(Last Updated On: )
یہ بات سچ ہے کہ اقرار تک نہیں پہنچا
ابھی وہ عشق کے معیار تک نہیں پہنچا
ٹھہر گیا ہے وہ اک اشک نوک مژگاں پر
گہر کی مثل جو رخسار تک نہیں پہنچا
ہماری ذات پہ کرتا ہے نکتہ چینی وہ
جو اپنی خامئ کردار تک نہیں پہنچا
وہ کیا گرائے گا دیوار شہرِ باطل کی
جو اس کے سایۂ دیوار تک نہیں پہنچا
عجیب ورطۂ صحرا ہے اُس کی وادی سے
پرندکوئی بھی گلزار تک نہیں پہنچا
بہت دنوں سے تسلی پہ سانس چلتی ہے
طبیب آج بھی بیمار تک نہیں پہنچا
یہ بات تو بڑی افسوسناک ہے الماس
تمہارا فن کسی فنکار تک نہیں پہنچا