(Last Updated On: )
یہی نا! قد و قامت میں ذرا سے مختصر ہوتے
اگر سر کو جھکا سکتے، تو ہم بھی معتبر ہوتے
انہیں اپنے لیے گملوں کی آسائش پسند آئی
یہ پودے رنج سہہ لیتے تو جنگل کے شجر ہوتے
عجب خواہش کہ فرش سنگ سے ڈھانپی زمینوں میں
گلوں کو شہرتیں ملتیں، پرندے نام ور ہوتے
اگر کھلتے نہ اس آنگن میں باغیچے تماشوں کے
تو روز و شب مکان وقت میں کیسے بسر ہوتے
ہوا نے ساز شاخوں پر ابھی چھیڑا نہیں، ورنہ
سماعت کی تہی جھولی میں نغموں کے ثمر ہوتے
جہاں خطاط زر لفظوں کی تقدیریں بناتا تھا
وہاں مقبول کیوں سادہ نویسوں کے ہنر ہوتے
٭٭٭