بس مری کے راستوں پر رواں دواں تھی۔۔ خاص طور پر سر سبر گھنے درخت۔۔سرد موسم تازہ ہوا خوبصورت وادیاں اور سڑک کے کنارے اترے ہوئے بادل ایک حسین نظارہ پیش کر رہے تھے۔۔۔
اور بس میں بیٹھے سارے سٹوڈنٹس اس دلکش منظر کا پورا لطف اٹھا رہے تھے۔۔۔۔
بس مری کے علاقے کشمیر پوائنٹ پر رکی ۔۔
کشمیر پوائنٹ پاکستان کے شہر مری کا ایک خوبصورت مقام ہے۔۔
جو مال روڈ پر سطع سمندر سے سات ہزار تین سو چالیس فید کی بلندی پر واقع ہے۔۔۔
کشمیر پوائنٹ میں سیاحوں کی بڑی تعداد میں آنے کی وجہ باغے شاہدہ ۔۔۔فوڈ پارک اور واٹر پولز ہے۔۔
کشمیر کے پہاڑی مقامات کے حیرت انگیز نظارے یہاں سے باآسانی دیکھے جا سکتے ہے۔۔۔۔یہ مری کا سب سے زیادہ دیکھے جانے والا علاقہ ہے۔۔
کیونکہ اس خوبصورت جگہ کو دیکھنے کے لئے مال روڈ سے لوگ یہاں کا رخ کرتے ہے۔۔۔
۔۔۔
چلو بچوں ہم اپنی منزل کو پہنچ چکے ہے سب آرام سے اترتے جائے۔۔۔
جب سارے سٹوڈنٹس اپنی باتوں میں مگن تھے تو گاڑی کے ڈرائیور نے ان سب کو نیچے اترنے کا کہا۔۔
سب باری باری نیچے اترتے گئے۔ ہانیہ اور حنان کو چھوڑ کر ۔
کیونکہ ہانیہ ابھی تک حنان کے کاندھوں پر سررکھے پر سکون نیند کے مزے لے رہی تھی کے ڈرائیور کی آواز سے وہ بےدار ہوئی تو خود کو حنان کے قریب پاکر ایک دم گھبرا کر اٹھی اور اپنا حولیہ درست کرنے لگی ۔۔۔۔۔
آپ ایسے کیوں دیکھ رہے ہے۔۔جب حنان کی نظروں کو ہانیہ نے ّخود پر محسوس کیا تو اس نے اس سے پوچھا جو اسکی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔۔
کچھ نہیں سوچ رہا ہو کے تم سوئی ہوئی کتنی پیاری لگتی ہو۔۔۔
حنان کی تعریف پر ہانیہ پھٹی پھٹی نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگی اور کچھ بولے بغیر جلدی سے نیچے اتری کیونکہ اسے اس وقت حنان سے بہت شرم آرہی تھی۔۔۔۔۔
کتنا خوبصورت احساس ہوتا ہے پیار کا ۔۔۔
لیکن پیار کرنا تو آسان ہوتا ہے لیکن پیار کے راستے میں آنے والی مشکلات کا سامنا کرنا اتنا ہی مشکل ۔۔
تو کیا حنان اور ہانیہ بھی اپنے پیار کی منزل با آسانی سے پار کر پائے گے یا کوئی مصیبت ان کی منتظر ہوگی۔۔۔۔
۔۔
یہ عشق نہیں آسان ۔
بس اتنا سمجھ لیجئے بس ایک آگ کا دریا ہے۔۔
اور دوپ کے جانا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واوووووووووو حنان یار کتنا خوبصورت منظر ہے یہاں کا کسے ہر چیز برف میں دھکی پری ہے اور ٹھنڈ ہووووووووووو ۔۔۔۔۔
حور نے ہوٹلوں اور آس پاس کی چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اور وہ دیکھوں یار کتنا پیارا مونکی ہے۔۔
حور نے سامنے بیٹھے ایک بندر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہااور اس کی تصویر بنانے لگی۔۔۔۔۔
ہر طرف لوگوں کا ہجوم تھا ہر کوئی اپنی فیملی کے ساتھ اس خوبصورت مقام کا رخ کرنے آئے تھے۔۔
ہر کوئی تصاویر بنانے میں مگن تھا ۔۔۔کوئی بندروں کے ساتھ تو کوئی گھوڑے کے ساتھ تصویریں لے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
ہووووووووووووووو اپی بہت ٹھنڈ ہے ایسا کرے یہ شال آپ لپیٹ لے ۔حور نے ایک کالے کلر کی شال اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اور خود بھی اپنے اوپر لینے لگی۔۔۔
حنان تم بھی لو گے۔۔۔ حور نے شال اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔جو اسکی طرف گھور کر دیکھ رہا تھا۔۔۔
کیا میں یہ لڑکیوں والی شال لونگا۔۔
میرے اتنے بھی برے دن نہیں آئے میری ہودی کافی ہے میرے لئے۔
حنان نے اپنی کالے کلر کی جیکیت پہنتے ہوئے کہا جس کی ٹوپی اس نے اپنے سر پر پہنی۔۔۔
ہائے اللہ بھلائی کا زمانہ ہی نہیں رہا۔۔
حور نے ماتھے پر بل دالتے ہوئے کہا۔۔
ویسے ایک بات ہے تم اس ٹوپی میں بہت فنی لگ رہے ہو۔۔۔
ایک پیکچر تو بنتی ہے۔۔۔حور نے اپنے کیمرے سے اس کی تصویر لیتے ہوئے کہا جو واقعی بہت فنی لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
بس کرو یار ورنہ یہ کیمرا سلامت نہیں بچے گا۔۔۔
حنان نے کیمرا اس سے کھینچتے ہوئے کہا۔۔
اوےےےےے نہیں نہیں سوری اب نہیں کرتی پلیز دے دو۔۔ حور نے اپنے کان پکرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ہاں یہ ہوئی نا بات اب ایسے ہی شریف رہینا۔۔۔۔
حنان نے مسکراتے ہوئے اسکی طرف کیمرا بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
واوووووووووووووووؤو حنان وہ دیکھوں چئر لفت مجھے اس پر بیٹھنا ہے۔۔۔
حور نے دور سے سامنے نظر آتی ہوئی چئر لفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جس پر لوگ پورے مری کا دلکش نظارہ کرنے کے لئے اس پر بیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔
اوےےےےے آرام سے بیٹھ جا سارا کچھ آج ہی کرنا ہے۔۔ابھی تو آئے ہے اللہ کی بندی آرام تو کرنے دے ۔۔۔
حنان نے اسکو گھورتے ہوئے کہا جو اسکی طرف ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے دیکھ رہی تھی اور چپ چاپ ہانیہ اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں ایک ہوٹل کے پاس پہنچے جو باہر سے دیکھنے میں بہت خوبصورت نظر آریا تھا۔۔۔
جس کے باہر بورڈ پر لکھا تھا گرینڈ ہائیٹس ہوٹل۔۔
اس ہوٹل کے داخلی دروازے فل شیشے کے بنائے گئے تھے جس کے انٹر ہوتے ہی بہت صاف ستھرا ماحول تھا ہوٹل دیکھنے میں کافی بڑا تھا۔۔۔۔۔
۔جس کی ہر چیز کو بہت خوبصورت طریقے سے دیکوریت کیا گیا تھا۔۔۔
جس میں چھت پر لگے شیشے کے جھومر ہوٹل کی خوبصورتی کو اور دلکش کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔
ہاؤ کین آئی ہیلپ یو سر۔۔۔۔
جب حنان اس ہوٹل کا جائزہ لے رہا تھا تو ہوٹل کے منیجر نے اس کے قریب اکر کہا جس نے کالے کلر کی جینز پر سفید کلر کی شرٹ اور اس پر کالے کلر کا کوٹ پہن رکھا تھا یہ دیکھنے میں تیس سال کی عمر کا دیکھائی دیتا تھا۔۔۔۔
جی ہمیں دو روم چاہئے۔۔۔حنان نے اسے مسکراہتے ہوئے کہا جو اس کے جواب کا منتظر تھا۔۔۔۔
جی سر مل جائے گے آئے کچھ فورمیلیٹیز پوری کرلے۔۔۔
مینجر نے حنان کو کاونتر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کس نام سے چاہئے سر۔۔۔
اس مینجر نے حنان سے پوچھا۔۔۔
جی دونوں روم حنان سکندر کے نام سے کردے۔
اوکے ٹھیک ہوگیا یہ روم کی کیز ہے اور اس پر سینگنیچر کردے۔۔۔
مینجر نے حنان کو کمروں کی چابی اور ایک پین اور رجیسٹر اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔
آئیے سر آپ کو روم بتا دو۔
اس نے سامنے لفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تینوں اس لفٹ میں گئے اور فور فلور پر پہنچے جہاں امنے سامنے رومز تھے۔۔۔
وہ مینجر تین سو چالس روم کی طرف گیا اوراس کا دروازہ کھولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر یہ ہے آپ کا روم ۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی سامنے کی جانب ایک بیڈ پرا تھا جس پر سفید کلر کی بیڈ شیٹ دالی گئی تھی اور اس کے بائیں حانب سائیڈ ٹیبل ہر لیمپ پرا تھا جس کے تھوڑے فاصلے پر ہی دو سوفے امنے سامنے پڑے تھے اور درمیان میں ایک شیشے کا میز تھا اس کے ساتھ ہی بری بری شیشے کی کھڑکیاں تھی جن ہر سبز کلر کے پردے لگائے گئے تھے جہاں سے باہر کا دلکش نظارہ دیکھائی دیتا تھا۔۔۔۔۔۔
چلو تم لوگ آرام کرلوں میرا روم ساتھ والا ہے کچھ ہیلپ چاہئے ہو تو بتا دینا اوکے اور ہاں تھوڑی دیر بعد پھر باہر چلے گے۔۔۔۔
حنان نے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔اور چلا گیا۔۔۔۔۔
ویسے اپی کتنا سکون ہے نا یہاں دل کرتا ہے بس یہاں ہی رہے جاؤ۔۔
حور نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔
حور یہاں سے ہر چیز برف میں دھکی کتنی دلکش لگ رہی ہے نا اور آنے والی سرد ہوا دل میں اترتی ہے۔۔۔
ہانیہ نے لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا۔۔۔
واقعی اپی اس سو بیوٹی فل ویو۔۔۔۔۔۔
حور نے ہانیہ کے پاس آتے ہوئے کھڑکی کے باہر نظر آنے والے دلکش نظارے کی تصویر لیتے ہوئے کہا۔۔۔
چلے اپی تھوڑا ریست کرلے پھر گھومنے بھی جانا ہے۔۔
حور نے واپس بید پر اکر لیتتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں اس وقت ایوبیہ میں موجود تھے جہاں ہلکی ہلکی سنوفال بھی ہو رہی تھی ۔۔۔حور ثناء کے ساتھ تصویریں بنانے میں مگن تھی ۔۔
حنان اور ہانیہ ایک سائڈ پر بیٹھے حور کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
ویسے حور بہت خوش ہے یہاں اکر۔۔۔
ہانیہ نے حور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو بہت انجوے کر رہی تھی۔۔۔۔۔
ہانیہ میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہو۔۔۔
حنان نے ہانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔۔ جو حور کی طرف دیکھ رہی تھی تو اس کی آواز پر اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔
ج ج جی کہیے۔۔
ہانیہ نے اپنا ہاتھ حنان کی گرفت سے چھوڑاتے ہوئے کہا جو اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
ہانیہ میں نہیں جانتا کے تمھیں میری بات سن کر کیسا لگے گا لیکن نا جانے کب سے مجھے تم سے محبت ہوگئ ہے اور جب سے تم سے ملا ہو تمھارے بارے میں ہی سوچتا ہو تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہو۔۔
ہانیہ حیرانی سے اسکی طرف دیکھ رہی تھی اس وقت اس کا دل اتنے زور سے دھڑک رہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کے کسے خود کو نارمل کرے۔۔۔۔
آپ مذاق تو نہیں کر رہے نا۔۔
ہانیہ نےبامشکل اس سے پوچھا جو اس کے جواب کامنتظر تھا۔۔۔
نہیں ہانیہ میں ایسا مذاق کیوں کرونگا ۔۔۔
تم بتاؤ تمھارا کیا جواب ہے۔۔۔
د دیکھے حنان آپ اچھے لڑکے ہے لیکن یہ پوری زندگی کا سوال ہے مجھے سوچنے کا ٹائم چاہئے۔۔
ہانیہ اسے اچانک سے ہاں کا جواب نہیں دے پا رہی تھی اس لیے اس نے سوچنے کا ٹائم مانگا۔۔۔۔
لے لو جتنا ٹائم تمھیں چاہیے تم لے سکتی ہو میں ساری عمر بھی تمھارے لیے انتظار کر سکتا ہو۔۔ اور میں منتظر رہوگا تمہارے جواب کا۔۔۔
حنان نے ہانیہ کا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا جو نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔۔
وہ دل ہی دل میں بہت خوش تھی کے اتنا اچھا جیون ساتھی اسے ملنے جارہا تھا۔۔
زندگی نے جتنے دکھ اسے دیئے تھے اب ایک ایک کرکے اسکو حنان کی صورت میں خوشیاں مل رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...