(Last Updated On: )
مجھے ملنے نہیں آیا
عظیمُ الشان سناٹے کی اس اقلیم میں
شاید مجھے تنہا، بہت تنہا حسن ابدال تک جانا پڑے گا
ایک متحرک خلا کے ساتھ
اک بے انت دوری کے سفر پر
کیوں نہیں آیا
ہمیشہ کا وہ سیلانی
ذرا اس کو صدا دو
وہ یہیں اس کو صدا دو
ان خوشبوؤں کی اوٹ میں شاید چھپا ہو
کیا خبر وہ یار بے پروا کسی چاہت کے کنج خواب میں
دبکا ہوا ہو
ہاں صدا دو نا!
مجھے تم اس طرح کیوں تک رہے ہو
میں نہیں روؤں گا
میں بالکل نہیں روؤں گا
کیسے مان لوں وہ میرے آنے پر مجھے ملنے نہ آئے
وہ یہیں ہو گا، یہیں ہو گا
مجھے تم کل اسی رستے پہ اس کے ساتھ دیکھو گے
٭٭٭