یہ طارق مرزا صاحب کا سفرنامہ ہے۔ مرزا صاحب کی شخصیت علمی اور ادبی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ سڈنی کی معروف ادبی شخصیت ہیں۔ ان کے افسانے، کہانیاں اور کالم مختلف اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔آپ اردو سوسائٹی آف آسٹریلیا (سڈنی)کے سرگرم رکن بھی ہیں۔ آپ نے یہ سفر ایک ٹورسٹ گروپ کے ساتھ کیا تھا جس میں مختلف مزاج،مذہب اور ملکوں کے سیاح شامل تھے۔اس طرح یہ سفر بذاتِ خود ایک حسین گلدستہ کہا جا سکتا ہے۔عام طور پر سفرناموں میں مناظر اور اپنے سفر کا حالات کو بیان کیا جاتا ہے لیکن اس کتاب کے مصنف کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے صرف منظر نامہ ہی بیان نہیں کیابلکہ معاشی ،معاشرتی، سیاسی ،سماجی،ادبی، ثقافتی ،ہر موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ جس میں علم اور حقیقت دونوں موجود ہیں۔ اس طرح قاری بے شمار معلومات کے ساتھ، انسانی زندگی کی محرومیاں ، پردیس کے دکھ،اپنوں کی بے وفائی،ہمت اور محنت کی داستانیں،نارسائی، جذبے، کوشش و جدوجہد ، بیرونِ ملک پاکستانیوں کی تگ و دو کی اصلی اور سچی تصویر پیش کی ہے کہ قاری تحریر کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے اور خود کو اس سفر میں ان کا ہم سفر سمجھ لیتا ہے۔زبان خوبصورت ، محاوروں کا برموقع استعمال اور آسان فہم ہے۔بوجھل اور ثقیل الفاظ بہت کم ہیں۔ دوستوں کی بے تکلفی، اعتبار، انتظار اور دوستی ایک جوئے بے کنار کی طرح اپنے مہمان کو دامنِ الفت میں سمیٹ لیتی ہے۔ پردیس میں رہنے والے جب کسی پاکستانی کو ملتے ہیں تو کس طرح چشم و دل فرشِ راہ کرتے ہیں اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ مرزا صاحب نے اس جذبے کی بے مثال عکاسی کی ہے۔ یہ پردیسی اپنے وطن اور پیاروں کی جدائی کا بوجھ بھی اٹھاتے ہیں۔ اس معاشرے کی قدروں کا بھرم بھی رکھتے ہیں اور زرِ مبادلہ کما کر اپنے وطن بھی ارسال کرتے ہیں۔ مصروف زندگی اور نو سے پانچ بجے تک کام کی درست تصویر کشی کی ہے۔مثلاَ ’’ میں سوچ رہا تھا کہ چاچا محمد علی اور ان جیسے دوسرے بزرگوں کا بڑھاپے میں ایک ہی مسئلہ ہوتا ہے ان سامنے زندگی کا کوئی نصب العین باقی نہیں رہ جاتا، وہ زندگی برائے زندگی گزارتے ہیں ۔ جنہوں نے ساری زندگی جسمانی اور دماغی محنت کی ہوتی ہے۔ اچانک ایک دن انہیں سب ذمہ داریوں، خود مختاریوں اور قوتِ فیصلہ سے محروم ہو کر ایک کونے میں بیٹھنا پڑتا ہے تو زندگی کا ہر رنگ ان کے لئے پھیکا پڑ جاتا ہے اور زندگی ان کے لئے صرف شب و روز کا تسلسل بن کر رہ جاتی ہے۔ جس زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ ہو اس میں اور موت کے درمیان فرق نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے‘‘
اس میں مصنف نے زندگی کی ایک بڑی زخمی حقیقت بیان کر دی ہے یہ صرف بیرونِ ملک ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی یہی ہوتا ہے۔ یہ شعور پہ ایک دستک ہے کہ ان لوگوں کی بھی ایک تنظیم ہونی چاہیے اور ان کو معاشرے کا فعال حصہ بنایا جائے تاکہ ان کی محرومی کا زالہ ہو سکے۔ کیونکہ آج جو لوگ جوان ہیں اور ادھیڑ عمر ہیں وہ بھی رفتہ رفتہ عمر کے اسی حصے میں داخل ہونے والے ہیں۔ یہ زندگی کا تسلسل ہے جو جاری رہتا ہے۔ اس لئے جیسے ان کے یہاں کلب ہوتے ہیں اور مختلف مشاغل مہیا کئے جاتے ہیں اور رضاکارانہ کاموں میں یہ لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی انہیں زندگی کے دھارے میں شامل رکھنا چائیے۔
یورپ کی تہذیب کا ذکر نہ کرتے تو یہ سفرنامہ ادھورا رہتا۔ بقول علامہ اقبالؔ
ان کی تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
جولی اور مولی دو نوجوان لڑکیوں کا ذکر پڑھ کر اُردو داں قاری سوچتا ہے کہ اس ماحول میں پل کر ہماری نوجوان نسل کیسے بچ پائے گی۔ اخلاق اور کردار قوموں کی زندگی میں ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی طارق مرزا کی کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھے بغیر چھوڑی نہیں جا سکتی۔ یہ صرف یورپ کی سیر ہی نہیں معلومات کا خزانہ، تہذیبِ مغرب کی ایک جھلک اور نوحہ بھی ہے۔ اس کی چمک دمک کے پردے میں کیسے ناسور ہیں۔
مرزا صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سڈنی کی مصروف زندگی میں سے وقت نکال کر اردو قارئین کو اس کتاب کا خوبصورت تحفہ دیا۔
لداخ کے دور دراز سے آنے والا گل خان جو اب ہالینڈ میں ایک بہت بڑا تاجر ہے کا ذکر ہمارا سر فخر سے بلند کر دیتا ہے۔ افضل خان کی کہانی ہر پاکستانی کو پڑھنی چایئیے۔ کیوپڈ کے تیر سے زخمی ہونے والوں کو عشق نے کہاں سے اٹھایا اور کہاں لے گیا۔ زندگی کے یہ سارے دھنک رنگ اس کتاب میں پھیلے ہوئے ہیں جو خوشبوکی طرح آپ کی روح کو معطر کر دیتے ہیں۔
یہ ایسی کتاب ہے کہ جسے بار بار پڑھا جا سکتا ہے ۔ خاص طور پر وہ لوگ جو یورپ کی سیر کو جانا چاہتے ہیں اگر یہ معلومات آپ کے ہمراہ ہوں گی تو آپ ان جگہوں کو یاد رکھیں گے۔ کیونکہ دیارِ غیر میں حلال فوڈ تلاش کرنا خاصا مسئلہ ہوتا ہے اگر یہ کتاب آپ کے ساتھ ہو گی تویہ تسکینِ مطالعہ کے علاوہ گائیڈ کا کام بھی کرے گی۔
ڈاکٹر شگفتہ نقوی ،ملبورن آسٹریلیا