"پلیز دیکھیں بچی رو رہی ہے دروازہ کھول دیں میں ہاتھ نہیں لگاؤں کم از کم مجھے اُسے دیکھنے تو دیں”
دروازہ کے ساتھ لگی مسلسل پکار رہی تھی
"میڈم سر کا حکم ہے”
نور کو چُپ کرواتے ہوئے جھنجلا کر بولی کُچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ایک طرف ضدی باپ تھا تو بیٹی اُسکا بھی اگلا سرا تھی جو دو گھنٹے سے چُپ کرنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور تیسری وہ جس نے دروازہ بجا بجا کر دروازہ کو بھی اپنی قسمت پر رونے پے مجبور کیا ہوا تھا
"بھاڑ میں گیا تمہارا سر اگر اب دروازہ نہ کھولا تو میں اسے توڑ دونگی تمہارا بیغرت سر بھول رہا ہے کے میں ایک کپٹین ہوں جس کے آگے یہ لکڑی کا دروازہ کُچھ نہیں ہے”
اندر گلا پھاڑ آواز آئی
"توڑ دے بہن مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہے”
بیا نے دل میں سوچا اور کچھ کہے بغیر نور کے منہ میں فیڈر ٹوسنے لگی جو اگلے ہی لمحے نور صاحبہ نے دور پھینک دیا
اب جوش میں آکر ڈائیلاگ تو مار دیا تھا لیکن بعد میں پتہ چلا تھا کے لاک کمپیوٹرائز ہے جسے فنگر پرنٹ کے علاوہ بس مخصوص کوڈ سے ہی کھولا جا سکتا تھا
تین بار کوڈ لگا کر دوبارہ کوڈ لگنے کا آپشن ختم ہوگیا تھا اور سارے کمرے سے عجیب سی ٹون کی آواز آنے لگ گئی تھی
آفس میں بیٹھے بازل کا بس نہیں چل رہا تھا کے کوئی ادھر سے چیز اُٹھا کر اُس بد دماغ لڑکی کو دے مارے جس نے چند گھنٹوں میں ہی اُسے اپنے فیصلے کا غلط ہونے کی یقین دہانی کروا دی تھی
ایک طرف نور تھی جسے کبھی چند منٹ کے لیے بھی رونے نہیں دیا گیا تھا اور اب مسلسل ایک گھنٹے سے ایک انجان لڑکی کے لیے رو رہی تھی
"بیا جی کھول دیں اُس پاگل لڑکی کو”
موبائل کو کان سے لگا کر بولا
"مایا شیخ تمہارا انتظام تو کرنا ہی پڑے گا”
زور سے ہاتھ ٹیبل پر مارا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
سارے جہاں کی خوشیاں ایک طرف اور بازل شاہ کا ہار ماننا ایک طرف اسی خوشی میں بیا کا دیا ہوا سوٹ زیب تن کیا اور اب نور کو سولا کر اُسی کمرے میں واپس آئی تھی تھی جس میں اُسے صبح سے ایک قسم کا قید ہی کیا گیا تھا
ابھی کوئی بہانہ بنا کر نوین اور محد سے ملنے کا سوچ رہی تھی جو پتہ نہیں کس حال میں ہوگیا اُس ظلم بازل نے اُسکے ساتھ کیا کیا ہوگا ابھی شیشے کے سامنے کھڑی اپنی تیاری کو ایک مکمل نظر دیکھا تو دروازہ کھلنےکی آواز پر واپس پلٹی تو وہ مکمل وجاہت رکھنے والا انسان دروازہ بند کرکے اُسکے قریب آیا مایا کی چھٹی حس نے کچھ غلط ہونے کی نشان دہی کی تو اُسکے آگے بڑھتے ہوئے قدم دیکھ کر دو قدم پیچھے ہوئی رات کا وقت اور یوں بازل کا اُسکے کمرے میں آنا بلکل غلط ہونے کا اندشہ تھا اپنے خُشک حلق کو تر کرتی ہوئی اب خود ایک قدم آگے ہوئی
"میری تمام شرائط یاد ہیں بازل شاہ ۔۔۔یہ پھر بھول گئے ہو جو اِس وقت میرے کمرے میں منہ اٹھا کر چلے آئے”
شانِ بے نیازی سے اپنے کندھے پر پڑے مہمل کی چادر کو ٹھیک کرتی ہوئی بولی
"آجاؤ ”
ہاتھ سے آنے کا اشارہ کیا تو تین لڑکیاں جنہوں جو پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی کمرے میں داخل ہوئیں اِس سے پہلے کے اُسے کُچھ سمجھ آتا دونوں ہاتھ رسی سے باندھ دیے گئے تھے
"لڑکی تم کیوں بھول گئی تھی کے تمہارا نکاح بازل شاہ سے ہوا ہے جو دُنیا کو اپنے اشاروں پر نیچنا جانتا ہے نہ کہ ایک چھونٹی جتنی لڑکی کے آگے ہتھار پھنکنا ۔۔۔۔۔۔۔۔کہا تھا سوچ لو”
وہاں پڑے شرائط نامے کو لیٹر کی آنچ سے جلا دیا جبکہ اب اُسکے منہ پر ٹیپ لگ چُکی تھی
"اور ایک اور بات تمہاری غلط فہمی کمال کی تھی کہ تم جیسی معمولی سی لڑکی سے بازل شاہ کسی قسم کے تعلقات قائم کروں گا یہ پھر بچوں کی خواہش کروں گا ایک مرتبہ خود کو دیکھنا تھا ۔۔۔۔بازل ایسی لڑکی کی چھوئی ہوئی چیز کو ہاتھ نہ لگائے ”
اب اُسکا آگے آتے بال ہلکی سی انچ سےجلا دیا دوسری طرف تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے اُسکے منہ سے نکلے لفظوں کی سنگینی سوچتے ہوئے اپنا آپ زمین میں دنستا ہوا محسوس ہوا
"ذرا مہمان خانے کا دورہ کرواؤ میڈم شرائط نامے کو”
خوشبوں کا ریلا اپنے ساتھ لیے باہر کی طرف چلا گیا جب کے پیچھے آنکھوں نے آخر تک تعاقب کیا
زندگی ایک موڑ کاٹ چُکی تھی تہیں ہلنا باقی تھیں
مجھے چھوڑ دے میرے حال پر تیرا کیا بھروسہ اے ہمسفر
تیری مختصر سی نوازشیں میرا درد اور بڑھا نہ دیں
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"چلو نکلو میرے گھر سے باہر ”
عندلیب کو بالوں سے پکڑے تقریبًا کھنچتے ہوئے باہر کی طرف گھسیٹے ہوئے جارہی تھی
"چاچی جان کُچھ تو رحم کریں”
دوپٹہ پیچھے گر چُکا تھا وہ روتے ہوئے اُس بے رحم عورت کو رحم کا کہہ رہی تھی
"یہی غنیمت جانو کہ تمہارے اِس بچے کو بخش رہی ہوں ورنہ اسے اس دُنیا میں آنے سے پہلے ختم کر دیتی جاؤں اپنے بچے کے سہارے جی لینا اپنی زندگی اوراگر تم واپس آئی یہ پھر میرے بیٹے سے ملنے کی کوشش کی تو تمہارے بچہ کو اپنے ہاتھوں سے مار دونگی اور مت بھولنا کے یہ میرا پہلا قتل ہوگا اس گھر کے لیے جان لے بھی چکی ہوں اور آگے لینا بھی جانتی ہوں”
اپنی کرتوت پوٹلی اُسکے سامنے کھولی کیوں کے عندلیب ایسے جان چھوڑتی معلوم نہیں ہورہی تھی
عندلیب کی آنکھوں کے سامنے خون کا منظر ڈورا تھا بدک کر پیچھے ہوئی
اُسے بازو سے پکڑ کر پیچھے دھکا دیا تو لڑکھڑاتی ہوئی دروازہ سے باہر چلی گئی تو رخسار نے چند ہاتھ میں پکڑے ہوئے نوٹوں کی پرچیاں اُسے آگے پھینکی اور اُسکا دوپٹہ بھی
"پانچ منٹ ہیں تمہارے پاس چلی جاؤ ورنہ کبھی ماں بنانے کی صلاحیت سے محروم ہوجاؤ گی”
نظریں عندلیب کے پیٹ کی طرف تھیں
کتنا مشکل فیصلہ تھا ایک طرف شوہر تھا جو اُسے دُنیا کی گرم ہوا سے بھی محفوظ رہنا چاہتا تھا ایک طرف وہ اولاد تھی جس کے تحفظ وعدہ اپنے شوہر سے کر چکی تھی نظروں کے سامنے کُچھ گھنٹے پہلے کا منظر ڈورا
"طالش آپ اب جائیں نہ ”
اُسکی نظروں اور سرگوشیوں سے نڈال ہوتی ہوئی دیب نے جھنجلا کر کہا وہ بھی صبح سے اُسکے گھٹنے سے لگا بیٹھا تھا اور دور دور تک باہر جانے کہا اردہ نہیں تھا اور نہ ہی دیب کو ہلنے دے رہا تھا
"کہاں جاؤں میری بیوی اتنی پیاری ہے جانے کو دل ہی نہیں کرتا”
آنچ دینے والے لہجے سے کہا جبکہ ایک ہاتھ سے دیب کا سر دبا رہا تھا جو اُسنے اُسے باہر جانے کے لیے بہنا بنایا تھا کے اُسکے سر میں درد ہے اور ابھی سونا چاہتی ہے جبکہ دوسرا ہاتھ دیب کی بالی پر رکھا ہوا تھا
"طالش کیا ہے مجھے سونے دیں نہ دیکھ لیں آپکا بے بی بھی ناراض ہوگا اُسکی ماما کو تنگ کر رہے ہیں آپ”
اپنی ناراضگی اثر نہیں کر رہی تھی تو اب نیا شوشہ چھوڑا
ابھی طالش کچھ کہتا موبائل چھنگاڑا
"اچھا میں آتا ہوں یار”
دوسری طرف سے بات سننے کے بعد بولا اور ایک نظر دیب کو دیکھا جس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی
"دیب میں بس کچھ دیر تک آتا ہوں ایک تو باہر نہیں جانا دوسرا مجھے دیکھیے بغیر کوئی چیز نہیں کھانی تیسرا نہ ہیٹر آن کرنا ہے اور نہ اوپر سے کمبل اُترنا ہے ”
اُسے کے ماتھے کو لبوں سے چھوتا ہُوا بولا
"ٹھیک ہے”
ایک سیکنڈ میں ساری باتیں مان لیں
"اور اپنا اور میرے چھوٹے نمونے کا بہت سارا خیال رکھنا پرومس ”
اینڈ پر وعدہ لینے کے لیے ہاتھ آگے کیا
دیب کو سمجھ نہیں آرہی تھی کے تھوڑے سے ٹائم کے لئے باہر جاتے ہوئے بھی ایسے وعدہ لے رہا تھا لیکن دل بہت خوش تھا آخر کو اپنا صحیح مقام ملا تھا اپنے شوہر کی نظروں میں
"وعدہ ۔۔۔آپ جلدی آجانا”
آخر میں اُسکا ہاتھ پکڑ کر کہا چہرے اور مسکراہٹ ہنوز قائم تھی
تمہی کو خاص رکھا ہے، تمہی مخصوص ٹھہرے ہو…!
جگہ اب بھی وہی پہلی ، عنایت پہلے جیسی ہے…!!!
سنو! کیا خوف ہے تم کو اگرچہ لوٹنا چاہو…!!!
تمہارے واسطے اب بھی، رعایت پہلے جیسی ہے…!!
ابھی بھی منتظر ہوں میں ، ابھی بھی تیری خواہش ہے
یہاں کچھ بھی نہیں بدلا، روایت پہلے جیسی ہے…!!!
اب دروازہ کے سامنے کھڑی چند لمحوں میں قسمت کی کایا دیکھ رہی تھی آنکھوں سے گرم سیال گالوں پر بہہ رہا تھا لیکن اُسکی پرواہ کسے تھی
چند سیکنڈ میں زندگی بدل دینے والا فیصلہ کرکے نیچے گرے ہوئے چند نوٹ اٹھانے لگی
ممتا کی جیت ہوئی تھی اور ایک بیوی ہار گئی تھی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"لڑکے کیا کرتے ہو تم”
سامنے پٹیوں سے جکڑے ہوئے وجود سے سوال کیا جو منہ میں ماچس کی تیلی ڈالے بڑے آرام سے بیٹھا تھا وہاں بیٹھے لوگوں کو ایک مرتبہ تو اُسکی کافی حد تک بڑی ہوئی داڑھی اور چھ انچ بال جو شاید کبھی دھوئے نہیں تھے
"کُچھ بھی کر لیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔بس دو وقت کی روٹی ہی پوری کرنی ہوتی”
اطمینان سے جواب دیا شکر ہے اس وقت نوفل وہاں نہیں تھا ورنہ روٹی والی بات پر بیہوش ضرور ہوتا ۔۔۔۔۔۔ایک ماہ میں اتنا کچھ ہوگیا تھا کے اُسے اب بڑے لوگوں سے ڈر نہیں لگتا تھا دو دن پہلے ہی تو اچھی خاصی مار پڑی تھی اور اُس سے ایک ہفتہ پہلے دوسرے ملک سے غیر قانونی طور پر پاکستان واپس آیا تھا اب اور کیا تھا کوئی جان لے تو لے اور تو کسی بات کی ٹنشن نہیں تھی
"اپنے بال کٹواؤ پہلے”
اُن تین لوگوں میں سے ایک بولا
"کیوں ترے باپ کی جاگیر ہے۔۔کمیںنے۔۔۔۔۔”
ایک دم اُٹھ کر کھڑا ہوا
"سوری مسٹر محد پلیز اپنی جگہ پر تشریف رکھیں”
اب بولنے والا حنان مغل۔ تھا جو مطلب کے لیے گدھے کو بھی باپ بول سکتا تھا
تو محد سکون سے اتنی عزت ملنے پر دوبارہ سیٹ پر بیٹھ چُکا تھا
"مسٹر محد کیا آپ ہماری کمپنی کے لیے اپنی خدمات سر انجام دیں گے”
انتہاء مہذب طریقے سے پیش کش کی گئی
"میں پورے بیس ہزار لونگا”
ایک دم خوشی سے آگے ہُوا اور اپنی شرط بتائی
"ہماری کمپنی آپکو گھر گاڑی اور منتھلی الاؤنس بھی دے گی”
اِس بار بولنے والا منان تھا جو کب سے موبائل پر مصروف تھا
"آپ مکر تو نہیں جائیں گے”
بے یقینی سے منان کی آنکھوں میں جھانکا جو ایک نظر سے ہی اُسکی کالی انکھوں سے گھبرا کر نظریں پھیر گیا
"یہ رہا کانٹیکٹ ”
دونوں طرف سے ہی تیزی دیکھائی جارہی تھی
تھوڑی دیر میں تین ماہ کا کنٹکٹ سائن کر دیا گیا تھا
°°°°°°′°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...