“کل صبح سوچیں گے جو آج رات کیا
کل صبح گن لیں گے ساری غلطیاں
تو میرا ابھی ،،، ہو جانا اجنبی پھر
ہم ملیں گے نا کبھی
کل صبح چلے جائیں گے ہے گھر جہاں
کل صبح بولے جو بھی بولے گا جہاں
تو میرا ابھی ،،، ہو جانا اجنبی پھر
ہم ملیں گے نا کبھی”
شہر کا یہ بڑا کلب ویسٹرن کے نام سے مشہور تھا۔۔۔ بالخصوص غیر مذہب کے لیئے توجہ کا مرکز اور پیسے کمانے کا بہترین ذریعہ تھا۔
پاکستان کی بگڑی اور نامور اشکال بھی اکثر و بیشتر یہاں دیکھنے کو ملتی تھیں۔
کلب میں اسے آئے ایک گھنٹہ بیت چکا تھا۔۔۔ شام ڈھل کر رات میں تبدیل ہو چکی تھی۔
بلیک جینز پہ سلکی سنہری شرٹ جو بالکل سادہ تھی،،، گلے میں ایک چین تھی۔۔۔۔ بالوں کو اونچی پونی ٹیل میں مقید کر رکھا تھا۔۔۔ کانوں میں گول سادہ بڑے آویزے جبکہ پیروں میں ویلوٹ کے بلیک کوٹ شوز۔
اپنی دھن میں وہ البیلی چال چلتی پارکنگ ایریا کی اور اپنے قدم اٹھا رہی تھی۔
“ہو دا ہیل آر یو؟؟”۔ جونہی اسنے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولنا چاہا کسی نے اسکا ہاتھ تھاما جس پہ وہ غصے میں اسکی جانب پلٹی تھی۔
“غصہ انسان کیلیئے محضر صحت ہوتا ہے اور خاص کر تمھاری جیسی بیوٹی کو تو بالکل نہیں کرنا چاہیئے”۔ لبوں میں سگریٹ دبائے اسنے لائٹر کی مدد سے اسے سلگایا پھر انگلیوں میں دباتے چہرہ اوپر کو کرتے پھونک ماری تھی جس سے سرمئی دھواں ہوا میں تحلیل ہوا۔
“تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرا راستہ روکنے کی؟؟”۔
“میری ہمت کو مت للکارو۔۔۔۔ تمھارے لیئے اچھا نہیں ہوگا”۔ مزید قدم اٹھاتا وہ اسکے قریب آیا ۔ ” تم جانتی ہو میں کون ہوں؟؟۔۔۔۔۔ اس شہر کے نامور ارب پتی سیٹھ رفیق نیازی کا اکلوتا وارث ۔۔۔ بلال رفیق نیازی اور تم ٹھہری ہائی کورٹ کے لکھ پتی جج نصیر الدین کی اکلوتی بیٹی ۔۔۔۔ نبیہا نصیر”۔ سگریٹ کو زمین پہ پھینکتے اسنے پیر سے مسلا تھا۔
“بہت پہنچے ہوئے ہو۔۔۔ میری بائیوگرافی، ہسٹری سب معلوم بھی کر لی”۔ سینے پہ ہاتھ باندھے وہ طنزیہ ہنسی۔
اور بھی بہت کچھ کر سکتا ہوں”۔ اسنے نخوت سے کہا۔
“اپنی شہرت اور پیسے کا جھانسہ کسی ایسی کو دینا جو اس میں آ جائے مجھے نہیں۔۔۔ انڈر سٹینڈ”۔ بولتے ہی اسنے بلال کے چہرے کے سامنے چٹکی بجائی پھر ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا۔
“میں تم سے بات۔۔۔۔۔۔”۔
“چٹاخ”۔ نبیہا کے قریب ہوتے اسنے نبیہا کا دائیاں ہاتھ پکڑا تھا جو اگلے ہی لمحے پر زور آواز کے ساتھ اسکے چہرے پہ اپنے نشانات چھوڑ آیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
واجد صحن میں چیئر پہ اطمینان سے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھا بڑے انہماک سے اخبار کے اوراق پلٹ رہا تھا جب نین تارا ہاتھ میں چائے کی پیالی پکڑے اس طرف آئی تھی۔
“تایا ابو یہ چائے”۔ پیالی واجد کے سامنے میز پہ رکھتے وہ جونہی کچن کی جانب مڑی اسکا سر چکرا گیا تھا جس سے وہ ہڑبڑا کر ایک قدم پیچھے کو ہٹی۔
“کیا ہوا نین تارا؟؟ تم ٹھیک ہو؟؟”۔ اخبار سائیڈ پہ کرتے اسنے کہا۔
“ج۔ جی تایا ابو بس چکر آ گئے”۔ دونوں ہاتھوں میں چہرہ تھامے وہ چیئر پہ بیٹھ گئی تھی۔
واجد فورا سے اخبار چھوڑتا اسکی جانب لپکا۔
“احتشام نجانے کب آئے؟ چلو میں تمھیں ہوسپٹل کے چلتا ہوں”۔ نین تارا کو سہارا دیتے وہ انٹرنس کی جانب بڑھا تھا۔
انٹرنس پہ انکا ٹاکرا مخالف سمت سے آتی تبسم سے ہوا جو جلدی میں سیڑھیاں چڑھتی انٹرنس کی دہلیز تک آئی تھی۔
“ارے بھائی صاحب آپ نین تارا کو لے کر کہاں جا رہے ہیں؟؟”۔ اسنے دلچسپی سے پوچھا۔
“تبسم نین تارا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے سوچا ہوسپٹل لے جاوں۔۔۔۔ تم اندر جاو ہم ہوسپٹل سے ہو آئیں”۔ اسکو آگاہ کرتے وہ انٹرنس پار کر گئے تھے۔
“ایسا بھی کیا ہو گیا ہے جو ہوسپٹل لے کر جا رہے ہیں؟۔۔ مر تو نہیں رہی تھی”۔ تبسم بڑبڑاتی گھر میں داخل ہوئی۔
“تبسم تمھیں کیا ہوا ہے؟؟ لگتا ہے کسی سے منہ ماری کر کے آئی ہو؟؟”۔ متضاد سمت سے آتی ممتاز نے بے زارگی ظاہر کرتے اندازہ لگایا۔
“آپا یہ واجد بھائی نین تارا کو ہسپتال کیوں لے کر گئے ہیں؟؟”۔ تبسم نے عادتا بال کی کھال نکالنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
“کیا؟؟ واجد نین تارا کو ہوسپٹل لے کر گئے ہیں؟”۔ تبسم کا تیر جیسے نشانے پہ لگا تھا۔
“آپا آپکو بھائی صاحب نے کچھ نہیں بتایا بھئی ایسا بھی کیا ہو گیا تھا جو آپکو بتانا مناسب نا سمجھا؟؟”۔ چور نگاہ ممتاز پہ ڈالتے وہ چیئر پہ سکون سے بیٹھ گئی جبکہ ممتاز آگ بگولہ ہوتی اپنے روم کی جانب گھومی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“نین تارا بہت مبارک ہو۔۔۔۔ اللہ کی ذات تمھیں اور احتشام کو یہ خوشی دیکھنا نصیب کرے۔۔۔ اللہ کا حکم ہوا تو میں بھی اپنے پرپوتوں کی صورت دیکھ لوں گی”۔ قدسیہ بیگم کے روم میں وہ قدسیہ بیگم کے سامنے بیڈ پہ بیٹھی تھی جب قدسیہ بیگم نے خوشی کا اظہار کرتے مزید کہا۔
“انشاءاللہ بی جان”۔ نین تارا کے چہرے پہ لال لالی تیزی سے آ سموئی تھی۔
“بی جان۔۔۔ بی جان آپ کیلیئے ایک سرپرائز ہے”۔ قدسیہ بیگم کے روم میں داخل ہوتے اسنے پرتپاک انداز میں کہا۔
“احتشام میرے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہمارے پاس بھی تمھارے لیئے ایک سرپرائز ہے”۔ نین تارا کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیئے قدسیہ بیگم نے متبسم انداز میں کہا پھر ہنس دیں جسے احتشام نا سمجھ سکا۔ ” بتاو تو کیا سرپرائز ہے؟؟”۔ احتشام کی متحیر ساکت نظریں نین تارا پہ تھیں جب قدسیہ بیگم نے دوبارہ سے کہا۔
“بی جان آپ اور پاپا کیلیئے جو عمرے کی ایپلیکیشن سبمٹ کرائی تھی وہ منظور ہوگئی ہے آج سے ٹھیک چھ دن بعد آپکی فلائٹ ہے۔۔۔ ہے نا سرپرائز؟؟”۔ پرجوش انداز میں ہاتھوں کے اشاروں کیساتھ اسنے تفصیل دی۔
“اس پاک پروردگار یکتا کا بہت بڑا احسان ہے کہ اسنے ہم جیسے گنہگار باسیوں کی فریاد سن لی اور اپنے حرم میں اپنے روبرو حاضری کا شرف بخشا”۔ بولتے ہی اسنے دعا میں ہاتھ اٹھاتے چہرے پہ پھیرے تھے۔
“اچھا اب آپ لوگ بتائیں میرے لیئے کیا سرپرائز ہے؟؟؟”۔ احتشام کے تجسس میں دگنا اضافہ ہوا۔
“احتشام پہلے تم بیٹھ جاو مجھے ڈر ہے کہ کہیں چکرا کے گر نا جاو”۔ قدسیہ بیگم نے شریر انداز میں کہا۔
“بولیں بھی بی جان اتنا سسپنس کیوں کریٹ کر رہی ہیں؟؟”۔ احتشام نے بے زارگی ظاہر کی۔ “چلیں بتائیں کیا بات ہے؟”۔ گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتے وہ قدسیہ بیگم کی جانب جھکا۔
“تم باپ بننے والے ہو”۔ قدسیہ نے دانستہ سرگوشی کی۔
نین تارا نے لاجونتی آنکھ سے احتشام کو دیکھا جسے دو سو واٹ کا کرنٹ لگا تھا۔
“سچ بی جان؟؟”۔ اسکا دل بہت کچھ کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر جیسے اسکا وجود خواب کی سنہری نگری میں کھڑا تھا اور اسے یقین نا آیا تھا۔
جوابا قدسیہ نے” ہاں” میں سر ہلا دیا۔
“او مائی گاڈ”۔ چلاتے ہی وہ سیدھا ہوا۔
“تھینک یو۔۔۔ تھینک یو ۔۔۔۔ تھینک یو۔۔۔ تھینک یو۔۔۔۔ تھینک یو۔۔۔ میری جان۔۔۔ میں بس ابھی آیا”۔ نین تارا کی پیشانی پہ پیار بھری پانچ مہریں ثبت کرتے وہ روم سے باہر کی جانب دوڑا جبکہ نین تارا قدسیہ بیگم کی موجودگی میں اسکی اس حرکت پہ مزید شرمندہ ہو گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“میں بہت خوش ہوں نین تارا۔۔۔ الفاظ کی عدم دستیابی کے باعث میں ان الفاظ کا چناو کرنے سے قاصر ہوں جو میرے دل میں پنہاں جذبات کو صحیح معنوں میں تم پہ آشکار کر سکیں ۔۔۔۔۔ میرا بس نہیں چل رہا ورنہ میں اس دنیا کو چیخ چیخ کر بتاوں کہ احتشام کی فیملی مکمل ہونے جا رہی ہے”۔ بیڈ پہ نین تارا کی گود میں سر رکھے اپنے چہرے پہ نین تارا کا جھکا چہرہ بڑی چاہت سے دیکھ رہا تھا جبکہ نین تارا اسکے پاگل پن پہ مسکرا رہی تھی۔
“بہت شکریہ نینی مجھے اتنی بڑی خوشی سے دوچار کرنے کیکیئے”۔ ہنوز پر لطف،،، سنجیدہ انداز۔۔۔۔سینے پہ لپٹے ہاتھ کو اسنے نین تارا کے چہرے کی جانب بڑھایا۔
“نینی”۔ پہلی بار احتشام کی زبان سے اپنے نام کی یوں ادائیگی اسے تھوڑی نادر لگی۔
“بی جان تمھیں اکثر اسی نام سے مخاطب کرتی ہیں ۔۔۔ کیا تمھیں میرا یہ نام لینا اچھا نہیں لگا؟؟”۔ بولتے ہی اسنے کنفرم کیا۔
“نہیں ایسی بات بالکل بھی نہیں ۔۔۔ دراصل آپ نے کبھی اس نام سے پکارا نہیں تو اس لیئے”۔
احتشام نے اپنا بائیاں ہاتھ بڑھاتے نین تارا کے سر کی پشت کو اپنے چہرے پہ جھکاتے اسکا چہرہ خود سے قریب کیا ہی تھا کہ روم کا دروازہ اچانک سے کھلا جس پہ احتشام بوکھلا کر اٹھ بیٹھا تھا۔
“سوری بیٹا بنا دستک کے ہی روم میں آ گئی۔۔۔ وہ میں نین تارا کیکیئے دودھ لائی تھی”۔ معذرت کرتے ہی اسنے ہاتھ میں پکڑے گلاس کی جانب اشارہ کیا۔
“کوئی بات نہیں ماما”۔ شرٹ کے بٹن بند کرتے وہ بیڈ سے اتر گیا تھا۔
“ارے تائی جان آپ کیوں لے آئیں میں خود لے لیتی”۔ ممتاز کا بدلہ رویہ اس کیلیئے نا قابل فہم تھا جبکہ یہ عمل اسکی سمجھ سے بالا تر۔
“نین تارا تم اس حالت میں کہاں تکلیف اٹھاتی ۔۔۔ میں نے سوچا خود ہی لے آوں”۔ گلاس نین تارا کی جانب بڑھاتے اسنے مزید کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آسمان پہ ہلکی ہلکی بدلی چھائی تھی جس سے سورج نصف چھپ گیا تھا۔
سندس اپنے روم میں نین تارا اور احتشام کی زندگی میں رونما ہونے والی نئی تبدیلی کو لے کر بے حد پریشان تھی۔
“سندس امی ناشتے کیلیئے بلا رہی ہیں”۔ تقی اسکے روم میں آ کر کہنے لگا۔
“تم جاو مجھے نہیں کرنا”۔ نفی کرتے اسنے منہ پھیرا۔
“آج سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تم نے یوں کھانے سے انکار کیا ہو۔۔۔ پھر آج کیوں؟؟”۔ تقی متحیر سا اسکے قریب آ کر کہنے لگا۔
“آج سے پہلے میرے ساتھ بھی تو ایسا کبھی نہیں ہوا”۔ رخسار پہ بہنے والے آنسوؤں کو پونچھتے اسنے افسردگی سے کہا۔
“تم احتشام اور نین تارا کی وجہ سے اپنا خون جلا رہی ہو؟؟”۔ اسکے چہرے کے تاثرات بھانپتے اسنے کنفرم کیا جس پہ اسے کوئی جواب نا ملا۔
“احتشام سے تو میں نے اپنا پرانا حساب برابر کرنا ہے۔۔۔ نین تارا کی وجہ سے اسنے میرے گریبان پہ ہاتھ ڈالا تھا یہ بات میں قطعا بھولنے والا نہیں ۔۔۔ تم فکر نا کرو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں ان دونوں کو ہرگز سکون سے نہیں رہنے دوں گا”۔ غصے میں بولتا وہ روم سے نکل گیا تھا۔
“اسے روکنا ہو گا یہ میرے احتشام کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔۔۔ نین تارا کو بھلے مار دے مگر میرے احتشام کو کچھ نا کرے”۔ سندس بڑبڑاتی بیڈ سے اٹھی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“نبیہا رکو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے”۔ اپنی فرینڈ کے ہم قدم وہ کلاس روم سے نکل کر کیفے کی جانب بڑھ رہی تھی جب عقب سے آتی آواز اسکی توجہ اپنی جانب راغب کرتے اسکے قدم وہیں روک گئی۔
“کیا ہوا شمون؟؟ کوئی پریشانی ہے کیا؟؟”۔ تیز تیز قدم اٹھاتا وہ اسکے مقابل آ کھڑا ہوا جب اسنے حیرت سے پوچھا۔
“وہ مجھے تم سے اکیلے میں بات کرنی ہے”۔ اسکے برابر کھڑی اریج کی جانب اشارہ کرتے اسنے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔
نبیہا کے اشارہ کرتے ہی اریج کیفے میں داخل ہو گئی تھی۔
“کہو کیا بات ہے؟؟”۔ سن گلاسز سر پہ ٹکاتے اسنے بازووں کو سینے پہ لپیٹا۔
“بات یہ ہے نبیہا کہ کل شام کلب کے باہر جس لڑکے سے تمھاری تکرار ہوئی تھی وہ میرا دوست ہے بلال”۔ سنجیدگی میں اسنے وضاحت کرنا شروع کی۔
“او تو وہ چیپسٹر تمھارا دوست ہے۔۔۔ تم تو اتنے سلجھے ہوئے ہو پھر ایسے لوگوں سے اپنی دوستی رکھ کے اپنی ایمیج کیوں ڈاون کر رہے ہو؟؟”۔ شمون کی بات پہ وہ حیران ہوئی پھر چہرہ پھیر لیا۔
“نہیں نبیہا وہ دل کا بہت اچھا ہے بس غصے کا تیز ہے۔۔۔ وہ بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے۔۔۔ اگر تم اسے سوری کر دو گی تو اسکا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا”۔ بات سنبھالتے اسنے بلال کی طرف داری کی۔
“وٹ؟؟”۔ شمون کی بات نے جیسے جلی پہ تیل ڈالا تھا۔ “سوری مائی فٹ ۔۔۔۔۔ اسے غصہ ہے یا نہیں ۔۔۔ وہ کیا چاہتا ہے کیا نہیں ۔۔۔ نن آف مائی بزنس۔۔۔ اوکے”۔ غصے میں بولتی وہ بھی کیفے میں داخل ہوئی۔
نبیہا کے جاتے شمون نے ناک کی سیدھ میں تھوڑا فاصلے پہ کھڑے بلال کو نفی میں سر ہلاتے معاملے سے آگاہی دی تھی۔۔۔ جس پہ اسکا خون مزید کھول اٹھا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
یونی سے چھٹی ہو گئی تھی۔۔۔ تقریبا ہر ڈیپارٹمنٹ آف ہو چکا تھا ایسے میں آنکھوں میں ہو رہی جلن سے اکتاتے وہ واش روم کی جانب بڑھی اس بات سے یکسر بے خبر کہ کوئی ازل سے اسکے تعاقب میں ہے۔
اپنے ڈیپارٹمنٹ کے اندرونی جانب بنے لیڈیز واش روم میں لگے بیسن پہ جھکے وہ منہ پہ پانی کے چھینٹے مار رہی تھی۔۔۔۔ ارد گرد ماحول کا جائزہ لیتے وہ بھی اسکے تعاقب میں واش روم میں داخل ہوا اور اسے لاک کر لیا تھا۔
پورے ڈیپارٹمنٹ میں ان دو کے علاوہ کوئی موجود نا تھا۔۔۔ دروازہ بند ہونے کی آواز پہ وہ بوکھلا کر سیدھی ہوئی۔۔ سامنے دیوار پہ لگے آئینے سے بلال کا عکس دیکھتے اسکے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی تھی۔
بلال کو اپنے عقب میں کھڑا دیکھ وہ بسرعت پلٹی۔
“ک۔ ک۔ کیوں آئے ہو تم ی۔ یہاں؟؟ اور ی۔ یہ تم نے دروازہ ک۔ کیوں بند کیا ہے؟؟”۔ اس کی جانب بلال کے بڑھتے قدموں پہ اسکی زبان میں لکنت پیدا ہوئی تھی۔۔۔ اسی وقت نبیہا کے وجود میں خوف کی سرد لہر دوڑ گئی۔
واش روم میں اسکی حاضر باشی پہ نبیہا کا داخلی وجود پوری طرح خوف سے لرز اٹھا تھا۔۔۔۔ شرٹ کے بٹن کھولنے کے بعد اب بلال کے ہاتھ بیلٹ کی جانب بڑھے تھے۔
بلال کا آہنی پیکر سینہ نبیہا پہ نمایاں ہوا جس سے اسکے خوف و ہراس میں بالمضاعف اضافہ ہوا تھا۔
“میرے پاس مت آنا ورنہ میں چلاوں گی”۔ ہاتھ کے اشارے سے وارن کرتی وہ جیسے خود کو تسلی اور اسے ڈراوا دے رہی تھی۔
“ہاہاہاہا۔۔۔۔۔ اس دن منع کیا تھا تمھیں کہ میری ہمت کو مت للکارو۔۔۔۔۔ تم نے نہیں سنا اور میرے منہ پہ طمانچہ مارا دیا جسکے نشان لکیلی اب میرے چہرے سے مٹ چکے ہیں ۔۔۔۔۔ مگر اب جو داغ میں تمھارے کردار اور عزت پہ لگاوں گا نا،،، دنیا کی کوئی طاقت اسے صاف نہیں کر سکتی۔۔۔۔ اس تھپڑ کا اذالہ تمھیں اپنی عزت گنوا کر ادا کرنا ہو گا”۔ بے ہنگم قہقہ لگاتے وہ قدم اٹھاتا اسکے بالکل قریب جا کھڑا ہوا پھر اسکی کمر کو جھٹکا دیتے اسے خود سے قریب کیا تھا۔
نوٹ: یہ دنیا مکافات عمل ہے۔۔ زنا اور ریپ گنہاہ کبیرہ ہیں اس کی سزا عدیم الوجود ہے(بہت بڑا عذاب)۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆