یہ دشتِ ہجر، یہ وحشت، یہ شام کے سائے
خدا یہ وقت تیری آنکھ کو نہ دکھلائے
اس وقت اسے نگہداشت میں رکھا گیا تھا۔ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اس پر اب تک بے ہوشی طاری تھی جب کہ بائیں ٹانگ ـــ جس پر زخم بھی زیادہ ہو چکا تھا اور ہڈی تین جگہ سے ٹوٹ چکی تھی ـــ اب بالکل بے جان تھی۔ اس کے پاس سے ملنے والے والٹ سے اس کا پتہ معلوم کیا گیا تھا۔ لمحۂ شکر یہ تھا کہ زوئنہ وقت پر اس کے پاس پہنچ گئی تھی۔ وقت بہ وقت ڈاکٹرز اس کا معائنہ کرنے آتے تھے۔ بے ہوشی کے عالم میں بھی وہ بڑبڑا رہا تھا۔
زوئنہ نے اپنے والد کو ساری صورتِ حال سے آگاہ کر دیا تھا۔ وہ بھی پہلی فلائٹ سے پہنچنے والے تھے۔ مگر زوئنہ کے لیے یہ کم نہ تھا کہ وہ اکیلی تھی۔ سجاول زمان چاہے اب ڈاکٹرز کی نگہداشت میں تھا لیکن پھر بھی زوئنہ اسے باتوں سے بھی ڈھارس نہ دے سکتی تھی سو اس وقت اسے کسی اور کی بھی ضرورت تھی جو سجاول کے ساتھ اسے بھی سنبھال لیتا۔ و ہ اتنی ہی تھوڑے دل کی مالک تھی۔ بہت دیر اس کے پاس چکر لگانے پر جب وہ تھک گئی تو وہاں موجود سسٹر(نرس) کو اپنا نمبر تھما کر وہ گھر کی طرف چلی گئی۔ جبکہ سجاول زمان۔۔۔
اس کے لیے تو اب شاید یہ وقت بہت محنت سے لکھا تھا تقدیر نے کہ اس وقت کی ابتداء ہی نے اسے گہرے گڑھے میں دھکیلا تھا۔
وہ بے ہوشی کےعالم میں بھی اس کو یاد کر رہا تھا جسے ہم پیار سے کبھی ماں کہتے ہیں تو کبھی امی۔۔۔ کبھی وہ ہمارے لیے مما ہوتی ہے تو کبھی اماں۔۔ ایک ہی ہستی کے اتنے پیارے نام۔۔ ہستی بھی وہ جو ہمیں سینچ سینچ کررکھتی ہے ۔ اپنی جان صرف کر دیتی ہے ایک ایک عضو تراشنے میں۔ اور جب عضو تراش لیتی ہے تو اپنی جان کی بازی لگا کر جنم دیتی ہے۔ اور جنم دے کر تو جیسے اس کے جان ہی ہم میں اٹک جاتی ہے۔ ایک ایک خواہش روپ بدل کر اپنے ہی بچے کی خواہشوں میں ڈھل جاتی ہے۔
اللہ کے بعد اگر کوئی یاد آیا کرتا ہے تو وہ ہے ‘ماں’۔ وہ بھی اسی ہستی کو یاد کر رہا تھا۔اس کے پاس تو کچھ رہا ہی نہ تھا۔ اپنا وجود بھی پرایا ہو چلا تھا اب تو۔کوئی آ کر اس سے پوچھتا کہ کس تکلیف میں ہے وہ۔ کیا قصور کیا تھا سجاول زمان نے کہ اسے اس قدر کڑی سزا دی گئی تھی۔ وہ جتنا روتا اس زیاں پر، کم تھا۔ کس طرح ایک دم سے اپنے ہی وجود پر بوجھ بنا تھا وہ۔ کس کی بد دعا لگ گئی تھی اسے۔ کس کی آہ نے اسے اس حال میں پہنچایا تھا۔۔
اور وہ کب جانتا تھا کہ کوئی اپنی سسکیوں سے اور آنسوؤں کی شدت سے اس کی زندگی کی دعائیں مانگا کرتا ہے۔۔ وہ جانتا ہی کب تھا کہ اس سرخ آندھی کا اشارہ کسی کو بہت عرصہ پہلے ہی کا دے دیا گیا تھا۔۔ پھر کون سی بد دعائیں اور کیسی آہیں۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شام کا وقت تھا اور یہ وقت ایسا ہوتا ہے جب بھولے بسرے بھی گھرو ں کو لوٹا جایا کرتے تھے۔ بڑی حویلی میں بھی اس وقت سب لوٹنے کو تھے۔ مرد حضرات رات دیر تک آنے والے تھے مگر جبل، حبل لوٹ رہے تھے۔ سات دن مصروف ترین گزار کر یہ دو دن ــ ہفتہ اور اتوار ــ وہ حویلی میں گزارا کرتے تھے۔آمنہ بیگم نمل کے ساتھ زہرہ بی کی مالش کر رہی تھیں جو کہ اب معمول بن چکا تھا۔ زہرہ بی بھی رو بہ صحت تھیں کہ لقوہ تو آرام پا گیا تھا مگر فالج کا اثر ابھی بھی تھا۔ جس کی وجہ سے دن میں کئی باران کا مساج کیا جاتا تھا۔ کشور بیگم ناساز طبع کے باعث کمرے میں لیٹی تھیں اور فجر، منال کے ساتھ بیٹھی کوئی مووی دیکھ رہی تھی۔ غنویٰ اور اجر لاؤنج میں بیٹھی تھیں اور قدسیہ بیگم رانی کے سر پر کھڑی یخنی بنوا رہی تھیں۔
“سانول کی کال آئی کیا؟” قدسیہ بیگم کچن سے نکلیں تو سامنے کھڑی اجر سے سوال کیا۔
“جی آئی تھی۔ سلام کہہ رہے تھے” اجر نے آہستہ سے جواب دیا اور سر پر دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی۔ جب سے نکاح ہوا تھا اسی دن سے قدسہ بیگم کی نگرانی بھی سخت ہوتی گئی تھی اور اس کی تربیت میں جو کمی ـــ ان کے خیال میں رہ گئی تھی ـــ وہ اب پوری کرنی لازمی تھی۔
“میرا دل پتہ نہیں گھبرا سا رہا ہے بہت دن سے۔ سوچ رہی ہوں آج جبل آتا ہے تو اس سے کہہ کر آواز ہی سن لوں اس کی” انہوں نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
“میں کروا دیتی ہوں بات” اجر نے فوراً سےموبائل اٹھا کر نمبر ملایا جو کہ بند ملا۔ وہ مایوسی سے ان کی طرف دیکھنے لگی۔
“مجھے لگتاہے مصروف ہو گا۔ نمبر بند جا رہا ہے”
“نہیں مصروف نہیں ہو گا۔ نمبر ہی بدل لیا ہو گا۔ اسے اب ہماری کیا ضرورت ہے بھلا۔ اب ہم سے اسے مطلب بھی کیا ہے” قدسیہ بیگم ایک دم سے بدگمان ہوئیں ۔ انتہائی افسردگی سے کہہ کر اٹھیں اور اپنے کمرے کی جانب چل دیں۔ وہاں بیٹھی اجر اور غنویٰ اچھے سے جانتی تھیں کہ وہ اب کمرے میں رونے کا سیشن پورا کرنے والی تھیں۔
“آج آپ خود جبل سے کہہ کر بات کروا دیجیے گا تائی امی کی” غنویٰ نے افسردہ سی اجر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے متوجہ کیا۔
“میں خود بھی بات کرنا چاہتی تھی۔بہت دن ہوگئے وہ تو آن لائن بھی نہیں ہوا واٹس ایپ پر۔ ورنہ فارورڈ میسج ہی سہی پر کرتا ضرور ہے۔ فکر سی ہو رہی تھی۔ ویسے تو مجھے پتہ ہے وہ زوئنہ کے ساتھ وزٹ ویزہ پر گیا ہوا ہے۔ لیکن میں حیران ہوں ایسا بھی کیا غائب ہونا۔ ” اجر سمٹی ہوئی سی بیٹھی تھی۔ سب کے دلوں میں جو ایک ڈر تھا جانے کس چیز کاتھا۔ اور جس سے وہ ڈر بانٹ رہی تھی اسے تو جانے کب سے یہ خوف چمٹے ہوئے تھا۔ اب دل مزید گہرائیوں میں غوطے کھانے لگا تھا۔
“آپی اتنی سی بات پر کیوں پریشان ہو رہی ہیں ۔ وہ لوگ اکٹھے ہیں وہاں اور گئے بھی تو انجوائے کرنے ہیں نا۔ تو آپ فکر کیوں کر رہی ہیں۔ بس دعا کریں سب ٹھیک ہو اور اللہ سے اچھے کی امید رکھیں۔” غنویٰ نے خود کی کیفیت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اسے سمجھایا ۔
“یہ آج گھر سائیں سائیں کیوں کر رہا ہے ہمارا” جبل اور حبل اچانک ہی کہیں سے ٹپک پڑے تھے۔
“ابھی تم لوگوں کا ہی ذکر ہو رہا تھا ۔ دیکھ لو شیطان کا نام لو تو وہ حاضر” اجر ایک دم کھلکھلاتی ہوئی بولی۔
“میں آپ کے بات گھمانے سے کیا مطلب لوں؟”جبل سامنے صوفے پہ تقریباً گرتا ہوا بولا۔
“آپ کے جگری یار کی طرف سے کافی دن سے کوئی اپ ڈیٹ نہیں ہے۔ ” کمیل جو کچھ دن سے گھر پر ہی موجود تھا ان کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا۔
“ہمم۔۔ ” جبل اور حبل نے نگاہوں کا تبادلہ کیا ۔غنویٰ نے انہیں پانی پکڑایا تو دونوں نے بغیر لڑے جھگڑے پانی پیا تھا۔ غنویٰ ٹھٹکی۔ کچھ بھی نارمل نہیں لگ رہا تھا۔
“آج تھکےہوئے لگ رہے ہیں۔ سفر زیادہ ہی طویل تھا کیا” کمیل نے انکو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“ابھی تو سفر کی طوالت شروع ہوئی ہی ہے میری جان” جبل نے اپنا کوٹ اٹھایا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ حبل خاموش سا بیٹھا تھا۔
“بھائی۔۔” کمیل نے اس کا کندھا ہلایا تو وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
“میں بھی ذرا آرام کروں گا پھر کرتے ہیں بات” کمیل اور غنویٰ نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اسے جانے دیا۔
لو چل دیئے وہ ہم کو تسلی دیئے بغیر
اک چاند چھپ گیا ہے اجالا کیے بغیر
آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارہ کیا اور خود بھی اس کے پیچھے ہی لاؤنج سے نکلے جبکہ اجر وہیں خود میں سمٹی ہوئی بیٹھی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اے فاحشہ مزاج تماشا خرید لا!!
گھنگرو سجا لے پاؤں میں ، باجا خرید لا
وہ دونوں کمرے میں بنا اجازت کے داخل ہوئے تو دیکھا کہ جبل بغیر کپڑے بدلے اور جوتے اتارے بیڈ پریوں دراز تھا کہ بازو سر کے نیچے باندھ رکھے تھے اور پاؤں اب بھی بیڈ سے نیچے ہی تھے جبکہ حبل کمرے میں یہاں سے وہاں چک کاٹ رہا تھا۔ ایک دوسرے کا عکس تھے وہ دونوں ۔ ایک دم ہو بہو کاپی۔ غنویٰ کو کبھی کبھار تو خود پر رشک آتا۔ قسمت نے اس سے بہت کچھ چھینا تھا تو اتنے حسین رشتے بھی تو عطا کیے تھے۔ ماں اور باپ الگ۔۔ مگر جو سانس ان دو کو دیکھ کر آتا تھا وہ بیش قیمت تھا۔ اگر وہ اس پر جان تک قربان کرنے کو تیار رہتے تھے تو غنویٰ بھی کہاں کم تھی ان سے۔ ایک پر سکون سی مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کیا۔
” آہمم۔۔ میرا خیال ہے ہم نے ڈسٹرب ہرگز نہیں کیا کیونکہ آپ آل ریڈی پھدک رہے ہیں” کمیل نے زبردستی کی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔ ڈر تھا کہیں گردن سے پکڑ کر سانس ہی نہ دبا دیں کیوں کہ ان سے کچھ بعید بھی نہ تھا۔
“آؤ بیٹھو۔”جبل جو واقعی کو سخت جواب دینے والا تھا ۔ کمیل کے پیچھے غنویٰ کو آتا دیکھ کر سیدھا ہو بیٹھا ۔
“فریش نہیں ہوئے آپ لوگ۔ کھانا لگ جائےگا تب ہوں گے کیا؟” غنویٰ نے مصنوعی رعب دکھایا تو دونوں ہی ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھنے لگے۔
“یوں کیوں دیکھ رہے ہیں” غنویٰ نے ہول کر دونوں پر نظر کی۔ کمیل بھی ان کے انداز دیکھ رہا تھا جن میں بے چینی بھری تھی۔ اوور وہ دونوں۔۔۔
وہ کیسے بتاتے دل کی بے چینی کا سبب کیا ہے۔ نہ تو لفظ تھے پاس نہ ہی کوئی ہمدردی کے بات کہہ جائیں تو بات کو سنبھالا کیسے جائے۔ بس یہی سوچا جا رہا تھا کہ کوئی اور آئے اور یہ خبر سب کے کانوں میں پھونک جائے۔
میرے جنونِ عشق کی رانی تو مر چکی
بازار سے ، تُو جا، کوئی راجا خرید لا
کمیل نے ان کو چہرے دیکھے اور بات آگے بڑھانے کو الفاظ تلاشنے لگا۔ یہ بھی عجب بات تھی کہ دل جانے کیوں فضول سے فضول وسوسے کیوں ڈال رہا تھا۔ ایسا ہونا لازمی تھا کیا کہ جس شخص کو اتنا چاہا جائے اس کے لیے خون کی گردش ایک دم ایسی صورتِ حال پیدا کر دے ۔۔ اتنی تیز ہو وہ گردش کہ خود کو اس گردش میں گم ہوتا پایا جائے۔ کہاں سے وہ الفاظ ملتے کہ ادا کیے جا سکتے۔ اب بھلا کیسے وہ اس کا پوچھتا جسے کچھ ہی ماہ پہلے وہ سج دھج کر بیٹھے دیکھ کر آیا تھا ۔ اس کے لیےو ہ اتنا سنگین سوچ بھی کیسےرہا تھا۔ لو بھلا۔۔ ایسا بھی کچھ ہو سکتا ہے۔۔
جذباتِ عشق گہرے سمندر میں ڈال دے
تُف ایسی بے بسی پہ، کنارا خرید لا
غنویٰ جو پہلے ہی وسوسوں کا شکار تھی اب ان کے پرسوچ سے چہرے دیکھ کر ہولنے لگی تھی۔ یہ بھلا ان کو کیا ہوا۔ یہ دل الگ اودھم مچا رہا تھا اور دماغ اس کی سب دلیلوں کو رد کیے دے رہا تھا۔ دماغ بھی کتنا ظالم ہو جایا کرتا ہے اکثر ۔ دل کہہ رہا تھا کہ سب ٹھیک ہی ہوگا۔ ہمیشہ خواب بری تعبیر کے ساتھ ہی نہیں نازل ہوا کرتے۔ اور دماغ تھا کہ تعبیر پر مہر لگی دیکھ رہا تھا۔ اب کیا بھی کیاجاسکتا تھا اگر وہ کچھ بولتی بھی تو کس بل بوتے پر۔
نیلام کر دے رات کی یہ زرد چاندنی
سورج کے دام ،صبح کا تارا خرید لا
جبل اور حبل ایک ساتھ بیٹھے سوچ میں گم تھے جب اچانک سر اٹھا کر جبل نے پہلے کمیل کو دیکھا پھر غنویٰ کو۔
“یہ طے کر لو کہ اس کمرے میں جو بھی بات ہو گی وہ ہم چار لوگوں کے درمیان رہے گی۔ ” غنویٰ اور کمیل ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
“بہ شرط یہ کہ جو بھی بوت ہو وہ چھپانے والی ہی ہو” غنویٰ نے کہا۔
“زہرہ بی کی حالت کا بھی ہمیں اندازہ ہے۔ ہم ان کے سامنے ایسی کوئی بات نہیں کریں گے جو ان کی صحت پر اثر انداز ہو۔ تایا ابا کی حالت کا بھی ہمیں اندازہ ہے اور تائی ماں بھی آج کل آئے روز بیمار ہو جاتی ہیں۔ سو یہ لکھ لو کہ اگر تم دونوں میں سے کسی ایک نے بھی بات لیک کی۔۔ وہ ہماری ٹیم سے آؤٹ” حبل نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
“ہوا کیا ہے؟” کمیل پریشان نظر آتا تھا۔ جبل اور حبل نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ حبل اٹھ کر الماری تک گیا کپڑے نکالے اور باتھ روم میں بند ہو گیا ۔ وہ دونوں اب ماتھے پر تیوری ڈالے ان کی طرف دیکھنے لگے تھے۔
“میں بتا دیتا ہوں۔ اس سے نہیں بتایا جائیگا۔ آخر ہے نا مجھ سے آدھا گھنٹہ چھوٹا” جبل اس موقع پر بھی طعنہ مارنے سے باز نہیں آیا تھا۔
“آپ لوگ بات بتا رہے ہیں یا ڈرامہ ہی کیے جانا ہے؟” غنویٰ نے تیوری چڑھا کر پوچھا تو وہ سیدھا ہوا۔
“سجاول انگلینڈ گیا ہوا ہے آج کل” اس نے بات کا آغاز کیا۔
“ہم جانتے ہیں یہ بات۔ بھیا نے واٹس ایپ پر اسٹوری لگا رکھی تھی۔ اگلی بات بولیں” کمیل نے کہا۔
“پرسوں کچھ لوگوں نے اسے ریسکیو کیا ہے” جبل انتہائی سنجیدہ تھا جبکہ غنویٰ کا دل حلق کو آیا تھا۔
“کیامطلب؟” لا شعوری طور پر وہ فوراً بولی۔
“اللہ جانے کسی نے بہت بری طرح اسے پیٹا ہے۔ بائیں ٹانگ فریکچر ہے۔ کمر کا ایک مہرہ بھی ہل چکا ہے۔ تین دن سے وہ نگہداشت میں ہے کیونکہ ایک تو خون بہنے کی وجہ سے ٹانگ بھی بے جان ہوئی پڑی ہے دوسرا وہ خود بھی ابھی تک ہوش نہیں سنبھال پایا۔ ” جبل بات مکمل کر کے ہونٹ پر ہونٹ جمائے بیٹھ گیا جبکہ کمیل بالوں کو جکڑ کر بیٹھا تھا۔ دل کے اندیشے کیسے سچ ہوئے تھے ۔ وہ کیا جانتا تھا اس کا آئیڈیل بھیا اس حال میں بھی پہنچے گا کبھی۔ اس وقت اسے فخر زمان سب سے زیادہ ظالم نظر آتے تھے۔ نہ تو وہ اس کے ساتھ زبردستی کرتے نہ وہ اس لڑکی کے ساتھ باہر کسی ٹور پر نکلتا اور نہ ہی آج وہ اس حال میں ہوتا۔
غنویٰ۔۔۔
اس کا تو مانو یوں حال تھا گویا خون ایک دم سے نچڑ چکا ہو۔ اس کے لیے کیسا مشکل لمحہ تھا کہ اس وقت اس کے بھائی اس کے سامنے موجود تھے۔ وہ ان کے سامنے اپنے دل کی حالت عیاں کرسکتی تھی اور نہ ہی وہ حالت چھپنے والی تھی۔ اس کا دل چاہا وہ وہاں سے غائب ہو جائے۔ کسی کی نظر اسے تلاش نہ کر پائے۔اور وہ سوچ بھی کیا سکتی تھی۔ اس کے خواب کیسی تعبیر لائے تھے وہ تو خالی ہاتھ ہی رہ گئی تھی۔ اسے ایک دم سے لگا اس کی دعائیں بھی اس کو واپس لوٹا دی گئی ہیں۔
ارزانیوں پہ اپنی پشیماں ہے کس قدر
اے میرے خواب! اس کا سراپا خرید لا
“سانول لالہ سے ساری بات شئیر کی ہے ہم نے۔ ہمارا جانا تو مشکل ہے کیونکہ ظاہر ہے ہمیں ایک تو چھٹی ملنا مشکل ہے دوسرا ابھی ویزا کے لیے اپلائے بھی نہیں کیا ہوا۔ جبکہ لالہ ادھر ہیں تو وہ اس کا خیال کر لیں گے جب تک وہ وہاں ہے۔ پھر پاکستان آنے تک گھر میں حالات سازگار کرتے ہیں ۔ کوشش کرو زہرہ بی بھی اس کے آنے سے پہلے سنبھل جائیں۔ گھر میں آہستہ آہستہ اس بات کو کلیئر کرنا ہے۔ایک دم کسی سے ذکر مت کرنا۔ اور کمیل کوشش کرو کہ تم اور غنویٰ مل کر فجر، نمل کو سمجھا دو۔ آگے کیسے حالات آنے والے ہیں ہم نہیں جانتے۔ بہتر ہے ان حالات کی تیاری شروع کردو۔ اور تایا ابا کا خصوصی خیال رکھنا پڑے گا۔ اس بات سے وہ سب سے زیادہ تاثر ہونے والے ہیں” حبل اپنے قمیص کی آستین فولڈ کرتا ہوا ان کے پاس آ کر بیٹھا پوری تفصیل بتا رہا تھا۔
“ہو سکتا ہے کہ سجاول کے لیے یہ فیز انتہائی شاکنگ ہو۔ اور یہ ظاہری سی بات ہے کہ ہو گا بھی۔ وہ اس کی بیوی جانے کیسے کال کا جواب دے گئی تھی پرسوں۔ اب آج کال کی ہے تو محترمہ کو کچھ علم ہی نہیں ہے کیونکہ وہ وہاں موجود ہی نہیں تھیں۔ اسی وجہ سے سانول لالہ سے کہا ہے وہ جا کر پتہ کرتے رہیں ۔ اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ لالہ وہاں ہیں۔” جبل نے کہا اور فریش ہونے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
یوسف کو بیچ مصر کی بازار گہ کے بیچ
یونان سے تُو، زہر کا پیالہ ،خرید لا
وہ اٹھی اور چادر درست کرتی غائب دماغ سی باہر کی جانب چل دی۔ سب ہی اپنی سوچوں میں مگن تھے ورنہ اس کا حال نظر انداز کیا جانے والا نہ تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پریشاں رات ساری ہے، ستارو! تم تو سو جاؤ
سکوتِ مرگ طاری ہے،ستارو تم تو سو جاؤ
سب اپنے کمروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ دلوں پر اداسی نے قبضہ جمایا ہوا تھا اور جو کچھ دل اس اداسی کا سبب پا گئے تھے ان کی بے چینی سوا ہو رہی تھی۔انہی دلوں میں سے ایک دل وہ بھی تھا۔ ہر طرح کا اشارہ اس دن سے پا جانے والا جس دن ‘اسے’ کسی اور کا کیا گیا تھا۔ کوئی آتا اور کہہ جاتا کہ نہیں بھئی یہ جو بھی سنا وہ غلط تھا۔ یہ جو بھی کہا وہ جھوٹ تھا۔ بھلا اس شخص کا کیا قصور تھا کہ اسے اس حالت میں پہنچایا گیا۔ کیا کیا اس نے بھلا۔۔۔ سوچنے سے بھی کسی سوچنے والے کو اس کا گناہ نہ نظر آتا تھا۔
“اب تک جاگ رہی ہو” اس کے پاس سے آواز آئی تو وہ جو سوچوں میں مگن خالی آنکھوں سے نیلے آسمان پر موجود چودھویں کے اداس سے چاند کو دیکھ رہی تھی چونکی۔دائیں طرف دیکھا تو جبل کو بیٹھے پایا۔ ایک نظر دیکھ کر دوبارہ چاند کو گھورنے لگی۔
“وقت پر بتا دیتیں تو میں اسے کسی اورکا ہونے ہی نہ دیتا”وہ بولا تو لہجے میں شکوہ گھلا تھا۔ جہاں وہ حیران ہوئی وہیں اسی حیرانی کو چھپانے کی تگ و دو بھی کرنے لگی۔
“اب تو جو بھی کرلو میں تمہاری ہر حرکت کو نوٹ کر لیتا ہوں۔ نہیں یقین تو حبل سے پوچھ لینا اسے بھی سب معلوم ہے” اس نے شال میں چھپی غنویٰ کو طنز سے دیکھا۔
“اب یہ سوچ رہی ہو گی کہ میں نے پہلے کبھی ظاہر نہیں کیا” وہ بولا تو غنویٰ اس کی طرف دیکھنے لگی۔
“میں نے ایسا کچھ بھی نہیں سوچا جبل۔ تم آرام کرو جا کر” وہ اٹھنے لگی تو جبل نے کلائی سے پکڑ کر دوبارہ بٹھایا۔ گویا آج اسے عقل دے کر اٹھے گا۔
“تم یہاں بیٹھو۔ اور یہ جو بھائی سمجھ کر بھی مجھ سے اور حبل سے بھاگتی ہو نا ۔۔ اس عادت کو ٹھیک کرو۔ ” اس نے زبردستی اسے وہاں بٹھایا۔
“اب بات جہاں آتی ہے کہ سجاول کے لیے تم نے زبان نہیں کھولی تو وہیں بات یہ بھی آتی ہے کہ بے وقوفی کرنے کی ایک حد ہونی چاہیے۔ لیکن سیریسلی میں حیران ہوں کہ تم سے کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں جو امید کرتا ہو اس حد تک کی جانے والی بے وقوفی کا” وہ بولا تو غنویٰ الجھ کر اسے دیکھنے لگی۔
“شاہیر ہے نا تمہارے کزن کا نام” اس کی آواز میں غصہ بھرا ہوا تھا۔ اس ایک ہی فقرے سے اسے ساری بات سمجھ میں آگئی تھی۔گردن موڑ کر دوبارہ سے بدلیوں میں چھپتے چاند کو دیکھنے لگی۔
“کس نے کہا ہے ایک دم ایسا بے وقوفانہ فیصلہ کرنے کا؟ جب امی اور ابو ہی Satisfy نہیں ہیں تو تم کس ضمانت پر ایسی حرکت کر رہی ہو۔ کیوں زور دیا کہ اسی جگہ ہاں کی جائے؟ ابھی کہاں عمر نکلی جا رہی ہے تمہاری کہ اگلے کسی رشتے کے لیے انتظار نہیں ہو سکتا؟” وہ اسے پہلی دفعہ اتنے غصے میں دیکھ رہا تھا۔
“غنویٰ صغیر احمد صاحبہ!! ابھی آپ کے دو جوان بھائی موجود ہیں اور الحمداللہ ابھی آپ کے والدچودھری شیرزمان صاحب بھی حیات ہیں کہ وہ آپ کے لیے جو مناسب سمجھیں وہ فیصلہ کریں۔سو بہتر یہ ہے آپ کے لیے کہ آپ جو ایک سجاول زمان کی سوچوں سے پیچھا چھڑانے کو یہ حرکت کر رہی ہیں اسے بے کار ہی جانئے۔ زندگی میں ایسے بہت سے مواقع آئیں گے کہ آپ کو کسی اور گھر میں ہونے کے باوجود اس گھر میں اور وہ بھی سجاول زمان کےسامنے آنا ہی پڑے گا۔ اسے دیکھنا بھی پڑے گا ۔ ” غنویٰ کی کلائی اب بھی اسی کے ہاتھ میں تھی۔ وہ اٹھا اور اسے لیے کچن کی طرف بڑھنے لگا۔وہ چپ چاپ کھنچتی چلی جا رہی تھی۔
“بلی کے آجانے پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے کچھ نہیں ہو ا کرتا۔ صرف اپنی جان کا زیاں ہے یہ۔ہم جتنا بچتے ہیں کسی چیز سے ، اتنا ہی اس چیز کو خود پر حاوی کر لیتے ہیں۔ ہماری آدھی سے زیادہ زندگی اسی ایک سوچ میں گزرتی ہے پھر۔ کیا فائدہ ایسے خسارے کا پھر؟ ہم خود کہاں رہ گئے اس سود وزیاں میں ؟ ہم اپنا وجود ہی گھول لیتے ہیں اس ایک دکھ میں کہ یہ ہوکیا گیا ہے ہمارے ساتھ۔۔ اب تو یہ ٹھیک ہو ہی نہ پائے گا۔ اب تو زندگی کا انت (اختتام) ہو گیا ہے۔کیوں؟ ہم انسان ہیں بھئی۔ ایک سے ایک اچھا حل نکالا جا سکتا ہے۔پھر وہ ہی کیوں سوچنا جو ہمیں بھی تکلیف دے اور ہم سے منسلک لوگوں کو بھی؟ ” جبل نے ایک کرسی کھینچ کر اسے بیٹھنےکا اشاہ کیا اور ایک کیبنٹ میں سے اسی کے بنائے گئے بسکٹس اٹھا لایا۔
“یہ غلط بات ہے غنویٰ۔۔ یوں سوچ لیا تھا کہ تمہیں اس سے بچنا ہے تو بہت ہی اچھا سوچا تھا۔ لیکن اس سوچ کے بعد کی ہر سوچ غلط تھی تمہاری۔یہ کہاں کہا گیا ہے کہ ایک نامحرم سے بچنے کا یہی ایک راستہ ہے؟ تم بہت ہی غلط قدم اٹھانے جا رہی ہو یہ بات میں لکھ کر بھی دے سکتا ہوں۔ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ ریاض آنٹی کیسی ہیں۔ پھر بھی یہ فیصلہ ۔۔۔” وہ بسکٹ پر بسکٹ کھاتے ہوئےبول رہا تھا جب غنویٰ نے اس کی بات کاٹی۔
“تم تفصیل میں جانے کی بجائے بھی مجھےاس بات کا اصل مقصد بتا سکتے ہو”
“ہاں ں ں ۔۔ یہ میں نے سوچا ہی نہیں کہ دماغ تو ہماری غنویٰ کے پاس ایکسٹرا بھی پڑا رہتا ہے” ایک اور بسکٹ کترتے ہوئے وہ بولا۔
“جبل پلیز۔۔ “وہ چڑی۔
“اچھا ویسے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ فجر اور نمل کا اثر تم پر اتنی جلدی ہو گا کہ ہر چھوٹی بات پر چڑنے لگو گی۔لیکن خیر۔۔ آخر ان کی نند ہو۔۔کچھ تو اثر لینا ہی تھا تم نے” وہ اٹھا اور پانی گلاس میں ڈال کر غٹا غٹ چڑھا گیا۔غنویٰ اس ایک بات پر چپک کر پھر سے بیٹھ گئی تھی کہ اب وہ طعنہ مارنے میں شیر ہو گیا تھا۔
“بات یہ تھی میری محترم اور بے وقوف بہن صاحبہ کہ ان کی طرف انکار کہلوا دیا جائیگا کل۔ یہ ابو ، میرا اور حبل کا مشترکہ فیصلہ ہے۔ امی نے بہت کوشش کی تمہاری طرف داری کریں پر چونکہ میں تم سے تین سال سینئر ہوں سو امی کو میرے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے ہی بنی۔ اور چونکہ تم مجھ سے تین سال چھوٹی ہو سو میری بات کو حکم سمجھو اور چپ کرکے بیٹھی رہو تب تک جب تک کوئی اور اچھا رشتہ نہیں آ جاتا۔” وہ اس کے سامنے سے اٹھ کر اب فریج کے ساتھ والی شیلف سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
” جہاں تک بات ہے سجاول زمان کی۔۔ تو غنویٰ صغیر احمد صاحبہ!! ہم جب کسی چیز کو خود پر حاوی کرتے ہیں تبھی وہ ہمیں دباؤ میں رکھتی ہے۔ جس دن تم اس حویلی میں آئی تھیں نا غنویٰ۔۔ اس دن میں نے تمہیں ایک ایسی کیفیت میں دیکھا تھا کہ دل کیا تھا دنیا کی ہر عورت کو ایسا بنا دوں۔ ایسا کہ کسی مرد کو اس کے دل تک رسائی نہ ہو۔ اور جانتی ہو سجاول زمان کو اس دل تک رسائی کیوں ہوئی؟ کیوں کہ تمہارے دل میں جونک نے راستہ بنا لیا تھا۔ اب اس کا حل جانتی ہو کیا ہے؟ ” وہ اس کی طرف دیکھنے لگا جو گردن جھکائے بیٹھی تھی۔
“اس کا ایک واحد حل یہ ہے کہ خودکو مصروف کرو۔ اتنا مصروف کہ آج اگر زبردستی سوچ اپنا راستہ بنا رہی ہے توا سے زبردستی جھٹک دو۔ ایسا کر لو خود کو کہ کل اگر وہ تمہارے سامنے بھی کھڑا ہوتا ہے تو تم اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر پاؤ۔تم جھجکو نہیں۔ جیسی پہلی تھیں تم۔۔ ایک تمکنت تھی تم میں۔ اب جانے کہاں کھو بیٹھی ہو کہ مجھے وہ والی غنویٰ اب نہیں نظر آتی تم میں۔ خود کو لچک دار مت بناؤ کسی مرد کے لیے۔ مرد بھی وہ جس کا خیال تمہیں ایک آسیب کی طرح چمٹ گیا ہے۔ اس آسیب سے کوئی تعویز دھاگا نجات نہیں دے گا تمہیں۔ اس آسیب سے تمہیں تمہاری مصروفیت تمہاری بے اعتنائی نجات دے گی۔ پھر تم خود دیکھو گی کہ اب کی حالت اس وقت تمہیں ہنسنے پر مجبور کر دے گی۔ہر مسئلے کا حل اس مسئلے سے بھاگنا نہیں ہوتا ۔ ڈٹ کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس مسئلے کے وجود سے انکار کر دینا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ ”
وہ آہستہ آہستہ چلتا اس کی طرف آیا اور اس کے شال میں ڈھکے سر پر ہاتھ رکھا۔
“امید کرتا ہوں کہ سمجھ چکی ہو گی میری ہر بات کو۔ اور آئیندہ مجھ سے یا حبل سے ہر معاملہ ڈسکس کیا کرو گی تم۔ امی سے کچھ بھی نہیں کہنا۔ پہلے ہمیں بتاؤ گی ہم سے مشورہ لو گی پھر آگے بات ہم مل کر پہنچایا کریں گے۔ کلیئر؟”
غنویٰ نے سر ہلایا تو وہ آگے بڑھ گیا۔ جبکہ اس کی آنکھ سے ایک ننھا قطرہ آزادی پا کر بدلے میں اسے قلب کا سکون دان کر گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک ماہ اور پانچ دن۔۔
ہاں اتنا ہی وقت ہو چکا تھا ۔ وہ اس بستر ہی کا ہو کر رہ گیا تھا۔ کہاں وہ شان سے ایک ایک قدم دھرنا اور کہاں یہ ایک قدم کا بھی محتاج ہو جانا۔ اور پھر ملک بھی پرایا۔ جہاں ایک ہی تھا جو اس کی حال پرسی کو دن رات میں کئی چکر لگا جایا کرتا تھا۔ ورنہ تو گھر سے وہ بھی نہ تب تک نہ آ تی تھی جب تک خود وہ کال نہ کر لیتا۔ وہ ارادہ کر چکا تھا ویزہ کی مدت ختم ہوتے ہی وہ گھر جانے کی بجائے لالہ سے کہہ کر اپنے ملک ہی کا رخ کرے گا۔ جہاں کم از کم اسے اپنوں کے چہرے تو نظر آئیں گے ۔ کم از کم اس کی ماں اور روٹھا ہوا باپ اسے اس حالت میں دیکھ کر دامن میں تو سمیٹیں گے۔ زوئنہ نے تو جیسے قسم ہی کھا لی تھی کہ اب ہر طرح کی اذیت اسے دے کر رہے گی۔ اب بھی اس سے ایک ہی بات پر ناراض پھرتی تھی۔ لیکن شاید۔۔
شاید اب وجوہات میں وزن بھی ہو۔ اب تو وہ ویسا نہ رہا تھا نا۔ اب تو وہ موقع تھا جس سے ہار کر لوگ جان بھی ہار دیتے ہیں۔ کیسا عجیب اتفاق تھا ۔اس حد تک مارا گیا کہ وہ جو کڑیل جوان مرد تھا، ایک دم سے بھربھری مٹی بننے لگا تھا۔ وہ جو بہت شوق سے اسے دیکھا کرتی تھی اب کیسے اسے اس حال میں قبول کر پاتی۔ جو اپنی لکس کے بارے میں اتنی حساس تھی وہ اسے کیسے اس طرح قبول کر لیتی۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھا جب اسے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز نے متوجہ کیا۔ وہ گردن موڑے اس طرف دیکھنے لگا جہاں وہ کھڑی تھی۔ وہ جو اب اجنبی ہوتی جا رہی تھی۔
یوں دیجیئے فریبِ محبت ،کہ عمر بھر
میں زندگی کو یاد کروں، زندگی مجھے
“کیسے ہو؟” چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے وہ اس کے بیڈ کے ساتھ آ کھڑی ہوئی تھی۔وہ لائٹ بلیو شرٹ پر نیوی بلیو بلیزر اورکریم کلر پینٹس میں ملبوس تھی۔ ہاتھ میں ایک براؤن بڑاسا پاؤچ نما کلچ تھام رکھا تھا۔وہ ہلکا سا مسکرا کر سر ہلا گیا۔
“کیسا فیل کر رہے ہو” اس کے ہاتھ پر اپنا نرم گرم ساہاتھ رکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔ لہجے میں محبت نہ تھی تو نفرت بھی نہ تھی۔ اگر کچھ تھا تو وہ تھی ہمدردی۔۔
“مجھےچھوڑو تم سناؤ۔ کیسی ہو؟ چار ماہ ہوگئے۔ کیسے گزار رہی ہو؟” سجاول زمان ۔۔ ایک ایسا شخص جو کبھی دل میں بات رکھ ہی نہ سکتا تھا اب بھی بول ہی گیا۔ وہ چونکی۔
“کیا مطلب؟” تیور فوراً بدلے تھے۔
“مطلب آپ اچھی طرح جانتی ہیں زوئنہ سجاول زمان!” اس کا وہی ہاتھ تھام لیا۔ خدشہ تھا وہ چلی نہ جائے۔ اس کی بات سنے بنا ہی نہ چھوڑ جائے اسے۔
“تو سنیئے سجاول زمان صاحب! ” وہ کٹھور سی ہوتی نظر آئی تو سجاول زمان کا دل حلق کو آیا۔ جانے کیا سنانے کو تھی وہ۔
“میں اس بچے کو صرف اس لیے ابارٹ نہیں کروا رہی تھی کہ تم ٹھیک ہو جاؤ تو مل کر فیصلہ کرتے ہیں۔ لیکن اصل میں تم نے ہمیشہ مجھےتنگ کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ ہی لینا ہوتا ہے ۔ جیسے اب ۔۔ اب تو سرٹیفکیٹ لے چکے ہو نا کہ جب چاہو جیسے چاہو تنگ کرو گے۔” اس نے ہولے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔
“میں تو یہ پوچھ رہا تھا کہ کیسا محسوس کرتی ہو جب خود کو یوں نور میں نہایا ہوا دیکھتی ہو۔ ” وہ اب بھی مسکرا رہا تھا۔
“شٹ اپ! اب بھی تمہیں یہی باتیں سوجھتی ہیں۔ اب تو کم ا ز کم پریکٹیکل ہو کر سوچو زندگی کے بارے میں۔ یہ ایسے اس حالت میں تم مجھے کیسے لے کر چل سکتے ہو؟ جب مجھے ہی وہ سب کچھ بہم نہیں پہنچا سکتے جو میری ضروریات میں شامل ہوتا ہے تو پھر اس کو کیا دے پاؤ گے تم۔؟ سجاول زمان ہر بات کو مذاق میں اڑانا چھوڑ دو۔ میں ڈیڈ سے بات کر رہی ہوں۔ جتنی جلدی ہو سکے تم اپنا آفس سنبھالو ۔ ورنہ میری طرف سے تم خود کو آزاد ہی جانو” بس عام سی تو بات تھی جو اس نے کہی اور بالوں کو جھٹکے سے اڑاتے ہوئے وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہیل سے ٹک ٹک کرتی کمرے سے نکل گئی تھی۔ جبکہ سجاول تو یوں تھا گویا ملک الموت نے اس سے جان قبض کرنے کو اجازت مانگ لی ہو۔مگر لب ایک مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔ جانتا تھا کہ امتحان تو شروع ہو ہی چکا تھا۔ اس دن سے ہی جب۔۔۔۔۔
آشنا سے چہروں کے، اجنبی رویوں کو
سہہ کر مسکرا دینا، آفریں اذیت ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“ابو ہمیں کال آ گئی ہے۔ مجھے کل ہی لیٹر ملا تھا جبل کو کافی دن پہلے کا مل چکا ہے۔ ہم سوچ رہے تھے کال آئے گی تبھی ہم آپ سے ڈسکس کریں گے۔ ہم نے انشاء اللہ اگلےکچھ ماہ میں جوائننگ دینی ہے۔ باقی آپ جیسے کہیں۔” جبل اور حبل اس وقت شیر زمان کے پاس ڈیرے پر موجود تھے۔ ان کو پروموشن کے طور پر مختلف شاخوں میں اپوائنٹ کر لیا گیا تھا۔ جبل کو اسی کمپنی کی مین برانچ جو کہ آسٹریلیا میں تھی ،کے کمپیوٹر سیکشن کے لیے سیلیکٹ کیا گیا تھا جبکہ حبل کو اسی برانچ کے کمپیوٹر سیکشن میں ہائی پوسٹ پر پروموٹ کر دیا گیا تھا۔ سیلری الگ سے بڑھی تھی اور عہدہ الگ سے عطا کیا گیا تھا۔ شیر زمان پہلے تو اپنے سپوتوں کی طرف دیکھتے رہے پھر اٹھے اور ایک طرف چارپائی پر بیٹھے اور حساب کرتے اکرم چاچا کی طرف آئے۔
“اکرم بھائی ! تسی سنیا اے کی کہہ رہے نے”
(اکرم بھائی سنا آپ نے یہ کیا کہہ رہے ہیں؟)
ان کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں مگر ان کے سامنے وہ بالکل نارمل انداز میں کھڑے تھے۔آخر کو انہیں اپنے ان نالائق بیٹوں سے اتنی ترقی کی امید نہ تھی۔
“جی چودھری صاحب میں سب سن رہا تھا” اکرم چاچا بھی مسکرا دئیے۔
“ادھر آؤ گدھو” انہوں نے دوسری طرف میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھے دونوں شیطانوں کو بلایا جو آج کل انتہائی سنجیدہ رہا کرتے تھے۔وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے مسکراتے ہوئے اٹھے اور ان کی طرف چلے آئے۔
“زور سے پیار لے لو بڑے عرصے بعد دل خوش کیتا اے گدھے دے پترو!!” وہ جوش میں انہیں ساتھ لگائے بولے تو ان دونوں سمیت اکرم چاچا بھی قہقہہ لگا کر ہنس دیئے تھے۔
“یہ پیسے پکڑو اور مٹھائی لے کر آؤ۔ زہرہ بی کامنہ میٹھا کروائیں گے اور یہاں بھی سب کا منہ میٹھا کرواؤ۔ میں آج سے سب کی تنخواہ بڑھانے کا بھی کہتا ہوں بھائی صاحب سے” وہ انتہائی خوش دکھائی دیتے تھے۔ جبکہ وہ جو ابھی مسکرا ہی رہے تھے پھر سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
“ابو !” جبل نے ان کے کندھے پر دباؤ ڈالتے ہوئے آہستہ سے کہا تو وہ جو خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے اس کی اس پکار پر چونک بھی نہ پائے ۔
“بولو شیرزمان کے شیر”
ایک اور بات بھی شئیر کرنی تھی۔ ” وہ ہچکچاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ اسے سمجھ نہ آیا کہ کس طرح یہ بات ا ن تک پہنچائے۔
“ہاں ہاں بیٹا جو کہو ۔۔” اس کے کندھے پر بازو پھیلا کر وہ بولے۔
“ابو وہ ۔۔ ہمارا سجاول ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے” وہ آہستہ سے بول ہی دیا۔جبکہ ان کا بازو اس کے کندھے سے سرک کر نیچے گرا تھا۔ یونہی جیسے فخر زمان کا سہارا’ سجاول زمان’ گرا تھا۔
“کیا فضول بکواس کر رہے ہو۔ ایسے موقعہ پر ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں ۔ عجیب بے ہودگی ہے” وہ چڑ کر اس سے دور ہوئے تھے۔ جبکہ اکرم صاحب وہاں کھڑے ہکا بکا ان سب کا منہ دیکھ رہے تھے۔ ان کو کچھ عرصہ پہلے کی فخر زمان کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔
“ابو ٹھیک کہہ رہا ہے جبل۔ وہ ہاسپٹل میں ہے اور وہاں سانول لالہ اس کے پاس آتے جاتے ہیں آج کل۔رات انہوں نے بتایا کہ وہ باپ بننے جا رہا ہے جبکہ سجاول کی بیوی یہ بچہ نہیں چاہتی۔ سانول لالہ نے ایک معاہدہ سوچ رکھا ہے اگر آپ اور چھوٹے چاچو ہمارا ساتھ دیں تو تایا ابا کو منا کر ہم سجاولے کو واپس لے آتے ہیں۔ ” حبل نے مناسب الفاظ میں ان تک ساری بات پہنچا دی تھی۔
“کیا مطلب سانول ۔۔۔؟ سجاول وہاں کیسے پہنچا؟”
“اس کے سسر نے وزٹ ویزا پر سپانسر کیا تھا ان کو۔ لیڈز(Leeds)میں ہے وہ بھی۔ اس سے رابطہ نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اس کی بیوی ٹھیک رسپانس دے رہی تھی ۔ تبھی ہم نے لالہ سے بات کی تھی۔ اب آپ آگے کا بتائیے کیا کیا جانا چاہیے”وہ حیران سے اس کی باتیں سن رہے تھے اور چہرے سے لگتا تھا گویا اب بھی اس بات پر یقین نہ رکھتے ہوں۔
“ابو یار ہم سیریس ہیں۔ آپ ہمیشہ ایسے سنگین مذاق کی ہی امید رکھتے ہیں۔ اس بار سیریس ہی ہیں ہم۔” جبل ان کو اب بھی شش و پنج میں دیکھ کر بولا۔
“بھائی صاحب پر کیا گزرے گی ۔۔ اور بھابی تو پہلے ہی سے گھلتی جا رہی ہیں” وہ ڈھے سے گئے۔ جبکہ جبل اور حبل بھی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہ گئے تھے۔
‘جانے ان امتحانوں نے اس حویلی کو راستہ کیوں دیکھ لیا ہے۔’اکرم چاچا بھی سوچ ہی سکتے تھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ جو اس کے سامنے آگیا، وہی روشنی میں نہا گیا
عجب اس کی ہیبتِ حسن تھی، عجب اس کا رنگِ جمال تھا
جبل ، شیر زمان اور حیدر زمان نے جب سے یہ بات ا ن کے سامنے رکھی تھی وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ وہ جو ان کا خون تھا جسے وہ اس کے نکاح کے فوراً بعد خود کو اس کے معاملات سے آزاد کر آئے تھے۔ وہ اب کس اذیت سے گزر رہا تھا۔ان کے لیے کیا یہ کم تھا کہ اب وہ ایک ایسی اولاد کو سنبھالنے جا رہے تھے جسے اپنی انا میں اکیلا چھوڑ آئے تھے۔ٹھیک ہے وہ اکھڑ ہو چلا تھا۔ مگر کبھی اس نے ان کے سامنے آواز نہ اٹھائی تھی۔ ضدی تھا۔۔ وہ تو ہر بچہ ہی ہوا کرتا ہے۔ اکیلا بیٹا تھااور سب سے زیادہ پیار بھی اس سے اس وجہ سے تھا کہ وہ ان کے دکھ سکھ بانٹنے کو تب بھی ہو گا جب بیٹیاں وداع ہو جائیں گی۔ انہیں اب بھی یاد تھا کہ جب وہ پیدا ہوا تھا تو کس خوشی سے وہ اپنی ماں کو دیکھ کر کہہ رہے تھے
“زہرہ بی یہ اتنا سفید روئی کے گولوں جیسا ہے۔ ہم اسے سجاول زمان کہیں گے۔ باقی آپ جو حکم کریں زہرہ بی” وہ بہت پر جوش تھے کہ اسے سینے میں بھینچ بھینچ کر پیار کیے جاتے تھے اور وہ تھا کہ مجال ہے جو باپ کے پیار سے ذرا بھی خوفزدہ ہو کر رویا ہو۔
“تو یوں کہو نا فخر زمان کہ اس نے ہماری جندڑی(زندگی) سجا دی ہے اس لیے یہ نام دینا چاہ رہے ہو” زہرہ بی بھی مسکرا رہی تھیں۔
اور اب اب آنسو آنکھوں سے باہر کا راستہ پانے لگے تھے وہ وجود کب اتنا جوان ہوا کہ ماں باپ سے دور ہوا۔ اور کب اتنا کمزور ہوا کہ ماں باپ کے رونے کے لمحا ت آگئے۔ وہ ایسا دل کش تھا کہ باپ سے بھی انچ اوپر کا کندھا نکال گیا تھا۔ اور آج باپ تھا کہ پھر سے اسے چلنا سکھانے جا رہا تھا۔
انہوں نے سانول سے بات کر کے اسے واپس بلانے کا اردہ کر لیا تھا۔ حالانکہ یہ اتنا لمبا سفر اس کے لیے بہتر نہ تھا مگر قدسیہ بیگم اب تاب نہ پاتی تھیں کہ اس سے ذرا بھی دور ہوتیں۔ وہ اسے اپنی نظروں کے سامنے رکھنا چاہتی تھیں۔ زوئنہ کے والد ان کی اس حد تک مدد کرنے کوتیار تھے کہ اسے خود اپنی نگرانی میں پاکستان تک لا رہے تھےجہاں سے وہ خود جا کر سجاول کو ریسیو کرنے والے تھے۔
اب آگے قسمت اس حویلی کو کیا رنگ دکھانے والی تھی کوئی کیسے جان پاتا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ائیر پورٹ پر جبل اور کمیل فخر زمان کے ساتھ اس کو ریسیو کرنے کو موجود تھے۔ وہ جوفخر زمان سے بھی اونچا قد رکھتا تھا۔ فخر زمان ارائیول روم میں کھڑے کب سے نگاہوں کے سامنے سے آتے لوگوں پر جمائے ہوئے تھے۔ آنکھیں بھیگنے لگی تھیں کہ وہ تو چلتے پھرتے لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔ اور ان کا بیٹا تو سٹریچر پر آنے والا تھا۔ وہ جو اب نہ تو زیادہ دیر بیٹھ سکتا تھا نہ ہی وہ کھڑا ہو سکتا تھا ۔
حیدر زمان سجاول کے آفس کو دیکھنے گئے تھے تا کہ وہاں پر بھی سب کو معلوم ہو کہ کوئی ان کے سر پر کام کروانے کو موجود ہے۔ اور سجاول کے جس دوست کے حوالے وہ آفس کیا گیا تھا اسے بھی خبر رہے ۔ شیر زمان کو گھر پر ہی رہنے دیا گیا تھا کہ خواتین کو جو بھی ضرورت ہو وہ فراہم کر سکیں جبکہ حبل کی وہاں سجاول کو اس حالت میں دیکھنے کی سکت نہ تھی۔ وہ لاکھ کہنے پر بھی نہ آیا تھا۔
وہ لوگ اپنی ہی سوچوں سے جنگ میں مصروف تھے جب اچانک سامنے سے زوئنہ کے والد کو آتا پایا ۔ وہ ایک جوان لڑکے کے ساتھ تیز تیز قدم اٹھاتے انہی کی طرف آ رہے تھے۔
“فخر صاحب ہم نے بات کی تھی مگر یہ لوگ اسے بائیں طرف سے لارہے ہیں آپ اس طرف سے اسے ریسیو کرلیں میں ذرا زوئنہ کو لے کر جا رہا ہوں اس کی طبیعت ناساز ہے تھوڑی” انہوں نے بغیر معذرت کیے یا مزید کوئی بھی بات کیے بنا ہی کچھ ڈاکومنٹس ان کے حوالے کیے اور جس تیزی سے آئے تھے اسے تیزی سے واپس دوسری طرف کو مڑ گئے۔ فخر زمان کے لیے ان کا رویہ زیادہ دکھ کا باعث نہ تھا کہ ان کو پہلے دن ہی دیکھ کر ان کے ظرف کو پہچان چکے تھے۔ اب اس بات کو لے کر دکھ کرتے بھی تو کیا بن جاتا۔
“تایا ابا” جبل نے ان کےکندھے کو ہلکا سا ہلایا اور بائیں طرف اشارہ کیا جہاں سے کچھ جوان لڑکے یونیفارم میں ملبوس ایک سٹریچر لا رہے تھے۔ انہوں نے ایسے دیکھا جیسے پہلی بار اسے دیکھ رہے ہوں۔ ان کے قریب رکنے پر بھی سٹریچر پر لیٹے وجود کی آنکھیں بھینچی ہوئی تھیں۔
“سجاولے” انہوں نے ذرا سا جھک کر اس کو دیکھ کر تصدیق کرنی چاہی۔ انہیں اب بھی یقین تھا کہ سجاول زمان ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ اتنا کڑیل جوان اونچے لمبے قد کا لڑکا اس حال میں ان تک واپس نہیں آ سکتا۔ انہیں ڈر تھا ان کی آہ ہی نہ لگ گئی ہو۔ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو وہ گلے شکوے کر ہے تھے اکرم سے۔ انہوں نے سمجھایا بھی تھا کہ ایسا کچھ نہ سوچا کریں بس دعا کیا کریں۔ کیسی آہ تھی جو اسے لگ گئی تھی۔
سجاول بھیگی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہا تھا کہ ٹیک تک لگانے کو سہارے کی ضرورت تھی کجا کہ وہ خود ان کے گلے لگتا۔
“ابوگلے تو لگا لیں یار” وہ رندھی آواز میں بولا۔
وہ جو جھک کر اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے اس پر ٹوٹ ہی پڑے ہوں جیسے۔ اسے سہارا سا دے کر ہلکا سا اٹھایا اور گلے لگا لیا۔
“کہا بھی تھا تجھے کہ جو بھی قدم اٹھائے مجھے بتا کہ اٹھانا” اس کو خود میں بھینچتے ہوئے بولے۔
“اب تو عمر بھر کا سبق ہے یار ابو۔ اب کوئی گستاخی نہیں ہو گی” آنسو لڑیوں کی صورت میں بہہ رہے تھے۔ جبل اور کمیل ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
“تایا ابا! اب اٹھیں ۔ اسے گھر لے کر جانا ہے سب انتظار کر رہے ہوں گے۔ “جبل نے ان کا کندھا تھپکا ۔
“تو جیلس کیوں ہو رہا ہے ” سجاول اسے گھورنے لگا۔
“بیٹا تجھے میں گھر جا کر اچھے سے بتاؤں گا کہ میں کیا کیا ہو رہا ہوں۔ ابھی تو گھر جانے تک انتظار کرو”جبل نے اس کو واپس لٹاتے ہوئے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ آنکھیں چھلکنے کو بے تا ب تھیں مگر اس موقعہ پر کم از کم سجاول کے سامنے وہ رونا نہیں چاہتا تھا۔
“بھیا آپ کے لیے سب سے بڑا سرپرائز بھلا کیا ہے ہمارے گھر میں؟” کمیل بھی اس کے پاس آیا ۔ جبل کے ساتھ مل کر اسے سٹریچر سے وہیل چئیر پر منتقل کیا اور بولنے لگا۔
“گھر کی سب ینگ لیڈیز کو بسکٹس بیک کرنے آ چکے ہیں” تینوں ہنس دئیے۔
“اور یہ عظیم کام سکھایا کس نے ان کو” سجاول نے کمیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“غنویٰ آپی نے” وہ سجاول کی ٹانگ کو بیلٹ میں ڈال کر سیٹ کرتے ہوئے بولا جبکہ سجاول ایک دم چپ ہوا تھا۔
خاموشی، جو اب اندر سے اسے مزید کاٹنے لگی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دمِ واپسی اسے کیا ہوا، نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بکھر گیا، وہ تو آپ اپنی مثال تھا
بڑی حویلی کا ایک بھی فرد ایسا نہ تھا جو رخ پھیر کر رویا نہ ہو۔ ایک بھی فرد ایسا نہ تھا جس نے آنکھ بچا کر آنسو نہ پونچھے ہوں ۔غنویٰ صغیر احمد نے دیکھا کہ وہ جو بڑی شان سے قدم دھرتا تھا اب اس ایک قدم کا بھی محتاج تھا۔ فخر زمان نے دیکھا کہ وہ جو ان کا کندھا تھا ، اب اسے کندھے کی ضرورت تھی۔ کشور زمان نے دیکھا جو بڑے غرور سے ‘نہ ‘کہتا تھا، اب اس ایک ‘نہ’ سے خوفزدہ تھا۔زہرہ رمضان عرف زہر بی جو کہ خود بھی اس بستر کو چھو آئی تھیں۔ اب پوتے کو اس حالت میں دیکھ کر آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ اور سجاول زمان۔۔ اس کا تو ہ حال تھا کہ
زیست سے تنگ ہو اے داغؔ، تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں ،جان سے جاتے بھی نہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“معاہدہ یہ طے پایا ہے کہ وہ ہمارا بھتیجا یا بھتیجی جو بھی ہوگا یا گی ـــ ہمیں دے دیں گی اور بھیا انہیں اپنے نکاح سے آزاد کر دیں گے” منال مصروف سی اپنے کپڑے ایک طرف رکھتی لڑکیوں کو نئی نئی خبر سنا رہی تھی۔فجر حیران سی آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔ نمل بھی منہ تک جاتا بسکٹ واپس پلیٹ میں رکھ کر آگے کو ہو بیٹھی۔ اجر کے لیے یہ اطلاع نئی نہ تھی کیونکہ سانول اسے یہ اطلاع پہلے ہی دے چکا تھا۔ جبکہ غنویٰ نے سرسری سی نظر ان سب پر ڈال کر اپنے سامنے پڑے کپڑوں کے ڈھیر کی طرف جما لی۔
” اتنا عام سا سمجھا ہوا ہے اس عورت نے اس پاکیزہ رشتےکو۔ ہاؤ مین یار” نمل جو آج کل انگلش کی کتابوں کو رٹا لگاتی تھی اب اپنی طرف سے بہت ا سٹائل سے بولی۔ غنویٰ نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی۔
“بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ۔ اب یہ اپنی اجر آپی بھی تو ہیں۔ اگر پریگننٹ ہو جائیں گی تو یوں لڑیں گی سانول لالہ سے؟” منال نے اپنی عینک ناک پر ٹھیک کی اور بڑی دانی بی بی بنتے ہوئے بولی۔ جہاں غنویٰ ، نمل اور فجر ہنسی تھیں وہیں اجر اسے گھورنے لگی تھی۔
“شرم کرو۔ اب اگر ایسی کسی مثال کے لیے مجھے استعمال کیا نا تم نے تو یاد رکھنا بہت بری پیش آؤں گی میں” اجر نے کشن اٹھا کر اسے مارا جو اس نے فوراً سے کیچ کر لیا تھا۔
“میں سیریس تھی ویسے۔ ” نمل نے منہ بنایا۔
“ہاں یار ٹھیک کہہ رہی تھی تم ۔ اور مسئلہ اس لڑکی کے پریگننٹ ہو جانے کا نہیں ہے جتنا بھائی کے اچانک سے ۔۔۔۔” فجر ایک دم افسردہ سی ہو گئی۔
“ہمم۔۔ بھیا ٹھیک ہوتے تو شاید وہ اتنا نہ اکڑتی جتنا اب وہ اور اس کے گھر والے اکڑ رہے ہیں” نمل بھی اداس ہو چلی تھی۔
“دعا کرو ہر معاملہ ٹھیک ہو جائے۔اسے بس بھائی سے پیسہ ہی چاہیے تھے نا ۔۔ وہ تو ابو نے دے ہی دیناہے۔ باقی میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ یہ کیسی امیر زادی تھی کہ نکاح تک کی کوئی اہمیت ہی نہیں اس کے سامنے۔ ” فجر نے غنویٰ کا ہاتھ بٹاتے ہوئے کہا۔
“وہی تو۔ یہ کہاں کا پیار محبت کہ اس نے یہاں ایک شخص کا عروج دیکھا تو اسے خود میں اتنا گم کیا کہ وہ کہیں اور دیکھ ہی نہ پائے۔ اور جب اس کا زوال دیکھا تو ایسا گرایا کہ کوئی سہارا اسے راس ہی نہ آئے” نمل منہ بناتے ہوئے بولی۔
“اس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے۔ ” منال نے باآوازِ بلند کہاتو سب اس کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھنے لگیں۔
“ہر دنیاوی رشتے کو زوال ہے” اپنے ماتھے سے لٹ کو جھٹکا اور عینک درست کرتی وہ ان کی طرف دیکھنے لگی۔
“بات تو سچ ہے۔۔ ” فجر نے افسردہ سی ہو کر کہا۔
“مگر بات ہے رسوائی کی” غنویٰ نے اس گفتگو کے دوران یہ پہلا فقرہ بولا ۔ سب ایک دوسرے کی باتوں سے متفق تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نصیب اور نصیب کا لکھا۔۔
کہیں بھی بدل نہیں سکتا۔ ہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دعا سے نصیب بدل جاتا ہے۔ لیکن کچھ حقائق ایسے اٹل ہوتے ہیں کہ ان کا بدل جانا ممکنات میں سے نہیں ہے۔ ہم کتنے ہی دھاگے کیوں نہ مزاروں سے باندھ آئیں۔ ہم کتنی ہی منتیں کیوں نہ مانگ لیں اور سجدۂ حاجت ہی کیوں نہ کرلیں۔ اکثر تقدیر کے فیصلے ہمیں ایک مقام پر بہت اوپر سے گراتے ہیں۔ اور یہی کیفیت ہوتی ہے جسے ہم عرفِ عام میں ‘مایوسی ‘کہتے ہیں۔
اس پر بھی آج کل مایوسی کا راج تھا۔کتنے خواہشوں کے دھاگے وہ بُنتا رہتا ۔ اسے ذرا بھی توکل کا مطلب معلوم ہوتا تو وہ نواز دیا جاتا۔ مگر یہاں تو حالت یہ تھی کہ اس کے بُنے گئے دھاگے ایک ریشمی کپڑے میں ڈھل کر پھسلتے جاتے تھے۔ اسے معلوم تھا وہ کتنے ہی دھاگے کیوں نہ بن لے ، اس کی انہونی خواہشات کی تکمیل ممکن نہیں تھی۔ یونہی بیٹھے بیٹھے وہ کتنے ہی دھاگے کیوں نہ بُن لیتا، کچھ نہ بننے والا تھا۔ کیوں کہ سجاول زمان کو اب کسی معجزے پر یقین تھا نہ کوئی جادو کی چھڑی اسے اس کیفیت سے نکال سکتی تھی۔
کھول دیتی ہے زندگی آنکھیں
لاکھ سپنے بُنا کرے کوئی
قسمت نے اسے کہاں اور کس انداز میں پٹخا تھا۔وہ اب چاہ کر بھی پہلے والا سجاول زمان نہیں بن سکتا تھا۔ ہاں اس کی اوالاد اس کے حوالے کر دی جاتی یہی بہت تھا۔ اور جہاں بات تھی اس کی زندگی کی۔۔ وہ اب بے کار تھی۔
کہاں وہ اٹھتا اور کسی کام میں ہاتھ ڈالتا۔
فخر زمان اور قدسیہ بیگم تو اس کے اردگرد سے ہٹتے نہ تھے کہ ان کا جوان بیٹا اب ان حالات میں تھا کہ ذہن بھی کھو دینا چاہتا تھا۔ ڈاکٹرز نے جتنی بھی امید دلائی ہو کہ سب ٹھیک ہو جائیگا ۔ ری کور کر لے گا۔ لیکن سجاول زمان تھا کہ خود ہی ری کور نہ کرنا چاہتا تھا۔ ہاں اگر اس کی اولاد اس کے سامنے پلے بڑھے گی تو وہ خود کو ٹھیک کر ہی لے گا۔
لیکن جانے وہ عورت اس کی اولاد اس کے حوالے کرے گی بھی یا نہیں۔ جانے وہ کیسا سلوک کرے ا سکے ساتھ۔ ابھی تو مزید چار پانچ ماہ تھے راستے میں۔۔۔ جانے کیا کرے وہ۔ ایک ہی تو خواب تھا اس کا ۔۔ وہ بھی اتنی خوفناک تعبیر کے ساتھ سامنے آیا تھا کہ وہ جی بھر کے خود کو لعنت ملامت کرتا تھا۔ اب تو جو بھی ہو گا وہ حقیقت ہی رکھے گا۔ اب خواب دیکھنا ان آنکھوں پہ حرام تھا ۔۔ اور ایک خواب جو دیکھ چکا تھا، اب اس کا قرض ساری زندگی چکاتا رہے گا۔
اک خوابِ لامکاں پہ وراثت تمام شُد۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جب کوئی طے کر لے کہ یہ تعلق رکھنا ہی نہیں ہے تو پھر وہ جبلِ احد کی مثل ہو جایا کرتاہے۔ ایک پہاڑ۔ یا ایک پتھر۔ پھر پتھر کے صنم کو جتنا بھی پوج لیا جائے، وہ پگھل نہیں سکتا ۔ جتنا بھی رو لیا جائے یا گڑ گڑا لیا جائے ، وہ پتھر ہے ۔ اور پتھر کب کچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اور یہاں تو معاملہ بھی ایسا تھا کہ نہ تو کوئی تعلق تھا نہ ہی کوئی رویا یا گڑگڑایا تھا ۔ سو کس بنا پر غنویٰ صغیر احمد ایک خواب کو بُنے جاتی۔
ہاں یہ خواب ہی تھا کہ کوئی شرعی تعلق نہ تو آج تھا نہ ہی کل ہی کوئی تعلق بن سکتا تھا۔ یہ تو محض دل کی خوش فہمیاں تھیں۔ ور قدرت دل کی خوش فہمیوں کو یوں ہی سچ نہیں کیا کرتی۔ بہت عظیم معجزے ہوا کرتے ہیں۔ اور معجزے ان کے ساتھ ہوا کرتے ہیں جو خود کو اس قدرت کے بنانے والے کے آگے مٹی کر دیں۔ جبکہ غنویٰ صغیر احمد نے خود کو ایک انجان راستے پر ڈال دیا تھا۔ پھر واپس پہلے کا مقام ایک دم سے کیسے مل جاتا کہ آدمؑ کو بھی جنت بدر کیا گیا تھا تو ایک دم سے معافی نہیں ملی تھی۔وہ تو پھر بنتِ آدم تھی۔
“آپی! یہ کاج سیٹ کریں ” عبادت نے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے سوچوں سے نکالا۔ وہ پہلے کی طرح اب چونکتی نہ تھی۔ اب دل میں ایک گرہ تھی جو کبھی کھلنے والی نہ تھی۔ اب تو اسے ان آفاقی الفاظ پر یقین محکم ہو چلا تھا کہ
“ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور در اصل وہی تمہارے لیے بھلی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بھلی گردانو ، حالانکہ وہی چیز تمہارے لئے بُری ہو”
(سورۂ بقرۃ:216)
سو وہ اس بات کو دل کی گہرائی میں دفنا چکی تھی کہ اب کسی بھی صورت واپس نہیں دیکھنا تھا جہاں سے ‘امر’ کی طرف سفر شروع کرنے جا رہی تھی۔ عشقِ مجازی کی کیا مجال کہ گھر جائے اس دل میں جہاں عشقِ حقیقی موجود ہو۔ سو وہ یہی سفر کرنا چاہتی تھی۔ وہاں جہاں ان سب باتوں کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ جہاں اسے سمجھا دیا جائے کہ وہ اس رب کی’ بندی’ ہے۔ اب کوئی اس کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتا کہ وہ دل فنا کے لیے نہیں بنا۔ وہ دل سیاہ کے لیے نہیں بنا۔ وہ دل بنا ہے نور کے لیے۔ نور علیٰ نور کے لیے۔
“منال بتا رہی تھی کہ سجاول بھیا روز بروز کمزور ہوتے جا رہے ہیں” عبادت شائد کام سے فارغ ہو چکی تھی۔ اس کے پاس بیٹھی ایک قمیص کی ترپائی کرتے ہوئے اسے بھی باتوں میں الجھانا چاہا۔
“ہاں ۔ گھر میں بند رہنا بھی ایک عذاب ہوتا ہے عبادت” غنویٰ نے عام سے انداز میں کہا۔
“بھیا ایسے تو نہیں تھے۔ اب کچھ زیادہ ہی فکر کرنے لگے ہیں” عبادت نے سوئی کپڑے میں سے گزاری اور دھاگہ ایک بار کھینچا۔
“ظاہر ہے۔ ان کا ایک آفس ہے جو پچھلے اتنے ماہ سے ان کے ایک دوست کے سپرد ہے۔ دوست جتنا بھی اچھا ہو اس سے ایک طرف دل میں کھٹکا ہمیشہ رہا کرتا ہے کہ آخر یہ دنیا ہے اور دنیا میں سب کچھ ممکنات میں سے ہے۔ دوسری طرف انہیں اپنے بچے کی بھی تو فکر ہے نا۔ زوئنہ اتنی اچھی نہیں ہیں کہ سجاول صاحب ان سے کوئی اچھی امید رکھیں۔ تبھی وہ معاملہ بھی بے چین کیے رکھتا ہو گا۔” غنویٰ نے کاج پر دھاگہ کھینچا اور چھوٹی سی گرہ بنا کر سوئی واپس نلکی میں ڈالی۔ پھر بٹن بند کر کے دیکھنے لگی وہ چونکہ ایک گاؤں تھا اور ہر گاؤں میں ہر قسم کی سہولیات ہوں یہ ممکن نہی سو عبادت نے اسے کاج بھی ہاتھوں سےبنا نا سکھایا تھا کہ وہاں کاج بنانے کی کوئی مشین موجود نہ تھی۔ پچھلے کچھ ماہ میں غنویٰ نےاتنا نہیں سیکھا تھا جتنا اب ایک ماہ میں سیکھ چکی تھی۔
“اور زہرہ بی کیسی ہیں اب؟” عبادت نے کہا۔
“اب ماشااللہ وہ رو بہ صحت ہیں۔ کافی ری کور کر لیا ہے انہوں نے۔ شکر ہے سجاول صاحب والے معاملے کو ذہن پر نہیں لیا انہوں نے۔ اب تو بس ٹانگ کا ذرا سا مسئلہ رہ گیا ہے باقی تو سب ٹھیک ہے اللہ کا شکر” غنویٰ مسکرائی۔
“میں بھی آپ ساتھ ہی چلی چلوں گی آج ۔ زہرہ بی سے ملنا ہے کافی دن ہو گئے اب ویسی رونق ہی نہیں لگتی حویلی میں” عبادت نے کہا تو غنویٰ اس سے متفق ہوئی۔
“واقعی زہرہ بی تو ہماری رونق ہیں”
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...