اس نے دروازہ دھکیلا تو وہ حسان جو گردن جھکاۓ کسی فائل کی ورق گردانی میں مصروف تھا۔۔ یکدم چونکا۔۔ سر اٹھا کر دیکھنے پر اسکی آنکھیں اگلے ہی پل پھیل کر باہر آنے کو تھیں۔۔ وہ لالہ رُخ کے پیچھے سے سامنے نکل کر آتی رمشہ کو دیکھتا اگلے ہی پل اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ گود میں رکھے بہت سے پرچے پھسل کر زمین بوس ہوگۓ۔ انگلی میں پھنسا قلم بھی اگلے ہی لمحے چھوٹ کر ٹیبل پر جا گرا تھا۔
اسکا ہونق چہرہ دیکھ کر وہ مسکراتی ہوئ اندر چلی آئ تھی۔ اسکے نشان زدہ چہرے پر محظوظ ہو کر نگاہیں جمائیں۔۔ ہاں۔۔ اسکی مار کے نشان اب تک حسان کے چہرے پر ثبت تھے۔ زخم مندمل پوچکے تھے لیکن نشانات کا موجود ہونا یقینی سی بات تھی۔۔ ہولا ہاتھ تھوڑی رکھا تھا رُخ نے اس پر۔۔
پھر اسکے سامنے رکھی کرسی کھینچ کر بیٹھی۔ گردن اٹھا کر مجسمے کی صورت ساکت ہوۓ حسان کو دیکھا۔ وہ جسامت میں خاصہ کمزور اور لمبوترا سا تھا۔۔ مانو رُخ کی نگاہوں سے ہی پگھلنے کی تیاری میں لگ رہا تھا وہ تو۔۔
“کیسے ہو حسان۔۔؟ زیادہ تکلیف تو نہیں ہوئ تھی زخم صاف کرتے وقت۔۔؟”
اس نے پلکیں جھپکا کر پوچھا تھا۔ وہ اگلے ہی لمحے غصے میں بھناتا، ہوش میں آیا تھا۔ پھر دانت کچکچا کر سامنے کرسی پر براجمان رُخ کی جانب دیکھا۔ اسکی آنکھیں اگلے ہی پل طیش سے گلابی پڑنے لگی تھیں۔۔
“کیا بکواس ہے یہ سب۔۔؟ اور۔۔ اور آپ یہاں میرے آفس میں کیا کررہی ہیں۔۔؟”
“گھر بھی گئ تھی تمہارے۔۔”
پرسکون سے جوابی وار پر وہ بھک سے اڑا تھا۔ کیا اس نے گھر والوں کو بتادیا تھا اسکی حرکت کے بارے میں۔۔! اگر ایسا تھا تو اگلے کئ مہینوں تک اسے گھر میں رہنا نصیب نہیں ہونا تھا کیونکہ اسکے باپ کا غصہ بھڑکتے الاؤ کی مانند دہکتا تھا۔ اسکی پیشانی پر بے ساختہ ہی پسینہ پھوٹ نکلا تھا۔
“میرے گھر جانے کی اجازت کس نے دی آپکو۔۔؟ اور وہاں جا کر میرے متعلق کیا بکواس کی ہے آپ نے۔؟ مجھے ابھی آپ جانتی نہیں ہیں مس لالہ رُخ۔۔ زندگیاں تباہ کردیتا ہوں میں۔۔”
رُخ نے “اچھا” والا ابرو اٹھایا تھا۔ پھر گردن ذرا ایک جانب کو ڈھلکا کر بڑے انداز سے حسان کی بگڑتی صورت دیکھی۔
“ابھی تم مجھے نہیں جانتے ہو حسان۔۔ اسی لیۓ بچے ضد نہیں کرتے اور اپنے کیۓ غلط کام پر تو کبھی بھی نہیں اکڑتے۔ تم ابھی۔۔ اور اسی وقت۔۔ رمشہ سے معافی مانگ رہے ہو۔۔”
اسکی بات سن کر دروازے میں کھڑی رمشہ نے ہاتھ باندھ کر، مضبوط تاثرات کے ساتھ حسان کو دیکھا تھا۔ دل اب بھی اندر کہیں خوف سے لرز رہا تھا اور سانسیں بے ترتیب تھیں۔۔ لیکن اس نے بھی فیصلہ کرلیا تھا۔۔ ایسے تھا تو پھر ایسے ہی سہی۔۔
“اچھا۔۔ اوہ واؤ۔۔”
وہ ہنسا تھا۔ خود کو ہلکا پھلکا ظاہر کرنے کے لیۓ یقیناً۔ لیکن پریشانی سے اسکے تنے جبڑے اوپر کی جانب بھنچے تھے اور ہتھیلیاں پسیج گئ تھیں۔۔ رُخ نے بغور اسے دیکھا تھا۔ پھر گہرا سانس لے کر سیدھی ہو بیٹھی۔
“آپکو لگتا ہے کہ میں آپکی اس جھوٹی دھمکی پر ڈر جاؤنگا۔۔؟”
“تم ڈر گۓ ہو حسان۔۔”
ہولے سے بول کر رُخ نے مزے سے اسکی غلط فہمی دور کی تھی۔ وہ دانت جما کر سامنے رکھے ٹیبل پر ہاتھ مارتا جھکا۔ لالے نے محض ایک ابرو اٹھا کر اسکا تمتماتا چہرہ دیکھا تھا۔
“میں نے کچھ غلط نہیں کیا اور معافی تو میں ہرگز بھی نہیں مانگونگا۔۔ اور وہ بھی اس سے۔۔ اس کچرے کے ڈھیر سے۔۔”
استھزاء ہنس کر رمشہ کی جانب انگلی سے اشارہ کیا اور پھر چہرہ جھکا کر ہنسنے لگا۔ رمشہ نے کھینچ کر سانس لیا تھا۔ اسکی آنکھیں اس قدر ضبط پر اب کے بھیگنے لگی تھیں۔ اسکے سینے میں تکلیف سی ابھرنے لگی تھی۔
“تو تم معافی نہیں مانگو گے۔۔؟”
لالہ رُخ نے اسے ایسے دیکھا جیسے آخری بار اسکی راۓ جاننا چاہ رہی ہو۔ وہ اب کہ قدرے سنبھلا ہوا لگ رہا تھا۔ پھر بالوں میں ہاتھ چلا کر اسے مسکراتی نگاہوں سے دیکھا اور نفی میں سر ہلادیا ۔۔
“اس دن تو میں اکیلا تھا جبھی کچھ نہیں کرپایا تھا آپکے سامنے۔۔ لیکن آج میرے ساتھ پورا آفس ہوگا۔ میرے سیکیورٹی گارڈز باہر ہی موجود ہیں مس لالہ رُخ۔ آپ آج مجھے ہراساں نہیں کرسکتی۔ اور کیا ثبوت ہے آپکے پاس کہ میں نے رمشہ کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی ہے۔۔؟”
اسکی آنکھوں میں فاتحانہ سی چمک تھی۔ لالہ رُخ نے لمحے بھر کو اسے افسوس سے دیکھا تھا۔ پھر کندھے اچکاۓ۔۔
“میرے پاس ثبوت__”
“ہے۔۔”
لیکن یہ بات لالہ رُخ نے مکمل نہیں کی تھی۔ یہ تو اسکے پیچھے مٹھیاں بھینچ کر کھڑی رمشہ نے مکمل کی تھی۔ لالے نے چونک کر اپنے پیچھے دیکھا۔ اور ٹھٹکا تو بری طرح حسان بھی تھا۔۔ رمشہ اب کے مزید دو قدم آگے چلی آئ تھی۔ پھر لرزتے ہاتھوں سے موبائل نکال کر ایک وڈیو پلے کی۔۔ وڈیو کی آواز سن کر جہاں حسان اپنی جگہ جم سا گیا تھا وہیں رُخ نے حیرت سے رمشہ کی جانب دیکھا تھا۔۔
اس نے موبائل کی چمکتی اسکریں حسان کے سامنے کی تو وہ بھونچکا رہ گیا۔۔
وڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا کہ وہ اسے کس طرح سے زود و کوب کرتا ہوا، دیوار سے لگا کر دھمکا رہا تھا۔ وہ رورہی تھی لیکن وہ اسکی بات نہیں سن رہا تھا۔ وڈیو کے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ حسان کا چہرہ سفید پڑتا گیا۔۔ یوں گویا مردہ ہوگیا ہو۔۔ رمشہ نے انہی لرزتے ہاتھوں سے موبائل اپنی جانب پھیر اور پھر آگے بڑھ کر ایک زور دار چانٹا اسکے منہ پر رسید کیا۔
وہ شاید اسکے ایسے ردعمل کے لیۓ تیار نہیں تھا اسی لیۓ ہونق ہو کر، رخسار پر ہاتھ جماۓ وہ رمشہ کو ہی تک رہا تھا۔ اسے جیسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ اس لڑکی نے کیا تھا۔۔ لالہ رُخ اس سارے عرصے میں پہلی دفعہ دل سے مسکرائ تھی۔
“گھٹیا انسان۔۔ میری۔۔ میری خالہ کے بیٹے ہو تم۔۔ م۔۔ میرے لیۓ بھائ کی جگہ پر ہو ۔۔ او۔۔ اور تم نے می۔۔ میرے ساتھ ایسے۔۔”
رمشہ کی آنکھوں سے بے اختیار ہی آنسو پھسلے تھے۔ اسکا جسم زلزلوں کی زد میں تھا اور نگاہیں لبالب آنسوؤں سے بھر گئ تھیں۔ اسے اپنی نسوانیت پر ہوا کاری وار جیسے اندر ہی اندر کھاۓ جارہا تھا۔
لیکن حسان اگلے ہی پل جنگلیوں کی طرح گھوم کر اسکے سامنے آیا تھا۔۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹی۔۔ اس نے جیسے ہی اسکے ہاتھ سے موبائل جھپٹنا چاہا تو رُخ نے اسے گریبان سے پکڑ کر پیچھے کی جانب گھسیٹا۔۔ پھر اسے دیکھ کر مسکرائ۔۔
“اسکے لیۓ سوری۔۔”
اگلے ہی پل الٹے ہاتھ کا ایک زناٹے دار چانٹا حسان کے پہلے سے سرخ ہوۓ رخسار پر پڑا تو وہ، رمشہ کے قدموں میں جاگرا۔۔ ساتھ ساتھ وہ شاید رو بھی رہا تھا۔ رمشہ بے ساختہ ہی دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔
“معافی نہیں مانگو گے تم۔۔”
رُخ نے اگلے ہی پل کہہ کر اسے ایک بار پھر سیدھا کیا تھا۔ وہ اب بری طرح ہانپ رہا تھا۔۔ سرخ چہرہ اور پسینے پسینے ہوتا جسم۔۔ لالے نے اسکے گھٹنے پر اپنی ہیل ماری تو وہ پیچھے کی جانب بلبلاتا ہوا گرا۔۔ وہ اب اسکے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ رہی تھی۔پھر مسکرائ۔۔ کیا آگ جیسی برف مسکراہٹ تھی۔۔ خوفزدہ کردینے والی۔۔ ظالم۔۔ کاٹ دار۔۔
“معافی مونگو گے یا ارادہ بدل لیا تم نے۔۔؟”
“می۔۔ میں ابھی اپنے سیکیورٹی گا__”
لیکن رُخ نے اسے موقع نہیں دیا۔ اگلے ہی پل اب وہ اسے گریبان سے پکڑ کر ایک بار پھر سے کھڑا کررہی تھی۔ پھر رمشہ کی جانب پلٹ کر دیکھا اور نرمی سے مسکرائ۔۔
“کون ہے کچرے کا ڈھیر۔۔؟”
اسکی جانب سے پڑا ایک جاندار گھونسا سیدھا جبڑے پر آکر لگا تھا۔ وہ پیچھے رکھے ٹیبل پر گرا تو بیشتر چیزیں بکھر کر زمین بوس ہوگئیں۔ اسکے نفیس سے آفس کی حالت دیکھنے لائق تھی اس سمے۔۔ پھیلے ہوۓ کاغذات، آگے پیچھے رکھیں کرسیاں۔۔ بکھرے بالوں اور تازہ زخموں کے نشان لیۓ میز پر گرا حسان۔۔
“معافی مانگو گے یا__”
لیکن اسکا جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ جلدی سے گھٹنوں کے بل بیٹھا۔ کانپتے ہاتھ رمشہ کے سامنے جوڑ دیۓ۔۔ ٹوٹے دانتوں اور خون رستے ہونٹوں کے ساتھ معافی مانگنے لگا۔ رُخ نے گردن کسرتی انداز میں دائیں بائیں پھیری تھی۔ پھر ہاتھ جھاڑ کر گہرا سانس لیا۔۔
“اتنا کافی ہے رمشہ؟”
ایک بار رک کر پوچھا۔ رمشہ نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوۓ اسے دیکھا تھا۔ پھر جلدی سے سر اثبات میں ہلایا۔۔
“بہت ہے بھابھی۔۔ بس اب چلیں یہاں سے پلیز۔۔ میرا دم گھٹ رہا ہے یہاں پر۔۔”
اسکے کہنے پر وہ ایک قہر آلود نگاہ حسان پر ڈال کر رمشہ کی جانب مڑی تھی۔ پھر اسے ہاتھ سے تھام کر آفس کا دروازہ کھولتی باہر نکل آئ۔ ساتھ ہی ہاتھ میں تھاما سیاہ چشمہ بھی آنکھوں پر جمایا تھا۔ لوگ مڑ مڑ کر اس دراز قد خوبصورت سی لڑکی کو دیکھنے لگے تھے۔۔ وہ کسی بھی نگاہ کو خاطر میں لاۓ بغیر بے نیازی سے قدم اٹھاتی آگے ہی آگے بڑھتی رہی۔ اور آج شاید وہ ان لڑکیوں کی شکر گزار بھی تھی۔۔ انہی لڑکیوں کی جنہوں نے اسے اس دن۔۔ میدان میں گرا کر مارا تھا۔۔ تب ہی تو وہ وقت تھا۔۔ کہ پھر اس نے ہر اس ہاتھ کو روکنا سیکھ لیا جو اسکی جانب کسی بھی غلط ارادے سے بڑھا ہو۔۔ اس نے یہ سیکھ لیا تھا۔۔ اسے یہ سیکھنا ہی تھا۔۔ ایک دفعہ جب اس نے بھی دھاڑ کر وار کیا تو کبھی کوئ حق تلفی کے ناپاک عزائم لیۓ اسکی جانب نہ بڑھ سکا۔۔ وہ آج خود پر فخر کرتی تھی۔۔ اسکا فخر کرنا بنتا تھا کیونکہ وہ مضبوط تھی۔۔
رمشہ نے شکرگزار سی آنکھیں رُخ کی جانب پھیریں۔ اسکا دل لالہ رُخ کے لیۓ عزت سے بھرنے لگا۔اچھا۔۔ تو لوگ ایسے بھی ہوا کرتے ہیں۔۔ بھابھیاں اس قدر مہربان اور مضبوط بھی ہوا کرتی ہیں!۔۔ اس نے تو کہانیوں میں پڑھ رکھا تھا کہ بھابھیاں بہت چنڈال اور خرانٹ سی فطرت کی مالک کوئ مخلوق ہوتی ہیں لیکن یہ کیا۔۔ اسکی بھابھی تو ایسے کسی بھی کردار پر پورا نہیں اترتی تھی۔ اسکی بھابھی تو عزت کرتی تھی۔۔ عزت کروانا جانتی تھی۔۔ اسکی بھابھی غیرت مند تھی۔۔ وہ غیرت کے لیۓ اپنا سر تک کٹواسکتی تھی۔۔ اسکی بھابھی تو عظیم عورت تھی۔۔ اس نے ہمیشہ ظلم کے خلاف عزم سے بولنا سیکھا تھا۔۔ اس نے ڈر کر چھپنا نہیں سیکھا تھا۔۔ اور اس نے کیا خوب سیکھا تھا۔ وہ اس سے ۔۔ متاثر ہوئ تھی۔۔ ہاں وہ رُخ کی دلفریب اور دھوپ چھاؤں سی شخصیت کے لیۓ پگھلنے لگی تھی۔۔
اسکے گلے میں یکدم آنسوؤں کا گولہ اٹکا تو اس نے چہرہ جھکا لیا۔ آنسو ٹپ ٹپ اسکے قدموں میں گرنے لگے تھے لیکن یہ وہ پہلے آنسو تھے کہ جنہیں وہ خود صاف کرنا چاہتی تھی۔۔ اکیلے۔۔ تن تنہا۔۔! کیونکہ جو اپنے آنسو خود صاف کرتے ہیں وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوجاتے ہیں! وہ بھی مضبوط بننا چاہتی تھی۔۔ زیادہ نہیں تو کم از کم اپنے آنسو پونچنے والی ہی سہی۔۔! اس نے اگلے ہی لمحے آنکھیں رگڑیں اور سر اٹھا کر چلنے لگی۔۔
***
دوسری جانب پگھلتی دھوپ کے عکس میں وہ تینوں بھی ایک دوسرے کے مقابل براجمان تھے۔ اسفند اور ارسل ایک جانب جبکہ زرتاج سفید پڑتا چہرہ لیۓ انکے مخالف۔۔
“یہ جس کی تصویر دکھا کر آپ ارسل کو اسکی بیوی سے بدگمان کرنا چاہتی ہیں ناں محترمہ۔۔ وہ میری بہن ہے۔۔ لالہ رُخ۔۔”
بات اسفند نے ہی شروع کی تھی۔ ارسل تو سکڑے ابرو لیۓ بہت سنجیدہ سا بیٹھا تھا۔ کچھ تھا جو اسے بہت برا لگا تھا۔
زرتاج نے جلدی سے اپنے ہاتھ آپس میں رگڑے تھے، پھر لب مس کرتی تیزی سے پلکیں جھپکانے لگی۔
“وہ۔۔ وہ اس نے مجھے__”
“کسی پر الزام لگانے سے قبل اگر آپ تھوڑی بہت تحقیق کرلیا کریں تو کچھ قباحت نہیں۔۔ بس انسان عین وقت پر ذلیل ہونے سے بچ جاتا ہے۔۔ خیر۔۔ یہ جو بھائ ہے آپکا۔۔ کیا اسکے کرتوت جانتی ہیں آپ۔۔؟ یا ان کارناموں سے یکسر بے خبر کسی اور کی ذات پر کیچڑ اچھالنے ہی میں وقت صرف ہوتا رہا ہے آپکا۔۔ ؟”
وہ بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا۔ پیچھے ہو کر بیٹھا۔۔ ٹانگ پر ٹانگ چڑھاۓ۔۔ ٹھنڈے انداز میں بھگو بھگو کر ماررہا تھا۔ ارسل نے بھی اب کہ انہی سنجیدہ نگاہوں سے زرتاج کو دیکھا تھا۔
“میرے بھائ نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے۔ وہ۔۔ وہ تو ارسل مجھے بہکا رہے تھے کافی عرصے سے۔۔”
“زبان سنبھال کر بات کرو تم زرتاج۔۔ میں نے کبھی تم سے کوئ غیر ضروری تو کیا ضروری بات بھی نہیں کی اور تم یہ سب__”
اسفند نے طیش سے ابل کر بولتے ارسل کو ہاتھ کے اشارے سے تھمنے کو کہا تھا۔ وہ اگلے ہی پل چپ سا ہوگیا۔ اسے اپنا آپ بہت بیوقوف اور چھوٹا لگ رہا تھا۔ اپنے معاملے میں کسی اور کا بولنا اسے ایک آنکھ نہیں بھارہا تھا۔ اس نے تنفر سے رخ ہی پھیر لیا تھا۔
“میں اور آپ۔۔ ہم دونوں جانتے ہیں کہ یہ سب سچ نہیں۔ آپ بلاوجہ کسی بھی شخص پر منہ اٹھا کر الزام نہیں لگاسکتیں۔ اور اگر آپ الزام لگا بھی رہی ہیں تو کیا کوئ جاندار ثبوت رکھتی ہیں آپ اپنے اس الزام کا۔۔؟”
وہ بہت سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔ زرتاج سے سانس لینا مشکل ہونے لگا۔ اس نے بے اختیار ہی تھوک نگلا تھا۔ پھر ذرا سنبھل کر بیٹھی۔۔
“میں سچ کہہ رہی ہوں۔ یہ ہمیشہ میرے ساتھ ایسے ہی کرتے ہیں۔ مجھے سب کے سامنے جھٹک کر پھر تنہائ میں مجھے ورغلاتے ہیں۔۔ مجھے بس اپنا حق واپس چاہیۓ تھا۔ میں ہر روز انکے آفس صرف اسی لیۓ چلی آتی ہوں تاکہ ان سے اپنے دکھے دل کا بدلہ لے سکوں۔۔”
انکھوں میں ڈھیروں آنسو لیۓ وہ لڑکی جہاں ارسل کو آخری حد تک زچ کررہی تھی وہیں اسفند کو سخت مایوس بھی۔۔
“بہت گھسا پٹا تھا یہ والا۔۔ کچھ اور آزمائیں بی بی۔ میرے خیال سے آپ اس سے بھی زیادہ جاندار وجہ گھڑ سکتی تھیں پھر اتنے روایتی طریقے پر انحصار کرنے کی وجہ۔۔؟”
ابرو اٹھا کر حیرت سے پوچھا۔ ارسل تو اسے لب بھینچے، کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔ البتہ وہ اسفند کے جواب پر گڑبڑا کر پہلو بدل رہی تھی۔
“میں سچ کہہ رہی ہوں۔۔”
“ثبوت۔۔؟”
“اب آپ ایک محروم اور کمزور لڑکی سے ثبوت مانگیں گے۔۔؟”
وہ ایک بار پھر سے پلکوں سے آنسو صاف کرتی کہہ رہی تھی۔ اسکی دلگرفتگی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اسفند نے مسکرا کر سر جھٹکا تھا۔ پھر چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ اب کہ اسکی آنکھیں سخت تھیں۔۔
“نہ تو آپ محروم ہیں اور ناں ہی کمزور۔۔ آپ ایک انتہائ شاطر اور ڈپلومیٹک لڑکی ہیں۔ آپکا یہ پہناوا بھی کسی عام سے بازار کا حصہ نہیں لگتا، بالوں کی ہوئ تازہ کٹنگ کو تو نظرانداز بالکل بھی نہیں کیا جاسکتا اور جو یہ برانڈڈ میک اپ سے آپ نے اپنا چہرہ چھپا رکھا ہے۔۔ یہ سب آپکے محروم اور کمزور ہونے کے لیۓ ہرگز بھی مناسب نہیں۔۔ کم از کم کور اسٹوری پر تو توجہ دیں آپ۔۔ ”
وہ اگلے ہی پل ہتک سے سرخ ہوتی اٹھ کھڑی ہوئ تھی۔ پھر دانت پیس کر اسفند کی جانب دیکھا۔
“میں سچ بول رہی ہوں اور میں ثابت کرکے دکھاؤنگی۔۔”
“بالکل۔۔” اسفند نے سر ہلایا تھا۔۔ “لیکن جو ثابت ہوچکا پہلے آپ اس پر تو غور فرمائیں۔۔ شاید جو غیر ثابت شدہ ہے پھر وہ بھونڈا نظر آنے لگے۔۔”
اس نے موبائل نگاہوں کے سامنے کیا اور پھر یکدم ہی زرتاج کا موبائل پیغام کی آواز سے بج اٹھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسکے موبائل کی جانب اشارہ کیا تھا۔۔ زرتاج نے ناسمجھی سے موبائل نگاہوں کے سامنے کیا تھا۔ وہاں ایک انجان نمبر سے چند وڈیوز اسے واٹس ایپ کی گئ تھیں۔ اگلے ہی پل اس نے وڈیوز اور تصاویر کو کھول کر دیکھا تو سر سے پیر تک جسم پسینے میں نہا سا گیا۔ اسفند محظوظ ہوا اسکا سفید سے سیاہ پڑتا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ پھر ٹیبل بجا کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ چونک کر خوفزدہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی تھی۔۔
“کیا آپکو اب بھی کچھ ثابت کرنا ہے بی بی۔۔؟”
لیکن وہ وہاں رکی ہی نہیں۔ تیزی سے پیشانی کا پسینہ رگڑتی باہر کی جانب بھاگی۔ ارسل اور اسفند دونوں اسے گردن موڑے دیکھ رہے تھے۔۔ پھر جب وہ کیفے کا دروازہ دھکیلتی باہر کی جانب بڑھ گئ تو اسفند اسکی جانب پلٹا۔۔ وہ یکلخت ہی اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔ اسکے کان جانے کیوں سرخ ہورہے تھے۔۔
“اگر کوئ بات پریشان کررہی تھی تو مجھ سے کہنا تھا ناں ارسل۔۔”
اسفند نے بیٹھے بیٹھے ہی کہا تھا۔ اس نے گہرا سانس لے کر ضبط سے اسکی جانب دیکھا۔۔
“مجھے آپکی مدد کی ضرورت نہیں تھی لالہ۔ یہ میری زندگی ہے اور میں اسے خود ہینڈل کرسکتا ہوں۔۔”
اسکی بات پر مسکراتا ہوا اسفند اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ پھر اسکھ کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہولے سے دبایا۔ وہ ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھنے لگا تھا۔۔
“تم بہت بہادر اور غیرت مند ہو ارسل۔ لالہ رُخ نے مجھے کل رات ہی تمہارے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا۔۔” ارسل ٹھٹکا تھا۔۔ لیکن اسفند نے اسکا ٹھٹکنا محسوس نہ کیا۔۔ ویسے ہی بولتا رہا۔۔ “وہ مجھے کہہ رہی تھی کہ تم ایک مضبوط اور اپنے مسائل حل کرنے والے جرأت مند مرد ہو۔۔ سچ پوچھو تو رات سے مجھے تم پر بہت فخر ہورہا ہے۔ تم میری بہن کے شوہر ہو۔۔ اسے خوش رکھ رہے ہو۔۔ اس جیسی سر پھری کے ساتھ اتنے تحمل سے رہ رہے ہو۔۔ میں حقیقتاً شکرگزار ہوں تمہارا۔۔ بس وہ مجھے کہہ رہی تھی کہ تم کچھ مسائل میں الجھے ہو اسی لیۓ اس مسئلے کو وقت نہیں دے پارہے۔۔ بس پھر اسکی پریشانی مجھ سے دیکھی نہیں گئ۔۔ اور میں سب کچھ طے کر کے یہاں چلا آیا۔۔ ”
وہ نرم گرم سی مسکراہٹ کے ساتھ اب کہ اسے دیکھ رہا تھا۔ ارسل کی آنکھیں پھیلیں۔۔ طیش کی جگہ تعجب نے لے لی۔۔
“یہ سب اس نے کہا آپ سے۔۔؟ میرے بارے میں۔۔”
اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ اسفند اسکی معصومیت پر ہنس پڑا۔۔ پھر سر اثبات میں ہلاتا اسکا کندھا تھپک کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔ وہ خالی خالی سا اس پگھلتی دھوپ کے عکس میں کھڑا رہ گیا۔ لالہ رُخ نے اسکی کمزوریوں کا اشتہار نہیں لگایا تھا۔ اس نے کسی کے سامنے بھی ارسل کو ہلکا نہیں کیا تھا۔۔ بلکہ اس نے تو۔۔ اس نے تو۔۔ خدایا۔۔ وہ سر دونوں ہاتھوں میں گراتا وہیں کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ آخر یہ لالہ رُخ اس قدر بے یقین کیسے کردیا کرتی تھی۔۔ اسے لگتا تھا کہ وہ اب اسکی کسی بھی حرکت پر حیران نہیں ہوگا لیکن اگلے ہی پہر وہ اسے پہلے سے بھی زیادہ متعجب کردیا کرتی تھی۔ اسے پہلے سے بھی زیادہ سحر زدہ کردیا کرتی تھی۔۔
اسی لمحے اسکے دل پر پہلی ضرب پڑی تھی۔۔ ہاں۔۔ دوسری محبت کی پہلی ضرب۔۔ جاندار اور اٹل سی ضرب۔۔!!
***
وہ واپس پلٹا اور پھر جب گھر میں داخل ہوا تو فاطمہ اور گل لاؤنج میں بیشتر رنگ برنگے کپڑے پھیلاۓ دیکھ رہی تھیں۔ ساتھ رامین بھی کھڑی تھی اور اسکے ہاتھ میں ایک سبز رنگ کا جوڑا بھی تھا۔۔ اسفند پر نگاہ پڑتے ہی وہ یکلخت گڑبڑائ تھی۔۔ وہ مسکراتا ہوا پاس چلا آیا۔۔ پھر اسکے عین سامنے بیٹھ گیا۔۔ گردن ایک جانب کو ڈھلکا کر اسے دیکھا۔۔ فاطمہ اور گل کے سامنے بھی اس بے شرم کو شرم نہیں آرہی تھی۔ رامین نے غصے سے گہرا سانس لے کر قدم اپنے پورشن کی جانب بڑھاۓ تھے۔۔ لیکن پھر فاطمہ کے روک لینے پر اسے رکنا ہی پڑا۔
“ارے کہاں جارہی ہو تم۔۔؟ کپڑے تو پسند کرلو۔۔ پھر بعد میں کہوگی مجھ پر یہ رنگ نہیں جچ رہا وہ دوسرا والا زیادہ اچھا تھا۔۔”
اس نے خود کو کمپوز کیا اور بے تاثر چہرہ لیے ایک بار پھر سے پلٹ آئ۔ فاطمہ نے اب کے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا تھا۔۔
“تم ارسل کے پاس گۓ تھے۔ کیا ہوا خیریت تھی ناں۔۔؟”
“جی مامی۔۔ خیریت ہی تھی۔ بس ویسے ہی ملنے گیا تھا اس سے۔ کچھ بزنس کے معاملات تھے۔ یہ افغان ماموں کہاں ہیں۔۔؟ کچھ بات کرنی تھی ان سے میں نے۔”
اسی پہر رامین نے ایک جوڑا اٹھا کر ہاتھ میں لے کر جانچا تھا۔ پھر گل کو مسکرا کر دکھانے لگی۔۔ اسکی آنکھ میں جیسے جچ گیا تھا یہ والا لباس۔۔ بے ساختہ ہی اسفند کی جانب نگاہ اٹھی تو چونکی۔ وہ برا سا منہ بنا کر نفی میں سر ہلارہا تھا۔۔ جیسے اسے یہ جوڑا ہرگز بھی پسند نہ آیا ہو۔
“ہاں اچھا ہے رامین۔۔ یہ رنگ بھی بہت کھلے گا تم پر۔۔ یہی لے لو۔۔”
لیکن رامین کا دل اب اس جوڑے سے بالکل اٹھ چکا تھا۔ اسے خود بھی نہیں پتا تھا کہ وہ کیوں اس ہذیانی مرغے کی بات مان رہی ہے۔ اس نے ضبط سے وہ جوڑا رکھ کر ایک دوسرا اٹھایا اور پھر نہ چاہتے ہوۓ بھی اسفند کی جانب دیکھا۔۔ وہ معصومیت سے لب دباۓ ایک بار پھر سر نفی میں ہلارہا تھا۔ ساتھ ساتھ چہرے پر زمانے بھر کی مایوسی بھی طاری کرلی تھی۔ رامین نے گہرا سانس لیا اور پھر یہ والا لباس بھی آہستہ سے رکھ دیا۔۔ فاطمہ نے اسکے سست پڑتے ہاتھوں کو دیکھا تو بولیں۔۔
“کیا ہوا رامین۔۔؟ تم تو اتنی جلدی پسند کرلیتی ہو پھر ابھی تک کوئ جوڑا تمہیں اچھا کیوں نہیں لگا۔۔؟”
“نہیں۔۔ نہیں چاچی۔۔ میں دیکھ رہی ہوں۔۔”
اس نے عجلت میں جلدی سے ایک جوڑا اٹھایا اور بہت کوشش کی کہ اس گنجے کبوتر کی جانب نہ دیکھے لیکن ناں بھئ۔۔ اس نے اب کہ بہت بیچاری نگاہوں سے اسے دیکھا تھا جیسے کہہ رہی ہو پلیز اسفند۔۔ اب مت کیجیۓ گا لیکن وہ اسفند ہی کیا جو مان جاۓ۔۔ ایک بار پھر سر نفی میں ہلایا تو اب کہ رامین نے جوڑا سامنے پھینکا اور بے ساختہ ہی اٹھ کھڑی ہوئ۔۔
“آپ ایسا کیوں نہیں کرلیتے کہ خود ہی کوئ پسند کرکے مجھے بتادیں کم از کم مجھ__”
اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ یکدم بند کیا تھا۔ پھر جلدی سے نفی میں سر ہلایا۔ اسفند نے ابلتی مسکراہٹ بہت مشکل سے روک رکھی تھی۔ فاطمہ اور گل البتہ اسے ناسجھمی سے دیکھ رہی تھیں۔
وہ جلدی سے اپنے پورشن کی جانب بھاگی تو پیچھے اسفند کا بلند و بانگ قہقہہ گونجا۔ فاطمہ نے بہت کچھ سمجھ کر اسے دیکھا تھا۔
“مت تنگ کیا کرو اسے۔ بیچاری پہلے ہی بوکھلارہی تھی اوپر سے تم اسفند۔۔ مت سدھرنا۔۔ تم اور لالہ رُخ کبھی مت سدھرنا۔۔ کتنی مشکلوں سے میں اسے کاموں سے آزاد کروا کر یہاں تک لائ تھی لیکن۔۔ توبہ ہے تم سے۔۔”
اس نے کندھے اچکاۓ تھے۔۔ جیسے کہہ رہا ہو۔۔ “میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔۔” گل بھی سمجھ کر ہنسنے لگی تھی۔ پھر وہ یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔ جھک کر ایک جوڑا اٹھایا۔۔ سیاہ رنگ کا بے حد خوبصورت جوڑا۔۔ اس پر سنہری رنگ کے ستاروں کا کام جگمگا رہا تھا۔ اس نے ان دونوں کی جانب دیکھا۔۔
“اگر میں یہ اسے خود دے دوں تو کہیں روایات کی پاسداری میں کمی تو نہیں آجاۓ گی ناں مامی۔۔؟”
فاطمہ بے ساختہ ہنسی تھیں۔
“کیا کرنا چاہتے ہو تم۔۔ ؟ فرقان کو پتا چل گیا ناں تمہاری ان عیاشیوں کا پھر کہیں کے نہیں رہوگے تم”
“مامی آپ اتنا ساتھ نہیں دے سکتیں میرا۔۔؟”
ابرو اچکا کر بچوں کی طرح پوچھا تھا۔ اب کہ گل اور فاطمہ ایک ساتھ ہنس پڑی تھیں۔
“میں اتنا کتنا جتنا ساتھ دیتی ہوں ناں وہی کافی ہے۔۔ ویسے بھی ارمغان لالہ مجھے اکثر کہتے ہیں کہ تم سب کو بگاڑنے میں سراسر میرا ہاتھ ہے۔”
“ارمغان ماموں کو کون بتاۓ گا۔۔؟”
اس نے برا مان کر کہا تو فاطمہ مسکرائیں۔ پھر سر اثبات میں ہلا کر جیسے اسے اجازت دی تھی۔
“جاؤ دے کر آجاؤ کیونکہ مانو گے تو تم ویسے بھی نہیں۔ لیکن میری بچی کو زیادہ تنگ نہ کرنا۔ وہ پہلے ہی گھبرا گئ ہے تمہاری وجہ سے۔۔”
وہ ہلکا سا ہنسا پھر دوسری جانب بنے پورشن کی جانب بڑھا۔ وہاں کا لاؤنج خاموش پڑا تھا۔ اس نے یہاں وہاں دیکھ کر اسے تلاشا لیکن وہ شاید اپنے کمرے ہی میں تھی۔ اس نے کمرے کے باہر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔۔ پھر مسکراہٹ دبا کر دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔۔ اگلے ہی پل اس نے دروازہ کھولا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ دروازہ اسکے منہ پر ہی بند کردیتی اس نے جلدی سے اپنا پاؤں دہلیز پر جمایا۔۔
“اتنا غصہ۔۔!”
“چلیں جائیں آپ اسفند یہاں سے۔ زہر لگ رہے ہیں مجھے آپ اس وقت۔۔”
“مجھے پتا ہے کہ میں تمہیں شہد کبھی لگا بھی نہیں۔۔ اچھا لیکن وہ والا جوڑا زیادہ اچھا تھا جو__”
وہ یکدم ہی “اسفند” چیخی تو وہ ہنستا ہوا پیچھے ہوا۔ پھر اسکی رونے کی تیاری کرتی آنکھوں میں دیکھا تو اسے مزید تنگ کرنے کے ارادے پر لعنت بھیج دی۔ جلدی سے پیچھے چھپایا جوڑا اسکے سامنے کیا تو وہ سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
“ہر رنگ اچھا لگتا ہے تم پر۔۔ بس تمہیں تنگ کررہا تھا۔۔ اور یہ جو جوڑا ہے۔۔ بس تم سب اٹھا رہی تھیں لیکن یہ والا نہیں اٹھا رہی تھیں۔۔”
سنجیدگی سے بولتے بولتے اسکے لب ایک بار پھر شرارت سے پھڑپھڑاۓ تو رامین نے اس سے جوڑا جھپٹ کر دروازہ “ٹھاہ” اسکے منہ پر ہی بند کردیا تھا۔ وہ اب محظوظ ہو کر ہنستا ہوا باہر کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔ اور رامین۔۔ وہ ماتھے پر ہتھیلی جماۓ، سرخ چہرہ لیۓ خود کو کوس رہی تھی۔۔ کیا کرے وہ اس سفند کا۔۔!
***
رات تھک ہار کر وہ گھر واپس پلٹا تو کچن سے اٹھا پٹخ کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس نے حیرت سے آگے بڑھ کر کچن کے دروازے تک پہنچ کر اندر دیکھا تو مزید حیران ہوا۔ لالہ رُخ اور رمشہ ٹیبل کے گرد لگیں کرسیوں پر براجمان۔۔ پزا کے کھلے پیکٹ کے سامنے بیٹھی تھیں۔۔ ساتھ ساتھ وہ کسی بات پر ہنستی بھی جارہی تھیں۔ کوک کی ایک بڑی بوتل بھی پاس ہی رکھی تھی۔ یکلخت ہی گل کی نگاہ اس پر پڑی تو جلدی سے ہاتھ میں پکڑا پزا کا ٹکڑا اسکی جانب بڑھایا۔۔ رُخ نے بھی چہرہ موڑ کر اسے دیکھا تھا۔ اس نے اسے یکسر نظرانداز کیا اور پھر سر نفی میں ہلاتا زینوں کی جانب بڑھ گیا۔۔
جب فریش ہو کر باہر نکلا تو رُخ بالوں کو ہاتھوں سے بل دیتی جوُڑا بنارہی تھی۔ اس نے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر سنگھار آئینے پر رکھے اپنے موبائل اور رسٹ واچ کی جانب بڑھ آیا۔
وہ پیچھے سے چہرہ نکالے اس کا کھنچا کھنچا سا رویہ محسوس کر کے، جزبز ہوئ تھی۔
پھر تھوک نگل کر پاس چلی آئ۔ عین اسکے پیچھے رک کر اسکا عکس سنگھار آئینے میں دیکھا۔
“ارسل آپ__”
“وہ میرا معاملہ تھا لالہ رُخ!”
اس نے بہت دھیمی سی سرگوشی میں اسکی بات کاٹ کر کہا تھا۔ اسکے عقب میں کھڑی لڑکی کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں۔
“میں آپکی مدد__”
“کیا میں نے کہا تھا کہ مجھے مدد کی ضرورت ہے۔۔؟”
وہ اسکی جانب مڑا۔ سنجیدگی اس قدر گہری تھی کہ لالہ رُخ سے پلکیں جھپکانا مشکل ہوا۔
“کیا کہا ہے آپ سے لالہ نے۔۔؟”
“انہوں نے کچھ نہیں کہا لیکن تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے آج۔”
اس نے کہہ کر اسکے ساتھ سے نکلنا چاہا تو اگلے ہی پل رُخ نے اسکا ہاتھ کہنی سے تھام کر اسے روک لیا۔ وہ رک گیا تھا لیکن خاموش ہی رہا۔۔
“س__ سوری۔۔”
اسے اسکی لرزتی سی سرگوشی سنائ دی تھی۔ ارسل نے بے ساختہ ہی چہرہ اسکی جانب پھیرا تھا۔ وہ ایسی ہی تھی۔۔ کسی پل لگتا تھا کہ وہ بہت مضبوط ہے۔۔ لیکن ٹھیک اسی پل وہ رونے لگ جاتی تھی۔۔ اسے یہ لڑکی سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔ لیکن اسے اتنا اندازہ ہوچلا تھا کہ وہ مضبوط رہتے رہتے اکثر تھک جایا کرتی تھی۔۔ اور جب تھکن اسکے دل سے سرایت کرتی رگوں میں اترنے لگتی تھی تب ہی یقیناً وہ اپنا ضبط ہار جاتی تھی۔
“میں نے بس تھوڑی سی پریشانی دور کرنی چاہی تھی آپکی۔ کیا لالہ نے آپ سے کوئ ایسی بات کہی جو انہیں نہیں کہنی چاہیۓ تھی۔۔؟”
اس نے بھیگی آنکھیں اٹھائیں۔ پلکوں کی باڑ پر ٹھہرے وہ ضبط کے آنسو تھے۔۔ انکے ٹوٹ کر گرنے پر وضاحت دینی پڑتی تھی اور وہ شاید اسی وضاحت سے خائف تھی جبھی ان آنسوؤں کو روکے رکھا۔۔
“تم نے کیوں کیا ایسے۔۔؟ کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں اپنے مسائل کو حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔۔؟ کسی نے کچھ نہیں کہا ہے مجھ سے رُخ لیکن میری عزتِ نفس اس سب میں ضرور مجروح ہوئ ہے۔۔ مجھے آج اپنا آپ بہت چھوٹا لگا ہے رُخ۔ تمہیں ایسے نہیں کرنا چاہیۓ تھا۔۔”
اسکی نرمی سے وہ پگھلنے لگی تھی۔ غصہ ہی تو نہیں کرتا تھا وہ۔۔ جبھی تو رُخ ہارنے لگی تھی اسکے سامنے۔۔ اس نے بمشکل اپنا بوجھل ہوتا دل سنبھال کر چند لفظ کہنے کی سعی کی تھی۔۔
“تو ڈانٹیں ناں مجھے۔۔ ڈانٹتے کیوں نہیں ہیں آپ میری غلطیوں پر۔۔؟”
اس نے اب کہ دوسرے ہاتھ سے بھی اسکا بازو زور سے پکڑ لیا تھا۔ جیسے__ جیسے آج وہ اسکی ڈانٹ کے علاوہ کسی بھی چیز پر راضی نہیں ہوگی۔ ارسل نے اسکے ہاتھوں کی جانب گردن جھکا کر دیکھا اور پھر اپنی جگہ ہی جم سا گیا۔ اسکے ہاتھوں پر تازہ زخم تھے۔ اوپری جلد پھٹی ہوئ تھی اور زخم پر مرہم نہ ہونے کی صورت میں جلد خشک ہو کر پھٹی پھٹی سی دکھ رہی تھی۔
“تم نے کیوں کیا ایسے۔۔؟”
اس نے نرمی سے اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیۓ تھے۔ پھر بہت احتیاط سے زخموں پر ہاتھ لگاۓ بغیر بغور انہیں نگاہوں کے قریب کر کے دیکھنے لگا۔
“مجھے دادی نے بتایا تھا آپکے ٹراما کے بارے میں__ انہوں نے کہا کہ آپ کسی سے بھی اپنی پریشانی نہیں کہتے_ تو_ تو میں نے آپکی پریشانی دور کرن__”
“میں پوچھ رہا ہوں کہ اپنے ہاتھوں کے ساتھ کیوں کیا ہے ایسے تم نے۔۔؟”
اس نے رُخ کی بات بہت نرمی سے کاٹی تھی۔ اور ضبط ٹوٹ چکا تھا۔۔ دو آنسو رخساروں پر پھسل کر گردن میں لڑھکے تھے۔۔ رُخ نے بے ساختہ ہی اسکے ہاتھ سے اپنے ہاتھ نکالے اور پلٹ گئ۔۔ فرطِ جذبات سے اسکے جوابات بے ہنگم سے تھے۔۔ بے ربط۔۔ بے ترتیب۔ وہ اسکے سامنے یوں ٹوٹی بکھری نہیں آنا چاہتی تھی۔۔
“می__ میں پابند نہیں ہوں آپکو کوئ بھی جواب دینے کی۔ آپکو جو سمجھنا ہے سمجھیں۔۔”
لیکن ارسل نے ایک جھٹکے سے اسے اپنی جانب موڑا تھا۔ وہ اسکے سینے سے آلگی۔۔ بھورا ارتکاز اسکے بہت نزدیک تھا۔۔ اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا۔۔
“ایسے کیسے تم مجھے جواب دینے کی پابند نہیں ہو ہاں۔۔!”
ارسل افگن نے کبھی یوں سنجیدگی سے حق نہیں جمایا تھا لیکن آج۔۔ ایسے حق سے پوچھ کر۔۔ وہ لالہ ر ُخ کو مزید کمزور کر گیا تھا۔ وہ جو ہمیشہ اسے دیوار سے لگا کر اپنی بات منوایا کرتی تھی آج وہ ساکت تھی۔۔ اسکے ہاتھوں سے جیسے ساری ہمت سلب کی جاچکی تھی۔۔ وہ اسے دھکیلنا چاہتی تھی لیکن وہ اسے دھکیل نہیں پارہی تھی۔۔
“ارسل__”
“میری پابند نہیں ہو تو کس کی پابند ہو پھر۔۔؟”
اس نے اسے مزید قریب کیا تھا۔ لالہ رُخ اسکی کاٹ دار سی سنجیدگی پر سہم گئ تھی۔
“ارسل__”
“کیوں بات نہیں مانتی ہو میری تم ہاں؟ سمجھاتا ہوں تو سمجھتی کیوں نہیں ہو۔۔؟ سختی نہیں کرتا تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ مجھے سختی کرنی آتی نہیں ہے۔۔ لیکن تم اس طرح خود کو تکلیف دوگی تو یہ میں بالکل برداشت نہیں کرونگا سمجھی!!”
آخر میں اس قدر درشتی سے پوچھا کہ وہ جلدی سے اثبات میں سرہلا گئ۔ آنسو تیزی کے ساتھ گرنے لگے تھے ارسل کی قمیص پر۔۔ اس نے اگلے ہی پل اسے آزاد کردیا تھا۔۔ پھر پلٹ کر باہر کی جانب بڑھنے ہی لگا تھا کہ اسکی لڑکھڑاتی آواز پر ٹھہر سا گیا۔
“میں آپکی اور اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنانا چاہتی تھی ارسل۔ میں آپکے اور اپنے رشتے کو مضبوط کرنا چاہتی تھی لیکن۔۔ اب مجھے لگتا ہے کہ شاید مجھے پیچھے ہٹ جانا چاہیۓ۔۔ آپ کسی اور کو پسند کرتے ہیں۔ آپ اسے دل سے نہیں نکال سکتے۔ لیکن میں کیا کروں ارسل۔۔ مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے جب آپ۔۔ جب آپ کسی اور کی محبت میں گھلنے لگتے ہیں۔ میں کیا کروں کہ میری اذیت تھوڑی کم ہوجاۓ۔۔ میں کیا کروں ارسل۔۔ مجھے یہاں بہت تکلیف ہوتی ہے۔۔”
اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔ وہ اگلے ہی پل پلٹا تھا۔۔ چند پل اسے دیکھتا رہا۔۔ اور پھر آگے بڑھ کر اسے کھینچ کر خود سے لگالیا۔ وہ روتی ہوئ اس سے لگی رہی۔۔ ارسل اب بہت نرمی سے اسکے ڈھیلے جُوڑے پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔
اسکے آنسوؤں پر اسے تکلیف ہوئ تھی۔ وہ رو رہی تھی تو اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ جنگلیوں کی طرح مارتی دھاڑتی ہی اچھی لگا کرتی تھی۔ وہ ایسے روتے ہوۓ بالکل بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔
اسکا سر بہت آہستگی سے سہلاتے ہوۓ وہ اب تک اسے اپنے ساتھ لگاۓ ہوۓ تھا۔ اسے رونے کے لیۓ پناہ کی ضرورت تھی تو اس نے اسے پناہ دینے سے گریز نہیں برتا تھا۔۔ کیونکہ جب کوئ بہت مضبوط سا انسان آپکے سامنے رو پڑتا ہے تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ وہ مضبوطی کا لبادہ سجاۓ تھکنے لگا ہے۔۔ اسے اسکی کمزوری پر عار دلاۓ بغیر آگے بڑھ کر گلے لگالینا چاہیۓ اور اس نے بھی یہی کیا تھا۔۔
کیونکہ وہ لڑکی بہت چپکے سے۔۔ بہت آہستہ سے۔۔ بنا کسی چاپ کے۔۔ اسکے دل میں اترنے لگی تھی۔۔
رات اسی تاریک پہر میں خاموشی سے اپنے کھڑکی سے باہر دیکھتی آمنہ نے اپنی آنکھ سے گرتے اس آنسو کو سختی سے رگڑ ڈالا تھا۔ یاد کے زخموں کی اذیت آج بھی ساتھ تھی۔۔ اور ہر گزرتے پل یہ زخم تکلیف دیا کرتے تھے۔۔
وہ تینوں محبت کے کھینچے گۓ اس بے رحم سے تکون میں قید تھے۔۔ اور تکوں۔۔ جسکا ایک سرا ہمیشہ تنہا ہی رہا کرتا تھا۔۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...