’’یہ میں نہیں جانتا۔ اب میں چلتا ہوں۔‘‘ ساگر سروپ نے کہا اور میں خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔ ساگر سروپ مجھ سے کچھ کہے بغیر واپسی کے لیے مڑ گیا تھا۔ میں اب اس سے کیا کہتا، خاموشی سے اسے جاتے دیکھتا رہا۔ اس وقت تک جب تک وہ چاندنی میں مدغم نہ ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ یقیناً آبادی سے بہت دور نکل آئے تھے۔ چاندنی کے سوا کہیں روشنی کی کوئی رمق نہیں تھی۔ میں نے ایک جگہ منتخب کی اور بیٹھ گیا۔ ایک بار پھر خود کو امتحان میں ڈالا تھا مگر یہ انوکھا امتحان تھا، انوکھی کہانی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ ساگر سروپ بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ ایک دو بار یہ خیال بھی آیا تھا کہ کہیں یہ بھی بھوریا چرن کی کوئی چال نہ ہو۔ کیا یہ ہوسکتا ہے، نہ جانے دل کیوں نفی میں جواب دے رہا تھا۔ جو کچھ بھی ہے، یہ کھیل ضرور کھیلوں گا۔ ایک مناسب جگہ منتخب کرکے لیٹ گیا۔ دل میں بہت سے وسوسے تھے۔ اگر سو گیا تو سوتا نہ رہ جائوں۔ جاگتا رہا تو صبح تک نیند سے نڈھال ہوجائوں گا۔ پھر کیا کروں… بچپن کی ایک بات یاد آگئی۔ ماں نے بتائی تھی۔ امتحان دے رہا تھا، رات کو دیر تک پڑھتا تھا۔ ماں نے کہا۔
’’اتنی دیر پڑھنا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔‘‘
’’اور امتحان…؟‘‘
’’سال بھر پڑھو تو آخری دنوں میں یہ مشکل نہ اٹھانی پڑے۔‘‘
’’اب تو پڑھنا ہی ہوگا۔‘‘
صبح کا سہانا وقت اس کے لیے بہت بہتر ہوتا ہے۔‘‘
’’صبح آنکھ نہیں کھلتی۔‘‘
’’ایک کام کیا کرو۔ رات کو جب سویا کرو تو اپنے ہمزاد کو ہدایت کردیا کرو کہ وہ تمہیں اس وقت جگا دے۔ دیکھ لینا اس وقت جاگ جائو گے۔‘‘
’’ہمزاد کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’بس ہوتا ہے۔‘‘ ماں شاید خود بھی اس کی تشریح نہیں کرسکتی تھی۔ میں مسکرا کر خاموش ہوگیا مگر پھر تجربہ کر ہی ڈالا۔ میں نے ہمزاد کو حکم دیا کہ مجھے صبح پانچ بجے جگا دے اور پہلے ہی دن اس وقت آنکھ کھل گئی۔ جب گھنٹہ پانچ بجے کا اعلان کررہا تھا۔ اس کے بعد بارہا یہ تجربہ کیا اور کامیاب رہا۔ بہت عرصے کے بعد ہمزاد کا خیال آیا تھا۔ میں نے اسے ہدایت کی کہ مجھے ساڑھے چار بجے جگا دے اور پھر کھردری زمین پر لیٹ کر نیند کی خوشامدیں کرنے لگا۔ نیند چپکے سے آنکھوں میں آبسی تھی۔ یقیناً وہ ساڑھے چار بجے کا وقت ہی ہوگا، جب جاگ گیا تھا۔ سوتے ہوئے کروٹ بھی نہ بدلی تھی۔ اتنی گہری نیند آئی تھی مگر اس نیند نے تھکن اتار دی تھی۔ اٹھ گیا، آنکھیں مل کر صاف کیں۔ چاروں طرف ہو کا عالم طاری تھا۔ دل میں آج کے آنے والے وقت کا خیال آیا اور دل ہولنے لگا۔ میں یہ عمل کرسکوں گا یا نہیں! خود کو پرعزم کرنے لگا۔ اجالا آہستہ آہستہ اترنے لگا۔ ماحول روشن ہوگیا اور میں اس کھلاڑی کی طرح تیار ہوگیا جو اسٹارٹنگ پوائنٹ پر جاکھڑا ہوتا ہے۔ ساگر سروپ نے سورج کی سمت بتا دی تھی۔ میں نے اچھل اچھل کر پائوں کھولے اور ادھر نظریں جما دیں۔ سورج کا یہ کھیل زندگی میں دیکھنا تو کجا سوچا بھی نہیں تھا مگر کیا اہمیت تھی اس کھیل کی…!
سورج بلند ہوا۔ کرنوں کا سیلاب امنڈ آیا اور میری نظریں زمین کا طواف کرنے لگیں۔ سرتاج کرن زمین کو چھوتی ہوئی آگے بڑھی۔ میں نے چھلانگ لگا دی۔ اس کے رخ کا اندازہ ہوگیا تھا۔ دانت بھنچ گئے، مٹھیاں بند ہوگئیں اور میں دوڑنے لگا۔ تیز ہوا نے کان بند کردیئے، بدن کا رواں رواں دوڑ رہا تھا۔ اس وقت اسے انسانی قوت نہیں کہا جاسکتا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی قوتیں گم ہوگئی تھیں بس بصارت زندہ تھی اور میں کرن پر جیسے سواری کئے ہوئے تھا۔ شاید اس رفتار سے کسی انسان کو دوڑتے ہوئے کبھی نہ دیکھا ہوگا کیونکہ دیکھنے والا اس جگہ کون تھا۔ کچھ لمحات کے بعد ہی اپنی خام خیالی کا احساس ہوا۔ میں تنہا نہیں تھا۔ یقیناً میں تنہا نہیں تھا، بہت سے پرندے میرے سر پر سفر کررہے تھے۔ بہت سے چوپائے بھاگ رہے تھے۔ یہ کائنات کی سب سے حیرتناک دوڑ تھی جو ہر صبح ہوتی ہے مگر انسانی آنکھ نہ اسے دیکھتی ہے، نہ سمجھتی ہے۔ پھیپھڑے پھٹ گئے تھے، بدن سڑ گیا تھا مگر ہمت ساتھ دے رہی تھی۔ اندازے ختم ہوگئے تھے۔ یہ تصور بھی نہیں کرسکا تھا کہ کتنا فاصلہ طے ہوا ہے۔ بس سرتاج کرن تھی اور میں…! ساری کائنات دوڑ رہی تھی۔
پھر اچانک سرتاج کرن گم ہوگئی۔ دوسری کرنوں نے اسے آلیا تھا اور اسے گود میں اٹھا کر گم ہوگئی تھیں۔ دھوپ پھیل گئی۔ سامنے ہی ایک تیز رفتار ندی کا شور سنائی دے رہا تھا۔ اس کے قریب درخت اور گھاس نظر آرہی تھی۔ سرتاج کرن کے گم ہوتے ہی میرے پیروں کی رفتار سست ہوگئی۔ اعصاب نے بریک لگائی، بدن کو کئی جھٹکے لگے اور میں چکرا کر گر پڑا… نیچے گھاس تھی۔ بدن کئی بار تڑپا اور پھر ساکت ہوگیا۔ یوں لگا جیسے بدن سے روح نکل گئی ہو اور میں بے جان ہوگیا۔ سکون ایک لامتناہی سکون! خاموشی سناٹا اور یہ سناٹا بڑا فرحت بخش تھا۔ آہ…! موت کتنی حسین ہے۔ شاید میں مر گیا… بس پھر میں مر گیا… مگر موت جیسی حسین شے اتنی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی۔ مجھے جگا دیا گیا۔ بتایا گیا کہ میں زندہ ہوں، زیرامتحان ہوں اور امتحان اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔ ایک ننھا سا خوش رنگ پرندہ میرے سر پر بیٹھا آہستہ آہستہ میری پیشانی پر چونچ مار رہا تھا۔ میرے بدن کو جنبش ہوئی تو وہ پھر سے اڑ گیا۔ زندگی کے احساس نے پوری طرح بیدار کردیا۔ ایک کراہ کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ندی کا شور مسلسل اٹھ رہا تھا، سیبوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ سخت بھوک لگ رہی تھی۔ درخت نظر آئے جن پر سیب جھول رہے تھے۔ آسانی سے اٹھ گیا۔ سیب توڑے اور انہیں چبانے لگا۔ خوب پیٹ بھر گیا پھر ندی سے پانی پیا۔ شام جھک رہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد تاریکی نیچے اتر آئی۔ دل میں کوئی خیال نہیں تھا۔ پرندے نظر آرہے تھے کسی انسانی وجود کا نشان نہیں تھا لیکن کچھ دیر کے بعدکھنکارنے کی آواز ابھری اور میں سہم گیا۔
’’آئو!‘‘ کسی نے کہا اور میں آنکھیں پھاڑنے لگا۔ ’’رکتے کیوں ہو آگے بڑھو…‘‘ آواز نے کہا۔
’’ کون ہے… کہاں ہو تم…؟‘‘ میں ڈری ڈری آواز میں بولا۔ ’’جستجو… صرف جستجو! قدم آگے بڑھائو۔‘‘ لہجہ کرخت تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کدھر قدم بڑھائوں۔ بہرحال! چند قدم آگے بڑھا اور رک گیا۔ ’’بڑھتے رہو، رکتے کیوں ہو۔‘‘ کہا گیا تب مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرے آگے آگے چل رہا ہے۔ میں نے قدموں کی چاپ سے قدم ملا دیئے اور مجھے ایک ایسے خطے میں لایا گیا جہاں درخت ایک دائرے کی شکل میں تھے یہاں انتہائی دلفریب خوشبو بکھری ہوئی تھی۔ کچھ نظر نہیں آرہا تھا لیکن احساس ہوتا تھا کہ بہت سے لوگ موجود ہیں۔ میں رک گیا۔
’’یہ ہے؟‘‘ کسی نے کہا۔
’’کیا نام ہے؟‘‘
’’مسعود احمد!‘
’’کیا جرم ہے؟‘‘
’’گیا شیطان مارا ایک سجدے کے نہ کرنے میں اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا۔‘‘
ایک آواز ابھری۔
’’اعتراض ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’وہ ملعون جانتا تھا۔ سمجھتا تھا۔ توبہ کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔‘‘
’’یہ فیصلہ روز حشر کا ہے۔‘‘
’’اس فیصلے کا یہاں ذکر کہاں۔‘‘
’’تو یہ اجتماع یہاں کیوں ہے؟‘‘
’’ہمارا فرض ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’ایک مسلمان کو مدد درکار ہے، ارواح خبیثہ کے خلاف!‘‘
’’مسلمان؟ رگوں میں دوڑتی غلاظت کے باوجود۔‘‘
’’یہ غلاظت اسے دھوکے میں ملی ہے۔‘‘
’’اس کا عمل کیا رہا۔‘‘
’’چند غلطیاں…!‘‘
’’توازن کیا ہے؟‘‘
’’کفارے کا پلڑا زمین سے لگا ہوا ہے۔‘‘
’’میزان درست ہے۔‘‘
’’پوری جانچ پڑتال کے ساتھ!‘‘
’’اس کے ساتھ تعاون مشیت ایزدی سے انحراف کا گناہ تو نہ ہوگا۔‘‘
’’قاضی صاحب فیصلہ کریں گے۔‘‘
’’مختصر تفصیل!‘‘ نئی آواز نے کہا۔
’’ابتداء… نوجوانی کی سرکش عمر، رزق حرام کی طلب اور اس کی جستجو میں ایک سفلے کے پاس پہنچنا مگر پھر بے لوث خدمت اور ایک مزار پاک کو آلودہ نہ کرنے کا عزم جس کے نتیجے میں مصیبتوں کے پہاڑ اٹھائے پھرا ہے یہ!‘‘
’’مگر اسے موقع ملا۔‘‘
’’وہاں اس سے غلطی ہوئی۔ یہ دوسرا گناہ تھا۔‘‘
’’اس کے بعد…؟‘‘
’’خباثت سے مسلسل جنگ! اس کی قوتوں کے حصول کے باوجود ان سے مسلسل انحراف! صعوبتوں کی مسلسل برداشت، غیر دینی امور کو قبول نہ کرنا، بھٹکنا مگر سنبھلنا، کبھی زیر نہ ہونا، آپ کے لیے کچھ حاصل نہ کرنا۔ پلڑا بہت نیچے ہے۔‘‘
’’سزا مکمل ہے۔‘‘
’’اس کا فیصلہ کیسے ممکن ہے۔ ہاں! سفارش کی جاتی ہے، اس کی ایک اہم وجہ ہے۔‘‘
’’بتائی جائے۔‘‘
’’ہر خوف، ہر مصلحت سے بے نیاز ہوکر اس نے خود کو مسلمان کہلوایا ہے۔ کبھی کسی مصلحت یا زندگی کے خوف نے اسے نام بدلنے پر مجبور نہیں کیا۔ کوئی احساس اس سے اس کا دین نہیں چھین سکا۔‘‘
’’آہ… یہ قابل غور ہے۔‘‘
’’فرض بھی ہے۔ باطل قوتیں اسے مسلسل زیر کررہی ہیں لیکن یہ ثابت قدم رہا اور اس کی مدد ہم میں سے ہر صاحب دین پر فرض ہوگئی۔ ہمیں اس کے لیے دعا کرنی ہوگی کہ باطل قوتیں اس سے دور ہوجائیں۔ اپنی بساط کے مطابق اس کی رہنمائی ہم پر واجب ہے۔‘‘
’’دعا کرو! ہاتھ اٹھائو!‘‘ اور پھر مکمل خاموشی چھا گئی۔ میرا بدن ہولے ہولے لرز رہا تھا، دماغ ساکن تھا صرف سن رہا تھا۔ میں بس اس سے زیادہ اور کچھ نہیں تھا۔ پھر آمین کی گونج سنائی دی۔ پھر ایک آواز نے کہا۔
’’اے شخص! عمل افضل ہے اور سب کو ہدایت کی گئی۔ بے عمل پتھر ہوتے ہیں کہ ہل نہیں سکتے اور ہوا اور پانی کے محتاج ہوتے ہیں۔ ہر ذی روح کو عمل دیا گیا تو ہماری عدالت میں آیا اور فیصلہ حقائق کی بنیاد پر تیرے حق میں ہوا لیکن عمل صرف تجھے کرنا ہوگا۔ اس کے عوض ولایت نہ مانگنا، درویش نہ سمجھ بیٹھنا خود کو کہ یہ عمل صرف تیری ذات کی فلاح کے لیے ہے اور اس کا نتیجہ تیرے لئے بہتر ہوگا۔ سات جادو گرنیاں تجھ پر مسلط کردی گئی ہیں اور سترہ جادو تیرے وجود میں اتار دیئے گئے ہیں۔ ان سے چھٹکارا تیری ذمہ داری ہوگی۔ تجھے ان سات جادوگرنیوں کو ہلاک کرنا ہوگا اور صرف انسان رہ کر جب تک وہ عمل کریں گی اور تو ان کا شکار ہوگا، انسانوں کی مانند لیکن ہوش کے لمحات نہ کھونا، وہیں خود کو سنبھالنا اور حالات سے فرار حاصل نہ کرنا بلکہ ان میں شامل ہوجانا۔ تجھے ان کی صورتیں نہیں دکھائی جاسکتیں لیکن ایک رعایت ہوگی۔ ان کے ہاتھوں میں سات انگلیاں ہوں گی۔ بس! یہی ان کی پہچان ہے اور اس عمل کے لیے جو مشکلات تجھے پیش آئیں گی، ان میں تجھے مدد ملے گی۔ ان کا وعدہ ہے اور اس پر غور نہ کرنا نہ ہی اس کا تعاقب جو تیرا مددگار ہو۔ نہ ہی انحراف کرنا ان سے جو تیری قربت کے طالب ہوں اور یہ اس سفلے کا عمل ہی ہوگا جو اب شروع ہوگا لیکن وہ تیرے طلسم سے واقف نہ ہوگا کہ اس سے زیادہ تحفظ تیرے لئے ممکن نہیں۔ بس اب جا! رات گہری ہوگئی ہے۔‘‘
مکمل خاموشی طاری ہوگئی۔ میں مسلسل لرز رہا تھا، دماغ سائیں سائیں کررہا تھا، اعصاب چٹخ رہے تھے۔ خاموشی سے وہاں سے پلٹا اور واپس چل پڑا۔ جس سمت سے یہاں تک آیا تھا، وہ یاد تھی۔ سب کچھ ذہن میں گونج رہا تھا۔ ذہن اسے جذب کررہا تھا نہ جانے کب تک چلتا رہا۔ رات آدھی سے زیادہ ہوگئی تو تھک کر زمین پر بیٹھ گیا اور پھر لیٹ گیا، پھر سو گیا۔ پھر کسی نے جھنجھوڑ کر جگا دیا۔
’’ہم سے ناراض ہوگئے ہو مسعود میاں۔‘‘جھنجھوڑنے والے نے کہا اور میں آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔ اوم پرکاش تھا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سر پر ایک درخت کی چھائوں تھی۔ دن بکھرا ہوا تھا۔ آوازیں ابھر رہی تھیں۔ یاتری آتے جاتے نظر آرہے تھے۔ وہی جگہ تھی۔ ’’کہاں غائب ہوگئے تھے؟‘‘ اوم پرکاش نے پھر پوچھا۔
’’بس یہیں تھا۔‘‘
’’ڈیرے کا رخ بھی نہ کیا؟‘‘
’’بھول گیا تھا۔‘‘
’’ڈیرہ ہی بھول گئے تھے!‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اور ہمیں۔‘‘
’’نہیں اوم پرکاش جی! آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں۔‘‘
’’آئو چلو، سب یاد کررہے ہیں۔‘‘ میں اوم پرکاش کے ساتھ چل پڑا۔ کچھ دیر کے بعد ڈیرے پر پہنچ گیا۔
’’ارے یہ کیا حالت بنا لی ہے تم نے۔ کپڑے چیکٹ ہوگئے ہیں، بالوں میں دھول اٹکی ہوئی ہے۔ ست پرکاش! انہیں اشنان کرائو۔‘‘ اوم پرکاش کی دھرم پتنی نے کہا۔
’’رہنے دیں چاچی! ٹھیک ہوں۔‘‘
’’ارے واہ! کیسے ٹھیک ہے۔ میں نے کپڑے منگوائے ہیں تمہارے لئے، جائو ست پرکاش کے ساتھ چلے جائو۔‘‘ ست پرکاش نے میرے لئے لائے ہوئے کپڑے سنبھالے۔ پہلے ایک حجام کے پاس لے گیا، داڑھی بنوائی، بال بنوائے۔ یہاں سب کچھ تھا۔ ایک تالاب میں نہایا پھر کپڑے پہنے اور بال وغیرہ سنوار کر تیار ہوگیا۔ ست پرکاش مجھے دیکھ کر مسکرایا۔
’’بڑے سندر لگ رہے ہو مہاراج! مگر کیا کریں۔ عمر میں ہمارے جیسے ہو، پر دوست پتا جی کے ہو اس لئے بے تکلفی سے بات بھی نہیں کرسکتے۔‘‘ میں صرف مسکرا دیا۔ ہم واپس آگئے۔ اوم پرکاش جی نے بھی مجھے پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا تھا۔ باقی دن ان کے ساتھ گزارا۔ شام کو سب مندر چلے گئے۔ اوم پرکاش نہیں گئے تھے۔ کہنے لگے۔
’’تمہاری وجہ سے رک گیا ہوں مسعود جی۔ سوچا ہے کہ تم سے کچھ باتیں کروں۔‘‘
’’کہئے اوم پرکاش جی۔‘‘
’’سوچتا ہوں تمہیں اپنے ساتھ آنے پر مجبور کرکے میں نے غلطی تو نہیں کی ہے۔ تم مسلمان ہو اور یہاں ہر جگہ مندر پھیلے ہوئے ہیں اور پھر تم مسلمان بھی عام نہیں ہو، گیان دھیان والے ہو۔ اپنے دھرم کے عالم ہوگے۔ مجھ سے زیادہ اور کون جانتا ہے اس بارے میں۔ پر من کی سچی بات بتائوں۔ یہ سب کچھ میں نے جان کر نہیں کیا۔‘‘
میں مسکراتی نظروں سے اوم پرکاش کو دیکھنے لگا۔ پھر میں نے کہا۔ ’’آگے کہیں اوم پرکاش جی!‘‘
’’جیسا کہ میں نے بتایا کہ وہاں میں نے تم سے ملنا چاہا تھا مگر تم کہیں اور چلے گئے تھے بعد میں نظر آئے تو بے اختیار میرا من چاہا کہ تمہیں ساتھ لے چلوں اور میں نے فوراً ہی بول دیا۔ میرا کوئی مطلب نہیں تھا۔‘‘
’’میں جانتا ہوں اوم پرکاش جی! آپ بھی یہ جان لیں کہ جو ہوتا ہے، اس کی ڈور کہیں اور سے ہلتی ہے۔ ہم سب تو کٹھ پتلیاں ہیں جو اس ڈور سے بندھے ناچتے ہیں۔ جسے جہاں سے جو ملنا ہوتا ہے، ملتا ہے۔ مادھو لال کو دولت کی ہوس کی سزا ملنا تھی، ملی۔ آپ کو یہاں یاترا کرکے سکون ملا اور مجھے بھی کچھ ملا ہی ہوگا۔‘‘
’’تم تو مہان ہو۔ سنسار باسیوں کو دھوان دینے والا خود بوجھ اٹھا کر چار روپے کمائے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔‘‘
’’وہ چار روپے کتنے قیمتی ہیں، مجھ سے پوچھئے اوم پرکاش جی! اور پھر کس شکل میں کیا مل جاتا ہے۔ ہم چھوٹے دماغ والے کیا جانیں۔‘‘
’’میں یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ آپ ان مندروں سے الجھتے تو نہیں ہیں؟‘‘
’’نہیں اوم جی! یہ کمزور لوگ اپنے عقیدوں سے اپنی تسکین کرتے ہیں۔ کسی کو بھلا کیا اعتراض! ویسے آپ کا خوب ساتھ رہا۔ بڑی محبت ملی آپ سے، بہت خیال رکھا آپ نے میرا…! کیا اب مجھے اجازت دیں گے؟‘‘
’’جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’جانا تو ہوگا… آج نہیں کل، کل نہیں پرسوں…!‘‘
’’تمہارا ٹھکانہ کہاں ہے؟ دل کبھی تم سے ملنے کو چاہے تو کہاں تلاش کرسکتا ہوں۔‘‘
’’یہی سب سے مشکل جواب ہے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ اوم پرکاش نے اداسی سے کہا۔ پھر بولے۔ ’’کب جائو گے؟‘‘
’’کسی بھی دن، کسی بھی وقت!‘‘
’’سچ کہتا ہوں مسعود! مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے۔ تم مہان ہو مگر مجھے تمہاری ذات سے پیار ہوگیا ہے۔ بھگوان تمہیں خوش رکھے۔‘‘ اوم پرکاش خاموش ہوگئے۔ پھر انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ میں نے آرام کے لیے ایک جگہ تلاش کرلی اور سونے لیٹ گیا مگر سونے کہاں سوچنے، بہت بڑا سہارا ملا تھا۔ بہت سے خیالات دل میں آرہے تھے۔ محنت کی کمائی کے چار لڈوئوں نے کایا پلٹ کر رکھ دی تھی۔ راستہ ایک ہندو جوگی نے دکھایا تھا۔ کوئی بھی ہو جو نیکی کا سفر کرتا ہے، اسے روشنی ضرور ملتی ہے۔ میرا علم تو صفر تھا۔ میں کیا جانوں کہاں کیا چھپا ہے۔ بہرحال اب جو ہدایات ملی ہیں، انہیں سمجھنا ہے، ان پر عمل کرنا ہے۔ اب چوک نہیں ہونی چاہئے ورنہ کچھ باقی نہ رہے گا۔ ان ہدایات کو دل سے لگا لینا چاہئے۔
عمل افضل ہے۔
اس پر غور نہ کرنا نہ ہی اس کا تعاقب جو تیرا مددگار ہو۔ جو تیری قربت کے طالب ہوں، ان سے انحراف نہ کرنا۔ ایک ایک بات یاد آنے لگی۔ سات جادوگرنیوں کو ہلاک کرنا ہے۔ یہ سات پورنیوں کے علاوہ اور کون ہوسکتا تھا۔ آہ…! کوئی تدبیر بنے، کچھ ہو۔ کیا ہونا چاہئے۔ محنت کی کمائی، چار لڈو! اس سے گریز کرتا رہا ہوں۔ کتنا عرصہ گزر گیا کسی نہ کسی پر انحصار کرتا رہا ہوں۔ پہلے رزق حلال کی تلاش افضل ہے۔ خود کو ادھر سے ادھر کٹی پتنگ کی طرح دوڑاتے رہنا، کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ یہ عمل بے شک طویل ہوگا لیکن کرنا ہے، مجھے عمل کرنا ہے۔ آغاز کہیں سے ہوجائے۔ ملازمت کسی مناسب جگہ، اس کا تذکرہ اوم پرکاش جی سے بھی ہوسکتا ہے مگر بات نہ بن سکے گی۔ وہ مجھے دوسری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کہیں دور یہ کوشش کرنا ہوگی۔ یہیں بنارس میں ہی سہی، کیا حرج ہے۔ یہ تو مندروں کی دنیا ہے، یہاں سے آگے تو پورا شہر پھیلا ہوا ہے۔ ہاں زیادہ دور جانا کیا معنی رکھتا ہے۔ اس آخری احساس نے سکون بخشا تھا۔ پھر سو گیا تھا۔ صبح بہت جلدی آنکھ کھل گئی۔ صبح بنارس نگاہوں کے سامنے تھی۔ دل کو بہت خوشگوار کیفیت کا احساس ہوا تھا۔ کچھ سو رہے تھے، کچھ جاگ رہے تھے۔ میں اس خوشگوار صبح کا لطف لیتا وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ آج سے نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتا تھا، اس شہر میں تقدیر آزمانا چاہتا تھا۔ ہر طرح کے لوگ یہاں نظر آتے تھے۔ اس وقت بھی یاتری زندگی کی مصروفیات میں لگے ہوئے تھے۔ انسانوں کی ایک چوپال کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ایک نسوانی چیخ سنائی دی۔ لوگوں کے ساتھ میں بھی چونک پڑا۔ ایک لڑکی دوڑتی آرہی تھی۔ رخ اسی طرف تھا اور اس وقت میں بری طرح بوکھلا گیا جب وہ قریب آکر مجھ سے لپٹ گئی۔ اس کے منہ سے نکل رہا تھا۔
’’رتنا… رتنا جی… رتنا جی!‘‘ کچھ اور لوگ بھی میرے پاس آگئے۔ سفید ساڑھی میں لپٹی ایک معمر خاتون میرے پاس آگئیں۔ انہوں نے بھی میرا بازو پکڑ لیا اور روتے ہوئے دلدوز لہجے میں بولیں۔
’’ہمیں نہیں پہچانتے رتنا! جو کوئی بھی ہو۔ ہمارا ساتھ تو رہا ہے۔ اسے دیکھو کون ہے یہ! دیکھو اسے یہ کون ہے؟‘‘ میرا دماغ ایک دم جاگ اٹھا اور میرے منہ سے نکلا۔
’’رما رانی…‘‘
’’جب بھی ملتے ہو، مندروں کے پاس ملتے ہو۔ دیوتا ہو، کنیا ہو، کون ہو؟ مگر تم جیون دیتے نہیں لیتے ہو۔ اسے نہیں پہچانا تم نے…؟‘‘ اب میں نے چونک کر خود سے لپٹی نوجوان لڑکی کو دیکھا۔ کشنا تھی۔ سرخ و سفید، شوخیوں سے بھرپور! مگر اس وقت اجڑی ہوئی، چہرے پر وحشتیں بکھری ہوئیں، دبلی پتلی۔
’’ہمارے نہیں ہو، حکیم ہی بن جائو… مسیحائی کردو ہماری! اسے موت سے بچا لو۔‘‘ رما رانی کی آواز میں سسکیاں بھری ہوئی تھیں۔
’’یہ کشنا… کشنا ہے۔‘‘
’’میں رما ہوں جسے تم نے چند روز ماں کہا تھا۔ جس کی چھاتی سے لپٹ گئے تھے اور اس کے سینے میں تمہارا پیار جاگ اٹھا تھا۔‘‘
’’آپ لوگ یہاں کہاں…؟‘‘
’’کچھ وقت دے دو گے ہمیں! بھول کر بھی نہ سوچا تھا کہ تم یہاں مل جائو گے مگر یہ جانتی تھی۔ بار بار یہاں آجاتی تھی۔ اس کا یقین سچا تھا۔ انہیں تھوڑا سا وقت دے دو۔ اس پیار کی قیمت کے طور پر جو میں نے تمہیں دیا تھا۔ میری محبت تم پر ادھار ہے رتنا…‘‘ رما رانی سسکنے لگیں۔
’’کیسی باتیں کررہی ہیں رما رانی! میں نے نمک کھایا ہے، آپ کا مجھے بتایئے کیا کروں۔‘‘
’’کوئی اور ہے تمہارے ساتھ…؟‘‘
’’ایں… نہیں کوئی نہیں۔‘‘ میں نے بادل ناخواستہ کہا۔
’’تو آئو… یہاں سے چلو… آئو۔‘‘ رما رانی نے کہا۔ میں احمقوں کی طرح قدم بڑھانے لگا۔ کوئی بات جو سمجھ میں آرہی ہو، میرے پیچھے دو لڑکیاں آرہی تھیں۔ وہ رادھا اور لکشمی تھیں۔ کشنا مضبوطی سے میرا بازو پکڑے ہوئے تھی اور میری کھوپڑی ہوا میں معلق تھی۔
یہ احساس بھی تھا کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ ایک نوجوان لڑکی مجھے اس طرح پکڑے ہوئے ہے جیسے اسے میرے بھاگ جانے کا خطرہ ہو۔ کچھ دور تو بوکھلاہٹ کے عالم میں چلتا رہا پھر کچھ سنبھل کر میں نے کشنا سے خود کو چھڑانے کی کوشش کی اور کہا۔ ’’کشنا…! خود کو سنبھالو۔ میں تمہارے ساتھ چل رہا ہوں، دیکھو لوگ کیسے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’چلے جائو گے۔ بھاگ جائو گے۔ کھو جائو گے۔ پھر نہیں ملو گے، مجھے پتا ہے۔ نہیں چھوڑوں گی میں …! نہیں چھوڑوں گی۔‘‘ اس کی آواز میں خوف تھا، تشویش تھی، دہشت تھی۔ میرا دل کٹنے لگا۔ وہاں شکتی پور میں بھی مجھے علم ہوگیا تھا کہ کشنا مجھے چاہتی ہے مگر کہانی ہی عجیب تھی۔ میں اس چاہت کی پذیرائی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ دماغی خرابی بتا کر انہوں نے مجھے جو چاہا سمجھ لیا یا بتا دیا مگر عالم ہوش میں تو یہ ممکن نہیں تھا۔ رما رانی نے بڑا پیار دیا تھا۔ سب محبت کرتے تھے مگر وہ ایسی جگہ تھی جہاں کوئی غیرت دار ایک لمحہ گزارنے کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔ کشنا بہت شوخ، بہت معصوم تھی۔ عام لڑکیوں سے کسی طور مختلف نہیں تھی لیکن طوائف زادی…! ان ساری باتوں کو نظر انداز بھی کردیا جاتا تو بھی میں کیا کرتا… کوئی عقل میں آنے والی بات تھی؟
تانگوں کے اڈے پر آگئے۔ دو تانگے کئے گئے اور ہم چل پڑے۔ تانگے میں بیٹھ کر مجھے اس انوکھی گرفتاری پر ہنسی آگئی۔ رما رانی میرے پاس بیٹھی تھیں۔
’’اکیلے آئے ہو بنارس…؟‘‘
’’نہیں… کچھ لوگوں کے ساتھ!‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تمہارے اپنے ہیں؟‘‘ رما رانی نے سوال کیا۔
’’نہیں!‘‘ میں نے گردن ہلائی۔
’’تمہارے اپنے کہاں ہیں؟‘‘ پوچھا گیا۔
’’پتا نہیں!‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’طبیعت کیسی ہے؟‘‘ رما رانی نے پوچھا۔
’’ٹھیک ہوں۔‘‘ میں نے سپاٹ انداز میں جواب دیا۔
’’بھٹک ہی رہے ہو تو ہمارے پاس رہنا کیا برا تھا۔ کوئی تکلیف تھی وہاں؟‘‘
’’نہیں رما رانی!‘‘
’’پھر کیوں چلے آئے؟‘‘ رما رانی نے مجھے تیکھی نظروں سے دیکھا۔
’’اپنوں کی تلاش تھی۔‘‘ میں نے سادگی سے جواب دیا۔
’’نہیں ملے…؟‘‘ پوچھا گیا۔
’’نہیں!‘‘ میں نے سسکی لے کر جواب دیا۔
’’ہمیں اپنا سمجھ لو۔ کوئی کمی نہیں پائو گے۔ اب تو شکتی پور بھی چھوڑ دیا ہے ہم نے، یہیں بنارس میں رہتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں۔‘‘ رما رانی کا لہجہ اداس تھا۔
’’گھر کہاں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ آگیا۔‘‘ رما رانی نے تانگے والے کو اشارہ کیا۔
اینٹوں کا وسیع و عریض مکان نظر آرہا تھا۔ اس کے آس پاس کوئی مکان نہیں تھا۔ ہاں ایک میدان نظر آرہا تھا اور اس کے دوسرے سرے پر باقاعدہ آبادی پھیلی ہوئی تھی۔ سب تانگے سے اتر گئے۔ دونوں تانگے والے پیسے لے کر چلے گئے۔ کشنا نے اسی طرح مجھے پکڑا ہوا تھا۔ اندر پہنچ کر رما رانی نے اسے پیار سے پکارا۔
’’کشنا…! رتنا مل گیا تیرا…؟‘‘
’’یہ… یہ پھر بھاگ جائے گا۔‘‘ وہ سہمی ہوئی آواز میں بولی۔
’’نہیں ری… یہ اب کہیں نہیں جائے گا۔‘‘
’’چلا گیا تو…؟‘‘ وہ اسی طرح بولی۔
’’کہا نا نہیں جائے گا مگر تجھے دیکھ کر یہ کیا سوچ رہا ہوگا کیا حلیہ بنا رکھا ہے تو نے… سر مٹی سے اٹا ہوا ہے، چہرے پر نشان پڑے ہوئے ہیں، چوٹی گوندھ، منہ ہاتھ دھو، کپڑے بدل! رتنا کے کپڑے نکال… یہ بھی خود کو سنوارے۔‘‘
کشنا کے چہرے پر تبدیلیاں نظر آئیں۔ وہ خجل سی محسوس ہوئی۔ پھر اس نے شرمندہ سے لہجے میں کہا۔ ’’میں ابھی آئی، چلے نہ جانا۔‘‘
’’نہیں کشنا۔ میں تو رما رانی کے پاس بیٹھا ہوں۔‘‘
’’ماں…! میں ابھی آئی۔‘‘ وہ مڑی اور اندر چلی گئی۔ رما رانی نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ ایک وسیع کمرے میں داخل ہوئیں۔ یہاں بید کی کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی بیٹھ گئیں۔
’’تمہارا ایک ایک کپڑا سنبھال کر رکھا ہے اس نے، ہفتے پندرہ دن کے بعد اسے نکالتی ہے، دھوتی ہے، استری کرتی ہے اور اس کے بعد احتیاط سے صندوق میں رکھ دیتی
ہے۔ کہتی ہے رتنا آئے گا تو کیا پہنے گا، ہم تو برباد ہوگئے رتنا! سب کچھ ختم ہوگیا ہمارا، سب کچھ!‘‘
میں نے اب اپنے آپ کو پوری طرح سنبھال لیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ رما رانی جس طبقے سے بھی تعلق رکھتی ہوں، ان کا مذہب کچھ بھی ہو لیکن انہوں نے مجھے بے حد متاثر کیا تھا۔ ان کے الفاظ میں آج تک نہیں بھول سکا تھا۔ ساری صورتحال تو اس وقت ہی میری سمجھ میں آگئی تھی جب میں نے دیوانگی سے فرزانگی میں قدم رکھا تھا۔ ریل کے حادثے نے دماغی توازن الٹ دیا تھا اور بھٹکتا ہوا رما رانی کو مل گیا تھا۔ نجانے کس جذبے کے تحت ہونٹوں سے ماں کا لفظ نکل گیا تھا اور رما رانی نے اپنا سینہ میرے لیے کھول دیا تھا۔ بہت اچھی خاتون تھیں وہ…! مگر بدقسمتی سے طوائف تھیں۔ سارے واقعات مجھے یاد آگئے۔ اب کیا کروں؟ رما رانی میرے احساسات سے بے خبر اپنی کہانی سنا رہی تھیں۔ کہنے لگیں۔
’’تمہارے آنے کے بعد تو یوں لگا جیسے ہمارے گھر پر جھاڑو پھر گئی ہو۔ کشنا تمہیں یاد کرکر کے کئی دن تک روتی رہی، کھانا پینا چھوڑ دیا اس نے! جس طبیعت کی مالک تھی، اس کا تو تمہیں اندازہ ہو ہی چکا ہوگا۔ کمرہ بند کرکے بیٹھ گئی اور جب کمرے سے باہر نکلی تو اپنا دماغی توازن کھو بیٹھی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ شکنتا نے تمہیں کہیں گم کردیا ہے۔ پھر ایک دن اس دیوانگی کے عالم میں شکنتا کے گھر پہنچ گئی۔ پیتل کا گلدان لے کر اس کا چہرہ لہولہان کردیا۔ جسم پر بھی بہت سے وار کئے اور شکنتا ان زخموں کی تاب نہ لا کر مر گئی۔ اسے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا مگر تین دن کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔ ہم پر مقدمہ چلا۔ اسے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ دماغی مریضہ ہے، سارا دھن دولت ختم ہوگیا۔ برے حال ہوگئے ہمارے، ادھر دشمنی الگ پڑ گئی تھی۔ دماغی مریضہ کی حیثیت سے عدالت نے اسے بری تو کردیا لیکن ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، وہ بہت برا تھا۔ کسی نے ہمیں ہمارے گھر میں نہ رہنے دیا۔ ہم وہاں سے چل پڑے۔ جو کچھ پیسے بچے تھے، انہیں سنبھال کر نجانے کہاں کہاں پھرتے رہے لیکن دشمنوں نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ انہوں نے کہہ دیا تھا کہ ہمیں کسی کوٹھے پر آباد نہیں ہونے دیں گے۔ تب میں نے سوچا کہ جان ہے تو جہان ہے۔ جو بھاگ میں لکھا ہے، وہ تو ہو ہی جائے گا۔ بنارس آگئے اور یہاں یہ ٹوٹا پھوٹا گھر خرید لیا لیکن وہ تمہیں تلاش کرتی رہی۔ مندروں میں، ویرانوں میں! اب یہی کیفیت ہے۔ کبھی کہیں سے پکڑ کر لاتے ہیں اسے، کبھی کہیں سے پکڑ کر لاتے ہیں مگر اس کی لگن سچی تھی، اس کے راستے پاک تھے، اس نے تمہیں پا لیا۔ جو سنے گا، حیران رہ جائے گا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم اس طرح ہمیں یہاں مل جائو گے۔‘‘
رما رانی اپنی کہانی سنا رہی تھیں اور میں دنگ بیٹھا ہوا تھا۔ یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا، میری وجہ سے…! مگر میں انہیں کیا جواب دے سکتا ہوں، ان کی محبت کا! کشنا کو کیا سنبھال سکتا ہوں میں…! میں تو خود ہی غموں کا مارا تھا۔ کشنا تھوڑی دیر کے بعد دونوں ہاتھوں پر میرے کپڑے رکھے اندر داخل ہوئی۔ بڑے پیار، بڑے اہتمام سے اس نے ان کپڑوں کو استری کرکے اپنے بازوئوں پر رکھا ہوا تھا۔ کپڑے گرم گرم تھے۔ اس نے میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
’’جائو رتنا! نہا لو، کپڑے بدل لو۔ دیکھو تو سہی کیسے میلے بال ہورہے ہیں۔ میں استری کررہی تھی اس لیے دیر لگ گئی۔ تم نہا لو، میں بھی ابھی نہا کر آتی ہوں۔‘‘ وہ واپس چلی گئی۔ اس کے انداز میں وہی معصومیت، وہی شوخی تھی۔ رما رانی کہنے لگیں۔
’’فیصلہ کچھ بھی کرو رتنا! ابھی اس کا دل رکھ لینا۔ کم ازکم اس وقت تک جب تک اس کا دماغ ٹھیک نہ ہوجائے۔ اگر برا نہ مانو تو یہ بات کہوں کہ خود غرضی اچھی چیز نہیں ہوتی۔ ہم سے محبت نہ کرسکو لیکن کم ازکم ہمارا قرض ہی چکا دو۔‘‘ میں نے رما رانی کو دیکھا، خاموشی سے کپڑے اٹھائے اور اس طرف بڑھ گیا جہاں مجھے نہانا تھا۔ راستے میں مالتی ملی، مسکرائی اور بولی۔
’’آگئے رتنا جی! چلو تمہیں نہانے کی جگہ بتا دوں۔‘‘
سب ہی موجود تھے۔ غسل کیا، لباس پہنا اور اس دوران نجانے کیا کچھ سوچتا رہا۔ وہ سب کچھ کرنا ہے مجھے جو دل میں ٹھان لی ہے۔ ٹھیک ہے رما رانی اب کوٹھے پر نہیں ہیں اور یہ جگہ بہتر ہے۔ جیسے بھی گزار رہی ہوں، وہ جانیں اور ان کا کام، لیکن مجھے یہاں اب کوئی ایسا ٹھکانہ تلاش کرنا چاہئے جس سے رزق حلال ملنے کی امید بندھ جائے۔ رہائش کے لیے اگر رما رانی کا گھر ہو تو بھی کوئی ہرج نہیں ہے۔ جہاں تک معاملہ کشنا کا ہے تو بے شک رما رانی کا قرض ہے مجھ پر، اتاروں گا اسے۔ کشنا کو بہتر راستے پر لائوں گا اور کسی وقت بتا دوں گا کہ میں مسلمان ہوں۔ یہ سب کچھ ممکن نہیں ہوسکتا۔ کشنا کو میں احترام کا درجہ تو دے سکتا ہوں لیکن اس سے آگے تو میری کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور نہ ہی میں ان راستوں پر چلنے کے قابل ہوں۔ یہ فیصلہ کرلیا تھا دل میں اور یہ سوچا تھا کہ اب ثابت قدمی سے یہاں وقت گزاروں گا اور اپنے لیے کوئی مناسب جگہ تلاش کروں گا۔ بس! اب ماضی کی بہت سی باتیں دل میں رکھنے یا دماغ میں سوچنے سے کوئی فائدہ نہیں تھا۔ مجھے عمل کی دنیا میں آنا تھا اور یہی میرے حق میں بہتر تھا۔ چنانچہ رما رانی، لکشمی، رادھا، مالتی سب ہی سے گھل مل گیا۔ کشنا کے چہرے پر جیسے ایک دم سے نئی زندگی پھیل گئی تھی۔ لگتا ہی نہ تھا کہ کچھ وقت پہلے وہ بالکل بدلی ہوئی تھی۔ غسل خانے سے نکلی تھی تو جیسے نیا چہرہ چہرے پر سجا کر لے آئی تھی۔ رما رانی نے اسے دیکھا اور ماں کی آنکھوں میں آسودہ مسکراہٹیں کھلنے لگیں۔ مجھے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’دیکھا تم نے…!‘‘ میں نے خاموشی سے آنکھیں بند کرتے ہوئے گردن ہلا دی تھی۔ میرے لیے درحقیقت بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ ایک طرف رما رانی کی محبت اور ان کے کئے ہوئے احسانات تھے اور دوسری طرف اپنی انوکھی زندگی! فیصلہ کرنا بڑا مشکل کام تھا۔ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا تھا۔ رات کو رما رانی مجھ سے میرے بارے میں پوچھنے لگیں۔ کشنا میری یہاں موجودگی سے مطمئن ہوگئی تھی اور بہت خوش نظر آرہی تھی۔ رادھا اور لکشمی کی مسکراہٹیں بھی جوں کی توں تھیں۔ رما رانی نے کہا۔
’’رتنا…! تمہیں یہ تو معلوم ہوچکا ہوگا کہ تم کون ہو، تمہارا گھر کہاں ہے، کیا واقعہ ہوا تھا تمہارے ساتھ جس کی بناء پر تمہارا ذہنی توازن الٹ گیا تھا۔‘‘
’’ریل کا حادثہ ہوا تھا رما جی! اور اس حادثے نے مجھے نجانے کس کس سے دور کردیا۔‘‘
’’اکیلے سفر کررہے تھے…؟‘‘
’’نہیں! کچھ عزیز بھی ساتھ تھے۔‘‘
’’تو ان کا کیا ہوا…؟‘‘
’’مر گئے۔‘‘ میں نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔
’’تو کیا اب تم اکیلے رہ گئے ہو؟‘‘
’’ایک طرح سے یہی سمجھ لیں رما جی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تو رتنا! ہمارے ساتھ رہو، کیا ہرج ہے۔ دیکھو بیٹا! انسان انسان ہی ہوتا ہے۔ سنسار میں اس کی حیثیت کچھ بھی ہو، روتا ہوا ہی آتا ہے اور ہاتھ، پائوں پسارے چلا جاتا ہے۔ کچھ بھی نام دے لو اسے لیکن ہوتا وہ انسان ہی ہے۔‘‘
’’ہاں رما جی! اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر میں…! میں مسلمان ہوں۔‘‘
’’ہیں…!‘‘ رما رانی نے حیران نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! میں مسلمان ہوں۔‘‘
رما رانی عجیب سے انداز میں مجھے دیکھتی رہیں۔ پھر بولیں۔ ’’ٹھیک ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ اپنا دھرم بدل لو مگر… مگر انسانیت کا دھرم تو ایک ہی ہوتا ہے۔ تھوڑا سا سمے گزار لو ہمارے ساتھ! کشنا کو جیسے چاہو بہلا لینا اور پھر… اور پھر!‘‘ رما رانی کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ میں نے بے قرار ہوکر کہا۔
’’نہیں رما جی! آپ فکر نہ کریں۔ کشنا جب تک بالکل ٹھیک نہیں ہوجائے گی، میں یہاں سے نہیں جائوں گا۔‘‘
’’تو تمہیں یہاں سے جانے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ ہم سے جو پرہیز کرنا چاہو، کرلینا۔ بھاجی، ترکاری تیار ہوتی ہے، وہ کھا پی لینا۔ دھرتی پر جو کچھ ہوتا ہے، وہ تو سب ہی کے لیے ہوتا ہے۔‘‘
’’کھا چکا ہوں رما رانی جی! اب کیا پرہیز کروں گا لیکن آپ کے حالات تو ویسے ہی بگڑے ہوئے ہیں۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آئی ہیں۔ مجھے ایک اجازت ضرور دے دیجئے گا۔
’’میں کہیں نوکری کروں گا، اپنے لیے رزق کمائوں گا۔ آپ کی بھی جو سیوا ہوسکتی ہے، وہ کروں گا۔ مجھے اس سے آپ نہیں روکیں گی رما جی!‘‘
رما رانی نے گردن جھکالی۔ کہنے لگیں۔ ’’ٹھیک ہے مگر کشنا کو سمجھا لینا۔‘‘
’’ہاں کیوں نہیں!‘‘ ایک حد تک اطمینان ہوا تھا۔ یہ بھی بڑی بات ہے کہ سر چھپانے کا ٹھکانہ بھی مل گیا تھا۔ اوم پرکاش جی سے یہ سب کچھ کہنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ رزق حلال کا جو مزہ چکھا تھا، اسے کبھی نہیں بھول سکتا تھا لیکن اب راستے اور پرخطر ہوگئے تھے۔ احتیاط اور شدید ہوگئی تھی۔ کشنا کی محبتیں عروج پر تھیں۔ اب وہ مجھ سے باقاعدہ سمجھداری کی باتیں کرنے لگی تھی۔ اس نے ایک دفعہ پوچھا۔
’’کیوں چلے گئے تھے رتنا…؟‘‘
’’بس کشنا…! جی چاہا تھا۔‘‘
’’کیا شکنتا نے کہا تھا کہ یہ گھر چھوڑ دو؟‘‘
’’نہیں کشنا…! شکنتا سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔‘‘
’’سچ…!‘‘ وہ خوش ہوکر بولی۔
’’ہاں!‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’اور مجھ سے…؟‘‘
’’تم سے تو بڑا لگائو ہے مجھے کشنا! لیکن تم نے اپنی جو حالت بنا لی ہے، مجھے اچھی نہیں لگتی۔‘‘
’’تمہاری ہی وجہ سے تو ایسا ہوا۔ تم چلے گئے تو مجھے ایسا لگا جیسے سنسار میں سورج چھپ گیا ہو، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے! کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا۔ چاروں طرف گھور اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔‘‘
’’اب خود کو سنبھالو، یہ ساری باتیں بری ہوتی ہیں۔‘‘
’’تم اگر میرے ساتھ رہو تو پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’میں تمہارے ساتھ بہت زیادہ وقت تو نہیں گزار سکتا کشنا! دیکھو نا میں مرد ہوں اور مرد گھروں میں چوڑیاں پہن کر تو نہیں بیٹھتے۔‘‘
’’پھر کیا کرتے ہیں۔‘‘ وہ ہنس کر بولی۔
’’وہ باہر نکلتے ہیں، عورتوں کے لیے روزی کماتے ہیں اور پھر شام کو گھر واپس آتے ہیں اور اگر کوئی مرد ایسا نہیں کرتا تو پھر وہ مرد، مرد نہیں کہلاتا۔ تم نے کوٹھا چھوڑ دیا ہے، وہ جگہ بری تھی کشنا! وہاں مرد، مرد نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ مرد جو کوٹھوں پر رہتے ہیں عورتوں کے غلام ہوتے تھے، یہ اچھی بات ہے کہ اب ہم یہاں بنارس میں ہیں۔ اگر تم اجازت دو تو میں نوکری کروں اور تم سب کے لیے روزی کمائوں؟‘‘
کشنا کچھ سوچنے لگی۔ پھر بولی۔ ’’نوکری کرنے کے لیے تو تمہیں شہر جانا پڑے گا۔‘‘
’’ اور اگر تم واپس نہ آئے تو؟‘‘
’’نہیں…! میں ہر شام اپنا کام کرکے اس طرح گھر واپس آئوں گا جس طرح پرندے اپنے گھونسلوں میں بسیرا کرنے کے لیے واپس پلٹتے ہیں۔‘‘
وہ متاثر نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگی۔ پھر بولی۔ ’’اگر تم وعدہ کرتے ہو تو ٹھیک ہے۔‘‘
یہ مرحلہ بھی طے ہوگیا تھا۔ میں کسی کے لیے بھی اپنے مقصد کو قربان نہیں کرسکتا تھا۔ جو ہدایات دی گئی تھیں، ان میں پہلا مرحلہ یہی تھا کہ کم ازکم میں کسی کے شانوں پر نہ پڑا رہوں۔ اب تک تو ایسا ہی ہوتا آیا تھا۔ کبھی رمضان کے ہوٹل پر تو کبھی کسی کے گھر…! یہاں سے نکلا تو وہاں جا بیٹھا، وہاں سے نکلا تو دوسری جگہ جا بیٹھا۔ کئی بار ہاتھ، پائوں چلانے کی کوشش کی تھی لیکن راستے بند ہوگئے تھے۔ ایک دلچسپ بات جو اب تک میں نے محسوس کی تھی، وہ یہ تھی کہ اس وقت کے بعد جب مجھے سورج کے ساتھ سفر کرکے ایک منزل پر پہنچنا پڑا تھا اور وہاں میرے لیے عدالت لگی تھی، میرے بیروں کا کہیں پتا نہیں تھا۔ میں کہیں بھی ہوتا، ان کی چاپ سنتا رہتا، ان کی حرکتیں میرے ذہن تک پہنچتی رہتیں لیکن اس عدالت سے واپسی کے بعد یہ بیر میرے گرد نہیں چکراتے تھے۔ دل میں خیال تو آیا تھا کئی بار۔ لیکن انہیں آواز دینے کی جرأت نہیں ہوئی تھی۔ جو غلطیاں کرچکا تھا، انہی سے بمشکل تمام جان بچی تھی۔ اب کوئی اور حماقت کرکے اپنے لیے مزید مشکلات نہیں خریدنا چاہتا تھا۔ صبر کرنا تھا، انتظار کرنا تھا۔ صبر اور انتظار یہی دو چیزیں مجھے میری منزل تک پہنچا سکتی تھیں اور میں اپنی زندگی کے اس سفر میں لاتعداد مصیبتیں اٹھانے کے باوجود منزل کی طلب سے اپنے آپ کو دور نہیں کر پایا تھا۔ بہرحال کسی بھی شخصیت کو، کسی بھی واقعے کو اپنے آپ پر مسلط کرنے سے راستے رک جاتے ہیں۔ بے شک رما رانی مجھے یہاں تک لے آئی تھیں لیکن اگر وہ میرے راستے کی رکاوٹ بنتیں اور مجھے یہاں سے باہر نکلنے کا موقع نہ ملتا تو بحالت مجبوری ایک بار پھر دھوکا دے کر یہاں سے نکلنا پڑتا لیکن اب کشنا بھی تیار تھی اور رما رانی نے بھی مجھے نوکری تلاش کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے حالات بھی بہتر نہیں تھے۔ چنانچہ میدان عبور کرکے اس آبادی میں اور اس آبادی سے بنارس کی سڑکوں پر پہنچ گیا۔ بنارس معمولی جگہ نہیں تھی۔ ہندوستان میں بہت بڑی حیثیت کا حامل ہے یہ شہر اور شاید تقدیر میری رہنمائی بھی کررہی تھی۔
شام کے تقریباً چار بجے تھے۔ میں نے ایک شخص کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھا۔ قدم لڑکھڑا رہے تھے، ادھر ادھر ہاتھ مار کر سہارا حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ آس پاس کوئی اور موجود نہیں تھا۔ سنسان سی جگہ تھی۔ جگہ جگہ درخت کھڑے ہوئے تھے۔ ایک لمحے میں، میں نے محسوس کیا کہ اگر یہ شخص کوئی سہارا پانے میں ناکام رہا تو یقینی طور پر زمین پر گر پڑے گا۔ لوگ اس کی جانب متوجہ نہیں تھے۔ میں تیزی سے آگے بڑھا اور میں نے اس شخص کو سنبھال لیا۔ پورا جسم پسینہ پسینہ ہورہا تھا۔ مسلمان لگتا تھا لباس سے، چہرے مہرے سے! ہاتھوں میں بید کی چھڑی تھی اور اس کی حالت غیر ہوتی جارہی تھی۔ اس نے مجھے ڈوبتی نگاہوں سے دیکھا اور بولا۔ ’’مم… میں…! میں دل کا مریض ہوں۔ میری شیروانی کی جیب میں میرے گھر کا پتہ رکھا ہوا ہے۔ اس وقت میری حالت بہت خراب ہے۔ خدا کے لیے میری مدد کرو…!‘‘
میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ کچھ فاصلے پر تانگے آتے جاتے نظر آرہے تھے لیکن وہاں تک پہنچنا ناممکن تھا۔ بڑی پریشانی کے عالم میں، میں اسے سہارا دیتے ہوئے ایک درخت کے نیچے لے آیا۔ اس کے سینے پر ہلکی ہلکی مالش کی اور پانی کی تلاش میں ادھر ادھر نگاہیں دوڑانے لگا۔ اتفاق کی بات یہ کہ تھوڑے فاصلے پر ناریل کا ایک درخت نظر آیا۔ پانی اور تو کہیں موجود نہیں تھا۔ ناریل کے درخت کے قریب پہنچا۔ درخت کو زور زور سے ہلایا، پتھر اٹھا کر اوپر مارے، تب دو ناریل ٹوٹ کر نیچے گر پڑے اور اس کے بعد انہیں توڑ کر اس شخص کے منہ میں پانی ڈالنا میرے لیے مشکل نہ ثابت ہوا۔ ناریل کا پانی شاید اکسیر ثابت ہوا تھا اس کے لیے! ایک دم اس کی کیفیت بحال ہونے لگی۔ اس نے درخت کے تنے سے گردن ٹکا دی اور گہری گہری سانسیں لینے لگا۔ میرے دل میں انسانیت اور ہمدردی کا سمندر موجزن تھا۔ یہ شخص صورت ہی سے کوئی نیک انسان معلوم ہوتا تھا۔ جب اس کی کیفیت کافی بہتر ہوگئی تو میں نے اس سے کہا۔
’’اب براہ کرم مجھے اپنا پتہ دے دیجئے، میں کوشش کرتا ہوں کہ آپ کو آپ کے گھر پہنچا دوں۔‘‘ اس شخص نے لرزتے ہاتھ سے شیروانی کی جیب میں رکھا ہوا ایک کاغذ نکالا اور بولا۔
’’زیادہ باتیں نہیں کرنا چاہتا۔ اس کاغذ پر میرا پتہ دیکھ لو۔‘‘ میں نے پتہ دیکھا اور اس کے بعد اس سے کہا۔
’’اگر آپ اجازت دیں تو میں تھوڑے فاصلے پر جاکر تانگہ لے آئوں۔‘‘ اس شخص نے ممنونیت کے انداز میں گردن ہلا دی۔ میں نے کاغذ پر ایک بار پھر اس کا نام اور پتا دیکھا۔ نام تھا مہتاب علی اور محلہ شیر خان کے مکان نمبر ایک سو ستائیس میں رہتا تھا۔ کچھ فاصلے سے گزرتے ہوئے تانگے والے کو اشارہ کیا اور اس کے بعد تانگہ لے کر اس کے پاس آگیا۔ مہتاب علی کو میں نے تانگے کی پچھلی نشست پر سوار کرایا اور اس کے قریب ہی بیٹھ گیا۔ مہتاب علی نے آہستہ سے کہا۔
’’بہت تکلیف ہورہی ہے تمہیں! لیکن انکار نہیں کروں گا کیونکہ انسان ہی انسان کی مدد کا طالب ہوتا ہے اور انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ مجھے میرے گھر پہنچا دو، اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا۔‘‘
’’آپ بالکل اطمینان سے بیٹھے رہیں، مجھے کوئی تکلیف نہیں ہورہی۔‘‘ تھوڑی دیر کے بعد تانگہ مطلوبہ جگہ پہنچ گیا۔ میں نے سہارا دے کر مہتاب علی کو نیچے اتارا، تانگے والے کو اپنی جیب سے پیسے ادا کئے اور اس کے بعد اس شخص کو سہارا دیتے ہوئے گھر کے دروازے تک پہنچ گیا۔ اس نے دروازے کی کنڈی بجانے کا اشارہ کیا اور چند لمحات کے بعد ایک نوجوان لڑکی نے دروازہ کھولا۔ مجھے دیکھ کر عجیب سے انداز میں پیچھے ہٹ گئی اور میں اسے سہارا دے کر اندر لے گیا۔ فوراً ہی ایک معمر خاتون اور ایک آٹھ نو سالہ بچی میرے پاس پہنچ گئے۔
’’کیا ہوا، کیا ہوگیا۔ خدا خیر کرے۔ ارے کیا طبیعت خراب ہوگئی آپ کی…؟‘‘
’’اندر چلو… اندر چلو۔‘‘ مہتاب علی نے کہا اور تھوڑی دیر کے بعد اسے ایک بستر پر لٹا دیا گیا۔ ’’میری حالت اب بہتر ہے۔ کمزوری بے پناہ ہوگئی ہے۔ تم بیٹھو میاں! بیٹھ جائو یوں سمجھو کہ آج تم مسیحا بن کر میرے پاس پہنچے ورنہ اس کمبخت منحوس علاقے میں نہ تو کوئی تانگہ ملتا اور نہ کوئی سہارا…!‘‘
’’مگر… مگر…!‘‘
’’بس بی بی! اگر مگر سے کیا فائدہ! دورہ پڑ گیا تھا مجھے ایک بار پھر، لیکن… لیکن مسیحا کچھ فاصلے پر ہی موجود تھا۔‘‘ معمر عورت نے میرا شکریہ ادا کیا۔ نوجوان لڑکی بھی نگاہوں کے سامنے تھی اور چھوٹی بچی بھی! سب کے سب سہمی ہوئی نگاہوں سے اس شخص کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے اجازت مانگی تو اس نے کہا۔
’’میاں! اگر کوئی بہت زیادہ مصروفیت نہ ہوتو تھوڑی دیر بیٹھ جائو۔ یوں بھی مریض کی تیمارداری انسانی فریضہ ہے اور پھر تم تو اس وقت…!‘‘
’’آپ بار بار مجھے یہ الفاظ کہہ کر شرمندہ کررہے ہیں۔‘‘
’’تو کچھ دیر رک جائو میں… میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں، دل چاہ رہا ہے۔‘‘
’’کوئی ہرج نہیں ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ معمر شخص نے عورت سے کہا۔ ’’جائو بھئی اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میری دوا لے آئو اور مجھے دوا پلا دو اور ذرا مہمان کے لیے چائے وغیرہ کا بندوبست کرو۔ میاں نام کیا ہے آپ کا…؟‘‘
’’مسعود احمد میرا نام…!‘‘
’’اللہ تعالیٰ زندگی عطا فرمائے، صحت دے، ترقی دے، بلندی دے۔ بڑی مدد کی ہے تم نے ہماری مسعود بیٹے! کہاں رہتے ہو؟‘‘
’’بس! یہیں ایک جگہ ہے، نام وغیرہ نہیں جانتا اس کا چونکہ بنارس آئے ہوئے بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور اس سے واقفیت حاصل نہیں ہے۔‘‘
’’اوہو اچھا… اچھا! کہیں اور سے آئے ہو…؟‘‘
’’جی…!‘‘
’’اللہ تعالیٰ خوش رکھے۔ یہاں آنے کا کوئی مقصد تو ہوگا بیٹے…؟‘‘
’’جی ہاں! بس… بس تلاش رزق میں نکلا ہوا ہوں۔‘‘
’’کوئی نوکری ملی…؟‘‘ مہتاب علی نے پوچھا۔
’’نہیں…! لیکن مل جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ! کوشش کررہا ہوں۔‘‘ مہتاب علی خاموش ہوگئے۔ کچھ دیر آنکھیں بند کئے سوچتے رہے۔ پھر بولے۔
’’کس کے ساتھ رہتے ہو یہاں؟‘‘
’’ایسے ہی کچھ شناسا ہیں۔‘‘
’’میاں! دیکھو یہ نہ سمجھنا کہ ہم تمہارے قرض چکا رہے ہیں۔ بعض قرض ایسے ہوتے ہیں کہ زندگی بھر چکائے جائیں تو ادا نہیں ہوتے لیکن وہی مسئلہ ہے کہ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ اگر کچھ اور وقت دے سکو ہمیں تو ہم تم سے کچھ اور باتیں کریں۔ لو چائے آگئی، ذرا چائے پیو۔‘‘ چائے کا سامان ہمارے سامنے رکھ دیا گیا۔ بیگم صاحبہ جو مہتاب علی کی بیوی تھیں، محبت بھرے انداز میں چائے بنانے لگیں اور پھر انہوں نے ایک پیالی بڑے اہتمام سے مجھے پیش کی اور میں نے شکریہ ادا کرکے قبول کرلی۔ نوجوان لڑکی چلی گئی تھی لیکن چھوٹی عمر کی لڑکی وہیں بیٹھی ہوئی عجیب سی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔
’’اس کا نام رخسانہ ہے۔‘‘ مہتاب علی نے اپنی بیٹی کی طرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اور ان کا نام ابو…؟‘‘
’’سنا نہیں تم نے مسعود احمد ہے۔‘‘
’’ہم انہیں کیا کہیں۔‘‘ لڑکی نے پوچھا۔
’’تمہارا کچھ کہنا ضروری ہے کیا…؟‘‘
’’تو نہ کہیں کیا…؟‘‘ لڑکی بولی۔
’’نہیں… نہیں بھئی! ہم بھلا تمہیں کہاں روکیں گے۔ مسعود میاں! بس اللہ نے مجھے دو بیٹیاں عطا کی ہیں، بیٹے سے محروم ہوں اور یہی وجہ ہے کہ سڑکوں، میدانوں اور ویرانوں میں تنہا پھرتا رہتا ہوں۔ بس ایسے ہی اجنبی سہارے مجھے سنبھالے ہوئے ہیں یا پھر اللہ کا سہارا ہے۔ خیر یہ کوئی غم ناک گفتگو نہیں ہے۔ تعارف کرا رہا تھا اپنا! دل کی تکلیف ہوگئی ہے کافی عرصے سے، کبھی کبھی ایسی حالت ہوجاتی ہے۔ دو تین بار ہوچکی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ عجیب و غریب کیفیت ہے۔ اسے باقاعدہ دل کا دورہ بھی نہیں کہا جاسکتا چونکہ تین دوروں یا دو دوروں میں تو انسان کبھی کا آسمان پر پہنچ چکا ہوتا ہے لیکن میرا خیال ہے میری یہ کیفیت کئی بار ہوچکی ہے۔ علاج کررہا ہوں۔ کبھی کبھی تو بالکل ٹھیک ہوجاتا ہوں اور کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے مرض پھر سے واپس آگیا۔‘‘ میں خاموشی سے مہتاب علی کی صورت دیکھتا رہا اور چائے پیتا رہا۔ انہوں نے خود چائے نہیں پی تھی۔ بیگم صاحبہ نے میری پیالی خالی ہونے کے بعد اسے دوبارہ بھرنے کے لیے کہا لیکن میں نے معذرت کرلی۔
’’ہاں تو بیٹے! کیا تم ہماری تھوڑی سی خدمت قبول کرو گے؟‘‘
’’جی… میں سمجھا نہیں!‘‘
’’کل دن میں آسکتے ہو کسی وقت…؟‘‘
’’جی ہاں! کیوں نہیں۔‘‘
’’یہ پتہ یاد رہے گا…؟‘‘
’’اگر یاد نہ رہا تو اسے لکھ کر اپنے پاس رکھ لیتا ہوں۔ تلاش کرتا ہوا آجائوں گا۔ کوئی حکم ہے میرے لیے…؟‘‘
’’حکم نہیں بیٹے! التجا ہی سمجھو۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر میں تمہاری ملازمت کے لیے کوشش کروں تو…؟‘‘ میں مسکرانے لگا۔ مہتاب علی فوراً بولے۔
’’دیکھا نا وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ تم سوچ رہے ہو کہ ایک اتنے بڑے احسان کا صلہ چکانا چاہتا ہوں میں! ایسی بات نہیں ہے۔‘‘
’’بخدا میں بھی یہ نہیں سوچ رہا۔‘‘
’’تو پھر کیا ہرج ہے میاں! تم انسانی محبت سے مجبور ہوکر مجھے اپنا وقت برباد کرکے یہاں تک لائے۔ کیا تمہارے خیال میں میرے دل میں انسانی محبت نہیں جاگ سکتی، جو کچھ کرسکتا ہوں، اگر تم اسے قبول کرلو تو مجھے بھی خوشی ہوگی۔‘‘
’’یہ میری ضرورت ہے مہتاب علی صاحب! آپ حکم دیتے ہیں تو حاضر ہوجائوں گا۔ ویسے بھی آپ کی دوبارہ خبرگیری کرنا چاہتا تھا۔ آپ فرمایئے کس وقت حاضر ہوجائوں؟‘‘
’’میاں! کل گیارہ بجے… ہم اس کیفیت میں اپنی ملازمت پر تو نہیں جاسکیں گے لیکن کچھ حالت بہتر ہوگئی تو تمہارے ساتھ ضرور چلیں گے۔ باقی تفصیلات تمہیں کل دن ہی میں بتائی جائیں گی۔‘‘ مہتاب علی بولے۔ اس کے بعد میں نے ان سے اجازت طلب کرلی۔ راستے ذہن میں رکھے تھے۔ کشنا کے گھر کے سامنے چوپال لگی ہوئی تھی۔ مالتی، رما رانی، رادھا لکشمی سب ہی باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان کشنا بھی تھی۔ مجھے دیکھ کر سب خوشی سے کھل اٹھے۔
’’رتنا آگیا… رتنا آگیا۔‘‘ آوازیں ابھریں۔
’’گھر میں سانپ نکل آئے ہیں کیا، سب لوگ باہر کیوں بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اس بائولی نے ناک میں دم کررکھا تھا۔ اسے ابھی تک تم پر بھروسہ نہیں ہے۔ کہتی تھی کہ تم نہ آئو گے۔‘‘
’’اسے میں سمجھا لوں گا۔‘‘ میں نے کہا اور سب کے ساتھ اندر گیا۔ نئے حالات کے تحت ان لوگوں میں ضم ہونے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ کشنا کو سمجھایا۔ رما رانی کو بتایا کہ نوکری کی کوشش کررہا ہوں، مل جائے گی، امید پیدا ہوگئی ہے۔ اس سے حالات بہتر ہوجائیں گے۔‘‘
رما رانی غمزدہ ہوگئیں۔ ’’کیا کچھ نہیں تھا، ہمیں بھلا روپے پیسے کی کمی تھی مگر اور پھر ایک طرح سے اچھا ہوا، صدیوں کی ریت تو ٹوٹی۔ ایک بیسوا کبھی شریف زادی بنی وہ بھی پورے پریوار کے ساتھ…! عادی ہوجائیں گے، سمے بھی بیت ہی جائے گا۔ روکھی سوکھی کھا کر اور اگر ایسا ہوگیا تو سب ہی کا جیون سنور جائے گا۔ یہاں ہمیں کون جانتا ہے اسی لیے الگ تھلگ پڑے ہیں۔ پیٹ بھرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آئے گا۔‘‘ رما رانی کے خیالات بہت بدل گئے تھے۔ میں پھر جذباتی ہوا تھا لیکن دل ہی دل میں توبہ استغفار کرلی تھی۔ اسی جذباتیت نے تو اس منزل پر لا ڈالا تھا۔
دوسرے دن ٹھیک گیارہ بجے مہتاب علی صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ یہاں بھی ایک محترمہ دروازے پر موجود تھیں اور جیسے ہی میں اس دروازے کے سامنے رکا، انہوں نے دروازہ کھول دیا۔ رخسانہ تھی۔ مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور معصوم لہجے میں بولی۔
’’ایک ایک منٹ گن رہی تھی اور یہ سوچ رہی تھی کہ کہیں ہمارے بھیا جی وعدہ خلافی نہ کر ڈالیں۔ ہم ذرا وعدے کے پابند آدمی ہیں۔ ابا جی نے ہمیشہ یہی سکھایا ہے کہ بیٹا جب کسی سے کوئی وعدہ کرو تو اسے اپنا ایمان بنا لو۔ ہم تو وعدے کو ایمان بنا لیتے ہیں بھیا جی! آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟‘‘
رخسانہ کی معصوم باتوں نے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی تھی۔ میں نے پیار سے کہا۔ ’’بھئی بہت اچھی خاتون ہیں بلکہ یوں سمجھ لیں کہ آپ تو بیٹھے بٹھائے ہماری استاد بن گئیں۔ ایسا سبق سکھایا ہے ہمیں کہ زندگی بھر یاد رکھیں گے۔‘‘
’’اور کبھی وعدہ خلافی نہیں کریں گے؟‘‘
’’جی بالکل! آپ سے وعدہ کیا جاتا ہے۔‘‘
’’تو پھر پہلا وعدہ یہ کیجئے کہ اندر جاکر کسی کو نہیں بتائیں گے کہ ہم نے آپ سے اس طرح گفتگو کی ہے۔ ہم سے کہا جاتا ہے کہ سب سے ادب و احترام سے پیش آیا جائے۔ کسی بڑے سے ضرورت سے زیادہ باتیں نہ کی جائیں مگر ہم کیا کریں۔ یہاں تو بس تین بڑے ہی بڑے ہیں۔ نہ کوئی ہمارے برابر کا ہے اور نہ کوئی ہم سے چھوٹا! بڑوں سے ہنس کر بات کی جائے تو گستاخی ہوجاتی ہے اور چھوٹوں کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اب بتایئے رخسانہ کرے تو کیا کرے۔ آیئے بھیا جی! اندر آیئے۔ کان دروازے پر لگے ہوں گے۔ گیارہ بج رہے ہیں اور ابا میاں آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ دروازے پر رکیں۔‘‘
’’کیسی طبیعت ہے مہتاب علی صاحب کی؟‘‘
’’اللہ کے فضل سے ٹھیک ہیں۔ اب آجایئے نا کہہ دیا جائے گا کہ ہم نے آپ کو باتوں میں لگا رکھا تھا۔‘‘ رخسانہ کی شوخ و چنچل باتوں نے جی خوش کردیا تھا۔ مہتاب علی صاحب کی حالت کافی بہتر ہورہی تھی۔ چہرے پر رونق آگئی تھی۔ بیگم صاحبہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، تیار تھے، چھڑی کرسی کے ساتھ لگی رکھی تھی، جوتے پہنے ہوئے تھے۔ سلام دعا ہوئی۔ کہنے لگے۔
’’بس میاں! ویسے تو تمہاری خاطرداری ہم پر فرض ہے لیکن چلنا ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے حاجی صاحب کہیں نکل جائیں۔ ان کے جانے سے پہلے ان تک پہنچنا ضروری ہے۔ ویسے ان کا ملازم آیا تھا، ہم نے اپنی بیماری کی اطلاع دے دی ہے۔ بہت ہی اچھے انسان ہیں۔ چلو راستے میں باتیں ہوں گی۔ اچھا بھئی ہم چلتے ہیں اور واپس یہیں آئیں گے اور دوپہر کے کھانے میں آپ کو کیا انتظام کرنا ہے، اس کی ہدایت تو آپ کے پاس موجود ہے ہی، آج کی بات تو نہیں ہے۔‘‘ مہتاب علی نے اپنی بیگم سے کہا۔ میں نے کچھ کہنا چاہا تو وہ جلدی سے بولے۔
’’نہیں میاں! ظاہر ہے مہمان میزبانوں سے تکلف کی باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی کیا ضرورت ہے لیکن میزبان سمجھتے ہیں کہ کس چیز کی کیا ضرورت ہے۔ اب آئو دیر ہوجائے گی، تانگہ بھی تلاش کرنا ہوگا۔‘‘
میں مہتاب علی صاحب کے ساتھ باہر نکل آیا۔ ایسے بہت سے کرم فرما، محبت کرنے والے مجھے زندگی میں مل چکے تھے اور ایسے لوگوں سے محروم نہیں رہا تھا۔ بہرحال یہ میری خوش قسمتی تھی کہ اس دنیا میں صرف نفرتیں ہی میری ہم رکاب نہیں رہی تھیں بلکہ محبتوں کا توازن بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جینا کس قدر مشکل ہوتا، اس کا مجھے بخوبی اندازہ تھا۔ تانگہ تھوڑی دیر کے بعد ہی مل گیا اور مہتاب علی صاحب نے اسے پتا بتا دیا۔ تانگہ آگے بڑھا تو مہتاب علی صاحب نے کہا۔
’’ہم نوکری کرتے ہیں حاجی فیاض احمد صاحب کے ہاں اور یہ حاجی فیاض احمد صاحب بنارس میں تلے اور زری کے کام کے سب سے بڑے تاجر ہیں۔ یوں سمجھ لو سولہ کارخانے ہیں ان کے جن میں بنارسی کپڑا اور بنارسی ساڑھیاں وغیرہ تیار ہوتی ہیں اور ہندوستان بھر میں تقسیم ہوجاتی ہیں۔ اللہ نے خوب نوازا ہے زر و جواہر سے اور جواہر پارے بکھیر دیئے ہیں انہوں نے پورے ہندوستان میں! لیکن طبیعت کے ایسے نیک اور نفیس کہ آج بھی اپنے ملازمین کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور کوئی تکلف نہیں ہوتا لیکن چونکہ خود اپنے بازوئوں سے کمایا ہے اور خاندانی ورثہ منتقل نہیں ہوا ہے، اس لیے خود تو نیک نفس اور ملنسار آدمی ہیں لیکن اہل خانہ کا ان کی کمائی سے خانہ خراب ہوگیا ہے۔ خصوصاً صاحبزادی درشہوار موجودہ دور کی عکاسی کرتی ہیں اور چونکہ حاجی صاحب کی بیگم نے ان کے نزول کے بعد حاجی صاحب سے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ اول سے آخر تک ہیں اور اس سے آگے اولاد کا تصور نہ کیا جائے۔ چنانچہ حاجی صاحب نے بھی قناعت کرلی اور درشہوار بری طرح بگڑ گئیں۔ میں اپنے مالک کی بیٹی کی برائی نہیں کررہا۔ بچی بہت اچھی ہے۔ نیک طبیعت اور اچھے عادات و خصائل کی مالک! لیکن بس طبیعت میں غرور ہے۔ ملنا جلنا اپنے ہم پلہ لوگوں سے ہے اس لیے عام لوگوں کو خاطر میں نہیں لاتی۔ ساری باتیں اس لیے کہہ دی ہیں میاں مسعود کہ ہوسکتا ہے تقدیر یاوری کرے اور تمہارا واسطہ انہی لوگوں سے پڑے۔ جہاں تک رہا بیگم فیاض کا معاملہ تو یوں سمجھ لو کہ وہ نہ تیتر ہیں، نہ بٹیر! جب کبھی خاندانی کیفیت ابھر آتی ہے تو وہ انسان ہوتی ہیں اور جب زمانے کے رنگوں میں رنگی ہوئی ہوں، تب ان کی رنگینیاں کچھ اور بڑھ جاتی ہیں۔ تمہیں یہ سب کچھ بتانا اس لیے ضروری ہے کہ ہم کریں گے آج تمہاری نوکری کے لیے بات چیت اور اللہ کی ذات سے امید تو یہی ہے کہ نوکری مل جائے گی۔ دیکھو میاں! ابھی اسی وقت اس تانگے میں اپنی پسند بتا دو۔ ہم تو حاجی صاحب سے یہ کہیں گے کہ ہمارا اپنا بچہ ہے، کوئی بھی جگہ دے دی جائے لیکن اگر تمہاری کوئی پسند ہو تو۔‘‘
میں نے حیرانی سے مہتاب علی کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں مہتاب صاحب! مجھے صرف ملازمت چاہئے۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں، کوئی پسند نہیں۔‘‘
’’خدا خوش رکھے۔ ویسے بھی مذہب نے رزق حلال کے لیے محنت کو افضل قرار دیا ہے۔ لوگ تو تن آسانی تلاش کرتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر حصول رزق میں پسینہ نکل آئے تو یوں سمجھ لو موتیوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ بہرحال مسرت ہوئی۔‘‘
جس حویلی کے ساتھ تانگہ رکا تھا، وہ اس بات کا اظہار کرتی تھی کہ بنارس کے کسی رئیس کی حویلی ہے لیکن بنارس کے یہ رئیس جو سادہ سے کرتے، پائجامے اور دو پلی ٹوپی میں ملبوس تھے، کسی بھی طرح اس حویلی کے مالک نظر نہیں آتے تھے۔ دور ہی سے لپکے لپکے آئے تھے اور مہتاب علی کے قریب پہنچ گئے تھے۔
’’اماں مہتاب! کیوں پریشان کرتے رہتے ہو تم مجھے! بار بار بیمار پڑ جاتے ہو اور میں کہتا ہوں کہ تم آئے کیوں۔ ایں…! میں تو خود آنے والا تھا تمہارے پاس، نجانے کس سے دل لگا بیٹھے ہو۔ میں کہتاہوں اس عمر میں دل کا روگ پالنا ضروری تھا کیا…؟‘‘ مہتاب علی صاحب نیاز مندی سے مسکرائے اور بولے۔
’’اس بچے کو لے کر حاضر ہونا ضروری تھا حاجی صاحب! ورنہ نہ آتا۔‘‘
’’اماں! تو بچے کو بھیج دیا ہوتا۔ کون ہے یہ۔‘‘ انہوں نے میری طرف دیکھا تو میں نے انہیں سلام کیا۔ حاجی صاحب مجھے دیکھتے رہے پھر بولے۔
’’کون ہیں یہ مہتاب میاں…؟‘‘
’’بس یوں سمجھ لیجئے عزیز ہے میرا، نوکری کا خواہشمند ہے۔‘‘
’’اچھا… اچھا! کہاں کس کارخانے میں لگنا ہے، کوئی کام جانتے ہیں یہ یا کوئی اور نوکری دینا چاہتے ہیں آپ…! ارے ہاں میاں! ذرا ایک بات تو بتائو گاڑی چلانا آتی ہے؟‘‘
’’جی!‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’بس ٹھیک ہے اور کوئی حکم جناب مہتاب علی صاحب۔‘‘
’’نہیں حضور! بس آپ کی نوازشوں کے سائے میں پروان چڑھ رہا ہوں۔‘‘
’’مصرع ثانی بھی عرض کر ڈالیے!‘‘ حاجی صاحب نے ظرافت سے کہا اور مہتاب علی مسکرانے لگے۔ تب حاجی صاحب نے مڑ کر کسی کو آواز دی اور ایک دبلا پتلا سا آدمی قریب آگیا۔
’’گاڑی کی چابی کہاں ہے۔‘‘ حاجی صاحب نے پوچھا۔
’’یہ ہے سرکار!‘‘ اس شخص نے چابی نکال کر حاجی صاحب کے حوالے کردی۔
’’پیٹرول ہے گاڑی میں…؟‘‘
’’ٹنکی بھری ہوئی ہے۔‘‘ وہ بولا۔
’’ٹھیک ہے جائو۔‘‘ حاجی صاحب بولے اور پھر چابی مجھے دیتے ہوئے کہا۔ ’’تو میاں! آپ اپنی ملازمت کا آغاز یوں کریں کہ سب سے پہلے ان مہتاب علی کو ان کے گھر پہنچا دیں۔‘‘
’’ایک اور عرض ہے۔‘‘ مہتاب علی بولے۔
’’ارشاد۔‘‘
’’یہ بنارس کے گلی کوچوں سے واقفیت نہیں رکھتے، اس میں قباحت ہوگی۔‘‘
’’میاں! جسے جہاں جانا ہوگا، راستہ خود بتائے گا۔ آپ جایئے۔‘‘ راستے میں مہتاب، علی حاجی صاحب کے بارے میں بہت کچھ بتاتے رہے تھے۔ گھر جاکر وہ لنچ بھی کینسل کرنا پڑا تھا جس کی ہدایت مہتاب علی کر آئے تھے۔ پھر میں واپس حاجی صاحب کی کوٹھی پہنچ گیا۔ حاجی صاحب نے ایک معقول تنخواہ کی پیشکش کی تھی، بہت سی مراعات سے نوازا تھا۔ صبح آٹھ بجے یہاں پہنچنے کی ہدایت کی تھی، واپسی کا کوئی تعین نہیں تھا لیکن یہ سب کچھ بور نہیں تھا۔ دل خوشی سے منور ہوگیا تھا۔ دو تین جگہ کے کام سونپے گئے تھے اور میں نے خوش اسلوبی سے سرانجام دیئے تھے۔ سورج چھپے چھٹی دی گئی اور واپسی میں حاجی صاحب نے کچھ رقم جیب میں ٹھونس دی۔
’’نہ یہ قرض ہے نہ بخشش نہ انعام! یہ فرض ہے جو آج میں پورا کررہا ہوں۔ کل تم پورا کرنا اور جسے کچھ دو، اسے ہدایت کرنا کہ جب وہ صاحب استطاعت ہو تو اسے کسی اور کو واپس کردے۔ ضد یا رد و قدح کرکے میرے اصولوں کو مجروح نہ کرنا۔ جو مجھے کسی اور نے دیا تھا، وہ میں تمہیں دے رہا ہوں۔‘‘ میں نے خاموشی سے گردن ہلا دی تھی۔
رما رانی کے سامنے وہ پیسے رکھ دیئے۔ ’’ارے یہ کیا ہے۔‘‘
’’میری کمائی…!‘‘ میں نے کہا۔ رما رانی کے چہرے پر عجیب سے تاثرات پھیل گئے۔ وہ کچھ دیر خاموش رہیں پھر انہوں نے مجھے عجیب سے انداز میں دیکھا اور خاموشی سے وہاں سے چلی گئیں۔ میں ان کی کیفیات سمجھ نہیں پایا تھا۔ کھانے کے بعد البتہ انہوں نے کہا۔
’’تمہاری حیثیت اتنی معمولی ہے رتنا۔‘‘
’’سمجھا نہیں رما رانی!‘‘
’’مجھے تو تمہاری پیشانی جگمگاتی نظر آتی ہے۔ لگتا ہے دھرتی پر پائوں مارو گے تو دولت ابل پڑے گی۔‘‘ میں مسکرا دیا۔ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’ میں دھرتی پر پائوں مارنا نہیں چاہتا رمارانی۔‘‘
’’سادھوئوں، رشیوں، منیوؤں اور دیوتائوں جیسی باتیںکرتے ہو، سنسار طاقت کی زبان سمجھتا ہے اور سنسار میں سب سے زیادہ طاقتور دولت ہوتی ہے۔ ایک بار دولت
کے ڈھیر لگا لو، جیون بھر کے لیے دیوتا اوتار بن جائو۔ سوچنا میری بات پر۔ وہ بائولی تمہارے لیے سولہ سنگھار کررہی ہے۔‘‘
میں ان کے جانے کے بعد ان کی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا مگر کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ دولت کے انبار میرے پیروں تلے تھے مگر حلال کی کمائی کے چار لڈو میں کبھی نہیں بھول سکتا تھا۔ سوچا پھر کبھی ان سے بات کروں گا، مطلب پوچھوں گا ان باتوں کا! البتہ جس بائولی کے سولہ سنگھار کے بارے میں انہوں نے مجھ سے کہا تھا، وہ رات گئے میرے کمرے میں گھس آئی۔ کشنا تھی اور شعلۂ جوالہ بنی ہوئی تھی۔ سرخ رنگ کا لباس، دمکتے ہوئے گہنے، پھولوں کے مہکتے ہوئے ہار! ہونٹوں پر نشہ آلود مسکراہٹ اور آنکھوں میں انوکھا خمار…! بوجھل بوجھل ارمان بھرے احساسات سے لڑکھڑاتی ہوئی۔
’’رتنا…!‘‘ اس کی نغمہ بار آواز ابھری۔
’’تمہیں کیا ہوگیا کشنا…‘‘
’’دلہن بنی ہوں تمہارے لیے! ماں نے اجازت دے دی ہے۔ مجھے اپنے چرنوں میں سوئیکار کرلو۔ ہمارا پریم امر ہوجائے گا۔ آج پورن ماشی ہے رتنا! بڑی رات ہے۔ آج کی رات اور بڑی ہوجائے گی۔ مجھے سوئیکار کرلو رتنا!‘‘ اس نے میرے پائوں پکڑ لیے۔
’’ارے… ارے کشنا! تمہیں کیا ہوگیا۔‘‘ میں نے جلدی سے پائوں سکوڑ کر اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔ مگر اچانک میری گھگھی بندھ گئی۔ میری نظریں اس کے مہندی رچے ہاتھوں پر جم گئیں۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں سات سات انگلیاں تھیں۔
سات انگلیاں جو میری آنکھوں کا دھوکا نہیں تھیں، میری نگاہوں کے سامنے تھیں اور مجھے ان سات انگلیوں سے ہوشیار کردیا گیا تھا۔ دماغ پر ہتھوڑے برسنے لگے۔ کشنا اور سات انگلیوں والی! کیا یہ پورنی ہے…؟ بھوریا چرن کی جادوگرنیاں! مگر میں کیا کروں، مجھے کیا کرنا چاہئے؟ کشنا کی نگاہیں مجھ پر نہیں تھیں۔ وہ جیسے نشے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں جھکی جا رہی تھیں اور انداز میں بے پناہ بے خودی تھی۔ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ کیا کروں۔ بہرطور میں نے اسے سنبھالا، بستر پر بٹھا دیا اور خود اس سے کئی فٹ دور ہوکر کھڑا ہوگیا۔ یہ بات اب آہستہ آہستہ میری سمجھ میں آرہی تھی کہ کشنا کا یہ عمل کس مقصد کے تحت ہے۔ مجھے آگاہ کردیا گیا تھا اور اگر سب کچھ جاننے کے بعد کسی اور لغزش کا شکار ہوجائوں تو پھر کچھ نہیں ہوسکے گا۔ جو فیصلہ مجھے دیا گیا تھا، اس پر عمل کرکے ہی میرے جرم کا خاتمہ ہوسکتا تھا لیکن اس سے متعلق وہ سب رما رانی، رادھا، لکشمی، مالتی، اگر میں…! اگر میں اس ہدایت پر عمل کر ڈالوں تو ان سب کے سامنے کیا کہوں گا… اندر سے دل نے چیخ کر کہا۔ تجھے سب کی پڑی ہے، اپنی سوچ! جو غلاظت تیرے وجود میں اتار دی گئی ہے، اسے کم کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس سے گریز کیوں کررہا ہے۔ جلدی کر، اس سے پہلے شیطان سے نجات حاصل کر، جلدی کر جلدی کر…! آواز تیز ہوتی چلی گئی اور میرے حواس پر چھا گئی۔ میں نے خونی نگاہوں سے کشنا کو دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر نشیلی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔
’’داسی ہوں تمہاری… جیون وار دوں گی تم پر! سنسار میں اتنا اونچا کردوں گی کہ کوئی تمہارے چرنوں کی دھول بھی نہ پا سکے، مہان ہوجائو گے۔ مہان ہوجائو گے… مہان ہوجائو گے… مجھے سوئیکار کرو رتنا جی! مجھے سوئیکار کرلو۔‘‘ اس نے دونوں بازو میری جانب پھیلا دیئے۔ حسن و جمال کی ایک ایسی تصویر جسے دیکھ کر آنکھیں بچھانے کو جی چاہے، خوب صورتی کا ایسا بے مثال مرقع کہ مصور اس کی صحیح تصویر نہ بنا سکے، میری نگاہوں کے سامنے تھا لیکن اب میری کیفیات میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہونے لگی تھیں۔ بدن میں چنگاریاں دوڑنے لگی تھیں، پورے وجود میں سنسناہٹ پھیل گئی تھی اور اس کیفیت نے مجھے سہارا دیا۔ آنکھوں میں خون اترتا محسوس ہورہا تھا، ہر شے سرخ سرخ نظر آرہی تھی اور ذہنی کیفیت بہت عجیب ہورہی تھی۔ میں ایک قدم آگے بڑھا اور اس کے ہونٹوں پر استقبالیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے اپنے جسم کو تھوڑا سا پیچھے سرکا لیا جیسے مجھے اپنے قریب جگہ دینا چاہتی ہو۔ میں اس کے قریب بیٹھ گیا۔ اس کے سیاہ لمبے لمبے بال بکھرے ہوئے تھے، سر پر زیورات سجے ہوئے تھے۔ میری انگلیاں آہستہ آہستہ آگے بڑھیں۔ میں نے اس کے بالوں کو اپنی انگلیوں کی گرفت میں لیا اور اس کے چہرے سے پیچھے ہٹا دیا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ میرے شانوں پر رکھ دیئے تھے اور میرے ہاتھ اس کے بالوں کو پیچھے ہٹاتے ہوئے اس کی گردن کے عقب میں پہنچ گئے تھے۔ تب اس کی آنکھیں بند ہوگئیں اور میں نے آہستہ سے ہاتھ آگے بڑھا کر اس کی گردن پر رکھ دیئے اور پھر میرے ہوش و حواس پر تاریکی سی چھانے لگی۔ میں نے درحقیقت کوئی خون نہیں کیا تھا، کبھی نہیں کیا تھا۔ جتنے الزامات مجھ پر عائد کئے گئے تھے، ان میں میرا کوئی قصور نہیں تھا بلکہ وہ صرف بھوریا چرن کا عمل تھا لیکن اس وقت…! اس وقت میں پہلا خون کرنے جارہا تھا۔ اگر اس وقت کوئی کمزوری دکھائی تو کبھی کچھ نہیں کرسکوں گا۔ جو کرنا ہے، کر ڈالنا چاہئے۔ دیر کرنا کسی طور مناسب نہ ہوگا۔ وہ اسی طرح نڈھال ہوگئی تھی جیسے اسے یقین ہوگیا ہے کہ اب… اب… اب…! میں پوری طرح اس سے متاثر ہوگیا ہوں لیکن جیسے ہی میری انگلیوں کی گرفت اس کی گردن پر سخت ہوئی، اس نے چونک کر آنکھیں پھاڑ دیں اور درحقیقت دیکھنے کے اس انداز میں ایک دوسری ہی کیفیت تھی جیسے اسے میری نیت کا احساس ہوگیا ہو۔ اب ان آنکھوں میں خمار نہیں تھا بلکہ خوف تھا، تیزی تھی، تندی تھی۔ اس کے ہاتھ اوپر اٹھے لیکن میں نے دانت کچکچا کر اس کے نرخرے کو دبوچ لیا اور بدن میں جتنی قوت تھی، ایک لمحے میں ہاتھوں میں منتقل کردی۔ میری انگلیاں جیسے موم سے گزر رہی تھیں۔ میں نے اتنی قوت سے اس کا گلا دبایا کہ اس کی زبان باہر نکل آئی، آنکھیں ابل پڑیں۔ اس کا بدن صرف ایک لمحے کیلئے پھڑپھڑایا اور اس کے بعد میں نے اس کی آنکھوں میں بے رونقی دیکھی۔ زبان ہونٹوں سے کئی انچ باہر نکل آئی تھی، منہ کھلا ہوا تھا۔ چہرے پر دہشت منجمد ہوگئی تھی لیکن میری انگلیاں اس طرح اس کی گردن میں پیوست تھیں جیسے کوئی شکنجہ پوری قوت سے کس دیا جاتا ہے۔
مجھے ایک دم یہ احساس ہوا کہ اگر میں ان انگلیوں کو اس کی گردن سے ہٹانا بھی چاہوں تو یہ میری قوت سے باہر ہے۔ میں اسے دیکھتا رہا۔ اب اس کے وجود میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں تھی۔ چہرہ آہستہ آہستہ بھیانک ہوتا جارہا تھا البتہ جسمانی کیفیت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔ رفتہ رفتہ میری کیفیت بھی اعتدال پر آنے لگی۔ اس یقین کے بعد کہ کشنا مرچکی ہے، میں نے اپنے ہاتھوں پر توجہ دی۔ انگلیوں کو بمشکل تمام اس کی گردن سے جدا کیا اور چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میرے گردن چھوڑنے پر وہ بستر پر گر پڑی تھی۔ ایک بے جان وجود میرے سامنے تھا اور میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ درحقیقت یہ پہلا خون تھا۔ دل میں ایک لمحے کیلئے بہت سے وسوسے، بہت سے احساسات جاگ اٹھے۔ کہیں وہ حقیقت میں کشنا نہ ہو۔ رما رانی نے اس کی جو کیفیت بتائی تھی، اس میں دیوانگی کا خصوصی طور پر تذکرہ تھا اور پھر اتنے دن سے میں خود بھی اسے دیکھ رہا تھا۔ کشنا محبت میں پاگل ہوگئی تھی اور اس کے اندر کوئی بھی کیفیت، کسی بھی وقت پیدا ہوسکتی تھی۔ یہ جانا بوجھا خون میں نے پوری طرح ہوش و حواس کے عالم میں کیا تھا۔ یعنی یہ کہ مجھے اندازہ تھا کہ میں ایک انسانی خون کررہا ہوں لیکن اندرونی طور پر جو احساسات میرے ذہن میں موجود تھے، ان کا تعلق صرف میری ذات سے تھا۔ کیا یہ واقعی پورنی ہے اور اگر نہیں ہے تو کیا صرف اس بنیاد پر میں نے اس کا خون کر ڈالا ہے کہ اس کے ہاتھ میں سات انگلیاں تھیں۔ اس سے پہلے کبھی کشنا پر اتنا غور کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اول تو میں نے اسے اتنی گہری نگاہوں سے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس وقت بھی جب میں رما رانی کے ہاں رتنا کی حیثیت سے مقیم تھا اور اب بھی اتنے دنوں میں ایک بار بھی میرے ذہن میں یہ تصور نہیں جاگا تھا کہ اسے بھرپور نگاہ سے دیکھوں۔ ہوسکتا ہے یہ انگلیاں… ہوسکتا ہے یہ انگلیاں… دفعتاً میرے دل کو دہشت کا ایک اور جھٹکا لگا۔ نگاہیں چونکہ کشنا پر ہی جمی ہوئی تھیں اور اس کے بارے میں سوچ رہا تھا اس لئے اس کے پپوٹوں کی وہ جنبش میری نگاہوں سے نہ بچ سکی۔ اچانک ہی اس نے پلکیں کھول دی تھیں۔
ایک لمحے کیلئے میرے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔ میرا دل دہشت سے لرزنے لگا۔ کیا میں اسے ہلاک کرنے میں ناکام رہا ہوں، کیا میرے ہاتھوں کی قوت نے بھرپور طریقے سے میرا ساتھ نہیں دیا؟ میں اسے دیکھتا رہا۔ اس کی کھلی آنکھیں بڑی عجیب لگ رہی تھیں۔ پھر اس نے زبان بھی منہ کے اندر کرلی اور ہونٹ بند کرلئے لیکن اس کے بعد اس کے اٹھنے کا جو انداز تھا، اس نے مجھے کسی حد تک مطمئن کردیا کہ یہ سب… یہ سب کالا جادو ہے، گندے اور غلیظ اجسام! کشنا نے مسہری پر ہاتھ نہیں جمائے تھے بلکہ اس کا آدھا دھڑ مشینی انداز میں اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ پھر مسہری سے بھی کھڑی ہوگئی تھی وہ! اس کے دونوں ہاتھ سیدھے تھے۔ گردن بالکل تنی ہوئی تھی، آنکھیں سامنے جمی ہوئی تھیں اور میں اس کی آنکھوں کی زد سے الگ تھا۔ پھر وہ اسی انداز میں دروازے کی جانب مڑی اور میں نے ایک اور منظر دیکھا۔ وہ قدم نہیں اٹھا رہی تھی بلکہ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی چیز اسے دھکیلتی ہوئی لے جارہی ہو۔ اس کا رخ دروازے کی جانب تھا۔ دروازہ بند تھا لیکن جیسے ہی وہ دروازے کے قریب پہنچی، دروازہ کھل گیا۔
میں نے پھرتی سے آگے قدم بڑھا دیئے۔ اب کم ازکم دل کو یہ اطمینان ہوگیا تھا کہ میں نے جو کچھ کیا ہے، وہ غلط نہیں ہے۔ باہر مکمل طور پر سناٹا اور خاموشی طاری تھی۔ رما رانی، لکشمی اور تمام افراد اپنی اپنی جگہ آرام کی نیند سو رہے تھے، اس ڈرامے سے بے خبر جو میرے کمرے میں ہورہا تھا۔ میں کشنا کا پیچھا کرتا ہوا صحن میں آگیا۔ تب میں نے وہاں بہت سے سوگواروں کو دیکھا۔ ٹوٹے پھوٹے سوگوار گردنیں جھکائے گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے درمیان ایک عجیب سی شے لکڑی کے تختوں پر رکھی ہوئی تھی۔ میں نے اس شے کو دور ہی سے پہچان لیا، یہ ارتھی تھی۔ ویسی ہی جیسے ہندو اپنے مردوں کو لے جانے کیلئے تیار کرتے ہیں۔ بانس لگے ہوئے تھے، درمیان میں چارپائی جیسی جگہ تھی۔ کشنا اس طرح آگے بڑھتی ہوئی ارتھی تک پہنچ گئی اور سوگواروں نے سر اٹھا دیئے۔ ان کے حلق سے مدھم مدھم آوازیں نکل رہی تھیں۔ کسی نے بھی گردن موڑ کر میری جانب نہیں دیکھا تھا۔ کشنا ارتھی پر بیٹھی اور پھر پائوں سیدھے کرکے لیٹ گئی۔ تب سارے سوگوار کھڑے ہوگئے۔ ان سب نے ارتھی اپنے کاندھوں پر اٹھائی اور مخصوص انداز میں لڑھکتے چلتے آہستہ آہستہ کچھ کہتے دروازے کی جانب بڑھ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد وہ ارتھی دروازے سے باہر نکل کر غائب ہوگئی۔ غائب ہونے کی بات میں نے اس لئے کی کہ جب وہ دروازے سے باہر نکل گئے تب میں نے ہمت کرکے قدم آگے بڑھائے۔ میں اب ان واقعات کا اس قدر عادی ہوچکا تھا کہ کسی بھی مسئلے میں بہت زیادہ خوف و دہشت پیدا نہیں ہونے پاتی تھی۔ دروازے سے باہر جھانکا تو دور دور تک کسی کا نشان نظر نہیں آرہا تھا۔ یوں پوری جگہ سنسان پڑی ہوئی تھی اور کہیں بھی کسی کا پتا نہیں تھا۔ دل کو بڑا سکون محسوس ہوا۔ بڑا اطمینان ہوا کہ جو کچھ ہوا ہے، وہ غلط نہیں ہے۔ سات پورنیوں میں سے ایک پورنی ختم کردی تھی میں نے… حسب سابق یہ بھی ایک انتہائی انوکھا تجربہ تھا میرے لئے۔ اس کا مطلب ہے کہ پورنیاں ایسی شکلوں میں بھی میرے سامنے آسکتی ہیں جو میرے لئے باعث احترام ہوں، قابل قدر ہوں۔
میں ان سے اتنا متاثر ہوں کہ ان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہوں۔ ہاں یہی تو کہا گیا تھا مجھ سے کہ لغزش کی گنجائش نہیں ہے۔ لغزش ہوئی تو بیڑا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غرق ہوجائے گا۔ یہ تو ایک مہلت دی گئی تھی مجھے میرا حساب کتاب کرکے اور میں اپنے پہلے قدم میں کامیاب رہا تھا۔ تب دل میں خوشی کی ایک لہر جاگی۔ آہ کاش… آہ کاش! میرا یہ قدم درست ہو اور میرے مستقبل کے راستوں کو استوار کرسکے۔ اپنے کمرے میں آکر بستر پر لیٹ گیا۔ یہاں کا ماحول بڑا بھیانک ہو رہا تھا۔ ابھی وقت ہی کتنا گزرا تھا۔ ایک ایک لمحہ خوف و دہشت کا حامل تھا لیکن اپنے آپ کو اس خوف سے آزاد کیا اور بستر کی چادر جھاڑ کر دوبارہ بچھائی۔ پھر اس پر لیٹ گیا۔ دروازہ پہلے ہی اندر سے بند کرلیا تھا۔ لیٹنے کے بعد بھی خیالات کے ہجوم سے کہاں چھٹکارا ملتا۔ اب صبح کو رما رانی کا سامنا ہوگا۔ کشنا کی تلاش کی جائے گی لیکن میں اس میں بہت سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کروں گا۔ یہ تو میری خوش بختی تھی کہ وہ لوگ اسے اٹھا کر لے گئے تھے پھر دفعتاً ایک اور خیال میرے ذہن میں آیا اور اس خیال نے مجھے چونکا دیا۔ کیا وہ واقعی کشنا تھی؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ اصل کشنا اپنی جگہ موجود ہو اور پورنی یہ روپ دھار کر میرے پاس پہنچی ہو۔ مجھے ورغلانے کیلئے، مجھے مزید گندا کرنے کیلئے تاکہ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بھوریا چرن کی غلاظت میں گرفتار ہوجائوں۔ اگر ایسا بھی ہے تو میرے خیال میں یہ ایک اچھی بات تھی۔ اس طرح کم ازکم ضمیر کو سکون ملے گا۔ کاش! وہ کشنا نہ ہو۔ کاش! وہ کشنا نہ ہو… میں نے سوچا اور اس کے بعد آنکھیں بند کرلیں۔ انتہائی کوشش کے باوجود نیند نہیں آئی تھی لیکن غنودگی نے طبیعت کسی قدر بحال کردی تھی۔ صبح کو میں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ معمول کے مطابق اپنی ملازمت پر چلا جائوں گا۔ ہوسکتا ہے صبح ہی صبح اس بات کا انکشاف نہ ہو کہ کشنا گھر میں موجود ہے یا نہیں…! بے شک میرے دل میں یہ تجسس باقی رہے گا لیکن اچھا ہے سوچنے کیلئے پورا دن مل جائے گا۔ چنانچہ معمول کے مطابق تیاریاں کیں اور اس کے بعد باہر نکلا۔ میں جانتا تھا کہ میرے لئے ناشتہ تیار ہوگا۔ مالتی فوراً ہی مجھے ناشتے کی خبر دے گی۔ دل میں فیصلہ کرلیا تھا کہ کسی سے کسی حیرت کا اظہار نہیں کروں گا اور اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جائوں گا۔
کمرے سے باہر نکلا لیکن سامنے کوئی موجود نہیں تھا۔ میں نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑائیں۔ ایک عجیب سی خاموشی، ایک عجیب سا سناٹا محسوس ہوا جیسے سب اپنے اپنے کمروں میں ہوں۔ ایسا نہیں ہوتا تھا بلکہ اس وقت تو زندگی کے معمولات ہنگاموں سے پُر ہوا کرتے تھے۔ سب ہی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوا کرتے تھے۔ کیا ہوا ان لوگوں کو؟ کہیں رات کے واقعات کا پتا تو نہیں چل گیا۔ رما رانی اس بات سے ناواقف نہیں تھیں کہ کشنا سولہ سنگھار کررہی ہے۔ انہیں یقینی طور پر علم ہوگا کہ یہ سولہ سنگھار کس کیلئے کئے جارہے ہیں۔ رما رانی کے کمرے ہی کی جانب بڑھ گیا۔ دروازے پر آہستہ سے دستک دی مگر دستک ہی سے دروازہ تھوڑا سا اندر دب گیا۔ میں نے دروازہ کھول کر اندر نظر ڈالی اور آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ وہاں تو جھاڑو پھری ہوئی تھی۔ جو کچھ نظر آیا، اسے دیکھ کر تو دماغ پھٹنے کے قریب ہوگیا۔ کمرہ بالکل سنسان اور ویران پڑا ہوا تھا۔ دیواروں پر مکڑیوں کے جالے لگے ہوئے تھے، اندر سے سیلن کی بو آرہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے یہ کمرہ طویل عرصے سے نہ کھولا گیا ہو۔ سامان نام کی کسی چیز کا کوئی نشان نہیں تھا حالانکہ صرف چند گھنٹے پہلے، میں نے اس کمرے کو جگمگاتا ہوا دیکھا تھا۔
باقی باتیں تو اپنی جگہ لیکن دیواروں پر لگے ہوئے جالے، ادھڑا ہوا پلاسٹر اور پھیلی ہوئی ویرانی ناقابل یقین تھی۔ ایک دہشت بھری چیخ کے ساتھ دروازہ دھڑ سے بند کیا اور پیچھے ہٹ کر دوسرے کمرے میں پہنچ گیا۔ دل میں اب یہ احساس جاگ رہا تھا کہ وہاں بھی کچھ نہیں ہوگا اور یہی ہوا۔ پوری عمارت آسیب زدہ محسوس ہورہی تھی۔ کسی بھی کمرے میں زندگی کے آثار موجود نہیں تھے، کوئی بھی وہاں نہیں تھا۔ اپنے کمرے کی جانب آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی اور خوف زدہ انداز میں وہاں سے پلٹا اور بھاگتا ہوا عمارت سے باہر نکل آیا۔ نہ جانے کیوں اس وقت مجھ پر خوف و دہشت کا اس قدر غلبہ ہوگیا تھا کہ عمارت سے نکلنے کے بعد بھی دیر تک دوڑتا رہا اور پھر اس میدان کے دوسرے سرے پر آکر دم لیا جس کے دوسری جانب یہ عمارت تھی۔ سر چکرا رہا تھا، ذہن میں سائیں سائیں ہورہی تھی۔ یہ سب… یہ سب کھیل تھا، یہ سب کالا جادو تھا، یہ سب سفلی علم تھا جس کی بنیاد پر وہ میری نگاہوں کے سامنے آئے تھے، اس کا مقصد ہے کہ رما رانی، رادھا، لکشمی جتنے بھی کردار سامنے آئے تھے، وہ اصل نہ تھے، وہ حقیقت نہ تھے بلکہ وہ سب جادوئی حیثیتوں کے حامل تھے۔ اُف میرے خدا… میرے خدا…! دل چاہا کہ کسی جگہ بیٹھ کر اپنے آپ کو معتدل کروں لیکن کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آئی۔ تب خود کو سنبھال کر آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ اس کیفیت میں حاجی صاحب کی حویلی پہنچوں گا تو کیا میری اس کیفیت کو شناخت نہ کرلیا جائے گا۔ بہرحال ایک تانگے میں بیٹھا اور اسے حاجی صاحب کی حویلی کا پتہ بتا دیا۔ سارے راستے اپنے آپ کو معتدل کرنے کی کوشش میں مصروف رہا تھا اور کچھ دیر کے بعد اس میں کامیابی بھی نصیب ہوگئی تھی۔ حاجی صاحب کے ہاں کوئی قابل ذکر بات نہیں ہوئی۔ خود حاجی صاحب میرے ساتھ دو تین جگہ گئے، حویلی واپس آئے۔ ان کے کارخانے میں نے دیکھے، بہت بڑا کام تھا۔ شام کو ایک اور شخصیت سے ملاقات ہوئی۔ دیو نما انسان یا انسان نما دیو تھا۔ شاندار لباس میں ملبوس، رنگ چمکدار سفید۔ حاجی صاحب نے جیبی گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مسعود میاں! ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ عظیم میاں کو مبارک پورہ پہنچا دو۔ گاڑی واپسی میں ساتھ لے جانا، صبح کو آجانا۔ دوسری گاڑی موجود ہے۔‘‘ میں نے گردن خم کردی۔ عظیم میاں صاحب تھے۔ میں نے ادب سے پچھلا دروازہ کھول دیا اور عظیم میاں اندر بیٹھ گئے۔ حاجی صاحب نے خود ہی کہا۔
’’عظیم میاں! راستہ بتاتے جانا۔‘‘ میں نے گاڑی اسٹارٹ کرکے آگے بڑھا دی۔ حویلی سے نکل کر کچھ دور ہی پہنچا تھا کہ عقب سے عظیم میاں کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’روکو… روکو…!‘‘ اور میں نے بریک لگا دیئے۔ ویسے عظیم میاں کی آواز بڑی عجیب تھی۔ ایسی خوفناک جسامت پر یہ آواز ناقابل یقین تھی۔
’’جناب عالی…!‘‘ میں نے کہا۔
’’تمہیں نظر تو آتا ہے نا…؟‘‘ عظیم میاں بولے۔
’’جی…!‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’مم… میرا مطلب ہے دیکھ تو سکتے ہو نا؟‘‘ عظیم میاں بدستور گھبرائی ہوئی آواز میں بولے۔
’’میں سمجھ نہیں پایا جناب…؟‘‘
’’ماموں میاں نے یہ کیوں کہا تھا کہ راستہ بتاتے جانا یعنی وہ جیسے اندھے کو سڑک پار کرائی جاتی ہے۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ میں نے عجیب سی نظروں سے عظیم میاں کو دیکھا۔ اب کچھ کچھ سمجھ میں آرہے تھے۔ آواز کے ساتھ عقل بھی چربی کی تہوں میں پھنسی معلوم ہوتی تھی۔ بہرحال حاجی صاحب کے شناسا تھے بلکہ حاجی صاحب کو ماموں میاں کہہ رہے تھے، اس لئے احترام کرنا تھا۔ میں نے کہا۔ ’’وہ دراصل مجھے بنارس کے راستے نہیں معلوم۔ آپ جہاں تشریف لے جا رہے ہیں، وہاں کے راستے بتا دیجئے۔‘‘
’’اچھا… اوہ! میں تو ڈر گیا کہ نہ جانے ماموں میاں نے…! بعض اوقات بے وقوفی کی باتیں کرنے لگتا ہوں۔ میرے گھر کا راستہ تو بہت آسان ہے، یہاں سے چھپن ٹولہ چلو۔ اس کے بعد گوبھی بازار سے نکلتے ہوئے بانس منڈی پھر مبارک پورہ…! سیدھا سا پتا ہے۔‘‘
’’خوب، آگے بڑھوں…؟‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’ایں…! نہیں… گاڑی ہی میں چلو…‘‘ وہ جلدی سے بولے اور میں نے ٹھنڈی سانس لے کر گاڑی آگے بڑھا دی۔ عظیم میاں دلچسپ شخصیت تھے۔ سیدھی سڑک پر گاڑی کی رفتار میں نے سست ہی رکھی تھی۔ کچھ دیر کے بعد وہ کہنے لگے۔ ’’تمہارا نام کیا ہے…؟‘‘
’’مسعود کہہ سکتے ہیں آپ!‘‘
’’گاڑی بڑی اچھی چلاتے ہو۔ دراصل مجھے تیز گاڑیاں چلتے دیکھ کر بڑا ڈر لگتا ہے۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی، خواہ مخواہ سڑکوں پر ایسے دوڑے جا رہے ہیں جیسے پیچھے سے آفت آرہی ہو، دل اچھل اچھل پڑتا ہے۔ کیا نام بتایا ہے تم نے اپنا…! کیا کہہ سکتا ہوں میں تمہیں؟‘‘
’’مسعود…!‘‘ میں نے دوبارہ بتایا۔
’’بڑے اچھے آدمی لگتے ہو۔ ماموں میاں بھی بہت اچھے ہیں۔ تم ان کے پاس نوکری کرتے رہنا، تنخواہ میں بڑھوا دوں گا…‘‘
’’بہت بہت شکریہ عظیم میاں! حاجی صاحب آپ کے ماموں ہیں؟‘‘
’’ہاں… ہاں…! کیوں کیا ہوا؟‘‘ وہ حیران لہجے میں بولے۔
’’نہیں کچھ نہیں ہوا۔‘‘
’’اماں! سیدھے ہاتھ پہ کیوں نہیں مڑے، سیدھے کہیں اور جارہے ہوکیا؟‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے گاڑی سائیڈ میں کرکے اسے بریک لگاتے ہوئے کہا۔
’’چھپن ٹولہ نہیں چلو گے کیا۔ وہیں سے تو ہمارے گھر کا راستہ آتا ہے۔‘‘
’’وہ سیدھی سڑک جو مڑ رہی تھی، اس پر جانا تھا…؟‘‘
’’تو اور کیا…؟‘‘
’’جی بہتر!‘‘ میں نے گاڑی کو تھوڑا سا آگے بڑھایا، سڑک سنسان دیکھ کر موڑا اور واپسی کا راستہ اختیار کرلیا۔ اس سیدھی سڑک پر مڑتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’اب جدھر بھی مڑنا ہو، آپ ذرا مجھے پہلے بتا دیجئے۔‘‘
’’کہیں نہیں مڑنا بس سیدھے گوبھی بازار سے بانس منڈی کی طرف مڑیں گے۔‘‘
’’گوبھی بازار اس سڑک پر آتا ہے…؟‘‘
’’ہمیشہ سے یہیں ہے کوئی تبدیلی تھوڑی ہوئی ہے۔‘‘ عظیم میاں نے کہا اور میں نے گردن ہلا دی۔ عظیم میاں تھوڑی دیر خاموش رہے پھر بولے۔ ’’درشہوار نے تمہیں تو نہیں ڈانٹا کسی بات پر؟‘‘
’’جی؟‘‘ میں نے سامنے نگاہیں جماتے ہوئے پوچھا۔
’’بہت ڈانٹتی ہے۔ میری جگہ اگر وہ ہوتی تو غلط سمت گاڑی لے جانے پر تمہاری جان کو آجاتی۔ ویسے تو اس میں ساری باتیں بہت اچھی ہیں بس یہی ایک خرابی ہے۔ بس ذرا سی بات پر ڈانٹ دیتی ہے۔ اماں دیکھو اب اس وقت بھی کوئی بات تھی آخر بگڑنے کی مگر… مگر خیر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اللہ مالک ہے۔‘‘
عظیم میاں کی کوئی بات ابھی تک تو میری سمجھ میں نہیں آئی تھی سوائے اس کے کہ وہ عقل سے کچھ پیدل معلوم ہوتے تھے اور احمقانہ گفتگو کرتے تھے۔ بہرطور دلچسپ آدمی تھے۔ محترمہ درشہوار کا تذکرہ میں نے دوسری بار سنا تھا۔ ابھی تک حقیقی معنوں میں میری ان سے مڈبھیڑ نہیں ہوئی تھی۔ مہتاب علی نے بھی خصوصی طور پر انہی کی طرف سے ہوشیار کیا تھا لیکن ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ میری شخصیت کیا ہے۔ میں تو اپنی ذات میں خوشی محسوس کرتا ہوں۔ دل میں جو احساس بیٹھ گیا تھا، وہ یہی تھا کہ میری جس قدر ذلت ہوگی اسی قدر میرے گناہوں میں کمی واقع ہوگی اور بخشش کے راستے آسان ہوجائیں گے۔
بہرحال گوبھی بازار اور اس کے بعد عظیم میاں کے بتائے راستوں پر چلتا ہوا ان کے گھر تک پہنچ گیا۔ انہیں وہاں اتارا اور واپس پلٹ پڑا۔ اب صحیح معنوں میں مشکل وقت آگیا تھا۔ سوچ تو دن بھر ہی ذہن پر طاری رہی تھی اور یہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہا تھا کہ اب میں کیا کروں؟ جہاں تک رزق حلال کا تعلق تھا تو میرے خیال میں یہ نوکری میرے لئے انتہائی مناسب تھی۔ اس سے پہلے جو کچھ بھی کرنے کی کوشش کی تھی، اس میں واقعات بدل گئے تھے مگر حاجی صاحب کا گھرانہ کافی بہتر نظر آرہا تھا۔ پھر ایک پورنی کی ہلاکت کے بعد میرے اندر کچھ اعتماد بھی بیدار ہوگیا تھا۔ ان کا نظر آجانا شرط ہے، میں اپنی انتہائی کوششیں صرف کرکے گلوخلاصی حاصل کرنے کی کوشش کروں گا… پھر ذہن میں مہتاب علی آئے… وہی ایک گوشۂ عافیت تھا۔ بہت اچھے لوگ تھے۔ اگر مجھے وہاں پناہ مل جائے تو بڑا ہی اچھا ہو۔
ہمت کرکے مہتاب علی کے گھر کی جانب چل پڑا۔ گاڑی ان کے دروازے کے سامنے روک دی اور اسے مقفل کرکے مہتاب علی کے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ مہتاب علی صاحب نے ہی کھولا تھا۔ مجھے دیکھ کر بے حد خوش ہوگئے۔
’’آجائو، آجائو۔ اوہو! گاڑی میں آئے ہو…؟ خوب… خوب! آؤ اندر آئو میاں! تکلف کیسا۔‘‘ وہ مجھے اندر لے گئے۔ رخسانہ صاحبہ دوڑتی ہوئی آئیں اور بڑی محبت کا اظہار کرتے ہوئے میرا استقبال کیا۔ مہتاب علی صاحب نے بیٹھنے کی پیشکش کی اور بولے… ’’کل سے میں بھی اپنے کام پر آرہا ہوں۔ بہت سے معاملے گڑبڑ ہوگئے ہیں۔ ذرا حساب کتاب رکھنا پڑتا ہے حاجی صاحب کے اخراجات کا۔ انہوں نے مجھے پرائیویٹ طور پر اپنا خزانچی مقرر کیا ہے۔ وہیں اس حویلی میں میرا ایک چھوٹا سا دفتر بنا ہوا ہے۔ باہر کے کام باہر ہوتے ہیں لیکن سارے حسابات کی آخری جانچ پڑتال میرے سپرد ہے۔ ویسے میاں مسعود! ذرا بے تکلفی سے بتانا وہ جگہ کچھ مشکل تو محسوس نہیں ہورہی؟ ویسے تو سب ہی لوگ بہت اچھے ہیں، بس ذرا درشہوار اور جیسا کہ میں نے تمہیں بتایا کہ کبھی کبھی بیگم صاحبہ بھی اوقات سے باہر ہوجاتی ہیں۔ بس انہی دونوں کی طرف سے تھوڑا سا تردد ہے ورنہ باقی تو سب ٹھیک ٹھاک ہے۔‘‘
میں نے آنکھیں بند کرکے گردن ہلاتے ہوئے کہا… ’’آپ اس بارے میں بالکل مطمئن رہیں مہتاب علی صاحب! میں ایسی باتوں پر غور نہیں کرتا۔ ویسے بھی ابھی تک میری بیگم صاحبہ یا درشہوار سے مڈبھیڑ نہیں ہوئی ہے لیکن اگر کوئی ایسی ویسی بات بھی ہوئی تو ملازمت بہرحال ملازمت ہوتی ہے۔‘‘
مہتاب علی صاحب پرخیال نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگے۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر رخسانہ کی طرف رخ کرکے بولے۔ ’’رخسانہ بیٹی! جائو بھائی آئے ہیں، کچھ خاطر مدارات کا بندوبست کرو۔‘‘
’’نہیں مہتاب علی صاحب! براہ کرم پہلے میری ایک مشکل سن لیجئے گا اس کے بعد خاطر مدارات کی بات کریں۔‘‘
’’ارے تو پہلے کیوں نہ بتایا؟‘‘
’’ہمت کررہا تھا۔‘‘ میں نے کہا اور مہتاب علی صاحب عجیب سی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگے۔ پھر خاموشی سے میرے بولنے کے منتظر رہے۔ تب میں نے کہا۔ ’’میں کوئی پناہ گاہ چاہتا ہوں مہتاب علی صاحب! اور بے تکلفی سے یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس کیلئے مجھے آپ ہی کا سہارا درکار ہوگا۔ کوئی ایسی جگہ جہاں میں رات کو سو سکوں، ممکن ہو تو مجھے عنایت کردیں۔ کوئی صلہ دینے کی بات نہیں کروں گا۔ کیا دے سکتا ہوں میں آپ کو…! لیکن اگر کوئی خدمت سونپی گئی تو اسے پورا کرنا میں اپنی خوش بختی سمجھوں گا۔ دراصل اب میرے پاس رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔‘‘
مہتاب علی صاحب نے شاید اس لفظ ’’اب‘‘ پر چونک کر مجھے دیکھا تھا۔ صاحب ظرف انسان تھے۔ ایک لمحے خاموش رہے پھر بولے۔
’’مسعود میاں! بات دراصل یہ ہے کہ بہت سی باتیں دل میں ہوتی ہیں لیکن انہیں زبان پر لانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہم صرف چار افراد ہیں اس گھر میں اور ویسے بھی بدقسمتی سے دوسرے عزیزواقارب سے محروم ہیں۔ تفصیل میں جانا بیکار ہی ہوگا۔ یوں سمجھو کہ یہ گھر کسی نئی آواز کو ترسا ہوا ہے۔ اگر ہمیں یہ سعادت حاصل ہوجائے تو یہ تو ہماری خوش بختی ہے۔ تم سونے کیلئے ایک چارپائی کی جگہ کی بات کرتے ہو، میں کہتا ہوں میرے گھر کے کسی بھی فرد سے پوچھ لو، وہ تمہیں دل میں بٹھانے کو تیار ہوجائے گا۔ میاں! اس سے اچھی کوئی بات اور کیا ہوسکتی ہے جو تم نے اس وقت کہی۔ میں تم سے یہ سوال بالکل نہیں کروں گا کہ اچانک ہی تمہیں اس کی ضرورت کیوں پیش آئی کیونکہ یہ استفسار، تفتیش حال تصور کیا جاسکتا ہے جبکہ اس کی یہاں چنداں ضرورت نہیں۔‘‘
’’دراصل میں…!‘‘ میں نے کہنا چاہا مگر مہتاب علی نے مجھے روک دیا اور بولے۔ ’’نہیں! تمہارا ذاتی معاملہ ہے۔ مجھے بس وہ ضرور بتا دینا جو تمہاری مشکل ہو اور اب ذرا اجازت دو یہ خوشخبری دوسروں کو بھی سنا دوں۔‘‘ مگر محترمہ رخسانہ ان سے پہلے اندر دوڑ گئی تھیں۔
میں گہری سانس لے کر سوچوں میں گم ہوگیا۔ اس بات پر کئی بار غور کرچکا تھا کہ یہ دنیا مجھ پر بہت تلخ نہیں ہوئی تھی۔ مصائب کے پہاڑ ٹوٹے تھے تو سہارا دینے والے بھی ملتے رہے تھے۔ اس طرح صورتحال متوازن رہی تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دو ہی صورتیں ہوتیں یا تو زندگی ختم کرلیتا یا بھٹک جاتا اور ایمان کھو بیٹھتا لیکن بھوریا چرن کی وجہ سے جتنی صعوبتیں اٹھانی پڑی تھیں، اتنے ہی بے لوث محبت کرنے والے بھی ملے تھے۔
مہتاب علی کی بیگم کے ساتھ ان کی دوسری بیٹی بھی آگئی تھی۔
’’جی خوش کردیا تم نے مسعود میاں…! خدا تمہیں خوش رکھے بیٹے! ہم بے لوث، بے غرض لوگ ہیں۔ محبتوں کو ترسے ہوئے، ہمیں بس اپنائیت دے دینا، اس سے زیادہ ہماری طلب کبھی کچھ اور نہ ہوگی۔ تم سے وعدہ…! سر آنکھوں پر رہو مگر اپنوں کی طرح، کوئی تکلف نہ کرنا۔ اس گھر کا ہر گوشہ دیکھ لو جو پسند آئے، وہ تمہارا۔‘‘
’’چچی جان… کوئی رسمی جملہ عرض نہ کر پائوں گا بس اعتماد کا طلب گار ہوں۔ جو جگہ آپ میرے لئے مخصوص کریں گی، وہ مجھے پسند ہوگی۔‘‘
’’بھئی یہ قابل بحث مسئلہ نہیں ہے۔ بغلی کمرہ مسعود میاں کیلئے مناسب ہے۔ اس کا راستہ اندر بھی ہے اور باہر بھی بس اسے ٹھیک کرا دیں۔‘‘
’’فرحانہ… جائو رخسانہ کے ساتھ وہ کمرہ درست کردو۔‘‘ اس کے بعد باتیں ہوتی رہی تھیں۔ ضرورتوں کی تکمیل ہوئی تھی اور اس کے بعد مجھے تنہائی مل گئی تھی۔ بہت بڑے واقعے سے گزرا تھا مگر سکون تھا بلکہ خوشی تھی، البتہ یہ نہ سمجھ پایا تھا کہ رما رانی اور دوسرے لوگ کیا تھے۔ کشنا تو پورنی تھی۔ اس کی تصدیق اس وقت ہوگئی تھی جب اس کے بیر اس کی ارتھی اٹھا کر لے گئے تھے مگر وہ… کیا سب کچھ جال تھا، فریب تھا؟ آہ! اگر ایسا تھا تو کتنا انوکھا فریب تھا۔ کس طرح میرے جذبات سے کھیلا گیا تھا۔ کیسا انوکھا انتخاب کیا گیا تھا۔ سچ تو ہے بھوریا چرن تو میرے ہر پہلو سے واقف ہے۔ میری اس زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کی نگاہ میں ہے، وہ آئندہ بھی ایسے کردار منتخب کرسکتا ہے جن کا مجھ سے گہرا تعلق ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ ہمیشہ محتاط رہنا ہوگا۔
دوسری صبح مہتاب علی نے دروازہ بجا کر جگایا۔ اٹھ جائو مسعود میاں! ساڑھے سات بج گئے ہیں۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ گیا۔ ناشتہ تیار تھا۔ خود مہتاب علی بھی تیار تھے۔ بولے۔ ’’تمہارے ساتھ ہی چلوں گا۔‘‘
’’جی… چلیں…!‘‘
’’تمہیں یہ نوکری ناپسند تو نہیں ہے؟‘‘
’’بالکل نہیں مہتاب علی صاحب۔‘‘
’’میاں چچا جان کہہ لیا کرو، ہم بھی کیا یاد کریں گے۔‘‘ مہتاب علی خوش دلی سے بولے۔
’’بہتر ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ورنہ وہ محترمہ طنز کریں گی ہم پر… بہت خوش تھیں اس بات پر کہ تم نے انہیں چچی جان کہہ کر مخاطب کیا۔ ہمارا خطاب بھی ضروری ہے۔‘‘
’’یقینا…!‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا اور ہم حویلی پہنچ گئے۔ یہاں کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں تھی۔ حاجی صاحب سامنے ہی نظر آئے۔ ہم گاڑی سے اترے تو ہمارے پاس پہنچ گئے۔ سلام کا جواب دے کر مہتاب علی سے مخاطب ہوئے۔ ’’جی فرمایئے… کوئی کام ہے؟‘‘
’’دفتر جانا چاہتا ہوں، چابیاں مرحمت ہوجائیں۔‘‘
’’کیا جلدی ہے…؟ چہرہ دیکھ رہے ہو آئینے میں، نقاہت سے بھرپور ہے۔‘‘
’’محبت کی نگاہ ہے ورنہ اب بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘ تھوڑی دیر تک رد و قدح ہوتی رہی۔ اس کے بعد مہتاب علی کو دفتر کی چابیاں مل گئیں۔ میں گاڑی صاف کرکے اس کا تیل پانی چیک کرنے لگا تھا۔
پورے ایک ہفتے کے بعد مس درشہوار کی زیارت ہوئی تھی۔ ساتھ میں بیگم صاحبہ بھی تھیں۔ کار کے قریب آئیں اور مجھے دیکھتے ہوئے پوچھا گیا۔ ’’ڈرائیور کہاں ہے…؟‘‘
’’جی! میں حاضر ہوں۔‘‘
’’نور کہاں ہے…؟‘‘
’’حاجی صاحب کے ساتھ گیا ہے۔‘‘
’’تم نئے ڈرائیور ہو…؟‘‘ یہ سوال بیگم صاحبہ نے کیا۔
’’جی ہاں…!‘‘
’’ہوں… چلو…!‘‘ دونوں خواتین میں درشہوار بلاشبہ خوبصورت تھی۔ حسن کے معیار پر مکمل مگر چہرے ہی سے مغرور اور نخوت سے بھری معلوم ہوتی تھی۔ ہونٹ حسین تراش کے مگر مسکراہٹ سے عاری!
’’کہاں جانا ہے بیگم صاحبہ…؟‘‘ میں نے پوچھا اور ایک جگہ کا نام لے دیا گیا۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر درشہوار کی آواز ابھری۔ ’’اس سے پہلے تانگہ ہانکتے رہے ہو؟‘‘
’’جی…؟‘‘
’’یہ گاڑی چلا رہے ہو یا تانگہ…! کار اس رفتار سے چلائی جاتی ہے؟‘‘
’’ٹھیک چلا رہا ہے شہوار…! تیز رفتاری اچھی نہیں ہوتی۔‘‘
’’میں نے آپ کو ساتھ چلنے کی دعوت کب دی تھی؟‘‘
’’اب تو میں چل ہی رہی ہوں۔‘‘
’’تو پھر کار میں چلئے… تانگے میں نہیں…! تیز چلائو گاڑی۔‘‘ کڑک کر کہا گیا۔ میں نے رفتار تیز کردی اور تیز اور تیز…!
’’ارے بھیا! ارے بیرا… ارے ارے … ارے…! خدا تمہیں نیکی دے۔ ارے مارو گے کیا…! ارے آہستہ کرو۔‘‘ بیگم صاحبہ کا دم نکلنے لگا اور میں نے رفتار سست کردی۔ مگر شکر ہے کوئی اور فرمائش نہیں ہوئی اور منزل آگئی۔ نیچے اترتے ہوئے در شہوار صاحبہ نے کہا۔ ’’لباس روزانہ تبدیل نہیں کرتے؟‘‘
’’جی نہیں…!‘‘
’’یہ تمہارا کالر سیاہ ہو رہا ہے بالکل… جب کبھی میرے ساتھ چلو تو اتنے صاف رہو کہ اعتراض کی گنجائش نہ رہے۔‘‘ دونوں ماں، بیٹیاں اندر چلی گئیں اور میں مسکرانے لگا۔ تو یہ ہیں مس درشہوار…!
حاجی صاحب کی حویلی اور مہتاب علی کا گھر، رخسانہ خاموش طبع اور شرمیلی فرحانہ…!ان تمام لوگوں کا ساتھ تھا۔ زندگی ایک ٹھہرائو اختیار کرنے لگی تھی۔ کوئی مشکل پیش نہیں آرہی تھی۔ مہتاب علی صحت مند ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر انسان کو زندگی میں ایک ایسا سہارا درکار ہوتا ہے جو اس کیلئے غیر متوقع ہو اور اگر اسے کوئی ایسا سہارا مل جائے تو اس کے وجود میں بہت سی تبدیلیاں آجاتی ہیں۔ میں ان کیلئے ایسا ہی سہارا ثابت ہوا ہوں۔ ایک اور دلچسپ شخصیت عظیم میاں کی تھی۔ حاجی صاحب کی مرحوم بہن کے بیٹے تھے۔ حاجی صاحب کی آنکھوں کا تارا…! حاجیانی بھی انہیں بہت چاہتی تھیں اور وہ درشہوار کو چاہتے تھے۔ کسی رازدار کیلئے بے چین تھے۔ ایک دن مجھ سے بولے۔ ’’تم نے محبت کی ہے؟‘‘
’’کس سے عظیم صاحب؟‘‘
’’کسی لڑکی سے…!‘‘
’’نہیں… کیوں؟‘‘
>’’یار…! کسی ایسے تجربے کار آدمی سے ملائو جو بہت سی محبتیں کرچکا ہو۔‘‘
’’کیا کریں گے؟‘‘
’’بس! اس سے محبت کرنے کے طریقے سیکھوں گا۔‘‘
’’آپ کو نہیں آتے؟‘‘
’’بالکل نہیں آتے… پریشان رہتا ہوں۔ کبھی شہوار سے کچھ کہتا ہوں تو وہ ناراض ہوجاتی ہے۔ کوئی استاد مل جائے تو کچھ مشورہ کروں اس سے!‘‘
’’آپ مس درشہوار سے محبت کرتے ہیں؟‘‘ میں نے کہا اور عظیم میاں کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ انہوں نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔ ’’تت… تمہیں کیسے معلوم…؟‘‘
’’جی…!‘‘ میں حیرانی سے بولا۔ ابھی انہوں نے میرے سامنے درشہوار کا نام لیا تھا۔ بہرحال مجھے ان کے بارے میں اچھی طرح اندازہ ہوچکا تھا چنانچہ میں نے بھی لطف لینے کی غرض سے کہا۔ ’’آپ کی آنکھوں سے پتا چلتا ہے۔‘‘
’’ایں! کیا آنکھوں سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ کون کس سے محبت کرتا ہے؟‘‘
’’کیوں نہیں!‘‘
’’ابے تو تم خود ہی اچھے خاصے تجربہ کار ہو۔ پیارے بھائی! مجھے بتائو میں کیا کروں۔ تھوڑی بہت معلومات تو تمہیں ضرور ہوںگی اس بارے میں کہ محبت کیسے کی جاتی ہے، حالانکہ ماموں میاں اور ممانی جان مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ درشہوار سے میری شادی ہوجائے مگر ماموں میاں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ بیٹی کی خواہش کے بغیر وہ اس کی شادی کہیں نہیں کریں گے، ہاں! اگر میں درشہوار کو اس شادی پر رضامند کرنے میں کامیاب ہوجائوں تو پھر کوئی مشکل نہیں ہوگی اور ماموں میاں میری شادی کردیں گے۔‘‘
’’افسوس! میں اس سلسلے میں بالکل واقفیت نہیں رکھتا ورنہ آپ کی مدد ضرور کرتا۔‘‘
’’تو پھر کسی ایسے آدمی کو تلاش کرو جو اس سلسلے میں کارآمد ہو۔ ویسے وہ نوشاد آدمی تو اچھا ہے مگر مجھے پسند نہیں۔ ہمیشہ میرا مذاق اڑاتا ہے۔‘‘
’’کون نوشاد؟‘‘
’’رشتہ دار ہی ہے ہمارا… بڑا یارباش آدمی ہے مگر ہے چار سو بیس! میں اس کی کسی بات پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ ہمیشہ الٹے سیدھے مشورے دیتا ہے مجھے۔ آدمی ویسے بہت اچھا ہے۔ تو تم میرے لئے کوشش کرو۔ اگر کوئی تجربہ کار آدمی مجھے دے سکو تو میں تمہیں انعام بھی دوں گا۔‘‘
’’جی بہتر ہے۔ میں کوشش کروں گا۔‘‘ میں نے جواب دیا مگر ہنسی آئی تھی مجھے! کچھ دل بھی لگ گیا تھا یہاں اور وقت اچھا خاصا گزر رہا تھا۔ پھر ایک دن درشہوار صاحبہ اپنی چند دوستوں کے ساتھ پکنک منانے کیلئے تیار ہوئیں۔ ہم دونوں ڈرائیوروں کو ہدایت کردی گئی تھی کہ گاڑیاں تیار رکھیں اور بچوں کو پکنک پر لے جائیں۔ ایک اور گاڑی بھی تھی جس میں کچھ نوجوان تھے۔ بزرگوں میں کوئی نہیں تھا۔ بہرطور تیاریاں ہوئیں اور ایک پُرفضا مقام پکنک کیلئے منتخب کرلیا گیا۔ بلاشبہ عمدہ جگہ تھی لیکن میں اس سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ میری حیثیت ایک ڈرائیور کی تھی۔ درشہوار کی وہی کیفیت تھی۔ ناک چڑھی ہوئی، پیشانی پر بل…! پکنک کے مقام پر بھی اس کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ بہرحال ہم لوگ سیر و سیاحت کرنے لگے۔ کچھ فاصلے پر ایک بہت گہرا گڑھا تھا جو نیچے سے گھاس سے اَٹا ہوا تھا۔ کچھ سوکھے ہوئے درخت اس گڑھے میں اُگے ہوئے تھے اور کافی گہرائی تھی اس میں۔ اتفاق سے میں وہیں موجود تھا جب درشہوار اپنی تین دوستوں کے ساتھ پہنچ گئی۔ بھلا پکنک پر عظیم میاں کیوں نہ ہوتے۔ میں نے انہیں عجیب و غریب انداز میں درشہوار کے پیچھے لگے ہوئے دیکھا تھا۔ درشہوار کو شاید کوئی شرارت سوجھی۔ عظیم میاں زیادہ فاصلے پر نہیں تھے، میں بھی دور نہیں تھا، اس نے اچانک ہی عظیم میاں کی طرف دیکھا، اپنی ساتھی لڑکیوں سے کچھ کھسر پھسر کی اور ان کی جانب متوجہ ہوکر شاید انہیں آواز دی۔ عظیم میاں سر کے بل تو نہیں پہنچے تھے البتہ فوراً ہی اس کے قریب آگئے تھے۔ میں اتنے فاصلے پر تھا کہ ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سن سکتا تھا۔ درشہوار، عظیم میاں سے کہنے لگیں۔ ’’عظیم صاحب عشق و محبت کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟‘‘ اس براہ راست سوال پر عظیم میاں کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے درشہوار کو دیکھنے لگے۔ پھر تھوک نگلتے ہوئے آہستہ سے بولے… ’’کچھ نہیں… میرا مطلب ہے کچھ نہیں!‘‘
’’اوہ! تو پھر آپ سے پوچھنے سے کیا فائدہ؟‘‘
’’نہیں… نہیں آپ ضرور پوچھئے، میں جواب دوں گا۔‘‘
’’یہ میری دوست ہما ہے۔ آپ اسے جانتے ہیں؟‘‘
’’کیوں نہیں۔‘‘
’’اس کا کہنا ہے کہ محبت کرنے والے جان پر کھیل جاتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟‘‘
’’بالکل… بالکل!‘‘ عظیم میاں نے زور زور سے گردن ہلائی۔
’’میں نہیں مانتی۔ یہ کہتی ہے کہ اگر کوئی محبوبہ کسی محبت کرنے والے کو کوئی حکم دے تو وہ فوراً اس کی تعمیل کرتا ہے۔‘‘
’’بالکل… بالکل۔‘‘ عظیم میاں اسی انداز میں گردن ہلاتے ہوئے بولے۔
’’میں نہیں مانتی اگر میں آپ سے کہوں کہ آپ اس گڑھے میں کود جائیں تو کیا آپ کود جائیں گے؟‘‘ در شہوار بولی اور عظیم میاں گڑھے میں جھانکنے لگے۔ پہلے بوکھلائی ہوئی نظروں سے در شہوار کو دیکھا پھر ادھر ادھر …پھر بولے۔ کیوں نہیں…!
’’تو کود جایئے۔‘‘
’’اچھا! کوشش کرتا ہوں۔‘‘ وہ بولے، آنکھیں بند کیں اور گڑھے میں کود گئے۔ میں اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ میں نے گڑھے میں جھانکا۔ عظیم میاں گھاس کے ڈھیر پر پڑے ہوئے تھے۔ سر پھٹ گیا تھا اور خون بہہ رہا تھا۔ میں نے ملامت آمیز نظروں سے درشہوار کو دیکھا۔ اس کی ساتھی لڑکیاں چیخنے لگیں، تمام لوگ جمع ہوگئے اور شوروغوغا ہونے لگا۔ عظیم میاں جیسے گوشت کے تودے کو اتنے گہرے گڑھے سے نکالنا بھی آسان کام نہیں تھا۔ نہ جانے کیا کیا جتن کئے گئے تھے تب کہیں عظیم میاں باہر گھسیٹے گئے۔ بے ہوش تھے، خوب چوٹیں لگی تھیں، ساری پکنک ایسی تیسی میں مل گئی۔ فوراً ہی واپسی کی تیاریاں کی گئیں۔ اصل بات صرف وہ لڑکیاں جانتی تھی یا میں اور درشہوار کو شاید اس کا احساس تھا۔ حویلی آئے، عظیم میاں اسپتال لے جائے گئے، ہوش میں آگئے پھر پٹیاں بندھوا کر واپس حویلی لے آئے گئے۔ عجیب سی فضا ہوگئی، سب پریشان تھے۔ درشہوار نے ایک لمحے کیلئے عظیم میاں کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ اس وقت بھی وہ کمرے میں ان کے پاس تھی جب کوئی اور نہیں تھے۔ مجھے ایک دوا دے کر اندر بھیجا گیا اور جب میں اندر داخل ہوا تو درشہوار کی آواز سنائی دی۔ ’’وعدہ کرتے ہیں؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’آپ کیا کہیں گے؟‘‘
’’یہی کہ پائوں پھسل گیا تھا۔‘‘ عین اس وقت درشہوار نے مجھے دیکھا اور چونک پڑی پھر اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔
’’تم جانور ہو بالکل!‘‘ وہ گرجی۔
’’یہ دوا بھیجی ہے حاجی صاحب نے! یہ تینوں گولیاں انہیں کھلا دیں۔‘‘
’’گدھوں کی طرح منہ اٹھائے گھس آئے۔ تم نے اندر آنے کی جرأت کیسے کی؟‘‘ نہ جانے کیوں مجھے ترس آگیا۔ میں نے اسے گھورا اور آہستہ سے بولا۔ ’’گولیاں لے لیجئے۔‘‘
’’میری بات کا جواب دو!‘‘
’’آپ بہری ہیں کیا… یہ گولیاں بھیجی گئی ہیں میرے ہاتھ! آپ یہ انہیں کھلا دیں یا آپ باہر نکل جائیں، میں کھلا دوں گا۔‘‘ درشہوار کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ وہ ایک دم خاموش ہوگئی۔ مجھے گھورتی رہی پھر مڑی اور اس کمرے سے باہر نکل گئی۔ میں نے عظیم میاں کو گولیاں کھلائیں اور پھر باہر نکل آیا۔ عجیب سا ماحول ہوگیا تھا۔ حاجی صاحب نے مجھے حکم دیا کہ آج واپس نہ جائوں، نہ جانے کس وقت عظیم میاں کی وجہ سے میری ضرورت پیش آجائے۔ میں نے گردن جھکا دی۔ پکنک سے تو تھوڑی دیر کے بعد ہی واپسی ہوگئی تھی۔ سارا مزا کرکرا ہوگیا تھا پکنک پر جانے والوں کا!
وقت گزرتا رہا، رات ہوگئی۔ عظیم میاں کو تیز بخار ہوگیا تھا اور اہل خانہ شدید تشویش میں مبتلا ہوگئے تھے۔ سب ان کے کمرے میں جمع تھے۔ میں باہر موجود تھا اور آج کے واقعہ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ایک ملازمہ نے میرے قریب آکر کہا۔ ’’اندر آئو… تمہیں بلایا گیا ہے۔‘‘
میں اس کے ساتھ اندر داخل ہوگیا۔ ملازمہ میری رہنمائی کررہی تھی۔ ایک دروازے کے سامنے رک کر اس نے کہا۔ ’’اندر جائو۔‘‘ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ اندر تیز روشنی تھی اور اس روشنی میں مجھے ایک عجیب الخلقت شے نظر آئی… چہرہ درشہوار کا تھا مگر اس کے پورے بدن پر بال اُگے ہوئے تھے۔ بہت سی ٹانگیں نظر آرہی تھیں۔ بدن کا انداز بدلا ہوا تھا۔ بس یوں لگتا تھا جیسے ایک بہت بڑی مکڑی کھڑی ہوگئی ہو…! وہ اپنی منحوس پیلی آنکھوں سے مجھے گھور رہی تھی۔
بھوریا چرن میرا پرانا دوست، یہ بھوریا چرن ہی کا رُوپ تھا مگر اس کی جھلک صرف ایک لمحے کیلئے نظر آئی، اس کے بعد وہ صرف درشہوار رہ گئی۔ اپنی اصل شکل میں آگئی تھی، شعلۂ جوالا بنی ہوئی اورآنکھوں میں سخت طیش کے آثار۔ پھر اس نے غرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’ڈرائیور تمہاری موت تمہیں اس جگہ لائی ہے، سمجھے۔ تمہارے لیے میں نے صرف یہی فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں مر جانا چاہیے۔ میں نے زندگی میں کسی کو زخمی بھی نہیں کیا لیکن تم نے مجھے قتل جیسے بھیانک اقدام پر مجبور کر دیا ہے اور اب تم خاموشی سے مر جائو، بالکل خاموشی سے۔‘‘ اچانک درشہوار نے پستول مجھ پر تان لیا۔ یہ پستول پہلے سے اس کے ہاتھ میں چھپا ہوا تھا۔ میں ساکت کھڑا اسے گھورتا رہا۔ ابھی تو میرے ذہن سے یہ تاثر ہی ختم نہیں ہوا تھا کہ میں اسے بھوریا چرن کے رُوپ میں دیکھ چکا ہوں، وہ کچھ اور ہے کچھ اور…
درشہوار کا کچھ اور خیال تھا، شاید وہ سوچ رہی تھی کہ پستول دیکھ کر میں خوف سے تھر تھر کانپنے لگوں گا۔ دہشت سے میرا رنگ بدل جائے گا اور میں نہ جانے کیا اول فول بکنے لگوں گا۔ لیکن میں اسے پلک جھپکائے بغیر دیکھ رہا تھا۔
’’تم سمجھ رہے ہو میں گولی نہیں چلا سکتی۔‘‘ اس نے کہا۔ میں پھر بھی چپ رہا تو وہ پھر بولی۔ ’’تمہیں موت کا خوف نہیں ہے اپنی دلیری کا سکہ جمانا چاہتے ہو مجھ پر۔‘‘ اب وہ سو فیصدی درشہوار تھی۔ اگر وہ بھوریا چرن کا رُوپ ہے، اگر وہ پورنی ہے تو دیکھ لوں گا اسے۔ اس وقت سنبھلنا ضروری ہے۔
’’آپ نے مجھے بلایا ہے۔‘‘ میں نے پتھریلے لہجے میں کہا۔
’’ہاں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’کوئی کام ہے مجھ سے؟‘‘
’’جو کچھ میں نے کہا ہے وہ تم نے نہیں سنا؟‘‘
’’سن لیا ہے۔‘‘
’’تم نے مجھے بہری کہا تھا؟‘‘
’’اُس وقت کہا تھا۔‘‘
’’میرے بارے میں تمہیں علم ہے کہ میں کون ہوں؟‘‘
’’اب ہوگیا ہے۔‘‘ میں نے معنی خیز لہجے میں کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے سخت لہجے میں سوال کیا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’مجھے تو… مجھے تو تم پاگل لگتے ہو۔‘‘
’’میں واپس جا سکتا ہوں۔‘‘
’’زندہ نہیں جا سکتے سمجھے۔ تم نے اپنی حیثیت سے تجاوز کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں لوگ میری صورت دیکھ کر ہکلانے لگتے ہیں اور… اور تمہاری یہ جرأت… تمہیں معافی مانگنا ہوگی۔‘‘
’’مجھے حاجی صاحب نے یہاں بھیجا تھا۔ ان کے حکم کی تعمیل مجھ پر فرض تھی۔‘‘
’’میرا حکم ان سے افضل ہے۔‘‘
’’شاید… مجھے بتایا نہیں گیا۔‘‘
’’آج سن لیا ہے۔‘‘
’’سن تو لیا ہے لیکن اس پر عمل کرنے کا حکم حاجی صاحب ہی دے سکتے ہیں۔‘‘
’’اوہ… تم… تم… شاید تم مرنا ہی چاہتے ہو… میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی بالکل نہیں چھوڑوں گی۔ مجھے معلوم ہے تم… وہاں تم… پکنک پر ہمارا پیچھا کیوں کر رہے تھے۔‘‘
’’پیچھا؟‘‘
’’بالکل پیچھا کر رہے تھے۔ تم اس وقت وہاں کیوں موجود تھے جب عظیم صاحب گڑھے میں گرے تھے۔‘‘
’’مجھے علم نہیں تھا کہ وہ اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دینے والے ہیں۔‘‘
’’تم نے ہماری باتیں چھپ کر سنی تھیں۔‘‘
’’جی سنی تھیں۔‘‘
’’اور اب تم وہ تمام باتیں حاجی صاحب کو بتانے کیلئے بے چین ہوگے، یہی بات ہے نا۔‘‘
میں نے چونک کر اسے دیکھا یہ باتیں تو عجیب تھیں مگر ان میں معصومیت تھی۔ اس گفتگو سے اس کی فطرت کا اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ایک خود سر مغرور لڑکی تھی، ذہنی طور پر اس قدر برتر نہیں تھی جتنا ظاہر کرتی تھی۔ پھر مجھے جو کچھ نظر آیا کیا وہ صرف میرا واہمہ تھا۔ کوئی غلط فہمی ہوئی تھی مجھے… مگر سوچنے کا وقت نہ ملا۔ اس نے پھر اپنا سوال دُہرایا تھا۔
’’جی نہیں… میں کسی کو کچھ بتانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘‘
’’سچ بول رہے ہو…؟‘‘ اس نے مشکوک انداز میں کہا۔
’’جی ہاں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’اگر نہ بھی بول رہے ہو تو تم میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ اوّل تو ویسے بھی تمہاری بات پر کوئی تفتیش نہیں کرے گا پھر خود عظیم بھائی گواہی دیں گے کہ وہ خود گڑھے میں گرے تھے۔ تمہارے لیے میں اس سے بھی زیادہ گہرا گڑھا کھود دوں گی۔ میں کہہ دوں گی کہ یہ شخص مجھے بلیک میل کر رہا ہے۔‘‘
’’جی بہتر۔‘‘
’’تو اب یہاں کیوں مر رہے ہو؟‘‘
’’آپ مجھے قتل کرنا بھول گئیں شاید۔‘‘ میں نے کہا۔
’’دفعان ہو جائو، میں دو کوڑی کے نوکروں کو منہ نہیں لگاتی۔‘‘ اس نے جھلا کر کہا اور میں اس کے کمرے سے نکل آیا۔ اس کی گفتگو کا ایک لفظ بھی ذہن پر چسپاں نہیں ہوا تھا مگر اس کے کمرے میں داخل ہو کر مجھے اس کی جو شکل نظر آئی تھی اس نے مجھے بے چین کر دیا تھا۔ اس وقت تو میرے ذہن میں دُور دُور تک بھوریا چرن کا تصور نہیں تھا پھر درشہوار مجھے ایسی کیوں نظر آئی۔
یہ رات یہیں گزری۔ عظیم میاں کی وجہ سے سب پریشان تھے لیکن صبح کو وہ بہتر ہوگئے اور پھر بتدریج ٹھیک ہونے لگے۔ شام تک وہ اُٹھ کر بیٹھ گئے تھے۔ شہاب علی کو بھی ساری صورت حال معلوم تھی۔ ان میں چچی جان اور فرحانہ بھی حاجی صاحب کی کوٹھی میں آئے تھے اور دیر تک رہے تھے۔ بہرحال یہ ڈرامہ ختم ہوگیا۔ آج دن میں دو بار درشہوار نظر آئی تھی وہی انداز تھا، وہی پُرغرور تنی ہوئی گردن تھی۔ مجھے اس وقت کے واقعہ کی حقیقت پر خود شک ہوگیا، مگر نہ جانے ایسا کیوں ہوا تھا۔ رات کو معمول کے مطابق واپس آ گیا۔ کھانا وغیرہ کھایا اور آرام سے سو گیا۔ پچھلی رات بے چین رہا تھا اس لیے نیند آ گئی۔ رات کے دو بجے تھے جب آنکھ کھل گئی، پُرسکون نیند ٹوٹ گئی۔ نہ جانے کیوں… ذہن پوری طرح جاگ گیا تھا۔ چھت کو گھورتا رہا پھر بغلی کھڑکی کی طرف نگاہ اُٹھ گئی اور بری طرح اُچھل پڑا۔ کھڑکی میں ایک چہرہ نظر آیا تھا۔ خد و خال واضح نہیں تھے مگر آنکھیں روشن تھیں۔ یہ آنکھیں کینہ توزی سے مجھے گھور رہی تھیں۔ ان میں نفرت تھی اور یہ آنکھیں، یہ درشہوار کی آنکھیں تھیں، اُچھل کر بیٹھ گیا۔ ’’کون ہے؟‘‘ میرے حلق سے آواز نکلی اور آنکھیں فوراً غائب ہوگئیں۔ جھپٹ کر کھڑکی پر پہنچ گیا۔ یہ کھڑکی مکان کے عقب میں گلی میں کھلتی تھی۔ پرانے طرز کی موٹی سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ ان سے گزر کر کسی کا اندر آنا ناممکن تھا مگر وہ چہرہ، وہ آنکھیں… گلی کے انتہائی سرے پر ایک سایہ نظر آیا جو فوراً غائب ہوگیا تھا۔ یقیناً کوئی بھاگتا ہوا وہاں تک پہنچا تھا مگر کون… کیا درشہوار…؟ ان آنکھوں کو میں بھول نہیں سکتا تھا مگر درشہوار۔
واقعات مسلسل پُراسرار تھے۔ میرا احاطہ کئے ہوئے تھے۔ مہلت نہیں مل رہی تھی۔ سات پورنیوں میں سے ایک ہلاک ہو چکی تھی اور وہ سب کچھ رمارانی، رادھا اور کشنا… ابھی تک میری عقل کوئی فیصلہ نہیں کر پائی تھی۔ صبح کو سب کچھ معمول کے مطابق ہوا۔ ذہن میں کرید تھی، زیادہ تر درشہوار کا جائزہ لیتا رہا۔ اس کی آنکھیں غور سے دیکھیں اور شبہ نہ رہا یہی آنکھیں میری نگراں تھیں مگر کیوں… درشہوار کیا واقعی مجھ سے خوف زدہ ہوگئی تھی اور مجھے ہلاک کرنا چاہتی تھی۔ ممکن ہے اس نے سمجھداری سے کام لیا ہو، اگر وہ اپنے کمرے میں واقعی مجھے گولی مار دیتی تو میرے قتل کا الزام اس پر آتا اور اب وہ میری تاک میں ہو۔ اس خیال پر مجھے ہنسی آ گئی۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتی ہے تو ضرور کر دے۔ یہ ناپاک زندگی ختم ہو جائے۔ میں تو دل سے چاہتا تھا، یہ بے مقصد زندگی مجھے بوجھ لگتی تھی۔ خود اپنا خاتمہ کر کے اپنی عاقبت خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔
شام کو کسی کام سے دُرشہوار کے کمرے کے سامنے سے گزرا۔ کھلے دروازے سے اندر نگاہ گئی تو اُچھل پڑا، وہ نماز پڑھ رہی تھی۔ جائے نماز پر بیٹھی وہ مقدس اور پاکیزہ لگ رہی تھی۔ آگے بڑھ گیا اب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچ سکتا تھا کہ وہ میرا وہم تھا صرف وہم… لیکن اس رات پھر اُلجھ گیا۔ کھڑکی بند کر کے سویا تھا۔ ٹھیک دو بجے تھے، آنکھ کھلی۔ کھڑکی سے وہی آتشی آنکھیں جھانک رہی تھیں۔ پورے ہوش و حواس کے عالم میں، میں نے وہ آنکھیں دیکھی تھیں۔ برق کی سی تیزی سے میں نے پلنگ سے کھڑکی کی طرف چھلانگ لگائی اور اسی تیزی سے وہ چہرہ وہاں سے غائب ہوا لیکن آج میں نے دیر نہیں کی۔ گلی طویل نہیں تھی پھر بھی وہ آدھی گلی عبور کر چکی تھی اور اس کے جسم کو دیکھ کر مجھے شبہ نہ رہا وہ درشہوار ہی تھی، سو فیصدی وہی تھی۔ دماغ گھوم کر رہ گیا یہ کیا اسرار ہے۔ حاجی صاحب کے گھر سے یہاں تک طویل فاصلہ تھا۔ وہ اتنی رات کو یہ فاصلہ عبور کر کے آتی ہے اور کھڑکی سے مجھے گھورتی ہے۔ کیوں… آخر کیوں… کیا چاہتی ہے وہ۔ اسے نماز پڑھتے دیکھ کر بھرم قائم ہوا تھا مگر اس وقت سب کچھ تہہ و بالا ہو گیا تھا۔
مہتاب علی صاحب سے بات کرنے کا موقع مل گیا۔ ’’اَرواحِ خبیثہ سے متعلق کچھ معلومات ہیں آپ کو چچا جان؟‘‘
’’نہ ہونے کے برابر… کیوں۔‘‘
’’ویسے ہی مجھے کچھ دلچسپی ہے۔‘‘
’’ارے… اس دلچسپی کی کوئی وجہ۔‘‘
’’کوئی خاص نہیں، بس کچھ مشاہدات۔‘‘
’’مثلاً۔‘‘
’’صرف ایک سوال… کوئی مسلمان لڑکی خواہ وہ کسی بھی حیثیت کی مالک ہو، ایک خبیث رُوح کی شکل میں نظر آئے، اس کی حرکات و سکنات پُراسرار ہوں، مگر بعد میں وہ نماز پڑھتی نظر آئے تو کیا کوئی گندی رُوح اس میں حلول کر سکتی ہے۔‘‘
’’مسلمان لڑکی۔‘‘ شہاب علی کچھ سوچنے لگے پھر بولے۔ ’’اس سلسلے میں میرا ایک سوال ہے۔‘‘
’’جی۔‘‘
’’تم نے خبیث رُوح کا تعین کیسے کیا۔‘‘
’’ایک ایسی شکل جس کے بارے میں علم ہو کہ وہ کالے جادو سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘
’’کسی مسلمان لڑکی پر جن کا سایہ ہو سکتا ہے۔ اس پر سفلی عمل کر کے اسے معطل کیا جا سکتا ہے، اگر اس پر کسی جن کا سایہ ہو تو مختلف اشکال بن سکتی ہیں۔ بھیانک، خوفناک، دُوسروں کو ڈرانے کیلئے، دُور رکھنے کیلئے لیکن وہ کوئی ایسی شکل نہیں اختیار کرسکتی جس کے بارے میں علم یقینی ہو کہ اس کا تعلق کالے جادو سے ہے۔ اگر کسی بدبخت مسلمان نے ایمان کھو کر کالا جادو سیکھ لیا توہ دائرۂ اسلام سے تو اسی وقت خارج ہو گیا۔ نماز جیسی پاکیزہ شے کا تو تصور ہی اسے ہلاک کر دے گا۔ یہ تو اللہ سے رابطہ ہے اور مجال ہے کہ کوئی باطل قوت اللہ سے رابطہ کر سکے۔ اسی لمحے فنا ہو جائے گی، ہاں کوئی غلیظ قوت اس پر عارضی طور پر اثرانداز ہو سکتی ہے، جیسا کہ میں نے کہا کہ بہرحال سفلی علوم کے ذریعے کسی کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ میں حیرانی سے مہتاب علی کی صورت دیکھنے لگا۔ وہ ایک ناواقف انسان تھے۔ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے لیکن اس وقت مجھے ایسا لگا تھا جیسے میرے تمام سوالات ان کے سینے میں اُتر گئے ہوں اور یہ جواب کسی اور کی زبان سے ان کے ہونٹوں سے پھوٹا ہو۔ اس جواب سے نہ صرف میری تشفی ہوئی تھی بلکہ اس جواب نے مجھے نئی فکر دی تھی، ہوشیار کیا تھا اور اب مجھے جو کچھ کرنا تھا وہ سوچ سمجھ کر کرنا تھا۔
عظیم میاں ٹھیک ہوگئے کوئی کہانی نہیں بنی۔ درشہوار سے کئی بار واسطہ پڑا، کچھ کھسکی ہوئی ہی لگتی تھی۔ مجھ سے تو کبھی سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتی تھی بلکہ اگر اسے کبھی ڈرائیور کی ضرورت پیش آتی تو وہ دُوسرے ڈرائیور کو ترجیح دیتی تھی۔ بحالت مجبوری مجھے برداشت کر لیتی تھی۔ وہ بھی اگر دوسرے ساتھ ہوں تو، اکیلے وہ کبھی میرے ساتھ نہیں نکلتی تھی لیکن میں اب بھی پریشان تھا۔ وہ مسلسل مجھے گھورتی تھی۔ کئی بار راتوں کو وہ مجھے نظر آئی، اس وقت جب اس کے آنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کوئی تدبیر ایسی نہیں ہو سکی جس سے میں اسے پکڑ سکوں حالانکہ کئی راتیں میں نے مہتاب علی کے گھر کے پچھواڑے گلی میں گزاریں۔ ان راتوں میں وہ نہیں آئی۔ مجھے تجسس تھا۔ کئی بار میں نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ بہرحال وقت بہتر گزر رہا تھا۔ کم از کم یہاں عزت سے گزارہ ہو رہا تھا اور رزق حلال مل رہا تھا۔
مہتاب علی کے رشتے داروں کے ہاں ایک شادی کا اہتمام ہوا۔ بہت قریبی رشتہ تھا۔ ہم سب گھر والوں کے ساتھ وہاں مصروف ہوگئے۔ دن رات کا آنا جانا تھا۔ حاجی صاحب نے ان دنوں مجھے حویلی ہی میں رہنے کی ہدایت کر دی تھی اور میرے لیے انتظام بھی کر دیا
تھا۔ اس وقت اتفاق سے درشہوار کو میرے ساتھ حویلی آنا پڑا۔ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے وہ کار میں آ بیٹھی۔
’’گھر چلو۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’اور سنو راستے سے یہ دوا لینی ہے… بازار سے گزرنا۔‘‘ اس نے ایک پرچہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ میں نے پرچہ لے کر رکھ لیا اور کار آگے بڑھا دی۔ پھر بازار پہنچ کر میں نے کار ایک ڈرگ اسٹور کے سامنے روکی اور دوا لینے اُتر گیا۔ دوا لے کر واپس آیا تو وہ آگ بگولا ہو رہی تھی۔ ’’تم‘‘ اس نے چنگھاڑتے ہوئے کہا۔
’’جی؟‘‘ میں حیرانی سے بولا۔
’’دُوسرا ڈرائیور کہاں مر گیا۔‘‘
’’کسی اور کام سے گیا تھا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تم نے بتایا کیوں نہیں کہ یہ تم ہو۔‘‘
’’کس طرح بتاتا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’میڈم مجھے حکم ملا تھا آپ کو گھر لے جائوں۔ آپ گاڑی میں آ بیٹھیں۔ میں نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ اب میں آپ سے یہ کہتا کہ یہ میں ہوں آپ میرے ساتھ نہ بیٹھئے۔‘‘
’’بکواس مت کرو… گاڑی آگے بڑھائو۔‘‘
’’جی…!‘‘ میں نے کہا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ غصے سے کھول رہی ہے۔ کچھ دیر کے بعد اس نے کہا۔
’’تم آخر خود کو سمجھتے کیا ہو۔‘‘
’’جی صرف ڈرائیور۔‘‘
’’اور اس دن تم نے مجھے بہری کہا تھا۔‘‘
’’میں اس کیلئے آپ سے معافی مانگ چکا ہوں۔‘‘
’’مگر یہ بات کبھی نہیں بھول سکتی میں، نہ جانے کیوں میں نے تمہیں معاف کر دیا ورنہ… ورنہ۔‘‘ میں نے خاموشی اختیار کرلی۔ اس کے بعد حویلی آ گئی۔ وہ خود ہی دروازہ کھول کر اندر چلی گئی تھی۔ میں خاموش کھڑا سوچتا رہا۔ مجھے ہدایت ملی تھی کہ اس کے بعد میں حویلی میں آرام کروں۔ حویلی کے دُوسرے مکین شادی والے گھر میں تھے۔ میں اپنی رہائش گاہ پہنچ گیا۔ بستر پر لیٹ کر میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ تقریباً پون گھنٹہ گزر گیا پھر دروازے پر دستک سنائی دی اور میں چونک پڑا۔
’’کون ہے؟‘‘
’’جمیلہ ہوں بھیّا۔‘‘
’’کیا بات ہے جمیلہ۔‘‘ میں نے دروازے پر آ کر پوچھا۔ جمیلہ گھر کی ملازمہ تھی۔
’’چھوٹی بٹیا نے کچھ دوائیں منگوائی تھیں تم سے، وہ کہاں ہیں۔‘‘
’’ارے… وہ تو گاڑی میں ہی رہ گئیں۔‘‘
’’منگوا رہی ہیں۔ گاڑی سے نکال کر انہیں پہنچا دو، کچھ طبیعت خراب ہے اس لیے شادی والے گھر سے آگئیں۔ مجھ سے یہی کہلوایا ہے۔‘‘
’’ابھی پہنچاتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ گاڑی کی چابی تکیئے کے سرہانے تھی۔ پلٹ کر چابی نکالی اور باہر آ گیا۔ ملازمہ جا چکی تھی اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس نے روشنی میں مجھے دیکھتے ہی بکنا جھکنا شروع کر دیا تھا اور میں اسے اس کی منگوائی ہوئی دوائیں دینا بھول گیا تھا۔ وہ گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ کے برابر والی سیٹ پر رکھی رہ گئی تھیں۔ گاڑی سے دوائیں نکال کر میں اس کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ اندازہ تھا کہ وہ کیا کہے گی۔ دروازہ آہستہ سے بجایا اور اندر سے آواز سنائی دی۔
’’آ جائو۔‘‘ میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ کمرے میں تیز روشنی تھی۔ وہ رات کے لباس میں ملبوس مسہری پر نیم دراز تھی اور مسکرا رہی تھی۔ ایک لگاوٹ بھری مسکراہٹ۔
’’آگے آئو۔‘‘ اس نے کہا اور میں آگے بڑھ گیا۔ ’’میری طرف دیکھو۔‘‘ اس کی نشہ آلود آواز اُبھری۔ میں نے نظریں اُٹھائیں اور جھکا لیں وہ کچھ عجیب نظر آ رہی تھی۔
’’جی۔‘‘ میں گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔
’یہ ہاتھ میں کیا ہے۔‘‘
’’دوائیں۔‘‘
’’یہاں رکھ دو… آئو بیٹھو۔‘‘ میں نے اس کے اشارے پر دوائیں رکھ دیں اور پھر واپسی کیلئے مڑا مگر نہ جانے کب، نہ جانے کیسے وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر میرے سامنے آگئی۔ مجھے احساس تک نہ ہوا تھا۔ ’’کہاں جا رہے ہو۔‘‘
’’مجھے کہاں جانا چاہیے۔‘‘
’’چلے جانا… گھر میں کوئی نہیں ہے۔ مجھے اکیلے ڈر لگے گا۔ آئو کچھ دیر بیٹھو آئو نا۔‘‘ اس نے کہا اور میرے دماغ میں غصّے کا طوفان اُمنڈ آیا۔ میں نے اسے زور سے جھٹکا دیا مگر اس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا تھا۔ ’’امر کر دوں گی، سنسار میں تمہارے جیسا کوئی نہ ہوگا۔ سب تمہارے پیروں تلے بچھ جائیں گے، بس مجھے سوئیکار کر لو… مجھے سوئیکار کر لو۔‘‘ اس نے کہا اور میرا دل دہشت سے دھڑک اُٹھا۔ پورنی… دُوسری پورنی ایک مسلمان لڑکی کے رُوپ میں؟ میری نگاہیں بے اختیار اس کے ہاتھوں پر پڑیں مگر اس کے ہاتھوں میں صرف پانچ پانچ اُنگلیاں تھیں۔ صرف پانچ اُنگلیاں… میں ایک دم سنبھل گیا بڑی ڈھارس ہوئی تھی۔ اس نے پھر کچھ کہا اور مجھے گھسیٹنا چاہا مگر میرا زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پر پڑا اور وہ چیخ کر نیچے گر پڑی۔
مجھے اب یقین ہوگیا تھا کہ وہ پورنی نہیں ہے اس لئے ہمت بڑھ گئی۔ میں نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’میں نہیں جانتا یہ سب کیا ہے لیکن… لیکن مجھ میں ہمت ہے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی… تم مجھے زیر نہیں کر سکتیں۔ میں مالک کا وفادار کتّا ہوں، میں رزق حلال کھائوں گا سمجھیں۔‘‘
’’مجھے سوئیکار کر لو… مجھے…‘‘ وہ پھر اُٹھ گئی مگر اس بار میں نے اس کی گردن دبوچ لی تھی۔ مگر ایسے نہیں جیسے میں نے کشنا کی گردن دبوچی تھی۔ میں نے گردن پر ہلکا سا دبائو ڈال کر اسے بے ہوش کر دیا تھا۔ جب اس کا بدن بے سدھ ہوگیا تو میں نے اسے اُٹھا کر پلنگ پر ڈال دیا۔ سانس پھول گیا تھا، بُرا حال ہو رہا تھا۔ ایک آہٹ سی ہوئی اور میرا رُواں رُواں کانپ گیا۔ کوئی آ گیا اور اب… اب ایک دم گھوم کر دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ بڑی مشکل سے گردن گھمائی اور آنے والے کو دیکھا۔ بھوریا چرن تھا۔ ہنس رہا تھا۔ اپنی تمام شیطانی صفات کے ساتھ میرے سامنے تھا وہ۔
’’پورنی ماری ہے رے بہادر سورما۔ واہ رے مالک کے وفادار کتّے۔ ارے تے نے مالک کی بٹیا مار ڈالی اور خود کو کہے ہے مالک کا وفادار کتّا! ارے وہ پورنی نا ہے ہوشیار۔ تورے مالک کی لونڈیا ہے۔‘‘
’’بھوریا چرن ۔‘‘ میں نے سرد لہجے میں کہا۔
’’چھوڑیں گے نا تجھے حرام کھور۔ جیون کھراب کر دیا ہے تے نے ہمارا۔ تیرے جیون کو شانتی نا لینے دیں گے ہم وچن دیا ہے ہم نے بھی اپنے آپ کو۔‘‘
’’یہاں کیوں آیا ہے۔‘‘
’’تیرا رزق حلال بھنڈ کرنے… ہم تو رہیں ہی تیری ناک میں ہیں۔ سات پورنیوں میں سے ایک مار دی تے نے۔ ارے بدنصیب کسی سے پوچھ تو لیتا پورنی کا ہووے ہے۔ سارا جیون تیاگ دیں ہیں رشی منی ایک پورنی پانے کیلئے۔ ہم نے توکا سات دے دیں اور تے ان کا مارت ہے۔ ان کا دیا نہ کھائے ہے نہ پیئے ہے۔ کبھی مانگ تو سنسار میں کچھ ان سے۔ مہاراجہ بنا دیں گی تجھے، پر تیرا نصیب ہی بھنڈ ہے۔ کتّے جیسی درگت ہوگئی تیری پر اب بھی دھرم کی لاٹھی اُٹھائے ہوئے ہے۔ ایک پورنی مار دی تے نے۔ ہم سمجھ گئے کسی نے توکا بھٹکائی دیا تب ہم نے یہ سوچا کہ اب توکا سبق دئی ہیں۔ ہم نے تیرے مالک کی لونڈیا کو بگاڑا اور تے سمجھا او پورنی ہے۔ اب بیٹا آگے دیکھ ملے گا توکا رزق حلال… سب مار مار کر تیرا بھرکس نہ نکال دیں تو ہمارا نام نا ہے۔ کھا رزق حلال…!‘‘ وہ مڑا اور باہر نکل گیا۔
میرا دل دھاڑ دھاڑ کر رہا تھا۔ تیزی سے دروازے سے نکل کر دیکھا وہ غائب ہو چکا تھا۔ واپس درشہوار کے پاس آیا۔ میرا اندازہ دُرست نکلا تھا۔ آہ بھوریا چرن کو یہ معلوم نہیں تھا کہ میں پورنیوں کی پہچان جانتا ہوں، وہ یہ بات نہیں جانتا تھا۔ درشہوار گہری گہری سانسیں لے رہی تھی۔ اسے سنبھال کر لٹایا۔ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ خدایا تیرا شکر ہے۔ اللہ تیرا احسان ہے۔ میں نے دل میں کہا۔ اس وقت باہر شور سنائی دیا اور پھر دروازے سے بہت سی آوازیں اُبھریں۔ حویلی کے ملازم تھے۔
’’کیا بات ہے… کیا شور تھا ڈرائیور صاحب…‘‘ ایک ملازم نے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’شور، کہاں…؟‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔
’’چھوٹی بٹیا کیوں چیخ رہی تھیں۔‘‘
’’وہ تو ایک بار بھی نہیں چیخیں۔ تمہیں دھوکا ہوا ہے لیکن وہ شاید بے ہوش ہوگئی ہیں۔‘‘
’’بے ہوش؟‘‘ بہت سی آوازیں اُبھریں۔
’’ہاں۔‘‘
’’تم یہاں کیا کر رہے ہو۔‘‘ ایک معمر ملازم نے پوچھا۔
’’یہ دوائیں لے کر آیا تھا۔‘‘
’’اس وقت۔‘‘
’’ہاں میں تو اپنے کمرے میں تھا۔‘‘ جمیلہ نے کہا تھا کہ چھوٹی بی بی دوائیں منگوا رہی ہیں۔ میں گاڑی سے دوائیں لے کر یہاں آیا تو انہیں بے ہوش دیکھا۔
’’مگر ہم ان کے شور کی آوازیں سن کر آئے ہیں۔‘‘
ملازم عورتیں درشہوار کے پاس آ کر اسے ٹٹولنے لگیں۔ ملازموں کو مجھ پر شک ہوگیا تھا۔ معمر ملازم حیات خان نے دو ملازموں سے کہا کہ وہ شادی والے گھر جا کر درشہوار بی بی کے بے ہوش ہونے کی اطلاع دیں اور حاجی صاحب کو بلا لائیں۔ وہ دونوں چلے گئے تو ملازم عورتوں کو درشہوار کی خبرگیری کرنے کیلئے کہا اور مجھ سے بولا۔
’’آئو… باہر آ جائو…‘‘ میں باہر نکل آیا۔ تب وہ مجھ سے سے بولا۔ ’’ڈرائیور صاحب برا مت ماننا۔ میں بیس سال سے اس گھر کا نمک کھا رہا ہوں۔ بڑا فرض ہے مجھ پر۔ اس حویلی کی حفاظت کا کام مجھے ہی دیا گیا ہے۔ ڈرائیور صاحب، ہمیں چھوٹی بٹیا کی چیخیں سنائی دیں۔ ہم یہاں پہنچے تو وہ ہمیں بے ہوش ملیں اور تم ان کے کمرے میں، ہمیں تم پر شک ہوگیا ہے۔ اس لیے جب تک مالک نہ آ جائیں تم ہمارے ساتھ رہو گے کہیں جائو گے نہیں۔‘‘
’’میں کہیں نہیں جا رہا حیات بابا۔‘‘
’’اپنے کمرے میں چلو۔‘‘ حیات خان نے کہا اور میں خاموشی سے اپنے کمرے میں آ گیا۔ حیات خان نے دُوسرے ملازموں کی ڈیوٹی لگائی۔ کچھ کو میرے کمرے کے سامنے میری نگرانی کے لیے چھوڑا کچھ کو باہر ڈیوٹی پر لگا دیا اور پھر خود کمرے میں آ گئے۔
’’جی حیات بابا…!‘‘ میں نے انہیں بیٹھتے دیکھ کر کہا۔
’’کچھ نہیں ڈرائیور صاحب۔‘‘
’’آپ یہاں کیسے بیٹھے ہیں؟‘‘
’’وہ بس…! ذرا بڑے مالک آ جائیں۔‘‘
’’آپ فوراً باہر چلے جایئے۔ اس کمرے کے دروازے کے باہر بیٹھ کر آپ اپنا حق نمک ضرور ادا کریں، مجھے اعتراض نہیں۔‘‘
’’تم برا مان گئے ڈرائیور صاحب۔ دراصل…!‘‘
>’’حیات خان، فوراً باہر نکل جائو۔‘‘ میں نے کرخت لہجے میں کہا اور حیات خان اُٹھ گئے۔ مجھے ان کا یہاں رُکنا بہت بُرا لگا تھا۔ ان کے باہر نکلنے کے بعد میں نے دروازہ بند کر لیا تھا۔ اور پھر میں اس بارے میں سوچنے لگا۔ بڑی خطرناک چال چلی تھی بھوریا چرن نے۔ خدانخواستہ اگر میں اسے پورنی سمجھ کر ہلاک کر دیتا۔ بڑا رحم ہوا تھا مجھ پر، اوّل تو مجھے پورنیوں کی اہم شناخت بتا دی گئی تھی۔ دوم مہتاب علی سے ہونے والی گفتگو نے مجھے سوچنے کا موقع دیا تھا۔
بستر پر لیٹ گیا۔ سوچتا رہا پھر نیند آ گئی۔ صبح ہی آنکھ کھلی تھی۔ رات کے واقعات یاد آئے اور دل دھک دھک کرنے لگا۔ اندازہ لگانے کیلئے دروازے پر پہنچا۔ دروازہ کھول کر باہر جھانکا، کوئی نہیں تھا۔ مگر بہت دُور کچھ فاصلے پر جمیلہ کی جھلک نظر آئی تھی۔ منہ ہاتھ وغیرہ دھو کر فارغ ہوا تھا کہ جمیلہ تیزی سے آتی نظر آئی۔ میرے قریب پہنچ کر بولی۔
’’بڑے مالک بلا رہے ہیں ڈرائیور صاحب…!‘‘ حاجی فیاض صاحب اپنے کمرے میں تھے۔ ایک سمت حیات خان کھڑا ہوا تھا۔ میرے سلام کا جواب دے کر حاجی صاحب بولے۔
’’مسعود میاں۔ وہ رات کو کچھ غلط فہمی ہوگئی تھی حیات خان کو۔ تم سے کچھ بدتمیزی کر بیٹھے یہ۔‘‘
’’درشہوار بی بی کی طبیعت اب کیسی ہے۔‘‘ میں نے بے اختیار پوچھا۔
’’ٹھیک ہے، کوئی بات بھی نہیں تھی دراصل وہ زیادہ رش سے گھبرا جاتی ہے۔ اعصابی دبائو کا شکار ہو گئی تھی۔ سب بالکل ٹھیک ہے۔‘‘
’’جی!‘‘
’’حیات خان رات کے واقعے پر شرمندہ ہیں تم سے معافی مانگنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’کوئی بات نہیں ہے۔ ان کا شک دُور ہوگیا۔‘‘
’’جی ڈرائیور صاحب ہم شرمندہ ہیں۔‘‘
’’میں نے آپ کی وفاداری کا بُرا نہیں مانا۔‘‘
بات ختم ہوگئی، شادی کے ہنگامے ابھی باقی تھے۔ وہ دن گزر گیا دُوسرے دن دوپہر کو درشہوار نے مجھے بلایا۔ اس وقت بھی تمام لوگ وہیں گئے ہوئے تھے۔ میں نے دو چکر لگائے تھے اور آخر میں مجھے شام کو درشہوار کو لے کر جانا تھا جس کیلئے ہدایت کر دی گئی تھی۔ میں اس کے کمرے میں پہنچ گیا۔
’’جی چھوٹی بٹیا؟‘‘
’’یہ پتہ رکھ لو مسعود۔ تھوڑی دیر کے بعد یہاں چلے جانا ، میری دوست صفیہ تمہارے ساتھ یہاں آ جائے گی۔ شام کو اسے ہمارے ساتھ جانا ہے۔‘‘
میں نے کاغذ لے لیا۔ ’’پڑھ سکتے ہو…؟‘‘
’’جی ہاں…!‘‘
’’کوئی پونے گھنٹے کے بعد چلے جانا۔‘‘
’’جی بہتر…!‘‘ میں بیٹھا تو اس نے مجھے پھر پکارا۔
’’سنو…!‘‘ اور میں رُک گیا۔ ’’جلدی ہے جانے کی…؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’مجھ سے بات کرنا پسند کرو گے؟‘‘ اس نے عجیب سے لہجے میں پوچھا اور میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ درشہوار کا لہجہ بدلا ہوا تھا۔
’’حکم دیجئے…؟‘‘
’’میں نے تم سے بہت بدتمیزی کی ہے۔ بہت سختی سے پیش آئی ہوں تمہارے ساتھ، مجھے اس پر شرمندگی ہے۔ میں تم سے معافی مانگنا چاہتی ہوں مسعود…!‘‘
’’نہیں چھوٹی بی بی۔ آپ میرے مالک کی بیٹی ہیں۔‘‘
’’مگر تم فرشتہ صفت انسان ہو۔ مسعود میری کیفیت کے بارے میں کچھ بتائو گے۔‘‘
’’جی؟‘‘
’’پلیز مجھے بتائو، مجھے ایک ایک لمحہ یاد ہے۔ مجھے یاد ہے میں تم سے کیا کہہ رہی تھی۔ میں بہت بے باک ہوگئی تھی مسعود۔ مگر خدا کی قسم میں اپنے حواس میں نہیں تھی۔ مجھے یوں لگتا تھا جیسے کوئی انجانی قوت میرے وجود میں داخل ہوگئی ہو۔ وہی مجھ سے یہ سب کہلوا رہی ہو۔ میں اس کے ہاتھوں بے بس ہوگئی تھی۔ کیا تم میری باتوں پر یقین کر سکو گے؟‘‘
’’کیوں نہیں۔ آپ سچ کہہ رہی ہوں گی۔‘‘
’’اس نے مجھے بے بس کر دیا تھا مگر مسعود تم نے مجھے بچا لیا۔ خدا تمہیں اس کا اَجر دے۔‘‘
’’اب آپ ٹھیک ہیں؟‘‘
’’ہاں! وہ شرمندہ لہجے میں بولی، پھر اس نے کہا۔ ’’تم نے کسی سے اس کا تذکرہ تو نہیں کیا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’آئندہ بھی مت کرنا، تمہارا احسان ہوگا مجھ پر۔‘‘
’’آپ بالکل اطمینان رکھیں۔‘‘
’’تم بہت شریف انسان ہو، تم نے میرا ہر راز راز رکھا ہے۔ بس میری طبیعت بہت چڑچڑی ہے۔ نہ جانے کیوں ہر بات پر بہت جلد غصہ آ جاتا ہے۔ لوگ بھی تو مجھے چڑاتے ہیں۔ تم عظیم کے بارے میں جانتے ہو؟‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’مجھے اس سے منسوب کیا جاتا ہے۔ حاجی صاحب کی عقل خبط ہوگئی ہے، وہ گوشت اور ہڈیوں کا پہاڑ۔ عقل سے عاری انسان میری تقدیر کا مالک بنایا جا رہا ہے۔ مجھے ساری زندگی کے عذاب میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ کیسے دماغ پر قابو رکھوں، یہ تصور ذہن میں آتا ہے تو خون خرابہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ دیکھو نا کیسی زبردستی ہے، میرے سانس بھی مجھ سے چھینے جا رہے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ کسی طرح وہ اس دُنیا سے چلا جائے یا میں۔‘‘
’’میرا خیال ہے حاجی صاحب آپ پر اپنا فیصلہ مسلط نہیں کریں گے۔‘‘
’’ارے تم انہیں نہیں جانتے، بڑے عجیب و غریب انسان ہیں وہ۔‘‘
’’خدا کرے ایسا نہ ہو۔‘‘
’’میرا دل ہلکا ہوگیا ہے تم سے معافی مانگ کر، مجھ سے تمہارے بارے میں پوچھا گیا تھا۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’اس بے وقوف حیات خان نے تم پر شک کیا تھا، میں نے خود بھی اسے خوب ڈانٹا ہے، کچھ ضرورت سے زیادہ ہوشیار بنتا ہے وہ۔‘‘
’’وفادار ہے۔‘‘
’’جانوروں سے زیادہ، ارے ہاں مسعود تم کتنے لکھے پڑھے ہو؟‘‘
’’ضرورت کے مطابق۔‘‘
’’لکھنے پڑھنے کا کام نہیں کر سکتے؟‘‘
’’کر سکتا ہوں۔‘‘
’’پھر ڈرائیور کیوں ہو؟‘‘
’’یہ بھی کام تو ہے۔‘‘
’’تم نے اپنی خوشی سے اپنایا ہے؟‘‘
’’حاجی صاحب نے حکم دیا تھا۔‘‘
’’میں ان سے بات کروں گی، اب تم جائو ایک بار پھر تمہارا شکریہ۔‘‘ میں باہر آ گیا، مجھے خود بھی خوشی تھی۔
شادی کے ہنگامے ختم ہوگئے، زندگی معتدل ہوگئی مجھے درشہوار سے ہونے والی گفتگو یاد بھی نہ رہ گئی تھی لیکن حاجی صاحب نے مجھے بلایا۔
’’مسعود تم کھاتے وغیرہ دیکھ سکتے ہو۔ کاروباری پارٹیوں سے مل سکتے ہو؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’آپ جو حکم دیں گے کروں گا۔‘‘
’’نہیں میرا مطلب ہے تم پڑھے ہوئے ہو نا۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’کمال ہے اس بات پر غور نہیں کیا تھا میں نے، مہتاب علی بھی خوب ہیں کل میں تمہیں دفتر لے جائوں گا۔‘‘ دُوسرے دن وہ مجھے اپنے ساتھ دفتر لے گئے۔ اپنے منیجر نوشاد مجید کو بلایا اور مجھے اس سے ملواتے ہوئے کہا۔ ’’نوشاد میں انہیں تمہارا اسسٹنٹ بنا رہا ہوں، انہیں پورا کام سکھائو۔ تم بہت دنوں سے ایک اسسٹنٹ کی فرمائش کر رہے تھے۔ نوشاد کوئی 35 سال کی عمر کا خوش شکل آدمی تھا، بعد میں وہ خوش مزاج بھی ثابت ہوا۔ اب میں اس کے ساتھ ہی بیٹھتا تھا۔ دفتر کے بہت سے کام میں نے سنبھال لیے تھے۔ میری تنخواہ میں اضافہ کر دیا گیا تھا اور سب سے زیادہ مہتاب علی اس بات سے خوش ہوئے تھے۔ کوٹھی سے اب کوئی رابطہ نہیں رہا تھا اس لیے ادھر بالکل جانا نہیں ہوتا تھا البتہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ سب کچھ درشہوار کی مہربانی سے ہوا ہے۔ اس دن حاجی صاحب خاص طور سے دفتر آئے انہوں نے نوشاد سے کہا۔
’’نوشاد… وہ رانی مہاوتی کی ساڑھیاں بالکل تیار ہوگئی ہیں۔‘‘
’’جی حاجی صاحب… رگھبیر نے مجھے آج ہی خبر دی ہے۔‘‘
’’تم نے دیکھ لیں؟‘‘
’’ابھی نہیں۔‘‘
’’کل صبح کارخانے چلے جائو، آخری نگاہ ڈال کر انہیں پیک کرا دو، اور پھر بھٹنڈہ چلے جائو، رانی صاحبہ کا آدمی دو بار آ چکا ہے اب دیر نہیں ہونی چاہئے۔‘‘
’’جی حاجی صاحب۔‘‘
’’بلکہ مسعود کو بھی ساتھ لے جائو، ایسے کاموں سے ان کی واقفیت ضروری ہے۔‘‘
’’بہت بہتر۔‘‘ حاجی صاحب کے جانے کے بعد نوشاد نے کہا۔ ’’چلو اچھا ہے سیر و تفریح بھی ہو جائے گی، بہت دن سے بنارس سے باہر جانا نہیں ہوا۔‘‘
’’جی نوشاد صاحب۔‘‘
’’یار ایک تو تمہاری یہ سعادت مندی سے مجھے چڑ ہے۔ میں تمہیں دوست بنانا چاہتا ہوں مگر تم صرف ماتحت بننے پر تلے ہوئے ہو۔‘‘
’’ماتحت تو میں ہوں نوشاد صاحب۔‘‘
’’گویا دوست نہیں بن سکتے؟‘‘
’’یہ آپ کی مہربانی ہے۔‘‘
’’تو برادرم یہ مہربانی قبول کر لو۔ ویسے دورے بڑے دلچسپ ہوتے ہیں، ہمارا مال تو پورے ہندوستان میں سپلائی ہوتا ہے مگر ایسی رانیوں اور راجکماریوں کے آرڈر بھی آتے رہتے ہیں جو چاہتی ہیں کہ ان کے لباس پورے ہندوستان میں منفرد ہوں اوریہ ڈیزائن صرف ان کیلئے بنائے جائیں۔ آنکھیں بند کر کے قیمت دیتی ہیں، ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے جو عیش ہوتے ہیں وہ منافع میں۔‘‘
’’مگر نوشاد صاحب رانیاں اور راجکماریاں اب اس دور میں۔‘‘
’’کیوں… ؟‘‘
’’ریاستیں تو ختم ہو چکی ہیں۔‘‘
’’ریاستیں ختم ہوگئی ہیں راجہ رانیاں تو نہیں ختم ہوئے۔ وظیفے ملتے ہیں اور اتنے ملتے ہیں کہ وہ اب بھی راجہ رانیاں ہیں۔‘‘
’’اوہ… یہ معاملہ ہے۔‘‘
’’اور بھی بہت کچھ ہے جان من، تم چلو تو۔‘‘ نوشاد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
دُوسرے دن میں بھی نوشاد کے ساتھ مصروف رہا تھا۔ مہتاب علی کو اپنے جانے کے بارے میں بتا دیا تھا۔ ساڑھیاں بلاشبہ خوبصورت تھیں۔ تمام تیاریاں ہوگئیں اور میں اور نوشاد چل پڑے۔ ریل کے سفر کے دوران نوشاد نے کہا۔
’’ہم شکتی پور اُتریں گے۔‘‘
’’کہاں…؟‘‘ میں چونک پڑا۔
’’شکتی پور، وہاں سے گاڑی لے کر بھٹنڈہ جائیں گے۔‘‘
’’ریل بھٹنڈہ نہیں جاتی؟‘‘
’’جاتی ہے لیکن شکتی پور میں ہمارا سپلائر بھگوتی پرشاد رہتا ہے۔ یہ آرڈر اسی کے توسط سے ملا ہے، اسے بھی ساتھ لے جانا ہوگا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ میں نے گردن ہلا دی۔
’’اور پھر یار… وہاں اپنے کچھ اور رشتے دار بھی رہتے ہیں تمہیں بھی ان سے ملائیں گے‘‘ نوشاد نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا۔ میں اس کی بات کو سمجھ نہیں سکا تھا۔ شکتی پور پہنچ گیا۔ بڑی یادیں وابستہ تھیں یہاں سے، حاجی فیاض کے ایجنٹ بھگوتی پرشاد نے بڑا اچھا خیرمقدم کیا۔ سارے انتظامات کئے اور کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ شام کو نوشاد نے مجھ سے تیار ہونے کیلئے کہا اور بولا ’’بہت عمدہ سے کپڑے پہن لو، بڑی مہمان نوازی ہوگی۔‘‘ میں نے اس کی ہدایت پر عمل کیا تھا پھر ہم چل پڑے مگر جب تانگہ اس بازار میں داخل ہوا جہاں میں رتنا کی حیثیت سے کافی وقت گزار چکا تھا تو میرا دل دھڑکنے لگا۔ مجھے یہاں آنے کی اُمید نہیں تھی رما رانی کشنا سب یاد آ گئے۔
’’یہاں کہاں؟‘‘ میں نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’یہیں تو اپنے رشتے دار رہتے ہیں۔ یار سارے رشتے دل کے ہوتے ہیں اور میاں اپنی ایک دلدادہ ہے لکشمی۔‘‘
’’لل… لکشمی؟‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’ہاں! بہنیں تو دو تین ہیں مگر لکشمی سے اپنی چھنتی ہے۔‘‘
’’وہ اب یہاں کہاں؟‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’ایں … کیا؟‘‘
’’نہیں کچھ نہیں۔‘‘
’’گھبرا رہے ہو کچھ۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اماں زندگی کے مزے لوٹو، جو نہیں دیکھا وہ دیکھو، اسی کا نام زندگی ہے۔‘‘ ہم تانگے سے اُتر گئے۔ میرے قدم بوجھل ہو رہے تھے۔ لکشمی اس بازار میں ایک ہی تھی، کشنا کی بہن، اور بنارس میں جو کچھ ہو چکا تھا اس کے بعد یہاں کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن کوٹھا آباد تھا نہ جانے کس کیفیت میں، میں اُوپر پہنچا اور سب سے پہلے مالتی نے مجھے دیکھا۔
’’ارے رتنا تو آ گیا، رماجی… اپنا رتنا آ گیا۔ رتنا آ گیا رماجی…‘‘ مالتی چیختی اندر دوڑ گئی۔ نوشاد بوکھلا کر مجھے دیکھنے لگا۔ میرا حلق بند ہوا جا رہا تھا۔ رما رانی آئیں، رادھا اور لکشمی بھی آ گئیں رما رانی نے میرا سر سینے سے لگا لیا تھا۔
’’میرا دل کہتا تھا رتنا تو ایک بار ضرور آئے گا۔ آسانی سے نہیں بھولے گا ہمیں۔‘‘ ان کی آواز گلوگیر ہوگئی۔ مجھے فوراً ہی کوئی قدم اُٹھانا تھا ورنہ ایک بار پھر مشکلات کا شکار ہو جاتا۔ نوشاد الگ سر کھجا رہا تھا۔ میں نے رما رانی سے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا۔ ’’نوشاد صاحب یہ سب کچھ… یہ سب کچھ کیا ہے؟‘‘
’’ایں… اماں تم بتائو، میں کیا بتائوں، تم تو ہم سے بھی پرانے کھلاڑی نکلے۔‘‘ نوشاد نے کہا۔
’’یہ مجھے رتنا کہہ رہی ہیں۔‘‘
’’ہیں…‘‘ نوشاد کے بجائے رما رانی بولیں۔ پھر ان کے چہرے پر بڑا کرب اُبھر آیا۔ انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا۔ ’’تم… آپ… رتنا… رتنا۔‘‘
’’پر… ان کا نام رتنا تو کسی طرح نہیں ہو سکتا۔ یہ مسعود احمد ہیں ویسے رما جی آپ کو دھوکا بھی ہو سکتا ہے‘‘ نوشاد نے کہا۔
’’ہاں! ایسا ہی ہوا ہے، معافی چاہتی ہوں۔‘‘ رما نے سسکتی ہوئی آواز میں کہا۔ آیئے آپ لوگ اندر آیئے۔
’’لکشمی تم کیسی ہو۔ ذرا تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ رما جی آپ کی محفل سج گئی۔‘‘ نوشاد نے پوچھا۔
’’ابھی کچھ دیر ہے مگر آیئے۔‘‘ رما رانی نے کہا، نوشاد لکشمی کے ساتھ اندر چلا گیا۔ مجھے بڑے کمرے میں لے جایا گیا۔ بری طرح گھبراہٹ سوار تھی، مجھ پر تو دُہری بیت رہی تھی۔ ان لوگوں سے رابطے تھے اور پھر بنارس میں جو کچھ ہوا… مالتی البتہ بگڑ گئی۔
’’ارے بہت بن رہے ہو رتنا جی… ہم نا پہچانیں گے تمہیں، ہم… بھاگ گئے ٹھیک ہوتے ہی، کشنا کا حال بھی پوچھا تم نے؟‘‘
’’کیوں بک بک کر رہی ہو مالتی… اگر یہ وہ بھی ہیں تو رتنا تو نہیں تھے۔ ہم نے نام رکھ دیا تھا ان کا رتنا، اس وقت یہ بیمار تھے اب ٹھیک ہوگئے ہیں۔ جا تو اپنا کام کر۔‘‘ رما رانی نے اسے ڈانٹا۔
’’ارے اچھے ٹھیک ہوگئے… واقعات ہی بھول گئے۔‘‘
’’چل تو باہر چل، بکے جا رہی ہے۔‘‘ رما رانی مالتی کو باہر لے گئیں۔ رادھا رہ گئی تھی، اس نے دُکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’کشنا… جب سے تم گئے ہو بیمار ہے۔ چپ رہتی ہے اندر اندر گھٹتی ہے۔ سوکھ کر کانٹا ہوگئی ہے، علاج ہو رہا ہے مگر اس کا علاج تمہارے پاس ہے، ملو گے اس سے؟‘‘
’’ہو سکتا ہے میری صورت کسی رتنا سے ملتی ہو۔‘‘ مگر میرے سلسلے میں آپ لوگوں سے بھول ہو رہی ہے۔ میں یہاں پہلی بار آیا ہوں۔ ہاں مجھے یہ احساس ضرور ہو رہا ہے کہ میں نے… میں نے بنارس میں آپ لوگوں کو ضرور دیکھا ہے۔‘‘
’’کاشی جی میں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’وہاں تو ہم کبھی نہیں گئے۔‘‘ رادھا اُداس لہجے میں بولی۔
جب تک یہاں رہا شدید گھٹن کا شکار رہا۔ کم از کم یہ اندازہ ضرور ہوگیا کہ وہ فریب تھا بھوریا چرن کا جال تھا۔ وہ سب اَرواح خبیثہ تھیں مگر کتنی خوفناک کوشش تھی اس کمبخت کی۔ واپسی میں نوشاد نے بھی بڑی حیرت کا اظہار کیا۔ لکشمی یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ میں رتنا نہیں ہوں۔
بھگوتی پرشاد نے دوسرے دن انتظامات کئے۔ ہم شام کی گاڑی میں بیٹھ کر بھٹنڈہ چل پڑے۔ رات کو وہاں پہنچے، یہاں بھی ٹھہرنے کا انتظام ایک گھر میں کیا گیا تھا۔ صبح کو رانی صاحبہ سے اجازت لے کر ان کی خدمت میں حاضری دینا تھی۔ جس گھر میں قیام کیا گیا تھا وہ پرانے طرز کا اور بہت وسیع تھا۔ لق دق احاطہ جس کی دیواریں جگہ جگہ سے ٹوٹی پھوٹی تھیں۔ قطار میں بنے ہوئے کمرے۔ احاطے میں املی کے بے شمار درخت، جس کمرے میں، میں اور نوشاد ٹھہرے تھے وہ بھی بہت بڑا تھا۔ عقب میں ایک بہت بڑی کھڑکی تھی جس میں سلاخیں نہیں تھیں بس پٹ لگے ہوئے تھے۔ کھانے وغیرہ کا انتظام ایک مسلمان ہوٹل سے کیا گیا تھا۔ ہم دونوں باتیں کر رہے تھے۔ موضوع وہی رما رانی تھیں۔
’’ضرور کوئی ایسی شخصیت تھی جو بالکل تمہاری ہم شکل ہو۔‘‘ نوشاد نے کہا۔
’’ایسا ہی لگتا ہے۔‘‘
’’لکشمی کہہ رہی تھی کہ اس کی بہن کشنا، رتنا کی جدائی سے پاگل ہوگئی ہے۔ وہ اسے چاہتی تھی۔ ویسے یار تمام بہنوں میں سب سے زیادہ حسین تھی وہ… یہ واقعی تعجب ہوا ہے۔‘‘
’’ہاں… بعض اوقات بڑے عجیب واقعات ہوتے ہیں! بہت دیر تک ہم باتیں کرتے رہے پھر نوشاد سو گیا۔ میں کھلی کھڑکی سے باہر تاریک رات میں جھانک رہا تھا۔ میرا بستر کھڑکی کے عین سامنے تھا۔ املی کا ایک گھنا درخت تھوڑے ہی فاصلے پر نظر آ رہا تھا جس کا پھیلائو بے حد وسیع تھا۔ اس کی مناسبت سے اس کا تنا چوڑا تھا۔ میں بے خیالی کے عالم میں اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ کشنا بار بار دماغ میں اُبھر رہی تھی۔ وہ سب تو جعلی تھے جو بنارس میں مجھے ملے تھے لیکن کمبختوں نے کسی بات میں بھی تو شک نہ ہونے دیا۔ سب کچھ بالکل وہی تھا سوائے اس آخری رات کے۔ مگر میں کشنا کیلئے کیا کرتا۔ اگر اس سے مل بھی لیتا تو کیا ہوتا سوائے دل پر بوجھ لینے کے۔
پھر میرے خیالات کا طلسم ٹوٹ گیا۔ جو کچھ دیکھا تھا کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا کوئی وہم نہیں تھا۔ املی کے درخت سے ایک سفید سایہ آہستہ آہستہ بڑی احتیاط کے ساتھ نیچے اُتر رہا تھا۔ میں اُچھل کر بیٹھ گیا۔ کوئی انسان ہی تھا مگر کون… اس نے زمین پر قدم جمائے اور پھر اس کا رُخ کھلی کھڑکی کی طرف ہوگیا۔ وہ ادھر ہی آ رہا تھا۔ میرے بدن میں سنسنی دوڑنے لگی… کچھ دیر کے بعد پُراسرار سفید سایہ کھڑکی کے پاس پہنچ گیا۔ اب وہ اس پر چڑھ رہا تھا۔
میں پلنگ پر پائوں لٹکائے بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ کمرے میں اندھیرا تھا جب کہ باہر مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ باہر سے آنے والے کو یقیناً اس تاریک کمرے میں کچھ نظر نہیں آ رہا ہو گا لیکن وہ کون ہے، کوئی چور یا پھر کچھ اور۔ کچھ اور کا خیال مجھے اس لئے آیا تھا کہ وہ میرے سامنے املی کے درخت سے نیچے اترا تھا۔ دل چاہا کہ نوشاد کو جگا دوں مگر ایسا نہ کر سکا۔ نوشاد کرے گا بھی کیا سوائے شور مچانے کے۔ سایہ کھڑکی کے راستے اندر آ گیا۔ میں سانس روکے اسے دیکھ رہا تھا۔ کچھ لمحوں کے بعد مجھے احساس ہوا کہ وہ کوئی عورت ہے اور درحقیقت اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ دونوں ہاتھ پھیلائے آگے بڑھ رہی تھی اور اس سے پہلے کہ میں اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتا، وہ نوشاد کے پلنگ سے ٹکرائی اور اس پر ڈھیر ہو گئی۔
’’ٹٹ ٹوٹ گیا۔ ٹوٹ گیا۔ بچائو بچائو۔‘‘ نوشاد چیخا اور اس کے ساتھ ہی سایہ بھی چیخ پڑا۔ نسوانی چیخ کے ساتھ ہی آواز بھی ابھری۔
’’نہیں۔ بھگوان کے لئے نہیں۔ نہیں۔‘‘
’’ایں۔‘‘ اس بار نوشاد کی آواز سنبھلی ہوئی تھی۔
’’چھوڑ۔ مجھے چھوڑدو۔ تمہیں بھگوان کا واسطہ۔‘‘
’’کک کون ہو تم۔‘‘ نوشاد گھگھیا کر بولا۔ اسی وقت میں نے اپنی جگہ سے اٹھ کر روشنی جلا دی۔ غالباً پچیس واٹ کا نہایت دھندلا اور پرانا بلب یہاں لگا ہوا تھا جس کی مدھم روشنی بھی نہایت بدنما تھی۔ نوشاد نے لڑکی کو چھوڑ دیا اور لڑکی اندھوں کی طرح دوڑی۔ اس بار وہ مجھ سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔ اس نے مجھے بھی دیکھ لیا اور اس کا چہرہ مزید دہشت زدہ ہو گیا۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑے اور رندھی ہوئی آواز میں بولی۔
’’بھگوان کے لئے مجھے چھوڑ دو۔ بھگوان کے لئے ایسا نہ کرو۔ تمہیں دعائیں دوں گی۔‘‘
میں نے لڑکی کو بغور دیکھا۔ چیتھڑے جھول رہے تھے اس کے بدن پر۔ سفید لباس مٹیالا ہو رہا تھا اور جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔ نقوش بے حد جاذب نظر، آنکھیں بڑی بڑی مگر خوف میں ڈوبی ہوئی، بال گھنے اور سیاہ مگر بری طرح الجھے ہوئے۔ عمر بیس، بائیس سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔ نوشاد بھی اپنے پلنگ سے نیچے اتر آیا تھا۔ وہ لڑکی کو سر سے پائوں تک دیکھ رہا تھا۔
’’ہم نے تمہیں پکڑا کہاں ہے اور مگر۔‘‘ نوشاد نے چھت کی طرف دیکھا پھر میری طرف۔ ’’یہ ٹپکی کہاں سے ہے؟‘‘ نوشاد کے لہجے میں تمسخر تھا۔ مجھے یہ بے رحمی محسوس ہوئی۔ میں نے نرم لہجے میں کہا۔
’’تم اگر جانا چاہو تو جا سکتی ہو۔ جس کھڑکی سے تم آئی ہو دل چاہے تو اس سے ورنہ یہ دروازہ سامنے ہے۔‘‘
’’تم… یہاں رہتے ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’مجھے کچھ کھانے کو دو گے۔ کوئی بھی چیز، میں دو دن سے بھوکی ہوں۔ پیاسی بھی ہوں۔ کوئی بھی چیز دے دو چاہے وہ اتنی سی ہو۔ سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی ہو تو کھا لوں گی بس اتنا سا ہو۔‘‘ اس نے عاجزی سے کہا۔
’’کچھ انتظام کرو نوشاد۔‘‘
’’ایں ہاں ابھی لو۔‘‘ نوشاد نے کہا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ لڑکی نے خوف بھری نظروں سے دروازے کو دیکھا پھر خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولی۔ ’’وہ، وہ کسی کو بتا تو نہ دے گا۔ وہ انہیں خبر تو نہ کر دے گا؟‘‘
’’کسے؟‘‘
’’انہیں انہیں۔ وہ سب لونا چماری کے داسی ہیں۔ لونا چماری مجھے بھی۔ … وہ میرے خون سے نہائے گی۔ پہلے میری گردن کاٹ دے گی پھر اسے اوپر لٹکا دے گی۔ اس طرح میرے شریر کو بھی، میرا خون اس پر گرے گا اور وہ منتر پڑھتی جائے گی۔ ہائے رام۔ ہائے رام۔‘‘ وہ رونے لگی۔ اس کا بدن تھر تھر کانپنے لگا۔
’’سنو۔ سنو۔ وہ کسی کو کچھ نہیں بتائے گا۔ وہ میرا دوست ہے۔ بس تمہارے لئے کھانے کو لائے گا۔ کسی کو کچھ نہیں بتائے گا وہ۔‘‘
’’دو دن ہو گئے۔ پورے دو دن۔ پہلے میں ایک سوکھے نالے میں چھپی رہی، وہاں کچھ لوگ نظر آئے تو بھاگ کر یہاں آ گئی۔ املی کے پیڑ پر چڑھ گئی۔ مگر میں نے انہیں دیکھا ہے۔ وہ مجھے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ بڑی بھوکی ہوں میں، میں نے سوچا اس گھر میں رسوئی ہو گئی، کچھ کھانے کو مل جائے تو۔‘‘ اس نے سہمی ہوئی نظروں سے دروازے کی طرف دیکھا…؟‘‘
’’لونا چماری کون ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’مجھے کیا معلوم۔ پوچھے جا رہے ہو۔ مجھ سے بولا نہیں جا رہا۔‘‘ اس نے جھلا کر کہا۔ بڑی پیاری لگی وہ اس انداز میں۔ میں خاموش ہو گیا۔ بڑا ترس آ رہا تھا اس پر، مگر اس کی کہانی بڑی عجیب تھی۔ دروازے پر آہٹ ہوئی تو وہ چونک پڑی۔ اس نے کھلی کھڑکی کی طرف دیکھا پھر دروازے کی طرف پھر دہشت زدہ نگاہوں سے مجھے۔ مگر آنے والا نوشاد ہی تھا۔ اس کے ہاتھوں میں پتوں سے بنے دونے تھے جن میں سے ایک میں پوریا اور کچھ لڈو رکھے ہوئے تھے، دوسرے میں ترکاری تھی۔
’’پوریاں بس تین ہیں۔ تھوڑے سے لڈو کھا لینا، کام چل جائے گا۔‘‘ نوشاد نے یہ چیزیں آگے بڑھاتے ہوئے کہا اور اس نے بلی کی طرح انہیں جھپٹ لیا۔ پھر وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔
’’پانی۔ پانی نہیں ملا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’وہ بھی آ جائے گا تم کھائو۔‘‘
’’بھگوان تمہیں سکھی رکھے۔ بھگوان کرے۔ کبھی بھوکے نہ مرو…‘‘ وہ پوریاں ٹٹولنے لگی۔ بہت خوبصورت لڑکی تھی مگر بڑی ناقدری کی شکار، جو کچھ اس نے مجھے بتایا تھا وہ نوشاد کو معلوم نہیں تھا مگر میں اس کی کہانی میں الجھا ہوا تھا اور نوشاد اسے مسلسل گھور رہا تھا۔ اس نے ایک سالم پوری منہ میں ٹھونس لی تھی اور دوسری ہاتھ میں دبا رکھی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ بولتی بھی جا رہی تھی۔ ’’بس ان کا خطرہ ہے، وہ مجھے جگہ جگہ کھوجتے پھر رہے ہیں۔ وہ تو میں بہت تیز دوڑتی ہوں ورنہ ان کے ہاتھ آ جاتی۔ بھگوان کرے۔‘‘ اچانک دروازے کا پٹ زور سے کھلا اور وہ دہشت سے چیخ پڑی۔ اس کے ساتھ ہی بجلی سی کوند گئی، ایسی نپی تلی چھلانگ لگائی اس نے کہ سیدھی کھڑکی سے باہر جا کر گری۔ اس طرح دروازہ کھلنے سے ہم دونوں بھی اچھل پڑے۔ ہماری گردنیں دروازے کی طرف گھوم گئیں۔ بھگوتی پرشاد تھا۔ پانی کا برتن سنبھالے اندر گھس آیا اور احمقوں کی طرح منہ کھول کر ہمیں دیکھنے لگا۔ پھر میں نے اور نوشاد نے بیک وقت کھڑکی کی طرف دوڑ لگائی اور باہر جھانکنے لگے لیکن باہر بیکراں سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ اس کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ میرے ساتھ نوشاد بھی کھڑکی سے باہر آ گیا اور ہم اسے تلاش کرنے لگے۔ میں نے چیخ کر کہا ’’تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ ہمارا ساتھی تھا جو تمہارے لئے پانی لایا ہے۔ اگر تم درخت پر چڑھ گئی ہو تو نیچے آ جائو، ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔‘‘ آدھے گھنٹے تک جھک مارتے رہے اور بھگوتی پرشاد ہمیں کھڑکی میں کھڑا جھانکتا رہا۔ اس کا کوئی نشان نہیں ملا تھا۔ میرے ذہن میں شدید جھلاہٹ پیدا ہو گئی۔ غصے کے عالم میں، میں اس کھڑکی سے اندر داخل ہو گیا۔
’’تم انسان ہو یا گدھے۔‘‘ میں نے بھگوتی پرشاد سے کہا۔
’’پپ۔ پتہ نہیں!‘‘ وہ بوکھلا کر بولا۔
’’یوں بیل کی طرح ٹکر مار کر اندر آتے ہیں۔‘‘
’’نہیں جی۔ وہ۔‘‘
’’پاگل۔ احمق۔ گدھا!‘‘ نوشاد بھی غرایا۔
’’اب میں کیا کروں؟‘‘ بھگوتی پرشاد بولا۔
’’دفع ہو جائو۔‘‘
’’پپ۔ پانی چھوڑ جائوں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’دفع ہو جائو یہاں سے۔‘‘ نوشاد پائوں پٹخ کر بولا اور بھگوتی پرشاد پھرتی سے باہر نکل گیا۔ ’’بہت برا ہوا یار۔ وہ سب کچھ ایسے ہی چھوڑ گئی۔ کیا حسین لڑکی تھی نہ جانے کس سے خوفزدہ تھی۔‘‘ میں گہری سانس لے کر پلنگ پر آ بیٹھا۔ سخت ذہنی اذیت کا شکار ہو گیا تھا۔ ’’کچھ بتایا تھا اس نے…‘‘ نوشاد نے پوچھا۔
’’کوئی خاص بات نہیں۔ بس وہ خوفزدہ تھی کسی سے۔ کہہ رہی تھی کچھ لوگ اس کی تلاش میں ہیں، افسوس وہ کچھ کھا بھی نہ سکی۔‘‘
’’غلطی مجھ سے ہوئی تھی۔ کھانے کے لئے بھگوتی کو جگانا پڑا تھا۔ یہ کھانا اس کے پاس بچا ہوا رکھا تھا۔ میں نے اس سے پانی لانے کے لئے کہا اور کھانا لے کر آ گیا۔ میرے دونوں ہاتھ بھرے ہوئے تھے اس لئے اس سے کہہ دیا تھا مگر وہ تھی کون؟‘‘
’’کچھ نہیں معلوم مجھے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اس وقت میں ایک عجیب خواب دیکھ رہا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ میں ایک اونچے سے درخت کی شاخ پر بیٹھا ہوا ہوں۔ شاخ کی موٹی لکڑی میرے وزن سے چرچرا رہی ہے۔ پھر وہ ٹوٹ گئی اور میں نیچے گرنے لگا اور عین اسی وقت وہ میرے اوپر آ گری۔ میں نے سوچا تھا کہ درخت میرے اوپر آ گرا، مگر یار بڑی یاد آ رہی ہے۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔‘‘ نوشاد خود ہی مجھ سے بے تکلف ہوا تھا۔ میں نے کبھی اس سے بہت زیادہ بے تکلفی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ یہاں تک کہ جب وہ رمارانی کے کوٹھے پر گیا تھا تب بھی میں اس کے ساتھ نہیں جانا چاہتا تھا۔ بہرطور میں نے لڑکی کے سلسلے میں اس سے بہت زیادہ گفتگو نہیں کی۔ وہ اپنے پلنگ پر لیٹتا ہوا بولا۔ ’’یہ کھڑکی بھی بند نہیں کی جا سکتی، کیا تمہیں نیند آ جائے گی مسعود؟‘‘
’’سونا تو ہے نا، ورنہ صبح کو طبیعت خراب ہو جائے گی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’یہی میں کہنا چاہتا تھا، حالانکہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ ہوتی۔ خیر، خیر جو چیز تقدیر میں نہیں ہوتی انسان کتنی ہی کوشش کرے…‘‘ نوشاد جملہ ادھورا چھوڑ کر کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔ مجھے اس ذہنیت سے نفرت تھی، کچھ لوگ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں، حالانکہ میں اس لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا، میری تو خیر سوچیں ہی مختلف ہوتی تھیں اور حیران کن بات یہ تھی کہ عام زندگی میں بھی مجھے ایسے ہی واقعات کا سامناکرنا پڑتا تھا جو عام واقعات نہیں ہوتے تھے۔ اس کے الفاظ میرے ذہن میں گونجنے لگے۔ ’’لونا چماری، خون کا غسل۔‘‘ یہ ساری باتیں بے مقصد نہیں تھیں، اسے قید رکھا گیا تھا، یقینی طور پر اس نے کوئی ایسا منظر دیکھا ہو گا جس کی بناء پر اس کے ذہن میں یہ تاثر پیدا ہوا۔ نہ جانے کس کی اولاد تھی، نہ جانے کون تھی۔ بے چینی سے کروٹیں بدلتا رہا اور بالآخر نیند آ گئی۔ دوسری صبح خوب دیر تک سویا تھا۔ جاگا تو نوشاد نظر نہیں آیا۔ کھڑکی پر نگاہ پڑی۔ املی کے درختوں کو دیکھا۔ رات کا منظر نگاہوں میں اجاگر ہو گیا۔ ہڑبڑا کر اٹھا اور کھڑکی کے قریب پہنچ گیا۔ زمین کھڑکی سے زیادہ نیچے نہیں تھی۔ لڑکی کا خیال مسلسل دل میں آ رہا تھا کہ کہیں خوفزدہ ہو کر وہ دوبارہ کسی املی کے درخت پر تو نہیں جا بیٹھی۔ جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ میں نیچے اتر کر املی کے اس درخت کے پاس پہنچ گیا جس سے میں نے اسے اترتے ہوئے دیکھا تھا۔ کچی زمین پر قدموں کے نشانات بنے ہوئے تھے۔ وہ ننگے پائوں ہی تھی اور اس کے پیروں کے نشانات صاف نظر آ رہے تھے۔ اگر وہ کوئی دھوکا ہوتی، کوئی بری روح ہوتی تو قدموں کے یہ نشانات یہاں نہ ملتے۔ میں ان نشانات کی کھوج کرنے لگا۔ نشانات درخت سے کھڑکی تک آئے تھے اور اس کے بعد جب وہ واپس کھڑکی سے کودی تھی تو وہ زیادہ گہرے تھے۔ میں ان کا جائزہ لیتا ہوا آگے بڑھتا رہا، لیکن پھر تھوڑے ہی فاصلے پر جا کر وہ نشانات گم ہو گئے تھے، کیونکہ زمین سخت تھی اور اگر تھوڑے بہت نشانات اس پر بنے بھی ہوں گے تو ہوا نے انہیں مٹا دیا تھا۔ املی کے بہت سے درخت یہاں موجود تھے جن کی شاخیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں۔ میں بھرپور نگاہوں سے ان شاخوں کے درمیان جھانکنے لگا۔ ایک ایک درخت کے نیچے پہنچا۔ آوازیں بھی دیتا رہا پھر ایک لمبا چکر کاٹ کر واپس آیا۔ مجھے اس سلسلے میں مکمل طور پر مایوسی ہی ہوئی تھی۔ ابھی واپس کھڑکی کے نزدیک نہیں پہنچا تھا کہ نوشاد کی آواز سنائی دی۔
’’لو تم بھی وہی کر رہے ہو جو میں دو گھنٹے تک کر چکا ہوں۔ نہیں بھائی اب وہ املی کے کسی درخت پر نہیں ہے، اس عمارت سے بھاگ چکی ہے۔‘‘
میں نے کسی قدر شرمندہ سے انداز میں نوشاد کی صورت دیکھی اور گردن جھٹک کر بولا۔ ’’بہرطور میں اس کے لئے غمزدہ ہوں۔‘‘
’’غمزدہ تو ہم بھی ہیں پیارے بھائی مگر اب کیا کیا جائے۔ آئو اندر آئو۔ ناشتہ ٹھنڈا ہو چکا ہے بالکل۔ میں نے بھی اخلاقاً تمہاری وجہ سے ناشتہ نہیں کیا۔ بہت دیر سے ناشتہ رکھا ہوا ہے۔‘‘ کھڑکی ہی کے راستے ہم دونوں اندر آئے تھے اور پھر نوشاد نے ناشتے کی ٹرے اٹھا کر آگے رکھ لی تھی، چائے وغیرہ بھی موجود تھی جو اب اتنی گرم نہیں رہی تھی لیکن ہم نے وہ ٹھنڈی چائے ہی پی لی۔ میں نے چونک کر بھگوتی پرشاد کے بارے میں پوچھا تو نوشاد نے بتایا کہ وہ محل جا چکا ہے اور ساری باتیں کر کے ہی واپس آئے گا۔
’’بھٹنڈا کیسی جگہ ہے۔‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’بس بہت بڑا شہر نہیں ہے پھر بھی اچھی خاصی آبادی ہے۔ ذرا ان معاملات سے نمٹ لیں، ایک دو دن گھومیں گے۔ رانی مہاوتی سے ملاقات کے بعد ہی فرصت ہو سکے گی۔‘‘
’’جادو ٹونوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے نوشاد صاحب؟‘‘
’’بھیا کبھی واسطہ نہیں پڑا، حالانکہ لوگ طرح طرح کی کہانیاں سناتے ہیں، کوئی ان حسین چڑیلوں کی داستانیں سناتا ہے جو راہ گیروں پر عاشق ہو جاتی ہیں اور راہ گیروں کے عیش ہو جاتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ بارہا ویرانوں میں ان چڑیلوں کی تلاش میں نکلے لیکن اتنے بدقسمت ہیں کہ وہ بھی ہمیں دیکھ کر بھاگ جاتی ہیں۔ کیوں تم نے یہ سوال کیوں کیا، کیا رات کی لڑکی پر کوئی شک کر رہے ہو…؟‘‘
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں، ویسے وہ املی کے درخت سے اتری تھی…‘‘
’’کیا؟‘‘ نوشاد نے چونک کر پوچھا۔
’’ہاں۔ رات کو پوری کہانی میں تمہیں نہ سنا سکا۔ آنکھ کھل گئی میری، پلنگ پر پائوں لٹکائے بیٹھا تھا کہ میں نے اسے املی کے درخت سے اترتے ہوئے دیکھا اور اس کے بعد وہ کھڑکی سے اندر آ گئی۔‘‘
’’ڈرا رہے ہو؟‘‘ نوشاد نے خوفزدہ سی ہنسی کے ساتھ کہا اور مجھے بھی ہنسی آ گئی۔ ’’نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘
’’اماں قسم کھائو کیا وہ چڑیل تھی۔‘‘ نوشاد نے پُرخوف لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں نوشاد صاحب، چڑیل تو بالکل نہیں تھی وہ۔‘‘
’’ہاں ہو تو نہیں سکتی۔ مم مگر ہمیں چڑیلوں کا تجربہ بھی تو نہیں ہے۔ ابے نکلو یار یہاں سے۔ تم نے واقعی دہشت زدہ کر دیا۔ ویسے بھی یہ گھر بھوت گھر معلوم ہوتا ہے۔ ٹوٹا پھوٹا۔ اے لاحول ولا قوۃ۔ کس خوف کا شکار کر دیا۔ آئو باہر بیٹھیں۔‘‘ مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے کہا۔ ’’اور اگر بھوت یہ سازوسامان اٹھا کر لے گئے تو مصیبت نہیں ہو جائے گی؟‘‘
’’بھئی میں سچ بتا رہا ہوں اب مجھے اس ویران جگہ سے ڈر لگنے لگا ہے اور مجھے مزید خوفزدہ نہ کرو تم۔‘‘
’’اور اگر وہ رات کو ہمارے کمرے میں رہ جاتی تو…‘‘
’’تو مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ بھوتنی ہے کم بخت، سنا ہے بھوتنیاں اور چڑیلیں ایسے ہی درختوں پر بسیرا کرتی ہیں۔ ارے باپ رے۔ میں تو تم سے پہلے اسے املی کے درختوں پر تلاش کرتا پھرا ہوں یہ سوچ کر کہ کہیں وہ کسی شاخ پر سو نہ رہی ہو، پتہ نہیں کس سے خوفزدہ تھی۔ کوئی بات ہی نہیں ہوئی تم سے…‘‘
’’کوئی خاص بات نہیں، بھوکی تھی بے چاری۔ میں نے باتیں کرنے کی کوشش کی تو جھلا گئی۔ کہنے لگی میں بھوکی ہوں اور مجھ سے بولا نہیں جا رہا اور تم سوال ہی سوال کئے جا رہے ہو۔‘‘
’’تو پھر چڑیل نہیں ہو گی استاد وہ۔ بھلا ان بھوت پریتوں کو کھانے پینے سے کیا دلچسپی اور اگر ہو بھی تو ان کے لئے کیا مشکل، جہاں سے جو دل چاہے حاصل کر لیں۔ ارے باپ رے پتہ نہیں۔ کم بخت بھگوتی پرشاد کب واپس آئے گا۔ آئو کم از کم دروازے پر تو بیٹھتے ہیں۔‘‘ نوشاد واقعی خوفزدہ نظر آ رہا تھا۔ میں صرف اس کی وجہ سے باہر نکل آیا، ورنہ بھلا اس قسم کی باتوں میں خوف سے کیا تعلق۔ بھگوتی پرشاد بھی ساڑھے بارہ بجے کے قریب آیا تھا اور کھانے پینے کا انتظام کر کے لایا تھا۔
’’جیتے رہو میرے لال، جیتے رہو۔ کم از کم کام کی باتیں کر کے آتے ہو۔ چلو یہ کھانے کا بنڈل مجھے دے دو، ہمارے لئے لائے ہو نا…؟‘‘
’اچھا۔ اچھا ابھی سے کھا بھی لیا؟‘‘ نوشاد نے کہا۔
’’دیوان کالی داس نے مجبور کر دیا تھا اور کہا تھا کہ کھانا کھا کر جائو۔‘‘
’’اچھا ملاقات ہو گئی ان لوگوں سے؟‘‘
’’ہاں دیوان کالی داس ہی سے ملاقات ہو گئی۔ ساڑھے چار بجے ہمیں محل پہنچ جانا ہے مع سامان، پھر دیوان کالی داس کی نگرانی میں یہ ساڑھیاں سجانی ہوں گی پھر رانی مہاوتی ساڑھے چھ بجے ان کا جائزہ لیں گی اور اپنی پسند کا اظہار کریں گی۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کام آج ہی ہو جائے گا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’بھئی بھگوتی پرشاد۔ اس گھر کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں ہے ہمارے ٹھہرنے کے لئے… اگر بعد میں بھی اس گھر میں ٹھہرنا پڑا تو کم از کم میں تو نہیں رکنے کا، واپس چلا جائوں گا۔‘‘
’’کیوں اس گھر میں کیا ہو گیا۔‘‘ بھگوتی پرشاد نے نوشاد کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
’’بیٹا رات کو ہمارے کمرے میں سوتا تو پتہ چلتا کہ اس گھر میں کیا ہو گیا۔ چڑیلیں گھس آتی ہیں املی کے درختوں سے نیچے اتر کر۔‘‘ نوشاد نے کہا۔
’’نانو شاد جی مہاراج ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہم بہت سی بار یہاں اکیلے سو چکے ہیں تم تو دو ہو۔‘‘
’’تو خود بھی کسی بھوت سے کم نہیں ہے۔ خیر دیکھا جائے گا ہم تو ویسے بھی چڑیلوں سے خاصی انسیت رکھتے ہیں۔‘‘ نوشاد نے مجھے دیکھ کر آنکھ ماری لیکن میں نے اس کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں لی تھی۔ اس لڑکی کی بے بسی کا احساس اس وقت بھی میرے دل میں موجود تھا۔ بے چاری کھانا بھی نہیں کھا سکی تھی اور اسے خوفزدہ ہو کر بھاگنا پڑا تھا۔ نہ جانے کیا قصہ تھا اس کا۔ ساڑھے چار بجے سب لوگ تیار ہو گئے، سامان بڑی خوبصورتی سے پیک کیا گیا اور ہم اسے لئے ہوئے محل چل پڑے۔
زمانۂ قدیم میں محلوں کا کیا تصور ہوتا ہوگا، وہ ایک الگ بات تھی، مگر میں نے محل وغیرہ کم ہی دیکھے تھے۔ یہ محل بھی، بس محل کیا تھا البتہ اسے ایک حویلی کہا جا سکتا تھا، وہی پرانی طرز کی تعمیر کی ہوئی، بہت خوبصورت اور صاف ستھری، ذرا ملازمین وغیرہ بھی زیادہ تھے۔ ویسے یہ سچ تھا کہ ریاستیں بے شک ختم ہو گئی تھیں لیکن ان کی باقیات آج بھی اسی شان و شوکت کی حامل تھی۔ حویلی میں ملازموں کی جیسے پوری فوج موجود تھی۔ چاروں طرف سے نکل رہے تھے۔ ہمیں فوراً ہی خوش آمدید کہا گیا۔ ملازمین نے ہمارا سامان اٹھایا اور اس کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت ہال میں پہنچا دیا گیا۔ گہرے سرخ رنگ کا قالین بچھا ہوا تھا، دیواروں پر بہت ہی خوبصورت تصاویر آویزاں تھیں، سنگی مجسمے سجے ہوئے تھے، قدآدم تصویریں یقینی طور پر اس خاندان کے پرانے بزرگوں کی تھیں۔ میں نے گہری نگاہوں سے اس پہلے محل کا جائزہ لیا جو میں نے دیکھا تھا لیکن نوشاد کے اشارے پر ہم لوگ جلدی جلدی اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ دیوان کالی داس جی ابھی ہمارے پاس نہیں آئے تھے۔ لیکن اس وقت جب ہم ساڑھیوں کو بڑے خوبصورت انداز میں سجا رہے تھے، دروازہ کھلا اور دیوان جی اندر آ گئے۔ نوشاد نے انہیں گردن خم کر کے تعظیم دی تھی۔ میں اپنے کام میں مصروف رہا۔ بھگوتی پرشاد میرا ساتھ دے رہا تھا۔ نوشاد کہنے لگا۔ ’’حضور ہم آپ کے حکم کے مطابق وقت پر پہنچ گئے ہیں۔‘‘
’’میں نے رانی صاحبہ سے بات کر لی ہے، وہ بس شام کو ساڑھے چھ بجے یہاں پہنچ جائیں گی۔‘‘
میں نے اس آواز کو سن کر گردن گھمائی اور اتفاق سے اس وقت کالی داس نے بھی میری طرف دیکھا۔ کالی داس ہی تھا، بالکل کالی رنگت، اتنا کالا کہ شاید اندھیرے میں نظر بھی نہ آئے، بڑی بڑی مونچھیں جو اس کے رخساروں سے بھی نکلی ہوئی تھیں، بہت خاص قسم کا لباس پہنے ہوئے، آنکھیں گہرے سیاہ چہرے پر بالکل سفید سفید نظر آ رہی تھیں لیکن چہرہ پر رعب۔ اس نے مجھے دیکھا اور دفعتاً ہی میں نے اس کے چہرے پر ایک تغیر محسوس کیا۔ اس کی تیز آنکھیں میرا جائزہ لینے لگیں۔ بس ایک نگاہ دیکھنے کے بعد میں پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا لیکن دماغ میں ایک خلش سی پیدا ہو گئی۔ اس کے چہرے پر چونکنے کا سا انداز تھا، نہ جانے کیوں نہ جانے کیوں… لیکن اس نے کچھ کہا نہیں بلکہ خاموشی سے ہمیں کام کرتے دیکھتا رہا۔ نوشاد سے اس کی مسلسل باتیں ہو رہی تھیں۔
’’مہاراج آپ بھی ایک نظر ڈال لیں اور ذرا ہمیں بتائیں کہ ہم نے جو محنت کی ہے وہ رانی صاحبہ کو پسند آئے گی یا نہیں…؟‘‘
’’یہ میرا کام نہیں ہے، تم اپنا کام کرو خاموشی سے۔‘‘ دیوان کالی داس کی آواز بھی بڑی بھرپور تھی۔ میں نے اپنے کام سے فراغت حاصل کر کے ایک بار پھر دیوان کالی داس کو دیکھا اور مجھے پھر اسی کیفیت کا احساس ہوا۔ اس کی آنکھوں میں شک کے سے تاثرات تھے، ویسے کالا رنگ ہونے کے باوجود اسے بھیانک شکل کا مالک نہیں کہا جا سکتا تھا، لیکن نہ جانے وہ مجھے کچھ عجیب سا لگا تھا۔ جب ہم نے اپنا کام کر لیا تو کالی داس کہنے لگے۔ ’’اب تم باہر جا کر آرام سے بیٹھو یا ابھی کچھ کام باقی ہے؟‘‘
’’آپ کا جو حکم مہاراج، جیسا آپ کہیں ویسا کریں گے۔‘‘ نوشاد نے کہا۔
’’تو پھر آئو باہر آ جائو، میں یہاں تالا لگوائے دیتا ہوں۔ تم بیٹھو، کھائو پیو اور اس کے بعد ٹھیک ساڑھے چھ بجے رانی مہاوتی جی یہاں پہنچ جائیں گی۔‘‘
ہمارا کام ختم ہو گیا تھا۔ چنانچہ ہم تینوں باہر نکل آئے۔ دیوان کالی داس نے ملازمین کو حکم دیا کہ ہمیں آرام سے بٹھایا جائے اور ہماری خاطر مدارات کی جائے۔ جس کمرے میں یہ سامان سجایا گیا تھا وہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک جگہ ہم بیٹھ گئے اور ملازمین نے ہمارے سامنے پھل وغیرہ لا کر رکھ دیئے۔ نوشاد نے کہا۔ ’’کہو لطف آ رہا ہے یا نہیں؟‘‘ میں نے چونک کر نوشاد کو دیکھا اور پھر آہستہ سے کہا۔ ’’یہ دیوان کالی داس تھا…؟‘‘
’’صورت سے نہیں لگتا تھا۔‘‘ نوشاد نے کہا اور ہنس پڑا۔ بھگوتی پرشاد بولا۔ ’’نہیں مہاراج ایسی باتیں نہ کہیں اگر کسی کے کانوں تک پہنچ گئیں تو شامت آ جائے گی ہماری۔ بے شک اب ریاستیں نہیں رہیں لیکن ان لوگوں کی شان و شوکت وہی ہے، ذرا سی دیر میں گردنیں اتروا دیا کرتے ہیں۔‘‘
’’تو میں نے کیا کہہ دیا بھگوتی پرشاد، مہاراج ایک بات ہی تو کہی ہے، ویسے یہ سمجھ لو مسعود کہ کالی داس جی کا نام ان کی پیدائش کے بعد ہی کالی داس رکھا گیا ہو گا۔ ظاہر ہے نام تو پیدائش کے بعد ہی رکھے جاتے ہیں، لیکن سوچنے والوں کو ذرا بھی دقت پیش نہیں آئی ہو گی۔ ان کی شکل دیکھی اور فوراً ہی کالی دیوی کا تصور ذہن میں آ گیا۔ سو کالی داس مہاراج کالی داس بن گئے۔‘‘
’’تمہاری مرضی ہے جو دل چاہے کہے جائو، اپنی بات کے ذمہ دار خود ہو گے۔‘‘ بھگوتی پرشاد پھر بولا۔
’’ابے تو یہاں کون سن رہا ہے، تیری تو جان ہی نکلی جا رہی ہے۔‘‘ نوشاد نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر ایک بڑا سا خوبصورت سیب اٹھا کر اسے دانتوں سے کترنے لگا۔
میں کچھ بے چین سا تھا، کیا بات ہے۔ آخر کیا بات ہو سکتی ہے۔ کالی داس کا انداز چونکا ہوا کیوں تھا۔ وہ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہا تھا جیسے اسے میری ذات پر کوئی شک ہو۔ مگر نوشاد سے اس بارے میں کیا کہنا ویسے بھی وہ غیر سنجیدہ اور لاابالی سا آدمی تھا۔ رانی مہاوتی کو ساڑھے چھ بجے ہی آنا تھا مگر وہ پونے چھ بجے آ گئیں اور ملازم ہمارے پاس دوڑتے ہوئے آئے تھے اور انہوں نے کہا۔ ’’ہوشیار ہو جائو، رانی جی آ رہی ہیں۔‘‘
کئی افراد تھے، ان کے بیچ رانی مہاوتی آ رہی تھی۔ میں بھی، نوشاد اور بھگوتی پرشاد کے ساتھ کھڑا ہو کر اس شان و شوکت کو دیکھنے لگا۔ کچھ خادمائیں، کچھ خادم ساتھ میں کالی داس بھی تھا جو الگ ہی نظر آ رہا تھا۔ مہاوتی دراز قامت اور نہایت خوبصورت عورت تھی۔ سرخ و سفید سیب جیسی رنگت، بال گھٹائوں جیسے اتنے کہ یقین نہ آئے۔ چہرے پر ایک انوکھا بانکپن اور آنکھوں میں بجلیاں سی کوندتی ہوئی۔ بڑے وقار سے ایک ایک قدم رکھتی ہوئی وہ آگے آئی اور میں نے محسوس کیا کہ کالی داس آہستہ سے کچھ بدبدا رہا ہے جس کے جواب میں رانی مہاوتی نے خصوصاً مجھے دیکھا۔ پھر اس کی نظریں میرے ہی چہرے پر گڑی رہی تھیں اور مجھے یوں لگا تھا جیسے کچھ انگلیاں میرے چہرے کو ٹٹول رہی ہوں۔ بے اختیار جی چاہا کہ چہرہ ٹٹول کر دیکھوں لیکن پھر خود کو سنبھال لیا۔ وہ بالکل قریب آ گئی اور میں نے اس سے نظریں ملائیں۔ اس نے بے اختیار دونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگا دیئے۔ اس کی پُر شوق نظریں مسلسل میرے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ کالی داس نے کہا۔ ’’دروازہ کھولو بھگوتی۔‘‘
’’جی مہاراج۔‘‘ بھگوتی پرشاد نے نوشاد کو دیکھا اور نوشاد نے دروازہ کھول دیا۔ رانی بھی جیسے سنبھل گئی۔ پھر پہلے وہ اور اس کے بعد ہم سب اندر داخل ہو گئے۔ رانی ہماری لائی ہوئی ساڑھیاں دیکھنے لگی۔ مگر اس کے انداز میں لاپروائی تھی۔ وہ بار بار میری طرف متوجہ ہو جاتی تھی۔ پھر اس نے کہا۔
’’تمام ساڑھیاں بہت اچھی ہیں، بڑی خوبصورت، ہمیں پسند آئیں۔ کالی داس؟‘‘
’’جی رانی جی۔‘‘ کالی داس دو قدم آگے بڑھ آیا۔
’’ہمیں تمام ساڑھیاں پسند آئی ہیں۔ ان سب کو سنبھال کر رکھوا دو اور تاجروں کو ان کی منہ مانگی قیمت ادا کر دو۔ تمہارا نام بھگوتی پرشاد ہے نا۔‘‘ رانی مہاوتی نے بھگوتی پرشاد کی جانب انگلی اٹھا کر کہا اور بھگوتی پرشاد دونوں ہاتھ جوڑ کر جھک گیا۔ ’’جی مہارانی جی۔‘‘
’’بھگوتی پرشاد یہ لوگ بہت اچھی ساڑھیاں بناتے ہیں۔ میں ان سے کچھ اور کام کرانا چاہتی ہوں اور اس کام کے ڈیزائن میں بنوا کر ان کے حوالے کرنے کی خواہش مند ہوں، تم لوگ ساڑھیوں کی قیمت اور اپنا انعام وصول کرو، ان میں سے ایک آدمی کو میرے پاس چھوڑ دو، وہ یہاں ہمارا مہمان رہے گا اور بعد میں ہمارا نیا حکم لے کر واپس پہنچے گا۔ اس آدمی کو یہاں چھوڑ دو، اس کے لئے یہیں قیام کا بندوبست کر دیا جائے گا۔‘‘ رانی مہاوتی نے میری جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ بھگوتی پرشاد ایک بار پھر ہاتھ جوڑ کر جھک گیا۔ ’’جو حکم مہارانی جی۔‘‘
مہاوتی فوراً ہی گھومی اور پلٹ کر دروازے سے باہر نکل گئی۔ اس کا حکم آخری حکم تھا اور اس میں کسی ردوقدح کی گنجائش نہیں تھی لیکن میں ساکت رہ گیا تھا۔ کالی داس نے ہم تینوں سے کہا۔
’’تم لوگ احتیاط کے ساتھ یہ ساڑھیاں پیک کروا دو اور تم میں سے ایک، بھگوتی پرشاد تم میرے ساتھ چلے آئو اور ان کی قیمتوں کی بات کر کے مجھ سے رقم وصول کر لو، آئو۔ تم دونوں براہ کرم یہ کام کر ڈالو۔‘‘ دیوان کالی داس جی بھی بھگوتی پرشاد کو لے کر باہر نکل گئے اور نوشاد نے آگے بڑھ کر مجھے گلے سے لگا لیا۔
’’یار یوں سمجھ لو تقدیر چمک گئی۔ حاجی صاحب تو اتنے خوش ہوں گے کہ تم اندازہ نہیں لگا سکتے مگر یہ کمینہ بھگوتی پرشاد ان ساڑھیوں کی قیمت کیا مانگے گا، یار کہیں یہ گڑبڑ نہ کر جائے۔‘‘
’’کیا اسے ان کی قیمتوں کا اندازہ نہیں ہے۔‘‘
’’خیر ایسی بات نہیں۔ آدمی تو وہ بہت سیانا ہے اور مجھ سے زیادہ کاروباری گُر جانتا ہے۔ بنیئے کی اولاد ہے اور تم سمجھتے ہو بنیئے کتنے تیز ہوتے ہیں لیکن کہیں بیچ میں ٹانکا نہ لگا جائے۔ چلو اسے بھی سنبھال لیں گے۔ ویسے اسے قیمتیں معلوم ہیں، وہ ہمارا مستقل ایجنٹ ہے، یہ بات تو رہی اپنی جگہ۔ یار ذرا یہ ساڑھیاں اٹھوائو، دیر کرنا مناسب نہ ہو گا۔‘‘ نوشاد میرے ساتھ ساڑھیاں اٹھوانے میں مصروف ہو گیا۔ پھر بولا۔ ’’ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ یہ سب کچھ تو جو ہے سو ہے مگر تم نے رانی صاحبہ کی نظروں میں کچھ محسوس کیا؟‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ساڑھیاں کم دیکھ رہی تھیں، تمہیں زیادہ دیکھ رہی تھیں۔‘‘ نوشاد آنکھ دبا کر بولا۔
’’بیکار باتیں ہیں۔‘‘ میں نے جھینپے ہوئے لہجے میں کہا اور نوشاد قہقہہ لگا کر ہنس پڑا پھر بولا۔’’نہیں بھائی یہ رانیاں، مہارانیاں ایسی ہی ہوتی ہیں، کسی کی تقدیر ساتھ دے جائے تو سمجھ لو کہ وارے نیارے ہو جاتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اب جب تم واپس بنارس آئو گے تو نہ جانے کیا بن کر آئو گے۔‘‘
’’نوشاد میں یہاں نہیں رکنا چاہتا۔‘‘
’’ارے باپ رے۔ کیسی خوفناک باتیں کر رہے ہو۔ بھلا رانی صاحبہ کا حکم اور اس کی تعمیل نہ ہو۔ انہوں نے پوچھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی کہ تم رکنا چاہتے ہو یا نہیں۔ اور پھر حماقت کی باتیں مت کرو، میں نے تو تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ راج محلوں کی کہانیاں ذرا مختلف ہوتی ہیں اور تقدیر بننے میں دیر نہیں لگتی۔ ہو سکتا ہے یہ میری غلط فہمی ہی ہو لیکن چانس لینے میں کیا حرج ہے۔‘‘
’’کیا یہ نہیں ہو سکتا نوشاد کہ تم یہاں رک جائو۔‘‘
’’آہ کاش! ایسا ہو سکتا مگر جسے پیا چاہے وہی سہاگن، ہمیں بھلا کون پوچھتا ہے۔ چلو ٹھیک ہے بہرطور تمہیں یہاں رہنا ہو گا بس ذرا احتیاط رکھنا، بس ان لوگوں کے دماغ پھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ دولت اچھے اچھوں کا ستیاناس کر دیتی ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اس دنیا کا باسی نہیں سمجھتے۔ بس تھوڑی سی احتیاط، رانی صاحبہ کے احکامات کی تعمیل اور پھر یار یہ تو خوش بختی ہے۔ کتنی حسین ہیں وہ، عمر کتنی ہی ہو لیکن کیا شان ہے، کیا انداز ہیں، چلو بھیا عیش کرو، ہماری طرف سے پیشگی مبارکباد۔‘‘
میں الجھا ہوا تھا ویسے تو مجھے کوئی ایسی خاص پریشانی نہیں تھی۔ رانی صاحبہ مجھے لقمۂ تر سمجھ کر نگل تو نہیں جائیں گی لیکن بس الجھن تھی۔ ایسی کیا بات پائی ہے انہوں نے مجھ میں اور بات اگر رانی صاحبہ ہی کی ہوتی تو چلو مان لیتا کہ نوشاد کا کہنا درست ہے لیکن اس سے پہلے مہاراج کالی داس نے بھی مجھے چونک کر ہی دیکھا تھا۔ کیوں، آخر کیوں؟
کام ختم ہو گیا۔ نوشاد اور بھگوتی پرشاد چلے گئے۔ کالی داس نے مجھے محل کے خادموں کے حوالے کر دیا۔ حویلی یا محل کے بغلی حصے میں بنے ہوئے مہمان خانے میں مجھے جگہ دے دی گئی تھی۔ ہر طرح کا خیال رکھا گیا، پھل، سبزیاں وغیرہ کھانے میں دی گئیں۔ میرے دماغ میں بہت سے خیالات تھے مگر بے سکونی نہیں تھی۔ وہم میں الجھ کر سکون برباد کرنے سے آج تک تو کچھ حاصل نہیں ہو سکا تھا اب میں نے ہر طرح کے حالات میں جینا سیکھ لیا تھا۔
رات خوشگوار گزری، دوسرا دن بھی گزر گیا، کوئی ایسی بات نہ ہوئی جو قابل ذکر ہوتی۔ شام کو کالی داس آیا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔ ’’تم حاجی فیاض الدین کے آدمی ہو نا؟‘‘
’’جی دیوان جی۔‘‘
’’رانی مہاوتی تمہیں کچھ ڈیزائن دینا چاہتی ہیں، بہت بڑا کام ہو گا، تمہیں اس کے لئے کئی دن رکنا پڑے گا۔ کوئی جلدی تو نہیں ہے تمہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’ارے جب سے آئے ہو اندر گھسے رہتے ہو، تم مہمان ہو قیدی نہیں۔ محل بہت بڑا ہے گھومو پھرو۔ اس جگہ رہنا پسند نہ ہو تو جہاں چاہو بندوبست کر دیا جائے۔‘‘
’’نہیں دیوان جی۔ یہاں ہر طرح کا آرام ہے۔‘‘
’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’مسعود۔‘‘
’’ایں…‘‘ کالی داس چونک پڑا۔
’’مسعود احمد۔‘‘ میں نے اسے دوبارہ نام بتایا۔ اس کے چہرے پر پھر شک کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ پھر وہ بولا۔
’’مسلمان ہو؟‘‘
’’جی بالکل۔‘‘
’’اچھا…‘‘ وہ حیرت سے بولا۔ مجھے دیکھتا رہا پھر ایک دم واپس پلٹ آیا۔ کچھ سوچ کر دروازے میں رکا۔ میری طرف دیکھا اور مسکرا کر بولا۔ ’’یہاں داسیاں باندیاں بھی بہت سی ہیں، کسی کو کسی سے ملنے پر پابندی نہیں۔ ہنسی خوشی سمے گزارو۔ تم مہاوتی کے مہمان ہو، کسی ایرے غیرے کے نہیں۔ میں تمہارے پاس سندری کو بھیجتا ہوں، تمہیں پسند آئے گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔
میں دروازے کو گھورتا رہ گیا۔ الٰہی کیا ماجرا ہے۔ اس دنیا میں رہنے والے کیا تمام لوگ میری ہی طرح پراسرار واقعات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ کیا سبھی کو زندگی میں قدم قدم پر ایسے انوکھے واقعات پیش آتے ہیں۔ کبھی سنا تو نہیں، یہاں تو طویل عرصہ سے ایسا ہی ہو رہا تھا۔
کچھ دیر کے بعد دروازے سے ایک سندری داخل ہوئی۔ سندری ہی تھی۔ بڑا جاذب نگاہ چہرہ تھا۔ اندر آ گئی اور مسکراتی نظروں سے مجھے دیکھ کر بولی۔ ’’میرا نام سندری ہے۔‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’کیسی ہوں؟‘‘ وہ شوخی سے بولی۔
’’جی…؟‘‘ میری گھبرائی ہوئی آواز ابھری۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’مسعود۔‘‘
’’سچ بتا دونا!‘‘ وہ ناز بھرے انداز میں بولی۔
’’تعجب ہے، تم میری بات کو جھوٹ کیوں سمجھ رہی ہو۔‘‘ میں نے کہا اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ پھر بولی۔
’’آئو باہر چلیں۔ باہر بڑی سندر ہوا چل رہی ہے۔ تمہیں پھول پسند ہیں؟‘‘
’’پھول کسے پسند نہیں ہوتے۔‘‘
’’اور پھول وتی۔‘‘ وہ پھر اسی طرح کھلکھلا کر ہنسی اور آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔ ’’آئو میں تمہیں پھول کنڈ لے چلوں… آئو نا…!‘‘ میں نے آہستہ سے اس سے ہاتھ چھڑا لیا مگر اس کے ساتھ باہر نکل آیا۔ میرے اس طرح ہاتھ چھڑانے پر اس نے گہری نظروں سے مجھے دیکھا مگر کچھ بولی نہیں۔ میں اس کے ساتھ باہر آ گیا۔ وہ مجھے محل کے عقبی حصے میں لے آئی جہاں گھاس کا فرش بچھا ہوا تھا، ہر طرف ہریالی تھی، جگہ جگہ حوض، فوارے بنے ہوئے تھے، ان کے گرد سنگی مجسمے استادہ تھے۔ انتہائی حسین سنگی مجسمے جنہیں بڑی مہارت سے تراشا گیا تھا۔ یہ سب مختلف شکلیں رکھتے تھے۔ ویسے اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ان مجسموں نے باغ کا حسن بڑھا دیا تھا۔ محل کے عقبی حصے میں یہ علاقہ بے حد خوبصورت تھا۔ ابھی مدھم مدھم روشنی بکھری ہوئی تھی لیکن شام تیزی سے جھکتی چلی آ رہی تھی۔ ہوا چل رہی تھی اگر موسم اور ماحول کے لحاظ سے دیکھا جاتا تو یہ جگہ انتہائی حسین کہی جا سکتی تھی، عجیب و غریب خوشبوئیں چاروں طرف بکھری ہوئی تھیں، ایک موڑ مڑنے کے بعد میں نے جو منظر دیکھا وہ ناقابل یقین سا تھا۔ انسانی ہاتھوں کا کارنامہ تو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا، پھول جیسے دیواروں میں لگائے گئے تھے، کہیں بلند، کہیں پست، کہیں اونچے، کہیں نیچے۔ سب کے رنگ مختلف تھے اور پھول کے بیچوں بیچ مجسمے اس طرح آویزاں تھے جیسے کوئی پھولوں کے درمیان چلتے چلتے رک گیا ہو۔ ایک چوکور حوض اس طرف بنا ہوا تھا جس کے کنارے بیٹھنے کی جگہ بھی تھی۔ اسے مجسموں کا علاقہ کہا جاتا تو غلط نہ ہوتا۔ شوقین لوگ ایسے سنگی مجسمے آویزاں کرتے ہیں لیکن اتنی تعداد میں نہیں۔ بہرحال عام لوگ راجہ اور رانی بھی تو نہیں ہوتے۔
سندری مجھے لئے ہوئے اس سمت آ گئی۔ حوض کے پاس رک کر اس نے مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور بولی۔ ’’یہ ہے ہمارا پھول کنڈ…‘‘
’’بہت خوبصورت جگہ ہے۔‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔
’’راجہ چندر بھان جی پھولوں کے رسیا ہیں، بس یوں سمجھ لیں کہ انہوں نے اس حصے کو پھولوں سے آراستہ کرنے کے لئے اتنی دولت خرچ کی ہے کہ اس سے ایک گائوں بسایا جا سکتا تھا۔‘‘
’’راجہ چندر بھان جی؟‘‘ میں نے سوالیہ نگاہوں سے سندری کو دیکھا۔
’’مالک ہیں ہمارے، اس محل کے مالک ہیں۔ رانی مہاوتی جی انہی کی تو دھرم پتنی ہیں۔ یہ میں اس لئے بتا رہی ہوں کہ تم بنارس سے آئے ہو، جانتے نہ ہو گے بھٹنڈا کے بارے میں۔‘‘
’’ہاں ایسی ہی بات ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’بیٹھو… بیٹھ جائو نا۔ تم مجھے کچھ عجیب سے لگ رہے ہو، گھبرائے گھبرائے سے۔ کیا مجھ سے پریشان ہو؟‘‘
’’نہیں… نہیں۔‘‘ میں نے نرم لہجے میں کہا۔
’’میں نے ہاتھ پکڑا تھا تمہارا، تم نے ایسے چھڑا لیا جیسے، جیسے…‘‘ وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر خاموش ہو گئی۔
’’راجہ چندر بھان جی کو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’لو آئے ہوئے سمے ہی کتنا بیتا ہے تمہیں۔ ویسے بھی وہ بیمار ہیں۔‘‘
’’او اچھا۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی۔ پھر بولی۔ ’’بہت کم بولتے ہو تم۔ ویسے کیا تم سچ مچ مسلمان ہو؟‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں میرا مطلب ہے، میں نے مسلمان نہیں دیکھے۔ شروع ہی سے یہاں پلی بڑھی ہوں۔ اسی محل میں پیدا ہوئی، اسی میں پروان چڑھی اور یہیں رہتی ہوں۔‘‘
’’مسلمانوں کے سینگ نہیں ہوتے، جیسے تم لوگ ہوتے ہو، ویسے ہی ہم۔‘‘
’’ہاں اب تو یہی اندازہ ہوتا ہے مجھے۔‘‘ وہ بات بات پر ہنسنے کی عادی تھی۔ پھر بولی۔ ’’اچھا اب یہ بتائو کیا پیو گے؟‘‘
’’کچھ نہیں…‘‘
’’واہ ایسا خوبصورت موسم، چاروں طرف بکھرے ہوئے پھول، میں دارو منگواتی ہوں تمہارے لئے…؟‘‘
’’سنو، سنو رک جائو، ایسی کوئی شے ہم مسلمان نہیں پیتے۔ یقینی طور پر اس محل میں رہ کر تمہیں یہ بات بھی معلوم نہیں ہوئی ہوگی۔‘‘
’’تو پھر میں کیا کروں تمہارا۔ ادھر دیوان کالی داس جی ہیں جو کہتے ہیں کہ مہمان کو کوئی تکلیف نہ ہو، اس کا دل بہلائو، اس سے باتیں کرو، وہ جو چاہے اس کی ہر سیوا کرو اور تم ہو کہ ٹھیک سے بول بھی نہیں رہے مجھ سے۔‘‘ اس نے ادا سے منہ بنایا اور میں نے گردن جھٹکتے ہوئے کہا۔
’’نہیں سندری جی ایسی کوئی بات نہیں ہے، بس یہ جگہ بہت پیاری ہے، مجھے بڑی پسند آئی اور کیا باتیں کروں آپ سے۔‘‘ وہ کچھ سوچنے لگی۔ پھر بولی۔
’’اچھا رکو، میں ابھی آتی ہوں۔ گھبرائو گے تو نہیں۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’جانا بھی نہیں یہاں سے، میں یہ گئی اور وہ آئی۔‘‘ وہ پھر ہنسی اور پھر آگے بڑھ گئی۔ میں اسے جاتے دیکھتا رہا۔ جب وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئی تو میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ رات کی دھندلاہٹیں پھیل گئی تھیں۔ پھولوں کے رنگ ماند پڑتے جا رہے تھے۔ بڑا طلسمی ماحول تھا۔ ہر طرف ایک پراسرار اداسی فضا پر چھائی ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کچھ ہونے والا ہے، اچانک ہی کچھ ہو جائے گا۔ پھولوں کا سکوت، ان کے درمیان خاموش کھڑے مجسمے۔ سب کسی انہونی بات کے منتظر تھے یا پھر اس ماحول نے یہ احساس میرے دل میں پیدا کر دیا تھا۔ کچھ عجیب سے حالات تھے۔ وہ لڑکی یاد آئی جو املی کے درخت سے اتری تھی اور میرے دل پر ایک عجیب سا نقش چھوڑ گئی تھی۔ رجناوتی تھا اس کا نام۔ باتیں بڑی عجیب تھی اس کی۔ ہو سکتا ہے پاگل ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے اس انداز میں نہیں سوچا تھا۔ اچانک اچھل پڑا۔ ’’شی‘‘ کی ایک آواز سنائی دی۔ بالکل ایسی آواز جیسے کوئی کسی کو مخاطب کرتا ہے۔ آواز صاف سنی تھی، وہم نہیں تھا۔ دوسری بار وہ آواز دو مرتبہ سنائی دی۔ ’’شی۔ شی…‘‘ میں اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ یقینا کوئی رازداری سے مجھے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا مگر کون۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا مگر خاموشی، پھولوں اور پتھریلے مجسموں کے سوا اور کوئی نظر نہیں آیا۔
اچانک کچھ فاصلے پر روشنی ابھری اور میرے حلق سے آواز نکل گئی۔ اس روشنی میں، میں نے دو انسانی سائے دیکھے تھے۔ میں نے ان پر نظریں جما دیں۔ وہ روشنی کے پاس سے ہٹ گئے اور کچھ دیر کے بعد مجھے ان سایوں کا راز معلوم ہو گیا۔ محل کے ملازم تھے جو جگہ جگہ لوہے کے پول میں لگے ہوئے کاربائیڈ کے شیشے والے لیمپ روشن کرتے پھر رہے تھے۔ یہ لیمپ رنگین شیشوں والے تھے اور ان کے روشن ہونے سے اس جگہ کا حسن بڑھنے لگا تھا۔ ملازم اپنا یہ کام کرتے ہوئے میرے قریب سے گزرے۔ انہوں نے رک کر مجھے دیکھا پھر معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو اور پھر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ خدایا… خدایا یہ سب کیا ہے۔ یہ محل، یہ حویلی کوئی حقیقت ہے یا ویسا ہی کوئی طلسم جیسا میں نے رمارانی کے سلسلے میں دیکھا تھا۔ وہاں بھی تو ایک دنیا آباد تھی۔ سب کچھ تھا۔ مکمل زندگی تھی لیکن پورنی کی ہلاکت کے بعد وہاں جھاڑو پھر گئی۔ سب کچھ طلسم ثابت ہوا۔ دھوکا ثابت ہوا۔ اصل لوگ اپنی جگہ تھے مگر یہاں ذرا مشکل ہے۔ نوشاد حقیقت تھا، بھگوتی پرشاد جی حقیقت تھے۔ اس بار میں تنہا نہیں تھا… پھر… پھر…!
رات کی تاریکیوں نے اس ماحول کو نگلنا چاہا مگر ان روشنیوں نے رات کا منصوبہ ناکام بنا دیا بلکہ رنگین شیشوں نے اس ماحول کو اور خواب ناک بنا دیا تھا اور اب ہر چیز کو صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ ’’شی شی‘‘ کی آواز دوبارہ ابھری اور میرے اعصاب تن گئے پھر ایک سرگوشی ابھری۔
’’ادھر… اس طرف… اس طرف…! بائیں سمت…!‘‘ میں بے اختیار بائیں سمت گھوم گیا۔ میری بائیں سمت پھولوں کے درمیان سنگ مرمر کا ایک بے جان مجسمہ ایستادہ تھا۔ پتھریلا اور ساکت۔
’’ہاں ٹھیک ہے۔ میرے پاس آ جائو… سنو جلدی کرو ورنہ سندری آ جائے گی۔‘‘ آواز مجسمے سے ہی ابھری تھی۔
لاکھ خود کو سنبھالا، ہمت کرنے کی کوشش کی لیکن پورے بدن میں تھرتھری سی دوڑ گئی۔ میں دہشت بھری نظروں سے اس مجسمے کو دیکھنے لگا۔ اس کے پتھریلا ہونے میں کوئی شک نہیں تھا مگر وہ بول رہا تھا۔
بھٹنڈہ میں داخل ہوتے ہی جن واقعات سے سابقہ پڑا تھا، وہ احساس دلاتے تھے کہ یہاں بھی سنسنی خیز واقعات نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا ہے۔ آہ! کیسی آرزو تھی دل میں، کیسا جی چاہتا تھا کہ کچھ وقت ایسا گزر جائے جس میں کچھ نہ ہو۔ جیسے دوسرے لوگ زندگی گزارتے ہیں، ویسے ہی میں بھی گزاروں۔ سادہ سادہ عام لوگوں جیسی زندگی…! لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا، ہر طرح کی کوشش کرلی تھی۔ ملازمت اس لئے کررہا تھا کہ محنت کی روٹی ملے۔ کبھی کسی کے در پر جا پڑتا تھا، کبھی کسی کے! پیٹ بھر جاتا تھا مگر دوسروں کے رحم و کرم کی وجہ سے…! ان دنوں جی کچھ خوش تھا مگر تقدیر کو یہ گوارہ نہیں تھا۔ پھر کسی جال میں آپھنسا تھا۔ نہ جانے اب کیا ہوگا۔ عام آدمی مجسمے کی آواز پر اس کے پاس جانے کا تصور بھی نہ کرتا بلکہ خوف سے ہوش ہوجاتا مگر میں…! آہستہ قدم اٹھاتا ہوا اس کے قریب پہنچ گیا۔ نوجوان آدمی کا بت تھا، پتھریلا بے جان! پھر اس کے ہونٹوں سے آواز ابھری۔
’’بھاگ جائو یہاں سے! بھاگ جائو! یہ کال نگر ہے، کایا جال پڑ گیا ہے تم پر…! ایک بار جال اوڑھ لیا تو پھر کبھی نہ جاسکو گے۔ بھاگ جائو یہاں سے، بھاگ جائو!‘‘
’’تم کون ہو…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بھاگ جائو! جلدی بھاگ جائو۔ دیکھو وہ آگئی۔‘‘ مجسمہ خاموش ہوگیا۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا۔ سندری آرہی تھی۔ اس کے ساتھ کچھ اور لڑکیاں بھی تھیں۔ چھ، سات لڑکیاں تھیں۔ مجسمہ خاموش ہوگیا تھا۔
’’تم کون ہو…؟ مجھے بتائو، وہ ابھی دور ہیں۔‘‘ میں نے سوال کیا مگر مجسمے کی آواز دوبارہ نہ سنائی دی۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اب نہ بولے گا۔
سندری قریب آگئی۔ دوسری لڑکیاں کچھ فاصلے پر رک گئیں۔ وہ بہت خوبصورت جھلملاتے لباس پہنے ہوئے تھیں۔ ان کے پیروں میں بجنے والے زیور تھے اور ہاتھوں میں پھلوں اور میووں کے تھال! میں انہیں دیکھتا رہا۔ انہوں نے پھولوں کے درمیان گھاس کے فرش پر چاندنی بچھا دی، تھال سجا دیئے۔ سندری بولی۔
’’آئو بیٹھو! کیسی لگی یہ جگہ…؟ کیا یہ سنسار کا سورگ نہیں ہے؟ تم نے کہیں ایسا دیکھا؟‘‘
’’یہ مجسمے کس نے بنائے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’سنگ تراش نے! جس طرح چندر بھان مہاراج نے یہاں پھول لگوائے ہیں، اسی طرح مجسمہ سازوں نے یہاں یہ بت تراشے ہیں۔ کیسے لگے تمہیں…؟‘‘ سندری نے پوچھا۔
’’بالکل جیتے جاگتے!‘‘ میں نے کہا اور وہ پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اپنی مخصوص ہنسی جو ذہن کو گرفت میں لیتی تھی۔ کم بخت بڑے پراسرار طریقے سے ہنسنا جانتی تھی۔ انسان کے ذہن پر نغمگی کی ایک لہر سی دوڑتی محسوس ہوتی تھی اور ذہن اس کی گرفت میں جانے کے لئے بے چین ہوجاتا تھا۔ ہنس کر بولی۔ ’’اصلی ہی تو ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’بس! پتھر کے بت بنانے والوں نے انہیں اصلی جیسا ہی بنایا ہے۔ آئو بیٹھو، ہوا میں پھیلی خوشبو لگ رہی ہے تمہیں… آئو نا!‘‘ اس نے ناز سے میرا ہاتھ پکڑا اور میں نے اس سے بڑی آہستگی سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ آگے بڑھا اور چاندنی پر جا بیٹھا۔ سامنے رکھے ہوئے میووں کے تھال میں سونے کے گلاس اور سونے ہی کی صراحی رکھی ہوئی تھی۔ اس نے میرے سامنے دوزانو بیٹھ کر ان گلاسوں میں کوئی رنگین مشروب انڈیلا اور مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگی۔ وہ لڑکیاں جو اس کے ساتھ آئی تھیں، قطار بنا کر بیٹھ گئیں۔ ان میں سے کسی کے ہاتھ میں بربط تھا تو کسی کے ہاتھ میں طنبورہ…! ایک خوبصورت نغمے کی دھن چھیڑ دی گئی۔ ماحول ویسے ہی رنگینیوں سے رنگا ہوا تھا۔ خوشنما اور خوشبوئیں بکھیرتے ہوئے پھول، آسمان پر مدھم مدھم دھندلاہٹیں، ستاروں کی ٹمٹماہٹ، نیچے رنگین شیشوں سے ابلتی ہوئی روشنی کی شعاعیں جو مخصوص زاویوں سے ان لڑکیوں کو سحرانگیز بنا رہی تھیں۔ سامنے سندری اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، ایک انسان پر قدرتی طور پر سحر طاری کرنے کیلئے کافی تھیں لیکن صرف اس انسان پر جس کا واسطہ زندگی میں پہلی بار کسی سحر سے پڑا ہو، میں تو سحر زدہ تھا ہی ایسے ایسے وار ہوئے تھے مجھ پر کہ سنبھلنا ممکن نہیں تھا۔ پتا نہیں کون کون سی قوتیں ایک دوسرے سے برسرپیکار تھیں جو میں بال بال بچ جاتا تھا۔ یقینی طور پر ان قوتوں کا تعلق نہ میری قوت ارادی سے تھا، نہ میری ذہنی پاکیزگی سے! بس یوں لگتا تھا جیسے کوئی مجھے بچا لیتا ہو اور جب بھی یہ خیال دل میں آتا، بڑی ڈھارس ملتی، بڑا سہارا ملتا۔ نجانے کیا کیا کچھ یاد آجاتا۔ درشہوار ہی کا معاملہ تھا۔ اس سے پہلے کشنا کا معاملہ تھا۔ انسان ہی تھا ایک لمحہ بھٹک جانے کیلئے کافی ہوتا لیکن بچایا گیا تھا۔ مجھے بچایا گیا تھا اور اس وقت اس وقت بھی ماحول کا یہ سحر میرے حواس پر فطری طور پر نہیں چھایا تھا اور میں مسلسل خود کو سنبھالے ہوئے تھا۔ نغمے کی دھن آہستہ آہستہ تیز ہوتی گئی۔ سندری نے گلاس اٹھایا اور میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’یہ امرت جل ہے۔ میرے ہاتھ سے پی لو اور امر ہوجائو۔‘‘ میرے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’میں تمہیں بتا چکا ہوں سندری کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘
’’دین دھرم سارے کھیل کایا کے کھیل ہیں۔ انسان تو ہو، اس سمے، اس ماحول میں جب بھگوان نے تمہیں یہ سب کچھ دے دیا ہے تم دین دھرم کے جال میں الجھے ہوئے ہو۔ تھوڑی دیر کیلئے سب کچھ بھول جائو۔ یہ نغمہ سنو، اسے اپنے دل میں اتارو، امرت جل پیو اور امر ہوجائو… میں تمہاری ہوں۔‘‘ اس نے جھک کر اپنی پیشانی میری پیشانی سے ٹکرائی اور گلاس میرے ہونٹوں کے نزدیک لانے کی کوشش کی۔ میں نے آہستہ سے اس کے گلاس پر ہاتھ رکھتے ہیوئے کہا۔
’’نہیں سندری! تمہاری بدقسمتی ہے یا میری کہ میں اپنے دین کو نہیں بھول سکتا اور میرے دین میں یہ سب کچھ جائز نہیں ہے۔‘‘ وہ ایک دم پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر ادھر ادھر دیکھتی ہوئی بولی۔ ’’تو میں کیا کروں، مجھے بتائو میں کیا کروں…؟‘‘ اس کے لہجے میں جھلاہٹ تھی۔
’’خود کو ناکام تصور کرلو سندری! اور اگر ہوسکے تو مجھے یہ بتائو کہ تم یہ سب کیوں کررہی ہو؟‘‘ سندری نے ہونٹ سکوڑ کر گلاس واپس تھال میں رکھ دیا اور بولی۔ ’’میں کیوں کرتی یہ سب کچھ! بس مجھے تو حکم دیا گیا تھا کہ مہمان کا جی خوش کروں، اسے بہلائوں اور ذرا بھی اداس نہ ہونے دوں۔ میں تو یہی سوچ رہی تھی کہ امرت جل کے دو گلاس پی لو تم تو میں تمہیں ناچ دکھائوں۔‘‘
’’جن لوگوں نے یہ سب کچھ کیا ہے سندری! انہیں واپس جاکر یہ بتادو کہ بدقسمتی سے ایک مسلمان ان کے جال میں پھنسا ہے اور اسے ان تمام چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ نہ امرت جل پی کر امر ہونا چاہتا ہے، نہ رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہوکر اپنا ایمان کھونا! بس اس سے زیادہ مجھے اور کچھ نہیں کہنا تم سے!‘‘میں اپنی جگہ سے اٹھا۔ خوف تھا کہ کہیں اس کی ضد پر کوئی قدم بہک نہ جائے چنانچہ یہاں سے چلے جانا ہی زیادہ اچھا تھا۔ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھا اور مہمان خانے کے قریب پہنچ گیا۔ پلٹ کر نہیں دیکھا تھا لیکن اندازہ ہورہا تھا کہ وہ سب بری بری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی ہیں۔ ہنسی آگئی۔ کم بخت ایک کے بعد ایک مصیبت گلے آپڑتی ہے۔ بھلا اس میں بھی کوئی شک کی بات تھی کہ یہ سب کچھ… یہ سب کچھ ایک گہری چال تھی، کوئی گہرا جال تھا اور اس کارروائی کے عقب میں ہوسکتا ہے بھوریا چرن وہیں بیٹھا ڈوریاں ہلا رہا ہو۔ امکانات تھے اس بات کے! مکمل طور پر امکانات تھے۔ میں اپنے کمرے میں آگیا۔ یہاں کا ماحول بدل گیا تھا۔ غالباً بستروں پر نئی چادریں بچھائی گئی تھیں، کچھ اور چیزیں بھی لا کر رکھی گئی تھیں۔ ایک طرف ایک فریم دیوار پر ٹنگا ہوا تھا اور اس فریم میں ایک تصویر آویزاں تھی۔ یہ تصویر ایک عجیب و غریب چہرے کی تھی۔ قدیم طرز کا کوئی راجپوت یا ایسا سورما جو جنگ و جدل میں حصہ لیتا رہا ہو۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں خون کی آمیزش تھی اور یہ آنکھیں درحقیقت بڑے جاندار رنگوں سے بنائی گئی تھیں۔ بالکل اصلی اور گھورتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ ایک لمحے کیلئے ذہن اس تصور میں بھی الجھ گیا کہ یہ تبدیلیاں کیوں رونما ہوئی ہیں۔ بہرحال سب کچھ ہوسکتا تھا، سب کچھ…! میں بھلا کر ہی کیا سکتا تھا۔ دروازہ بند کرلیا۔ یہ احساس دل میں تھا کہ ہوسکتا ہے سندری پھر اندر آجائے اور مجھے پریشان کرنے کی کوشش کرے حالانکہ میں نے اب وہ راستہ تو نہیں چھوڑا تھا کہ وہ میری جانب رخ کرے لیکن اندازہ یہ ہوتا تھا کہ اس کی ڈور بھی کسی اور ہی کے ہاتھ میں ہے۔
کافی وقت گزر گیا سندری نے دروازہ نہیں بجایا اور پھر میں سونے کی کوشش کرنے لگا۔ مدھم مدھم روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی، پوری طرح اندھیرا نہیں تھا۔ یوں ہی اتفاقیہ طور پر تصویر پر نظر جا پڑی اور میں لیٹے لیٹے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ یہ نظر کا دھوکا نہیں تھا، آنکھوں کی کوئی خرابی بھی نہیں تھی اور نہ ہی ذہن کا کوئی انتشار…! لیکن فریم میں لگی ہوئی تصویر بے شک بدل گئی تھی۔ یہ تصویر اب مجھے کچھ اور ہی شکل میں نظر آئی تھیں۔ آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بستر سے کود کر تصویر کے نزدیک آیا۔ رانی مہاوتی کی تصویر تھی۔ وہ سورما تصویر کے فریم سے غائب ہوگیا تھا جسے میں نے پہلے دیکھا تھا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا اور کوئی تصویر بھی نہیں تھی۔ پھر گہری سانس لے کر اپنے بستر کی جانب آگیا اور اس کے بعد بھلا نیند آنکھوں میں کہاں آتی۔ کبھی کبھی پلکیں جھپک جاتیں پھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تصویر کی جانب دیکھنے لگتا۔ اب اندازہ ہورہا تھا کہ یہ تبدیلیاں بلاوجہ رونما نہیں ہوئی تھیں۔ ایک بار پھر پلکوں پر جھپکی سی آگئی اور اچانک ہی تصویر کا تصور ذہن میں آیا تو چونک کر اسے دیکھا۔ اف میرے خدا… میرے خدا! میں نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا۔ تصویر پھر بدل چکی تھی اور اگر میری آنکھیں دھوکا نہیں کھا رہی تھیں تو یہ تصویر کالی داس کی تھی۔ ہاں… دیوان کالی داس کی! فریم میں بار بار تصویریں بدل رہی تھیں اور اب یہ بات دعوے سے کہہ سکتا تھا کہ یہ تصویریں نہیں تھیں۔ یہ وہ خبیث روحیں تھیں جو تصویری شکل میں آآ کر میرا جائزہ لے رہی تھیں، مجھے دیکھ رہی تھیں، میرے بارے میں اندازے لگا رہی تھیں۔ دل چاہا کہ دروازہ کھول کر باہر بھاگ جائوں، کس طلسم خانے میں آپھنسا۔ نوشاد اور بھگوتی پرشاد تو جا چکے تھے اور مجھے اس عذاب میں گرفتار کرگئے تھے۔ کیا کروں، کیا کروں یا تو لاپروا ہوکر آنکھیں بند کرلوں اور گہری نیند سو جائوں۔ زیادہ سے زیادہ میرا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے لیکن انسانی فطرت کے خلاف تھا۔ بھلا اس عالم میں نیند آسکتی تھی؟ آہ کیسے اس طلسم خانے سے بھاگ جائوں۔ اگر یہ سب کچھ چھوڑ کر چلا جاتا ہوں تو حاجی صاحب کے کام میں مداخلت ہوتی ہے۔ رانی مہاوتی آخر ہیں کیا چیز…! اندازہ تو اسی وقت ہوگیا تھا جب دیوان کالی داس نے مجھے مشتبہ نگاہوں سے دیکھا تھا اور اس کے بعد میرے یہاں قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ڈیزائن لینے کیلئے بھگوتی پرشاد بھی ہوسکتا تھا، نوشادبھی! لیکن اشارہ میرے لئے کیا گیا تھا۔ گویا اب یہ طے شدہ بات تھی کہ پھر کوئی جال مجھ پر ڈالا جارہا تھا۔ باغ میں سجے ہوئے مجسمے کے الفاظ یاد آئے۔ ’’یہ کال نگر ہے، کال نگر…!‘‘ میں اس کی بات سے پوری طرح متفق ہوگیا۔ بستر پر بیٹھ کر نجانے کتنی دیر سوچتا رہا کہ اب کیا کروں؟ خاموشی سے بھاگ بھی سکتا تھا لیکن دل نے ڈھارس دی اور کہا کہ مسعود! دیکھ تو سہی آگے کیا ہوتا ہے؟ تیرا آج تک کسی نے کیا بگاڑ لیا جو اب بگاڑ لے گا۔ ذرا ان رانی مہاوتی جی کا کھیل بھی دیکھ لے۔ ان تمام تصورات کے ساتھ ایک بار پھر نظر اس فریم پر ڈالی لیکن وہاں ہر بار کوئی ایسا منظر نظر آتا تھا جو دل کو مٹھی میں جکڑ لیتا تھا۔ اس بار تصویر کا فریم خالی تھا۔ سب جا چکے تھے، سب جا چکے تھے۔ میرے حلق سے ایک ہذیانی سا قہقہہ نکل گیا۔ میں نے غرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’اجازت ہو تو اب سو جائوں؟‘‘ اور اس کے بعد میں نے بستر پر لیٹ کر کروٹ بدلی اور آنکھیں مضبوطی سے بھینچ لیں۔ غالباً کوئی ایسا عمل خودبخود ہوگیا تھا جس نے مجھے نیند کی آغوش میں پہنچا دیا اور نیند بھی ایسی پرسکون کہ صبح کو سورج کی روشنی ہی نے جگایا۔ کرنیں کمرے کے مختلف کونوں کھدروں سے رینگتی ہوئی اندر آگئی تھیں اور مجھے دیکھ رہی تھیں۔ منتظر تھیں کہ میں اپنی جگہ سے اٹھوں اور زندگی کے پراسرار معاملات پھر سے جاری ہوجائیں۔ پہلی شکل سندری ہی کی نظر آئی تھی۔
’’جاگ گئے مہاراج…؟‘‘
’’ہاں سندری…! تم ٹھیک ہو؟‘‘
’’خاک ٹھیک ہوں۔ تم میری کوئی بات مانتے نہیں ہو، سب میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔‘‘
’’رانی مہاوتی جی سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور وہ چونک پڑی۔ ’’کیوں…؟‘‘
’’میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مجھے یہاں کب تک رہنا پڑے گا۔ میں جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اوہ…!‘‘ اس نے گہری سانس لے کر کہا جیسے وہ مطمئن ہوگئی ہو۔ پھر اس نے کہا۔ ’’کوئی جلدی ہے؟‘‘
’’سندری! میں جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’مہاوتی جی تو صبح ہی صبح کہیںگئی ہیں۔ دیوان جی بھی ان کے ساتھ ہی گئے ہیں۔ ان سے پوچھے بنا تمہارا جانا اچھا نہیں ہوگا۔‘‘
’’تمہیں پتا ہے وہ کب تک آجائیں گے؟‘‘
’’مالک، نوکروں کو بتا کر نہیں جاتے۔ ویسے میرا خیال ہے کہ شام تک ضرور آجائیں گے۔ تم یہاں کسی گوشے میں بیٹھ کر اپنے دین کی پوجا کرو پجاری… ہونہہ!‘‘ اس نے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔
چلچلاتی دوپہر تھی، دھوپ حد سے زیادہ تیز، ماحول بڑا سنسان تھا۔ دن کی روشنی میں میں نے ان مجسموں کو دیکھا تھا، چھو کر دیکھا تھا سب کے سب انسانی ہاتھوں کی تراش معلوم ہوتے تھے۔ کوئی شبہ نہیں تھا اس بات میں مگر پچھلی رات کی بات بھی وہم نہیں تھی۔ میں نے اس مجسمے کو بھی دیکھا تھا جو مجھ سے بولا تھا مگر وہ صرف پتھر تھا۔ دور تک نکل گیا۔ واقعی یہ عمارت بڑے وسیع احاطے میں تھی۔ جگہ جگہ تعمیرات تھیں۔ سرخ پتھروں سے بنی ہوئی ایک عمارت کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ایک جھروکے سے آواز ابھری۔
’’سنو… سنو…! ارے… ادھر ادھر!‘‘ میں رک گیا۔ یہ اندازہ فوراً ہوگیا تھا کہ آواز جھروکے سے آرہی ہے مگر جھروکا اونچا تھا۔ میں اس میں نہیں جھانک سکتا تھا۔ ’’سیدھے چلتے ہوئے دائیں سمت مڑ جائو۔ دروازے سے اندر آجائو، وہ گہری نیند سو رہا ہے۔‘‘ آواز پھر ابھری۔
’’کون ہو تم…؟‘‘
’’ڈرو مت، تمہارے جیسا انسان ہوں۔‘‘
’’یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘
’’ہمت کرو، اندر آجائو، ڈرو مت! اس وقت کوئی خطرہ نہیں ہے۔ آئو جلدی کرو، آجائو۔‘‘
’’آرہا ہوں، تمہیں بھی دیکھ لوں۔‘‘ میں نے طنزیہ آواز میں کہا اور آگے بڑھ گیا۔ اس کا کہنا درست تھا۔ آگے چل کر بائیں طرف مڑا تو دروازہ نظر آگیا۔ اندر سے بند نہیں تھا۔ میں نے دھکا دیا تو کھل گیا۔ دوسری طرف ایک وسیع چبوترہ بنا ہوا تھا۔ اس کے تین طرف کمرے تھے۔ چبوترہ بھی سرخ پتھر سے بنا ہوا تھا۔ ان کے بیچوں بیچ پیپل کا درخت تھا جو باہر سے بھی نظر آتا تھا۔ ایک گوشے میں پیپل کے سوکھے پتوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ ان کے قریب جھاڑو بھی پڑی ہوئی تھی۔ وہ کمرہ بھی اس عمارت میں دائیں سمت کا ہوسکتا تھا۔
کمرہ اختتامی دیوار کے ساتھ تھا، چنانچہ میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ باہر سے لوہے کی مضبوط کنڈی لگی ہوئی تھی۔ میں نے بہ آہستگی اس کنڈی کو کھولا اور پھر آہستہ سے دروازے کے کواڑ کو دھکا دیا۔ چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ دروازہ کھل گیا۔ اندر تاریکی نہیں تھی، روشندان سے دھوپ پڑ رہی تھی۔ دھوپ نے کمرے کو روشن کردیا تھا۔ کمرہ چونکہ کسی قدر بلندی پر تھا اس لئے اس شخص نے مجھے دیکھ لیا تھا جسے میں باہر سے نہ دیکھ سکا تھا۔ وہ ایک توانا آدمی تھا۔ اچھے قدو قامت کا مالک! مگر اس کے پیروں میں زنجیریں بندھی ہوئی تھیں۔ ایک زنجیر کمر سے بھی بندھی ہوئی تھی اور یہ تمام زنجیریں موٹے آہنی کڑوں سے بندھی ہوئی تھیں۔
’’کون ہو تم…؟‘‘
’’اگر تمہاری آنکھوں میں روشنی ہے تو مجھے دیکھ لو۔ غور سے دیکھو، کون ہوں میں؟‘‘ اس نے کہا۔
’’میں تمہیں نہیں جانتا۔‘‘
’’نہیں جانتے… کیوں…؟‘‘ وہ حیرت سے بولا۔ میں نے پھر اسے غور سے دیکھا۔ اس کا حلیہ بہت خراب تھا۔ کپڑے چیتھڑوں کی شکل میں جھول رہے تھے، چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں پر زخموں کے کھرنڈ تھے۔
’’تمہاری بات کا کیا جواب دوں میں…؟‘‘
’’بے وقوف…! میں چندر بھان ہوں… چندر بھان!‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں اچھل پڑا۔
’’اس نے مجھے بیمار مشہور کردیا ہے۔ لوگ مجھے بیمار سمجھتے ہیں۔ بھگوان کی سوگند میں پاگل نہیں ہوں۔ میں تمہارا مہاراج ہوں۔ میں تمہارا مہاراج ہوں سمجھے! میں تمہارا ان داتا ہوں۔ میں تمہارا مہاراج ہوں سمجھے…!‘‘
’’تم چندر بھان ہو… مہاوتی کے شوہر…؟‘‘
’’ہاں! میں وہی بدنصیب ہوں۔ سنو میری مدد کرو۔ بس ایک بار… صرف ایک بار مجھے یہاں سے آزادی دلا دو، جیون بھر تمہارا احسان مانوں گا۔ ارے بھائی! ایک بار، بس ایک بار!‘‘ اس کے لہجے میں بڑا درد تھا۔ وہ امید بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔