(Last Updated On: )
معید رشیدی
یہاں تو دامنِ صحرا میں تیرگی ہے بہت
سنا ہے شہرِتمنّا میں روشنی ہے بہت
مرے بدن کے جزیروں میں شور پلتا ہے
ترے بدن کے سمندر میں خامشی ہے بہت
دیا خموش ہے اور گھر میں ایک سنّاٹا
مہیب شام کے سایے میں مفلسی ہے بہت
تھکن کو ضدکہ ذرا شب گزار لی جائے
پہ ساعتوں کے قبیلے میں کھلبلی ہے بہت
طویل شب کی مسافت میں صبحِ نو کاوجود
غموں کی آنچ میں تپ کر بھی کاغذی ہے بہت
میں کیسے ہاتھ لگاؤں تجھے چراغ کی لو
ترے مزاج میں اندازِسرکشی ہے بہت
کوئی مکان کہیں اور منتطر ہے مرا
مرا قیام یہاں یوں بھی عارضی ہے بہت
حصارِفکر سے جب بھی گزرناچاہتا ہوں
تو زیرِ لب کوئی کہتا ہے سادگی ہے بہت