(Last Updated On: )
یاں نام یار کس کا دردِ زباں نہ پایا پر مطلقاً کہیں ہم اُس کا نشان پایا پایا نہ یوں کہ کریے اُس کی طرف اشارت یوں تو جہاں میں ہم نے اُس کو کہاں نہ پایا یہ دل کہ خون ہووے بر جا نہ تھا وگرنہ وہ کون سی جگہ تھی اُس کو جہاں نہ پایا محرومِ سجدہ آخر جانا پڑا جہاں سے جوشِ جباہ سے ہم وہ آستاں نہ پایا ایسی ہے میرؔ کی بھی مدت سے رونی صورت چہرے پہ اُس کے کس دن آنسو رواں نہ پایا