چار بجے کے قریب وہ سو کر اٹھی۔ اُس وقت تک اریج واپس آ کر اپنے بیڈ پہ سو چکی تھی۔ غالیہ نے موبائل چیک کیا۔ پہلے تو انجان نمبر سے میسجز اور ڈھیر ساری مسڈ کالز دیکھ کر حیران ہوئی اور اُس سے زیادہ حیرت میسجز پڑھنے کے بعد ہوئی۔
“آئی ایم ایکسٹریملی سوری غالیہ فور ٹوڈے”
“پک اپ دا فون۔”
“آئی ایم سوری۔ آئی ریئلی ایم۔”
‘یہ کون؟ کہیں ہٹلر تو نہیں؟ نہیں نہیں اب اتنا بھی چیپ نہیں ہے وہ کہ مجھے میسجز اور کالز کرے مگر اور کون ہو گا جو مجھے آج کے لیے سوری کہے اور اگر وہی ہے تو میرا نمبر بھلا کیسے۔۔۔’
وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اُس کی نظر ساتھ والے بیڈ پہ سوئی ہوئی اریج پہ پڑی۔ اُس نے اٹھ کر اُس کا بلینکٹ کھینچ کر اُتارا۔
“جیری”
غالیہ کے چیخنے پہ اریج ہڑبڑا کر اٹھی۔
“کیا ہوا کیا ہو گیا؟
“یہ تو ابھی قاشی بھائی بتائیں گے تمہیں کہ کیا ہوا اور کس نے کیا۔”
“کیا تم ظالم نند بن جاتی ہو ہر دو منٹ بعد۔ اب تو میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔”
“اب تم نے ‘کچھ’ نہیں، ‘بہت کچھ’ کیا ہے۔”
“ہوا کیا ہے؟”
“یہ اپنے چہیتے سر کو میرا پرسنل نمبر کس خوشی میں دے کر آئی ہو؟”
“غالیہ پاگل ہو گئی ہو کیا؟ میں اب اتنی بھی سٹوپڈ نہیں۔”
اریج نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
“ہاں معلوم ہے۔ آپ اِس سے بھی زیادہ سٹوپڈ ہیں۔”
فون کی بیل بجی تو دونوں کا دیہان غالیہ کے موبائل کی طرف گیا۔
“اسے تو میں بتاتی ہوں۔”
غالیہ نے جا کر بیڈ سے موبائل پکڑا اور بغیر دیکھے کہ کس کا فون ہے، فون اٹھا کر بولنا شروع کر دیا۔
“آپ ہوش میں تو ہیں؟ کیوں مجھے کالز اور میسجز کر رہے ہیں؟ ٹیچر ہیں تو ٹیچر ہی بن کر رہیں۔ پہلے سینیئر تھے تب بھی چین نہیں تھا، اب غلطی سے ٹیچر بن گئے ہیں تو ابھی بھی آپ کو سکون نہیں۔ بگاڑا کیا ہے میں نے آپ کا؟ اور آج آپ کو معافی مانگنا بھی یاد آگیا ہے۔ معافی مانگنے سے بہتر ہوتا ہے کہ انسان اپنا رویہ درست کر لے اور ویسے بھی اب میں نے آئندہ آپ کی کلاس میں آنا ہی نہیں۔ جس سے مرضی شکایت کریں اور اریج نے آپ کو میرا نمبر دے کر جو غلطی کی ہے وہ۔۔۔”
اس سے پہلے کہ وہ اور کچھ بولتی فون پہ ایک آواز اُبھری۔
“غالیہ”
غالیہ نے فون کان سے ہٹا کر سکرین پہ شائق کا نام دیکھا۔
‘اُف بھائی۔ میں نے بولنے سے پہلے نمبر کیوں نہیں دیکھا غور سے؟’
غالیہ نے فون واپس کان کے ساتھ لگایا۔
“بھائی آپ؟”
“اریج کو فون دو۔”
“بھائی وہ”
“گڑیا میں نے کہا ہے اریج کو فون دو ابھی۔ مجھے بات کرنی ہے اُس سے”
“بھائی ہیں۔تم سے بات کرنی ہے۔”
غالیہ نے اریج کو فون پکڑایا اور خود واش روم چلی گئی۔
اریج کانپتے ہاتھوں کے ساتھ فون پکڑ کر کان کے پاس لے کر گئی۔ وہ خوف زدہ ہو گئی تھی کہ اب شائق سے اُسے ضرور ڈانٹ پڑے گی کیونکہ غالیہ شائق کو بتا چکی تھی کہ اریج نے ہی ریعان کو اُس کا نمبر دیا ہے اور شائق تو غالیہ کی بات پہ آنکھیں بند کر کے یقین کر نے والوں میں سے تھا۔
“اریج؟”
” ججی۔۔۔”
اریج نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔ شائق غصے کا بہت تیز تھا مگر غصہ اُسے صرف غلط بات پہ آتا تھا۔
“کیا ہوا؟”
شائق کا لہجہ بالکل نارمل تھا۔
“میں۔۔۔ میں۔۔۔ میں نے نہیں دیا شائق۔”
“اوہ ڈیئر وائف معلوم ہے مجھے۔ میں نے دیا ہے اُسے نمبر۔”
“میں سچ کہہ رہی ہوں۔ میں نے نہیں۔۔۔”
آنسو اُس کے حلق میں اٹک گئے۔
“اریج آر یو سِک؟ میں کہہ رہا ہوں کہ میں نے دیا ہے اور تم پھر وہی بات کر رہی ہو اور پگلی رو کیوں رہی ہو؟”
“مجھے پتہ ہے آپ مجھے بہت ڈانٹیں گے مگر میں نے سچ میں۔۔۔”
“شٹ اپ اریج۔ کیا ہو گیا ہے؟ میں کیوں ڈانٹوں گا؟ میاں بیوی کے رشتے میں پیار و محبت کے ساتھ اعتماد بھی ضروری ہے اینڈ آئی ٹرسٹ یو ایڈیٹ۔ یہ کوئی بات یے رونے والی؟ اگر تم ایسا کرتیں، تب بھی میں نہ ڈانتا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ تم بہت بے وقوف سہی مگر ذرا سی سمجھ دار بھی ہو۔ اگر کچھ کرو گی تو کسی وجہ سے ہی کرو گی۔ چلو رونا بند کرو جلدی سے۔”
اریج نے اپنے آنسو صاف کیے۔
“میں ڈر گئی تھی کہ کہیں آپ۔۔۔”
“ایک تو میری بہن کے ساتھ رہتے ہوئے بھی تم اتنی ڈر پھوک ہو۔”
“وہ آپ نے کہا کہ آپ نے سر کو۔۔۔”
“اوہ ہاں۔ بھئی اب تو چار پانچ باتیں میں بھی اس ریعان کے بچے کو سناؤں گا۔ میری بیوی کو بھی رلا دیا۔”
“کیا مطلب؟”
“بیگم صاحبہ یہ جو ریعان ہے نا، یہ غالیہ کا، میرا مطلب ہے ہمارا کزن ہے۔ اُس نے صبح مجھ سے نمبر لیا تھا۔ مجھے شروع سے ہی معلوم کہ یہ تم لوگوں کی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور اب تم دونوں کی کلاس کو پڑھاتا بھی ہے اور یہ بھی کہ وہ غالیہ کو بہت تنگ کرتا ہے۔ غالیہ کی یونیورسٹی سٹارٹ ہونے سے پہلے تایا ابو نے بابا سے ریعان کے لیے غالیہ کا رشتہ مانگا تھا۔ ریعان کے ہر طرح سے غالیہ کے قابل ہونے کے باوجود بابا اتنی جلدی اُس کی شادی نہیں کرنا چاہتے تھے اور ریعان بھی تب پڑھ رہا تھا۔ اِس لیے بابا نے تایا ابو سے کہہ دیا کہ جب غالیہ اپنی سڈیز کمپلیٹ کر لے گی تو تب ہی کچھ سوچیں گے۔ اور یہی وجہ ہے کہ غالیہ کو بھی ابھی کچھ نہیں بتایا۔ تایا ابو وغیرہ گاؤں میں رہتے ہیں۔ شہر بہت کم آتے ہیں۔ بس ریعان ہی پہلے پڑھائی کی وجہ سے ادھر رہتا رہا ہے اور اب جاب کی وجہ سے۔ بہت محنتی اور سلجھا ہوا ہے۔ مجھے تو غالیہ کے لیے بہت مناسب لگتا ہے اور وہ غالیہ کو پسند بھی کرتا ہے۔ چونکہ تایا ابو کی فیملی بہت کم آتی ہے ہمارے ہاں اور ریعان تو جب بھی آیا، غالیہ کی غیر موجودگی میں ہی آیا اس لیے اسے یہ بھی نہیں پتا کہ ریعان اُس کا کزن ہے۔ میں نے ابھی اسی لیے فون کرنا تھا کہ اگر غالیہ کو اس کا فون آئے تو تم سنبھال لینا۔ زیادہ کچھ الٹا نہ بول دے مگر اب لگتا ہے کہ کوئی فائدہ نہیں۔ چلو ریعان کی قسمت۔ سنے پھر ساری کڑوی کسیلی۔ اتنا تو تنگ کرتا ہے میری گڑیا کو۔”
شائق کے چپ ہونے پہ بھی اریج کچھ نہ بولی۔
“اریج؟”
“جی؟”
“کیا بات ہے؟”
“کچھ نہیں۔”
“پھر بول کیوں نہیں رہی؟”
“آپ بول رہے تھے تو میں کیا بولتی؟”
“سوری مجھے تمہیں پہلے بتا دینا چاہیے تھا۔”
“شائق؟”
“یس مسز شائق؟”
شائق نے اتنے پیار سے کہا کہ اریج کا چہرہ دہکنے لگا۔
“وہ۔۔۔وہ۔۔۔”
“ہا ہا ہا ڈونٹ ٹیل می تم بلش کر رہی ہو۔”
اریج سے کچھ نہ بولا گیا۔
“مسز؟”
“جی؟”
“یار کبھی کچھ بول دیا کرو پیار سے۔ شوہر ہوں تمہارا۔”
“وہ۔۔۔وہ نماز پڑھنی تھی تو فون۔۔۔”
“اوہ سوری۔ چلو بعد میں کرتا ہوں پھر بات۔ ٹیک کیئر۔ اللہ حافظ۔”
“اللہ حافظ۔”
اریج نے فون بند کر کے غالیہ کے سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دیا۔ اتنے میں غالیہ بھی نہا کر نکل آئی۔ آرام سے چلتے ہوئے اریج کے پاس آئی اور پیچھے سے اس سے لپٹ گئی۔
“ریئلی سوری جیری۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ بھائی ہیں فون پہ۔”
اریج چپ رہی۔ غالیہ اس سے علیحدہ ہوئی اور اس کے چہرے کا رخ اپنی طرف کیا
“کیا بہت ڈانٹا ہے؟”
“کیوں؟ ڈانٹنا کیوں تھا؟”
“کیا مطلب بھائی نے کچھ نہیں کہا؟”
“نہیں”
“کیوں؟ میرا مطلب ہے انہوں نے کچھ نہیں سنا؟”
“اپنی اکلوتی بیوی سے انہیں بہت پیار ہے۔ اس لیے۔”
“ہا ہا ہا ہا ہا یہ تھوڑی ہی دیر میں ہو کیا گیا ہے۔ پہلے تو تمہارا رنگ اُڑ گیا تھا۔ ویسے جیری سوری۔ جب تم نے کہہ دیا تھا کہ تم نے نہیں دیا تو مجھے مان لینا چاہیے تھا۔ پر اگر تم نے نہیں دیا تو پھر کس نے؟”
“وہ۔۔۔”
غالیہ کا فون پھر سے بجا۔
“السلام علیکم۔ ہاں دانیہ؟ میں آ رہی ہوں۔ بس نکلنے لگی ہوں۔ تم مجھے لسٹ وٹس ایپ کر دو جو کچھ بھی چاہیے۔ میں آتے ہوئے لے آؤں گی۔ اوکے۔ اللہ حافظ۔”
فون بند کر کے وہ اریج کی طرف مڑی۔
“اچھا میں چلتی ہوں۔ پہلے ہی لیٹ ہوگئی ہوں۔ سب بچے ویٹ کر رہے ہیں۔”
“اوکے۔ دیہان سے جانا۔”
“اچھا بی اماں۔”
غالیہ نے اپنا بیگ اور گاڑی کی چابی پکڑی اور سنٹر جانے کے لیے نکل گئی۔
__________________________________________
یہ اب پتا چلا ہے کہ ہر رنگ تم سے تھا
دنیا بہت فضول ہے، تم کیوں چلے گئے؟
دیکھو تمہاری بات کو ٹالوں گا اب نہیں
اب مجھ کو سب قبول ہے، تم کیوں چلے گئے؟
ہر درد بے لباس ہے، تم کیوں چلے گئے؟
یہ دل بہت اُداس ہے، تم کیوں چلے گئے؟
سب دوست، یار، گھر مجھے لگتے ہیں اجنبی
اِک دکھ ہی میرے پاس ہے، تم کیوں چلے گئے؟
کمرہ ہے، میں ہوں، آنکھوں میں پانی ہے اور۔۔۔اور
تنہایوں کی باس ہے، تم کیوں چلے گئے؟
سینے سے لگ کے، رو کے، گھٹانا تھا دل کا بوجھ
اس میں بہت بھڑاس ہے، تم کیوں چلے گئے
(زین شکیل)
وہ ہمیشہ کی طرح اُسی کو سوچنے میں مصروف تھا۔ علیشہ نے دروازے پہ دستک دی تو اُس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے۔
“آ جاؤ”
علیشہ اندر چلی آئی اور اس کا چہرہ بھی کھل گیا۔
“چاچو آپ اتنے دن بعد آئے ہیں۔ میں نے آپ سے کہا بھی تھا کہ مجھے کالج ایڈمیشن کے لیے آپ کے ساتھ شہر جانا ہے۔ اب کل لاسٹ ڈیٹ ہے اور آپ نے ابھی بابا سے بات بھی نہیں کی۔ جائیں میں نے نہیں بولنا آپ سے۔”
علیشہ منہ پھلائے بیڈ پہ اُس کے پاس دوسری طرف رخ کر کے بیٹھ گئی۔
“مانو مجھے اچھے سے یاد تھا اور اسی لیے آج آگیا ہوں کہ صبح تمہیں ساتھ لے جاؤں۔”
“مگر بابا سے تو آپ نے ابھی تک بات ہی نہیں کی۔”
“آپ نے چاچو سے کہہ دیا تو مطلب آپ جہاں چاہو گی وہیں پڑھو گی۔”
“تھینک یو چاچو۔ آئی لو یو۔ یو آر دا بیسٹ۔”
علیشہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کے کہا۔
“چلو اب ریلیکس رہو اور کل کے لیے پیکنگ کر لو اور ڈاکومنٹس بھی رکھ لینا یاد سے۔”
“اوکے چاچو۔ اب آپ بھی آرام کریں۔ میں ذرا زایان کو بتاتی ہوں۔ بدتمیز کہہ رہا تھا کہ تم نہیں جاؤ گی۔”
علیشہ بہت خوش تھی اور اسے مسکراتا دیکھ کر وہ بہت خوش تھا۔ اسے اپنی بھتیجی سے بہت انسیت تھی۔ شاید وہ اُسے کسی کی یاد دلاتی تھی۔ علیشہ کے کمرے سے جانے کے بعد وہ پھر سے اپنے ماضی میں کھو چکا تھا۔
__________________________________________
“السلام علیکم۔”
“وعلیکم السلام۔”
“ڈاکٹر انکل میں موحد۔”
“اوہ موحد۔ کیسے ہو بیٹا آپ؟ آج آپ نے آنا تھا نا چیک کروانے۔ آئے کیوں نہیں؟”
“انکل ہم آنے لگے تھے مگر پھر ماما کی طبیعت خراب ہو گئی تو اس لیے ہم نہیں آئے۔ ماما نے کہا کہ آپ کو بتا دوں کہ ہم کل آئیں گے۔”
“آپ کی ماما کو کیا ہوا؟”
“وہ انہیں سر میں بہت درد تھا اور پھر وامٹنگ ہوئی۔”
“چلو آپ ماما کا دیہان رکھو اور اُن سے کہو کہ میڈیسن لیں۔ اگر کل ماما ٹھیک نہ ہوئیں تو آپ نہ آنا چیک اپ کے لیے۔”
“اوکے انکل۔ اللہ حافظ۔”
__________________________________________
“ریعان”
بلال کافی دیر سے اُسے بلا رہا تھا مگر وہ غالیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
“ریعان”
“ہاں؟ کیا؟”
“کیا ہوا یے تمہیں؟ جب سے آئے ہو تب سے کمرے میں بند تھے اور اب باہر نکل ہی آئے ہو تو منہ سُجائے بیٹھے ہو اور کھا بھی نہیں رہے کچھ۔”
“ہاں میرا دل نہیں کر رہا۔ تم کھاؤ۔ میں باہر جا رہا ہوں۔ تھوڑی دیر میں آ جاؤں گا۔”
“رکو۔”
“ہاں؟”
“کیا بات ہے؟ یونی میں کوئی بات ہوئی؟”
“نہیں کوئی بات نہیں۔”
“اچھا قاشی بھائی کی کال آئی تھی۔ تمہارا فون بزی تھا شاید۔”
“کس وقت آئی تھی؟”
“دوپہر میں جب تم اپنے کمرے میں تھے۔”
“اچھا میں کر لیتا ہوں انہیں فون۔”
باہر نکلتے ہوئے اس نے شائق کا نمبر ملایا۔
“السلام علیکم قاشی بھائی کیسے ہیں؟”
“وعلیکم السلام۔ میں تو ٹھیک ہوں۔ تم سناؤ۔ اچھا ہوا تم نے مجھے خود سے کال کر لی۔ ورنہ میں تو کرنے ہی والا تھا۔”
گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اُس نے فون دوسرے کان سے لگایا۔
“سوری بھائی اس وقت مجھے پتہ نہیں چلا فون کا۔”
“ہاں جب کسی اور کے فون کا انتظار ہو تو پھر کہیں اور تو دیہان جاتا ہی نہیں ہے۔”
اُس کے گاڑی سٹارٹ کرتے ہاتھ رک گئے۔
“میں۔۔۔میں سمجھا نہیں۔”
“یار تم مجھ سے تو کچھ کہتے۔ کیا ہوا ہے تم دونوں کے درمیان؟
‘ہونا کیا ہے؟ بات تک تو ہوتی نہیں صحیح سے۔’
“کچھ نہیں بھائی۔”
“ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کچھ ہوا نہ ہو۔ تم کونسا اُسے تنگ کرنے سے باز آتے ہو۔ کچھ تو ہوا ہے جو وہ اتنا تپی ہوئی یے؟”
“آپ سے کچھ کہا اُس نے؟”
“اسے تو پتا ہی نہیں تمہارا ابھی اور مجھ سے نہیں کہا کچھ۔ پہلے شاید تم اسے کالز کر رہے تھے اس لیے جب میں نے فون کیا تو اسے لگا کہ تم ہو اور پھر بس وہ شروع ہو گئی۔ اب باقی مجھے بتانے کی ضرورت نہیں شاید۔ تم بتاؤ اب کیا بات ہے؟”
“بس وہ ہمیشہ کی طرح باتیں کر رہی تھی اور لیکچر تو ویسے ہی اُس نے سننا نہیں ہوتا۔ میں نے ڈانٹ دیا تو رونے لگ گئی اور کلاس سے چلی گئی۔”
“وٹ؟ رونے لگ گئی؟ ایسا کیا کہا ہے؟”
“میں تو ویسے ہی تنگ کر تا ہوں بھائی۔ بس غلطی سے آج آواز زیادہ اونچی ہو گئی اور شاید بول بھی زیادہ دیا۔ غلطی ہو گئی۔ اب کیا کروں؟ کال بھی ریسیو نہیں کی اُس نے کہ میں سوری کر سکوں۔”
“کال کیا، اب کل سے تو تمہاری کلاس اٹینڈ کرنے کا بھی اُس کا کوئی ارادہ نہیں۔”
“کیا؟ یہ کیا بات ہوئی؟ آپ نے اُسے کچھ نہیں کہا؟”
“اب کیا کہتا کہ خبردار جو اپنے ہونے والے شوہر کی کلاسز نہ لیں تو۔”
“قاشی بھائی”
“کیا قاشی بھائی؟”
“اسے کہیں کلاس لینے آئے۔ میں نہیں ڈانٹوں گا اب۔”
“پہلے خود اسے ڈانٹتے ہو اور پھر اپنا بھی موڈ آف کر لیتے ہو۔ اسی لیے دوپہر سے کمرہ نشین ہوئے ہو؟”
“کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ آپ کی بیوی وہ نہیں جو غالیہ کے ساتھ رہتی ہے بلکہ وہ ہے جو چن چن کے میری ہر خبر آپ کو دیتا ہے۔”
“ہا ہا ہا ہا یار بلال نے خود نہیں تھا بتایا۔ میں نے پوچھا تھا اُس سے۔”
“ایک ہی بات ہے۔”
“اچھا اب واپس اندر جاؤ۔ رات کے وقت اب مجنوں بن کے باہر نکلنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں سمجھاؤں گا اسے۔ کر لے گی لیکچر اٹینڈ مگر تم بھی اپنی زبان کو ذرا قابو میں رکھا کرو۔”
“سوری بھائی۔ میں سچ میں بہت شرمندہ ہوں۔”
ریعان روہانسا ہوا۔
“بس بس۔ جاؤ ابھی لیکچر بھی پریپیئر کرنا ہو گا تم نے۔”
“جی۔ اوکے۔ اللہ حافظ۔”
__________________________________________
“ماشاءاللہ یہ اب بالکل ٹھیک ہے۔ بون ایکس رے بھی نارمل ہے۔ بس ڈائٹ اچھی رکھیں اِس کی۔ مزید فالو اپ کی ضرورت تو نہیں پر اگر کوئی بھی پریشانی ہو تو آپ ضرور تشریف لائیے۔”
ادیان نے مجھے موحد کے متعلق چند اور ضروری ہدایات دیں۔
“انکل میں آپ کو بہت مس کروں گا۔”
“مس کرنے کی کیا ضرورت؟ آپ کا جب دل چاہے آپ انکل سے مل لینا۔ ”
“تھینک یو ڈاکٹر۔ اب ہمیں چلنا چاہیے۔ چلیں موحد؟”
میں اٹھ کر جانے لگی تھی جب ادیان مجھے پکارا۔
“عقیدت”
میں نے اُس کی طرف دیکھا۔
“اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ موحد نے کل بتایا تھا کہ آپ ٹھیک نہیں تھیں۔ میڈیسن لی آپ نے؟”
اُس دن کے بعد یہ پہلی بار تھا کہ اُس نے مجھ سے موحد کے علاوہ کوئی بات کی تھی۔ میں نے موحد کی طرف دیکھا۔
“موحد چلو ہمیں دیر ہو رہی ہے۔”
میں نے موحد کا ہاتھ پکڑا اور واپس گھر آ گئی۔
__________________________________________
علیشہ کا کالج میں ایڈمیشن ہو گیا تھا۔ آج اس کا پہلا دن تھا مگر زایان کی وجہ سے وہ لیٹ ہو گئی تھی۔ زایان اُس کا جڑواں بھائی تھا۔ دونوں کا ایڈمیشن ایک ہی کالج میں ہوا مگر دونوں کا ڈپارٹمنٹ الگ تھا۔ لاہور میں اُن دونوں کو اپنے چاچو کے اپارٹمنٹ میں ہی رہنا تھا۔
“تمہاری وجہ سے میں لیٹ ہوئی ہوں۔ اب اگر مجھے کسی نے کچھ بھی کہا نا تو میں نے۔۔۔”
“کسی کا دماغ خراب نہیں ہو گا کہ بیل سے کہے کہ آؤ مجھے مارو۔”
“کیا؟ تم نے مجھے بیل کہا؟ تمہیں تو میں۔۔۔”
علیشہ نے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ وہ لوگ اُس وقت کالج کے پارکنگ ایریا میں تھے، زایان کے بال دونوں ہاتھوں سے نوچ لیے۔”
پاس ہی گاڑی سے نکلتے ہوئے کسی کی آنکھیں حیرت سے پوری کی پوری کھل گئیں۔
“بیل نہیں، بلی ہو تم۔ جنگلی بلی۔ شرم کرو کچھ۔ یہ بھی نہیں دیکھ رہی کہ ہم کہاں ہیں۔”
زایان نے اپنے بال اُس کی مٹھیوں سے آزاد کروائے۔
“ہاں تو تم بھی تو بولنے سے پہلے سوچتے نہیں۔ کس اینگل سے لگتی ہوں میں بیل؟”
“کر تو دی اب کریکشن۔ بیل نہیں بلی۔”
علیشہ نے پھر سے اُس کے بال کھینچے۔
“چھوڑو۔ سارے بالوں کا ستیاناس کر دیا ہے۔ بہن نہیں ہو تم۔ ڈائن ہو ڈائن۔ اسی لیے میں نہیں چاہتا تھا کہ تم شہر آؤ۔ پتا نہیں کتنے معصوم لوگوں کو زخمی کرو گی۔”
“تم گھر چلو ذرا۔ پھر دیکھنا چاچو سے مار پڑواؤں گی تمہیں۔”
وہ جو اپنی گاڑی کے جانے کے بعد بھی وہیں کھڑا تھا، ان دونوں کی نوک جھوک دیکھ کر زخمی انداز میں مسکرا دیا۔ اُس نے ہمیشہ ایسے رشتوں کی کمی محسوس کی تھی۔ پھر اُس نے اپنی کلاس کی طرف قدم بڑھا دیے۔
“چاچو کی چمچی۔ اور اب تو تمہیں دیر بھی نہیں ہو رہی جو یہاں لڑ رہی ہو تب سے۔”
علیشہ نے گھڑی پہ نظر دوڑائی۔
“اف اللہ۔ سات منٹ اور ضائع کروا دیے تم نے میرے۔”
“جاؤ اب کان نہ کھاؤ۔”
علیشہ اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف چلی گئی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...