(Last Updated On: )
یہاں کا تو قصہ میں نے یہیں چھوڑا اور اس مذکور سے منہ موڑا۔ اب ان غم زدوں کا ماجرا سنو، ٹک ادھر کان لگاؤ۔ جوں ہیں اچانک آنکھ ایک خواص کی خواصوں میں سے کھل گئی تو کیا دیکھتی ہے نہ شاہ زادہ ہے وہاں نہ پلنگ۔ گھر کا ہو گیا ہے اور ہی رنگ۔ گھبرا کر وو اٹھ بیٹھی اور سب کو اٹھا بٹھایا۔ پھر کہنے لگی: ہے ہے! یہ کیا غضب ہوا۔ چاروں طرف اندھیرا پڑ گیا۔ وہ چاند کدھر کو جا چھپا۔ باغ میں کانٹے ہی رہ گئے، پھول درمیان سے جاتا رہا ؎
نہ وہ ہے پلنگ اور نہ وہ ماہ رو
نہ وہ گل ہے اس جا نہ وہ اس کی بو
آخر سب کی سب حیران ہو گئیں کہ یہ کیا ہوا۔ ہم کیا کریں، کدھر جاویں۔ بادشاہ کو اب کیا منہ دکھلاویں۔ کوئی سر پر ہاتھ رکھ تصویر ماتم کی شکل بنی، کوئی انگلیوں کو دانتوں میں داب کھڑی کی کھڑی رہ گئی ؎
کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی
کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی
کوئی رو رو چھاتی پیٹ بلبلاتی تھی، کوئی بال کھول زمین پر پٹکنیاں کھاتی تھیں۔ کوئی بے تابی سے خاک پر لوٹنے لگی، کوئی غم سے اکتا کر اپنا گلا گھونٹنے لگی۔ کوئی نرگس کی طرح حیرت سے آنکھیں کھول رہ گئی۔ کسی کے دیدۂ خوں بار سے جوے خوں بہ گئی۔ کسو نے اپنا منہ طماچے مار مار لال کیا۔ کسو نے کہا: ہاے! اب یہ گھر خراب ہوا۔ آخر ان کو اس بات چُھٹ اور کچھ نہ سوجھا یعنی یہ ماجرا گوش گزار بادشاہ کے کر دیجیے۔ آگے جو ہو سو ہو۔ اب تو سواے اس کے کچھ بن نہیں پڑتا۔
غرض اسی طرح سے سب کی سب روٹی پیٹتی آئیں اور یہ روداد حضور میں عرض کی۔ القصہ جب یہ بد خبری ما باپ نے سنی، کلیجا پکڑ خاک میں لوٹ گئے اور ایسے روئے کہ آنسوؤں کے دریاؤ بہ چلے۔ پھر تو محل میں کہرام پڑ گیا، شورِ قیامت برپا ہوا۔ اپنے اپنے مکانوں سے چھوٹی بڑی جتنی محل کی عورتیں تھیں سب ایک جگہ جمع ہو کر ایک بارگی نالہ و زاری کرنے لگیں۔ ایسا ماتم کا غل اٹھا جو سارے سوتے لوگ شہر کے چونک اٹھے اور بے حواس ہو کر جہاں کے تہاں بیٹھے کے بیٹھے، کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ آخر پادشاہ نے وو جو خبر لائیں تھیں، ان سے پوچھا: کہو کس جگہ میرا لعل تم نے کھویا اور کسی کوے میں میرے یوسف کو ڈبویا۔ اس کا مجھے ٹھور ٹھکانا بتاؤ۔ ایک ذرا تو مجھ کو ڈھارس بندھاؤ۔
پھر وہ خواصیں بادشاہ کو اپنے ساتھ لے کر اس باغ کے کوٹھے پر چڑھیں اور کہا: یہی مکان ہے جہاں دیکھتے دیکھتے آنکھوں سے اوجھل وہ ماہ ہوا اور ہمارا روسیاہ ہوا ؎
یہی تھی جگہ وہ جہاں سے گیا
مرے نوجواں! میں کدھر جاؤں پیر
عجب بحر غم میں ڈبویا ہمیں
کہا: ہاے بیٹا، تو یھاں سے گیا!
نظر تو نے مجھ پر نہ کی بے نظیر
غرض جان سے تو نے کھویا ہمیں
کس سے پوچھوں، کیا کروں۔ موت اختیار میں نہیں، ورنہ ابھی مروں۔ ہزار افسوس! نہ یہاں کچھ زور چلتا ہے، نہ زر کام آتا ہے ؎
کلیجا پکڑ ماں تو بس رہ گئی
کلی کی طرح سے بِکس رہ گئی
غرض صداے ماتم کی دم بدم ترقی تھی اور شور و فغاں کی بڑھتی۔ ندان لبِ بام پر آدمیوں کی کثرت یہ بڑھی کہ تلے کی زمین اوپر ہو گئی۔ آدھی رات تو سونے میں کٹی، باقی جو رہی تھی سو رونے میں کٹی ؎
عجب طرح کی شب تھی ہیہات وہ
قیامت کا دن تھی نہ تھی رات وہ
جب فجر ہوئی تو سب مل کر سروں پر خاک اڑانے لگیں اور لہو کے آنسو بہانے۔ پھر تو یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی کہ گل اس دولت کے چمن کا یک بیک اپنی جگہ سے آدھی رات کو گم ہو گیا۔ آخر یہاں تک رونا پیٹنا پڑا کہ باغ سارا ماتم سرا ہو گیا۔ اُس سروِ خوش رفتار کے جانے سے تمام پھول داغ سے نظر آنے لگے اور اُس گل تازہ کے غائب ہونے سے وہاں کے نو نہال سب سوکھ کے لکڑی ہو گئے۔ درخت پاتوں لگے، ثمر پائمال ہوئے۔ گلوں کا کلیجا اس صدمے سے پھٹ گیا اور بلبلوں کا جی نالہ و فغاں کو سن کر چہچہوں سے ہٹ گیا۔ کلی نے غم سے خونِ جگر پیا، گل نے طماچوں سے اپنا منہ لال کیا۔ نرگس کی آنکھوں کا نور اڑ گیا، سنبل کا ہر ایک بال اس غم سے پیچ کھا کر مُڑ گیا۔ گلِ اشرفی کا بھی رنگ زرد ہوا، لالہ سوزِ غم سے ایسا جلا کہ جامِ عشرت اپنا آگ میں پھینک دیا۔ انگور بھی مے غم سے مدہوش ہو کر گرے اور ساے درختوں کے سیہ پوش ہوئے۔ چنبیلی کا منہ سفید ہو گیا اور ہر ایک غنچہ کھلنے سے نا امید۔ القصہ وہاں ایسا سخت ماتم پڑا کہ ہر ایک درخت نخلِ ماتم بن گیا ؎
وہ لبریز جو نہر تھی جا بجا
سو آنکھوں کو وہ رہ گئی ڈبڈبا
اور اس میں جو فوارے تھے، سو ایسے بے آب ہوئے کہ ان میں تاب و توانائی اچھلنے کی نہ رہی۔ یہاں تلک روئے کہ آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے۔ چشموں کا حال ایسا تباہ ہوا کہ ان کے پانی نے اپنا رنگ سیاہ کیا۔ کوئیں دل میں چپکے چپکے روتے تھے اور آبشاریں ڈاڑھ مار مار۔ باؤلی بھی روتے روتے باؤلی بن گئی اور آبجو دیوانی سی ادھر ادھر پھرنے لگی۔ غرض ہر ایک وہاں کا ساکن آپ میں نہ تھا ؎
نہ بگلوں کا عالم، نہ وہ قرقرے
نہ وہ آبجوئیں، نہ وہ سبزے ہرے
جن منڈیروں پر مور ناچتے تھے، وہاں کوے بولتے ہیں۔ جہاں وے سہاونی درختوں کی چھائیں تھیں، اب وہاں اداسی چھائی ہے۔ جہاں منقش رنگین مکان تھے، اب وہاں جا دیکھو تو یکسر ویران کھنڈر نظر آتے ہیں۔ جو دل اس کی محبت میں پھولوں کی طرح کھل رہے تھے سو جدائی کی خزاں سے مرجھا کر مضمحل ہو گئے ؎
نہ غنچہ، نہ گل، نہ گلستاں رہا
فقط دل میں ایک خارِ ہجراں رہا
سچ ہے خدا ہی کی ذات کو ہمیشہ قیام ہے اور کوئی چیز مدام یکساں نہیں رہتی کیونکہ کون و فساد کے عالم کایہی خاصّہ ہے کہ ایک حال پر نہیں رہتا۔
القصہ جب کئی مہینے آہ و زاری میں اس وارداتِ ناگہانی کے سبب گذر گئے، وزیروں نے دیکھا کہ فرزند کی مفارقت کے غم و غصے میں بادشاہ کا حال تباہ ہوا جاتا ہے اور ملک کے بند و بست میں تخلل نظر آتا ہے، سمجھانے لگے کہ پیر و مرشد! اتنی اضطرابی و بے تابی خوب نہیں۔ امید ہے کہ وہ تم سے بھی پھر آ ملے۔ خدا کی قدرت سے کچھ دور نہیں ؎
خدا کی خدائی تو معمور ہے
غرض اس کے نزدیک کیا دور ہے
واللہ اعلم اس میں کیا بھید ہیگا، انجام کسی پر معلوم نہیں۔ مرتے کے ساتھ کوئی نہیں مرتا، نہ سدا دن کسی کے ایک سے رہتے ہیں۔ آپ نے جو اتنی دولت لٹائی اور شب و روز رویا کیے، سواے ضرر کے کچھ اور بھی فائدہ ہوا؟ آج تک نہ وہ ملا نہ خبر اس کی کہیں پائی۔
اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ جدائی اس کی حضرت کو کسی طرح گوارا نہیں، لیکن خدائی سے کیا چارا۔ پر ہم کو یہ یقین ہے کہ آپ اپنے فرزند کو پھر دیکھیں گے، کیوں کہ نجومیوں کا قول فدویوں کو خوب یاد ہے اور اغلب کہ پیر و مرشد کی خاطرِ مبارک میں بھی ہو۔ آگے ہی انھوں نے یہ خبر دی تھی کہ لڑکے کو بارھویں برس ڈر ہے، پر جی جوکھوں نہیں۔ چنانچہ ایک بات تو ان کی آزمائش میں آئی۔ یقین ہے کہ دوسری بھی مقرر ہوگی، آپ خاطر جمع رکھیے۔
حاصل یہ ہے کہ انھ باتوں سے تھوڑی سی تسکین دلِ بے قرار کو دے کر حضرت نے فرمایا: اب مجھے اس کے ملنے کی خدا ہی سے امید ہے کیوں کہ اس کا کھوج بشر کی تدبیر سے نہایت بعید۔ خیر جو خواہش اس کی تھی سو ہوئی۔ آئندہ جو وہ چاہے گا سو ہوگا۔ آخرش بادشاہ راضی ہوا۔ ان سب نے سمجھا بجھا پھر تخت پر بٹھایا اور آپ بھی اپنے اپنے عہدوں پر قائم ہوئے ؎
مجھے دے کے مے، کھوج اس کا بتا
ذرا خضرِ رہ تو ہی ہو ساقیا!
نہ پائی کہیں یہاں تو اُس گل کی بو
کروں اب پرستان میں جست و جو