زوال کا معرکہ بپا ہے
یہیں کہیں تسمۂ گلو سے لٹکتے سورج کے
خود و بکتر گرے ہیں
تم دیکھتے نہیں ہو! تمہاری آنکھوں کے صحن میں
مور خوردہ کرنیں
جگہ جگہ چور چور بکھری ہوئی پڑی ہیں
سیاہ چیونٹوں کے لشکری
چاندنی کے ریزے لیے ہوئے جا رہے ہیں اپنے بلوں کی جانب
سنا نہیں! چاک کر رہی ہیں وجود کی نیلگوں تہوں کو
کثافتیں بے ضمیریوں کی
میں اپنے پاؤں کے نیچے ادھڑی ہوئی زمیں میں
جڑوں کے پنجر سے پوچھتا ہوں
یہ کیا کہ جوہڑ سے اس نے اب کے نہیں پکارا
سمندروں کو
یہ میرا دستِ بریدہ کس کے خفیف ڈھانچے کو چھو رہا ہے
یہ کیسی تحریر چلنے والوں کی گردنوں میں لٹک رہی ہے
یہ نرخ نامہ ہے
اوہ، مکتب میں یہ زباں کیوں مجھے پڑھائی
نہیں گئی تھی!
میں کس سے بولوں
کہ سیل بازار گر لے گیا ہے سماعتوں کو
اب ایسے انبوہ لاتعلق سے رابطے کا بھی فائدہ کیا!
ہے شیلف خالی
نہ جنتری ہے نہ خواب نامہ
بتاؤ نا! قال کیا نکالوں
کہ سارے لفظوں نے اپنے معنی بدل لیے ہیں
میں کوئی ہاتف نہیں کہ فردا کا بھید کھولوں
مجھے یہ احساس ہے کہ یوں بھی
مرا سخن معتبر نہیں ہے
میں اپنے سچ کو کہاں پہ تولوں
کہ ساری بستی میں رہ گئی ہے
بس ایک میزان زرگروں کی
بس ایک پہچان۔۔۔۔ مومیائے ہوئے سروں کی
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...