ تمہاے دن نزدیک آرہے ہیں۔‘‘
چہرے پر سنجیدگی طاری کیے وہ دوبارہ ان سے مخاطب ہوئے تھے۔
’’کیا مطلب؟‘‘ کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے وہ ان کی بات سمجھنے سے قاصر نظر آئے تھے۔
’’بیٹا تو بس صبر کر۔‘‘ ننھے گڑھوں نے انہیں وارننگ دی تھی۔
’’یااللہ۔اس شیطان کے خطرناک ارادوں سے مجھ معصوم کو محفوظ رکھنا۔‘‘ انہوں نے دعائیہ انداز سے ہاتھ پھیلا کر اوپر کی جانب اٹھائے اور یہ دعامانگنے کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرے۔
’’بس بیٹا تو دیکھتا رہ۔تجھے تو ان ارادوں سے محفوظ رہنے کے لیے وظیفے بھی شروع کرنے پڑیں گے۔‘‘ میجر ارتضی نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
“Let see۔۔۔۔”
شام پوری طرح اس وادی میں اتر چکی تھی۔
وہ دونوں اپنی عارضی رہائش گاہوں کی طرف چل دیے۔
وقت کی ڈائری پہ ایک نئی داستان رقم ہونے جارہی تھی جس کا انجام پشین گوئیوں کی سرحد سے آزاد تھا۔
کہ جس کے اختتام سے دریائے نیلم بھی بے خبر تھا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
’’تم یہاں بیٹھی ہو۔میں تمہیں پورے گیسٹ ہاؤس میں ڈھونڈ رہا تھا۔‘‘ وہ گیسٹ ہاؤس سے باہر ایک سنگی بنچ پر بیٹھی تھی جو کہ پہاڑی کے ہی ایک ٹکڑے کو تراش کربنایا گیاتھا۔اس کے ہاتھ میں کافی کا ایک بھاپ اڑاتا مگ تھا۔تبھی اسے اپنے عقب سے آسٹن کی آواز سنائی دی تھی۔
’’کیوں؟‘‘ اس کے بال بندھے ہوئے تھے۔
’’کیوں کا کیا مطلب؟‘‘ آسٹن اس کے سوال پر حیران ہوا تھا۔کیونکہ اس نے آج سے پہلے اس سے ایسے نہیں پوچھا تھا۔
’’مطلب کہ کیوں ڈھونڈ رہے تھے؟کوئی کام تھا کیا؟‘‘ لہجہ ترش تھا اور اجنبی سا بھی۔
’’تم سے کیا کام ہوسکتا ہے مجھے۔‘‘ وہ مسکرایا تھا اس کے لہجے کی ترشی کو زائل کرنے کے لیے۔
’’تو پھر؟‘‘ کافی کا ایک گھونٹ بھر کر اس نے ایک لمبا سانس لیا تھا۔
’’پھر یہ کہ میں تم سے ایک ضروری بات کرنا چاہ رہا تھا۔‘‘ رات ہرسو پھیلی ہوئی تھی۔چاند کی مدھم روشنی زمین پر اتر رہی تھی۔گیسٹ ہاؤس کے راستے کے دونوں جانب چھوٹی چھوٹی لائٹس لگائی گئی تھیں جو کہ رات کے وقت بھی اس کے راستے کو واضح کررہی تھیں۔
’’ہاں بولو۔‘‘ اسے بنا دیکھے ماریہ نے گرم کافی کا ایک اور گھونٹ بھرا تھا۔
’’ماریہ کیا تم مجھے آج کے واقعے کا پسِ منظر بتا سکتی ہو؟‘‘ جب سے وہ واپس آئے تھے آسٹن کے ذہن میں بس وہی واقعہ گھوم رہا تھا۔
’’کونسا واقعہ؟‘‘ اب کی بار اس نے ایک نظر اٹھا کر آسٹن کی جانب دیکھا تھا جس کی نیلی آنکھیں کئی سوال لیے ہوئے تھیں۔
’’وہی وائلن والا۔‘‘ اس نے مبہم سا اشارہ دیا تھا لیکن ماریہ کے سمجھنے کے لیے کافی تھا۔
’’میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔‘‘ وہ آسٹن سے کچھ بھی شئیر نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔
ماریہ میں تمہارا دوست ہو۔اگر کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ۔میں تمہاری ہرممکن مدد کروں گا۔‘‘ وہ مدھم سے لہجے میں بولا کہ جیسے چاند کی مدھم۔کرنیں ٹھنڈک کا احساس دل میں اتار رہی ہوں۔
’’آسٹن میں سچ کہہ رہی ہوں میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔‘‘ اب کی بار اس کی آنکھوں میں آنسو بھی ابھرے تھے۔جن کی چمک کو چاند کی مدھم چاندنی میں بھی دیکھا جاسکتا تھا۔
’’ماریہ کیا تم اسے پہلے سے جانتی ہو؟‘‘ وہ اس اگلوانے کی ٹھان چکا تھا۔
’’نہیں۔‘‘ فوراً جواب آیا تھا۔
’’ مجھے پاگل مت بناؤ ماریہ۔بچہ نہیں ہوں کہ ایسی باتیں سمجھ نہ پاؤں۔‘‘ وہ پہلی بار ایسے لہجے میں بھولا تھا۔کچھ لمحے تو ماریہ کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔
وہ آسٹن تھا۔
تو پھر اس کے لہجے پر یقین کرنا اتنا مشکل کیوں ہوا تھا؟
’’تم سننا کیا چاہ رہے ہو؟‘‘ وہ خود کو مضبوط کرتے ہوئے بولی۔
’’وہی جو پوچھ رہا ہوں۔‘‘ شاردا میں یکدم سناٹا چھایا تھا۔
’’جو بات تم پوچھ رہے ہو وہ حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتی۔‘‘ اس نے اپنے ہی خواب کی نفی کی تھی حالانکہ دریا کے اس کنارے وہ اس کی جیتی جاگتی تعبیر دیکھ آئی تھی۔
’’جھوٹ پہ جھوٹ۔ آخر کب تک؟‘‘ وہ ماریہ کو خود اس سے بھی زیادہ گہرائی سے جانتا تھا تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ اسے اس کے جھوٹ اور سچ کا پتا نہ چلے۔
’’تو بولنے دو مجھے جھوٹ۔تمہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ خدا کے لیے جاؤ یہاں سے۔اکیلا چھوڑ دو مجھے۔‘‘ وہ چلاتے ہوئے بنچ سے اٹھی تھی اس کے یوں اچھلنے سے اس کے ہاتھ میں پکڑے مگ سے گرم کافی اچھل کر پاس بیٹھے آسٹن کے ہاتھ پر جا گری جو کہ اس نے اپنے اور ماریہ کے بیچ بنچ پر رکھا ہواتھا۔
’’آؤچ۔‘‘ اس کا ہاتھ سرعت سے اس کے سینے کی جانب پناہ لینے کے لیے بڑھ تھا۔
’’معاف کرنا۔‘‘ پریشانی کے عالم میں مگ رکھ کر اس نے آسٹن کا ہاتھ سہلانا چاہا۔ جسے آسٹن نے پیچھے کی جانب کھینچ لیا۔
’’تمہیں لگتا ہے کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا؟‘‘ وہ بے یقین دکھائی دیا تھا۔
اسے اپنی سماعتوں پہ یقین نہیں آیا تھا۔
آتا بھی کیسے؟
مقابل کوئی اور نہیں تھا۔وہ ماریہ تھی۔
آسٹن کی ماریہ۔
جس کی حفاظت اس نے اپنی جان سے بڑھ کر کی تھی۔
ہر گھڑی میں اس کا ساتھ دیا تھا۔
چوٹ اسے پہنچتی تو درد آسٹن کو ہوتا تھا۔
سانس ماریہ کی رکتی تو موت آسٹن کو آجاتی۔
تو پھر۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر وہ یہ کیسے کہہ سکتی تھی کہ آسٹن تمہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا؟
ایک آسٹن ہی تو تھا جسے سب سے زیادہ فرق پڑے گا۔
اس کے روٹھ جانے سے۔۔۔۔۔
اجنبی ہوجانے سے۔۔۔۔۔
پل بھر میں۔۔۔۔
برسوں کا رشتہ توڑ جانے سے۔۔۔۔
کاش وہ جان سکتی۔۔۔
کاش۔۔۔۔۔
’’میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘ اسے اپنے لفظوں کی سنجیدگی کا احساس ہواتھا۔
’’تمہیں واقعی لگتا ہے کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘ اس نے پھر ان لفظوں کودہرایا تھا جنہیں ادا کرتے ہوئے ایک درد بھری لہر اس کے جسم میں دوڑی تھی۔
’’میں معذرت چاہتی ہوں آسٹن۔میں اس وقت ایک عجیب سی کشمکش میں ہوں۔اس کشمکش کوسمجھنا مجھے مشکل لگ رہا ہے۔۔۔ میں نہیں بتا سکتی کہ کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے۔‘‘ سر جھکائے وہ بےترتیب سے الفاظ آسٹن کے گوش گزارنے لگی۔
’’رات گہری ہونے سے پہلے اپنے کمرے میں چلی جانا۔ہوسکتا ہے کہ اب تمہیں ان گہری راتوں میں کوئی آسٹن جیسا محافظ نہ ملے۔‘‘ ماریہ کو لگا تھا کہ جیسے شاردا کے بلند پہاڑ ایک ہی وقت میں بلند ہوئے تھے اور پھر ایک ایک کرکے وہ اس کے سر پر ٹوٹتے چلے گئے۔جن کے وزن کی وجہ سے وہ پچھتاوے کی دلدل میں دھنسنے لگی تھی۔
’’اور ہاں، خدا کے لیے کل آرنلڈ لوگوں کے سامنے ایسا کچھ ظاہر نہ کرنا کہ ہمارے درمیان کوئی غیر متوقع بات ہوئی ہے۔ خدا تمہاری مشکل آسان کرے۔‘‘ جانے سے پہلے وہ دعا دینا نہیں بھولا تھا۔
’’آسٹن۔‘‘ جاتے ہوئے اس نے آسٹن کو پکارا تھا لیکن وہ سنی ان سنی کرکے چلا گیا۔
آسٹن کاش میں تمہیں بتا پاتی کہ میں تمہیں کوئی دکھ نہیں دینا چاہتی۔‘‘ وہ ابھی بھی کھڑی تھی۔ہاتھ میں پکڑے مگ میں کافی سرد ہوچکی تھی۔
بالکل آسٹن کے لہجے کی طرح۔۔۔۔
’’مجھے معاف کردینا آسٹن۔‘‘ آنکھیں میچے وہ اپنے پچھتاوے کو کم کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
چاند کی چاندنی اب بھی زمین پر آرہی تھی لیکن وہ اب ٹھنڈک سے محروم تھی۔
ایک اچھا دوست چھن چکا تھا۔۔۔۔
وقت نے اسے لندن کی سرد زمین سے لاکر ایک تپتے صحرا میں چھوڑ دیا۔
ہاں بالکل۔۔۔۔ آسٹن کے بغیر ایسا ہی ہوا تھا۔
وہ کچھ دیر کھلے آسمان تلے کھڑی رہی اور پھر مگ لیے اپنے کمرے میں آگئی جہاں ٹالی لمبی تان کرسو چکی تھی۔
ایک نظر اس کے پرسکون چہرے پر ڈال کر وہ اپنے بستر پر آکر لیٹ گئی۔
اس نے سونے کی خاطر آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ تبھی ڈمپلز والا ایک چہرہ اس کی آنکھوں میں ابھرا تھا۔
اس نے تیزی سے آنکھیں وا کیں۔۔۔چہرہ غائب ہوچکا تھا۔
اس کیفیت کو سمجھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوتے ہوئے اس نے دوبارہ آنکھیں بند کیں۔۔۔۔ اب کی بار پھر وہی ہوا تھا۔یہ سلسلہ جاری ہوچکا تھا۔وہ آنکھیں بند کرتی اور برسوں کا سمویا ہوا نقش آنکھوں میں ابھر آتا۔
وہ سونا چاہ رہی تھی لیکن سو نہیں پارہی تھی۔
وہ ننھے گڑھے اس کی نیند اپنے ساتھ لے جاچکے تھے۔
وہ بالوں کو مٹھیوں میں بھینچ کر بیٹھ گئی۔
اس وقت وہ کر بھی کیا سکتی تھی؟
’’یہ کیا ہورہا ہے خدایا؟
’’یہ آنکھیں بغاوت پر کیوں اترنے لگی ہیں؟‘‘
’’افف۔۔۔۔۔میں کیا کروں؟‘‘ وہ بستر سے اتر آئی تھی۔
’’کچھ سمجھ نہیں آرہا۔‘‘ وہ کمرے میں ہی اپنے بستر کے قریب چہل قدمی کرنے لگی۔عجب سی الجھن اسے گھیر چکی تھی۔
اب تو یہ راتیں ایسے ہی گزرنے والی تھیں۔۔۔۔
لیکن وہ اس سے بے خبر تھی۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
’’مجھے ابھی واپس جانا ہے۔‘‘ یہ میجر بلال تھے جو کہ واپسی کے لیے اپنی پیکنگ کررہے تھے۔
’’کیوں خیریت؟‘‘ میجر ارتضی ان کے قریب کھڑے ہوکر ان کی یہ ساری کاروائی دیکھ رہے تھے۔
’’ہاں یار مجھے ارجنٹ بلوایا گیا ہے۔لائن آف کنٹرول پر میری ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔‘‘ وہ تیزی سے ہاتھ چلارہے تھے۔
’’اللہ خیر کرے۔ پھر میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘ میجرارتضی بھی اپنا بیگ اٹھا لائے۔
’’نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔ویسے بھی تین چار چھٹیاں رہ گئی ہیں۔پھر آجانا۔‘‘وہ اپنی شرٹس کو تہہ لگا کر ایک ترتیب کے ساتھ بیگ میں رکھ رہے تھے۔
’’میں نے یہاں اکیلے رہ کرکیا کرنا ہے۔ چھٹیاں ہیں گھر ہی چلا جاتا ہوں۔لائبہ اور میرال کے ساتھ کچھ وقت گزار لوں گا۔‘‘ وہ بھی اپنے کپڑوں کو تہہ لگانے لگے۔
’’تم تو کہہ رہے تھے کہ وہ دونوں ہاسٹلز میں ہیں۔‘‘ اب کی بار وہ کمر سیدھی کرنے کے لیے پل بھر کو رکے۔
’’افف۔۔۔۔میں بھی کتنا بھلکڑ ہوتا جارہا ہوں۔‘‘ ماتھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے انہوں نے اپنی یاداشت کی کمزوری کا افسوس کیا تھا۔
’’عمر کا تقاضا ہے بیٹا۔‘‘ لبوں پر دلکش مسکراہٹ سجائے وہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگئے۔
’’بس میری عمر پر ہی نظر رکھنا۔‘‘ ننھے گھڑوں نے مصنوعی خفگی دکھائی تھی۔
’’ہاہاہاہاہاہا۔‘‘ ایک بھلا سا قہقہہ اس کمرے کی چاردیواری میں گونجا تھا۔
’’یار میں سوچ رہا ہوں کہ ان کی تعلیم کے فوراً بعد ان کی شادی کردوں۔۔۔۔میری جاب ہی ایسی ہے کہ اگلے پل کی خبر نہیں۔کب کہاں سے بلاوا آجائے۔میرے سوا ان کا اس دنیا میں ہے ہی کون۔‘‘ میجر بلال ان کے چہرے پر افسردگی دیکھ سکتے تھے۔
’’ہمم۔۔۔میرا بھی یہی خیال ہے۔ میری نظر میں یونٹ کے کچھ لڑکے ہیں جب ارادہ ہوتو بتانا میں بات کرلوں گا۔۔۔ڈونٹ وری۔‘‘ میجر بلال نے ان کی ذمہ داری اپنے کندھوں پہ لی تھی۔
کہ اچھے دوست ایسے ہی تو کیا کرتے ہیں۔۔۔۔۔
شکریہ۔‘‘ انہیں اپنا آدھا بوجھ ہٹتا ہوا محسوس ہوا۔
’’شکریہ کی کوئی بات نہیں۔وہ میری بھی بہنیں ہیں اور بھائی ہونے کی حیثیت سے میرا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ان کے بہتر مسقبل کے بارے میں تمہارا ساتھ دوں۔‘‘ وہ ان کا کندھا تھپتپھاتے ہوئے ایک بار پھر میجرارتضی پر احسان کرگئے تھے۔
جواباً میجر ارتضی کے لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
’’ویسے اب تو تمہارا دل بھی ادھر لگ جائے گا۔‘‘ ذومعنی لہجے میں کہتے ہوئے وہ دوبارہ اپنے بیگ کی جانب متوجہ ہوئے۔
’’مطلب؟‘‘ میجر ارتضی نے ان کے ہاتھ سے تہہ شدہ شرٹ چھینی تھی۔
’’مطلب یہ کہ اگر تمہارا ادھر دل لگ گیا تو پھر کہیں نہیں لگے گا۔‘‘ ان کے چہرے پر مچلتی شرارت کو واضح دیکھا جاسکتا تھا۔
’’تم بچ جاؤکمینے آدمی۔‘‘ ہاتھ میں پکڑی شرٹ انہوں نے پوری قوت سے میجر بلال کے چہرے پر دے ماری۔
’’بچو تو اب تم بیٹا۔‘‘ ایسی مبہم سی باتیں کوئی میجر بلال سے کرنا سیکھے۔
’’تم جلدی پیکنگ کرو اور نکلنے کی کرو۔۔۔شاباش۔‘‘ غصے پرضبط کرتے ہوئے انہوں نے پاس پڑی چیزیں بےترتیبی سے میجر بلال کے بیگ میں رکھنی شروع کردیں۔
’’ہاں ہاں۔۔۔تاکہ تم جلدی سے اکیلے میں اس ’’پری‘‘ سے ملنے چلے جاؤ۔‘‘ میجر ارتضی کوتپ چڑھانے میں میجر بلال سے بڑھ کر اور کون محظوظ ہوسکتا ہے۔
’’مجھے کیا مصیبت پڑی ہے اس سے ملنے کی۔‘‘ نگاہیں چراتے ہوئے وہ اپنے بیگ کو اس کی مقررہ جگہ پر رکھنے کے لیے چلے گئے۔
’’یار تو اتنا شرماتا کیوں ہے؟ مجھے پتا ہے تم اپنی اس لڑکیوں جیسی شرماہٹ کو چھپانے کے لیے چہرے پر غصہ سجا لیتے ہو۔‘‘ انہوں نے دھیرے سے کہنی کی ضرب میجر ارتضی کولگائی۔
ان کی اس حرکت پر ایک شرمیلی سی مسکراہٹ میجر ارتضی کے لبوں پربکھری تھی۔
’’بس کرو میرے بھائی۔‘‘ لبوں پر مسکراہٹ سجائے انہوں نے میجر بلال کے آگے ہاتھ جوڑے تھے۔
’’اچھا اچھا۔۔۔۔۔ یہ شرمانا بند کرو اور مجھے بس اسٹاپ پر چھوڑ کر آؤ۔‘‘ وہ مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔۔ لے آؤ سامان۔میں تب تک جیپ نکالتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جیپ کی چابی لیکر وہاں سے نکل گئے۔
میجر بلال نے ایک سرسری سی نظر ادھر ادھر گھمائی کہ کوئی چیز ادھر رہ نہ جائے۔اس کے بعد سامان لیکر وہ بھی وہاں سے چل دیے۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
دوپہر کے کھانے پر سب نے ماریہ اور آسٹن کی خاموشی کو نوٹ کیا تھا۔ وہ سب گیسٹ ہاؤس کے ڈائننگ ہال میں بیٹھے تھے۔اور سب آپس میں گپ شپ لگارہے تھے جبکہ وہ دونوں سب سے بے نیاز بیٹھے کھانا کھانے میں مشغول تھے۔
’’سب خیریت ہے آسٹن؟‘‘ یہ آرنلڈ تھا جس نے باری باری ان دونوں کو دیکھا تھا۔
’’ہاں۔کیوں کیا ہوا؟‘‘ آسٹن نے خود کو انجان ظاہر کرنا چاہا۔
’’مگر مجھے تو کچھ گڑبڑ نظر آرہی ہے۔‘‘ چارلس نے اسے تیکھی نظروں سے جانچنے کی کوشش کی۔
’’کیسی گڑبڑ؟‘‘ اس نے کانٹا پلیٹ میں رکھ کر اپنی پی کیپ کو دوبارہ درست کیا۔ وہ پریشانی میں ایسے ہی کیا کرتا تھا۔
’’تم دونوں میں کوئی بات ہوئی ہے؟‘‘ اب کی بار ٹالی سی آئی ڈی کی آفیسر بنی تھی۔
’’نہیں تو۔‘‘ آسٹن کے جواب دینے سے پہلے ماریہ بول پڑی تھی۔جس پر سب نے اسے بغور دیکھا تھا۔
اس کی آنکھیں رات جگے کی چغلیاں کھارہی تھیں۔
”تو پھر تم دونوں کوئی بات کیوں نہیں کررہے؟” چارلس نے پانی کا گلاس منہ کو لگاتے ہوئے ایک نظر ان دونوں کو دیکھا تھا۔
”نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔ ”ماریہ ایک پھیکی سی مسکراہٹ سے کہتے ہوئے دوبارہ اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہوگئی۔
”ایسی ہی بات لگ رہی ہے۔ ”آرنلڈ کہاں ٹلنے والا تھا۔
”یار ایک دفعہ کہہ تو دیا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ۔پھر بھی پتا نہیںکیوں پیچھے پڑ جاتے ہو۔ ”لمحہ ہی تو لگا تھا اس کی پھیکی مسکراہٹ کو ناگواریت میں بدلنے میں۔ غصے سے اس کے عارض سرخ ہونے لگے۔کانٹا اور چمپچ پلیٹ میں پٹختے ہوئے وہ باہر چلی گئی۔
” اسے کیا ہوتا جارہا ہے؟” ٹالی بھی ان سب کی طرح شاکڈ ہوئی تھی۔
وہ کھانا چھوڑ کر باہر آچکی تھی۔
سرخ ہوئے گالوں پر گرم آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے۔ آنسوؤں کو صاف کیے بغیر وہ اپنے سرمئی اوور کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے گیسٹ ہاؤس سے دور ہوتی جارہی تھی۔
پہاڑی پر ایک بل دار راستہ پہاڑی کے نیچے تک جاتا تھا جو کہ ڈھلوان ختم ہونے کے ساتھ ایک سیدھی سڑک میں تبدیل ہوجاتا تھاجوکہ آگے مختلف بازاروں میں جاتی تھی۔
وہ بھاگ رہی تھی۔
اس جگہ سے دور۔۔۔
اس وادی سے دور۔۔۔
یا پھر شاید خود سے دور۔۔۔
” یہاں آؤ گی تو ماتم بن جاؤ گی۔ ”
ایک آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی۔
دوپہرکا وقت تھا ۔سیاحوں کا رش شام کی نسبت کم تھا۔یہاں شام کے وقت سیاحوں کا ہجوم دن کے باقی اوقات کی نسبت بڑھ جاتا تھا۔
ہلکی ہلکی دھوپ ٹھنڈی دھند کی چادر چاک کیے نیچے زمین گررہی تھی۔
” یہاں آؤ گی تو ماتم بن جاؤ گی۔ ”
آواز پھر کانوں میں گونجی تھی۔
وہ ارد گرد کے ماحول سے بے خبر بے سمت چلتے ہی جارہی تھی۔
ایک گمنام منزل کی جانب اس کے قدم میانہ روی سے اٹھ رہے تھے۔
” یہاں آؤ گی تو ماتم بن جاؤ گی۔ ”
اس کا جوڑا ڈھیلا پڑا تھا۔کچھ لٹیں بھاری جوڑے سے آزادی حاصل کر کے ادھر ادھر اڑنے لگی تھیں۔
نیم مدہوشی کے عالم وہ راستے سے پرے ہٹتے جارہی تھی۔جس کے دوسری طرف ایک خطرناک ڈھلوان تھی۔
نمکین پانی ابھی بھی گالوں پر بہہ رہا تھا۔
آہ۔۔۔۔
شاردا میں ایک نئی موت واقع ہونے جارہی تھی۔۔
ڈھلوان اس قدر خطرناک تھی کہ ذرا سا پاؤں پھسلنے پر وہ گہری کھائی میں گرجاتی۔
وہ لندن میں آسٹن لوگوں سے ملنے سے پہلے کئی بار خودکشی کا سوچ چکی تھی لیکن آج اس شخص سے ملنے کے بعد وہ اپنی اس سوچ کو عملی شکل دینے جارہی تھی۔
” یہاں آؤ گی تو ماتم بن جاؤ گی۔ ”
شاردا کی وادیوں میں یہی الفاظ گونج رہی تھے۔اسی بے دھیانی میں اس کا پاؤں ایک چکنے پتھر پر پھسلا تھا۔
” آآااااااا۔۔۔۔” ایک چیخ ان پہاڑوں میں بلند ہوئی تھی۔
قریب ہی تھا کہ اس کی زندگی کا چراغ بجھ جاتا کہ اس کا بازو کہنی کے قریب سے کسی کے مضبوط ہا تھ کی گرفت میں آیا تھا۔
اگر تھامنے والا اسے نہ تھامتا تو وہ اس گہری کھائی میں بے موت ماری جاتی۔
اس شخص نے ماریہ کو سرعت سے اپنی جانب کھینچا تھا۔جھٹکا لگنے سے ماریہ کا سر اس کے کشادہ سینے سے ٹکرایا تھا۔
برسوں کا فاصلہ لمحوں میں ختم ہوا تھا۔
ڈریم لینڈ کی شہزادی کو بچانے حقیقی دنیا کا راج کمار پہنچ چکا تھا۔
جسے شہزادی کے مشکل میں گھرے ہونے کی خبر دل کے سائرن سے ملی ہو اور وہ گھوڑے کو برقی رفتار سے دوڑائے مقررہ وقت پر پہنچ کر ایک بلند کاسل سے گرتی ہوئی شہزادی کا ہاتھ تھام لے۔
یہ وہی راج کمار تھا جس کے خواب وہ پچھلے کئی برسوں سے دیکھتی آرہی تھی۔
یہ خواب کسی بھی شہزادی کے خوابوں سے کم نہ تھا لیکن اس خواب کا دوسرا حصہ پہلے حصے کی رعنائی کو ختم کردیتا تھا۔
یہ کیسا ماجرا تھا؟
کہ خواب موت کے کنارے پر کھینچ کر لے جارہا ہو اور تعبیر پیچھے سے آکر زندگی بچا لے۔
وہ اس شخص کی آنکھوں میں غصے اور حیرت کے اثرات واضح دیکھ سکتی تھی۔
اس کی دونوں بھنوؤں کے درمیان دو چھوٹے چھوٹے بل تھے جو اس کی کشادہ جبین کو سکیڑے ہوئے تھے۔جبڑے غصے کی شدت سے کسے ہوئے تھے۔ اس کا سانس بہت تیزی سے چل رہا تھا۔
تو کیا شہزادہ واقعی گھوڑا تیز دوڑاتے ہوئے وہاں پہنچا تھا؟
وہ اسے یونہی کہنی سے تھامے اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے ایک کم ڈھلوان دار جگہ پر لے آیا۔وہ اس کے ساتھ کھینچتے چلی جارہی تھی۔
ایک محفوظ جگہ پر لاکر اس نے ماریہ کا بازو چھوڑ دیا۔اس کی مضبوط گرفت کی وجہ سے ماریہ کو اپنے بازو میں درد سا اٹھتا محسوس ہوا تھا۔
آنکھوں میں بہتے آنسوؤں کے ساتھ وہ اپنے بازو کو سہلانے لگی۔
اس کی بھوری آنکھوں میں سامنے والے کا چہرہ بار بار دھندلا ہوتے دیکھا تھا جس کے تاثرات میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
توپھر ایک نیا امتحان شروع ہونے جارہا تھا۔۔۔
ایک نیا باب۔۔۔
لیکن کون جانے کہ وقت کونسی داستان لکھنے جارہا رتھا؟
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
میجر بلال کو وہ بس اسٹاپ پر چھوڑ کر واپس گیسٹ ہاؤس کی طرف آرہے تھے۔
دوپہر کا وقت تھا ۔لوگوں کی آمدو رفت شروع ہوچکی تھی لیکن ہجوم نہ ہونے کے برابر تھا۔
شاردا کی بل کھاتی سڑکوں سے ہوتے ہوئے وہ قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔جیپ میں اپنی پسند کا ملی نغمہ لگائے وہ قدرت کی خوبصورتی کو سراہ رہے تھے۔
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر ذرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمہاری ہے، بحر و بر تمہارے ہیں
کہکشاں کے یہ جالے، رہ گزر تمہارے ہیں
اسٹئیرنگ کو بائیں ہاتھ سے تھامے دائیں کہنی کوفرنٹ ڈور سے ٹکائے ہاتھ کی مٹھی کی پشت کو لبوں سے لگائے وہ بڑے نارمل انداز میں ڈرائیونگ کررہے تھے۔
اس زمیں کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا
ارضِ پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میرِ کارواں جانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو
دماغ میں ایل او سی کی صورتحال گردش کررہی تھی۔بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ سے ان کے دو نوجوان شہید اور کچھ زخمی ہوچکے تھے۔
میجر بلال نے راستے میں انہیں مختصر سی بریفنگ دی تھی۔
یہ زمیں مقدس ہے ماں کے پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت، دولتِ یقیں لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو
سورج کی ہلکی ہلکی کرنیں شاردا کی زمین کا منہ دھونے آسمان سے نیچے اتر رہی تھیں۔
دھند ابھی بھی تھی لیکن صبح کی نسبت اس کی شدت میں کمی آچکی تھی۔
ہوا میں خنکی سورج کی تپش پر غالب تھی۔
میرِ کارواں ہم تھے، روحِ کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنواں تھے، اصل داستاں تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا
بازار سے آگے نکل کر سڑک سیدھے گیسٹ ہاؤس کی پہاڑی پر جاتی تھی جہاں سے یہ ایک پتھریلے بل دار راستے میں تبدیل ہوکر پہاڑی پر واقع تینوں ٹورسٹ لاجز میں جاتی تھی۔
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے
نغمہ ختم ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ان کا گیسٹ ہاؤس تک کا سفر اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔
جیپ پہاری کی ڈھلوان کے قریب بنے ایک ہموار پارکنگ ایریا میں کھڑی کر کے وہ گیسٹ ہاؤس ک جانب چل دیے۔جیپ کی چابی کو دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی میں گھماتے ہوئے وہ سیٹی کی دھن پر اپنا پسندیدہ نغمہ گنگنا رہے تھے جو کہ ابھی وہ کچھ دیر پہلے جیپ میں سنتے آرہے تھے۔
پہاڑی کی اونچائی چڑھتے ہوئے ان کی نظریں بلندی پر موجود ایک منظر سے ٹکرائی تھیں۔
سیٹی کی دھن یکدم تھمی تھی۔
چابی گھماتا ہاتھ وہیں ہوا میں معلق رہ گیا تھا۔
وہاں پہ ایک لڑکی اوپر والے گیسٹ ہاؤس کے دوسری جانب جارہی تھی جو کہ پہاڑی کی چوٹی کے قریب بڑے بڑے پتھروں اور موٹی لکڑیوں سے بنایا گیا تھا۔
اس کے چلنے کے انداز نے میجر ارتضی کی چھٹی حس کو بیدار کیا تھا۔
نظریں اس پر ٹکائے وہ تیزی سے چڑھائی چڑھنے لگے۔
” رکو۔ ” وہ چلائے تھے۔
لیکن اس لڑکی کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی تھی شاید وہ ان کی آواز سن نہیں پائی تھی۔
” او ہیلو۔۔۔۔” وہ پہلے سے زیادہ بلند آواز میں چلائے تھے۔
اب کی بار بھی وہ ان کی آواز سن نہیں پائی تھی۔
اس جانب پتھروں کے ساتھ کانٹے دار تاریں لگا کر ایک باڑ سی بنائی گئی تھی تاکہ کوئی بھی اس طرف نہ جائے لیکن وہ اب نیست و نابود ہوچکی تھی۔
اگر وہ لڑکی وہاں سے گرتی تویہ باڑ بھی اسے بچا نہ پاتی۔
میجر ارتضی اسے بار بار رکنے کا کہہ رہے تھے۔لیکن وہ تھی کہ سرمئی کوٹ میں ہاتھ چھپائے بڑھتے ہی چلی جارہی تھی۔
میجر ارتضی نے ساری جان لگاتے ہوئے وہ فاصلہ طے کیا تھا۔
ان کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی اس لڑکی کا پاؤں پھسلا تھا۔ قریب ہی تھا کہ وہ اس ڈھلوان سے نیچے گرجاتی کہ میجر ارتضی نے ایک لمبا ڈگ بھرتے ہوئے اسے کہنی سے تھاما تھا۔
اور پھر پوری قوت سے اسے پیچھے اپنی جانب کی کھینچا تھا ۔اس کا سر میجر ارتضی کے سینے ٹکرایا تھا اور حیرت کا ایک دھچکا میجر ارتضی کو اتنی بلندی پر لگا تھا۔
وہ وہی لڑکی تھی جو کہ شاردا پیتھ پر انہیں ملی تھی۔
جو کل انہیں وائلن بجانے سے منع کرنے آئی تھی۔
اس کے گالوں پر ابھی بھی پانی بہہ رہا تھا۔
وہ اسے کھینچ کر ایک کم ڈھلوان دار جگہ پر لے آئے۔یہاں آکر انہوں نے اس کا بازو چھوڑ دیا۔
چہرے پر وہی تاثرات تھے جو اسے دیکھتے ہی امڈ آئے تھے۔
” بہری ہو کیا؟ کب سے چلا رہا ہوں کہ رک جاؤ ،رک جاؤ۔ مگر بنا کچھ سنے آگے چلتے ہی جارہی ہو۔” سینے پر بازو باندھے وہ براہِ راست ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولے تھے۔
ان کے لہجے سے وہ ذرا سہمی تھی۔ دائیں ہاتھ سے گال رگڑتے ہوئے اس نے خاموش نظروں سے ان کی جانب دیکھا تھا۔
” جانتی ہو اگر میں وقت پر ادھر پہنچ نہ پاتا تو اس وقت تم میرے سامنے کھڑے ہونے کی بجائے نیچے اس جگہ پڑی ہوتی اورکل تک تمہاری اس کمزور سی لاش کو یہاں کے جانور ہضم بھی کرچکے ہوتے۔ ” انہیں کتنا احسان جتلانا آتا تھا۔ وہ واقعی ایک کمزور لاش تھی جس سے ایک جانور کا پیٹ بھی نہ بھرتا۔
” کاش تم وقت پر پہنچ نہ پاتے۔ ” ٹوٹے لہجے سے کہتے اسے ان کے بروقت پہنچنے پر افسوس ہوا تھا۔
” مرنا چاہتی ہو کیا؟” پوچھنے کا انداز بہت نارمل سا تھا۔
” شاید۔ ” ایک ہلکی سی آواز اس کے لبوں سے نکلی تھی۔اس کی ناک اور گال رونے کی وجہ سے سرخ ہوچکے تھے۔
” فرض کرو اگر مرنے کی بجائے صرف تمہاری ہڈیاں ٹوٹ جاتیں تو۔۔۔؟ ” چہرے پر سنجیدگی سجائے انہوں نے اس کے لیے ایک سوالیہ نشان چھوڑا تھا۔
ماریہ نے بھیگی پلکیں اٹھا کر ان کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا تھا۔ اس کا دماغ کام کرنا بند کرچکا تھا اس لیے وہ میجر ارتضی حدید کی یہ سادہ سی بات بھی سمجھ نہیں پائی تھی۔
” بھئی میرا تو یہ ماننا ہے کہ اگر انسان نے مرنا ہی ہے تو ایسی جگہ پہ کوشش کرے جہاں اس کے مرنے کے سوفیصد چانسز موجود ہوں۔ ”
وہ کتنی آسانی سے یہ بات کہہ گئے تھے۔
ماریہ ان کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا پائی تھی۔۔۔
بھوری آنکھیں بے یقینی میں ڈوبی تھیں۔۔۔
” اچھا ۔میں تمہیں ایک جگہ بتاتا ہوں ۔ یہ جو سامنے پہاڑ نظر آرہا ہے ناں۔ ” انہوں نےہاتھ کے اشارے سے اس کی توجہ بائیں جانب کے پہاڑ کی طرف مبذول کروائی۔
” یہ جگہ خودکشی کے لیے بہترین ہے۔ یہاں اس معاملے میں کوئی دخل اندازی بھی نہیں کرتا۔کیونکہ وہاں کوئی جاتا ہی نہیں سوائے ان بے قدروں کے جنہیں اپنی زندگی پیاری نہیں ہوتی۔وہاں سے کودو گی تو پل بھر میں زندگی کی نعمت سے آزاد ہوجاؤ گی۔ یقین جانو جان نکلنے میں دیر بھی نہیں لگے گی۔ لیکن ایک بات ہے کہ ادھر زیادہ بڑے جانور پائے جاتے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ تمہاری لاش ان میں لڑائی کا باعث بن جائے۔ ”وہ اتنی سنجیدگی سے بتا رہے تھے جیسے اسے خودکشی کا نہیں ،ٹریفلگر اسکوائر کا پتا بتا رہے ہوں۔
ان کے لہجے میں چھپے طنز کو وہاں کوئی بھی محسوس کرسکتا تھا لیکن یہ ماریہ تھی۔
لہجوں کی زبان سے ناآشنا۔۔۔۔
اسے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
” کبھی مرنے کے لیے اتنی دور سے یہاں بلواتے ہو۔ مرنے لگو تو کسی ہیرو کی طرح بچانے آجاتے ہو۔ بچانے کے بعد پھر سہل موت کے طریقے بتاتے ہو۔ آخر چاہتے کیا ہو تم؟ ” بھوری آنکھیں غصے سے پھیلی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں ان انگاروں کو دیکھا جاسکتا تھا جن کی شدت میجرارتضی اپنے چہرے پر محسوس کررہے تھے۔
” ایک منٹ۔۔۔۔ میں نے تمہیں یہاں مرنے کے لیے بلوایا تھا؟ میں نے؟ ” شہادت کی انگلی اپنے جانب کیے وہ حیرت سے دوچارہوئے تھے۔
پہیلی مزید الجھی تھی۔
” ہاں۔۔۔کیونکہ وہ تم ہی ہو جس نے پچھلے کئی سالوں سے میری زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ ” وہ کچھ دیر کے لیے رکی۔
” ٹھیک ہی کہتے تھے تم کہ یہاں تمہاری زندگی ماتم بن کر رہ جائے گی۔اور دیکھو ایسا ہی ہورہا ہے۔ میری سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں کام کرنا چھوڑتے جارہی ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہہ رہی ہوں ،کدھر جارہی ہوں؟ دل بغاوت پر اتر آیا ہے۔ عقل ساتھ چھوڑگئی ہے۔ میں پاگل ہوتے جارہی ہوں۔۔پاگل۔۔۔” بالوں کو دونوں مٹھیوں میں جکڑے وہ ان پر چلانے کے سے انداز میں بولتے ہوئے ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
جبکہ میجر ارتضی سانس روکے ،بت بنے گم صم اس کے انکشافات سن رہے تھے۔
اس کی یہ بات سن کر میجر ارتضی کو اپنے پاگل ہونے کا گمان ہوا تھا۔
” کتنا روتی ہو یار تم۔۔۔۔تمہارے سر میں درد نہیں ہوتا؟” ہمیشہ کی طرح وہ ایسی بات کو ایک مذاق میں ٹال گئے۔ انہیں اس کی دماغی حالت پر اسی دن شک ہوگیا تھا جب وہ شاردا یونیورسٹی کے قریب بلاوجہ مڑکر انہیں گھورنے لگی تھی۔لیکن کل کے اور آج کے واقعہ کے بعد انہیں اپنے اس شک پر یقین ہوچلا تھا۔
” انسان ہو یا نیلسن کا بے حس مجسمہ؟؟” اسے نیلسن یاد آیا تھا۔
سنگ دل سا۔۔۔
بے حس سا۔۔۔
جس پر کسی کے غم و رنج کا کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔۔۔
بالکل اس شخص کی طرح جو اس وقت اس کے سامنے کھڑا تھا۔
اپنی اس بات پر اسے ان کا ایک قہقہہ فضا میں ابھرتا محسوس ہوا تھا۔ جس کے اثر سے ان کے گالوں کے بھنور مزید گہرے ہوئے تھے۔
” آں۔۔۔ یہ تو اب تمہیں پتا ہوگا۔ آخر پچھلے کئی سالوں سے مجھ پر پی ایچ ڈی کررہی ہو۔” چہرے پر غصے کی جگہ شرارت لے چکی تھی۔وہ واقعی معصوم تھی۔
بہت ہی زیادہ۔۔۔
اور اس کی یہی معصومیت میجر ارتضی کے ننھے گڑھوں کو شوخ کرگئی تھی۔
جوابا وہ انہیں صرف گھور کررہ گئی۔ رونے کی وجہ سے اس کی ہچکی بندھ چکی تھی۔
” ایک اور انکشاف آج مجھ پر ہواہے کہ لڑکیاں کسی بھی ملک کی ہوں،آدھی پاگل ہی ہوتی ہیں۔ ” کسی کے غصے کو ہوا دینی ہو تو میجر ارتضی یہ کام سب سے اچھا کرسکتے تھے۔
ماریہ کے عارض مزید دہکے تھے۔آنکھوں کے انگارے اور سرخ ہوئے تھے۔
” اچھا چھوڑو ان باتوں کو۔ آنکھیں بند کرکے دو تین لمبے لمبے سانس لو ۔۔۔۔اس طرح۔ ” میجر ارتضی نے آنکھیں بند کر کے لمبے سانس لیتے ہوئے اسے اپنی پیروی کرنے کا کہا۔
” ارے لو بھی۔ ” وہ بس انہیں غصے سے دیکھے جارہی تھی۔ ان کے دوبارہ یوں کہنے پر اس نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے ان کا عمل دہرایا تھا۔
” اب اسی طرح دو اور سانس لو۔ ” اس نے پھر دو لمبے لمبے سانس بھرے تھے۔
” اب آنکھیں کھول دو۔ ” اس نے حکم کی تعمیل کی تھی۔
” امید ہے کہ اب تمہیں اچھا محسوس ہورہا ہوگا۔ ” وہ میجر ارتضی تھے۔پل بھر میں غصہ دلانے والے اور پل بھر میں غصہ جھاگ کی مانند بٹھانے والے۔
وہ اس دھوپ چھاؤں جیسے شخص کو پھرسے تکنے لگی۔
کچھ دیر کے لیے شاردا میں خاموشی چھائی تھی جسے میجر ارتضی نے اپنی آواز سے توڑا تھا۔
” دیکھو۔۔۔میں تم سے ان ساری باتوں کا پسِ منظر نہیں پوچھوں گا۔لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ تمہیں میری طرف سے جو غلط فہمی ہورہی ہے وہ تمہیں دور کرلینی چاہیے۔ کیونکہ میں یہ ہرگز نہیں چاہوں گا کہ کوئی میری وجہ سے اپنی جان دے دے۔ ” نہایت دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے انہوں نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ دیا تھا۔
” کیا نام بتایا تھا تم نے اپنا؟” ٹراؤزرز کی جیب میں دایاں ہاتھ چھپائے وہ گیسٹ ہاؤس کی جانب بڑھنے لگے۔
” ماریہ۔ ” ہولے سے لب وا ہوئے تھے۔
وہ بھی سر جھکائے ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔
” دیکھو ماریہ۔۔۔ زندگی اتنی سستی نہیں ہوتی کہ اسے چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے ضائع کردیا جائے۔ معاملات کو حل کیا جاتا ہے ،ان سے فرار نہیں حاصل کیا جاتا۔ اور موت تو کسی بھی مسئلے سے فرار کا راستہ نہیں ہے۔۔ ہرگز نہیں۔ ” وہ بل دار راستے کے قریب پہنچ گئے تھے جوکہ سیدھا ماریہ کے گیسٹ ہاؤس کی طرف جاتا تھا جبکہ اس کی دوسری شاخ مزید دو شاخوں میں بٹ کر نیچے دوسرے دونوں گیسٹ ہاؤسز کی طرف جاتی تھی۔
مجھے تمہارا ماضی جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اور نہ ہی میں اس کے لیے پرتجسس ہوں لیکن پھر بھی اگر تم اس حوالے سے مجھ سے کبھی کوئی بات کرنا چاہوتو تم میری سماعتوں کو ہمیشہ منتظر پاؤ گی۔تم کبھی بھی میری طرف سے مایوسی کا شکار نہیں ہوگی۔ ” وہ آسٹن سے بھی زیادہ میٹھا اور دھیما لہجہ رکھتے تھے۔ وہ جیسے جیسے بول رہے تھے ماریہ کے اندر پھر سے جینے کی تمنا بڑھتی چلی جارہی تھی۔جیسے کوئی اپنوں لفظوں کے ذریعے سے اسے آبِ حیات کے جام پیش کر رہا ہو۔
” میں نے اب سے پہلے تم سے جتنی باتیں بھی کی تھیں وہ سب مذاق میں کہی گئی تھیں۔اگر تمہیں ان سے کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچی ہے تو میں اس کے لیے معافی چاہتا ہوں ۔کیونکہ اگر میں تم پر ترس کھانے بیٹھ جاتا تو تمہیں کبھی بھی اس فیز سے نکال نہ پاتا جس کا تم اب سے کچھ دیر پہلے شکار تھی۔ ”
گرم کرنوں نے لہجے کی سردیوں کو کم کیا تھا۔
” تمہیں کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی تمہیں اس چیز کی ضرورت ہے کہ کوئی تم پر ترس کھائے۔ خود کو اتنا مظلوم پیش کرو گی تو دنیا تمہیں اورمظلوم بنائے گی۔ہمدردی کی اوڑھ میں تمہیں اور نقصان پہنچائے گی۔ اگر میں یہاںسے گزر نہ رہا ہوتا تو شاید مجھے کبھی بھی تمہاری موت کی خبر نہ ہوتی۔اور تم کہہ رہی ہو کہ تم میری وجہ سے جان دینے جارہی تھی۔اس شخص کے لیے جو تمہیں جانتا تک نہیں۔جس نے آج سے دو دن پہلے تمہیں دیکھا تک نہیں ۔ بھلا کوئی یوں بھی جان دیتا ہے؟ ” میجر ارتضی اس سے ایک قدم آگے چل چل رہے تھے۔
” بھلا کوئی یوں بھی جان لیتا ہے؟”
سوال کے جواب میں سوال آیا تھا۔
ایک ایسا سوال جو خود اپنے اندر کئی سوال لیے ہوئے تھا۔
میجر ارتضی کے قدم وہیں تھمے تھے۔ ماریہ کے اس سوال نے انہیں پلٹنے پر مجبور کیا تھا۔
وہ رکے۔۔
رک کر پلٹے۔۔۔
وہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
آنکھوں میں کئی سوال لیے۔۔۔۔
وہ اس کے چہرے پر لکھی تحریر کو پڑھنے کی کوشش کرنے لگے لیکن ناکام ٹھہرے۔
” میرا خیال ہے کہ اب مجھے چلنا چاہیے۔۔۔ یہ میرا کارڈ ہے۔اگر تمہیں یہاں کسی بھی قسم کی پریشانی ہو تو تم مجھے کسی بھی وقت کال کرسکتی ہو۔ ” انہوں نے اپنے والٹ سے ایک کارڈ نکال کر اس کی جانب بڑھایا جس پر ان کے نام کے ساتھ ساتھ ان کا کانٹیکٹ نمبر اور ای میل ایڈریس لکھا ہوا تھا۔کسی احساس کے تحت ماریہ نے ہاتھ بڑھا کر وہ کارڈ تھام لیا۔
” الوداع اچھی لڑکی۔ ” وہ مزید وہاں ٹھہرنا نہیں چاہتے تھے۔
” الوداع۔۔ ” بجھے بجھے سے لہجےمیں اس نے انہیں ” گڈ بائے ” بولا تھا۔
اس کا دل چاہا تھا کہ وہاں کوئی جادو کی چھڑی گھمائے اور وہ وقت وہاں ہمیشہ کے لیے ٹھہر جائے۔
اور وہ شخص اس کے سامنے یونہی رہے۔۔۔
ہمیشہ۔۔۔
وہ انہیں پتھریلے راستے پر تیزی کے ساتھ نیچے جاتے دیکھ رہی تھی۔
جیسے کوئی شہزادہ اپنی شہزادی کو بیچ راستے میں چھوڑ جائے اور شہزادی اسے خود سے دور ہوتے بے بسی سے دیکھتی رہے۔
روکنا بھی چاہے تو روک نہ پائے۔۔۔۔
خود پیچھے جانا چاہے تو جا نہ پائے۔۔۔
کہیں کسی بے نام مقام پر صرف معلق ہو کر رہ جائے۔۔۔۔
کہ وادیوں میں عشق کی داستانیں یونہی تو امر ہوتی ہیں۔۔۔۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
ایہہ شیر بہادر غازی نیں،اے کسے کولوں وی ہردے نئیں
اینہاں دشمناں کولوں کی ڈرنا،اے موت کولوں وی ڈردے نئیں
ایہہ اپنے دیس دی عزت توں،جان اپنی دیندے وار کڑے
ایہہ پُتر ہٹاں تےنئیں وکدے
صبح کا وقت تھا۔سورج کی کرنیں نیلے آسمان پر دھیرے سے پھیل رہی تھیں۔میڈم نور جہاں کی آواز فضا میں جادو جگارہی تھی۔خوش گلو پرندے بھی اس گیت میں میڈم نور جہاں کا ساتھ دےرہے تھے۔میجر بلال آن ڈیوٹی ریڈیو سے دل بہلا رہے تھے۔
وہ کل ہی اس جگہ پہنچ چکے تھے۔حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے انہوں نے پاکستان کے شیر دل جوانوں کے ساتھ مل کر دشمن کوخاک چٹا دی تھی۔کل کا جواب ان کے لیے کافی تھا۔
یہاں آکر انہیں نائیک عطا اللہ غازی کا ساتھ دوبارہ ملا تھا۔ایک بہت ہی پرخلوص انسان کا ساتھ ۔۔۔۔
کہ جس ساتھ کی کوئی بھی خواہش کر سکتا تھا۔۔۔
وہ خیمے کے قریب لکڑیوں سے آگ جلاکر اس پر کیتلی رکھ کر چائے بنا رہے تھے۔اور ساتھ ساتھ یہ گیت بھی گنگنا رہے تھے۔
دھن بھاگ نیں اوہناں ماواں دے،جنہاں ماواں دے ایہہ جاۓ نیں
دھن بھاگ نیں بہن بھراواں دے،جنہاں گودیاں ویر کھڈاۓ نیں
ایہہ آن نیں آناں والیاں دے،نئیں ایس دی تینوں ساڑ کڑے
ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
چائے تیار کر کے وہ دو کپوں میں انڈیل کر میجر بلال کے پاس لے آئے۔جہاں وہ آنکھیں بند کیے اس گیت سے اپنے لہو کو گرما رہے تھے۔
ایہہ سودا نقد وی نئیں ملدا،تو لبدی پھریں ادھار کڑے
ایہہ پتر ہٹاں تئ نئیں وکدے،کی لبنی اے وچ بازار کڑے
ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
آواز مدھم ہوئی تھی اور پھر ختم ہوئی تھی۔
”سر جی۔ ”عطاءاللہ نے پاس بیٹھتے انہیں پکارا۔
گیت کا سحر ٹوٹا تھا۔اور وہاں اب آر جے پروگرام کو آگے بڑھا رہا تھا۔
میجر بلال نے آنکھیں وا کیں تو سامنے نائیک عطااللہ غازی تھے جن کی طرف دیکھ کر ان کے لبوں پر ایک دلکش مسکراہٹ بکھری تھی۔انہوں نے ریڈیو بند کردیا۔فضا میں سکوت طاری ہوگیا تھا۔صرف پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں آنے لگیں۔
”شکریہ جناب۔میں چائے کا ہی انتظار کررہا تھا مگر بڑی دیر لگا دی مہرباں آتے آتے۔ ”انہوں نے کرسی کی ٹیک چھوڑ کر چائے کا کپ تھام لیا۔
ان کے درمیان گپ شپ لگنے لگی۔
”عطاءاللہ!ایک بات پوچھوں؟”میجر بلال نے عطاءاللہ کا جھریوں سے بھرا چہرا بغور دیکھتے ہوۓ کہا۔
”حکم کریں سر جی۔ ”عطاءاللہ چوکنا ہوکر بیٹھ گئے۔
”عطاءاللہ تم اتنا عرصہ آرمی میں رہے ہو۔پھر بھی ریٹائر ہونے کے بعد بھی تم نے خود کو مدد کے لیے پیش کردیا۔عمر کے اس حصے میں تو تمہیں اب آرام کرنا چاہیے۔ ” ناجانے یہ بات میجر بلال کو کیوں سوجھی تھی۔
” سر جی میں تب تک آرمی میں رہوں گا جب تک میرا نام عطاءاللہ غازی سے عطاءاللہ شہید نہیں ہوجاتا۔میں ان میدانوں میں اس وقت تک آتا رہوں گا جب تک سینے پہ دشمن کی گولی نہیں کھالیتا۔یہ مٹی مجھے جب جب بھی بلائے گی میں سر کے بل دوڑا آؤں گا۔مجھے یہاں زیادہ سکون ملتا ہے۔میں جو پل فوج کی خدمت میں گزارتا ہوں وہ مجھے زیادہ خوشی دیتے ہیں۔بس جس دن مجھے لگے گاکہ میں نے اس مٹی کا قرض چکا دیا ہے تو اس دن چین سے اسی مٹی کی چادر اوڑھ کو سوجاؤں گا۔ ”فرطِ جذبات سے عطاءاللہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔وہ اس وطن سے،اس کے لوگوں سے، اس کی فوج سے بے لوث محبت کرتے تھے۔
میجر بلال ہمیشہ سے عطاءاللہ غازی سے بہت متاثر تھے۔اس وقت بھی وہ لاجواب ہوچکے تھے۔عطاءاللہ غازی ان کے لیے ایک مثال تھے۔وہ جب بھی کسی مشن پر جاتے نائیک عطاءاللہ غازی کی باتیں انہیں ہمیشہ ایک نیا جذبہ دیتی تھیں۔
”عطاءاللہ اگرمیں لڑکی ہوتا تو تمہاری ہی دلہن بنتا۔ ”میجر بلال نے لڑکیوں کی طرح شرماتے ہوئےکہا۔ جس سے دونوں کے قہقہے چھوٹ گئے۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔)
اگلے روز ان مجاہدوں کی کپتانی کیپٹن عاطف کو سونپ دی گئی۔اور ان کا کام کیپٹن عابد کو دے دیا گیا جنہیں کیپٹن عاطف کی ہی جگہ پر بھیجا گیا تھا۔میجر بلال صبح صبح ہی ہیڈ آفس چلے گئے تھے جہاں پہ ایک نہایت اہم میٹنگ ہونے والی تھی اور میجر بلال کو وہاں ساری صورتحال کی بریفنگ کرنا تھی۔
میٹنگ میں نہایت نازک پہلوؤں پہ گفتگو کی گئی اور دشمن سے نبٹنے کے لیے ایک نیا لائحہ عمل ترتیب دیا گیا۔میجر بلال ہدایات لیکر چلے گئے اور نئے منصوبے کے تحت اہلکاروں کی پوزیشنز تبدیل کر دیں۔بھارت کے لیے پچھلا جواب ہی کافی تھا ۔شاید اسی لیے اپنے زخموں کے بھرنے کے انتظار میں بیٹھا تھا۔
(۔۔۔۔۔۔۔)
اگلی صبح ان سب کو پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان جانا تھا جہاں دشمن جہنم واصل ہونے کے لیے اور اس ملک کے جانباز سپاہی جام
شہادت نوش فرمانے کے لیے بے تاب تھے۔
رات کے وقت میجر بلال اور ان کی قیادت میں جانے والے اہلکار کیپمس کے باہر بون فائر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔وہ سب اپنی حسین یادوں کو وہاں ہوا میں نقش کرنے کی کوشش کررہے تھے۔کل کون رہے گاان میں سے وہاں موجود کوئی بھی یہ بات نہیں جانتا تھا۔مگر آج وہ سب یہاں موجود تھےاور یہی کافی تھا۔
میجر بلال کو شاعری کرنا بہت پسند تھا۔اسی لیے انہوں نے بیت بازی کا سلسلہ شروع کردیا۔
؎شب وصال ہے،گل کردو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
پہلا شعر بھی میجر بلال ہی کی طرف سے آیا تھا۔جس پر سب نے خوب واہ واہ کی۔ان سب نے دو ٹیمیں تشکیل دی تھیں۔ٹیم اقبال میں میجر بلال اور عطاءاللہ جبکہ ٹیم قائد میں کیپٹن عابد ،کیپٹن عاطف اور باقی سب ساتھی شامل تھے۔میجر بلال اکیلے ہی کافی تھے اس میدان کو جیت لینے کے لیے۔
؎ایک ہی انجام ہے اے دوست حسن و عشق کا
شمع بھی بجھتی ہے پروانوں کے جل جانے کے بعد
کیپٹن احمر ٹیم قائد کی جانب سے میدان میں اترے تھے۔
’’د’’ کیپٹن عابد نے بلند آواز میں کہا۔
دل دھڑکتا ہے تو دستک کا گماں ہوتا ہے
کرکے انکار بھی آجاتے ہیں آنے والے
جانے کیوں روتے ہیں دل کھول کے تنہائی میں
لوگ ہنس مکھ سے،یہ اوروں کو ہنسانے والے
میجر بلال کا شعر پڑھنے کا انداز ہی ایسا تھا کہ اشعار خود بخود دل میں اترتے چلے جاتے۔عطاءاللہ نے میجر صاحب سے یہ اشعار دوبارہ سنے۔
؎یہ دشت سے امڈ آیا ہے کس کا سیل جنوں
کہ حسن شہر کھڑا ہے نقاب اٹھائے ہوئے
’’واہ،واہ’’کیپٹن عاطف کے شعر پر کیپٹن عابد نے کھڑے ہوکرداددی۔وہ سب ایسا ہی کررہے تھے۔میجر بلال کے شعر پر صرف عطاءاللہ ہی داد دیتے۔حالانکہ وہ سب میجر صاحب کی شاعری کے انتخاب کے دل سے قائل ہوچکے تھے اور وہ بس اپنی ٹیم کا پلڑا بھاری رکھنا چاہتے تھے۔
؎یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزم یار چلے گئے
عطاءاللہ نے بھی کیپٹن عابد کی طرح نقل اتارتے ہوئے بلند آواز میں واہ واہ کہا۔میجر بلال اسی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ شعر سب کی سماعتوں کی نذر کررہے تھے۔ان میں سے کسی کو بھی اتنے اشعار نہیں آتے تھے جتنے میجر صاحب کو آتے تھے۔
جلدیا بدیرجیتنا میجر صاحب نے ہی تھا۔
یہ ضبط چھوٹ گیا تو تمہاری یاد آئی
میں تھک کے ٹوٹ گیاتو تمہاری یاد آئی
تمہارے بعد نہ تھاکوئی میرا،دل کے سوا
یہ دل بھی روٹھ گیا تو تمہاری یاد آئی
’’برخودار کس کی یاد آئی ہے آپ کو؟’’ میجر بلال کے پوچھنے کا انداز ہی ایسا تھا کہ کیپٹن عابد ہڑبڑا گئے۔غلطی ہوگئی کیپٹن عابد سے جو میجر صاحب کے سامنے شعر کہہ دیا۔
’’کسی کی بھی نہیں سر۔’میں نے تو ویسے ہی شعر کہا تھا۔’’ کیپٹن عابد کو بھی بہت کچھ چھپانا آتا تھا۔
’’ایسے تو نہیں کہا جاتا شعر۔’’بس اب کیپٹن عابد بچنے والے نہیں تھے۔موضوع بدلا جاچکا تھا۔
’’پہلے آپ بتائیں۔’’کیپٹن عاطف نے کیپٹن عابد کی جان چھڑاتے ہوئے کہا۔
’’بچے کیا بتاؤں؟’’خود پر بات آئے تو میجر صاحب ایسے ہی انجان بن جاتے تھے۔
’’وہی جو اس دن ہم پوچھ رہے تھے۔’’کیپٹن عابد نے مبہم سا اشارہ دیا۔
عطاءاللہ بات سمجھتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اب ان سب نے انہیں ہی ہر بات میں لے آنا تھا خاص طور پر بیجر بلال نے۔
’’سر آپ کے مجازی خدا چلے گئے۔’’ کیپٹن عابد نے عطاءاللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
جواب میں میجر بلال مسکرا بھی نہ سکے۔جانے کیوں وہ ایکدم اداس ہوگئے تھے۔میجر بلال نے انہیں روکا نہیں۔جانے والے کہاں رکتے ہیں بھلا۔اگر ایسا ہوتا تو وہ ابرش کو نہ روک لیتے۔
ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔
اپنے پاس۔۔۔
وہ سب کچھ پریشان ہوگئے کہ ہمیشہ چہرے پرسجی رہنے والی مسکراہٹ کہاں غائب ہوگئی تھی۔
’’سوری سر۔لگتا ہے آپ کو ہماری کوئی بات بری لگی ہے۔’’ کیپٹن عاطف کو کچھ غلط بول دینے کا احساس ہوا۔
’’نہیں۔ایسی بات نہیں ہے۔میجر بلال کو تو کبھی اپنے دشمن کی بات بری نہیں لگی اور تم تو پھر بھی میرے جگر ہو۔’’ میجر بلال کے چہرے پر وہی سرخی مائل مسکراہٹ آگئی جس سے ان کا چہرا روشن ہوجاتا تھا۔کیپٹن عاطف بھی مسکرا دیے۔
وہ تاروں بھری رات میجر بلال کو خلاف معمول اداس کر رہی تھی۔وہ سب یہ بات محسوس کرچکے تھے اس لیے میجر صاحب کو تنہائی فراہم کے لیے شب بخیر بولتے ہوئے کیمپس میں چلے گئے۔
اب تو ہر تاروں بھری رات یونہی گزرنے والی تھی شاید۔۔۔
اداس سی۔۔۔
خاموش سی۔۔۔
موت کی تاریکی سی۔۔۔
”میں جب بہت چھوٹی ہوتی تھی تب میں نانو سے اکثر ایک سوال کیا کرتی تھی کہ مرنے کے بعد لوگ کہاں چلے جاتے ہیں؟تو نانو ہمیشہ یہی کہتی تھیں کہ مرنے کے بعد لوگ اوپر آسمان پر تارا بن کر چمکنے لگتے ہیں۔ ”
وہ سر اٹھا کر تاروں سے سجے آسمان کو دیکھنے لگے۔ جو انہیں خود سے بہت بلندی پر محسوس ہوا تھا۔
” تب میرا بھی دل کرتا تھا کہ میں بھی تارا بن کر چمکوں۔ ”
ان کی نظر ایک سب سے زیادہ چمکتے تارے پر پڑی اوردل ایک لمحے کے لیے بند ہوا تھا۔
”میں یہ دیکھ رہی تھی کہ اس چھت سے کونسا تارا واضح نظر آتا ہے۔جب میں بھی تارا بن جاؤں گی تو آپ بھی یہاں بیٹھ کر دیکھیے گا۔سب سے واضح نظر آنے والا تارا آپ کی ابرش ہوگی۔ ”
ایک ننھا سا قطرہ ان کی آنکھ سے باہر چھلکنے کے لیے تیار تھا لیکن ابرش سے کیے گئے وعدے نے اس کی یہ کوشش ناکام بنا دی تھی۔
موٹی موٹی لکڑیاں دھیرے دھیرے راکھ میں تبدیل ہورہی تھیں۔کہیں سے کوئی چنگاڑی اٹھتی اور کچھ بلندی پر جا کر بے موت ماری جاتی۔وہ کافی دیر تک وہیں بیٹھے رہے۔اور پھر آگ کو پانی سے بجھاتے خیمے میں چلے گئے۔وہاں پہ عطاءاللہ بے فکر سوئے ہوئے تھے۔وہ ایک نظر ان پر ڈالتے ہوئے سونے کے لیے لیٹ گئے۔بہت ہی جلد نیند نے ان کو اپنی آغوش میں لے لیا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔)
صبح فجر کی نماز کے بعد سب نے وطن کی سلامتی کے لیے دعا کی تھی۔عطاءاللہ کے ہاتھ کی چائے پینے کے بعد میجر بلال نے ملک کے ان شیروں سے مختصر خطاب کیا تھا جو کہ ان کے خون کو گرمانے کے لیے کافی ثابت ہوا تھا۔
اللہ پر بھروسہ کر کے وہ اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے۔
جہاں پر دشمن پر پہلے ہی ہوائی اسٹرائک کردی گئی تھی۔جس کے نتیجے میں بہت سے شر پسند اپنے انجام کو پہنچ گئے تھے۔
ضرب عضب آپریشن کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا تھا۔
دودن مسلسل دشمن سے لڑائی کے بعد اس ملک کا ایک اور بیٹا شہادت کے رتبے پر فائز ہوا تھا۔
کہ جو کچھ دیر پہلے نائک عطاءاللہ غازی کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن اب اس کا نام تاریخ کے اوراق میں نائک عطاءاللہ شہید لکھا جائے گا۔
یہی تو ان کی خواہش تھی۔۔۔
اور قدرت نے ان کی یہ خواہش ان سنگلاخ پہاڑیوں میں پوری کردی تھی۔۔۔
میجر بلال نے انہیں کتنا روکا تھا لیکن وہ اپنے اس خواب کی تعبیر کے لیے رکے نہیں تھی۔
شہادت جن کا مقدر ہوتی ہے وہ اس منزل پر پہنچ ہی جاتے ہیں۔۔۔۔
ہزاروں عذرمل کر بھی قدم ڈگمگا نہیں سکتے۔۔۔۔
ابرش کے بعد ان کی زندگی کے بعد دوسرا سب سے سے عزیز شخص انہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا تھا۔
ابرش کی جان بھی ان درندہ صفت انسانوں نے لی تھی۔۔
اور اب۔۔۔۔۔!
اور اب ان کے عزیز از جان عطاءاللہ کی بھی۔۔۔
کاش۔۔۔۔!
کاش میجر بلال اس وقت بتا سکتے کہ یہ گولیاں کتنی ظالم ہوتی ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...