’’ایک بات کہوں ماموں صاحب، یقین کرلیں گے؟‘‘
’’کہو مسعود، کہو میرے بیٹے؟ ماموں صاحب نے درد بھرے انداز میں کیا۔
’’ ان تما م باتوں میں میرا کوئی قصور نہیں ہے ماموں صاحب، میں بے گناہ ہوں ماموں صاحب، جو کچھ مجھ پر طاری ہو جاتا ہے، وہی مجھ سے یہ سب کچھ کرا رہا ہے۔ میں اتنا برانہیں تھا۔ یہ سب کچھ، یہ سب کچھ میرے گناہوں کی سزا ضرور ہے، لیکن حقیقت یہ ہے ماموں صاحب کہ ان دونوں افراد کو میں نے ہوش و حواس کے عالم میں میں قتل نہیں کیا ‘‘
’’ آہ! یہ بات ہم ایک ایک سے کہتے پھرتے ہیں مگر کوئی نہیں مانتا اور اس دوسرے قتل کے بعد تو وکیل ضمیر الدین صاحب بھی بددل ہوگئے ہیں۔ وہ تو یہ کیس ہی لڑنے کیلئے تیار نہیں، بس کچھ سفارشیں ہیں اور کچھ تعلقات ہیں جن کی وجہ سے وہ ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔ وہ آئیں گے تمہارے پاس، تم سے بات کریں گے، دیکھو خدا کیا کرتا ہے۔‘‘ ماموں صاحب کے الفاظ سے مایوسی ٹپک رہی تھی۔ میں بھی خاموش تھا۔ میں نے کہا۔
’’ ماموں صاحب آپ میری جگہ گھر کا نظام سنبھالئے، میں تو سمجھتا ہوں کہ اب مجھے پھانسی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ گھرکی بہت سی ذمہ داریاں آپ پر آپڑی ہیں ماموں صاحب، لیکن ایک بات دل میں لے کر جائیے۔ امی اور ابا سے بھی یہی کہہ دیجئے کہ میں بے گناہ ہوں۔ یہ سب کچھ میں نے عالم ہوش میں نہیں کیا۔ میں آپ سب کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔‘‘ ماموں ریاض بری طرح رو پڑے تھے، بس اتنا ہی موقع مل سکا تھا ہم لوگوں کو بات کرنے کا۔ ویسے بھی میں ایک ناپسندیدہ مجرم تھا اور میری وجہ سے جیل کے حکام کو سخت عذاب میںگرفتار ہونا پڑا تھا، اس لئے میرے ساتھ ضرورت سے زیادہ سختیاں تھیں۔ سنتریوں نے ماموں صاحب کو شانوں سے پکڑ کر باہر دھکیلتے ہوئے کہا۔
’’چلو بھئی وقت ختم ہوگیا، گھر نہ بنائو اسے اپنا۔‘‘ وہ لوگ ماموں صاحب کو دھکیلتے ہوئے باہر لے گئے اور میں جالی کے پیچھے کھڑا بے بسی کی نگاہوں سے اپنے پیارے ماموں کی یہ بے عزتی دیکھتا رہا۔ جی چاہ رہا تھا کہ سرٹکرا ٹکرا کرمرجائوں، مگر شاید یہ بھی میرے بس میں نہیں رہا تھا، سر کے زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے، اگر کوئی اور مجرم ہوتا تو اسے شاید ابھی اسپتال میں ہی رکھا جاتا لیکن ڈاکٹر بھی مجھ سے خوفزدہ تھے، یہاں تک کہ اب تو جیل کے سنتری تک میری سلاخوں کے پاس سے گزرتے ہوئے گھبراتے تھے اور دور ہی دور سے مجھے دیکھتے تھے، یا رک کر ایسی نگاہوں سے مجھے دیکھتے تھے جیسے میں ابھی سلاخیں توڑ کر ان پرحملہ آور ہو جائوں گا۔ کسی انسان کی یہ بے قدری اس کیلئے کس قدر دلدوز ہوسکتی ہے، اس کا اندازہ کوئی صاحب دل ہی لگا سکتاہے۔ بے بسی کے دن، بے کسی کی راتیں، جیل کی تاریک کوٹھری، تنہائی اور نفرت بھری نگاہیں، یہ ساری چیزیں اب میرے لیے تھیں اور میں اپنے گناہ کوکم نہیں سمجھتا تھا۔ کیوں میں نے لالچ میں آکر زندگی کو اصول کے دھارے سے ہٹایا تھا اور بے اصولی اپنا لی تھی۔ جادو سیکھ کر یا سفلی علم کا سہارا لے کر میں اپنے مستقبل کو بنانا چاہتا تھا۔ آہ! یہ گناہ تھا میرا اوراس کی سزا بے حد طویل تھی، بے حد طویل۔ کئی بار رُو رُو کرخدا سے دعا مانگی تھی، توبہ کی تھی، لیکن شاید میں اپنے جرم کو پوری طرح سمجھ نہیں پایا تھا۔ مجھے اپنے گناہ کا پوری طرح احساس نہیںتھا، میرے لیے ابھی بہت طویل سزا تھی۔ پھر دوسری کہانیاں جاری ہوگئیں۔ ماموں ریاض بے پناہ پیسہ خرچ کر رہے تھے۔ عدالت میں میرا چالان پیش کردیا گیا تھا۔ مجھ پر دہرے قتل کا جرم تھا۔ حکیم سعد اللہ کا قتل اور اس کے بعد ایک قیدی غلام خان کا قتل، البتہ میرے وکیل ضمیر الدین صاحب نے اپنی مرضی کے خلاف میری بہت زیادہ مدد کی تھی۔ انہوں نے غالباً کچھ ایسے دلائل پیش کئے تھے جن کی بناء پر مجھے پاگل اورخبطی قرار دے دیاجائے لیکن وکیل سرکار انہی لوگوں میںسے تھا جو مجھے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس نے جج صاحب سے میرے دماغی معائنے کامطالبہ کیا اور جج صاحب نے حکم دیا کہ اعلیٰ قسم کے دماغی اسپتال سے میرا معائنہ کرایا جائے اور رپورٹ آئندہ پیشی پر ان کے سامنے پیش کی جائے۔ یہ سب کچھ بھی ہوا، میرا دماغی معائنہ کرایاگیا۔ پولیس کے جوانوں کی نگرانی میں مجھے اسپتال لے جایاگیا، تقریباً پانچ دن وہاں صرف ہوئے۔ طرح طرح کے ایکسرے، مختلف طریقوں سے دماغی تجزیئے، عاجز آچکا تھا ان تمام باتوں سے، لیکن جی رہا تھا۔ پھر پیشی ہوئی اور میرے دماغی معائنے کی رپورٹ پیش کردی گئی اور ڈاکٹروں کا متفقہ فیصلہ جج صاحب کے سامنے پیش کر دیا گیا جو یہ تھا کہ میں دماغی طور پر ایک تندرست آدمی ہوں اور میرے دماغ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اس کے بعد پانچ سماعتیں اور ہوئیں اور پھر مجھے اس دنیا سے رخصتی کا پروانہ دے دیا گیا۔ سزائے موت ہوگئی تھی مجھے، غالباً سب ہی کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا، عدالتی کارروائی کے دن جس دن فیصلہ سنایا جانے والا تھا، ماموں ریاض کے ساتھ والد صاحب بھی تھے، وہیں بے ہوش ہوگئے اور ماموں ریاض انہیں سنبھالنے لگے۔ میرے لئے دن کا تعین بھی کر دیا گیا اور اس بار مجھے جیل کی جس کوٹھری میں بھیجا گیا، وہ بہت ہی زیادہ تنگ و تاریک تھی، وہاں وحشتوں کا راج تھا۔ مجھے اپنی موت کا وقت معلوم ہو چکا تھا اور یہ بڑی عجیب بات تھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ موت کا کوئی وقت نہیںہوتا، زندگی کب ختم ہوگی، یہ کوئی نہیں جانتا، لیکن کیسی انوکھی بات ہے کہ میں جانتا تھا کہ فلاں دن فلاں وقت مجھے اس دنیا سے رخصت کر دیا جائے گا۔ ان دنوں سوچیں بہت زیادہ جامع نہیں تھیں، بس اُڑے اُڑے خیالات تھے اور ماضی کی کہانیاں۔ یہ غالباً تیسرے دن کی بات ہے، میرا بھائی، بہن اور ماموں ریاض مجھ سے ملاقات کے لئے پہنچے۔ سب کے سب زار وقطار رُو رہے تھے۔ میں نے غصے میں کہا۔
’’آپ لوگ یہاں کیوں آئے ہیں، میں کسی سے ملنا نہیں چاہتا۔ آپ میں سے کوئی میرا اپنا نہیںہے۔ کیوں یہاں آئے ہیں، چلے جائیے، چلے جائیے۔‘‘
’’بھائی جان۔‘‘ میری بہن بلک بلک کر رو پڑی۔ میں نے اسے خونی نگاہوں سے دیکھا اور بولا۔ ’’ میں کسی کا بھائی جان نہیں ہوں، میرا اب اس دنیا سے کوئی واسطہ نہیں ہے، جائو اگر مجھ سے اپنا کوئی رشتہ ہی سمجھتے ہو تو میرا صرف ایک کام کردینا، وہ یہ کہ اماں اور ابا کا خیال رکھنا۔ میں نے ان لوگوں سے منہ موڑ لیا اور وہ سب روتے اور بلکتے ہوئے چلے گئے۔
میں تو اب ان لوگوں میں سے تھا جن سے دنیا چھین لی جاتی ہے، اور اب تو مجھے ساری باتیں بے کار لگتی تھیں۔ میں رات کو زمین پر لیٹ گیا۔ دوسرے دن پھانسی کی سزا دی جانی تھی مجھے، غورکرتا رہا، سنتری مجھے عبادت کی تلقین کر تے رہے۔ آج پہلی بار میں نے ان کی آنکھوں میں ہمدردی کے آثار دیکھے تھے۔ ایک سنتری نے مجھ سے کہا۔ ’’بابو عبادت کرو، اللہ کے حضور جارہے ہو، جو کچھ کرکے جارہے ہو، وہ اچھا نہیں تھا لیکن توبہ قبول ہوجاتی ہے۔‘‘ میں نے اسے کرخت نگاہوں سے دیکھا اوردوسری طرف رخ کر لیا۔ صبح قریب آ رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی اعصاب میں ایک کھنچائو پیدا ہوتا جا رہا تھا، ذہن میں تنائو پیدا ہوگیا تھا۔ سنتری آئے، انہوں نے مجھے کوٹھری سے نکالا۔ دونوںہاتھ پشت پر باندھے اور مجھے شانوں سے پکڑ کر لے چلے۔ ایک ایک قدم منوں وزنی لگ رہا تھا۔ ہر قدم پر یہ محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی گہرا گڑھا ہے جس میں، میں جاگروں گا، شانوں پر شدید دبائو محسوس ہو رہا تھا۔ پھر دفعتاً کسی نے میری گردن پر گدگدی کی اور میں چونک پڑا۔ سنتری مجھ سے دور تھے، پھر یہ کون ہے، عجیب سی کیفیت محسوس ہو رہی تھی، پھر یوں لگا جیسے سر پر کوئی چیزچل رہی ہے لیکن بندھے ہوئے ہاتھوں کی وجہ سے اسے ٹٹول نہ سکا، تب ہی میرے کانوں میںآواز ابھری۔
’’میں ہوںمیاں جی، پہچانا۔‘‘ اور میں نے اسے پہچان لیا۔ بھلا اسے نہ پہچانتا، وہی منحوس آواز۔ میرے ساتھ چلنے والے سنتری اگر غورکرتے تو میرے سر پر بیٹھی مکڑی کو دیکھ سکتے تھے۔ ’’نہیں میاں جی، یہ سسرے ہمیں ناہیں دیکھ سکتے۔‘‘
’’اب کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’مجا آرہا ہے میاں جی کہ نا۔‘‘ اس کی آواز سنائی دی اور پھر باریک سا ٹمٹماتا ہوا قہقہہ… میں بھلا اس بات کا کیا جواب دیتا۔ ’’پھانسی ہو جائے گی اب تمہیں، ٹھور مر جائوگے۔ دیکھا تم نے کہا تھا نا ہم نے…‘‘ میں خاموشی سے قدم بڑھاتا گیا۔ ’’جندگی بڑھیا ہے یا موت میاں جی۔ بولو جینا چاہو ہو یا مرنا؟‘‘
’’میرے ذہن میں چھناکا سا ہوا تھا۔ میں بولے بغیر نہ رہ سکا۔ ’’اب بھی زندہ رہنے کا کوئی امکان ہے؟‘‘
’’کیوں نا ہے، ہم جو ہیں۔‘‘
’’اب تو کیا کر لے گا، اب میری موت کتنی دور ہے؟‘‘ میں نے کہا اور وہ پھر اپنی مکروہ آواز میں ہنسا۔
’’تم بات توکرو میاں جی۔ ہم کا کر لیں گے، یہ تو بعد میں ہی معلوم ہو گا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ کیابات کروں؟‘‘
’’ہمارا کام کروگے؟ دیکھو میاں جی تمہارا راستہ کوئی نا روکے گا، تم وہاں جا سکو ہو جہاں ہمیں جانا ہے۔ آنکھیں بند کر کے چڑھتے چلے جانا پھاگن دوار اور پھر ہمیں وہاں رکھ دینا، اس کے بعد دیکھنا مجا جندگی کا۔‘‘
’’مگر وہ پاک مزار ہے اور تو گندا عامل۔‘‘
’’ہے رہے۔ اب بھی پاک ناپاک کے چکر میں پڑے ہو، مرجی ہے تمہاری۔‘‘
’’سن کمینے غلیظ سادھو، میرے ساتھ جو کچھ ہوچکا ہے وہی اتنا ہے کہ میں دنیا سے بیزار ہوگیا ہوں، یقینا میرے گناہ اتنے ہوں گے کہ میری یہ انتہا ہوتی اب اس آخری وقت میں، میں تیرے سامنے یہ ناپاک اقرار کر کے اپنا ایمان نہیں کھونا چاہتا۔ موت میرے سامنے ہے، اب مجھے کسی اور چیز سے دلچسپی نہیں ہے، میں تھوکتا ہوں تجھ پر۔‘‘ وہ کچھ دیر خاموش رہا، پھربولا۔
’’ جندہ تو تمہیں رہنا ہے میاں جی۔ میں سمجھا تھا کہ کس بل نکل گئے ہوںگے، موت سامنے دیکھ کر ہوش آگیا ہو گا مگر کوئی بات نہیں میرے پاس بھی وقت ہے اور تمہارے پاس بھی۔ یہ کام تمہیں کرنا ہوگا۔ آج نہیں کل، کل نہیں پرسوں، ایسے نہیں چھوڑوں گا میاں جی۔ ایک دفعہ میں مر گئے تو کا فائدہ، مجا تو جب ہے کہ باربار مرو۔ اس وقت تک مرتے رہو جب تک ہمارا کام کرنے کے لئے تیار نہ ہو جائو۔‘‘
’’سنتری چونک چونک کر مجھے دیکھ رہے تھے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ شاید میں کچھ کہہ رہا ہوں لیکن میں ان سے مخاطب نہیں تھا۔ آخری الفاظ کے بعد میں خاموش ہوگیا مگر میری سمجھ میں کچھ نہیں آیاتھا۔ بالآخر میں جیل کے پھانسی گھر پہنچ گیا، عجیب سی جگہ بنی ہوئی تھی، مجھے سیڑھیاں چڑھائی گئیں، پھرمیری آنکھوں پر کپڑا چڑھایا گیا۔ مجسٹریٹ، جیلر اور ڈاکٹر وغیرہ موجود تھے، عجیب پُراسرار ماحول تھا، مجھ پرسکوت طاری تھا، پھر میری گردن میں پھانسی کا پھندا فٹ کیا گیا، مجھے اپنے پیروں تلے زمین نکلتی محسوس ہوئی، پھر یوں لگا جیسے کوئی نرم چیز میرے پیروں کے نیچے آگئی ہو، کسی نے مجھے نیچے گرنے سے روک لیا ہو۔ پھر ایک دھواں سا میرا اوپر چھا گیا اور دو ہاتھوں نے میری گردن سے پھندا نکال لیا۔ عجیب سا شور سنائی دیا، بھاگ دوڑ ہونے لگی، کسی نادیدہ ہاتھ نے میری کلائی پکڑی اور دوڑنے لگا۔ میں بے اختیار قدم اٹھا رہا تھا بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ میںگھسٹ رہا تھا، پھر جیل کا دروازہ نظرآیا اور پھر دروازے پر کھڑے سنتری اِدھر اُدھر لڑھک گئے۔ ان کے ہاتھوں سے بندوقیں گرگئی تھیں۔ کسی نے ذیلی دروازہ کھولا اور مجھے باہر نکال لایا۔ جیل کے دروازے سے کچھ فاصلے پر املی کا ایک درخت نظر آرہا تھا جو بہت گھنا تھا اور اس کی موٹی موٹی شاخیں دور تک پھیلی ہوئی تھیں ۔ مجھے یوں لگا جیسے کسی نے مجھے اٹھا کر ایک موٹی شاخ پر بٹھا دیا ہو۔ میرا سانس پھول رہا تھا، حالت خراب ہو رہی تھی ۔ پھراچانک میرے سر سے کوئی چیز لگی۔ دو پائوں تھے جو لمبے ہوتے جا رہے تھے، پھر وہ اسی شاخ سے آٹکے جس پر میں بیٹھا ہوا تھا اوراس کے بعد ایک جسم بھی اس شاخ پر آگیا۔ یہ کہنا بیکار ہے کہ میں اسے پہچانتا تھا، وہی منحوس چہرہ میرے سامنے تھا اور وہی شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی۔
’’کیسی رہی میاں جی، بچ گئے پھانسی سے تم …‘‘ میری قوت گویائی ختم ہوگئی تھی، پورا جسم لرز رہا تھا۔ آہ! یہ سب کچھ خواب نہیں تھا۔ زندگی ختم ہو گئی تھی میری، سب کچھ ہوگیا تھا، پورے حواس کے عالم میں ہوا تھا مگر بچ گیا تھا۔ میں زندہ ہوں، میں زندہ ہوں۔ اس نے کہا ’’ اور اب آگے تمہیں بچنا ہے میاں جی۔ پھانسی دینے والے مصیبت میں پڑ گئے ہیں، ساری جیل میں تمہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ جائو گے ان کے پاس؟‘‘ میں خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔ اس نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ادھر دیکھو، تمہارے گھر والے تمہاری لاش لینے آئے ہیں۔ سارے کریا کرم کا بندوبست کرلیا ہے انہوں نے۔ سنو میاں جی اور کچھ نہیں کہیںگے تم سے، ہمیں اتنا کہنا ہے کہ ایک دن تمہیں ہمارا یہ کام کرنا پڑے گا۔ خود آئو گے چل کر ہمارے پاس، ہم سے رو رو کر کہو گے مہاراج ہم تمہیں پیر پھاگن کے دوارے لے چلنے کیلئے تیار ہیں۔ آئو ہمارے ساتھ چلو۔ جب تک تم ہمارا یہ کام نا کرو گے، ایسے ہی دربدر پھرتے رہو گے۔ جہاں جائو گے مصیبت تمہارے ساتھ ہوگی، جہاں ٹکو گے وہاں والے بھی مصیبت میں پھنس جائیں گے۔ کوئی تمہیں ساتھ رکھنے کو تیار نہ ہو گا، سب تم سے پناہ مانگیں گے اور پناہ تمہیں کہاں ملے گی، ہمارے پاس آکر، ہمارا کام کرکے… کا سمجھے۔ ہمارا کام ای تھا کہ ہم تمہاری جان بچا کر یہاں تک لے آئے، روشنی میں نیچے اترے تو دھر لئے جائو گے، رات کو اترنا اور گھر چلے جانا اور پھر سوچنا… کا سمجھے۔‘‘
وہ اچانک میرے سامنے سے غائب ہوگیا۔ میں پتھرایا ہوا تھا، ہاتھ پائوں سن تھے، اپنا بدن اپنا لگتا ہی نہیں تھا اور اب اپنا وجود اپنا تھا بھی کہاں، مجھے تو سزائے موت ہوچکی تھی۔ جیل کی دنیا میں بھی یہ اپنی نوعیت کا پہلاہی واقعہ ہو گا۔ اس سے پہلے بھلا ایساکہاں ہوا ہوگا مگر کچھ احساس تو دوسرے لوگوں کو بھی ہو گا۔ اب تو سوچا جائے گا کہ میں بے گناہ تھا، کسی پُراسرار جال میں پھنسا ہوا تھا، اگرایسا نہ ہوتا تو یہ کیسے ہوتا۔ ضمیر الدین صاحب نے یہ حوالے دیئے تھے مگر وکیل سرکار نے ان باتوں کا خواب مذاق اُڑایا تھا۔ ضمیرالدین صاحب کے بار ے میں نازیبا جملے ادا کئے تھے۔ اس نے کہا تھا۔ ’’دوسرا قتل صرف اس لئے کیا گیا ہے جناب والا کہ ملزم خود کو دماغی مریض ظاہر کرنا چاہتا ہے، اس نے صرف اس بات کا یقین دلانے کیلئے ایک انسان کی جان لے لی۔ وہ بے رحم اورسفاک ہے، اسے صرف اور صرف موت کی سزا دی جائے۔
ٹھیک ہے وکیل صاحب اس کایقین آپ کو ضرور دلائوں گا۔ میں نے سوچا۔ دل و دماغ عجیب کیفیت کا شکار تھے، بڑی مضحکہ خیز کیفیت پیدا ہوگئی تھی، خوف تھا کہ نیچے اترا تو نہ جانے کیا ہو، زندگی کسے پیاری نہیں ہوتی۔ ٹھنڈی سانس لے کر ادھر دیکھا جہاں بے چارے ماموں ریاض میرے چھوٹے بھائی اور پڑوس کی مسجد کے پیش امام مزید دو افراد کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔ ایک لمحے کیلئے دل چاہا کہ درخت سے نیچے کودوں، دوڑتا ہوا ان کے پاس پہنچ جائوں، انہیں بتائوں کہ میں زندہ ہوں۔ مگر ہمت نہ ہوسکی تھی۔ پھر کچھ سپاہی باہرآئے، ماموں صاحب کو بلا کر اندر لے گئے، کوئی آدھے گھنٹے کے بعد ماموں صاحب واپس آئے، عجیب شکل ہو رہی تھی۔ سب واپس چلے گئے، مجھے تو یہ پورا دن یہاں گزارنا تھا۔ حیران پریشان درخت پر بیٹھا رہا۔ دن کو بارہ بجے کے قریب ایک بار پھر میں نے ماموں ریاض کو دیکھا، اس وقت والد صاحب، والدہ صاحبہ، بھائی اور بہن بھی ساتھ تھے۔ والدہ کو بہت دن کے بعد دیکھا تھا، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے مگر جذبات سے کام نہیں لیا جاسکتا تھا۔ صبر کیا۔ وہ لوگ اندر گئے، کافی دیر کے بعد باہر آئے اور پھر چلے گئے۔ میرا تمام دن بھوکے پیاسے گزرا تھا، پھر جب خوب تاریکی پھیل گئی تو میں نیچے اترا اور تیزی سے ایک طرف چل پڑا۔ گھرکا رخ بھول کر بھی نہیں کر سکتا تھا کہ قانون آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑے گا اور پھرسادھو کے الفاظ بھی یاد تھے۔ گھر والے تو صبر کر ہی لیں گے مگر میں انہیں اپنی نحوستوں کا شکار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آہ! اب کیاکروں، کہاں جائوں، کہاں ٹھکانہ ہے میرا…؟
دل و دماغ خوف کے زیر اثر تھے، قوت فیصلہ ساتھ چھوڑ چکی تھی۔ شہر اتنا اجنبی نہیں تھا لیکن اس وقت یوں لگ رہا تھا جیسے پوری کائنات میں کوئی شناسا نہ ہو۔ انسانی شکل میں نظر آنے والا ہر وجود دشمن ہو۔ آہ… موت میری تاک میں اور زندگی ایک کمزور، بے بس چڑیا کی مانند جو پرواز کے ناقابل ہو اور جینے کی آرزو میں پر پھڑپھڑا رہی ہو۔ کون سی جگہ ہے جو میری پناہ گاہ بن جائے۔ میری نگاہ ہر سائے میں پناہ ڈھونڈ رہی تھی، مگر ہر سایہ خوف کا سایہ تھا۔ قدم کس طرف لے جا رہے ہیں اندازہ بھی نہیں ہو رہا تھا، پھر شاید غیب سے رہنمائی ہوئی۔ ریل کی سیٹی کی آواز رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی کانوں سے ٹکرائی تھی اور میرے قدم رک گئے تھے۔ ریل… ہاں ایک راستہ یہ بھی ہے۔ کچھ فاصلے پر ریلوے اسٹیشن ہے، کیوں نہ یہاں سے نکل جایا جائے، کیوں نہ یہ شہر چھوڑ دیا جائے۔ ہوسکتا ہے یہاں سے دور جا کر زندگی کی آس بندھے۔ قدم پھر آگے بڑھے، رفتار تیز ہوگئی، دماغ پر نیند جیسی کیفیت طاری تھی۔ اسی عالم میں اسٹیشن پہنچا، بہت سی چیزوں کا احساس بھی نہ ہوسکا۔ بس ریل کے آگے بڑھنے کے جھٹکے سے جیسے آنکھ کھل گئی۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اردگرد کے مناظر دیکھے۔ کھڑکی سے روشنیاں رینگ رہی تھیں، اندر ملگجے بلب ان مسافروں کو نمایاں کر رہے تھے جو کہیں دور سے آ رہے تھے اور دور جا رہے تھے۔ سب کے سب میری طرح نیند کے سحر میں ڈوبے ہوئے، نہ جانے میں کیسے ان کے درمیان آیا تھا اور انہوں نے کیسی نگاہوں سے مجھے دیکھا تھا۔
روشنیوں کے دوڑنے کی رفتار تیز ہوگئی، یوں لگتا تھا جیسے انہیں اندھیرے کا خوف ہو اور وہ اس سے جان بچانے کے لئے بھاگ رہی ہوں۔ کہیں پھر اندھیرا تمام روشنیوں کو کھا گیا اور کھڑکی سے باہر گھور تاریکی کے سوا کچھ نہ رہا۔ میں نے اس اندھیرے سے خوف زدہ ہو کر آنکھیں بند کرلیں، لیکن جونہی پلکیں جڑیں، میرے اختیار سے باہر ہو گئیں۔ کوشش کے باوجود آنکھیں نہ کھلیں۔ ذہن سے سوچوں کی گرفت سے آزادی کی جدوجہد کی اور اس کے حصول میں کامیاب ہوگیا۔ سارا بدن خوشگوار احساس کے ساتھ سوگیا اور نیند کی یہ عنایت اس وقت تک قائم رہی جب تک اجالے کے شہنشاہ نے تاریکیوں کو ملیامیٹ نہ کردیا۔ باہر روشنی دوڑ رہی تھی اور ٹرین پٹریاں بدل رہی تھی۔ آبادی کے آثار نظر آ رہے تھے، غالباً ٹرین کسی اسٹیشن سے گزری تھی۔ لوگ جاگ گئے اور میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ آہ، رات بھر کا سفر طے ہو چکا تھا اور میں نہ جانے کتنی دور نکل آیا تھا، بہت کچھ پیچھے رہ گیا تھا۔ کیا میری مشکلات کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ کیا مجھے ایک پرسکون زندگی دوبارہ مل سکتی ہے۔ دل نے خود ہی جواب دے دیا، ناممکن ہے… میں اپنے گناہوں کا پھل پا رہا ہوں۔ میں فطرت سے انحراف کا مجرم ہوں۔ وہ منحوس سادھو میرا پیچھا کہاں چھوڑے گا۔ اس نے مجھے سکون کی دنیا سے بہت دور لا پھینکا ہے، میں ایک ایسا مجرم ہوں جو پھانسی کے تختے سے اتر بھاگا ہے۔ نہ جانے قانون کے رکھوالوں نے میرے فرار کا کیا جواز پیدا کیا ہوگا لیکن یہ ایک سچ ہے کہ قانون چپے چپے پر مجھے تلاش کر رہا ہوگا۔ اپنے گھر واپس نہ جا کر میں نے بہترین فیصلہ کیا تھا، وہ لوگ میری وجہ سے بدترین مصیبتوں کا شکار ہوسکتے تھے۔ اب ایک یہی غم رہے گا انہیں کہ میں ان کے درمیان نہیں ہوں۔ دفعتاً مجھے ایک اور خیال آیا اور میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، میں ریل میں سفر کر رہا ہوں، بغیر ٹکٹ ہوں۔ رات تو گزر گئی، صبح کو ٹکٹ چیکر ضرور آئے گا، میرے پاس ٹکٹ بنوانے کے لئے پیسے بھی نہیں ہیں، نتیجے میں مجھے پولیس کے حوالے کردیا جائے گا اور وہاں یہ بھی انکشاف ہوسکتا ہے کہ میں دراصل ایک مفرور مجرم ہوں۔ آہ، پہلے اس انداز میں نہیں سوچا تھا، مگر اب اس خیال سے دل بیٹھنے لگا تھا، اس کا کیا حل ہوسکتا ہے۔ صرف ایک اور وہ یہ کہ میں خود ٹرین چھوڑ دوں، مگر کیسے، چلتی ٹرین سے تو نہیں اترا جا سکتا۔ آہ جلدی کوئی اسٹیشن آجائے۔ ابھی صحیح طور پر صبح نہیں ہوئی ہے۔ اسٹیشن سے باہر نکلنے کا موقع مل جائے گا، جگہ کوئی بھی ہو مجھے کیا لینا ہے۔ سر چھپانے کا ٹھکانہ چاہئے، امید بھری نگاہوں سے باہر دیکھنے لگا۔ شاید قبولیت کا وقت تھا، دعا فوراً قبول ہوگئی۔ باہر عمارتوں کے آثار نظر آ رہے تھے، کچھ دیر کے بعد ٹرین کی رفتار سست ہوتی محسوس ہوئی۔ اسٹیشن آگیا تھا۔ میں اٹھ کھڑا ہوا، بے صبری سے ٹرین رکنے کا انتظار کرنے لگا، پھر عامل پور کا بورڈ نظر آیا۔ مجھے اس جگہ کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا، مگر میرے لئے کیا برا تھا۔ جونہی ٹرین رکی میں جلدی سے نیچے اتر گیا۔ ابھی پلیٹ فارم پر قدم رکھے ہی تھے کہ عقب سے کوئی میرے پاس آگیا۔ مجھے اپنے شانے پر ایک ہاتھ محسوس ہوا اور میرا رنگ پیلا ہوگیا، تبھی ایک سرگوشی ابھری۔
’’سرفراز۔‘‘ نہ جانے کس طرح گردن گھومی تھی، لیکن حالت بے حد خراب ہوگئی تھی۔ آنکھوں کے سامنے ایک چہرہ ابھرا، پروقار نسوانی چہرہ، خاتون کی عمر پینتالیس سال کے قریب ہوگی۔ آنکھیں گہری سیاہ اور بڑی بڑی تھیں۔ رنگ سفید، ایک عجیب سا چہرہ تھا، جسے میں دیکھتا رہ گیا، میری قوت گویائی تو ختم ہی ہوگئی تھی۔ خاتون نے آگے بڑھ کر میری کلائی پکڑ لی اور بولیں۔
’’صرف میں تھی سرفراز جسے پورا یقین تھا کہ ایک دن تم ضرور واپس آ جائو گے میرے بچے، غلطیاں معاف بھی کردی جاتی ہیں! ابا جان آ رہے تھے، ہم لوگ انہیں اسٹیشن لینے آئے تھے۔ دیکھو وہ سارے لوگ اباجان کو اتار رہے ہیں۔‘‘ خاتون نے انگلی سے ایک فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، پھر بولیں۔ ان میں سے کسی کو بھی پتا نہیں ہے کہ ہمیں دہری خوشیاں مل رہی ہیں۔ خاتون کی آواز رندھ گئی، مجھ کم بخت نے ایک بار پھر اپنے بارے میں کچھ بتانا چاہا لیکن آواز نجانے کہاں گم ہوگئی، خاتون پھر بولیں۔ ’’آئو سرفراز آئو، براہ کرم آئو، ابا جان بہت ضعیف ہوگئے ہیں، بہت دن کے بعد آئے ہیں، وہ سب تمہیں دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے۔‘‘ کچھ ایسا انداز تھا ان کا کہ میرے قدم خودبخود ان کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے اس طرح میری کلائی پکڑی ہوئی تھی، جیسے میں بھاگ جائوں گا اور پھر وہ مجھے لئے ہوئے اس جگہ پہنچ گئیں جہاں سب ایک بزرگ کو گھیرے ہوئے تھے اور معمر بزرگ ایک ایک کو گلے سے لپٹا رہے تھے، پھر انہوں نے کہا۔
’’ریحانہ ریحانہ کہاں ہے، کیا وہ نہیں آئی؟‘‘
جواب میں معمر خاتون آگے بڑھیں اور اس وقت وہ سب میری جانب متوجہ ہوئے، پھر ایک نوجوان لڑکی کی چیختی ہوئی آواز ابھری۔
’’ارے سرفراز بھائی، سرفراز بھائی۔‘‘ اور اس کے بعد وہ سارے کے سارے مجھ پر حملہ آور ہوگئے۔ میں بھلا ان سب سے مقابلہ کیسے کرسکتا تھا، میرا چہرہ ان کی غلط فہمی کو رفع کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اب بھلا کون سننے والا تھا، ایک عجیب ہنگامہ بپا ہوگیا۔ معمر بزرگ بھی آگے بڑھے۔ انہوں نے میرے سامنے کھڑے ہوکر میرا چہرہ غور سے دیکھا، پھر دونوں ہاتھ پھیلا کر مجھے سینے سے لگا لیا۔
’’تو سرفراز میاں تم، تم آخر آ ہی گئے، بہت ہی اچھا فیصلہ کیا بیٹے، بہت ہی اچھا فیصلہ کیا۔‘‘ عقل کھوپڑی سے دو فٹ اونچی اٹھ چکی تھی۔ کسی کی کوئی بات جو سمجھ میں آ رہی ہو، سارے کے سارے ایک ہی سُر میں بول رہے تھے۔ معمر خاتون نے ان سب کو روکا وہ بولیں۔
’’یہ اسٹیشن پر ہنگامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، آئو گھر چلیں، چلوگھر چلیں۔‘‘
’’مگر یہ سرفراز… یہ… یہ…‘‘
’’اسی ٹرین سے اترے ہیں چلو۔‘‘ معمر خاتون نے اس دوسری لڑکی کے سوال کے جواب میں کہا۔ جن صاحب کو نانا جان کہا جا رہا تھا انہیں تو سب بھول گئے، میرے ہی گرد جمگھٹا لگ گیا تھا، عجیب عجیب باتیں کی جا رہی تھیں میرے بارے میں۔ سارے کے سارے مجھے سرفراز سمجھ رہے تھے۔
نجانے کیوں انہیں اس قدر شدید غلط فہمی ہوئی تھی۔ لیکن میرے حق میں فی الوقت یہ بہتر تھا کیونکہ اس غول میں، میں بآسانی اسٹیشن کے گیٹ سے باہر نکل آیا تھا، ٹکٹ چیکر بھی لاپروا سا آدمی تھا، اس نے گنتی بھی نہیں کی تھی۔ بہرحال ایک طرح سے مجھے عارضی طور پر یہ سہارا مل گیا تھا۔ باہر آ کر میں نے معمر خاتون کو اپنے بارے میں بتانا چاہا، لیکن معمر خاتون نے اب میرا ہاتھ چھوڑ دیا تھا اور ان بزرگ سے باتیں کرنے لگی تھیں جو کہیں سے آئے تھے۔ بعد میں، میں نے ان لڑکیوں اور ان کے ساتھ موجود لڑکوں کو سمجھانا چاہا۔
’’سُنئے بھائی، سنئے بھائی صاحب۔‘‘ میں نے ایک نوجوان کو مخاطب کیا اور وہ مسکرا کر مجھے دیکھنے لگا پھر بولا۔
’’آپ سے تو ایسی کشتیاں ہوں گی کہ پٹخنیوں پر پٹخنیاں دی جائیں گی۔ سرفراز بھائی، آپ نے ہم سب کو زندہ درگور کردیا تھا۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہم لوگوں پر کیا گزر چکی ہے۔‘‘
’’میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ار ے تو کیا یہیں کہیں گے، گھر نہیں چلنا ہے؟‘‘
’’سنئے آپ کو… آپ کو… غلط فہمی ہو رہی ہے، میں سرفراز نہیں ہوں۔ آپ کو بہت بڑی غلط فہمی ہو رہی ہے، بعد میں آپ مجھے مورد الزام ٹھہرائیں گے۔‘‘
’’سنا نادیہ، سن لیا، یہ سرفراز نہیں ہیں۔‘‘
’’ان کی تو ایسی تیسی۔ انہیں تو دس بار سرفراز بننا پڑے گا، چلئے جلدی سے، شرافت سے، ورنہ میں لڑکی بہت بری ہوں۔‘‘ اس خوبصورت سی لڑکی نے بے تکلفی سے کہا اور آستین چڑھانے لگی، سب لوگ ہنسنے لگے تھے۔ میں ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہوگیا، واقعی سر بازار اپنے آپ کی اس شدت سے تردید کرنا نقصان دہ بھی ہوسکتا تھا۔ بڑی قیمتی گاڑیاں آئی ہوئی تھیں۔ غول بیابانی ان گاڑیوں میں بھرنے لگا۔ اسی لڑکی نے جس کا نام نادیہ لیا گیا تھا، ایک نوجوان سے کہا۔
’’آپ نے ان کے الفاظ سن لئے شاکر بھائی ذرا ہوشیار رہیں، خطرہ ہے۔‘‘
’’فکر ہی نہ کریں، چار سو میٹر تک تو میں انہیں آگے نکلنے نہیں دوں گا، اس کے بعد بھی اگر یہ دوڑتے رہے تو پھر دیکھا جائے گا؟‘‘ جس شخص کو شاکر کے نام سے پکارا گیا تھا، اس نے کہا اور ایک بار پھر سب ہنسنے لگے۔
کوئی میری بات سننے کے لئے تیار نہیں تھا، ایسی شدید غلط فہمی ہوئی تھی مجھے کہ میں خود بھی حیران تھا لیکن اس غلط فہمی سے مجھے کوئی خوشی نہیں تھی، اب میں اتنا گیا گزرا بھی نہیں تھا کہ اس غلط فہمی سے لطف اندوز ہوتا لیکن مجھ پر تو زندگی ہی کٹھن ہوگئی تھی، میں تو مصیبتوں کا مارا تھا، بھلا اس ماحول سے ان الفاظ سے کیا لطف اندوز ہوتا۔ بس دل تھا کہ مارے درد کے پھٹا جا رہا تھا اور ذہن طرح طرح کے خیالات کا شکار ہو رہا تھا۔ گاڑیاں جس عمارت میں داخل ہوئیں اسے دیکھ کر مجھے یہ اندازہ ہوگیا کہ نہایت خوشحال لوگ ہیں اور بڑی اچھی حیثیت کے مالک، آہ کاش ان لوگوں سے واقعی میرا کوئی تعلق ہوتا، چاہتا تو جھوٹ بول کر ان کے درمیان اپنے لئے جگہ بنا سکتا تھا۔ لیکن… لیکن دل یہ بھی گوارہ نہیں کر رہا تھا اور میں جھوٹ بول کر ایک اور گناہ نہیں کرنا چاہتا تھا، ویسے ہی زندگی بری طرح گناہوں کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی اور اس کا پورا پورا صلہ میں بھگت رہا تھا۔
یہاں پہنچنے کے بعد تمام لوگ نیچے اتر گئے۔ معمر خاتون، معمر بزرگ کے ساتھ نیچے اتری تھیں لیکن ان کی توجہ ان بزرگ سے زیادہ مجھ پر تھی۔ رکیں اور میرے قریب آنے کا انتظار کرنے لگیں۔ لڑکے لڑکیوں کا غول مجھے ان کے پاس لے گیا۔ معمر خاتون نے میرا بازو پکڑتے ہوئے کہا۔
’’کیا حلیہ بنا لیا ہے تم نے اپنا سرفراز، زندگی کھونے پر تلے ہوئے تھے، میں جانتی تھی مجھے یقین تھا کہ تم واپس آ جائو گے، بیٹے بڑائی اسی میں ہے اور پھر اور پھر شاید تمہیں علم ہو کہ وہ نہ رہے جن سے تمہیں اختلاف پیدا ہوگیا تھا، کیا تمہیں علم ہے کہ رحمان صاحب کا انتقال ہوگیا، میری گردن بلاوجہ ہی نفی میں ہل گئی تھی۔
’’ہاں ہم بے سہارا ہوگئے ہیں سرفراز، ہم بے سہارا ہوگئے ہیں، ہمارے سر سے سائبان سرک گیا ہے اور اب…‘‘ معمر خاتون کی آواز گلوگیر ہوگئی۔ معمر بزرگ نے بھی میرے قریب پہنچ کر کہا۔
’’چلو سرفراز میاں، تم بے شک بڑے ہو اور اب۔ اب تو تمہیں اس خاندان کی سرپرستی کرنی ہے، بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں تم پر، نجانے کہاں کہاں مارے پھرتے رہے ہو۔‘‘ ہم سب لوگ اندر داخل ہوگئے، خاتون نے ایک لڑکی کو حکم دیا کہ میرا لباس وغیرہ تیار کرے اور مجھے غسل خانے میں پہنچا دے، میں اس افتاد پر سخت حیران پریشان تھا لیکن کیا کرتا عارضی طور پر حالات سے سمجھوتا کرنا پڑا تھا، البتہ میں ان معصوم لوگوں کو مناسب موقع پر صورت حال سے آگاہ کردینے کا فیصلہ کر چکا تھا، جو شدید غلط فہمی کا شکار ہوگئے تھے۔
لڑکی مجھے ساتھ لئے ہوئے ایک وسیع کمرے میں پہنچی جو ایسی ایسی آرائشی چیزوں سے آراستہ تھا جو میں نے عالم ہوش میں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ غسل خانے کی طرف رخ کرتے ہوئے اس نے کہا۔
’’جایئے اور اب اپنا حلیہ درست کیجئے، آپ کا لباس میں ابھی تیار کئے دیتی ہوں۔ یہاں باہر اسٹینڈ پر مل جائے گا، جاتے ہوئے میں دروازہ باہر سے بند کردوں گی، تاکہ آپ فرار ہونے کی کوشش نہ کریں۔‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر اسے د یکھا، بڑی بڑی روشن آنکھوں والی خوبصورت لڑکی تھی، جس کے چہرے پر شوخی اور معصومیت سجی ہوئی تھی، پھر میں باتھ روم میں داخل ہوگیا، سفید ٹائلوں سے مرصع باتھ روم تھا، جس میں نہانے کے نئے نئے سامان موجود تھے۔ مجھے ان تمام چیزوں سے لطف اندوز ہونے کا حق نہیں تھا لیکن یہاں بھی تقدیر کے اس فیصلے پر شاکر ہوگیا، جو عارضی طورپر میرے لئے کیا گیا تھا۔ دل یہ سوچ کر کم از کم مطمئن تھا کہ میں ان لوگوں کو دھوکا دینے کا ارادہ نہیں رکھتا، بلکہ میں نے جس حد تک بھی ممکن ہوسکا اس بات کی تردید کی تھی کہ میں سرفراز ہوں۔
غسل کیا، شیو کا سامان بھی موجود تھا۔ دل چاہا کہ شیو کرلوں، چنانچہ یہ بھی کرلیا میں نے اور جب باہر نکلا تو میرا لباس رکھا ہوا تھا۔ یہ حیران کن بات تھی کہ یہ لباس بھی میرے جسم پر بالکل درست تھا۔ سلک کا کرتا اور سلک کا ہی پاجامہ، یہاں تک کہ جو سلیم شاہی جوتے میرے لئے رکھے گئے تھے وہ بھی میرے پیروں پر فٹ آئے تھے۔ اس حیران کن اتفاق پر ہنسی بھی آ رہی تھی۔ ہوسکتا ہے سرفراز بالکل میرے جیسا ہو، ورنہ اس قدر شدید غلط فہمی اوروہ بھی اتنے بہت سے افراد کو، ممکن نہیں ہوسکتی تھی، لیکن دل کے گوشوں میں ایک اور خوف کا تصور بھی ابھر رہا تھا۔ کہیں یہ بھی اسی کم بخت منحوس شیطان کی چال نہ ہو جس نے مجھے اطلاع دے دی تھی کہ میں کہیں بھی سکھ کا سانس نہیں لے سکوں گا، بلکہ جہاں بھی جائوں گا اس کی نحوست میرا تعاقب کرتی رہے گی۔ دل کو یہ سوچ کر سمجھایا کہ جو کچھ ہونا ہے، وہ تو ہوگا ہی، میں اپنے طور پر مدافعت نہیں کرسکتا اور نہ ہی میرے اندر اتنی قوتیں چھپی ہوئی ہیں۔ چنانچہ اب خوف کے عالم میں مرنے سے کیا فائدہ… ہاں اپنے طور پر میں کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جس سے میرا گناہ شدید سے شدید تر ہو جائے۔ جو کچھ کیا تھا اس کے صلے میں جو کچھ بھگت رہا تھا، بس اس سے زیادہ کی میرے اندر ہمت نہیں تھی۔ اب تو میں کمرہ امتحان میں تھا اور اپنی تقدیر پر شاکر۔
تھوڑی ہی دیر کے بعد دروازہ کھلا اور باہر اچھے خاصے لوگ موجود تھے جو مجھے لے کر ڈائننگ روم کی طرف چل پڑے ۔ ٹیبل پر ناشتے کا سامان موجود تھا اور کمرے میں تقریباً تمام ہی اہل خانہ موجود تھے۔ معمر خاتون مسلسل میری خاطرداری کر رہی تھیں اور معمربزرگ بھی۔ لڑکے لڑکیاں میرے اوپر ایک آدھ فقرہ چست کردیتے تھے اور کمرے کا ماحول خوشگوار ہو جاتا تھا۔ خاتون نے کئی لڑکیوں اور لڑکوں کو ڈانٹ بھی پلائی کہ بہت زیادہ باتیں نہ کریں اور میرے مزاج کا خیال رکھیں، میں دل ہی دل میں ہنس رہا تھا کہ واہ میں اور میرا مزاج ابھی جب انہیں اس حقیقت کا یقین آ جائے گا کہ میں وہ نہیں ہوں، جسے سمجھ کر وہ مجھے یہاں لائی ہیں تو مجھے دھکے دے کر یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ دنیا کا یہی انداز ہے اور دنیا اسی انداز میں جیتی ہے۔ ناشتے کے بعد معمر خاتون نے کہا۔
’’ابا میاں مجھے اجازت دیں تو میں تھوڑی دیر سرفراز سے باتیں کرلوں؟‘‘
’’ہاں ہاں کیوں نہیں، اور میں بھی اب سونا چاہتا ہوں، سفر سے تھک گیا ہوں تم اطمینان سے باتیں کرلو۔‘‘
’’آئو سرفراز میرے کمرے میں چلو۔‘‘ معمر خاتون نے کہا اور میں خاموشی اور سعادت مندی سے ان کے ساتھ چل پڑا، وہ مجھے ایک خوبصورت کمرے میں لے آئیں۔ اندر پہنچ کر انہوں نے دروازہ بند کر لیا اور پھر ایک کونے کی طرف اشارہ کر کے بولیں۔
’’بیٹھو، بیٹھ جائو۔‘‘ میں خاموشی سے بیٹھ گیا تھا، وہ خود بھی میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئیں، پھر انہوں نے کہا۔
’’سرفراز بیٹے زندگی میں نجانے کیا کیا اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ غلطی ہماری نہیں ہے لیکن لیکن بیٹے، تمہیں اس طرح سب کچھ چھوڑ کر نہیں چلے جانا چاہئے تھا، ٹھیک ہے مرحوم رحمان صاحب کا رویہ تمہارے ساتھ سخت ہوگیا تھا، لیکن بزرگ غلطیاں بھی تو کرلیتے ہیں لیکن کیا ان غلطیوں کی اتنی بڑی سزا دی جاتی ہے انہیں، یقین کرو رحمان صاحب کے دل پر تمہاری جدائی کا شدید زخم تھا۔ وہ فریحہ کو اس عالم میں نہیں دیکھ سکتے تھے، تمہیں اس بات کا بھی علم ہے کہ فریحہ کو وہ سب سے زیادہ چاہتے تھے، فریحہ کی جو کیفیت تمہارے پیچھے ہوئی، میں اگر بتائوں گی تو یہی سوچو گے کہ ماں ہوں، اپنی بیٹی کی وکالت کر رہی ہوں۔ مگر بیٹے تم نے زیادتی کی ہمارے ساتھ، کچھ انتظار تو کرلیتے کوئی صحیح فیصلہ بھی ہوسکتا تھا۔‘‘
’’میں آپ کو کس نام سے مخاطب کروں خاتون۔‘‘ میں نے کہا اور معمر خاتون چونک کر مجھے دیکھنے لگیں۔
’’کیوں کیا تم یہ بھی بھول گئے، تم مجھے چچی جان کہتے ہو؟‘‘
’’جی کچھ ایسے ہی حالات ہیں کہ میں اپنی مجبوریاں آپ کو بتا نہیں سکتا لیکن اس بات سے آپ کو آگاہ کردینا بے حد ضروری سمجھتا ہوں کہ حقیقتاً میں سرفراز نہیں ہوں، میں زمانے کا ستایا ہوا ایک انسان ہوں اور میں آپ کو دھوکا دے کر یہاں اپنے لئے کوئی مقام بنانے کا خواہشمند بھی نہیں ہوں۔‘‘ معمر خاتون بے اعتباری کے انداز میں سنجیدگی سے مجھے دیکھتی رہیں پھر بولیں۔
’’اس کا مطلب ہے کہ تمہارا دل ابھی صاف نہیں ہوا۔ رحمان صاحب کی موت نے بھی تمہارے دل میں ہمارے لئے نرمی پیدا نہیں کی۔ خیر جو کچھ تم کہہ رہے ہو کہتے رہو۔ تمہاری سنگدلی کا تھوڑا تھوڑا اندازہ تو مجھے تھا… لیکن… لیکن… اچھا ٹھیک ہے فریحہ سے مل تو لو۔ ایک بار اسے بھی یہ بتا دو کہ تم سرفراز نہیں ہو اور اس کے بعد ہم اپنی تقدیر پر شاکر ہو جائیں گے، جو کچھ بھی فیصلہ تم کرو گے ہمیں منظور ہوگا۔ میری بچی تمہارے جانے کے بعد کبھی مسکرائی نہیں ہے۔ کاش تمہیں ان حقیقتوں کا بھی احساس ہوتا۔‘‘
’’ٹھیک ہے خاتون بالکل ٹھیک ہے آپ میری بات بالکل نہیں مان رہیں لیکن میں آپ سے صرف چند الفاظ کہنا چاہتا ہوں کہ بعد میں آپ کو اگر حقیقتوں پر یقین آ جائے تو مجھے مجرم نہ سمجھئے گا، اس تمام کہانی میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔‘‘
خاتون کے چہرے پر ناگواری کے آثار ابھرے، انہوں نے گردن ہلائی اور آہستہ سے بولیں۔
’’تمہاری انتہاپسندی کے بارے میں سب ہی جانتے ہیں سرفراز۔ کیا تم اتنا تعاون کرسکتے ہو ہم سے کہ صرف چند روز یہاں گزار لو، فریحہ سے ملاقات کر لو۔ اگر تم ایسا کر لو گے تو یہ ہم سب پر احسان ہی ہوگا، اسے سمجھا دو اس کے بعد تمہارا جو دل چاہے وہ کرو۔‘‘ وہ اٹھیں اور انہوں نے دروازہ کھول دیا، باہر سارا غول بیابانی جمع تھا، ایک لڑکی نے کہا۔
’’جی امی جان کیا ہوا، یہ شرافت سے مان گئے یا پھر ہماری باری آگئی۔‘‘
’’تم لوگ کوئی بدتمیزی نہ کرو، سمجھیں، چلو اپنے اپنے کمرے میں جائو۔‘‘
’’ایسے نہیں جائیں گے، اگر یہ شرافت سے مان گئے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم انہیں اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔‘‘ ایک لڑکی نے کہا اور وہ سب مجھ پر جھپٹ پڑیں۔
’’نہیں نہیں، سنیے، سنیے میں چل رہا ہوں، میں چل رہا ہوں۔‘‘ میں نے بوکھلا کر کہا اور ہنستے قہقہے لگاتے ہوئے یہ لوگ مجھے ایک طرف لے چلے۔
دل ہی دل میں دکھ بھی ہو رہا تھا۔ کاش میں اس گھرانے کا ایک فرد ہوتا، کیا خوب صورت زندگی ہوتی، لیکن میری نحوست بالآخر ان لوگوں کو بھی لپیٹ میں لے لے گی۔ لڑکیاں مجھے لئے ہوئے ایک دروازے پر پہنچ گئیں، انہوں نے دروازہ کھول کر مجھے اندر دھکا دے دیا اور اس کے فوراً بعد دروازہ باہر سے بند بھی کردیا گیا تھا، عجیب سی صورتحال تھی، دل میں ایک میٹھا میٹھا سا احساس بھی جاگ رہا تھا لیکن اس کا اختتام خوف کے دبائو پر ہوتا تھا۔
گھبرائی ہوئی نگاہوں سے میں نے کمرے کا جائزہ لیا، اعلیٰ درجے کے قالین بچھے ہوئے، دروازے کھڑکیوں اور دیواروں کی مناسبت سے پردے پڑے ہوئے تھے۔ کمرے کے ایک جانب ایک مسہری تھی، جس پر دو تکیے رکھے ہوئے تھے، مسہری کی بائیں جانب پھولوں کا ایک بہت بڑا خوبصورت گلدستہ نظر آ رہا تھا، جس میں تازہ پھول لگے ہوئے تھے اور اس کے اطراف میں بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ کمرے کے انتہائی سرے پر بنی ہوئی کھڑکی کے سامنے ایک نسوانی پیکر موجود تھا، جس کی پشت دروازے کی جانب تھی۔ گہرے نیلے لباس میں ملبوس سیاہ چوٹی کمر سے نیچے تک لٹکی ہوئی تھی۔ میں سکتے کی سی حالت میں کھڑا دیکھتا رہا اور پھر بمشکل تمام میری آواز ابھری۔
’’سنیے!‘‘ نسوانی جسم میں ہلکی سی تھرتھراہٹ ہوئی اور پھر اس نے اپنا رخ تبدیل کرلیا اور آنسوئوں سے لبریز ایک حسین چہرہ میری نگاہوں کے سامنے آگیا، وہ بے حد حسین تھی، اس کے چہرے پر عجیب سی یاسیت چھائی ہوئی تھی، میں سکتے کے سے عالم میں اسے دیکھتا رہ گیا، میں زندگی کے اس شعبے سے پوری طرح روشناس نہیں تھا لیکن یہ سلگتا ہوا حسن میری آنکھوں کے راستے دل میں اترتا چلا گیا تھا۔ ان حسین اور بڑی بڑی آنکھوں سے جن کے چہرے کے نقوش ان معمر خاتون سے کافی ملتے ہوئے تھے، آنسوئوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی، میں چند قدم آگے بڑھا اور میں نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’سنیے، شاید آپ کا نام فریحہ ہے۔ یہاں سب لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ میں سرفراز ہوں۔ ان لوگوں نے مجھے ریلوے اسٹیشن پر دیکھا تھا لیکن میں آپ کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں خاتون کہ میرا نام سرفراز نہیں ہے، ہوسکتا ہے میرا چہرہ ان سے اتنا ملتا جلتا ہو کہ سب دھوکہ کھا رہے ہیں لیکن آپ کو دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ یہ غلط فہمی آپ کے لئے سب سے زیادہ بھیانک ہوسکتی ہے۔‘‘ وہ آنسو بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
’’عامل پور کیوں آگئے۔‘‘
’’تقدیر کا پھیر ہے۔ آپ سمجھدار ہیں، اچھا برا سوچ سکتی ہیںاور۔‘‘ اور ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ خاتون فریحہ بے اختیار ہوگئیں، دوڑ کر آگے بڑھیں اور میرے سینے سے سر ٹکا دیا۔
’’معاف کرو فرازی، مجھے معاف کردو، میں اپنا تجزیہ نہیں کرپائی تھی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم سے دور رہ کر میں زندہ درگور ہو جائوں گی۔ فرازی اب مجھے معاف کردو۔‘‘ وہ سسک سسک کر رونے لگی۔ میرے حواس معطل ہوئے جا رہے تھے، کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا، سکتے کے عالم میں کھڑا رہا۔ فریحہ کے دل کی بھڑاس نکل گئی تو اس نے گردن اٹھا کر مجھے دیکھا۔ پھر بولی۔ ’’مجھے معاف نہیں کرو گے؟‘‘
’’اس کے کچھ امکانات ہیں کہ آپ میں سے کوئی سمجھداری سے کام لے لے؟‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔ ’’تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تم سرفراز نہیں ہو۔‘‘
’’ہاں میں سرفراز نہیں ہوں۔‘‘
’’پھر تم کون ہو؟‘‘
’’ایک تقدیر کا مارا۔‘‘
’’تم ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے؟‘‘
کاش رہ سکتا۔‘‘ میں نے کہا اور وہ مجھے دیکھتی رہی، اس کے چہرے سے میں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ میری بات پر یقین نہیں کر رہی، پھر اس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ ’’ایک درخواست قبول کرلو گے۔‘‘
’’حکم دیجئے؟‘‘
’’اگر میرے لئے تمہارے دل میں کوئی گنجائش باقی نہیں رہی تو ٹھیک ہے، میں تمہیں مجبور نہیں کروں گی مگر تمہارے آنے سے یہ سب کھل اٹھے ہیں، امی بھی خوش نظر آ رہی ہیں، صرف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کے ساتھ کچھ وقت گزار لو۔ ابو کی موت نے ان سب کو نیم مردہ کردیا ہے۔ تمہاری وجہ سے کچھ خوشیاں مل جائیں گی۔ بات صرف میری رہ جاتی ہے تو میں اپنی تقدیر سے سمجھوتہ کرلوں گی، دوسروں پر کچھ ظاہر نہ کرو، صرف میری سزا قائم رکھو صرف میری۔‘‘
میں پھر ہونٹ دانتوں میں دبا کر اسے دیکھتا رہا، پھر میں نے کہا۔ ’’میری دعا ہے فریحہ خاتون کہ اس گھر کو کائنات کی ساری خوشیاں مل جائیں۔ میں ایک منحوس انسان ہوں، صرف اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ میری نحوست اس گھرانے کو لپیٹ میں نہ لے لے۔‘‘
’’ہاں میں نے یہ الفاظ کہے تھے، میں نے تمہیں منحوس کہا تھا کہ تمہاری نحوست نے ہمارا جینا حرام کردیاہے۔ میں ان الفاظ پر شرمندہ ہوں، بس غصے میں منہ سے نکل گئے تھے۔‘‘ فریحہ بولی۔
’’جی؟‘‘ میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’اور تم کہتے ہو کہ تم سرفراز نہیں ہو۔‘‘ اس نے افسردگی سے مسکرا کرکہا۔
’’خدا کا یہی حکم ہے تو یہی سہی، میں سر خم کرتا ہوں لیکن خاتون فریحہ آپ کو ایک وارننگ دینا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’بہتر ہے کہ دنیا کے سامنے بھی یہی ظاہر کریں کہ میرے اور آپ کے درمیان فاصلے ہیں تاکہ جب سچائی سامنے آئے تو آپ کی زندگی تباہ نہ ہو جائے، اس کے بعد بات بنائے نہیں بنے گی۔ کوئی ذریعہ نہیں ہوگا آپ کے پاس۔‘‘
’’ہاں تمہارے ان الفاظ کی وجہ جانتی ہوں، مجھ سے دور رہنا چاہتے ہو، مجھے سزا دینا چاہتے ہو، فرازی مجھ سے زیادہ تمہیں اس دنیا میں کون جانتا ہے۔ خیر اپنے لئے مجھے ہر سزا قبول ہے۔ شاید وقت میری مشکل حل کردے مجھے منظور ہے۔‘‘
میں نے بے چارگی سے گردن ہلا دی تھی۔ اس نے اداس نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اور ہوسکے تو دوسروں کے سامنے میری توہین نہ کرنا۔‘‘
’’ہمیں کوئی درمیانی راہ نکالنی ہوگی فریحہ صاحبہ۔‘‘ میں نے کہا، وہ خاموش رہی تھی۔ بحالت مجبوری اس انوکھے ڈرامے کے لئے تیار ہوگیا تھا، موت کے جبڑوں سے نکلا تھا اور کوئی اور گناہ نہیں کرنا چاہتا تھا، ورنہ اس موقع سے پورا فائدہ اٹھاتا۔ اب اسی روشنی میں عمل کرنا تھا۔ میں نے کہا۔ ’’آیئے فریحہ باہر چلیں، آپ دوسرے لوگوں کو جو کچھ بتانا چاہیں بتائیں۔‘‘
’’جی!‘‘ اس نے گردن ہلادی۔ ہم باہر آگئے۔ شریر لڑکے اور لڑکیوں کا غول جیسے منتظر ہی تھا۔ انہوں نے مختصر وقت میں انتظام کر لیا تھا، چنانچہ ہم دونوں کو پھولوں سے لاد دیا گیا۔ سب میری آمد کی خوشیاں منا رہے تھے، مگر میرا دل رو رہا تھا۔ وہ میں نہیں تھا جس کے لئے خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔ فریحہ بھی بجھی بجھی تھی۔ خوب ہنگامہ رہا تھا، البتہ ریحانہ بیگم ہم دونوں کا جائزہ لے رہی تھیں۔ رات کے کھانے کے بعد انہوں نے مجھ سے تنہائی میں کہا۔
’’لگتا ہے سرفراز میاں، تمہارے درمیان اختلاف دور ہوگیا ہے۔‘‘ مجھے موقع مل گیا۔ میں نے کہا۔
’’یہ بات نہیں ہے چچی جان، ہم دونوں کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ہم ایک ماہ تک اپنا تجزیہ کریں گے، الگ الگ رہ کر، یہ فیصلہ کریں گے کہ مستقبل میں ہمیں ایک دوسرے کے جذبات کا کس طرح خیال رکھنا ہوگا۔‘‘
’’بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘ ریحانہ بیگم نے کہا۔
’’اگر آپ اسے ہم دونوں کے درمیان رہنے دیں تو زیادہ اچھا نہیں ہوگا چچی جانٖ!‘‘ میں نے عاجزی سے کہا۔
’’الگ الگ رہنے سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘
’’میرا مطلب ہے ہمارے درمیان تعاون اور مفاہمت رہے گی۔ بس قربت نہیں ہوگی۔‘‘
’’تم دونوں ہی سرپھرے ہو۔ مگر اب تم یہاں سے جائو گے نہیں۔‘‘
’’جی چچی جان۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کرکہا۔
’’ذاتی طور پر مجھے تم سے بے حد شکایت ہے۔‘‘
’’کیوں چچی جان؟‘‘
’’یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ رحمان اس طرح ہمارے درمیان سے چلے گئے، تمہارا دل نہ پسیجا اور تم نے عادت کے مطابق ڈراما رچایا کہ تم سرفراز نہیں ہو، حالانکہ اس وقت تمہیں ساری رنجشیں بھول کر ہم سے افسوس کرنا چاہئے تھا، ہمارا سہارا بننا چاہئے تھا۔ تمہیں اندازہ نہیں کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں، بچے مرجھا کر رہ گئے ہیں، اگر تمہیں اب بھی ضد تھی تو عامل پور کیوں اترے تھے۔‘‘
’’کاش میں آپ کو ساری حقیقت بتا سکتا چچی جان۔‘‘
’’میں نے بڑی دعائیں کی ہیں تمہاری واپسی کے لئے۔ فریحہ اپنے رویے پر کتنا افسوس کرتی رہی ہے تمہیں اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ بہرحال کوئی کسی کے دل میں نہیں داخل ہوسکتا۔‘‘