کمرے میں اب تک روئ کے گالے پھیلے ہوۓ تھے۔ یوں لگتا تھا گویا ساری فضا میں سفیدی گھل گئ ہو۔ بالکنی کے دروازے سے خنک ہوا بھی اندر کی جانب گرتی، انکے پیروں کو جما رہی تھی۔ وہ دونوں اب اکڑوں بیٹھے، بالکنی کے دروازے سے جھانکتے چاند کی چاندنی کو محو ہو کر دیکھ رہے تھے۔ افق پر ٹانکے گۓ چند ستاروں میں سے کسی ایک نے ہوا کے دوش پر لہراتے بادلوں سے سرگوشی کی تھی۔ یکدم ہی اس سرگوشی کے نتیجے میں بالکنی کی فضا تھرتھرائ۔ شاید ہوا، اس ایک شریر تارے کی شوخ سرگوشی پر کھلکھلائ تھی۔
وہ دونوں اب ہنس نہیں رہے تھے۔ وہ اب خاموشی سے اس پگھلتی چاندنی میں اپنا عکس دیکھ رہے تھے۔
“میں اس لڑکی کو پسند کرتا ہوں۔۔”
چند پل بعد ارسل نے بہت مدھم سا کہا تھا۔ اسے لگا وہ رُخ کو یہ بتا سکتا ہے۔ لالہ رُخ کو اسکے انکشاف نے ذرا بھی حیران نہیں کیا تھا۔
“میں اسے بہت پسند کرتا ہوں۔ میں نے اس سے بہت سے وعدے کیۓ تھے۔ لیکن پھر میں نے اس سے کیا ہر وعدہ توڑ دیا۔ میرے بابا نے زبردستی میری شادی آپ سے کردی اور آمنہ کو میں نے بیچ منجدھار ہی میں چھوڑ دیا۔”
ارسل کی آنکھ میں کچھ چمکا تھا۔ شاید وہ کسی یاد کا گلابی سا عکس تھا جو اسکے نورانی پردے پر لمحے بھر کو جگمگایا تھا۔ رُخ نے اپنے گھٹنے پر رخسار رکھا اور پھر اسے مدھم سرگوشی میں بولتا دیکھنے لگی۔
“مجھے پتہ ہے دونوں جانب میرا ہی قصور نکلتا ہے، اسی لیۓ شاید میں آپ کو بھی اس شادی کے لیۓ قصور وار نہیں ٹھہراتا۔ یہ سب میری بزدلی اور نتائج سے گھبرا کر پیچھے ہٹنے کے باعث ہوا ہے۔ اگر میں اس وقت للکار کر اپنے فیصلے پر ڈٹ جاتا تو شاید مجھے آج، اس سب کا سامنہ نہیں کرنا پڑتا۔”
اس نے کہہ کر آزردگی سے مسکراتے ہوۓ رُخ کی جانب دیکھا تھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
“آپکو، اپنی پسند کے لیۓ اسٹینڈ لینا چاہیۓ تھا ارسل۔ آپکو آمنہ کے لیۓ ڈٹ جانا چاہیۓ تھا۔ ”
اس نے اسے بہت نرمی سے کہتے سنا تھا۔ حق بات پر لالہ رُخ کبھی سخت ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ غلط کو غلط اور درست کو درست کہنے کی جرأت تو کوئ اس لڑکی سے سیکھتا۔ ارسل اس سے رات کے اس گھلتے لمحے میں متاثر ہوا تھا۔
“میری غلطی ہے۔ میری بزدلی نے تین زندگیاں بے ہنگم کردیں۔”
“زندگیاں بے ہنگم نہیں ہونگی تو بھلا وہ زندگیاں کیسے کہلائیں گی۔۔!”
اسکے برجستہ سے جواب پر اس نے چونکتے ہوۓ اسکی جانب دیکھا تھا۔ وہ جتنی لاپرواہ لگتی تھی، اتنی تھی نہیں۔۔
“آپ بہت مضبوط ہیں لالہ رُخ۔۔ آپ کے فرقان لالہ اور اسفند لالہ نے بہت اچھی تربیت کی ہے آپکی۔۔”
اچانک سے فرقان اور اسفند کے ذکر پر وہ ذرا حیران ہوئ تھی۔ پھر اگلے ہی پل مسکرادی۔ اسے لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ دونوں شدت سے یاد آۓ تھے۔
“وہ دونوں تو لیجینڈز ہیں۔۔”
اس نے کچھ یاد آجانے پر مسکرا کر سر جھٹکا تھا۔
“کیا وہ بھی تمہارے جیسے ہیں۔۔؟ مطلب کیا وہ بھی بات بات پر محاذ کھڑا کرلیتے ہیں۔۔؟”
اسکے سوال پر لالہ رُخ نے ہنستے ہوۓ نفی میں سر ہلایا تھا۔ پھر ٹھوڑی تلے ہتھیلی جما کر پیروں کو چھوتی چاندنی کو دیکھنے لگی۔
“وہ دونوں بہت سمجھدار اور دھیمے مزاج کے بندے ہیں۔ لیکن صرف تب تک، جب تک کوئ ان کا کھینچا گیا سرخ دائرہ نہ پار کرے۔ جیسے ہی آپ اس ایک لکیر کو پاٹ کر ان تک پہنچیں گے، مجھے یقین ہے کہ پھر وہ آگے والے کی چمڑی ادھیڑنے میں ذرا وقت نہیں لیں گے۔۔”
اسکے کہنے پر ارسل نے سمجھ کر سر ہلایا تھا۔ پھر چہرہ پھیر کر اسے دیکھا۔
“جبھی میں کہوں کہ مجھے ہمیشہ بدزلی کا طعنہ کیوں ملتا ہے آپکی جانب سے۔ آپ ہمیشہ مجھے ان دونوں سے موازنے کے ترازو میں تولتی رہتی ہیں۔”
“شاید یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے لیکن یہ بات پوری طرح سے ٹھیک نہیں بھی ہے۔۔”
اس کے جواب پر وہ اب کہ سوالیہ سی بھوری آنکھوں سے اسے تک رہا تھا۔
“میں کبھی کسی انسان کو دوسرے انسان کے “فریم آف ریفرنس” میں نہیں دیکھتی ارسل۔ یہ انسان کی بے حرمتی کرنے کے مترادف ہے۔ آپکی تخلیق مختلف ہے۔ ہم سب ہی ایک دوسرے سے الگ پیدا کیۓ گۓ ہیں۔ میں بس ان بنیادی باتوں کو آپ میں نہ دیکھ کر حیران ہوئ تھی ج۔۔”
“جو ہر لڑکے میں موجود ہوتی ہیں۔۔!”
ارسل کے جملہ اچکنے پر اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ پھر وہ گہرا سانس لے کر گویا ہوئ۔
“آپ بہت نازک ہیں ارسل، چھوٹی چھوٹی باتوں پر سہم جاتے ہیں، ڈر جاتے ہیں، پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ آپ کو باآسانی ڈرایا جاسکتا ہے۔ آپکو رُلایا جاسکتا ہے۔ آپکو تکلیف دی جاسکتی ہے۔ آپکی تخلیق ہی ایسی تھی اور آپکو اس پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں شاید آپکو یہی سکھانے آئ ہوں کہ آپ نے اپنے اصل پر کبھی شرمندہ نہیں ہونا۔”
اسکی باتیں سن کر وہ نچلا لب دانتوں تلے دباۓ سامنے گرتی چاندنی کو تک رہا تھا۔ کسی لڑکی اور خاص کر اپنی بیوی سے اپنے بزدل ہونے کا انکشاف سن کر اسے کچھ خاص خوشی نہیں ہوئ تھی۔ بلکہ اسے شاید شرمندگی ہوئ تھی۔ اسی شرمندگی کے باعث اسکے کان اب کہ ہولے سے سرخی مائل دکھ رہے تھے۔
“ایک پٹھان گھرانے میں میرے جیسے “میمنے” کی گنجائش کہاں۔۔”
اسکے سنجیدگی سے کہنے پر وہ بے اختیار ہنس دی تھی۔ پھر اسکی جانب دیکھا۔
“میمنہ خوبصورتی کی علامت ہوتا ہے ارسل۔۔”
اب کہ اسکی چوٹ پر وہ ہنسا تھا۔
“اور کسی کو نارنگی کہنا کس چیز کی علامت ہوتا ہے۔۔؟”
“مٹھاس کی۔۔”
بہت تیزی کے ساتھ لالہ رُخ کی زبان سے پھسلا تھا۔ اسے یاد آیا کہ اس نے پرسوں ارسل کو نارنگی کہا تھا۔
“اور چڑیا۔۔؟”
“بہار کی۔۔”
“حور را۔۔”
روشنی کی۔۔”
“چپڑ گنجو۔۔؟”
اور لالہ رُخ گردن پیچھے پھینک کر ہنس دی تھی۔ ارسل محظوط ہوا اسے ہنستا دیکھ رہا تھا۔ تارے کی شوخ سی سرگوشی نے جیسے اسے اندر تک گدگدایا تھا۔
“چپڑ گنجو آپکی ہنسی لوٹانے کا ذریعہ ہوا کرتا ہے۔”
“مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ نے مجھے آخر کیا سوچ کر چپڑ گنجو کہا تھا۔۔؟ کیا میں کہیں سے چڑیا، نارنگی، حور پرا یا پھر میمنے جیسا لگتا ہوں۔۔؟”
“آپ لگتے ہیں۔۔”
اس نے بمشکل ہنسی روک کر کہا تھا۔ اسکی بات پر ارسل نے بہت کچھ سمجھتے ہوۓ سرہلایا تھا۔
“میرا خیال ہے کہ مجھے یونیورسٹی کی ہر اس لڑکی کو ٹیلی فون کر کے پوچھنا پڑے گا، جس نے کبھی مجھے ہینڈسم ہونے کا خطاب دیا تھا۔۔”
اگلے ہی پل اسکی جانب رُخ کی گردن تیزی سے گھومی تھی۔ پھر وہ اسے انگشتِ شہادت اٹھاتی خبردار کرنے لگی۔
“اگر کسی لڑکی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو چھوڑونگی نہیں آپکو۔۔”
ارسل نے اچانک ہی اسکی انگشتِ شہادت اپنی ہتھیلی میں قید کرکے اسے خود سے قریب کیا تھا۔ اسکی آنکھیں لمحے بھر کو حیران ہو کر پھیلی تھیں۔ بھورے ارتکاز کی معصوم سی شرارت نے پہلی بار اسے سُرخ کیا تھا۔ بمشکل پلکیں جھپکا کر وہ پیچھے ہونے لگی تھی کہ ارسل نے اسے ہلکے سے جھٹکے سے روک دیا۔ وہ سانس روکے دیکھنے لگی تھی اسے۔ میمنہ قریب سے اور بھی خوبصورت لگتا تھا۔
“ہوسکتا ہے کہ میں اتنا بھی معصوم نہ ہوں، جتنا آپ مجھے سمجھتی ہیں مس لالہ رُخ۔”
اتنا کہا اور پھر مسکراہٹ دباتا پیچھے ہٹ گیا۔ اسے رُخ کے گلابی چہرے نے بہت مزہ دیا تھا۔ چند پل تو وہ ساکت رہی اور پھر اس نے ساتھ رکھا کشن اسکے سر پر دے مارا۔
“میمنہ کتنا معصوم ہے اور کتنا نہیں۔ سب معلوم ہے مجھے۔۔”
“آپ لڑائ پھر سے شروع کررہی ہیں۔۔!”
اس نے کہا۔۔ لیکن اب لبوں پر مچلتی مسکراہٹ وہ چھپا نہیں پارہا تھا اور رُخ کو اسکی یہی بات تپا رہی تھی۔
“کس نے کہا کہ آپ مجھ پر اس طرح حق جما سکتے ہیں۔۔؟”
“پھر کیسے جماؤں۔۔؟”
میمنہ واقعی معصوم نہیں تھا۔ اسکے مقابل بیٹھی لڑکی نے دانت پیسے تھے۔
“نیند آرہی ہے مجھے۔ ہٹیں میری جگہ سے۔۔”
وہ اپنا گلابی سا چہرہ چھپانے کی خاطر جلدی سے اٹھ کر بستر میں گھسی تو ارسل خود کو قہقہہ لگا کر ہنسنے سے باز نہیں رکھ سکا۔ چلو۔۔ کوئ خامی اسکے بھی ہاتھ آئ لالہ رُخ کی۔ وہ شرماتی نہیں تھی۔ عام لڑکیوں کی طرح وہ اپنے شوہرِ نامدار سے ہرگز بھی نہیں جھجھکتی تھی مگر وہ تھی تو ایک لڑکی ہی ناں۔۔ اسے بس اسکے لڑکی ہونے کا اندازہ رات کے اس پہر ہوا تھا۔
“میں فرقان لالہ اور اسفند لالہ سے ضرور پوچھونگا کہ اس شیرنی کو کس جنگل میں بڑا کیا ہے انہوں نے۔۔؟”
اسکی ہانک پر رُخ کی جانب سے ایک کشن اڑتا ہوا اس تک آیا تھا، جسے اس نے بھرپور طریقے سے گرفت میں لیتے ہوۓ سر کے نیچے رکھا اور پھر صوفے پر دراز ہوگیا۔ چاندنی اب تک پگھل کر گررہی تھی۔ صوفے پر لیٹتے ہی اسکی مسکراہٹ آہستگی سے مفقود ہوئ تھی۔ پھر آنکھیں بے ساختہ ہی نمی سے چمکیں۔ اسکے اندر ابھرتا گلٹ اب بہت تیزی سے اسکا دل اپنی گرفت میں لیۓ بھینچ رہا تھا۔ آمنہ۔۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اسکے آنسوؤں سے اس قدر تکلیف میں آجاۓ گا۔ وہ اسکی وجہ سے اذیت میں تھی۔۔ وہ اسکی وجہ سے بہت کچھ برداشت کررہی تھی۔۔ وہ اسکی وجہ سے اس سب سے گزر رہی تھی۔ زندگی میں کبھی کسی کو تکلیف نہ دینے والا ارسل اس بات سے بے چین ہوگیا تھا۔
اس ایک خیال نے جیسے اسکا سانس لمحے بھر کو گھونٹ دیا تھا۔ پھر وہ اگلے ہی پل اٹھ بیٹھا۔ نگاہیں بے ساختہ ہی لالہ رُخ کے بستر کی جانب اٹھیں۔ جانے کیسے لیکن ایک اداس سی مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چھو لیا تھا۔ چاندنی اب تک اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ جگمگا رہی تھی۔ اسے ماننا ہی پڑا کہ جو آسمانوں پر طے کردیا جاۓ، زمین والے اسے نہیں بدل سکتے۔۔
***
اگلی دوپہر لالہ رُخ لاؤنج میں نک سک سے تیار ہو کر بیٹھی ہوئ تھی۔ ابھی کچھ ہی دیر میں وہ اپنی امی کی طرف جانے والی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ دادی اور سمیرا کو اپنے بچپن کا کوئ مار دھاڑ والا واقعہ بھی زور و شور سے سنا رہی تھی۔ دادی نے تو بارہا کانوں کو چھوا تھا جبکہ سمیرا نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کی ہوئ تھی۔ یہ لڑکی۔۔ توبہ تھی اس سے!
“پھر اس لڑکے کا کیا ہوا جسے تم نے مارا تھا؟ کیا اس کے والدین نے آکر ہنگامہ کھڑا نہیں کیا۔۔؟”
دادی نے بہت دلچسپی سے بوڑھے چہرے پر اک ہاتھ رکھ کر استفسار داغا تھا۔ سمیرا ساتھ بیٹھیں سبزیاں کاٹ رہی تھیں، مسکراہٹ دبا کر رُخ کے بدلتے تاثرات کو دیکھنے لگیں۔
“ایسا ویسا۔۔”
اس نے دادی کی جانب دیکھ کر یوں کہا کہ بھلا یہ بھی کوئ بات ہوئ پوچھنے کی۔
“انکی ماں صاحبہ آئ تھیں۔ وہ ہنگامہ کھڑا کیا کہ الامان! سب ڈر گۓ۔۔ سب پیچھے ہٹ گۓ۔۔ فرقان لالہ میرے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے۔۔ وہ مجھ سے بڑے تھے۔۔ انکا انداز یوں ہوگیا۔۔ گویا میری بہن کو کچھ کہو تو میں تمہیں دن کی واضح روشنی میں، رات کی سیاہی کے تارے دکھاسکوں۔۔ پھر کیا تھا دادو جان۔۔ آپکی بہو رانی نے اس لڑکے کی وہ وہ پولیں کھولیں۔ کہ مجھے یقین ہے۔۔ گھر جا کر اسکے ابا کا ہاتھ کئ ہفتوں تک اسے اپنے رخسار پر محسوس ہوا ہوگا۔ ”
دادی اسکے سیاق و سباق کے ساتھ کہانی گوش گزار کرنے پر آخر میں فخر سے پیچھے ہو کر بیٹھی تھیں۔ رہی تو وہ بھی پٹھان تھیں۔۔ اور پٹھان خواتین کا بتادوں میں آپ سب کو۔۔ ڈرتی وہ کسی کے چاچے سے بھی نہیں ہے۔۔ سمیرا نے البتہ ہنس کر تازہ کٹی سبزیاں ایک جانب رکھی تھیں۔
“تم تو بڑی بہادر ہو لالہ رُخ۔۔ مجھے اندازہ نہیں تھا۔۔”
سمیرا کے سراہتے سے تبصرے پر وہ ہلکا سا مسکرائ تھی۔۔ لمحوں ہی میں کچھ یاد آگیا تھا اسے۔۔ کچھ بہت اداس سا۔۔ پھر وہ انکی جانب دیکھ کر کہنے لگی۔
“میں بہادر نہیں تھی آنٹی۔۔ لیکن پھر ایک دن میں اپنے گھر اسکول سے روتی ہوئ آئ۔۔ مجھے کلاس کی چند لڑکیوں نے مارا تھا۔۔ انکی مار نے مجھے توڑ کر رکھ دیا تھا۔۔ انکے تبصروں۔۔ انکے تکلیف دہ جملوں نے میری شخصیت تہس نہس کردی تھی۔۔ مجھے لگا کہ شاید میں دوبارہ کبھی اٹھ نہیں پاؤنگی۔۔”
اب کہ دادی اور سمیرا دونوں نے اسکی جانب چونک کر دیکھا تھا۔ وہ پچھلی بچکانہ سی لالہ ر ُخ سے بہت مختلف لگ رہی تھی۔۔ اب کہ اسکے چہرے پر محض سنجیدگی اور متانت قائم تھی۔ زینوں سے اترتا ارسل اپنی جگہ ہی ٹھہر گیا تھا۔۔ لالہ رُخ۔۔ روتی تھی۔۔! کسی نے رُخ کو مارا تھا۔۔! یہ بات اسکے لیۓ بہت حیران کن تھی۔۔ کیا اسے کوئ ہاتھ لگا سکتا تھا بھلا۔۔
“لیکن جب میں گھر پہنچی اور اسفند لالہ نے مجھے روتا ہوا دیکھا تو وہ مجھے گھسیٹتے ہوۓ دالان میں لے گۓ۔۔ پھر انہوں نے مجھے تب تک اس دالان میں دوڑایا جب تک میرا سانس نہ اکھڑنے لگ گیا۔۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اگر میں اپنے ظالم کا منہ توڑ کر نہیں آسکتی تو مجھے اسی دالان میں ہانپتے ہوۓ دم دے دینا چاہیۓ۔۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں اپنی ناانصافی کے لیۓ روتے ہوۓ اوروں کا دروازے کھٹکھٹانا چاہتی ہوں تو بہتر ہے میں اپنی زندگی ختم کرلوں۔۔ اگر میں لوگوں کے سامنے اپنی کمزوریوں کا رونا رو کر خود کو ذلیل کرنا چاہتی ہوں تو بہتر ہے کہ میں اپنے حلق پر چھری پھیر کر خود کو ذبح کرلوں۔۔”
وہ لمحے بھر کو رکی تھی۔ پھر مسکرائ۔۔ اف اس لڑکی کی دو رُخی شخصیت۔۔! پل میں کیا اور پل میں کیا۔۔
“اسفند لالہ کے الفاظ ہمیشہ سے بہت ظالم رہے تھے۔ وہ لفظون کے ساتھ بہت سخت تھے۔۔ آج بھی ہیں۔۔ انکے الفاظ میری سماعت میں کسی پگھلے سیسے کی طرح اترے اور مجھے زندگی بھر کے لیۓ کندن کر گۓ۔۔ پھر مجھے کوئ ہاتھ نہ لگا سکا۔۔ جس نے لگایا وہ بچ کر نہ جا سکا۔۔ میں نے ہر ظالم کو اٹھا کر پٹخنے کی قسم کھا لی اور دنیا۔۔ پھر دنیا امر ہوگئ آنٹی۔۔”
چند لمحات کے لیۓ ہر گردش کرتی شے ساکت ہوگئ تھی۔ یوں گویا دنیا رک سی گئ ہو۔ وہ زینوں کے دہانے پر گویا جم سا گیا تھا۔۔ پھر بھوری نگاہیں اٹھا کر اس سنہری سی کندن لڑکی کی پشت دیکھی۔ وہ واقعی لالہ رُخ تھی۔۔
اگلے ہی پل دادی آگے بڑھیں اور اسکا سر چوم کر اسے خود سے لگالیا۔ آنٹی بھی اب کہ اسے اپنے پاس بلا کر پیار کررہی تھیں اور وہ گلابی رخسار لیۓ ہنستی جارہی تھی۔ وہ ہنس سکتی تھی۔۔ کیونکہ اس نے اپنے اندر پلتے کمزوری کے خوفناک جن کو مار گرایا تھا۔ پھر ان دونوں سے ڈھیر سارا پیار لے کر وہ ارسل کے ساتھ گاڑی میں آ بیٹھی۔ وہ خاموشی سے ڈرائیو کررہا تھا۔۔ پھر یونہی سرسری سی نگاہ اس پر ڈالی۔
“اسفند لالہ بہت اسپیشل ہیں تمہارے لیۓ۔۔”
اسکے کہنے پر وہ چونکی تھی۔۔ پھر ہولے سے مسکرادی۔۔ یونہی کھڑکی کے باہر دوڑتی سڑک پر نگاہیں جماۓ کہنے لگی۔
“بہت زیادہ۔۔”
“ماں بتارہی تھیں کہ وہ پھپھو کے بیٹے ہیں تمہاری۔۔ ”
“جی۔۔ فرقان اور اسفند لالہ بہت چھوٹے تھے جب پھپھو اور پھوپھا کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ وہ دونوں ہمارے ساتھ رہ کر ہی بڑے ہوۓ ہیں۔ زیادہ تر ہمارے ساتھ فرقان لالہ رہے ہیں کیونکہ وہ بڑے تھے۔ اپنی پڑھائ مکمل کرچکے تھے لیکن اسفند لالہ باہر پڑھتے تھے۔۔ سو یہاں آنا جانا بہت کم ہوگیا تھا ان کا۔۔ اب ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں دونوں۔۔”
اسکی بات سن کر اس نے سر ہلایا تھا۔ پھر اسکے گھر کے سامنے گاڑی روک کر اسکی جانب دیکھا۔۔
“آپ اندر نہیں آرہے۔۔؟”
“نہیں۔۔ مجھے آفس جانا ہے۔۔ تم۔۔ خیال رکھنا ۔۔”
اسکے ہلکے سے کہنے پر وہ سر ہلا کر ہنستی ہوئ باہر نکلنے ہی لگی تھی کی کسی کے ہاتھ کی نرم گرفت نے اسے روک لیا۔ اس نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر پہلے اپنی کلائ دیکھی جو ارسل کی ہتھیلی میں قید تھی، پھر اسکی سیاہ آنکھوں نے اسکی بھوری آنکھوں تک سفر کیا۔
“اگر ہم۔۔ پرفیکٹ میاں بیوی بن کر۔۔ نہیں رہ سکتے تو۔۔ تو ایٹ لیسٹ ہم دوست بن سکتے ہیں۔۔”
اس نے اگلے ہی پل اسکی کلائ چھوڑدی تھی۔ رُخ نے مسکراہٹ دبائ۔۔ پھر شرارت سے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔
“کیا چل رہا ہے ارسل آپکے دماغ میں۔۔؟ دشمن سے دوستی کرنے کا مطلب جانتے ہیں ناں آپ۔۔؟”
وہ اسے باور کروارہی تھی کہ اسکی دوستی آسان نہیں تھی۔۔ دوستی تو کیا۔۔ اسکی تو دشمنی بھی سہل نہیں تھی۔۔ اسکے ساتھ کچھ بھی سہل نہیں تھا بہرحال۔۔
دوسری جانب اس نے اپنے سر کے پیچھے ہاتھ پھیرا تھا۔ یونہی گردن میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئ۔ پھر وہ خشک لبوں پر زبان پھیرتا اسکی جانب گھوما۔ تھا تو وہ بھی پختون۔۔ چمکتی دھوپ کے عکس میں اسکی بھوری آنکھیں گاڑے سے شہد کا سمندر لگ رہی تھیں۔۔ لالہ رُخ نے کبھی اتنی خوبصورت آنکھیں نہیں دیکھی تھیں۔۔
“میں آپکو تکلیف نہیں دینا چاہتا۔ میں یہ افورڈ نہیں کرسکتا۔”
اس نے واضح الفاظ کا انتخاب کیا تھا۔ جیسے کہہ رہا ہو “آئ ایم سوری لیکن میں آپکے ساتھ سخت رویہ نہیں رکھ سکتا کیونکہ مجھے یہ کرنا نہیں آتا۔۔”
“ٹھیک ہے۔۔ سوچونگی اس بارے میں۔۔ جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ میں ہر کسی کو اپنا دوست نہیں بنالیتی لیکن چلیں۔۔ میں اس خیال کو سوچ کا پہلو ضرور بخشونگی۔۔”
اب کہ وہ نکلنے ہی لگی تھی کہ رک گئ۔۔ پھر پلٹ کر اسکا چہرہ دیکھا۔۔
“آپکو اندازہ بھی نہیں ہے ارسل کہ آپ اس ظالم دنیا کے لیۓ کس قدر معصوم ہیں۔!”
ہولے سے کہا اور پھر باہر نکل گئ۔ وہ چند پل تو جامد بیٹھا رہا پھر سر جھٹک کر گاڑی اسٹاڑ کرنے لگا۔ جب وہ گاڑی بھگالے گیا تو رُخ بھی گھر کے اندر مڑ گئ۔ اس ارسل نامی مخلوق کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کتنا کیوٹ تھا۔ کیوٹ اور بیوقوف۔۔! اب وہ سر جھٹک کر پتھریلی روش عبور کرتی اندر کی جانب قدم رکھ چکی تھی لیکن پھر لاؤنج میں براجمان، سنجیدہ چہروں کے ساتھ گفت و شنید کرتے افراد نے جیسے اسکے ارد گرد خطرے کی سرخ بتی بجائ تھی۔۔
“رامین۔۔!!!”
***
گھر کا ماحول اس قدر سنجیدہ ہورہا تھا کہ کوئ اس سے ٹھیک سے ملا بھی نہیں۔ رامین صوفے پر افغان کے ساتھ لگی رورہی تھی اور باقی سب خاموشی سے سر جھکاۓ بیٹھے تھے۔ ارمغان تایا، ایک جانب گردن پوری جھکاۓ نم رخسار لیۓ شکستگی سے براجمان تھے تو دوسری جانب فرقان لالہ بہت سنجیدگی سے اسفندیار کا ابلتا طیش دیکھ رہے تھے۔ ایک صوفے پر فاطمہ بیٹھی تھیں اور انکے ساتھ ہی گل بھی اداسی سے کبھی ایک فریق کو تکتی تو کبھی دوسرے کو۔۔
“وہ لوگ کب سے یہ بکواس کررہے ہیں اور آپ لوگ انکی بکواس سن رہے ہیں ماموں۔۔! انکی ہمت کیسے ہوئ اس گھر کی لڑکی کے بارے میں بات کرنے کی۔۔”
وہ پینتیس سالہ بہت مضبوط جسم کا اونچا سا مرد تھا۔ سیاہ قمیص شلوار زیب تن کیۓ وہ دن کی روشنی میں اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ جگمگارہا تھا۔ لالہ رُخ نے کبھی اسفند لالہ جتنا وجیہہ کسی کو بھی نہیں دیکھا تھا۔۔ وجیہہ اور دبنگ۔۔!
یقیناً رامین کے گھٹیا سسرالیوں نے پھر سے کوئ بات کردی تھی۔ اور چونکہ اس بات کو اسفندیار، فرقان اور ارمغان سے چھپایا گیا تھا تو انکا ایسا ردعمل یقینی تھا۔ اب کہ فرقان سیدھے ہو بیٹھے تھے۔
“اسفندیار ہمیں آرام سے بات کرنی ہے۔ ہم لڑکی والے ہیں۔ ہم منہ توڑ جواب دیں گے تو ہماری بہن بیٹی پر بات آۓ گی۔ اگر بات کو بات سے سلجھایا جاسکتا ہے تو ایسا ہی کیا جانا عقل مندی ہے۔ رہی بات جھگڑے اور رشتہ توڑنے کی۔۔ تو ہم جلد بازی میں اپنی بہن کا گھر برباد نہیں کرسکتے۔۔ تحمل سے کام لو۔۔ عقل سے کام لو۔۔ صبر سے کام لو۔۔ غصہ کرنے کا وقت نہیں ہے یہ۔۔”
اگر اسفندیار بندوق پر فیصلے کروانا جانتا تھا تو فرقان بھڑکتے جنگی شعلوں کو زبان کی مٹھاس سے گلستان کرنے میں سلطان تصور کیا جاتا تھا۔ انکی بات سن کر اسفند کی نگاہ بے ساختہ ہی رامین پر پھسلی تھی۔ پھر اسکی کھولتی سرمئ آنکھوں نے فرقان لالہ کا چہرہ تکا۔۔
“بات اب سلجھنے سے نکل چکی ہے لالہ۔۔”
“بات کبھی بھی سلجھائ جاسکتی ہے اسفند۔ ہمیں بس کبھی بھی اپنے غصے میں مستغرق ہو کر اندھا نہیں بننا۔۔”
اب کہ فرقان کی آواز ذرا اونچی تھی۔ لالہ رُخ سمیت سب کہ سب ہی لمحوں میں سہم سے گۓ تھے۔
“آپ درستگی اور دھیرج کا درس دیتے رہیں لالہ، لیکن پھر تکلیف بھی سب سے زیادہ آپ ہی کو ہوگی۔ اور اس وقت یاد رکھیۓ گا۔۔ میں کسی کو بھی نہیں چھوڑونگا۔۔”
وہ اگلے ہی پل پلٹا اور لاؤنج سے داخلی دروازہ عبور کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔ سارے گھر میں موت کا سا سناٹا پھیل گیا تھا۔ کوئ بھی کسی سے نگاہ ملانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ سب اپنی اپنی سوچوں میں گم ایک دوسرے کا سامنہ کرنے سے کترا رہے تھے۔ وہ پلٹی اور پھر اسفند لالہ کے پیچھے بھاگی۔۔ اسے پتہ تھا کہ وہ اس وقت کہاں ہوگا۔ وہ اپنے گھر کی انیکسی کی پچھلی بالکنی میں کھڑا، تنے نقوش کے ساتھ باہر دیکھ رہا تھا۔ وہ وہیں دروازے ہی میں ٹھہر گئ۔۔
“مجھے ابھی کسی سے بھی بات نہیں کرنی لالے۔۔ تم جاؤ۔۔”
“ہرگز نہیں۔۔”
“ضد نہیں کرو اور جاؤ۔۔”
“آپکے یہ ہتھکنڈے مجھ پر نہیں چلنے والے۔۔”
وہ دروازے کے ساتھ لگی، ڈھٹائ سے بولی تھی۔ اس نے اسفند کی پشت پر بندھی مٹھیاں مزید سخت ہوتے دیکھیں۔ بے ساختہ ہی اس نے تھوک نگلا تھا۔
“ٹھیک ہے۔۔ مت جاؤ۔۔ کھڑی رہو۔۔”
کھٹاک سے جواب آیا تو وہ اداسی سے مسکرادی۔
“اتنا غصہ صحت کے لیۓ اچھا نہیں ہوتا۔۔”
“مجھے کوئ پرواہ نہیں۔۔”
“اتنی لاہرواہی درست نہیں۔۔”
“تم زچ کرنے آئ ہو مجھے۔۔!”
اس نے دانت کچکچانے کی آواز باآسانی سنی تھی۔
“مجھے آتا ہے آپکو اپنی جانب پھیرنا۔۔”
اب کہ اسکا انداز چیلنجنگ تھا۔ جیسے کہہ رہی ہو آپ میرے سامنے کیا ہیں۔ آپکو تو ابھی دیکھتی ہوں میں۔۔
“لالے مجھے ابھی کوئ بات نہیں کرنی۔۔ پلیز جاؤ۔۔”
“مان لیں کہ وہ اچھی لگتی ہے آپکو۔۔”
اسکی بے سروپا بات پر اسفند کو اور طیش چڑھا تھا۔
“کیا نئ بکواس ہے اب یہ۔۔؟”
“وہ۔۔ رامین۔۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ اچھی لگتی ہے آپکو۔۔”
اور یہ اسکی زبان سے نکلا جملہ ہی تھا جو بڑے اہتمام سے دھماکے کی صورت اسفند کے سر پر پھٹا تھا۔ اسکا مضبوط سراپا ایک جھٹکے سے اسکی جانب مڑا۔ سرمئ آنکھیں۔۔ بے یقینی سے پھیل کر ساکت ہوگئ تھیں۔۔ لب ادھ کھلے تھے اور پرکشش نقوش پر اک سایہ سا لہرایا تھا۔
“آپکو کیا لگتا تھا کہ مجھے پتہ نہیں چلے گا۔۔؟ لالہ میں رامین نہیں ہوں کہ آپکے اس گریز میں پنہاں محبت کو نہ پہچان سکوں۔ وہ تو بیوقوف ہے۔۔ کم از کم آپ ہی نے کوئ بات کی ہوتی۔۔”
یہ وہ انسان تھا کہ جس نے اسے چلنا سکھایا تھا۔ جس نے اسکے تاریک ایام میں اسکا ہاتھ تھام کر اسے کھڑا کیا تھا۔۔ ڈٹ کر کھڑا رہنا سکھایا تھا۔۔ کیا تھا جو آج وہ اسکی تھوڑی سی مدد کردیتی۔۔ اس مدد سے اسکی زندگی کا کچھ قرض تو وہ بہر حال ادا کرسکتی تھی۔۔ اور جو۔۔ وہ کرسکتی تھی۔۔ وہ اسے کرنا چاہیۓ تھا۔۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...