یہ اورلڈ جاتا ہے مسٹر کاشان کو پورا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا اور وہ آہستہ سے چلتے ہوئے سٹیج کی طرف جارہا تھا سارے لوگوں کی زبان پر ایک ہی نام تھا کاشان حمدانی پاکستان کے مشہور بزنس مین تھے آج اس کو آورلڈ سے نوازا جا رہا تھا ہر نظر اس بلند اقامت شخص کو دیکھ دہی تھی جس نے صرف پچیس سال کی عمر میں پاکستان کے سب سے اعلی بزنس مین کا شرف حاصل کرلیا تھا لیکن اس کی چال میں عاجزی تھی چہرا کسی بھی تاثر کے بغیر تھا وہ آہستہ سے قدم بڑھاتے ہوئے سٹیج تک پہنچا۔
ہر طرف تالیوں کی گونج میں اس کو آورلڈ سے نوازا گیا اسلام وعلیکم میرا نام کاشان ہمدانی ہے مائیک میں اس کی آواز گونج رہی تھی میں سب سے پہلے اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہوں جنھوں نے ہر لمحہ میرا ساتھ دیا اور پھر آپ سب کا میں آج زندگی کے جس مقام پر کھڑا ہوں اس کا خواب میں نے بہت چھوٹی عمر میں دیکھا تھا لیکن اس کو پایہ تکمیل تک میرے یقین نے پہنچایا میں آپ کو صرف دو نصیحتیں کرنا چاہتا ہوں پہلی کے زندگی میں خود کو تنہا اور بیچارا کبھی نہ سمجھنا جب آپ خود کو تنہا اور بیچارا سمجھ لیتے ہوں نہ تو کبھی آپ آگے نہیں بڑھ پاتے اور آپ کے پاؤں ڈگمگانے لگتے ہیں اور یہ بات یاد رکھنا کے انسان کبھی تنہا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا رب ہر لمحے اس کے ساتھ ہوتا ہے ہمیں صرف اپنے رب کو محسوس کرنا ہوتا ہے اور دوسرا کبھی یقین نہ ہارو اس نے یہ کہ کے مائیک رکھا اور نیچے کی طرف چل دیا
فنکش سے واپسی پر اس کو رات کا ایک بج گیا تھا وہ سیدھا کمرے میں آیا اور اپنی ڈائری اٹھا لی آج وہ اپنی ڈائری شروع سے دیکھ رہا تھا وہ اس پر بچپن سے لکھتا تھا ڈائری کے اوراق کو کھولتے ہی وہ ماضی کے بنوں میں کہیں کھو گیا۔
ماضی
آج کاشان کی پیدائش کا دن تھا وہ سات سال کا ہوگیا تھا اس لیے گھر میں پارٹی بھی تھی وہ حمدانی صاحب اور نائیلہ کا ایک ہی بیٹا تھا اس لیے انھوں نے بہت لاڈ سے پالا تھا حمدانی صاحب کا اپنا بزنس تھا وہ دو بھائی تھے جب کے دوسرا بھائی امین کوئی کام نہیں کرتا تھا اس لیے اس کی بیوی اور بچے کی زمہ داری بھی حمدانی صاحب ہی نبھارہے تھے۔
بابا آپ نے کہا تھا کہ پارٹی کے بعد آپ اور مما مجھے گھومانے لے جاؤگے چلیں کاشان نے پارٹی ختم ہوتے ہی کہا تھا ہاں یاد ہے چلو چلتے ہیں حمدانی صاحب نے پیار سے کہا شکریہ بابا آپ دنیا کے سب سے اچھے بابا ہیں کاشان نے خوش ہوکر کہا تھا۔
حمدانی صاحب آخر کار اس کی فرمائش پر اس کو ساحل پر لے آئے تھے کاشان بہت خوش تھا ماما بابا میں وہاں پر کھیل لوں اس نے معصومیت سے پوچھا تھا ہاں کھیل لوں لیکن دور نہ جانا نائیلہ بیگم نے کہا وہ تھوری دور کھیلنے لگ گیا تھا لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس کو اپنے والدین نظر نہیں آئے تو وہ رونے لگ گیا اس کو لگا کے وہ یہاں تنہا ہے پر اچانک سامنے سے اس کو اپنے والدین آتے ہوئے نظر آئے تھے وہ رو کر ان کے پاؤں کے ساتھ لپٹ گیا تھا کیا ہوا بیٹا نائیلہ نے پوچھا آپ دونوں کہا چلے گئے تھے میں اکیلے میں گھبراگیا تھا اس نے جواب دیا
اس کی بات سن کر حمدانی صاحب نے اس کے آنسو صاف کیے اور کہا بیٹا ہم یہیں تھے اور آپ اتنی سی بات پر کیوں گھبرا گئے دیکھوں بیٹا ایک بات یاد رکھنا ہم انسان کبھی تنہا نہیں ہوتے ہمارا رب ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔
اور ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا زندگی میں ہمیشہ ہم آپ کے ساتھ نہیں ہونگے کیونکہ زندگی کی جنگ ہر انسان کو اکیلے ہی لڑنی ہوتی ہے اس لیے اپنی زندگی میں آنے والی ہر مشکل کو خود حل کرنا سیکھو اب گھر چلو ہم لیٹ ہوگئے ہیں ہم وہ اپنے والدین کے ساتھ گھر روانہ ہوگیا لیکن اس کے دماغ میں اس کے بابا کی باتیں گھوم رہی تھی ابھی وہ راستے میں ہی تھے کے ان کی کار کا ایکسیڈنٹ ہوگیا جس میں کاشان کو تو معمولی چوٹیں آئی لیکن حمدانی صاحب اور نائیلہ اپنی زندگی ہار گئے۔
کاشان اپنی زندگی میں اس دن آخری بار رویا تھا کیونکہ شاید وہ سمجھ گیا تھا اس کو چپ کرانے والے چلے گئے ہیں اس دن کے بعد وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا ایک دن میں ہی اس کے رشتے داروں کے رویے اس کے ساتھ بدل گئے جہاں کچھ کی آنکھوں میں اس نے اپنے لیے ہمدردی دیکھی تو کچھ کی آنکھوں میں حقارت۔
وہ شروع سے حساس تھا اب اتنی چھوٹی عمر میں زندگی کی حقیقت سمجھ گیا لیکن اس نے رونا اور ڈرنا چھوڑ دیا کیونکہ وہ یہ بات سمجھ چکا تھا کے اس کا رب اس کے ساتھ ہے وہ رات کو سکول کا ہوم ورک کر رہا تھا کے اس کو پیاس محسوس ہوئی اور وہ پانی پینے کے لیے نیچے آیا ابھی پانی پی کے وہ جارہا تھا کے چچا کی آواز سے اس کے قدم رک گئے دیکھو سدرہ میں نے سوچا ہے کہ ہم کاشان کو ہوسٹل بھیج دیتے ہیں بھائی صاحب نے سارا بزنس اور یہ گھر اس کے نام کیا ہوا تھا اس کو یہاں سے بھیجنے کے بعد سب کچھ آہستہ آہستہ اپنے نام کرا لیں گے اور اس کو پھر کسی درالامان میں بھیج دیں گے وہ یہ لفظ سن کر حیران ہوا۔
وہ خاموشی سے سیدھا اپنے کمرے میں آگیا اس کے دماغ میں ابھی بھی اس کے چچا کی آوازیں گونج رہی تھی وہ کم عمر ضرور تھا لیکن وقت اور حالات نے اس کو سمجھدار بنا دیا تھا وہ چھوٹی سی عمر میں زندگی کی تلخ حقیقت کو جان چکا تھا ایسا ہی تو ہوتا ہے بعض دفعہ زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے صدیاں لگ جاتی ہیں اور بعض دفعہ ایک لمحے میں انسان سب کچھ سمجھ لیتا ہے اور ایسا ہی کاشان کے ساتھ ہوا۔
لیکن ایک چیز کا فیصلہ جو اس نے کیا تھا وہ یہ تھا کہ وہ اپنے بابا کے بزنس کو سنبھالے گا کیونکہ وہ جانتا تھا کے اس کے بابا کا خواب تھا کے وہ اپنے بزنس کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچائے اور وہی خواب اس نے اپنی ننھی آنکھوں میں سجا لیا تھا۔
کچھ دن ایسے ہی گزر گئے وہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگیا اب اس کو اپنے سارے کام خود کرنے پڑتے تھے اور چچی سے الگ بات بات پر طعنے سننے پڑتے وہ یہ جانتا تھا کہ یہ گھر اس کا ہے پر پھر بھی وہ اجنبیوں کی طرح رہ رہا تھا اس کی زندگی ان کچھ پلوں میں گزر گئی تھی جس کی وجہ سے تبدیلی اس میں بھی آگئی تھی وہ اپنے رب کے بہت قریب ہوگیا تھا وہ اپنا ہر لمحہ اپنے رب سے باتیں کرتے ہوئے گزار دیتا تھا اور پھر کچھ دن کے بعد اس کو ہاسٹل بھیج دیا گیا اور نا چاہتے ہوئے بھی اس کو اپنا گھر چھوڑ کے جانا پڑا اس گھر کو جس میں اس کی اپنے والدین کے ساتھ یادیں تھی وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا وہ ان لوگوں کے فیصلے کے خلاف مزاحمت کیسے کرتا جبکہ ابھی خود وہ بہت چھوٹا تھا اس لیے خاموش ہوگیا۔
ہاسٹل میں آتے ہی اس نے بہت محنت سے پڑھائی شروع کردی تھی اس کے چاچو جو اس کو خرچ بھیجتے وہ بہت مشکل سے اس میں اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کرتا تھا اس کو رہ رہ کر وہ وقت یاد آتا جب وہ ہر چیز اپنی مرضی سے خریدتا تھا لیکن اب اس کو کچھ بھی لینے سے پہلے سوچنا پڑتا تھا۔
لیکن اس نے فیصلہ کر لیا تھا وہ اپنا سب کچھ وقت آنے پر ان سے لے گا اس لیے وہ بہتر وقت کے انتظار میں تھا اس کو اس بات کا اطمینان حاصل تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے اس کا رب اس کے ساتھ ہے اس یقین نے اس کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا تھا۔
کچھ سال ایسے ہی بیت گئے تھے اس کی زندگی ویسی ہی تھی اس کے چچا نے اس کی جائیداد پر قبضہ کرلیا تھا اور وہ ہاسٹل میں رہ رہا تھا شاید ہمارے معاشرے کا المیہ بھی یہی ہے کے ہم یتیم کو کچھ سمجھتے ہی نہیں اور ان کے مال پر اپنا حق سمجھ لیتے ہیں اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہورہا تھا۔
آج اس کے سیکنڈ ائیر کا رزلٹ آچکا تھا اور اس نے پورے کالج میں ٹاپ کیا تھا وہ بہت خوش تھا لیکن اس کے چچا کی کال نے اس کو الجھن میں ڈال دیا تھا وہ اس کو گھر آنے کا کہ رہے تھے کیونکہ انھوں نے اس سے کچھ پیپرز پہ سائن کرانے تھے اور وہ شاید جانتا تھا کے کون سے پیپرز پر سائن چاہے انھیں اس لیے وہ چلا گیا آج کتنے عرصے کے بعد اس نے اپنے گھر قدم رکھے تھے وہ گھر پہنچا تو اس کو پرانی یادوں نے گھیرلیا تھا۔
دل میں کہیں درد ہوا تھا سامنے ہی لانج میں اس نے اپنے چچا کو اپنی فیملی کے ساتھ دیکھا آو بیٹا انھوں نے مصنوعی مسکراہٹ سجا کے کہا تمہیں ہم نے بتا تو دیا تھا کہ ہم تمہیں کچھ پیپرز پر سائن کرنے کے لیے بولایا ہے وہ سیدھا اپنی بات پر آئے انھوں نے اس کو پین اور کاغذ پکڑایا اس نے دیکھا تو وہ واقعی جائیداد کے پیپرز تھے میں اس پر سائن نہیں کرسکتا اس نے جواب دیا اس کی بات سن کر سب کے منہ کھل گئے تھے کیا کہا تم نے ایک ہم نے تمہیں یتیم سمجھ کر تمھاری پرورش کی اور تم ہم سے ہی بحث کررہے ہو چاچی نے زہر اگلا تھا ہاں تو کون سا احسان کیا ہے مجھ پہ آپ نے میری جائیداد پر بھی تو اتنے عرصے سے آپ لوگوں نے عیش کی ہے۔
اور آپ لوگوں کو بتاتا چلوں جس رات آپ لوگ میرے خلاف پلانیں کر رہے تھے میں نے سب سن لیا تھا اور پاپا کے دوست وکیل انکل کو فون کرکے بتا بھی دیا تھا اور انھوں نے پیپرز بھی بنا دیے تھے جس کے حساب سے جب میں نے بیس سال کا ہونا تھا مجھے میری جائیداد مل جانی تھی۔
اس لیے آپ لوگ یہاں سے جانے کا بندوبست کریں میں اب آپ لوگوں کو ایک منٹ بھی اپنے گھر میں برداشت نہیں کروں گا اس کی باتیں سن کر سب پرشان ہوگئے انھوں نے بہت معافی مانگی پر اس نے معاف نہیں کیا ان کے جانے کے بعد اس نے خود بزنس سنبھالا اور اس کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا اس کے خود پر اور اپنے رب پر یقین کی بدولت ایسا ممکن ہوا تھا۔
اچانک بادل کے گرجنے کے ساتھ ہی یادوں کا تسلسل ٹوٹا تھا آج اتنے عرصے کے بعد اس کی آنکھوں سے آنسو گرا تھا لیکن یہ آنسو خوشی کا تھا وہ بہت خوش تھا اس نے اپنی زندگی کی جنگ کو جیت لیا تھا کیونکہ اس کو ایسے لوگوں سے نفرت تھی جو اپنے یتیم اور مسکین ہونے کی وجہ سے اپنی اس کمزوری کا رونا روتے ہیں اور پھر اس بے رحم معاشرے میں کچل دیے جاتے ہیں اس نے اپنی اس کمزوری کو اپنی طاقت بنایا اور اپنے دیکھے ہوئے خوابوں کو پورا کیا