“ویسے یہ الہام کب ہوا تمہیں کہ مجھے تم سے محبت ہے؟” اسنے نور کو میسج کیا اور ویران سڑک پر چلنے لگا۔
“تو کیا نہیں ہے؟ تم نے خود ہی تو۔۔۔۔۔۔!” نور نے اسے جواب دیا۔
“ہاں میں نے خود ہی تو کہا تھا اپنے گھر والوں کے سامنے۔” اسنے اسے میسج لکھ کر بھیجا۔
نور نے اسے کال کی۔
” مجھے پتہ تھا تم مجھے کال کرو گی۔ خیر پوچھو جو پوچھنا ہے۔” اسنے چلتے ہوئے کہا۔
“اگر نہیں ہے تو گھر والوں سے کیوں کہا تم نے؟” نور کو کبھی بھی اس شخص کی سمجھ نہیں آئی تھی۔
“ویسے شاہ تو گھوم جائے گا کیونکہ ہڈی میں ملنے میں آتا ہوں اور کال پہ تم کسی اور سے بات کرتی ہو مگر شاہ ایک ہی بندہ سمجھتا ہے۔” اس نے کہا۔
” شاہ کو کیسے معلوم کہ کوئی مجھے ملنے آتا ہے اور کوئی کال کرتا ہے۔” نور حیران ہوئی۔
“تم شاہ کو ہلکا لے رہی ہو تمہارا فون ٹیپ ہو رہا ہے۔ اس لئے میں تمہیں کال کرتا ہوں پانچ منٹ میں اٹھا لینا۔” اسے اسنے کہا اور فون بند کر کے سامنے موجود فلیٹس کی بلڈنگ میں داخل ہو کر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
“حماد میری اس سے بات ہو چکی ہے وہ کچھ نہیں کریگا۔” مہمل نے گھر پہنچ کے اسے بتایا۔
” ہممم مہمل تمہارا شاہ سے کیا رشتہ ہے؟” حماد نے سنجیدگی سے کہا۔
“شاہ سے؟” مہمل کی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
“ہاں شاہ کو نہیں جانتی تم؟ چلو میر یوسفزئی کو تو جانتی ہو نا۔” حماد نے لفظوں کو چبا کر کہا۔
” تم۔۔۔۔۔ تم میری جاسوسی کروا رہے ہو۔ تمہیں کس نے یہ حق دیا ہے؟” مہمل چیخی تھی۔
“میری جس سے شادی ہو رہی ہے یہ میرا حق بنتا ہے کہ میں اس کے بارے میں سب جانوں۔” حماد نے تلخ لہجے میں کہا۔
” تو ٹھیک ہے جاننا چاہتے ہو تو جانو مگر جب جان لو تو بتا دینا۔” مہمل نے کہا اور کھٹاک سے فون بند کر دیا۔
مہمل تیز تیز کمرے کے چکر کاٹ رہی تھی۔ وہ کسی صورت بھی اپنا ماضی حماد کو نہیں بتانا چاہتی تھی۔
” ہیلو!” مہمل نے کسی کو کال ملائی اور اسکی آواز دور سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
” کہئے شہزادی کوئی اور یقین بھی ہے آپ کو مجھ پہ کیا؟” اگلے کی آواز میں طنز تھا۔
“مشوانی پلیز!” مہمل نے آنکھیں میچ کر کہا تھا۔
“اوکے سوری کہو کیا کام ہے؟ کیونکہ بنا کام کے آج تک مجھے تمہارا فون نہیں آیا۔” اسنے ہنس کر کہا تھا۔
“پہلے اس قابل تو بنو کہ بنا کام کے فون کیا جا سکے تمہیں۔” مہمل نے طنز کیا تھا۔
” اوپس! چلیں کوشش کریگا یہ خادم مگر آپ کام بتا دیں پھر مجھے کل آپ کے نکاح کے لئے تیاری بھی تو کرنی ہے۔” مشوانی نے دانت پیس کر کہا۔
” وہ میرا ماضی کرید رہا ہے اسے کسی صورت پتہ نہیں چلنا چاہیے اور تم جانتے ہو کہ انویسٹی گیٹرز کا منہ کیسے بند کرنا ہے۔” مہمل نے کہا اور کال کاٹ دی۔
اپنے فون کو دیکھ کر مشوانی نے سرد آہ بھری اور بولا “ظالم یوسفزئیوں کی ظالم شہزادی!”
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
اسنے سامنے موجود فلیٹ کو کھولا اور اندر داخل ہو کر دروازہ پھر سے لاک کر دیا۔
ہڈی اسنے اتار کر صوفے پر پھینکی اور کچن میں کافی بنانے لگا اور ساتھ نور کو کال ملائی۔
نور نے سنا کہ کچن سے فون بجنے کی آواز ہے۔ اسنے وہاں سلیب پر فون پڑا دیکھا، تو اسکو کوسا تھا کیونکہ وہ کبھی بھی سیدھی بات نہیں بتاتا تھا اور فون اٹھایا۔
“شاہ سب جان چکا ہے کیا اسکے بارے میں اور تمہارے بارے میں۔” نور نے پوچھا۔
“نہیں فون کل سے ٹیپ ہو رہا اور کل سے اسنے کال نہیں کی اور میں کبھی بھی اپنا نام نہیں بتاتا کال میں۔ اس لئے مجھے وہ پہچان نہیں سکے گا۔” اسنے کہا۔
“اچھا لیکن جو میں نے پوچھا تھا۔ وہ بتاؤ!” نور نے کہا۔
وہ کافی کا مگ لئے باہر آ کر بیٹھا اور بولا۔
“میرے گھر والے شادی کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے تو بس جان بچانے کے لئے کہہ دیا اور ہاں تم مجھے اچھی لگی تو مدد کی۔ شاید تمہاری جیسی لڑکی سے میں شادی بھی کر لوں کبھی۔ لیکن محبت کبھی نہ کر سکوں۔”
“کیوں کیا کمی ہے مجھ میں؟ محبت کیوں نہیں ہو سکتی مجھ جیسی لڑکی سے؟” نور نے کٹیلے انداز میں کہا۔
” تمہاری جسی لڑکیوں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ اچھا ہو سکتا ہے مگر محبت نہیں۔ کیونکہ نہ تم لوگ سچی محبت کر سکتی ہو اور تمہارے ساتھ جو کام کرتا ہے اس پر وہاں واضح ہو جاتا کہ وہ کسی سے بھی محبت کر سکتا مگر تم سے نہیں۔” اسنے کافی پیتے ہوئے کہا۔
“اچھا وہ کیسے؟” نور متجسس ہوئی۔
” وہ ایسے کہ اگر وہ تم سے محبت کرتے تو کبھی بھی تمہیں اندھے راستوں پر چلنے نہ دیتے۔ اگر وہ محبت کرتے تو تمہیں روکتے رہتے۔” اسنے کہا۔
” تو کیا؟” نور کے الفاظ گم ہو گئے تھے۔
” اوہ کم اون نور!
(oh come on noor)
یہ بات تم کتنے سالوں سے جانتی ہو کہ وہ تم سے پیار کرتا ہے۔ مگر فرق اتنا ہے کہ پہلے وہ تمہیں سمجھاتا تھا اور اب چپ کر کے تمہارا کام خراب کر جاتا ہے۔ مگر میں ایک بات کہہ سکتا ہوں شاید تمہیں ابھی شدید محبت نہیں ہوئی شاہ سے لیکن پھر بھی تم شاہ کو نہیں چھوڑ پاؤ گی۔” وہ آرام سے کافی پی رہا تھا اور اب ٹی وی پہ میچ لگا چکا تھا۔
” یہ اسکی غلطی ہے میں اسے منع کرتی تھی۔ مگر وہ خود اکیلے یکطرفہ محبت میں دور نکل آیا۔” نور نے افسوس سے کہا۔
” نور محبت بس میں ہوتی تو تمہیں کبھی شاہ سے نہ ہوتی اور اگر مجھے اختیار ہوتا تمہارے لئے کسی کو چننے کا تو میں اسکو چنتا اور اسکے دل ٹوٹنے کا مجھے سب سے زیادہ دکھ ہوگا۔ کیونکہ اسکے جذبوں کی سچائی کو میں نے محسوس کیا ہے۔ خیر تمہارے جذبوں کا اللہ کرے شاہ خیال کر لے، “اسنے کہا اور اب اسکے لہجے سے واضح تھا کہ وہ بات نہیں کرنا چاہتا۔
” لیکن تم۔۔۔۔۔!” نور بول رہی تھی کہ اسنے کال کاٹی اور ٹی وی پر نظریں جما لیں۔
مگر چہرے پر صرف ملال تھا اس شخص کے لئے جسکو نور یوسفزئی بھول رہی تھی مگر وہ جانتا تھا کہ وہ شخص نور سے محبت نہیں عشق کرتا تھا۔
اس وقت ٹی وی دیکھتے ہوئے اسکے ماتھے پر بل تھے اور دماغ میں یکطرفہ محبت کے عذاب کی سوچیں۔ وہ عذاب جو اس شخص کو سہنا تھا جو نور سے عشق کی غلطی کر بیٹھا تھا۔ مگر پھر اسنے خود کو نارمل کیا کیونکہ اسے کیا؟ وہ تو کام کر رہا ہے اب چاہے کسی کو محبت میں ناکامی ہو اسے فرق نہیں پڑنا چاہیے اور پھر ہشاش بشاش ہو کر میچ دیکھنے لگا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
نکاح کا انتظام حماد کے گھر میں تھا۔
حماد تمام کوششوں کے باوجود کچھ نہیں جان پایا تھا۔ کیونکہ مشوانی نے سب کا منہ بند کر لیا تھا۔
حماد اس وقت اپنے دوستوں کے ساتھ لان میں باتیں کر رہا تھا شام کا وقت تھا۔
مہمل تیار ہو چکی تھی اور دوسری منزل پر ایک کمرے میں اپنے دوستوں عاکف، رمشا اور ملیحہ کے ساتھ بیٹھی تھی۔
وہ سب کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے جبکہ مہمل کھڑکی کے سامنے کھڑی لان میں دیکھ رہی تھی آنکھوں میں چبھن تھی جیسے اسے کسی کا انتظار ہو۔
گھر کے سامنے ایک کالے رنگ کی کار آ کر رکی اور اسکے پیچھے گارڈز کی دو گاڑیاں موجود تھیں۔
حماد کے گھر کے گارڈز یہ دیکھ کر اپنی رائفلز سنبھالنے لگے اور حماد بھی پریشانی سے گیٹ کی طرف بڑھا۔
“یار کون ہوگا؟” حماد کے دوستوں میں سے کوئی پوچھنے لگا۔
“داؤد مشوانی!” حماد کے دوست اسفر نے کہا۔
“تمہیں کیسے پتہ؟” علی نے پوچھا۔
“تم لوگ میری انفارمیشن کو غلط کہنا چاہتے ہو؟” اسفر نے انکی طرف دیکھتے ہوئے کہا جس پر سب نے گڑبڑاتے ہوئے نفی کا اشارہ کیا کیونکہ اسفر سعید سے اختلاف بہت بری بات تھی۔
“تم یہاں کیا کر رہے ہو؟” حماد نے غصے سے مشوانی سے پوچھا۔
“ہٹو اندر جانے دو۔” مشوانی نے مسکرا کر کہا۔
” میرے گارڈز گولی چلا دیں گے اگر اندر گئے تم؟” حماد نے اسے دھمکی دی۔
“مطلب حد ہے! تمہیں کیا لگتا ہے میرے گارڈز یہاں پانی کی بندوقیں لئے کھڑے ہیں۔ مجھے کچھ ہو گا تو پہلی گولی وہ سب تم پر چلائیں گے اور ذرا سوچو پندرہ گارڈز کی پندرہ گولیاں تمہیں زندہ رہنے دیں گی؟” مشوانی کی مسکراہٹ حماد کو تنگ کر رہی تھی۔
“حماد یہ میری طرف سے مہمان ہے۔” مہمل سے رہا نہ گیا تو اسنے چھت سے آواز لگائی تھی جبکہ حماد اس وقت غصے میں پاگل ہو رہا تھا مہمل نے سبکے سامنے اسے بے عزت کر دیا تھا۔
” ارے اب تو جانے دیں۔” مشوانی نے کہا اور اسے سائڈ پر کرتا اندر چلا گیا۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
“تو پھر حماد کی تمام احتیاط کے باوجود یہ نکاح نہیں ہونے والا آج۔” اسفر نے مسکرا کر کہا۔
“کیا مشوانی؟” علی بولا۔
“نہیں وہ کچھ نہیں کریگا سب حماد خود کریگا بس تم دیکھتے جاؤ۔” اسفر نے سب دوستوں کو کہا۔
“حماد مہمل سے محبت کرتا ہے اسے یوسفزئی خاندان کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ اسکے ساتھ ایسے برا نہیں ہونا چاہیے۔” حماد کا ایک دوست بولا۔
“یار بات یہ ہے کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا اور واقعی یہ سچ ہے کہ وہ اسے یوسفزئی کے خلاف نہیں کریگا۔ کیونکہ وہ پہلے سے خلاف ہے اور وہ شادی اس لئے کر رہا ہے کیونکہ اسے ایک مضبوط بیوی چاہیے سیاست میں رہنے کے لئے اور اگر مہمل خان اسکی بیوی بنی تو یقیناً کچھ ہی سالوں میں وہ بہت اوپر ہوگا۔ وہ صرف ایک سیاسی چال چل رہا اور تم لوگ بیوقوف بن گئے ہو۔” اسفر نے سب بتا کر قہقہہ لگایا تو سب دوست اسے حیرانی سے دیکھنے لگے۔
” تم یہ سب کیسے جان گئے؟” ایک دوست حیرت سے بولا ۔
” کبھی تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھا کرو۔” اسفر نے ہمیشہ کی طرح ایک ہی بات کہی مگر سب جانتے تھے کہ اسکی بات آج تک غلط ثابت نہیں ہوئی تھی۔ یعنی آج نکاح نہیں ہوگا مگر ہوگا کیا اس کے لئے سب متجسس تھے۔
“تم میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟” علی نے اس سے پوچھا کیونکہ وہ اسفر کی معلومات سے متاثر ہوا تھا۔
“یہی کہ تم سب لوگ یا سیاسی ہو یا کاروباری مگر میں وکیل ابن وکیل ہوں۔ ہر چیز کی باریکی تک چھان بین کرتا ہوں مگر خیر چلو نکاح شروع ہونے والا ہے۔” اسفر نے کہا اور اندر بڑھ گیا۔
سب دوست اسکی پشت کو دیکھ رہے تھے اور دل ہی دل میں ہمیشہ کی طرح اس سے متاثر ہو چکے تھے مگر کوئی اور بھی تھا جو اس شخص کو بڑی گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
وہ ایک دم سے جھٹکے کے ساتھ سیدھی ہوئی تھی اسکے ماتھے پر پسینہ تھا۔
اسوہ کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور وہ فوراً اٹھی اور جا کر رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھ کر کاغذ کو دیکھنے لگی جس پہ اسنے لکھا تھا۔
اندھیرا بڑھتا چلا جا رہاتھا۔
قدموں کی آواز؟
کوئی ہوا قریب سے قریب تر؟
بچانا ہے؟
وہ آ رہا ہے!
کاش وہ ریپا چینی کی بیٹی ہوتی تو اسے چھونے والوں کی موت ہو جاتی
نہیں!!!!!
زندگی کے امتحان کی شروعات!
اسوہ فوراً پانی پینے لگی اور خود کو نارمل کرنے لگی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...