(Last Updated On: )
رنگ یہاں پر آپ کے چہرے کا بدلا
بات یہاں تک آپ نے سچ فرمائی ہے
فرحت نواز
پیر فیروز اللہ شاہ کے گاؤں میں ایک بہت بڑی حویلی تھی۔ اس کی گاؤں میں بہت سی زمینیں تھیں گاؤں کے قریبی قبرستان کے پاس پیر فیروز اللہ شاہ کا بہت بڑا دربار تھا نہ صرف گاوں کے لوگ بلکہ دور دور تک اس کی شہرت کے قصے تھے۔گاؤں کے لوگوں کا ماننا تھا کہ پیر فیروز اللہ شاہ ہر پریشانی کا حل ہے۔ پیر فیروز اللہ شاہ کالے علم میں ماہر تھا اس بات کا علم صرف اس کے خاص بندوں کو تھا۔
ایک دفعہ ایک عورت دربار میں آکر پیر کے سامنے گڑگڑانے لگی کہنے لگی میرا ایک ہی بیٹا تھا اس نے اپنی من پسند دلہن میرے سر پر لا کر بیٹھا دی ہے میں اس کی شادی اپنی بھانجی سے کروانا چاہتی ہوں کچھ بھی کرے اس عورت کو میرے بیٹے سے دور کردیں پیر نے کہا تمہارا کام ہو جائے گا اس کے لیے تمھیں ایک لاکھ روپیہ دینا ہو گا عورت کے پاس اسے دینے کے لیے پیسے نہیں تھے پیر نے کہا پیسے نہیں ہیں تو کیا ہوا یہ جو تمھارے ہاتھ میں دو کنگن ہیں یہ مجھے دے دو تمہارا کام ہو جائے گا اس بوڑھی عورت نے سوچا اور کہا یہ کنگن بہت قیمتی ہیں یہ میں آپ کو نہیں دے سکتی پیر نے کہا بیٹے سے بھی زیادہ قیمتی ہیں کیا یہ کنگن بڑھیا نے کہاکہ نہیں بڑھیا کو اپنی بہو سے نجات چاہیے تھی اسے اپنی من پسند بہو چاہئے تھی ہر حال میں پھر اس نے کنگن اتارے اور پیر کو دے دیے پیر فیروز اللہ شاہ نے کہا کے کل آکر تعویذ لے جانا جب سے اس کا بیٹا فیضان علیزے سے شادی کر کے اسے گھر لے کر آیا تھا اس کی ماں کلثوم بیگم ہر وقت غصہ میں رہتی تھی اس نے علیزے کو طرح طرح کی تکلیفیں دی لیکن علیزے اسے اپنا نصیب سمجھ کر برداشت کر گئی جب کلثوم بیگم نے دیکھا کہ علیزے اس کا ہر ظلم برداشت کررہی ہے تب اس کے ذہن میں تعویذ گنڈوں کا خیال آیا اب پیر نے اسے کچھ تعویذ دیے اور کہا کہ کسی طرح اسے یہ تعویذ کھانے کی کسی بھی چیز میں دے دینا میں ادھر چلہ کاٹنا شروع کر دو نگا رات بارہ بجے کے بعد تمہیں اپنی بہو سے نجات مل جائے گی وہ بہت خوش تھی اسے اپنی منزل بہت قریب دکھائی دے رہی تھی لیکن وہ اپنی خوشی کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔
سردیوں کے دن تھے ہلکا ہلکا اندھیرا ہو رہا تھا وہ گھر پہنچی تو علیزے کھانا تیار کر چکی تھی فیضان جب کام سے گھر لوٹا تو علیزے نے جلدی جلدی کھانا لگایا جیسے ہی کھانے سے سب فارغ ہوئے علیزے چائے بنانے کے لیے اٹھی کیونکہ کلثوم بیگم کو کھانے کے بعد چائے پینے کی عادت تھی اور علیزے بھی کھانے کے بعد چاے پینا پسند کرتی تھی۔ علیزے کی ساس کلثوم بیگم نے بڑی شفقت سے علیزے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا آج میں اپنی چاند جیسی بہو کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے چائے بناؤں گی۔ علیزے اس اچانک آ جانے والی تبدیلی سے بہت خوش بھی تھی اور حیران بھی کلثوم بیگم نے چائے بنائی اپنا کپ علیحدہ کیا اور علیزے کی چائے میں تعویذ چمچ سے مکس کرنے لگی فیضان کو دودھ اور علیزے کو چائے دینے کے بعدوہ اپنا کپ لے کر اپنے کمرے میں آگئی فیضان نے کہا بہت دن ہو گئے ماں کے ہاتھوں کی چاے نہیں پی اگر تم مناسب سمجھو تو میں تمہارا چائے کا کپ لے لوں؟ علیزے بہت خوش تھی کیونکہ ان پانچ مہینوں میں آج پہلی دفعہ اس کی ساس نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھا تھا اس نے خوشی خوشی وہ کپ فیضان کو تھما دیا اور خود دودھ پینے لگی جیسے ہی رات کے بارہ بجے فیضان کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کا بدن آگ میں جل رہا ہواس سے پہلے وہ علیزے کو اٹھاتا ایک ہی جھٹکے میں اس کی روح پرواز کر گئی ادھر کلثوم بیگم کو اس خوشی میں نیند نہیں ارہی تھی بڑی مشکل سے اس نے رات آنکھوں میں کاٹی اس کے علیزے کی موت کے منتظر تھی لیکن اچانک اس کا دروازہ کوئی زور زور سے کھٹکھٹانے لگا دروازہ کوئی اور نہیں بلکہ علیزے کھٹکھٹا رہی تھی علیزے ہوش وحواس سے بیگانہ تھی اس کی زبان سے الفاظ نہیں ادا ہو رہے تھے علیزے کلثوم بیگم کو اپنے کمرے میں لے کر گئی اور کہا کہ فیضان آنکھیں نہیں کھول رہا ڈاکٹر کو بلایا گیا ڈاکٹر نے کہا کہ اب فیضان اس دنیا میں نہیں رہاکلثوم بیگم اپنے بیٹے کا دکھ برداشت نہیں کرسکی اور وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھی اور اب وہ پاگل ہو چکی ہے اور کہتی ہے کہ میں ڈائن ہوں اور اپنے بیٹے کی موت کی ذمہ دار ہوں علیزے کے ماں باپ نے اس کی شادی ایک خوشحال گھرانے میں کردی وہ اب بہت اچھی زندگی گزاررہی ہے پیر فیروز اللہ شاہ بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے جب وہ ایک رات وہ اپنے کمرے میں سورہے تھے تو اس کمرے میں آگ لگ گئی اور وہ ان کی لاش جل کر کوئلہ بن گئی اور ان کا دربار بھی اب ویران ہو چکا ہے۔
آج کے دور میں بھی اسی فیصد لوگ تعویذ گنڈوں پریقین رکھتے ہیں اور اپنے مستقبل کو درد ناک بنا لیتے ہیں کہتے ہیں مظلوم کو خوشیاں مل سکتی ہیں لیکن ظالم انسان کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔ ایک سچا مومن صرف اللہ پر یقین رکھتا ہے اور اسی کے آگے جھکتا ہے ان تعویذ گنڈوں پر یقین رکھنے والا انسان تباہ برباد ہو جا تا ہے جس انسان کو اللہ تعالی پر یقین نہیں ہوتا وہی انسان شرک کرتا ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے میں ہر انسان کو معاف کر سکتا ہوں سوائے شرک کے، شرک بہت بڑا گناہ ہے جس کی سزا انسان کو اس دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔