پری نے اپنے کمرے میں آ کر اپنی پیکنگ کی وہ اب یہاں نہیں رہنا چاہتی تھی آنسو پونچھنے کے ساتھ ساتھ وہ پیکنگ کرنے میں ہی مصروف تھی دروازے پر دستک ہوئی
“یس” اس نے مصروف سے انداز میں جواب دیا اسے لگا تھا بوا آئی ہو گی اسے کھانا دینے
“پری کہا جانے کی تیاری کر رہی ہوں ”
آواز پر پری چونک کر مڑی صنم کو دیکھ کر ایک ترچھی طنزیہ نظر اس پر ڈالی پھر سے مڑ کر الماری میں سر اندار کر کے کھس گئی
“پریشے میں تم سے یہاں بات کرنے آئی ہوں میں جانتی ہوں تمہیں میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگا نہ اس گھر میں نہ اب تمہارے کمرے میں مگر میں جو بات کرنے آئی ہوں وہ کیے بنا یہاں سے ہرگز نہیں جانے والی ” وہ بے تکلفی سے کہ کر اس کے بیڈ پر بیٹھ گئی
پری نے مڑ کر اس ڈھیٹ لڑکی کو دیکھا یا تو وہ پاگل تھی یا پھر حد سے زیادہ ڈرامے باز جو اب بھی شاہ زر کو متاثر کرنے کے لیے یہاں آئی ہو گئی کہ دیکھ لوں شاہ زر میں کتنی اچھی ہوں جو تمہاری منہ پھٹ بیوی کو سوری کرنے آئی ہوں
“دیکھے میں آپ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی پلیز آپ یہاں سے چلی جائے مجھے بہت کام ہے میرے پاس آپ کی کوئی بات سنے کا وقت نہیں ہے ” پری کہ کر لاپرواہی سے اپنے کام میں لگی رہی اپنا سامان پیک کر چکی تھی بس اب ویسے ہی الماری میں سر گھسائے کھڑی رہی بہت ٹائم جب صنم کے جانے کے امکان نظر نہ آئے تو ناچار اسے صنم کی بات سنی ہی پڑی وہ مڑ کر اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھ گئی
“کہیے صنم آپ مجھ سے کیا ضروری بات کرنا چاہتی ہے جس کے لیے آپ کو خود چل کر میرے پاس آنا پڑا ۔۔۔ آپ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی میں آپ کو بتا دوں میں صبح ہوتے ہی جا رہی ہوں یہاں سے اس لئے پلیز آپ پریشان مت ہو شاہ زر آپ کا دوست تھا ہے اور رہے گا ۔ میں نہ پہلے کچھ تھی نہ اب ہو ان کے لیے ”
صنم نے غور سے پری کو دیکھا جو صنم سے سخت بدگمان لگ رہی تھی اس نے گہری سانس لی
“اتنی جلدی ہار مان لی تم نے”
پری نے نظر اٹھا کر صنم کو دیکھا
“مجھے جیتنے کے ایک پرسن بھی امید نظر آتی تو میں کبھی ہار نہیں مانتی مگر جو میرا تھا ہی نہیں اس کے لیے میں اپنی جان بھی دے دوں وہ میرا نہیں ہو سکتا”
“تمہیں پتا ہے پری تمہیں دیکھ کر مجھے لگا تھا ہاں وہ تم ہی ہوں سکتی ہو جو شاہ زر کو جینا سکھا سکتی ہو ۔۔۔ شاہ زر اور میری ملاقات یونیورسٹی میں ہوئی تھی وہ خود میں رہنے والا بندہ تھا اسے اپنے آس پاس کی دنیا سے کوئی غرض نہیں تھی پہلی نظر میں اسے دیکھنے والا اسے مغرور ہی سمجھتا تھا ۔ مجھے بھی وہ ایسا ہی لگا تھا پھر نا جانے میرے دل میں کیا سمائی کی میں نے شاہ زر سے دوستی کا سوچا بہت مشکل تھا مگر دو تین ماہ کی محنت کے بعد اسے مجھ سے دوستی کرنی ہی پڑی ۔۔۔ تمہیں شاشای یقین نہ آئے اس نے زندگی میں پہلی بار کیسی سے دوستی کی تھی تم خود سوچو پری وہ شخص جس کی نہ ماں تھی نہ باپ اس کا کوئی دوست بھی نہیں تھا کیسی ہو گی اس کی زندگی ۔۔ بے رونق ، اندھیروں سے بھری ہوئی ۔۔۔ پھر شاہ کی زندگی میں میں آ گئی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسے مجھ سے پیار ہو جاتا مگر نہیں شاہ کی زندگی تو پری سے شروع ہو کر اس پر ہی ختم ہوتی تھی جانتی ہو پری وہ روز مجھ سے تمہاری باتیں کیا کرتا تھا تم نے کون سا کلر پہنا ہے تم اس میں کتنی معصوم لگ رہی ہوں تم ہستے ہوئے کتنی اچھی لگتی ہوں ” اس نے چپ ہو کر پری کو دیکھا جو منہ کھولے صنم کو دیکھ رہی تھی صنم نے مسکرا کر اسے دیکھا
“تمہیں یقین نہیں آ رہا نہ ؟۔۔۔ سچ یہی ہے پری تم اس سے پورے نو سال چھوٹی ہوں اس وقت تو تم شاید بہت چھوٹی تھی اسے تم سے اس قسم کی محبت تو نہیں تھی تب تو تم بہت معصوم تھی نہ اسے تم سے بہت پاکیزہ محبت ہے جس کا اظہار اس نے آج تک کبھی خود سے نہیں کیا تو تم سے یا مجھ سے کیسے کر سکتا ہے۔۔۔۔۔ ”
“آپ کیا سمجھتی ہے آپ ایسی کوئی بھی کہانی مجھے سنائے گئی تو میں یقین کر لوں گی نہیں صنم میں بچی نہیں ہو جو آپ کی باتوں میں آ جاؤ گی ” پری نے اس کی بات کاٹ کر تلخی سے کہا
“تم جو بھی کہ رہی ہوں وہ سچ نہیں ہے پری شاہ زر کی زندگی میں وہ پہلی لڑکی تم ہو جو اس کی زندگی میں آئی جب وہ نو سال کا تھا تب تم پیدا ہوئے تھیں عام بچوں کی طرح وہ لاپرواہ نہیں تھا وہ تو بہت حساس تھا تمہارے معاملے میں تو بہت زیادہ اس نے پہلی بار جب تمہیں اپنی باہوں میں اٹھایا نہ تو اسے اٹھانا نہیں آتا تھا اس کے نتیجے میں تم اس کے ہاتھوں سے گر گئی تھی اور جانتی ہو تمہارے پاپا نے اسے کتنا مارا تھا نہیں تم کیسے جان سکتی ہو یہ سب اس نے مجھ سے شیر کیا ہے اگر آج اسے پتا چلا کے میں اس کے اور اپنے درمیان یقین کا رشتہ توڑ کر اس سب زاروں میں تمہیں شریک کر رہی ہوں نہ تو میری شکل تک کبھی نہیں دیکھے گا مگر میں اپنے دوست کو تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔۔ تم نے وہ محرومیاں دیکھی ہی کہا ہے جیسے شاہ نے فیس کیا ہے کیسا لگتا ہو گا جب ایک بچے کو اس کی ماں کے بد کردار ہونے کے طعنے ملتے ہوں جیسے خاندان کے بچے اپنے ساتھ کھلنے نہیں دیتے تھے کیونکہ ان کے ماں باپ نے انہیں اس بدکردار ماں کے بیٹے کے ساتھ کھلنے سے منا کیا تھا ۔۔۔ جیسے جب جب کوئی تکلیف ہوئی جب جب وہ بیمار پڑا اس کا خیال رکھنے کے لیے اس کی ماں نہیں تھی اس کے پاس ایسا کوئی رشتہ نہیں تھا جس کے گلے لگ کر وہ جی بھر کر رو لیتا ۔۔ تمہاری امی تمہارے پاپا سے چھپ کر اس کا خیال رکھتی تھی مگر شاہ کو چڑ تھی ایسے پیار سے جو ایک گناہ کی طرح چپ کر اسے دیا جاتا ۔۔۔ وہ ایسا نہیں تھا پری اسے خالات نے ایسا بنا دیا پری تم نے کھبی اس کے اندار جھانک کر دیکھا ہے کہ باہر سے اتنا سخت مغرور نظر آنے والا شخص اندار سے کن کن محروموں کو چھپائے پھرتا ہے ۔۔۔ ”
صنم کچھ پل کے لیے خاموش ہوئی اس نے نظر اٹھا کر پری کو دیکھا جو بے آواز رو رہی تھی اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے پانی کے جگ سے پانی کلاس میں ڈال کر پری کے آگے کیا جو پری نے بنا کچھ کہے خاموشی سے تھام لیا
“جب ہم لاسٹ سمیسٹر میں تھے نہ تب ایک بار شاہ زر نے بہت ضد کر کے کہا تھا کے میں بلک ڈریس بناؤ بلکل ویسا ہی جیسا تمہارا تھا میں نے جب بنا کر پہنا تو پتا ہے پری اس نے مجھے دیکھ کر افسوس سے سر ہلایا تھا کہنے لگا سوری صنم تو اچھی تو لگ رہی ہوں مگر تم پری کی طرح معصوم اور جوبصورت نہیں لگ رہی وہ تو اتنی پیاری لگ رہی تھی کے میں بتا نہیں سکتا ۔۔۔ اور ایک بر شاید تم نے اپنے بالوں کی کٹنگ کروائی تھی ۔۔۔ اس دن شاہ زر پورا دن ناراض رہا اسے تمہارے لمبے بالوں سے عشق تھا ۔۔ کیا کیا بتاؤں پری بتانے بیٹھی تو شاید صدیاں گزر جائے بس تم اتنا جان لوں اس ادھورے انسان کو تمہاری محبت کی بہت ضرورت ہے اس موڑ پر آ کر اسے خود سے دور مت کروں وہ اس بار بکھر گیا نہ تو پری وہ مر جائے گا اس میں اب کی بار ٹوٹ کر بکھرنے کی طاقت نہیں ہے”
“مگر صنم وہ مجھے چاہ کر بھی اپنا نہیں سکتے اسے مجھ سے میرے پاپا سے نفرت ہے جو میں چاہ کر بھی ختم نہیں کر سکتی ” پری نے روتے ہوئے کہا
“پری محبت بنا وجہ کے ہو جاتی ہے مگر نفرت کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے تم ایک بار کوشش کر کے دیکھ لوں شاید شاہ زر تم سے وہ سب کہ دے جو وہ خود سے بھی نہیں کہ پا رہا اس کے دل میں موجود نفرت نکال باہر کر دوں پری تم ہی اسے بکھرنے سے بچا سکتی ہوں ۔۔ کروں گی نہ تم ایک کوشش اسے بچانے کی ” صنم نے اس بھری نظروں سے پری کو دیکھا پری نے آنسو صاف کرتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا
“اور ہاں ایک اور بات میں شاہ زر کی صرف بہت اچھی دوست ہوں اس سے بھر کر کچھ بھی نہیں اس کی زندگی تو پریشے تھی اور ہو” صنم اٹھ کر جانے لگی
“صنم میں بہت بری ہو نہ میں نے بہت برا کیا آپ کے کردار پر شک کیا آپ کو اتنی باتیں سنائیں مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا میں بہت شرمندہ ہوں ۔۔۔” پری اس کے سامنے جا کر شرمندگی سے گویا ہوئی
“تم بہت اچھی ہوں پری اگر تم وہ سب نہ کہتی تو مجھے کبھی پتا نہ چلتا کہ میری معصوم سی بھولی بھالی سی پری میرے سر پھرے دوست سے کتنا پیار کرتی ہے وہ سب تم نے مخض جیلسی میں کہا ورنہ آئی نو پری تم ایک بہت اچھی لڑکی ہوں ”
پری نے نظر اٹھا کر صنم کو دیکھا کتنی اچھی لڑکی تھی وہ اور پری نے اسے کتنا غلط سمجھا تھا اس نے آگے بھر کر صنم کو گلے لگایا
“آپ بہت اچھی ہے صنم اس دنیا میں آپ جیسے اچھے لوگ بہت کم پائے جاتے ہیں ”
اس نے صنم سے الگ ہوکر پیار سے اس کا ہاتھ تھام کر کہا صنم نے اس کے آنسو صاف کیے
“اچھی لڑکی ایسے روتے نہیں ہے اور ہاں کل تیار رہنا میں اور تم خوب سارا وقت ساتھ گزارے گے پھر پرسوں مجھے واپس جانا ہے ”
“اتنی جلدی ۔۔۔ اور وہ شاہ زر وہ مجھے آپ کے ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گے ” پری نے روہنسی ہو کر کہا
“جانا تو ہے نہ پری میری چھٹیاں ختم ہو گئی ہے تین دن بعد مجھے پھر سے افس جوان کرنا ہے اور شاہ زر کی ٹینشن تم مت لوں میں سنبھال لوں گی بس تم جلدی سے اٹھ کر تیار ہو جانا ” پری نے سر اثبات میں ہلایا
صنم نے اس کے گال تھپکا مسکرا کر اسے شب خیر کہ کر چلی گئی پری نے کپڑے بیگ سے واپس نکال کر الماری میں سیٹ کیے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سوری ”
“فار واٹ ”
“فار ایوری تھنگ ”
“ہہہم ٹھیک ہے اور کچھ ”
صنم دو دن پری کے ساتھ وقت گزار کر چلی گئی تھی پری کو آج موقع ملا تھا کہ وہ شاہ زر سے معافی مانگ سکے وہ ابھی ابھی ہی صنم کو چھوڑ کر واپس لوٹا تھا اس وقت لاؤنچ میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا پری بھی وہی چلی آئی تھی اتنی جلدی معاف کرنے پر پری حیران ہوئی اسے تو لگا تھا وہ لڑے گا جھگڑا کرے گا مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا تھا ” آپ نے سچ میں مجھے معاف کر دیا ان سب کے لیے ” پری نے بے یقینی سے پوچھا
” کہو تو سٹامپ پیپر پر لکھ کر دے دوں ” وہ برہم ہوا
“نہیں مجھے آپ کی زبان پر بھروسہ ہے” پری نے خوش ہو کر کہا
“ناراض ان سے ہوا جاتا ہے جن سے کوئی رشتہ ہو اور تم سے میرا کوئی رشتہ نہیں”
اخبار کا صفا پلٹ کر جواب آیا
“آپ کے ماننے نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا رشتہ تو ہے آپ کے اور میرے درمیان بہت مضبوط ” پری نے خود کو مضبوط بنا کر کہا
“جس رشتے کو میں سرے سے مانتا ہی نہیں بار بار اسے مجھے باور کر کے کیا ثابت کرنا چاہتی ہو تم ”
“یہی کے آپ کے نہ مانے سے رشتہ بدل نہیں جائے گا ”
“کچھ بھی کہوں مجھے پروا نہیں ۔۔ ہاں آج یاد سے اپنی پیکنگ کر لینا میرا یہاں کا پروجیکٹ کمپلینٹ ہو گیا ہے مجھے اب جانا ہے “اس نے اخبار کو سائیڈ پر رکھ کر کہا
“ہم کہا جائے گے اب ”
“ہم نہیں صرف میں جا رہا ہوں پہلے دوبئی اس کے بعد انگلینڈ میں اپنا بزنس وہی موو کر رہا ہوں ۔۔۔ تم واپس آپنے گھر جاؤ گی اس سے ذیادہ میں تمہیں اور برداشت نہیں کر سکتا اب تمہاری مرضی تم گھر جاؤ یا دارلعلوم مجھے پروا نہیں ” شاہ زر نے پری کو بہت آرام سے خبر سنائی
“آپ۔۔۔آپ ای۔۔۔۔۔ایسے کیسے کر سکتے ہیں تین بار قبول ہے کہ کر مجھے ساتھ لائے ہو اور اب” پری سے غصّے میں بولا بھی نہیں جا رہا تھا
” تو سو بار بتا چکا ہوں میں اپنی اس غلطی پر پچھتا رہا ہوں اب اور تمہیں پاس رکھ کر خود کو اذیت میں نہیں رکھ سکتا ”
“آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے”
“مجھے جو بتانا تھا بتا چکا ہوں اب آگے تم جانو تمہارا کام آج سے ہی اپنی ساری چیزیں ایک جگہ کر لوں ” وہ کہ کر صوفے سے اٹھ کر چلا گیا
“پری اگر آج تم خاموشی رہی تو پوری عمر کے لیے شاہ زر کو کھو دوں گی جاؤ اور اپنے پیار کا یقین دلاتا شاہ زر کو ” پری کے آندر سے آواز آئی وہ جلدی سے اٹھ کر اس کے روم کی طرف آئی دروازہ کھلا تھا وہ ہلکی سی دستک دے کر اندر داخل ہوئی شاہ زر اس وقت روم کے ٹیرس پر کھڑا تھا
“کیوں کر رہے ہے آپ میرے ساتھ ایسا ۔۔ میں آپ سے بہت پیار کرنے لگی ہوں شاہ پلیز مجھے میری محبت کو یوں رسوا مت کرنے میں مر جاؤ گی آپ کے بغیر ” پری نے اپنی آنا کو سائیڈ پر رکھ کر اپنے دل کی بات کی شاہ زر اب بھی اسی پوزیشن میں کھڑا تھا
پری نے غصے میں اگے بھر کر اسے بازوں سے پکڑ کر اپنی طرف رح موڑا شاہ زر کا چہرہ خطرناک حد تک سنجیدہ تھا
“آپ مردوں کے ساتھ پتا ہے مسلہ کیا ہے آپ مرد خود کو بہت بڑی کوئی خاص مخلوق سمجھتے ہو کس بات کا غرور ہے اپ کو ہاں ۔۔ میں آپ سے اپنے پیار کا اظہار کر رہی ہوں اور آپ یو کے مجھے اگنور کر رہے ہوں کیوں آخر کیوں ”
“یہاں سے چلی جاؤ پریشے دانیال” شاہ زر نے اس کا ہاتھ جھٹک کر کہا
“نہیں جاؤ گی کبھی نہیں جاؤ گی نہ یہاں سے نہ آپ کی زندگی سے آپ ماضی میں رہ کر اپنا حال اپنا مستقبل کیوں تباہ کر رہے ہوں میں سب کچھ چھوڑنے کو تیار ہو آپ کے لیے آپ بس بدلے میں مجھے اپنا آپ دے دے شاہ زر ” پری نے منت بھرے انداز میں اس سے کہا
“تم سچ نہیں جانتی پری اس لیے پلیز مجھے مجبور مت کرو اور جاؤ یہاں سے “شاہ زر اس بار پہلے سے زیادہ غصّے میں بولا
“سچ کیسا سچ کون سا سچ آخر ایسا کیا ہے جو آپ کو میرے پاس آنے سے روک رہا ہے اگر ایسا کچھ ہےتو آج وہ سچ جان کر ہی میں یہاں سے جاؤ گی میں وہ سب جانا چاہتی ہوں جس نے آپ کو پھتر بنا دیا ہے ” پری بھی اسی کے انداز میں بولی
“سچ جانا چاہتی ہوں نہ تو آؤ میرے ساتھ میں بتاتا ہوں تمہیں وہ سچ جیسے جان کر تم خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہوں گی ” شاہ زر نے سخت نگاہ اس پر ڈالی پھر کمرے میں آ کر الماری میں کچھ تلاش کرنے لگا پری اس پورے وقت میں خاموش تماشائی بنی کھڑی رہی شاہ زر جب واپس آیا اس کے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے
“یہ دیکھ رہی ہوں یہ بوسیدہ کاغذات ہے وہ سچ جس نے مجھے انسان سے حیوان بنا دیا تھا ۔۔۔جانتی ہوں جب میں پانچ سال کا تھا تب میں نے اپنی ماں کے مرنے کے بعد یہ سب مجھے ان کی الماری سے ملے تھے بہت چھوٹا تھا میں مجھے تو لفظ پڑھنے بھی نہیں آتے تھے پھر صرف ان کو پڑھنے کے لئے میں نے خوب محنت کر کر پڑھنا شروع کیا کچا ذہن تھا میرا جوڑ توڑ کر الفاظ پڑھنے شروع کیے تھے یہ وہ سب خطوط ہے جو میری ماں میرے باپ کے لیے لکھتی رہی تھی خود پر بیتی ہر اذیت اس میں درج ہے اور یہ دیکھ رہی ہوں یہ وہ آخری خط ہے جو میری ماں نے میرے باپ کے لیے لکھا تھا ” اس نے ایک کاغذ اس کے سامنے لہرایا پری نے حیران نظروں سے وہ سارے کاغذات دیکھے
” یہ وہ خط ہے جو میں نے سب سے پہلے پڑھا پانچ سال کے بچے کو اس کی کیا سمجھ آتی ہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے ان میں لکھے ہر الفاظ کی سمجھ آنا شروع ہو گیے تھے پھر میرے دل میں اگ بھڑک اٹھی تھی مجھے ان سب کا انتقال لینا تھا ہاں مجھے نفرت ہے ہر اس رشتے سے جو دانیال سے جوڑا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
اس نے وہ سارے کاغذات پری کے ہاتھ میں تھامے خود وہی کرسی پر بیٹھ کر اپنا غصہ کنٹرول کرنے لگا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اماں مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے ”
“ہاں بولو تمہیں تو ویسے کہا فرصت ملتی ہے ماں سے دو گھڑی بیٹھ کر کوئی بات کر لے ” اماں نے حسبِ معمول طنزیہ لہجے میں کہا
“بس کرے اماں کیا چاہتی ہے آپ میں آپ کے گہٹنوں کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاؤ ہر وقت آپ کے طعنے ختم نہیں ہوتے بندہ اپنے دل کی بات کرے بھی تو کس سے ۔۔۔ باب اللّٰہ کو پیارا ہو گیا بھائی اپنی بیوی کا ہو کر رہ گیا ہے اور ایک آپ ہے جنہیں ہر وقت اپنی اولاد سے گلے شکوے ہی ہوتے ہے ” دانیال بھرا بیھٹا تھا اماں پر ناراض ہوا
“بس بس زیادہ مجھے باتیں سنانے کی ضرورت نہیں ہے کام کی بات کروں جس کے لیے تمہیں میں یاد آ گئی ہوں ” اماں نے حسبِ معمول اس کی باتوں پر دھیان نہیں دیا
“اماں مجھے یہاں نہیں رہنا جب تک ثانیہ ہے اس گھر میں اس لیے میں نے سوچھا ہے کہ میں باہر انگلینڈ چلا جاؤ کچھ ارصے بعد آو گا آپ تب تک اسے اس گھر سے چلتا کرے تو ہی بہتر ہو گا نہیں تو اماں میں کبھی بھی واپس لوٹ کر نہیں آو گا ”
“کیا کہا تم باہر جا کر تو بتائیں ٹانگیں نہ توڑ دوں تمہاری اور ایک بات تو بتاؤ تمہیں اس ثانیہ سے کیا مسئلہ ہے تمہاری تو وہ بہت اچھی پھوپو کی بیٹی ہے نہ ” اماں نے جانچتی نظروں سے اپنے لختے جگر کو دیکھا جو ثانیہ کی شادی سے پہلے اماں کے سخت خلاف تھا کہ وہ بلا وجہ ہی پھوپو سے ناراض رہتی ہے اور اب وہ اسی کی بیٹی کے ساتھ اماں سے بھر کر برا سلوک کرتا تھا اماں کا خیران ہونا تو بنتا تھا
“بس اماں وہ میری نادانی تھی ۔۔۔ اور جہاں تک رہی بات باہر جانے کی تو وہاں کی ڈگری کی ہمارے ملک میں بہت اہمیت ہے میں واپس آ کر انٹرنیشل لیول پر اپنے بزنس کو لے کر جاؤ گا آپ یا اکرام مجھے جانے سے نہیں روک سکتے مجھ کچھ فیصلے خود کرنے کا حق حاصل ہے ” وہ لاپرواہ سے کہ کر وہاں سے چلا گیا اماں اور اکرام کے لاکھ سمجھانے پر بھی وہ روکا نہیں تھا
اکرام بھی وہاں کا کام مینجر کے حوالے کر کے واپس اسلام آباد آ گیا تھا اس طرح ثانیہ اماں کے مار سے بچ گئی تھی مگر الفاظوں کا زہر اب بھی ثانیہ کا دل چھنی کرتا تھا
قمست ثانی پر مہربان ہو گئی تھی شاید اماں واشروم میں گر گئی تھی اور ایک پاؤں ٹوٹ گیا اس طرح چھ ماں ثانیہ نے اماں کی خوب خدمت کی اماں بھی انسان تھی آخر کو ثانیہ کی بے لوث خدمت پیار اور صبر کے آگے ہار گئی زبان سے اب بھی ثانیہ کو برا بھلا کہتی رہتی تھی مگر اب پہلے کی طرح اس کے کردار کو نشانہ نہیں بناتی تھی
دانیال کا بھی اکثر اوقات فون آتا رہتا اماں کسی نہ کسی بہانے اسے ٹال لیتی تھی ان کا خیال تھا وہ واپس آ کر بدل جائے گا اس کیے انہوں نے دانیال کی باتوں کو زیادہ سیریس نہیں لیا تھا اس ہے آنکھ مچولی میں چار سال گزر گئے شاہ زر بھی چار سال دو ماہ کا ہو گیا تھا دادی کا رویہ اپنی ماں کے ساتھ دیکھتا جو ہمیشہ سے ہی ذلت آمیز ہوتا انہوں نے ہاتھ اٹھانا چھوڑ دیا یہ ہی بہت تھا اتنی خدمت گزار بہو کو اپنے ہاتھوں سے اس گھر سے نکال کر اپنے لیے مشکلات نہیں پیدا کرنا چاہتی تھی
انہیں دنوں دانیال کے واپس آنے کی بھی خبر ملی اماں تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی چار سال بعد وہ اپنے لال کو دیکھنے والی تھی انہوں نے اپنی بہن سے بھی کہ دیا تھا کہ وہ تیاری شروع کرے کلثوم کو اب وہ اپنی بہو بنا کر لانے والی ہے
مگر کوئی نہیں جانتا تھا وقت ان کے ساتھ کیسا مزاق کرنے والا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بہت خوش ہوں آپکو پتہ ہے آپ چار سال بعد پھر سے باپ بنے والے ہیں” ثانیہ نے خوشی سے یہ خبر کرام کو سنائی وہ سن کر بہت خوش ہوئے
“تم سچ کہہ رہی ہوں مجھے تو یقین نہیں آ رہا”
انہوں نے دور کھڑی ثانیہ کو پاس بولا کر پیار سے کہا ثانیہ شرماتے ہوئے ان کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئی
“ہاں میں سچ کہہ رہی ہوں اللہ نے ھماری سن لی ہم پھر سے اولاً کی خوشی سے سہراب ہونے والے ہیں میں آپ کو بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش ہوں آج ” ثانیہ نے لاڈ سے ان کے قمیض کے بٹن کے ساتھ کھیلتے ہوئے کہا
” اللّٰہ ہماری دونوں الادوں کو لمبی زندگی دے بہت ساری خوشیاں نصیب کرے ”
“آمین ”
ثانیہ نے دل سے آمین کہا
“میں تمہیں بتانا بھول گیا کہ پرسوں دانیال واپس آرہا ہے مگر مجھے کام کے سلسلے میں دو ہفتے کے لئے دبئی جانا پڑ رہا ہے میں واپس آکر ہی دانیال سے ملوں گا اماں نے دانیال کی شادی کا فیصلہ کرلیا ہے بس تم اپنا اور شاہ زر کا بہت خیال رکھنا اور ہمارے آنے والے بچے کا بھی ” انہوں نے پیار سے اپنی محبوب بیوی کو دیکھا جو ہر قدم پر اس کے ساتھ ساتھ تھی
“نہیں اکرام مت جائیں مجھے اور شاہ کو آپ کے بغیر رہنے کی اب عادت نہیں رہی ہے ” ثانیہ نے اداسی سے کہا
“میری جان میں ہر ماں کراچی تو کبھی دبئی جاتا رہتا ہو آج پہلی بار تو نہیں جا رہا نا ” اس نے پیار سے ثانیہ کو اپنے قریب کر کے کہا “ہاں مگر نا جانے کیوں میرا دل اس بار بہت گھبرا رہا ہے ”
“کچھ بھی نہیں ہوتا میں ہوں نہ تمہارے ساتھ بس دو ہفتے کی بات ہے اب اچھی بیوی کی طرح مسکرا کر دیکھاؤ ” اس نے ثانیہ کو بچکارہ
ثانیہ دھیرے سے مسکرائی مگر اس کا دل اب بھی مطمئن نہیں تھا نا جانے کیا ہونے والا تھا اس کے ساتھ اس نے اکرام کے کندھے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لی وہ ہر خوف ہر در کو خود سے آزاد کرنا چاہتی تھی اب کچھ برا نہیں ہو سکتا تھا اب اکرام اس کے سامنے تھا
وہ اکرام کی محبت میں بھول گئی کہ انسان انسانوں کے ساتھ ہو کر بھی برا وقت آنے پر آنکھیں پھیر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اماں میں نے کیا بکواس کی تھی یہاں سے جانے سے پہلے اور آپ نے کیا کیا کیوں ہے وہ یہاں ۔۔ مجھے تو سمجھ نہیں آرہی کہ میری بات کو آپ نے ہمیشہ سے اتنا ہلکا کیوں سمجھا ہے آپ کو لگا دانیال نے کر لی بکواس وہ لوٹ کر آئے گا تو سب بول بھال گیا ہو گا ” وہ غصے میں اماں کے کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا اسے لگا تھا اماں نے ثانیہ کو اب تک اس گھر سے چلتا کیا ہو گا مگر یہاں آ کر اسے اپنے سامنے دیکھ کر اس کا میٹر گھوم گیا تھا وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گئی تھی دانیال نے نفرت سے اسے دیکھا جب وہ اس کے نصیب میں نہیں تھی تو اس کے ہی گھر میں اس کے بھائی کی بیوی بن کر کیوں آئی تھی کیوں اس کو اذیت پہنچا رہی ہے ۔ یہی سوچ اسے پاگل کر رہی تھی
“بیٹا وہ اکرام کی بیوی ہے اس کے بچے کی ماں کوئی وجہ ہوتی تو نکلتی نہ اس کے ساتھ ہر طرح کا برا رویہ رکھا میں نے تمہارے سامنے بھی اور تمہارے بعد بھی وہ ہمیشہ میرے نفرت کا جواب پیار محبت سے دیتی آئی ہے کیا کرتی میں کیا کہ کر اسے نکال باہر کرتی ”
اماں نے جھنجھلا کر کہا وہ تو سمجھی تھی دانیال کا وقتی غصہ ہے مگر وہ تو چار سال پہلے کہی بات بھولا ہی نہیں تھا
‘ہاں میں تو بچہ ہو نا پہلے آپ نے ہی ان لوگوں سے نفرت کرنا سکھایا جب مجھے اس سے نفرت ہو گئی تو آپ نے اسے میرے سر پر مسلط کر دیا ۔۔ ” وہ غرایا
“تمہارے سر پر مسلط نہیں کیا میں نے تمہاری شادی کروا رہی ہوں میں اس کے بعد ثانیہ اور اکرام کو علیحدہ کر لوں گی تم میں اور کلثوم ساتھ رہے گے بس اب سب باتیں بھول جاؤ سمجھے ” اماں اپنے سابقہ موڈ میں واپس لوٹ آئی تھی
دانیال نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا پھر ایک خیال نے اسے خود ہی بولنے سے روک دیا “اب جو کرنا ہے مجھے کرنا ہے اماں وہ میری نہیں ہو سکی میں اسے کسی اور کے ساتھ بھی اتنا خوش نہیں دیکھ سکتا اسے اب رونا ہو گا ساری زندگی اس گھر سے اسے ایسے رسوا کر کے نکالوں گا تمہیں ثانیہ بی بی کے پوری عمر پچھتاؤ گی ” اس نے کمینگی سے سوچھا
“آوے لڑکے باؤلے ہو گئے ہوں کیا ابھی اتنے غصّے میں تھے اب اچانک ایسا کیا ہوا ہے جو اسے اکیلے ہی اکیلے مسکرا رہے ہو ” اماں نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا
“کچھ نہیں اماں آپ سچ کہ رہی ہے دفع کرے مجھے اس سے کیا سروکار میرے لیے آپ اور کلثوم ہی کافی ہو ”
“یہ ہوئی نا بات میرے لال ” اماں خوش ہو گئی وہ مفت کی نوکر سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتی تھی
دانیال کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کا درمیانی پہر تھا ہر طرف ہو کا عالم تھا دور کہی کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آ رہی تھی سب اپنے اپنے گھر میں بے فکری کی نیند سو رہے تھے تو کوئی جگا گھروں کی چوکیداری کر رہا تھا باہر کے آوارہ چوروں سے گھروں کو محفوظ رکھنے والے لیے مگر ان لوگوں پر کیسے پہرے بٹھائے جائیں جو گھر کے اندار رہ کر بھی اپنی عزتوں پر بری نظر گھاڑے بیٹھے ہوئے ہوں
وہ بہت دھیرے سے اپنے کمرے سے باہر نکالا بالکونی میں ادھر ادھر دیکھا کوئی نہیں تھا اس نے جیب سے اس کے کمرے کی چابی نکالی چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی
“تو آج تمہارا قصہ ختم میری جان اتنا عرصہ میں نے تمہیں اس گھر میں برداشت کیا صرف اور صرف اپنے آپ کو اذیت دینے کے لیے جب تم میری نہیں کو سکی تو تم کسی اور کی کیسے ہو گئی وہ بھی میرے ہی نظروں کے سامنے میرے ہی گھر میں نفرت ہے مجھے تمہاری اس مسکراہٹ سے جو تمہارے چہرے پر میرے لیے نہیں کسی اور کے لیے ہوتی ہے ” وہ تلخی سے خود سے بولا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے کمرے کے باہر کھڑا ہو گیا چابی لاک میں لگائی وہ اس وقت سارے رشتے سارے لحاظ بھول بیٹھا تھا یاد تھا تو وہ انتقام جو اسے یہ سب کرنے پر مجبور کر رہا تھا وہ اندار داخل ہوا اپنے پیچھے دروازے کو آہستہ سے بند کیا ثانیہ پر اس کی نظر پڑی جو ساری دنیا سے بے چین آرام سے سو رہی تھی شاید آج اسکی سکون کی آخری نیند تھی دانیال آرام سے اس کے پاس جا کر اس کے سرہانے بیٹھ گیا اور ثانیہ کے بالوں میں ہاتھ آہستہ آہستہ چلانے لگا “کو۔۔۔۔۔کون ہے ” ثانیہ کچی نیند سے جاگی
“سسسش چپ بلکل چپ ” دانیال نے اپنا بھاری ہاتھ اس کے منہ پر رکھا
ثانیہ سمجھی شاید اکرام اسے اچانک آ کر سرپرائز دے رہا ہے مگر آنکھیں پوری کھول کر غور سے دیکھا تو اس کی روح فنا ہو گئی اس نے جان لگا کر دانیال کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹایا
“دا ۔۔ دانیال بھا ۔۔ بھائی آپ ”
“کہا نا چپ بلکل چپ کر جاؤ آج کی رات صرف تم میری ہوں آج تمہیں صرف میرے لیے میرے پاس ہونا ہے تمہیں پتا ہے کتنا پیار ہے مجھے تم سے مگر تم نے کبھی مجھے موقع نہیں دیا کہ میں اس بات کا اظہار کر سکھوں مگر نہیں میں آیا تھا تمہیں بتانے یاد ہے تم نے دروازا نہیں کھولا تھا کہا تھا نہ مت کرنا یہ شادی بہت پچھتاؤ گی ۔۔ پر نہیں تم نے میری بات کو مذاق سوجھا آج ہاں آج تمہیں میں بتاؤں گا تم نے جو کیا کتنا غلط کیا اپنے ساتھ میری ساتھ ” وہ بے خودی میں بول رہا تھا اس نے آگے بھر کر ثانیہ کو کندھے سے پکڑ کر خود کے قریب کیا ثانیہ کرنٹ کھا کر اس سے پیچھے ہوئی دانیال نے اپنی گرفت اور مضبوط کی ثانیہ نے بہت مذمت کی مگر دانیال انسان سے شیطان بنا بیٹھا تھا اسے اچھے برے کی تمیز نہیں رہی تھی اس نے گرفت اور مضبوط کی
“دانیال بھائی کیا کر رہے یہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے پیچھے ہٹے کیا ہو گیا ہے آپ کو ہوش میں تو ہے آپ بھابھی ہوں میں آپ کی خدا کا واسطہ ہے چھوڑ دے مجھے” اس نے زور لگا کر خود کو اس کی گرفت سے آزاد کیا اور بیڈ سے اٹھ کر باہر کی طرف بھاگنے کے لیے آگے بڑھی دانیال نے لمحہ ضائع کیا بغیر اسے بالوں سے پکڑ سے کنچھا بال اس کے سونے کی وجہ سے ادھر ادھر کھولے ہوئےتھے وہ تکلیف سے چلا اٹھی
شاہ زر اس کی چیغ سے جھاگ اٹھا تھا سامنے اپنی ماں کو روتے ہوئے دیکھ کر وہ اس کی طرف بڑھا
“مما مما ” وہ ثانیہ کو پکارتا اس کی طرف بڑھا دانیال نے ایک ہاتھ سے اسے واپس بیڈ پر دھکیلا وہ بے سود سا پڑا رہ گیا اس کی رونے میں اور شدت آ گئی
“دانیال بھائی چھوڑ ے مجھے ” ثانیہ نے خود کو چھوڑنے کی ناکام کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکی
دانیال نے اسے بالوں سے کھینچ کر خود کے قریب کیا اور اس کے منہ پر ایک بار پھر سے اپنا ہاتھ رکھ دیا
“بس میری جان اور مزہمت مت کرنا شرافت سے میری بات مان لوں تمہاری اس خوبصورتی پر کچھ حق میرا بھی تو بنتا ہے تمہیں پتا ہے تم بہت خوبصورت ہوں بہت زیادہ اتنی کے میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا آج مجھے میری پیاس بجھانے سے کوئی نہیں روک سکتا آج کے بعد تم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گی تم نے میرے وجود کو نظر انداز کیا مجھے۔۔۔ ” وہ آہستہ آواز میں غرایا
ثانیہ نے اس کے ہاتھ کر زور سے کاٹا دانیال اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا بلبلا کر اس کے بالوں کو چھوڑ کر پیچھے ہٹا
ثانیہ نے موقع کا فایدہ اٹھا کر پاس پڑا لیمپ اٹھایا دانیال پر سے اس کی طرف بڑا ثانیہ نے لیمپ اس کے سر پر دے مارا دانیال کے ماتھے سے خون بہنے لگا وہ لڑکھڑا کر پیچھے گرا ثانیہ نے آگے بھر کر شاہ زر کو اپنی باہوں میں اٹھایا شاہ زر در اور خوف سے کانپ رہا تھا وہ بھاگ کر دورازے کی طرف بھری دروازا اس کے کھولنے سے پہلے ہی کھولا جا چکا تھا سامنے اماں خیران پریشان کھڑی تھی
“اماں اماں مجھے بچا لے ” ثانیہ نے آگے بڑھ کر اماں کا ہاتھ تھام کر روتے ہوئے کہا اماں نے اس کا ہاتھ جھٹک کر آگے بڑھ کر کمرے کی لائٹ ان کی سامنے دانیال کو زمین پر بیٹھا دیکھ کر ان کا دل ہول اٹھا وہ تیزی سے آگے بڑھی
“دانیال تم یہاں اس حالت میں کیا ہوا ہے کیا ہو رہا تھا یہاں ” اماں پانی پینے اٹھی تھی آج کمرے میں ثانیہ پانی رکھنا بھول گئی تھی پیاس زیادہ لگی تو وہ پانی لینے کمرے سے نکل کر نیچے کچن میں جانے لگی کہ ثانیہ کے کمرے سے شور کی آواز سے وہ اس کے کمرے کی طرف آئی وہاں جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کا سر چکرا گیا
” اماں اس نا مراد نے سے پوچھیے کس سے مل رہی تھی رات کے اس پہر میں نے کل بھی اس کے کمرے کے ٹیرس سے کسی کو جاتے دیکھا تھا جب تک میں وہاں گیا وہ وہاں سے جا چکا تھا ۔۔ آج میں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا اماں اس نے میرا یہ حال کر دیا اور اپنے اس کمینے یار کو بھاگا دیا ” دانیال نے اماں کو دیکھ کر اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر تکلیف سے کہا
“اماں یہ جھوٹ بول رہے ہیں میں میں ایسی نہیں ہو یہ خود میرے کمرے میں غلط نیت سے آئے تھے یہ سب جھوٹ ہے اماں ” ثانیہ نے شاہ زر کو ادھر ہی نیچے اتارا آگے بڑھ کر اماں کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنی بے گناہی کا یقین دلانا چاہا
“بس کر جاؤ بدکردار عورت میرے بیٹے پر الزام لگا رہی ہوں تم اپنے گناہ چھپانے کے لیے میرے معصوم بچے پر اتنا گھٹیا الزام کیسے لگا سکتی ہوں ارے بدکردار عورت میرے بیٹے کے جانے کے بعد یہ سب کرتی رہی ہوتی تم بتا کب سے چل رہا ہے تمہارا چکر ” اماں نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر تھپڑ رسید کیا ثانیہ بے یقینی سے اماں کو دیکھتے لگی “اماں ”
“نام مت لینا اپنی گندی زبان سے میرا ” اماں نے آگے بڑھ کر خوب مارا “کس چیز کے کمی دی تمہیں میرے بیٹے نے بول کس چیز کی کمی دی جو تمہیں یہ سب کرنا پڑ گیا پتا نہیں کب سے مل رہی ہے تو اس سے بتا کون تھا وہ “اماں زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی مسلسل چلا رہی تھی دور کھڑا شاہ زر ڈر سے کانپ رہا تھا اس کے رونے کی آواز اماں کی آواز کے سامنے ڈھب سی گئی تھی وہ مما مما پکڑتا رہ گیا
“اماں خدا کی قسم میں نہیں جانتی یہاں کوئی تھا ہی نہیں میں سچ کہ رہی ہوں اماں ” ثانیہ نے اماں کو ایک بار پھر یقین دلانا چاہا مگر امام نے اپنے کان بند کر لیے تھے جیسے مار مار کر جب تھک گئی تھی مگر پھر بھی ہاتھ مسلسل چل رہے تھے “یہ بچہ اسی یار کا ہے نہ تمہارے ”
“اماں خدا کے لیے میرے بچے کو اتنی بڑی گالی مت دے یہاں کوئی نہیں آیا تھا آپ کا یہ بیٹا آیا تھا میری عزت کا جنازہ نکالنے ” وہ درد سے چلا اٹھی اسے اتنا درد مار کھانے سے بھی نہیں ہو رہا تھا جتنا اماں کے الزامات اور اس پر لگائیں گئے تہمت سے اسے تکلیف ہو رہی تھی دانیال اٹھ کر اماں نے پاس آیا اس کا سر ابھی بھی چکرا رہا تھا
“اماں مجھے جمع میں لے جائے اس بدکردار عورت کا جو بھی کرن ہے صبح کرنا ” اماں نے آگے بڑھ کر اسے تھاما اور کمرے سے لے کر چلی دروازہ زور سے بند کر کے باہر سے لاک کر لیا ثانیہ وہی کھڑی کھڑی گر گئی ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مما ” شاہ زر ان لوگوں کے جانے کے بعد بھاگ کر ثانیہ کے قدموں سے لپٹ گیا
“جی مما کی جان دیکھوں کچھ بھی نہیں ہوا سب ٹھیک ہے بلکل ٹھیک میرا بچہ تم پریشان مت ہوں ”
“مما دادی انکل گندے ہے ”
“آپ رو مت میری جان میں ابھی تمہارے بابا کو فون کرتی ہوں وہ اج ہی واپس آ جائے گے سب ٹھیک ہو جائے گا ” اس نے شاہ زر کو بچکارہ
خود دروازے کی طرف بڑھ گئی مگر بے سود دروازا باہر سے لاک تھا ثانیہ نے بےبسی سے رونا شروع کر لیا پھر کچھ سوچ کر پین کاغذ لیا اور خط لکھنے لگی
“مما آپ کیا کر رہی ہے آپ کو بابا کو کال کرنی تھی نہ انہیں کہے وہ آئے یہاں سب گندے ہے آپ کو مارتے ہیں ” شاہ زر اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا
“کچھ نہیں میری جان آپ کے بابا کو خط لکھ رہی ہوں نہیں کر سکتی دروازا لاکٹ ہے نا یہ میں لکھ کر صبح کسی طرح پوسٹ کروا دوں گی یہ جیسے ہی تمہارے بابا کو ملے گا وہ بھاگے چلے آئے گے پھر ہم دونوں کو ساتھ لے کر جائے گے ” انہوں نے نم آنکھوں سے اسے سمجھایا شاہ زر نے خیران نظروں سے مما کو دیکھا اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ اب بھی رو رہا تھا ثانیہ نے جلدی جلدی خود پر بیتی ساری روادار اس میں لکھا اور کاغذ لے کر الماری میں سنبھال کر رکھا اسے بےصبری سے صبح ہونے کا انتظار تھا وہ کسی نہ کسی طرح یہ خط اکرام تک پہنچنا چاہتا تھی تاکہ اکرام آ کر اسے اپنے ساتھ لے جائے مگر اب جو طوفان اس کی زندگی میں آنے والا تھا وہ اس کی زندگی کو بہا کر لے جانے والا تھا وہ رات اس پر بہت بھاری گزری تھی پوری رات وہ سجدے میں کھڑی اللّٰہ سے دعا مانگتی رہی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...