اس کا اپنی کلاس کی طرف جانے کا ارادہ تھا ۔۔۔ جب سامنے کاوش کو آتے دیکھ کے ۔۔ اس کے قدم رک گئے اور منہ بھی بارہ کے قریب ہی بن گیا تھا ۔۔
” تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟”
ایلا کا لہجہ سپاٹ تھا ۔۔
” پوچھنے آیا ہوں شادی سے کیوں انکار کر رہی ہو ؟؟”
وہ غصے میں پوچھ رہا تھا ۔۔
” کیونکہ مجھے کارٹونز نہیں پسند ۔۔ ”
وہ آبرو چڑھا کے کہتی آگے بڑھی تھی ۔۔ جب کاوش نے غصے سے ۔۔ اس کا بازو دبوچ کے ۔۔۔ اسے اپنی طرف کھینچا چاہا ۔۔۔
لیکن اسے اپنے ہاتھ کی پشت جلتی محسوس ہوئی تھی اس لمحے ۔۔
تبھی جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا ۔۔
” آہ ۔۔ میرا ہاتھ ۔۔ ”
اس کے ہاتھ کی جلد جل رہی تھی ۔۔ اور سرخ پڑ گئی تھی جلد ۔۔
ایلا بھی پریشانی سے دیکھ رہی تھی ۔۔
” بدتمیز لڑکی ۔۔ یہ کیا کر دیا ۔۔ ”
اس کی بات پہ ایلا کی تیوری چڑھی تھی ۔۔
” تم بدتمیز ۔۔ جاہل انسان ۔۔ مجھ سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے تمہیں ۔۔ ”
اس نے دانت پیسے تھے ۔۔
” ہاں تو تم ہو ہی بدتمی۔۔۔۔ ”
اچانک اس کے منہ کا زاویہ بدلا تھا۔۔ آنکھیں باہر کو ابل پڑی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پیچھے جاتا ۔۔ دیوار سے جا لگا تھا ۔۔۔
ایلا کی آنکھیں حیرت سے باہر آ رہی تھی ۔۔۔ جبکہ وہی خوشبو کا حصار ۔۔ اسے اپنے گرد محسوس ہوا تھا ۔۔۔
وہ بوکھلا کے پیچھے مڑی تھی ۔۔ لیکن عین پیچھے گرین اور ریڈ آنکھوں والے ۔۔۔ خوبصورت نوجوان کو دیکھ کے ۔۔ وہ پل بھر کے لئے تھم گئی تھی ۔۔۔
جس کی آنکھوں میں سرخ ڈوریں تھی ۔۔۔ بھورے بال سلیقے سے بنے ہوئے تھے ۔۔۔ سفید رنگت پہ ہلکی ہلکی بئیرڈ اس کا چارم بڑھا رہا تھا ۔۔
بلیو جینز پہ ۔۔ بلیک شرٹ میں ملبوس لب بھنچے وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” آپ یہاں کیا کر رہی ہے ؟؟”
ایلا ایک ٹرانس سے باہر آئی تھی ۔۔۔ وہ ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگی ۔۔
” میں ۔۔۔ ”
گہرا سانس لیتے ۔۔ اس نے وہ خوشبو پھر سے محسوس کی تھی ۔۔۔
” کچھ نہیں ۔۔ ”
اسے دیکھتی ۔۔ وہ لب بھنچے جانے کے لئے آگے بڑھی تھی ۔۔۔ جیسے کی وہ کوریڈور سے باہر گئی ۔۔ جب اس نے ۔۔ دیوار سے لگے کاوش کو دیکھا تھا ۔۔
ہوا کے جھونکے کی تیزی سے ۔۔ وہ کاوش تک پہنچا تھا ۔۔
” ایلا سے دور رہو ۔۔ اسے بدتمیز کہنے کی کوشش بھی کی ۔۔ تو یہ زبان باہر نکال کے چباؤں گا ۔۔ ”
آنکھوں سے ۔۔ اس نے کاوش کے لبوں کی طرف اشارہ کیا تھا ۔۔ جبکہ کاوش اپنے دونوں لب آپس میں پیوست کیے نفی میں سر ہلانے لگا ۔۔
” İt will be fun .. ”
سرد لہجے میں کہتا ۔۔ اسے جھٹکے سے چھوڑ کے وہ پیچھے ہوا تھا ۔۔
” کون ہو تم ؟؟”
اپنی سانسیں بحال کرتا ۔۔ وہ سوال کر رہا تھا ۔۔۔
” بہنام ۔۔۔ ”
اور اسی تیزی سے ۔۔ ہوا کے جھونکے کی طرح ۔۔ وہ وہاں سے غائب ہوا تھا ۔۔ جبکہ کاوش ادھر ادھر دیکھتا۔۔۔ اپنے لبوں کو چھونے لگا ۔۔۔
اس کے منہ سے خون آ رہا تھا اور درد کا احساس بھی بڑھ رہا تھا ۔۔ منہ خون سے بھر چکا تھا ۔۔۔ وہ خوفزدہ سا وہاں سے باہر کی طرف بھاگا تھا ۔۔
کلاس میں وہ جیسے ہی داخل ہوئی ۔۔ پہلی نظر ہی اس کی بہنام پہ پڑی تھی ۔۔۔
جس کی آنکھوں کا کلر اس کی سمجھ سے باہر تھا ۔۔ اس کے آئی بالز مکسچر آف گرین اور ریڈ تھے ۔۔۔
وہ لب بھینچے ایلا کو ہی دیکھ رہا تھا ۔۔
دیکھا کروں ۔۔
تجھے دیکھا کروں ۔۔
ایلا سر جھٹک کے ۔۔۔ اپنی سیٹ کی طرف بڑھی تھی ۔۔۔ وہی خوشبو پھر سے اسے اپنے حصار میں لے رہی تھی ۔۔۔
وہ چونک کے ۔۔۔ پورے کلاس میں نظریں دوڑانے لگی ۔۔
اور پھر نظریں بھٹک کے ۔۔۔ بہنام پہ رکی تھی ۔۔ جس کی نظریں ابھی بھی ایلا پہ تھی ۔۔۔
” ایلا ۔۔”
ہوا کے دوش پہ ۔۔ جیسے سرگوشی ہوئی تھی ۔۔ دل کی بےچینی بڑھی تھی ۔۔۔
بہنام سے نظریں چرا کے ۔۔۔ وہ رخ موڑ کے بیٹھی تھی ۔۔
” آج دو بجے تک اپنے اسائنمنٹس سبمیٹ کردیں آپ سب ۔۔۔ اپنے موبائل چیک کریں ۔۔ ایمیل آیا ہوگا ۔۔ ”
لیکچرار کے کہنے پہ ۔۔ سب اپنا موبائل چیک کرنے لگیں ۔۔ ایلا بھی اپنا موبائل چیک کرنے لگی ۔۔
واٹس ایپ پہ کوئی میسج آیا تھا ۔۔
” میں تمہارے قریب ہوں ۔۔ ”
اور وہ چونک کے ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔۔۔
سب اس کے کلاس فیلوز ہی تھے ۔۔ ان کے بیچ بس وہ عجیب آنکھوں والا لڑکا ہی نیا تھا ۔۔
جو اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔ ایلا پیچھے مڑ کے دیکھنے لگی ۔۔ وہ نہیں تھا ۔۔۔
تیزی سے اٹھ کے ۔۔ وہ اس کے پیپرز چیک کرنے لگی۔۔۔ جن پہ بہنام ارشمن لکھا ہوا تھا ۔۔
وہ کچھ سوچتی سیدھی ہوئی تھی ۔۔ اور پیچھے دیکھ کے وہ ساکت ہوگئی ۔۔ بہنام اس کے سر پہ کھڑا۔ ۔۔ اسے سپاٹ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” ب۔۔۔بہنام ۔۔۔۔ ”
کپکپاتے لبوں کے ساتھ ۔۔۔ ایلا حیرت سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔
” اپنی سیٹ پہ جاؤ ۔۔ ”
آواز بےحد بھاری تھی ۔۔ ایلا تیزی سے اپنی سیٹ پہ جا کے بیٹھ گئی ۔۔ اور پھر سے پیچھے مڑ کے دیکھنے کی کوشش نہیں کی ۔۔
دل تیزی سے کانپ رہا تھا ۔۔
” گھبراؤ نہیں ۔۔۔ میں تمہارے پاس ہوں ۔۔ ”
پھر سے سرگوشی ہوئی تھی ۔۔ اور ایلا نے بنا کسی کو دیکھے ۔۔ اپنے دونوں کانوں پہ ہاتھ رکھے تھے ۔۔۔ اور سر کو نیچے جھکا لیا تھا ۔۔ جبکہ بہنام کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی تھی ۔۔
وہ بےحد خوبصورت گھر تھا ۔۔۔ سرسبز اور خوبصورت پھولوں سے مزین وادی تھی ۔۔۔ نیلگوں آسمان کے نیچے یہ خوبصورت بنگلہ ہی تھا ۔۔۔
جہاں پہ پریاں اور پری زاد اس کی خدمت کے لئے ۔۔ ہمہ وقت حاضر تھے ۔۔۔
وہ اپنے آراستہ بیڈروم میں داخل ہوا تھا ۔۔۔ ایلا کی بےحد خوبصورت بڑی سی تصویر ۔۔ دیوار پہ آویزاں تھی ۔۔۔
کمرے کو دیکھ کے ایسے لگتا ۔۔۔ جیسے یہ شاہانہ بیڈ روم کسی سلطنت کے بادشاہ کا ہو ۔۔ اور اپنی سلطنت کا بادشاہ ہی تو تھا ۔۔
بہنام ارشمن ۔۔۔ جب دروازے پہ ہلکی دستک ہوئی تھی ۔۔ اور اجازت ملنے پہ ۔۔ ایک نازک سی پری اندر آئی تھی ۔۔
” آپ سے ملنے ژاویلا آئی ہے ”
اس کے ماتھے پہ بل پڑ گئے تھے ۔۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔۔
” میں آ رہا ہوں ۔۔۔”
اور وہ پری باہر نکلی تھی ۔۔ لیکن جیسے ہی بہنام ۔۔۔ اس کمرے میں پہنچا تو وہاں کا منظر دیکھ کے ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں سرخ دوڑیں بن گئی تھی ۔۔۔
ژاویلا نیم برہنہ لباس میں ۔۔ اپنے جسم کی نمائش کرتی ۔۔۔ اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
” ارے بہنام ۔۔ میری زپ ٹوٹ گئی ہے ۔۔ پلیز ٹھیک کردو ۔۔ ”
اور مڑ کے ۔۔ اس نے اپنے لمبے بال بھی پشت سے ایک سائیڈ پہ ڈال دیے تھے ۔۔
جس سے اس کی پیٹھ مکمل نظر آ رہی تھی ۔۔۔ نظریں موڑ کے وہ ایک ادا سے ۔۔۔ بہنام کو دیکھنے لگی ۔۔
جبکہ بہنام کے ماتھے پہ بلوں کا جال تھا ۔
” تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟”
” میرے قریب آؤ بہنام ۔۔ ”
وہ اپنے جادوئی طلسم سے ۔۔ بہنام کو مسمرائز کرنے کا سوچتی ۔۔ اپنے ہاتھ اسکی طرف پھیلا چکی تھی ۔۔۔
” آؤ حضور ۔۔۔
تم کو ۔۔ ستاروں پہ لے چلوں ۔۔ ”
ژاویلا اس تک پہنچ چکی تھی ۔۔ اس سے پہلے وہ بہنام کا ہاتھ تھامتی ۔۔ اس کا ہاتھ جیسے جلا تھا ۔
وہ چیختی پیچھے ہوئی تھی ۔۔۔ جبکہ دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔ بہنام کے پورے جسم سے دھواں نکلنے لگا ۔۔۔
” تمہارا طلسم مجھ پہ کوئی اثر نہیں کرے گا ژاویلا ۔۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے جسم کو ڈھانپ کے یہاں سے چلی جاؤ ۔۔ ”
اس کی غصہ بھری ۔۔ بھاری آواز گونجی تھی ۔۔۔ ژاویلا کے چہرے پہ ۔۔ نفرت اور غصہ چھلکنے لگا ۔۔۔
” بہت جلد اس لڑکی ایلا پہ اپنا طلسم چلاؤں گی ۔۔۔ اسے تم سے عشق ہونے نہیں دوں گی ۔۔ ”
بہنام نے ہاتھ کے اشارے سے ۔۔۔ اسے خود سے دور کیا تھا ۔۔
” پہلے بھی بتا چکا ہوں ایلا میرا عشق ہے ۔۔ اور میرا عشق بےحد جنونی ہے ۔۔ اس عشق میں کسی کی مداخلت یعنی اس کی موت ۔۔۔ ”
” وہ انسان ہے ۔۔ کتنی بار کہوں تم آگ ہو ۔۔ تمہارا انسان کے عشق سے کیا کام ۔۔ ”
ژاویلا چیخی تھی ۔۔۔
” وہ میرے وجود کا حصہ ہے ۔۔ بیوی ہے وہ میری ۔۔۔ اور بہت جلد ہم ساتھ ہونگیں ۔۔ اس محل کی ملکہ ہے وہ ۔۔۔ ملکہ ایلا ۔۔ بہنام کی ملکہ ۔۔ اور میں اسے لے آؤں گا ۔۔ تمہاری ساری کوششیں ناکام بنا دوں گا ۔۔۔ جاؤ یہاں سے ۔۔ ”
بہنام بھی دھاڑا تھا ۔۔۔ اس کی آنکھیں جیسے آگ برسا رہی تھی ۔۔۔ ژاویلا نے شیطانی قہقہہ لگایا تھا ۔۔۔
” جا رہی ہوں لیکن پھر آؤں گی ۔۔۔ تمہاری شکست کا جشن منانے ۔۔۔ ”
وہ ہنستے ہوئے وہاں سے جا چکی تھی ۔۔ جبکہ بہنام لب بھینچے کھڑا رہا تھا ۔۔۔ اور پھر اسکی پلکوں پہ ۔۔ ایلا کا معصوم چہرہ گھوما تھا ۔۔ لبوں پہ مبہم مسکراہٹ پھیلی تھی ۔۔ دھڑکنوں کے تار چھڑ دیے گئے تھے ۔۔ اور اس مدھم تال پہ اس کا دل جیسے رقصاں تھا ۔۔۔
یہ رقص عشق ہے ۔۔
یہ بزمِ عشق ہے ۔۔
میرے عشق کی آگ ۔۔
جو کھبی تیرے وجود تک پہنچے ۔۔
میں بوند بوند ۔۔
اس عشق کو تیری رگوں میں اتار دوں ۔۔۔ !!
وہ اپنی سلطنت کا بےتاج بادشاہ ۔۔ ایک معصوم سی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو کے ۔۔۔ بوند بوند اس عشق میں سیراب ہو رہا تھا ۔۔۔ جیسے صحرا کی تپتی ریت پہ ۔۔ بارش کی چند بوندیں جذب ہو کے ۔۔ اپنی تازگی سے اس گرم ریت کو مہکا گئی ہو ۔۔۔
” ایلا ۔۔ ”
وہ جو گہری نیند میں تھی ۔۔ جب اسے اپنے نام کی سرگوشی سنائی دی تھی ۔۔۔
” ایلا ۔۔ ”
وہ نیند میں کسمسائی تھی ۔۔ اور ان آنکھوں نے بےحد محبت سے ۔۔۔ اس کی انگڑائی کو دیکھا تھا ۔۔۔
” ایلا ۔۔۔ ”
پلکوں پہ جنبش ہوئی تھی ۔۔ اور کسی خوبصورت احساس کے تحت اس نے آنکھیں کھولی تھی ۔۔
وہ پھر سے کسی کے حصار میں تھی ۔۔۔ جانی پہچانی مبہم خوشبو اسے حصار میں لے چکی تھی ۔۔
نیند سے بوجھل آنکھوں کو ۔۔ بہنام نے بےحد محبت سے دیکھا تھا ۔۔۔ انگلی کی پور سے ۔۔۔ اس کی پلکوں کو دھیرے سے چھوا تھا….
جبکہ ایلا اب حیرت سے ۔۔ اپنے چاروں طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ ستارے جیسے اس کے گرد محو رقص تھے ۔۔۔ یہ تو اس کا کمرا تھا ہی نہیں ۔۔ کسی اور جہان میں پہنچی ہوئی تھی وہ ۔
” یہ سب ۔۔۔ ”
وہ حیرت سے اٹھ بیٹھی تھی ۔۔۔ نیچے فرش پہ سرخ پھول جیسے ۔۔۔ دبیز قالین کی طرح بچھی ہوئی تھی ۔۔۔
رنگ برنگی خوبصورت تتلیاں ۔۔۔ اسکے نرم و نازک پاؤں پہ پھول نچھاور کر رہے تھے ۔۔
اور وہ خود بےحد خوبصورت ۔۔۔ بیڈ پہ تھی ۔۔۔
” یہ سب کتنا خوبصورت ہیں ۔۔”
وہ کہے بنا نہ رہ سکی ۔۔۔
” تم سے کم ہیں ان کی خوبصورتی ۔۔ ”
بوجھل سرگوشی ہوئی تھی ۔۔ اور وہ ٹرانس کی کیفیت میں۔۔ اپنے دائیں جانب دیکھنے لگی ۔۔۔ لیکن وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔ بس سانسوں کی مدھم دھن تھی ۔۔
یہ سب حسین اتفاقات اس کے ساتھ پہلی بار ہی ہو رہے تھے ۔۔ اور وہ حیران تھی کہ اچانک سے یہ کیاہو رہا ہے ۔۔
” یہ سب کیوں کر رہے ہو تم ؟؟ کون ہو تم ؟؟”
” کیونکہ میں تمہارے عشق میں پاگل ہو چکا ہوں ایلا ۔۔۔ میں اپنی دنیا کی سلطنت کا وہ بادشاہ ہوں ۔۔ جو تمہارے عشق میں پور پور ڈوب چکا ہوں ۔۔۔ ”
بوجھل سرگوشی میں ۔۔ بےچین سانسوں کا شور بھی تھا ۔۔۔
” کیا تم سچ میں بھوت ہو ؟”
تتلیاں اس کے بالوں میں پھول سجا رہی تھی ۔۔ جبکہ وہ حیرت سے ہر چیز کو دیکھتی ۔۔ سوال کر رہی تھی ۔۔
” میں بہنام ہوں ۔۔ اپنی ایلا کا بہنام ۔۔ کیا تم محسوس کر رہی ہو ؟؟”
وہ ایلا کے بازو کو ۔۔ اپنی انگلیوں سے چھو رہا تھا ۔۔۔
وہ بدک کے پیچھے ہوئی تھی ۔۔
” کیا ہوا ؟؟ ڈر رہی ہو مجھ سے ؟؟”
وہ پریشان سا پوچھ رہا تھا ۔۔
” نہیں ۔۔ میں کیوں ڈروں گی تم سے ۔۔ پتہ نہیں کون ہو تم ؟؟”
وہ منہ بنا کے ۔۔ اپنے خوف کو پیچھے دھکیلتی کہہ رہی تھی ۔۔
جب پھر سے اس کا ہاتھ تھاما گیا تھا ۔۔ اور اب بظاہر وہ اپنے ہاتھ کو ہوا میں لہراتا دیکھ رہی تھی ۔۔ لیکن وہ کوئی چہرہ چھو رہی تھی ۔۔ پلک جھپکنے کو محسوس کر رہی تھی ۔۔ اس چہرے پہ موجود ہلکی بیرڈ کو ۔۔ اس کے ہاتھ کی انگلیاں محسوس کر رہی تھی ۔۔ اور وہ پرحدت سانسیں ۔۔ اسے اپنی انگلیوں کی پوروں پہ محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔
” یہ میں ہوں ۔۔ ”
اس کا ہاتھ اب گردن کو چھوتا ۔۔ دل کے مقام پہ تھا ۔۔ وہ دھڑکتے دل کی دھڑکنوں کو محسوس کر رہی تھی ۔۔
” میرے دل کی دھڑکنیں محسوس کر رہی ہو ناں ۔۔ ان میں بسی بےچینیاں ۔۔ وہ عشق کی تپش ۔۔ تمہیں محسوس ہو رہی ہے ایلا؟؟”
وہ بےحد گھمبیر لہجے میں کہہ رہا تھا ۔۔ جبکہ ایلا نے بوکھلا کے اپنا ہاتھ ۔۔ اس نادیدہ گرفت سے چھڑایا تھا ۔۔۔
اس کی نظریں اب ان رنگ برنگی تتلیوں پہ تھی ۔۔ اور بلکل اچانک وہ ہوا میں لہرائی تھی ۔۔۔۔
خوشگوار حیرت کے ساتھ ۔۔۔ اس نے چاروں طرف دیکھا تھا ۔۔
” میں گر جاؤں گی ۔۔۔ ”
” میں گرنے نہیں دوں گا ۔۔۔ ”
مدھم سرگوشی کے ساتھ ۔۔ اسے کمر سے تھاما گیا تھا ۔۔۔۔
سفید رنگ کے غبارے ۔۔ ہوا کی دوش پہ لہراتے آئے تھے ۔۔۔
اور وہ مسکراتی آنکھوں سے سب دیکھ رہی تھی ۔۔
” یہ سب کس قدر خوبصورت ہے ۔۔ ”
” میری دنیا اس سے بھی زیادہ حسین ہے ایلا ۔۔ جہاں کی تم ملکہ ہو ۔۔۔ ”
وہ گھمبیر لہجے میں ۔۔ اس کے ہاتھ تھامے ۔۔۔ دوسرا ہاتھ اس کی کمر پہ رکھے ۔۔۔ یونہی لہراتے ۔۔ اس کے ساتھ ڈانس اسٹیپس لے رہا تھا ۔۔۔۔
اسقدر پیار ہے تم سے
اے ہمسفر ۔۔
چاندنی نرم سی ۔۔
رات کے ہونٹ پر ۔۔۔
اسے ٹرن دے کے ۔۔ وہ اپنے بےحد قریب کر چکا تھا ۔۔۔
تیری انگڑائیاں ۔۔
میری گستاخیاں ۔۔
ملی تو یوں جڑی ۔۔
کہ بھیگے ہم رات بھر ۔۔۔
اور بےحد اچانک ۔۔۔ ایلا کے لبوں پہ ۔۔ وہ اپنے لبوں سے گستاخیاں کرتا ۔۔ اس کی سانسیں اپنی سانسوں سے الجھا گیا ۔۔۔
ایلا جو اس اچانک افتاد کے لئے بلکل تیار نہ تھی ۔۔ بہنام کی شدتوں میں جیسے ۔۔ اپنی سانسیں کھونے لگی ۔۔۔
اسے اپنے لب سلگتے محسوس ہو رہے تھے ۔۔۔ جیسے آگ کی تپش سے جل رہے ہو ۔۔۔
ایلا کی بےساختہ سسکی پہ ۔۔ بہنام اس کے لبوں کو چھوڑتا پیچھے ہوئے تھا ۔۔ لیکن ان آنکھوں میں نمی دیکھ کے ۔۔ وہ خود پہ ہی غضب ناک ہوا تھا ۔۔۔
اہنے انگوٹھے سے ان لبوں کو چھو کے ۔۔ اس کی جلن کم کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔ جو کارگر ثابت ہوئی تھی ۔۔
لیکن ایلا بدک کے پیچھے ہوئی تھی ۔۔
” نیچے اتارو مجھے ۔۔ ”
وہ چیخی تھی ۔۔۔
اور پھر جیسے کسی کی آغوش میں ۔۔۔ وہ نرمی سے نیچے اتاری گئی تھی ۔۔۔
” کون ہو تم ؟؟ کیوں میرے پیچھے پڑ گئے ہو ؟؟ چھوا بھی کیسے مجھے تم نے ؟؟ کس حق سے چھوا تم نے مجھے ؟؟”
وہ ادھر ادھر دیکھتی ۔۔۔ چلا رہی تھی ۔۔۔
” بند کرو یہ سب ”
وہ پھر سے چلائی تھی ۔۔ بہنام درد بھری آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
” تم میری ہو ایلا ۔۔ تم پہ صرف میں پورا حق رکھتا ہوں ۔۔ ”
” میں تمہیں نہیں جانتی ۔۔ ”
اور بلکل اچانک کسی دیوانے کی طرح ۔۔ وہ ایلا کو اپنے حصار میں لے چکا تھا ۔۔
اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا ۔۔۔ وہ اپنی سانسیں اس کی گردن پہ بکھیر رہا تھا ۔۔
” تم میرے نکاح میں ہو ایلا ۔۔۔ ہمارا نکاح ہوا ہے ۔۔ بیوی ہو میری ۔۔ ”
” لیو می ۔۔ میں ایلا ہوں ۔۔ میرا کوئی نکاح نہیں ہوا تم سے ۔۔ پیچھے ہٹو ۔۔ چھوڑو مجھے ۔۔ ”
وہ چلائی تھی ۔۔
” نہیں ایلا ۔۔ بہت سال بیت گئے ہیں ۔۔ ہمارا نکاح ہوا تھا ۔۔ ہم ۔۔۔ ایلا ہم ایک ہی تو ہیں ۔۔ کھو دیا تھا میں نے تمہیں ۔۔ اب مل گئی ہو مجھے ایلا ۔۔ میں تمہارے عشق میں مبتلا ہو چکا ہوں ۔۔۔ مجھے پہچان سکتی ہو ؟؟”
اس کی آواز میں نمی گھلی ہوئی تھی ۔۔
” تم کون ہو ۔۔ ؟؟ میں دیکھ تک نہیں سکتی تمہیں ۔۔ اور تم کہہ رہے ہو کہ ۔۔ میری مرضی کے بنا چھوا بھی کیسے مجھے ۔۔ ”
وہ اب بہنام کے حصار میں تھی ۔۔ لیکن وہ دیکھ نہیں رہی تھی ۔۔ بس محسوس کر رہی تھی اور سن رہی تھی ۔۔۔
” دیکھ لو گی ۔۔ تمہارے بےحد قریب ہوں میں ایلا ۔۔ تم دیکھ سکتی ہو مجھے ۔۔ لیکن تم دیکھنا نہیں چاہتی مجھے ۔۔۔ ”
” لیو می آ لون ۔۔ لیو می آ لون ۔۔ ”
وہ روتے ہوئے چلائی تھی ۔۔ اور پھر اچانک سے سب ختم ہو گیا تھا ۔۔
نہ کوئی حصار تھا ۔۔ نہ کوئی خوشبو تھی ۔۔ نہ وہ تتلیاں تھی ۔۔ نہ وہ پھول ۔۔ نہ کوئی گیت ۔۔ نہ کوئی ساز ۔۔
وہ اپنے کمرے کے چاروں طرف دیکھتی رہی ۔۔ اور پھر بلکل اچانک سے نیچے گری تھی ۔۔ سر چکرایا تھا ۔۔ آنکھیں بند ہو چکی تھی ۔۔۔
فنکشن اپنے عروج پہ تھا ۔۔ اور بلکل ویسے ہی ۔۔۔ ساز و شراب کی محفل بھی عروج پہ تھی ۔۔
کاوش بھی وہیں تھا اپنے دوستوں کے ساتھ ۔۔ جب اس کی نظر سامنے اٹھی تھی ۔۔۔ جہاں قدرے اندھیرا تھا ۔۔۔
لیکن جیسے جیسے وہاں لمحہ بہ لمحہ روشنی کی جھلک پڑتی ۔۔ اسے بےحد حسین لڑکی کھڑی نظر آتی ۔۔ جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔
آنکھوں میں جیسے خمار سا چھایا ہوا تھا اس کے ۔۔ اور ہاتھ کی انگلیوں کے اشارے سے ۔۔ وہ کاوش کو اپنی طرف بلا رہی تھی ۔۔
وائن کی گلاس چڑھا کے ۔۔ کاوش اسی طرف گیا ۔۔ اسے وہ لڑکی راہداری سے گزرتی ۔۔۔ دوسری طرف جاتی نظر آئی ۔۔
تو وہ اس کے پیچھے وہیں چلا گیا ۔۔ جہاں اس وینیو کے پرائیوٹ رومز تھے ۔۔
ان میں سے ایک میں وہ گھسا تھا ۔۔
لیکن اس بیڈ روم میں ۔۔ کاوش کو کوئی نظر نہیں آیا تھا ۔۔۔ جب اسکی پشت سے ۔۔۔ اس کے چہرے پہ کوئی آنچل لہرایا تھا ۔۔۔
اور وہ بےساختہ پیچھے مڑا تھا ۔۔
جہاں وہ حسین لڑکی کھڑی ۔۔ اسے مسکراتی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔
” میرا نام ژاویلا ہے ۔۔ ”
وہ مسکرانے لگا ۔۔
” اور میں کاوش ہوں ۔۔ ”
بڑی نزاکت سے ۔۔ اس نے اپنے ڈریس کے اسٹریپس ۔۔ کندھے سے نیچے کیے تھے ۔۔ جیسے کاوش کو دعوتِ نظارہ دے رہی ہو ۔۔
کاوش ہوس بھری آنکھوں سے ۔۔ اس کی ادائیں دیکھ رہا تھا ۔۔
” چھو سکتے ہو مجھے ۔۔۔ ”
اس کے چھوتے ہی ۔۔ کاوش پیچھے صوفے پہ گرا تھا ۔۔ جبکہ ژاویلا اس کے تھائیز پہ بیٹھی تھی ۔۔
” ایلا کے سب بڑے دشمن ہو ناں تم ؟؟”
وہ پوچھ رہی تھی ۔۔ اور کاوش اس کے سنورے روپ کو دیکھتا ۔۔ اثبات میں سر ہلانے لگا ۔۔
” میں بھی ایلا کی سب سے بڑی دشمن ہوں ۔۔ میرے ساتھ مل کے ۔۔۔ اسے ختم کردو ۔۔ ”
کاوش مسکرایا تھا ۔۔
” فی الحال تو تم میں کھونا چاہتا ہوں میں ۔۔ ”
” اور میں بھی یہی چاہتی ہوں کاوش ۔۔ ”
اس کی آنکھوں میں دیکھتی کہہ رہی تھی ۔۔ اور پھر خود کو ۔۔ اس کے قریب کرتی ۔۔۔ وہ مکمل کاوش کو اپنی دسترس میں کر رہی تھی ۔۔ اور کاوش بھی اس کی اداؤں کے پیچ و خم میں مدہوش ہو رہا تھا ۔۔۔ دو شیطان مل کے ۔۔۔ ایلا کی ہستی کو مٹانے کا پلان بنا کے ۔۔ اب ان مکروہ لمحوں میں ۔۔ ایکدوسرے سے جسموں کی ہوس پوری کر رہے تھے ۔۔