”یہ۔۔یہ نکاح والی بات آپ نے پہلے تو نہیں بتائی“ خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے واجد نے باپ کی طرف تائیدی نظر وں سے دیکھتے ہوئے کہا لیکن باسط صاحب نے نظریں پھیر لیں انہیں اپنے بیٹے کی بات پسند نہیں آئی تھی۔
”آپ باپ بیٹے نے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا کب سے آپس میں ہی بات کرنے میں لگے ہیں“ آسیہ بیگم کے لہجے میں محسوس کی جانے والی ناگواری تھی۔
”ٹھیک ہے میں نکاح میں شرکت کے لئے آجاؤں گا کشمالہ بیٹی کی طرف سے بھی کوئی ہونا چاہیے “ انہوں نے ہامی بھرتے ہوئے کہا اور اٹھ کر کشمالہ کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔
”ہمارے ہاں لڑکیاں شادی سے پہلے سسرال میں نہیں رہتیں جمعہ تک کشمالہ ادھر ہی رہے گی“ واجد نے کشمالہ کو رکوانے کی ایک اور کوشش کرنی چاہی۔ جن نفوس کی شادی کی بات ہو رہی تھی ان کے علاوہ سب ہی بول رہے تھے۔
”بے فکر رہیں بیٹا۔۔۔ وہ کشمالہ کا سسرال نہیں اس کا اپنا گھر ہے جمعہ تک مجتبٰی گھر پر نہیں رہے گا“ وہ بھی آسیہ بیگم تھیں ان کے پاس ہر سوال کا جواب پہلے سے تیار ہوتا تھا مجتبٰی کو یکسر نظر انداز کرکے انہوں نے اپنی بات جاری رکھی۔
”اچھا ہم چلتے ہیں جمعہ کو ملاقات ہو گی۔۔۔ آؤ کشمالہ بیٹی“ انہیں اٹھتے دیکھ کر وہ دونوں بھی اٹھ کھڑے ہوئے ۔
”کمال کی لڑکی ہے کبھی انڈین آرمی کے بندے کو پھنساتی ہے تو کبھی پاکستانی آرمی کے “ واجدجل بھن کر بڑ بڑایا اس کی بڑبڑاہٹ اتنی بلند تھی کہ ان سب نے بھی سنی ۔ جہاں مجتبٰی کا غصے سے خون کھول اٹھا وہیں کشمالہ کا رنگ بے اختیار فق ہوا پہلی بار کسی نے اس کے کردار پر بات کی تھی ۔ مجتبٰی نے لمحے کے ہزارویں حصے میں آگے بڑھ کر واجد کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا لمحہ بھر کو کمرے میں موجود سب لوگوں کو سانپ سونگھ گیا تھا واجد نے غصے سے بھڑک کر مجتبٰی کا گریبان پکڑا ۔ اس سے پہلے کے وہاں بات اور بڑھتی باسط صاحب نے اپنے بیٹے کو سنبھالا تھا اور آسیہ بیگم زبردستی مجتبٰی کا ہاتھ کھینچ کر باہر لے گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
واپسی پر مجتبٰی نے گاڑی اپنے گیٹ کے سامنے ہی روکی تھی۔ باہر کھڑے پہرے داروں نے انہیں حیرت سے دیکھا وہ کب ان کی ناک تلے سے غائب ہوئے ان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوا تھا۔ ان پہرے داروں میں سے ایک نے فوراً فون کر کے ہارون صاحب کو اطلاع دی تھی۔
”ہاں بولو ہارون خیر سے فون کیا؟“ آسیہ بیگم نے سلام کرنے کے بعد پوچھا۔ دوسری طرف ان کی بات پر ہارون صاحب کا غصہ ساتویں آسمان تک جا پہنچا۔
”میں نے تمہیں منع کیا تھا آسیہ اسے گھر سے باہر نہیں لے جانا پھر اسے لے کر باہر کیوں نکلی؟“ وہ پھٹ پڑے تھے۔لاؤنج میں قدم رکھتے آسیہ بیگم ان کی بات پر مسکرائی تھیں۔
”ضروری شاپنگ کرنی تھی اسی لئے لے کر گئی تھی۔۔۔ بے فکر رہیں آپ کا ایک جوان ہمارے ساتھ تھا اسی لئے ہم خیر خیریت سے پہنچ گئے ہیں“ آسیہ بیگم نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔ نادانستہ طور پر وہ کشمالہ کے کسی رشتہ دار کی پاکستان میں موجودگی کو چھپا گئی تھیں۔
”تم دونوں ماں بیٹا ایک جیسے ہو مجال ہے جو میری کسی بات کا اثر ہو“ وہ جھنجھلائے تھے۔
”جمعہ کو کشمالہ اور مجتبٰی کا نکاح ہے آپ بھی انوائیٹڈ ہیں“ انہوں نے لاؤنج میں رکھے صوفے پر بیٹھتے ہوئے جتنے آرام سے کہا تھا اتنا ہی حیرت کا شدید جھٹکا دوسری طرف لگا تھا۔
”تم پاگل ہو گئی ہو؟۔۔۔ پتا نہیں وہ لڑکی کون ہے کہاں سے آئی ہے اور تم چلی ہو اسے گھر کی بہو بنانے “ ہارون صاحب کو اپنی بہن سے ایسی بیوقوفی کی امید قطعی نہیں تھی۔کشمالہ جو آسیہ بیگم سے بات کرنا چاہتی تھی انہیں فون پر مصروف دیکھ کر کچھ دیر پاس کھڑے رہنے کے بعد کمرے میں چلی گئی ۔
”کچھ لوگوں کے لئے دل کی گواہی کافی ہوتی ہے “ ان کے لہجے میں یقین تھا۔
”وہ لڑکی ایک مجرم ہےکیا پتہ اس کے پیچھے کتنا بڑا گینگ ہو۔۔۔ ویسے بھی بہت جلد حکومت کی توجہ اس کی طرف مبذول ہو جائے گی پھر کیا کرو گی؟“ انہوں نے درشتی سے پوچھا انکا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح آسیہ بیگم کو اس حماقت سے باز رکھیں ۔
”مجتبٰی نے کسی کو اس کے آبائی گاؤں سے انفارمیشن نکلوانے کی ذمہ داری سونپی ہے جلد آپ کا یہ شک بھی دور ہو جائے گا۔۔۔ اور رہی بات کشمالہ کی تو کرنل صاحب اس کے بارے میں میں خود جنرل ابراہیم سے بات کر لوں گی بچی کو میں نے پناہ دی ہے ایسے تو کسی کے حوالے نہیں کروں گی“ آسیہ بیگم نے قطعیت سے کہا۔ جرنل ابراہیم کی بیوی ان کی بہترین دوست تھیں اور انہیں کے توسط سے کبھی کبھی جرنل صاحب سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی۔
”اگر تم ماں بیٹا کسی مشکل میں پھنسے تو میں ہرگز مدد کے لئے نہیں آؤں گا“ غصے سے کہتے ہوئے انہوں نے ٹھک سے فون بند کر دیا فون کان سے ہٹاتے ہوئے آسیہ بیگم نے گہری سانس لے کر اپنے برابر بیٹھے مجتبٰی کی طرف دیکھا جو ساتھ والے گھر میں گاڑی واپس کر کے ان کے پاس ہی آبیٹھا تھا۔ابھی آسیہ بیگم کو ایک ساتھ کئی محاذوں پر لڑنا تھا۔
”یہ سب کیا ہے ممی؟۔۔۔ آپ میری اور کشمالہ کی مرضی جانے بنا سب کو انوائیٹ کرتی جا رہی ہیں“ اس کا لہجہ ناراضگی لیے ہوا تھا۔
”میں تمہاری ماں ہوں اور مجھے پتا ہے تمہاری کس میں بھلائی ہے اور کس میں نہیں“ آسیہ بیگم نے روایتی ماؤں والا انداز اپنایا۔
”میں کشمالہ سے شادی نہیں کر سکتا۔۔۔ اسے سنبھلنے کا موقع دیں ابھیوہ بہت کم عمر ہے “مجتبٰی حد سے زیادہ سنجیدہ تھا۔
”یہاں پر رہنے کے لئے اسے کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہے۔۔۔ اور وہ نکاح کی صورت میں ہی ممکن ہے“ انہوں نے متحمل مزاجی سے کہا۔
”ہم پہلے ہی اس کی مدد کر رہے ہیں اس سب کے لئے نکاح کی کیا ضرورت ہے “ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ ماں کو کیسے سمجھائے۔
”لیکن کس بنیاد پر؟؟ اگر کل کو باسط صاحب نے رشتے داری کا دعوا کرتے ہوئے اسے مانگ لیا تو ؟؟ میں واجد یا اس جیسے کسی شخص سے اس کی شادی نہیں کر سکتی۔۔۔ اور پھر خبروں نے جو فضولیات پھیلائی ہیں وہ اس کی آنے والی زندگی میں مشکلات پیدا کر سکتی ہیں“ آسیہ بیگم نے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالی۔
”لیکن وہ کشمیر واپس جانا چاہتی ہے۔۔۔ آپ کو اس سے بات کئے بغیر اتنا بڑا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا“ اسے ماں سے اتنی مستعدی کی امید نہیں تھی باسط صاحب کے گھر اسے لگا تھا شاید انہوں نے موقع محل کی مناسبت سے ایسا کہا ہے لیکن جانتا نہیں تھا کہ وہ گھر آکر بھی اپنی بات پر ڈٹی رہیں گیں اور یہی چیز اسے پریشان کر رہی تھی۔
”میں اس سے بات کر لوں گی“ آسیہ بیگم پرُامید تھیں۔
”میری طرف سے اب بھی انکار ہے۔۔ ہماری عمروں میں بہت فرق ہے“ وہ اپنی بات پر قائم رہا۔
”صرف نو سال اور پانچ مہینوں کا فرق ہے۔۔۔ یہ فرق اتنا زیادہ نہیں ہوتا فضول بہانے نہ تراشوں ۔۔۔تم معاشرے کی نزاکتیں کیوں نہیں سمجھ رہے ہو مجتبٰی؟ “ آخر میں وہ جھنجھلائی تھیں۔
”کیوں کہ میں کوئی نازک اندام حسینہ نہیں ہوں ممی۔۔۔ جو خوشی خوشی معاشرے کی بھینٹ چڑھ جائے“ وہ بھی چڑ گیا تھا۔
”اِدھر اُدھر کی بیکار باتیں بنانے کے بجائے مجھے انکار کی اصل وجہ بتاؤ“ آسیہ بیگم نے مجتبٰی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ انہیں اتنا اندازہ تو ہوگیا تھا کہ مجتبٰی کے انکار کی وہ وجہ نہیں تھی جو وہ بتا رہا تھا۔
” میں نہیں چاہتا سب رشتے کھونے کے بعد وہ آنے والے وقت میں اپنے شوہر کو بھی کھو دے“ کچھ دیر بعد مجتبٰی نے نظریں جھکاتے ہوئے اپنے دل کی بات بتائی۔
”ٹھیک ہے تم مجھے دنیا کا کوئی ایسا شخص دیکھا دو جس کی زندگی کی گارنٹی ہے ؟“ آسیہ بیگم نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جو نظریں جھکائے سامنے پڑے میز پر پاؤں کی ٹھوکر سے ہلکی ہلکی ضربیں لگا رہا تھا۔
“اگر اس کی زندگی میں بیوگی کی چادر اوڑھنا لکھا ہوا تو میں اور تم کچھ نہیں کر سکتے مجتبٰی۔۔۔ میں بس اتنا کر سکتی ہوں کہ اس کا ہاتھ ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں جس پر مجھے اعتماد ہو کہ وہ اسے خوش رکھے گا۔۔۔ اور اپنے بیٹے کا علاوہ میں اس بچی کے معاملے میں کسی اور پر بھروسہ نہیں کر سکتی۔ اللہ نے اسے ہم سے ملایا ہے تو اس میں کوئی نہ کوئی اس کی مصلحت ہو گی نا۔۔۔ اب اس کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے یہ ذمہ داری ہمیں ہی نبھانی ہے ۔“انہوں نے نرمی سے سمجھایا تو وہ خاموش ہو گیا۔
”لیکن میں پہلے کشمالہ سے بات کرنا چاہتا ہوں “ اس نے ہتھیار ڈالتے ہوئے خواہش ظاہر کی۔
”شریف لڑکوں کے والدین لڑکی سے خود بات کرتے ہیں اس لئے اس سے میں بات کر لوں گی۔۔۔ تم اپنا بوریا بستر سمیٹو اور اپنے نانا کے گھر جاؤ جمعہ والے دن بارات کے ساتھ ہی گھر میں قدم رکھنا آج سے یہ لڑکی والا گھر ہے“ اسے مانتے دیکھ کر انہوں نے فوراً اپنی ٹون بدلی تھی۔
”یہ آپ اچھا نہیں کر رہی ہیں ممی“ مجتبٰی نے دہائی دی۔
”جلدی نکلو اس سے پہلے کے تمہارے ماموں ابو کے کان بھریں جا کر اپنے نانا ابو کو کشمالہ کے بارے میں قائل کرنے کی کوشش کرنا۔۔۔میں بھی کل چکر لگاؤں گی“ اس کی دہائی کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے اسے وہاں سے چلتا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ اللہ مجھے بیٹی سے نوازے لیکن اس نے تین بیٹے عطا کر دیے۔ پھر سوچا چلو بہویں لاؤں گی تو بیٹی کا ارمان پورا ہو جائے گا یہاں بھی اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا دو بیٹے شہادت نوش فرما گئے تو اب امیدیں مجتبٰی سے لگا لیں ۔۔۔ تم سے مل کر ایسے لگا جیسے اللہ نے بیٹی کی خواہش پوری کر دی ہو۔۔۔اسی لئے بیٹی سمجھ کر تمہاری زندگی کا اہم فیصلہ تم سے پوچھے بغیر کر دیا“ انہوں نے بیڈ پر کشمالہ کے پاس بیٹھتے ہوئےلمبی تمہید باندھی ۔
”تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے کشمالہ ؟؟؟“ انہوں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہیں وہ انکار نہ کر دے۔
”میں واپس جانا چاہتی ہوں۔۔“ کشمالہ نے گھٹنوں سے سر اٹھا کر آسیہ بیگم کی طرف دیکھا تھا۔ شدت ضبط کے باعث اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
”واپس کس کے پاس جاؤ گی وہاں اب کون بچا ہے؟؟ “ آسیہ بیگم نے دلگیر لہجے میں کہا۔
”میرا گھر ہے وہاں “ نظریں پھیر کر وہ خلاؤں میں گھورنے لگی تھی۔
”گھر مکینوں سے ہوتے ہیں بیٹا۔۔۔ اور وہاں کوئی مکین نہیں ہے۔ پھر وہاں جانے پر بھارتی فوج تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گی ان کی نفرت کے لئے تو کسی کے ساتھ بس پاکستان کا نام لگ جانا ہی کافی ہے ۔۔۔ دنیا میں اچھے برے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں میں نہیں چاہتی تمہارا دوبارہ کسی برے انسان سے پالا پڑے“ انہوں نے حقیقت کا دوسرا رخ دکھانا چاہا جواباً وہ خاموشی سے لب کاٹتی رہی۔
”زندگی میں سہاروں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے اگر اللہ آپ سے کچھ رشتے لیتا ہے تو کچھ عطا بھی کرتا ہے۔۔۔ اور جن رشتوں کو جوڑنے کا موقع اللہ دے رہا ہو ان سے انکار نہیں کرتے۔۔۔ ابھی صرف نکاح ہو گا رخصتی اس وقت تک ملتوی رہے گی جب تک تم نہیں چاہوں گی ۔۔۔کیا اب تم رضا مند ہو ؟“ انہوں نے مان بھرے لہجے میں پوچھا توکشمالہ انکار نہیں کر سکی۔ہامی بھرتے ہوئے اس نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔ آسیہ بیگم نے شکر ادا کیا کہ یہ محاذ بھی سر ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والد کو بھی منا لیا تھا کشمالہ سے ملنے کے بعد عبدالرحمان صاحب نے مزید کوئی اعتراض نہیں کیا تھا وہ بھی لیفٹینٹ جرنل ریٹائرڈ تھے دنیا کی انہیں پرکھ تھی۔ ہارون صاحب کو بھی انہوں نے خود ہی قائل کر لیا تھا۔آسیہ بیگم تیاریوں میں مصروف ہو گئیں وقت کم تھا اور کام زیادہ تھے ۔ نکاح میں انہوں نے چند قریبی رشتے داروں کے علاوہ کسی کو بھی نہیں بلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعہ کی نماز کے بعد مہمان آنا شروع ہو گئے۔ مجتبٰی اپنے ناناابو ،ماموں ، مامی کے ساتھ آیا تھا اور آسیہ بیگم نے بیٹی کی ماں کی حیثیت سے شاندار استقبال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ مجتبٰی ماں کی تیاری اور خوشی دیکھ کر حیران ہو رہا تھا اس نے عرصے بعد انہیں اتنا خوش دیکھا تھا۔
”ابھی بھی وقت ہے مجتبٰی سوچ لے۔۔۔ بڑی خطرناک لڑکی ہے ٹریگر پر ہاتھ رکھے تو گولیاں ختم ہونے سے پہلے اٹھاتی نہیں ہے“ مولوی صاحب کو اسکی طرف آتا دیکھ کر ساتھ بیٹھے ولی نے سرگوشیانہ انداز میں چھیڑا اس سے پہلے کے مجتبٰی کوئی کرارا سا جواب دیتا مولوی صاحب اس کے پاس پہنچ گئے۔
”میری بات مان آئندہ کبھی گھر میں گن لے کر نہ آنا پتا چلے موصوفہ کو غصہ آئے اور تجھ پر پھول کی پتیوں کے بجائے گولیاں برسانا شروع کر دے “ نکاح کی مبارک باد دے کر گلے ملتے ہوئے ولی کی زبان پر ایک بار پھر کھجلی ہوئی تھی۔
”تمیز سے بات کریں مسٹر۔۔۔ وہ کیپٹن مجتبٰی کی زوجہ ہیں“ آج کے دن میں پہلی مسکراہٹ تھی جو نکاح کے بعد اس کے چہرے پر آئی تھی۔ خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑتے ہوئے وہ اب اچھا محسوس کر رہا تھا۔ ولی نے بھی سکون کا سانس لیا کب سے مجتبٰی کے چہرے پر چھائی سنجیدگی اسے پریشان کر رہی تھی اسی لیے مسلسل اس کا موڈ فریش کرنے کے لئے چٹکلے چھوڑ رہا تھا۔ نکاح کے بعد آسیہ بیگم رشتے دار خواتین کو کشمالہ کے کمرے میں لے جا کر اس سے متعارف کروا رہی تھیں کشمالہ کی گھبراہٹ کی وجہ سے انہوں نے اسے سب کے سامنے باہر نہیں بیٹھایا تھا۔ مجتبٰی جو سوچ رہا تھا شاید اب دلہن کو اس کے پہلو میں بیٹھا کرفوٹو شوٹ ہو گا اس کی حسرت دل میں ہی رہ گئی ۔آسیہ بیگم نے اسے کشمالہ کی جھلک تک نہیں دیکھنے دی تھی۔ وہ منہ بسورتے ہوئے صوفے پر بیٹھا کمرے سے آتی جاتی خواتین کے تبصرے سن رہا تھا۔ جو کشمالہ کی تعریف پر مشتمل تھے۔
” ممی ایسا کریں آپ اپنی بہو کو دیکھنے پر ٹکٹ لگا دیں۔۔لگے ہاتھوں کمائی بھی ہو جائے گی“ اس نے پاس سے گزرتی آسیہ بیگم کو دیکھ کر جل کے کہا تو جواباً وہ ہنس دی تھیں آج بات بے بات ان کے چہرے پر مسکراہٹ آ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
سب کے جانے کے بعد شام کو بالآخر مجتبٰی کو بہت ساری نصیحتوں کے ساتھ ملاقات کی اجازت مل گئی تھی۔ قدموں کی آواز سن کر ڈریسنگ کے سامنے کھڑی چوڑیاں اتارتی کشمالہ نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا وہاں کھڑے شخص کو دیکھ کر بے اختیار اس کی نظریں جھکی تھیں۔ سفید کرتا شلوار کے ساتھ بھورے رنگ کی واسکٹ پہنے وہ خاصا وجہیہ لگ رہا تھا۔ دوسری طرف وہ جو کرنے کے لئے لمبی لمبی باتیں سوچ کر آیا تھا اس کے سب لفظ مفلوج ہو گئے ۔آف وائیٹ کرتی اور شرارہ کے ساتھ وہ سرخ رنگ کا دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھی ہلکے سے میک اپ نے اس کے تھیکے نقوش کو مزید نکھار بخش دیا تھا۔ مجتبٰی نے اسے ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھا تھا اور اب احترام کے بعد یہ پہلی نظر تھی جس میں محبت کا عنصر بھی شامل ہو گیا تھا وہ خود پہ حیران ہوا رشتہ بدلنے سے اتنی جلدی جذبات کیسے بدل جاتے ہیں۔
”مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی تھیں“ نظریں جھکاتے ہوئے اس نے لب کھولے۔ وہ خاموشی سے بیڈ کے ایک کونے میں پہ ٹک گئی جبکہ مجتبٰی ایک طرف پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ لمحوں کے لئے ان کے درمیان معنی خیز خاموشی چھا گئی۔ وہ سننے کی منتظر تھی اور وہ بولنے کے لئے لفظ ترتیب دینے میں لگا تھا۔
”میں جانتا ہوں ہمارا نکاح جن حالات میں ہوا آپ یقیناً خوش نہیں ہوں گی بس آپ نے ممی کی باتوں میں آکر ہامی بھر لی ہو گی۔۔۔ یہ آپ کی پروٹیکشن کے لئے کیا گیا ہے آگے زندگی میں کبھی بھی آپ کوئی فیصلہ لینا چاہیں تو میں آپ کا ساتھ دوں گا“ وہ بول رہا تھا اور کشمالہ سوچ رہی تھی یہ تو وہی باتیں ہیں جو سامنے بیٹھے شخص کے حوالے سے اس کے ذہن میں بھی گردش کر رہی تھیں۔ مجتبٰی چپ ہوا تو ان کے درمیان پھر سے خاموشی چھا گئی۔
”آپ کچھ نہیں کہیں گی ؟“ اب کی بار بھی کمرے کی خاموشی کو مجتبٰی کی گھمبیر آواز نے ہی توڑا تھا۔
”میرے ابا ایک بات کہتے تھے کہ بیٹا جب بھی کسی سے کوئی رشتہ بناؤ تو اسے ہمیشہ اچھے سے نبھانا دلوں میں منافقت رکھنا اللہ کو سخت نا پسند ہے۔۔۔ ہمارا رشتہ جیسے بھی حالات میں جڑا ہو میں ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کروں گی“ اس نے لرزتی پلکوں کے ساتھ اپنی بات مکمل کی اور اس کی بات نے مجتبٰی کو اندر تک سرشار کر دیا تھا۔اب تک جو وہم اس کے اندر سر اٹھا رہے تھے سب ختم ہو گئے ۔ وہ مطمئن سا جانے کے لئے اٹھا۔
”سنیں “ دروازے پر پہنچ کر وہ رکا اور مڑتے ہوئے کشمالہ کو پکارا ۔
”جی“کشمالہ نے نظریں اٹھا کر دیکھا ایک لمحہ کو دونوں کی نظریں ملی تھیں۔
”کچھ نہیں ۔۔۔ بس دل چاہ رہا تھا کہ آپ ایک نظر مجھے دیکھ لیں آئینہ بتا رہا ہے آج میں خاصا ہینڈسم لگ رہا ہوں “ اس سے نظریں ہٹا کر آئینے میں نظر آتے اپنے سراپے پر ڈالتے ہوئے مجتبٰی نے کہا۔ اس کی شرارتی آنکھوں میں کئی جگنو چمکنے لگے تھے جواباً وہ جھینپ کر نظریں جھکا گئی۔ اس پر ایک مسکراتی نظر ڈالتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔
اگلے کچھ دن اس نے کشمالہ کے آبائی گاؤں سے ساری انفارمیشن نکلوانے میں صرف کیے تھے۔ انڈیا میں مقیم ایک دوست کی مدد سے اس نے احمد سے رابطہ کیا تھا اور احمد نے سارے حقائق اکھٹے کر کے بھیجوادئے تھے۔ ان پر ایک جامع رپورٹ تیار کرکے مجتبٰی نے ہارون صاحب کو بھیجوا دی ۔ اس میں کشمالہ کے سکول کا ڈیٹا، اس کا اور اس کے بہن بھائی کا برتھ سرٹیفیکیٹ اور امجد صاحب کے آئی ڈی کی کاپی کے ساتھ ان کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ بھی تھا۔ احمد نے ہر ممکن معلومات بھیج دی تھیں۔ اسی سلسلے میں کشمالہ کو انکوائری آفس بلوایا گیا تھا اور اسے وہاں جانے سے ڈر لگ رہا تھا ۔ پہ در پہ پڑنے والی مصیبتوں نے اس کی ساری خود اعتمادی چھین لی تھی۔
”ان کے پاس سارے ثبوت ہیں بس فارمیلیٹی کے لئے آپ سے چند سوال پوچھیں گے آپ نے بے خوف ہو کر ان کے سوالوں کے جواب دینے ہیں “ سامنے کھڑی کشمالہ کے ہاتھوں میں واضح لرزش محسوس کرتے ہوئے مجتبٰی نے اسے تسلی دی ۔ وہ دونوں اس وقت انکوائری آفس کے باہر کھڑے تھے اور خوف کے باعث کشمالہ کی رنگت زرد پڑ رہی تھی۔
”پاکستان میں غیر قانونی طور پر آنے کے جرم میں وہ مجھے جیل میں تو نہیں ڈال دیں گے؟“ بالآخر دل کے ڈر کو اس نے زبان دی۔
”بے فکر ہو کر جائیں محترمہ ۔۔آپ کیپٹن مجتبٰی عثمان کی بیوی ہیں۔۔۔کرنل عثمان شہید کی بہو ہیں۔۔۔ اسی لئے وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے“ اس نے کشمالہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے حوصلہ دیا۔
”اگر انہوں نے مجھے واپس کشمیر بھیج دیا تو؟“ اس کی زبان پر ایک اور خوف در آیا ۔
”کہا نہ کچھ بھی نہیں کریں گے۔۔۔ جسے پناہ دے دی جائے اسے ایسے واپس نہیں کیا جا سکتا“ اس کی بات پر کشمالہ اندر کی جانب بڑھ گئی۔ یہ مجتبٰی کا دیا ہوا حوصلہ ہی تھا کہ اس نے بنا ڈرے پر اعتماد لہجے میں انکوائری پینل پر موجود آفیسرز کے سوالات کے جواب دئیے تھے۔ اس کے جانے کے بعد ایک ریپورٹ تیار کرکے ہیڈ آفس بھیج دی گئی تھی۔ جس میں کشمالہ کو بے گناہ ثابت کرنے کے ساتھ اس کو مجتبٰی کی بیوی ہونے کی حیثیت سے پاکستانی شہریت دینے کی اپیل بھی کی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔
”کشمالہ امجد یہیں رہتی ہیں ؟ ؟ مجھے ان سے ملنا ہے“ بائیک ایک طرف کھڑی کرکے وہ شخص مجتبٰی ہاؤس کے گیٹ تک آیا اور باہر کھڑے گارڈ سے پوچھا ۔
”نہیں یہاں اس نام کا کوئی نہیں رہتا “ گارڈ نے سامنے کھڑے شخص کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیتے ہوئے وہی الفاظ دوہراے جو اس نام پر دوہرا نے کی انہیں ہدایات ملی تھیں۔
”نہیں وہ یہیں ہے میں نے خود ابھی کچھ دیر پہلے اسے کسی شخص کے ساتھ اندر داخل ہوتے دیکھا ہے“ کشمالہ کو گھر چھوڑنے کے بعد گھر سے کسی کام کے لئے نکلتے مجتبٰی نے بھی اس کے الفاظ سنے تھے۔
”آپ نے کسے یہاں داخل ہوتے دیکھا ہے؟“ مجتبٰی نے ابرواچکا کر اس شخص کو دیکھا وہ چہرہ کچھ جانا پہچانا تھا لیکن کہاں دیکھا تھا مجتبٰی کو یاد نہیں آ سکا۔
”وہی لڑکی جو ابھی کچھ دیر پہلے آپ کے ساتھ تھی کشمالہ امجد “ اس شخص نے اپنی بات دوہرائی۔
”میرے ساتھ تو میری بیوی تھی ضرور آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو گی “ مجتبٰی صاف انکار کرتے ہوئے باہر کھڑی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
”آپ جھوٹ نہیں بول سکتے میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کشمالہ امجد آپ کے ساتھ تھی اسی گاڑی میں “ اس شخص نے آگے بڑھتے ہوئے گاڑی کی طرف اشارہ کیا تھا۔
”آپ کون ہیں اورکس کی بات کر رہے ہیں میں اس سے یکسر لاعلم ہوں ۔۔۔میرے ساتھ میری بیوی تھیں اور ان کا نام کشمالہ نہیں ہے لہذا میرا وقت نہ ضائع کریں “ سختی سے کہتے ہوئے مجتبٰی گاڑی کا دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
”دراز قد۔۔۔بال فوجی کٹ۔۔۔خندہ پیشانی۔۔ہسپتال میں صفائی کرنے والے ایک شخص نے جو حلیہ بتایا تھا آپ اس پر پورے اترتے ہیں یقیناً آپ وہی ہیں جس نے اپنے کسی دوست کے ساتھ مل کر ہسپتال سے کشمالہ کی والدہ اور بہن کی ڈیڈ باڈی نکلوائی تھی میں ایک اینکر ہوں زاوار احمد ۔۔۔بہت مشکل سے میں نے کشمالہ کے بارے میں ساری معلومات اکھٹی کی ہیں ایسے تو نہیں جانے دوں گا“ گاڑی کے کھلے شیشے پر اپنے بازوں رکھتے ہوئے اس نے مجتبٰی کا بغور جائزہ لیتے ہوئے دھمکی دی ۔ اس کے تعارف پر مجتبٰی کو سمجھ آگیا کہ اس کا چہرہ جانا پہچانا کیوں لگ رہا تھا۔
”بیٹھو۔۔۔ گاڑی میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں “ مجتبٰی کے کہنے پر وہ فوراً دروازہ کھول کر اس کے برابر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
”کشمالہ امجد کا پیچھا کیوں کر رہے ہو؟“ مجتبٰی نے جیب سے موبائل نکالتے ہوئے سرسری سا پوچھا۔
”مجھے یہ ایک دلچسپ کیس لگ رہا ہے۔۔۔ میں اس لڑکی کی حقیقت جاننا چاہتا ہوں وہ واقعی کوئی جاسوس ہے یا کچھ اور۔۔۔ میرے اندازے کہ مطابق حقیقت وہ نہیں ہے جو میڈیا دیکھا رہا ہے “ یہ زاوار احمد کی عادت تھی کہ وہ کسی بھی ٹاپک پر شو کرنے سے پہلے اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرتا تھا اسی لئے آج کل کشمالہ کیس میں شہر کی خاک چھانتا پھر رہا تھا۔
”وہ ایک عام انسان ہے جسے بھارتی میڈیا نے جاسوس بنا کر پیش کیا ہے۔۔۔ اس کا پاکستان ،بھارت یا پھر کسی بھی ملک کی جاسوسی سے کوئی تعلق نہیں ہے“ مجتبٰی نے موبائل پر میسج ٹائپ کرتے ہوئے جواب دیا اس نے ولی کو آنے کا کہا تھا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچتے ہوئے اس نے ولی کے آنے سے پہلے کشمالہ کی کہانی مختصراً زاوار کو سنا دی تھی جسے سن کر وہ ششدر رہ گیا وہ جانتا تھا حقیقت کچھ اور ہے لیکن حقیقت اتنی تلخ ہو گی اسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔
”آپ کے خیال میں مجھے اب کیا کرنا چاہیے ؟“ کچھ دیر بعد زاوار احمد نے پوچھا وہ بھی گھاگ انسان تھا اتنا تو جان گیا کہ یہ سب بتانے کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہے۔
”میں چاہتا ہو آپ اس بارے میں ایک شو کریں جس میں بھارتی میڈیا اور میجر آتش کا پردہ فاش ہو۔۔۔ آپ کو ثبوت مہیا کرنا میرا کام ہے“ مجتبٰی نے سامنے سے آتے ولی کو ایک نظر دیکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا۔ گاڑی میں ولی کے بیٹھنے کے بعد اس نے ولی کے موبائل سے کچھ ثبوت زاوار احمد کے موبائل میں منتقل کیے تھے۔
”ٹھیک ہے جیسا آپ چاہتے ہیں ویسا ہی ہو گا“ کہتے ہوئے زاوار گاڑی کا دروازہ کھول کر اتر گیا۔
”تمہیں کیا لگتا ہے یہ اعتبار کے قابل ہے؟“ اس کے جانے کے بعد ولی نے پوچھا۔
”لگتا تو ہے ۔۔۔ لیکن پھر بھی اس پر پوری نظر رکھنی ہو گی ۔۔۔ کہیں کوئی گڑ بڑ کی تو مجھے سبق سیکھانا خوب آتا ہے“ مجتبٰی نے بائیک سٹارٹ کرتے زوار احمد پر پر سوچ نظریں جمائے ہوئے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن زاوار احمد کے ٹاک شو میں دکھائی گئی وڈیو نے نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ بھارتی میڈیا میں بھی دھوم مچا دی تھیں۔ اس وڈیو میں کبیر نے اپنا اور میجر آتش کا ہر جرم قبول کرتے ہوئے کشمالہ کو بری الذمہ قرار دیا تھا۔ کیمرہ کے سامنے شرمندگی سے اقبال جرم کرتے کبیر کے چہرے کو دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ شخص بندوق کے زیر سایہ یہ سب بول رہا ہے۔ کشمالہ کے گروپ مارخور نے دوستی کا پورا حق ادا کیا تھا۔ مجتبٰی کے پلان کے مطابق انہوں نے کبیر کو اغوا کرکے سب کچھ اگلوایا تھا۔
”میں اپنے ضمیر کے بوجھ سے تنگ آ کر سچ بول رہا ہوں میجر آتش کے ساتھ مل کر ہم نے جتنی لڑکیوں کے ساتھ برا کیا ہے ان سب کی آتمائیں رات کو آکر مجھے ڈراتی ہیں مجھے اپنا آپ دھرتی پہ بوجھ لگتا ہے اسی لئے مجھےمزید زندہ رہنے کی اِچّھا نہیں رہی “ یہ الفاظ ادا کرنے کے بعد اس نے ماتھے پر پسٹل رکھ کر ٹریگر دبایا ۔ گو کہ یہ وڈیو اس کے سوشل اکاؤنٹ پر لائیو دکھائی گئی تھی لیکن بھارتی ایجنسیوں نے بدنامی کے ڈر سے وہاں سے ہٹا دی تھی ۔ یہ مجتبٰی کا پلان تھا اس میں جھول کیسے ہو سکتا تھا۔ احمد نے پہلے ہی وہ وڈیو محفوظ کرکے ولی کے نمبر پر بھیج دی تھی۔
زاوار احمد کے شو میں ”پہاڑوں کی بیٹی“ کی کہانی بھی شیئر کی گئی تھی۔ جس نے بہت سے لوگوں کو آبدیدہ کر دیا تھا۔
”ناظرین۔۔۔۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی خاطر ہمارے اسلاف نے کئی قربانیاں دیں ۔۔کئی بہنوں نے اپنے بھائی گنوائے ۔۔کئی ماؤں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کھوئے ۔۔تقسیم ہند کے بعد جب پاکستان کی سر زمین پر لٹے پٹے قافلے قدم رکھتے تھے تو ان کی حالت دیکھ کر آسمان روتا تھا۔۔۔جب وہ تشکر کا سجدہ ادا کرتے تھے تو کائنات حیرت زدہ رہ جاتی تھی ۔۔۔لیکن افسوس کے ہم نے اپنے اسلاف کو ان کی قربانیوں کو بھلا دیا ہمیں یاد رہا تو بس یہ کہ پاکستان میں رکھا کیا ہے۔۔۔ ہر کوئی دوسرے کو الزام دیتے ہوئے خود بری الذمہ ہو جاتا ہے یاد رکھیں جب تک ہم خود ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض ادا نہیں کریں گے ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔۔۔ ہمیں اس آزادی کی قدر کرنی چاہیئے کیونکہ جو قومیں آزادی کی بے قدری کرتی ہیں قدرت ان کی دسترس سے آزادی چھین لیتی ہے۔۔۔ ۔اپنی آنے والی نسلوں کو ایک اچھا مستقبل دینے کے لئے ہمیں اپنا آج بدلنا ہو گا۔“ پر سوز لہجے میں کہے گئے زاوار احمد کے لفظوں نے کئی لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا تھا۔ کئی لوگوں نے خود کو بدلنے کا عہد کیا تھا۔
کچھ دن تک معاملہ گرم رہا لوگ میجر آتش اور لیفٹینٹ کبیر کو برا بھلا کہتے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ اس قصے پر بھی گرد پڑنے لگی ۔ کشمالہ کی زندگی بھی آہستہ آہستہ معمول پر آنے لگی تھی اس نے آسیہ بیگم کے کہنے پر اپنی پڑھائی شروع کر لی تھی اور مجتبٰی کی پوسٹ بحال ہونے کے بعد اس کی پوسٹنگ دوسرے شہر میں ہو گئی تھی کرنل ہارون کی مہربانی سے اس بار وہ اور ولی الگ الگ جگہوں پر تعینات تھے۔ وقت کے تھال سے دن گرتے گئے اور دو سال گزر گئے۔ زندگی ہو اورکوئی ہلچل نہ ہو ایسا کیسے ممکن ہے۔ دو سال بعد ایک طوفان ان کی زندگیوں میں بھی ہلچل مچانے کو تیار کھڑا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...