"یہ خناس جو تمہارے دماغ میں سما گیا ہے اس کو تو میں ٹھیک کر ہی دوں گا بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو ” ۔ شدید غصّے سے مٹھیاں بند کرتے بولے ۔ غصّے سے ان کا چہرہ لال ہو گیا تھا
"یہ خنا س پندرہ سال کی پیداوار ہے آپ کا ہی بویا پیچ ہے آپ کیا ٹھیک کریں گے "۔۔۔ سمیہ بیگم نے آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا
"میں اپنی بات کے بغیر یہاں سے نہیں جانے والا اس لیے یہ شور شرابا کرنے سے اچھا ہے کے تم آرام سے بیٹھ کر میری بات سن لو” ۔انہوں نے سمیہ بیگم کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا
"بولیں کیا بولنا ہے دیں اپنی صفائی دیں اور جایئں یہاں سے "۔۔ سمیہ بیگم آخر ہار مان کر صوفہ پر بیٹھ گئیں
"ٹھیک ہے تو پھر میری بات غور سے سنو پھر ہی کوئی بات اخذ کرنا ۔میں تمیں کبھی خود سے دور نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔ سمیہ کبھی بھی نہیں میں تو اپنی سمی سے بہت پیار کرتا تھا۔۔کرتا ہوں ۔۔ میری سمی محبّت تھی میری عشق تھا میرا۔ اب بھی ہے ۔”
"ریاض صاحب جو بات کہنے کے لیے آئین ہیں وہ کہے یں باتوں کا وقت نہیں ہے نا موقع نا محل ۔”
"ٹھیک ہے”انہوں نے ایک لمبا سانس لیا اور بتانا شروع کیا
” جب میں ۔ لندن سیٹل ہوا تھا تو مجھے بز نس جمانے کے لئے چار سے پانچ سال لگے تھے ۔۔ جب میرا بز نس پھلنے لگا تو مجھے دھمکیاں ملنے لگیں ۔۔ پر میں نے ان پر دھیان نا دیا ۔۔کہ ایسی دھمکیاں بز نس میں ملتی ہی ہیں "وہ یہ کہہ کر روکے ۔۔پھر پاس پڑے گلدان کی طرف دیکھ کر بولے
"ا یک دن رات کو گھر آتے میری گاڑی سے ریم ٹکریں میں ان کو ہسپتال ۔ لے گیا لیکن معلومات سے پتا لگا کے وہ کسی گنگ سے جان بچانے کی کوشش کر رہیں ہیں اور یہ گینگ ہی مجھے دھمکیا ں دینے میں بھی شامل تھے میں زیادہ سے زیادہ ریم کو رہنے کی جگہ فرا ہم کر سکتا تھا میں ان کو ایک عزیز کے ہاں چھوڑ کر گھر آ گیا لیکن کچھ دنوں بعد پتا نہیں کیسے ان کو لوگوں سچائی کا پتا لگ گیا ”
"میرے پاس کوئی جواز نہیں تھا ان۔ کو اپنے پاس رکھنے کا وہ لوگ طاقت وار تھے اور ان کے ساتھ ریم بیگم کے رشتہ در بھی شریک تھے ۔۔ ان کی ایک شادی ہو چکی تھی ۔ان کے کزن سے ۔ لیکن ان کے پہلے شوہر نےپہلے تو ان کے بچے کو بچ دیا اپنے بچے کو ۔۔ پھر ریم بیگم کو بہت مارا پیٹا ۔جس کی ان کو بھاری قیمت چکا نی پڑی اس مار پیٹ نے ان کو بہت سی صلاحتیوں سے محروم کر دیا وہ ایک کان سے سن نہیں سکتیں تھیں ۔۔اور بچے ۔۔۔ وہ جملہ پورا نہ کر سکے
"پھر اس نے طلاق دے کے چھوڑ دیا ۔۔ لیکن ایک گروپ کے ساتھ سودا کر کے ۔۔ سو ان کے رشتہ داروں کے جواز کو ختم کرنے کے لئے مجھے ان سے شادی کرنی پڑی ۔”۔ وہ گہراسانس لے کر روکے ۔۔پھر دوبارہ اپنی بات کہنا شروع کی ۔۔
"۔۔ جب ان کو اس بات کا پتا چلا تو میری جان کے در پر ہو گئے ان کے ہاتھ سے مال جو نکل گیا تھا جو گھر پر حملہ ہوا وہ بھی اس کی کڑ ی تھی ان کو آپ کا ابھی نہیں پتا تھا ۔
کیونکہ میرے دشمن وہ پہلے سے بن چکے تھے پر آپ سے شادی سادگی سے ہوئی تو کسی کو خاص خبر نا تھی ۔اور شادی کے دو سال آپ پاکستان میں ہی رہیں تھیں اور اس کے بعد لندن آئین تھیں ۔ریم سے نکاح آپ کو چھوڑنے سے ایک مہینے پہلے ہی ہوا تھا ”
"لیکن ایک دن میرے کو لیگ کا کٹا ہوا سر ملا ۔۔ اور ساتھ چٹ تھی کے میرے ساتھ جوڑے لوگوں کو چن چن کر ماریں گے پولیس مدد کرنے کو تیار نا تھی وہ ایک انسان کے لئے اس گینگ پر ہوئی سالوں کی محنت برباد نہیں کر سکتے تھے ۔۔ اس لئے مجھے یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا ۔۔”
ریم کی ذہنی حالت ایسی تھی کہ ان کو آپ کے ساتھ بھجا جاتا ”
"آپ نے مجھے بتانے کی بھی کوشش نا کی ۔۔ تو اب کیوں اعتبار کروں ۔۔اور ریم ۔ وہ کہاں ہیں ” سمیہ بیگم بات کے درمیان میں بولیں
"تمھیں کہانی لگتی ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے میں ریم کو ساتھ لاتا پر اب وہ اس دنیا میں نہیں۔ ہیں ۔۔۔ ہم لوگ دو سال پہلے ہی آ رہے تھے پر وو ایک حادثے میں اس دنیا سے رخ پھر گئیں ۔”۔۔سمیہ بیگم کے دل کو دھچکا لگا ،۔
"میں ان کو مقام بھی نا دے سکا” وہ افسوس سے بولے
آپ کے غلط فیصلوں نے کتنی زندگیان خراب کیں اس کا احساس ہے آپ کو ۔اگر آپ نے مجھ پر تھوڑا بھروسہ کر کے ریم بیگم کے بارے میں بتایا ہوتا ۔۔تو شاید آج حالات مختلف ہوتے ۔۔” سمیہ بیگم نے شکوہ کناں آنکھوں سے ان کو دیکھا
آپ کو یہ فیصلے غلط لگتے ہیں لیکن اگر وہ نا کرتا تو بہت سے لوگ جان سے جاتے ۔ وہ لوگ ہر جگہ گھات لگا ئے بیٹھے تھے ۔۔ جو ہلکی سے بھی خبر ملتی تو آپ کا بھی پتا لگ جاتا اور ہانیہ کا بھی ”
اتنا عرصہ کیوں لگا آپ کو یہاں انے میں ۔۔سمیہ بیگم نے دھیرے سے سوال کیا ۔
تمھیں پاکستان بھیجنے کےبعد بھی وہ لوگ بہت عرصہ ہم لوگوں کے پیچھے پڑے رہے۔پولیس کے پاس کافی ثبوت آ گے تھے انہوں نے گنگ کے لوگوں کو پکڑ نا شروع کر دیا ان کو لگا شاید یہ میں کروا رہا ہون ۔۔۔دو بار حملے ہوۓ لیکن اللہ کا شکر ہے کے اس نے جان بچائی ۔۔آج سے پانچ سال پہلے ہی اس گنگ کو پکڑا جا سکا ہے ۔۔ وہ چھپتے تو گئیں سالوں سے پھر رہے ہیں لیکن پکڑے پانچ سال پہلے ہی گئے ۔۔
"اب آپ مجھ سے کیا چاھتے ہیں ۔۔۔ میں آپ کی بے اعتباری ! یہ سب بھول بھی جاؤں تو ۔۔ اب یہ 15 سال کا عرصہ درمیان سے ختم تو نہیں کیا جا سکتا "۔۔وہ بھاگی پلکوں کے ساتھ ان کی طرف دیکھ کر بولیں
"”اگر تم سے دور ہی رہنا ہوتا تو یہاں آتا ہی کیوں آتا میں تو گئیں سالوں سے اس انتظار میں ہوں تمھیں وہ دکھائی نہیں دیتا ۔۔جو اپنا دل کاٹ کر پھنک دیا وہ دکھائی نہیں دیتا سمی تمہیں ۔۔کتنا انتظار کیا یہ تم نہیں جانتیں ۔”۔
"اور ہاں ریم بیگم نے ایک بات گئیں سال مجھ سے چھپا کر رکھی وہ یہاں گھر سے بھا گ کر آئیں تھیں ۔۔ ان کے والد جانے مانے بز نس مین تھے پر ۔۔اس حرکت کے بعد وہ یں سے تمام تعلق ختم کر چکے تھے ۔۔وہ بتاتین تو شاید میں سے ریکویسٹ کرتا ۔۔خیر اب میں چلتا ہون ” وہ اپنی بات کہہ کر اٹھ کھڑے ہوۓ
"لیکن میری بات پر غور کرنا سمی ۔۔ میں نے تم نے ہم دونو ں نے دکھ سہا ہے ۔۔” ۔۔ وہ صوفہ سے اٹھ کر خاموش بیٹھی سمیہ بیگم کے پاس آئے ۔۔
"پتا نہیں سمی عشق کس بلا کا نام ہے میں تو یہ سہتے سہتے اپنا سب کچھ وار بیٹھا ہون ۔۔اپنا آپ اپنا دل ۔۔اپنی زندگی ۔۔”
ان کے آنسوں سے تر چہرے کو ایک لمحہ دیکھ کر دروازے کا رخ کیا
لیکن وہاں زوالقرنین صاحب کو دیکھ کر ٹھٹھکے ۔۔ پھر سلام کرتے باہر کو چل دئے ۔۔۔
اور سمیہ بیگم اور زوالقرنین صاحب اپنے اپنے کمرے میں ۔۔
…………………………….
شاز مہ بیگم ، زرینہ بیگم کے ساتھ مال میں خریداری کرنے آئیں تھیں ۔ ۔
"پتا نہیں ۔بی جان نے اتنی جلدی کیوں کی اب دو تین دن میں کتنی تیاری ہو سکتی ہے ۔۔ میں تو کاموں کی وجہ سے گن چکر
بن چکی ہوں ۔۔” زرینہ بیگم چلتے ہوۓ شازیہ بیگم سے بولیں
” زری وہ اس لئے کے کہیں اپنے وجدان کا راز نا کھل جائے ۔۔اس لئے ویسے بھی کوئی جواز نہیں بچا ۔۔ جو دیری کی جائے ۔۔”شازمہ بیگم نے چلتے ہوۓ روک کرکہا
"ہاں یہ بھی ہے ۔۔ ہانیہ کو فون کیا آپ نے کافی دیرہو گئی ہےابھی تک آئی نہیں بچی "۔۔زرینہ بیگم اس پاس نظریں دوڑا کر بولیں
"ہاں میں نے کیا تھا ۔میں دوبارہ کر کے دیکھتی ہوں "۔۔ وہ اپنے بیگ سے فون نکال کر بولیں ۔۔
ہانیہ کا نمبر ملا کر کان پر لگایا ۔پہلی بیل پر ہی فون اٹھا لیا گیا
"السلام عليكم ۔انٹی آپ لوگ کہاں ہے ۔میں مال پہنچ چکی ہوں” ۔۔ہانیہ کی۔ آواز سپیکر پر ابھری ۔۔
"بچے ۔ہم دوسری منزل کی لفٹ کے باہر کھڑے ہیں آ جاؤ ۔۔”
ہانیہ نے جی ٹھیک ہے کہہ کر فون بند کر دیا
وہ لیفٹ سے اوپر پہنچی تو سامنے ہی اس کو شازمہ اور زرینہ بیگم دکھائی دے گئیں ۔
"السلام علیکم ۔کیسی ہیں آپ” ۔۔وہ ان دونو کے گلے ملی ۔۔
"ہم ٹھیک ہیں بچے آپ کیسے ہو ۔۔”
"اللہ کا شکر ہے آنٹی میں بلکل ٹھیک ہوں "وہ شاذمہ بیگم کی طرف دیکھ کر بولی
"چلو بچے پھر نکاح کا جوڑا دیکھ لیتے ہیں ۔۔ منگنی تو ہوئی نہیں تو نکاح کا جوڑا ہماری طرف سے ہے ۔”زرینہ بیگم نے دکان کا رخ کرتے ہوۓ کہا
"انٹی اس کی ضرورت نہیں تھی ۔”۔ ہانیہ تھوڑا جہجھک کر بولی
"کیوں ضرورت نہیں تھی بچے اب ہماری ہی بچی ہو ۔۔”شازمہ بیگم نے جواب دیا ۔
وہ دکان میں داخل ہو کر وہاں لگے سوٹ دیکھنے لگیں ۔۔تین دکانیں پھر کر وہ چوتھی میں داخل ہوئیں ۔ تب ہی زرینہ بیگم کا فون بجا
وجدان کا نمبر دیکھ کر انہوں نے ذرا سائیڈ پر ہو کر کال اتٹنڈ کی
"ہاں ۔بچے بولو ۔”۔ انہوں نے وجدان کو کہا
” آنٹی ۔۔مطلب چچی ۔جی ۔۔یہ ذرا آپ پھوپھو کو لے کر دوسری دکان میں چلی جاییں ہانیہ سے کچھ بات کرنی ہے ۔اس کی بات سن کر زرینہ بیگم نے ادھر ادھر دیکھا تو باہر سامنے وجدان دکھائی دیا ۔۔
اس نے ہاتھ ہلا کر ان کوبتایا ۔۔”پلیز ۔”وہ فون میں بولا
"ٹھیک ہے ۔۔ میں کچھ کرتی ہوں ۔لیکن تم یہاں کیا کر رہےہو ۔؟”
وہ باہر کی طرف دیکھ کر بولیں
"وہ ۔۔میں ہانیہ کے لئے گفٹ لے رہا تھا "۔ وہ گڑبڑا کر بولا
"کوئی بات نہیں بیٹا آپ کی ہونے والی زوجہ ہیں میں شازمہ سے کہتی ہوں” ۔۔انہوں نے مسکرا کر کہا اور بات کر کے فون بند کر دیا
شاز مہ بیگم کو باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولیں” ۔ہانیہ بچے آپ ادھر دیکھو کپڑے میرا دل کھبرا رہا ہے ذرا پانی کی بوتل لے کے آتے ہیں ہم دونوں ۔” وہ شازمہ بیگم کو لے کے نکل گئیں
"جی ۔”۔ہانیہ حیرانی سے ان کو دیکھ کر بولی پھر کندھے اچکا کر سوٹ دیکھنے لگی ۔۔
وہ اپنے کام۔ میں مگن تھی جب کسی کے نظروں کے احساس پر اپنے دائیں طرف دیکھا تو اس حیرت کا جھٹکا لگا ۔۔ اس نے دکان کے دروازے کی طرف دیکھا کے کہیں شازمہ یا زرینہ بیگم نہ آ جائیں ۔۔
"آپ ۔۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں” ۔۔ وہ کھبرا کر بولی ۔۔۔
"کیا کر رہا ہوں ۔۔ تمھیں دیکھ رہا ہوں "۔۔ وہ ہانیہ کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوۓ کھوئے ہوۓ انداز میں بولا ۔
ہانیہ نے بی جان کی دی ہوئی تصویر دیکھنا ضروری نہیں سمجھا تھا کے جب ہاں کر دی ہے تو پھر دیکھ کے کیا کرنا
"اور یہ حق آپ کو حاصل نہیں ہو گا کبھی ۔اور آپ تماشہ نہ کریں میں یہاں فرینڈ کی شادی کی شاپنگ کے لئے آئی ہوں میرے ساتھ اور بھی لوگ ہیں آپ پلیز چلے جایئں ۔”۔ ۔ ہانیہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔پر دل میں دھڑ کا بھی لگا تھا کے کہیں کوئی دیکھ نہ لے ۔۔اس نے وجدان کو نکاح کے بابت بتانا ضروری نہ سمجھا کے کہیں کوئی تماشا ہی نہ لگ جائے ۔
وجدان کو اس کر انداز پر دکھ ہوا ۔۔ پر اس کے اتنے پر اعتماد لہجے پر ہنسی آئی .اور اس کے بات چھپانے پر بھی
ایک شیزادی ہے سرد مزاج ، کہانی میں
ایک شیزادہ ہے جو دل سے اس پر ،مرتا ہے
"ہانیہ !!!تمھیں لگتا ہے تمھیں کسی اور کا ہونے دوں گا ۔۔تو یہ بھول ہے تمہاری ۔۔ جسے ایک بار محبّت ہو جائے ۔۔ پھر مر کر ہی ختم ہوتی ہے ۔ جس سے محبّت ہو اس سے چاہ کر بھی نفرت نہیں کی جا سکتی ۔۔ اور جس سے نفرت ہو جائے اس سے کبھی محبّت ہوئی ہی نہیں ہوتی” ۔۔ وہ آنکھوں میں محبّت کے دیپ جلائے بولا
خیر ۔وہ اس پاس دیکھ کر بولا ۔کسی کی شادی پر جا رہی ہو ۔۔ وہ ہانیہ کے ہاتھ میں کام سے بھرا سوٹ دیکھ کر بولا
اس کی رکیں تن گئیں ۔۔ "یہ اتنے گہرے گلے اور سیلو لیس سوٹ پہنے کی اجازت نہیں دوں گا ۔”۔اس نے سوٹ لے کر ریک میں رکھا اور ایک سوٹ خود پسند کیا جو ہلکے گلابی رنگ کا شرا رہ تھا جس پر سلور اور گولڈن کام ہوا تھا ۔۔پھر کاؤنٹر پر جا کر پیسے دیا اور شاپنگ بیگ اس کے سامنے رکھ کر چل دیا ۔
ہانیہ اس کی جرات اور خود اعتماد ی پر حیران خاموشی سے اس کی کاروائی دیکھتی رہی
وجدان باہر نکلا تو زرینہ بیگم اور شازمہ بیگم سامنے ہی دیکھیں ۔۔ ان کو دیکھ کر مسکرایا ۔”پلیز کچھ کہیے گا مت ہانیہ کو سوٹ کے بارے میں "وہ کہتا باہر چل دیا
وہ دونو ں دکان میں داخل ہوئیں تو ہانیہ اس ہی پوزیشن میں کھڑی تھی جیسے وجدان چھوڑ کر گیا تھا ۔
"بیٹا ۔ہانیہ سوٹ پسند کر بھی لیا ۔۔ اور پے بھی کر دیا ۔۔ بیٹا ہم نے آپ کو لے کے دینا تھا ۔ چلو کوئی بات نہیں ۔۔ہم کچھ اور خرید کے لے دیتے ہیں” ۔۔زرینہ بیگم نے اس کے پاؤں کے قریب پڑا شاپنگ بیگ اٹھا تے ہوۓ کہا
"آر ے واہ ۔۔سوٹ تو بہت پیارا ہے ۔۔ چلو دوسری شاپ پر چلتے ہیں” ۔۔ وہ کہہ کر جلدی سے باہر کی طرف چل دیں
"انٹی یہ وہ ۔۔اف کیا بتاؤں” پر کوئی جواب نہ بن پایا سوٹ کا کہتی تو انٹی سیلز مین سے پوچھتیں تو سیلز مین وجدان کا بتا دیتا ۔۔تو خاموش ہو گئی پھر شاپنگ بیگ کی طرف دیکھ کر سوچا میں کونسا وہ واہیات ڈریس لینے لگی تھی آویں ہی ہلاقو خان بنے کا شوق ہے ۔۔ اور ان کے ساتھ چل دی
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔