مجلہ کی تیاری کے دوران یہ نا گہانی خبر آئی کہ استاد شمیم حسنین اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ اس خبر نے دلوں پر یاسیت ، غم اور پریشانی کو بڑھا وا دیا ۔ شمیم حسنین کی ذات گرامی ایک ادارہ تھی ، ایک اسکول تھی ان کا تخلیقی ہنرکمال مہارت کا حامل تھا ۔ رابطہ کے تمام اراکین بشمول سید صادق حسین صادق ، شمیم حسنین کی بلندی درجات کیلئے دعا گو ہیں اور اس خلا ء کو پر کرنا بہت مشکل ہے ان کی زندگی میں پیش کیا گیا مضمون انکی بارگاہ میں ہدیہ تبریک ۔ آسمانی تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
شمیم اپنے دل کا حبیب
سر زمین بریلی ہمیشہ اعلیٰ روایات کی امین رہی ہے اور عشق ، محبت اور وفا اس سر زمین کی مٹی کی خاصیت رہی ہے۔ واقعات شاہد ہیں کہ اس مٹی میں محبت کا رنگ نمایاں ہے۔ جس میں وفا کی کثرت نے تاثیر عشق کو مزید نکھار دیا ہے۔ آج جس تخلیق کار کا ذکر مقصود ہے اس کا تعلق اسی مٹی سے ہے اور محبت اس کا خاصا ہے ۔ تخلیق کار کے آباء و اجداد نے ہمیشہ علم کو اپنا زیور بنایا اور اسی خوبی نے انہیں امکانات کے وسیع ذخیرے کو جاننے کا موقع عطا کیا۔ آگے چلنے سے پہلے ذرا سا رکیے گا۔
؎
خواہشوں کے وار سے ممکن نہیں تسخیر حسن
آدمی کے عشق کو تلوار ہونا چاہئے
یہ شعر اپنے تخلیق کار کے اندرون کی خبر عطا کر رہا ہے۔ اور اک جہان تازہ کی جستجو سے آگاہ کر رہا ہے۔ یہ تخلیق کار عشق پیشہ ہے اور یہی اس کے فن کی سوغات ہے۔ یہ حوالہ زندگی کا مضبوط حوالہ ہے۔ جس میں خوبی و مہارت پائی جاتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ شاعری کیا ہے۔ رودادِ زندگی ہے لطافت زبان نے کیسا سما باندھا ہے۔
؎
لڑکھڑانا اور بہکنا رِند کو زیبا نہیں
یعنی مدہوشی میں بھی ہوشیار ہونا چاہئے
غزل کے مصرعے لہک لہک کر سرمستی میں راز آشکار کر رہے ہیں کہ ستاروں کا رقص اسے کہتے ہیں کہ دل جھوم جھوم جائے۔ اور ریشم جیسے خواب آنکھوں میں در آئیں۔ کیوں؟سچے اور اچھے تخلیق کار سچ کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔
؎
خانہ دل میں جو بت بیٹھے ہیں سارے توڑ دے
اپنا چہرہ دیکھ، ان چہروں کی زیبائش نہ کر
اسے کہتے ہیں کہ اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی۔۔۔ جو ہنر مند لذت آشنائی سے آگاہ ہوتے ہیں وہ قصہ جاناں کو ایک خیال غیرفانی جانتے ہیں۔ اور شائستگی اور نفاست سے اس خیال کی یوں ترجمانی کرتے ہیں۔
؎
تھے کبھی اہل چمن کی آرزو
موسم شبنم فشانی اور میں
صاحبو! یہاں میں نے جو طوفان اٹھایا ہے۔ وہ ایک گوشہ لذت عطا کرتا ہے۔ حسن وجمال کے قدردان اس رمز کو جانتے ہیں کہ زلف و رخسار کی تابانی بھی اندر کے حزن کو کم نہیں کر پاتی اس لئے کہ:
؎
تونے کیا دیپ جلانے کی طرح ڈالی ہے
شام ہستی کے بڑہے جاتے ہیں سائے جاناں
یہاں ساکنانِ ارض عشق من و تو کا سراغ پاتے ہیں اس کے فکری انداز میں نازو ادا بانکپن اور ندرت خیال میں گہرائی نے ایسی جگہ بنائی ہے کہ دل داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا انداز دیکھئے گا۔
؎
یہ اور بات کہ آباد ہو گئیں آنکھیں
کبھی مگر دل برباد تو بسا ہی نہیں
اسی دلِ برباد میں اک موہنی صورت کی تصویر آج بھی موجود ہے۔
؎
چاند چہرہ لب دھنک، آنکھیں ستارہ، سر و قد
یہ سراپا ہے مرے محبوب خوش اندام کا
بلا کے ذہین اور بلند درجہ خلاق شمیم حسنین نے اس آفتابِ عشق کو مزید یوں روشن کیا ہے۔
؎
یہ غمزے یہ ادا یہ ناز نخرے
یقینا میری جاں لے کر ٹلیں گے
اس مشکل اور دشوار منزل کو سر کرنے کیلئے جس حوصلے ، ولولے اور عزم کی ضرورت ہے ۔ اس کا اندازہ اس فردِ فرید تخلیق کار نے یوں کیاہے۔
؎
ان کی آنکھوں میں ستارے سے چمکتے دیکھے
عشق کی چوٹ سے کھلتا ہے گریباں اپنا
آگے معاملہ مزید گھمبیر ہو جاتاہے۔ دل جنوں کی مدارت کرتا رہا۔ غارت گر حسن چالیں چلتا رہا معاملہ یہ ٹھہرا:
؎
ہم سے تو ہو نہ سکی بات مقابل ان کے
وہ بھی دانتوں میں دبائے رہے داماں اپنا
عشق کی اپنی تہذیب ہے۔ یہ تہذیب خوشبو کی طرح پھیلتی ہے۔ قصہ نازک مزاجاں بیاں کرنا بڑا سانس مانگتا ہے۔ اور رعنائی خیال کا جوہر قرار پایا ہے۔ اس رنگ کو ، ڈھنگ کو اور ترنگ کو کون حوصلے سے بیان کر سکتا ہے؟ یقینا یہ دل فگاروں کا حوصلہ ہی ہے۔ انہیں ہی یہ اندازِ زیبا ہے کہ:
؎
حسن کے ساتھ ہو حیا جن میں
اپنے آنچل کی لاج ہوتے ہیں
یہ زمانے جن میں زندگی خوابوں میں بسر ہوتی ہے اور جب آنکھ کھلتی ہے تو جدائی بتلاتی ہے کہ اب یہ زخم ، دن رات سہنا ہے چپ رہنا ہے اور :
؎
ستائش لب و رخسار کے زمانے گئے
کہیں برستی ہوئی زلف کی گھٹا بھی نہیں
اس لمحہ موجود میں زندگی کا اثاثہ یادیں ٹھہرتی ہیں۔ دل ناکام کا افسانہ عام ہوتا ہے:
؎
وہ شجر، چوپال، پگ ڈنڈی ہوئے خواب و خیال
صرف یادیں ہی اثاثہ ہیں سنہری شام کا
یہ تماشہ وقت کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ وفائوں کا صلہ جفائوں سے ملتا ہے۔ دل خوش کن لمحات کا گرویدہ ہوتا ہے۔ طلب رسد سے مشروط ہوتی ہے۔ آپ کمال ہنر دیکھئے کہ اس کارِ زار کو شمیم حسنین نے کس مہارت سے ادا کیا ہے:
؎
میں تو کیا جد میں آجائیں فرشتے بھی شمیم
اپنے ہاتھوں سے اگر جام پلائے جاناں
دوستو! عشق کا مال کیا ٹھہرا۔ اس جانب تدبیر اور تقدیر کا اشارہ کیا ٹھہرتا ہے۔ رودادِ محبت تفصیل سے بیان ہوتی ہے۔ مگر کمالِ مہارت سے سلیقہ اور قرار لئے ہوئے:
؎
زخم ہر روز ہی کھل اٹھتے ہیں اپنے دل کے !
ہم نے ان پھولوں سے زخموں سے کنارا نہ کیا
اور اک عجب سی خلش دل میںجگہ بناتی ہے۔ شائستگی اور نفاست اعتبارہنر ٹھہرتی ہے حرمت لفظ پہ نکھار آتا ہے۔ خلقت شہر عشق کے سودائی کی رسوائی کو ناکام عشق کا طعنہ دھرتی ہے مگر عاشق صادق خود اقرار کرتا ہے ۔
؎
اس کے بارے میں سوچنا کیسا
وہ تو سانسوں کو گد گداتی ہے
صنم خانے سے واپسی کا انداز عشق پیشہ لوگوں کو اکثر در پیش رہتا ہے۔ اس لئے کہ لوازمات زندگی اور عشق ندی کے دو مختلف کنارے ہیں۔ عشق میں استعارے ہیں حسن میں شرارے ہیں۔
؎
تیری محفل میں ستاروں کی طرح بیٹھے تھے
وقت رخصت بڑی مشکل سے اٹھایا خود کو
دانا کہتے ہیں کہ بے گانگی ہی دیوانہ بناتی ہے۔ دیوانے سر مستی میں بہت سے نمایاں نکات بیاںکر جاتے ہیں۔ یہ بات رواں دواں اسلوب میں شمیم حسنین نے اک نئی جہت میں بیان کی ہے ، دیکھئے گا۔
؎
دل و نگاہ کا پہرا دیا قریب رہا
مرا ضمیر مری ذات کا رقیب رہا
دیوانہ ہو یا رسوائی جسے دیکھ کر ہر آنکھ بھر آئی۔ محبوب ہمیشہ خوشیاں اپنے ہمراہ ہی لے جانا ہے۔ زیست تروتازگی سے محروم ہو جاتی ہے۔ آواز آتی ہے۔
؎
گو یقین ہے وعدہ فروا پہ لیکن کیا کریں
چاہنے والے ترے عمر خضر رکھتے نہیں
ہم سے آوارہ مزاجوں کا پتہ کیا پوچھنا
بے حد و دیوار گھر رکھتے ہیں، گھر رکھتے نہیں
اے ساکنانِ ارضِ پاک ہم نے حیدر آباد کے معروف مستند شاعر شمیم حسنین کے باکمال فن سے آپ کو روشناس کرانے کی اپنی سی سعی کی ہے۔ امید ہے کہ وہ جو جلوئہ یارپر یقین رکھتے ہیں۔ اور جانتے ہیں کہ وصل میں ناکامی ہی ہنر کواثر پذیر ی عطا کرتی ہے۔ دل کی خلش جذبوں کو مہمیز دیتی ہے۔ حسن زندگی کی نوید اور عشق محبت کی اساس بنتا ہے۔ اس معرکہ حسن و عشق میں زندگی کے اسرار سر ہوتے ہیں۔ خاکی خاکدان میں رہتے ہوئے خاک کی اہمیت کو جان جانتے ہیں۔ یہ خاک انسانی زندگی کے پیروں کی زینت ہوتی ہے اور بعد از مرگ انسان کے اوپر آجاتی ہے۔ یہ کھیل او پر اور نیچے کا ہے اور شاعری اس کھیل کا اک رنگ ہے۔ جس میں سلیقہ قرینہ اک بانکپن لئے ہوتا ہے۔ جدت اور ندرتِ خیال اس میں اثر آفرینی پیدا کرتی ہے۔ علمی اور لسانی مباحث پر سیر حاصل گفتگو ہی شاعری کی طرہ امتیاز ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے انتہائی مسرت محسوس ہو رہی ہے کہ شمیم حسنین کی شاعری فنی طور پر مضبوط اور فکری طور پر مضبوط اور فکری طور پر گہرائی و گیرائی کی حامل ہیں۔ مصرعے سچے موتیوں کی طرح سے چمکدار ، روشن اور اثر پذیری کے حامل ہیں۔ ان کی غزلیہ شاعری سبک رواں اور جدت کی حامل ہے۔ جس میںوقت ، ماحول ، معاشرے اور تہذیب کے اثرات نمایاںہیں۔ شمیم حسنین کا کمال یہ ہے کہ ان کے یہاں زبان شعر لطافت کی حامل ہے۔ ان کی شاعری سراسر محبت سے عبارت ہے اور ان کا ہر شعر صوفیانہ خیال سے عبارت ہے اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ نسل انسانی سے محبت انکے فن کا خاصہ ہے۔ خیال میں انتشار کی کیفیت نہیں ہے، فن شاعری کے استعمال میں انہیں آج کمال مہارت حاصل ہے۔ اپنا مافی الضمیر بر ملا ادا کرنے پر قادر ہیں۔ ان کی روشن شاعری عشق انسانی کی حامل قرار پائے گی جس سے دل فگارو دل شکستہ افراد اپنے لیے توشہ خاص جانیں گے۔ ہم ان کی فن شاعری میں عروج کی جانب پیش قدمی اور استقامت کی دعا کرتے ہیں۔ آخر میں دو تین شعر عصر حاضر کے حوالے سے:
؎
جو ملی امداد وہ دیوان خانوں میں رہی
منتظر امداد کے جو تھے جھجکتے رہ گئے
پھر امیر شہر کی آمد پہ ہلچل سی مچی
جاکے سب پہلو میں بیٹھے ہم سرکتے رہ گئے
اور دیکھئے ہمارا آج:
؎
انا و خود غرضی کی یہ انتہا ہے شمیم
کسی کے لب پہ کسی کے لیے دعا بھی نہیں
سید صادق حسین صادق خادم ادب ہیں۔ شہر نا پرساں اس فردِ فرید کی ادبی خدمات کا مقروض ہے ۔ احباب ادب انہیں اپنی محبتوں سے نوازیں گے۔ آخر میں توشہ خاص شمیم حسنین کی جانب سے:
؎
عشق ہے بے نیاز وصل شمیم
یہ حقیقت بتا گیا کوئی
یہ شعر بریلی کی مٹی کا تابندہ حوالہ ہے:
؎
یاد رکھو تو دل کے پاس ہیں ہم
بھول جائو تو فاصلے ہیں بہت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...