ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت کے متعلق معلومات بنیادی طور ایسے چوہوں اور خلیات سے ملتی ہیں جن میں ساختی لحاظ سے کروموسومز دوبارہ ترتیب دئیے گئے ہوتے ہیں۔ اس قسم کی بہت سی تحقیقات میں ایکس کروموسوم کے بہت سے حصے غائب تھے۔ کونسا حصہ غائب تھا اس بنیاد پر کروموسوم یا تو عام طریقے سے غیر فعال ہوا تھا یا نہیں ہوا تھا۔ دیگر تحقیقات میں ایکس کروموسوم کا کوئی حصہ اس سے الگ ہو کر کسی دوسرے آٹوسوم کیساتھ جڑ گیا تھا۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ ایکس کروموسوم کا کون سا حصہ منتقل ہوا تھا، یہ آٹوسوم کو غیر فعال کرسکتا ہے۔
ان تجربات سے پتہ چلا کہ ایکس کروموسوم پر ایک خاص حصہ موجود ہے جو غیرفعالیت کیلئے اہم ہے۔ اس حصے کو ایکس ان ایکٹیویشن سینٹر کے نام دیا گیا۔ 1991 میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کیلفورنیا کے ہنٹ ولرڈ لیب کے ایک گروپ نے یہ پتہ لگایا کہ اس ایکس ان ایکٹیویشن سینٹر میں ایک Xist نامی جین موجود ہے۔ یہ جین فعال ایکس کروموسوم کی بجائے صرف غیر فعال ایکس کروموسوم سے ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ جین صرف ایک ایکس کروموسوم سے ظاہر ہوا تھا اس نے اسکو ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت کے کنٹرولر کیلئے بہترین امیدوار بنادیا، جب دو ایک جیسے کروموسومز الگ الگ برتاؤ کررہے تھے۔
اس جین سے بننے وی پروٹین کی نشاندہی کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن 1992 میں یہ بات سامنے آئی کہ کچھ عجیب ہو رہا ہے۔ Xist جین کی ٹرانسکرپشن سے آر ین اے کی کاپیاں بن رہی تھیں۔ اس آر این اے کی پروسیسنگ باقی آر این اے کی طرح ہی تھی۔ سپلائسنگ یعنی کچھ جینز کو کاٹا گیا اور ٹرانسکرپٹ کے ہر حصے پر مخلتف ساختوں کو جوڑا گیا تاکہ اسکی مظبوطی میں اضافہ ہوسکے۔ ابھی تک سب کچھ نارمل ہی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کی آر این اے پروٹین کو کوڈ کرے اسے نیوکلئس اے باہر ساٹوپلازم میں جانا ہوتا ہے۔ یہ اس لئیے کیونکہ رائبوسوم جوکہ پروٹین فیکٹری کہلاتے ہیں اور امائنو ایسڈز کو پروٹینز کی چین میں پروتے ہیں صرف سائٹوپلازم میں موجود ہوتے ہیں۔ لیکن Xist آر این اے کبھی نیوکلئس سے باہر نہیں جاتا تھا۔ اسکا مطلب ہے کہ یہ کبھی پروٹین نہیں بنائیگا۔
اس سے کم از کم ایک چیز کی وضاحت ہوگئی جس نے سائنسدانوں کو Xist جین کی دریافت سے لیکر اب تک الجھائے رکھا تھا۔ Xist آر این اے سترہ سو بیس کے جوڑوں پر مشتمل ایک لمبا مالیکول ہے۔ تین بیس کے جوڑوں کے کوڈون سے ایک امائنو ایسڈ کوڈ ہوتا ہے جیساکہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں۔ لہذاٰ تھیوری میں Xist آر ین اے کے سترہ سو بیس کے جوڑے تقریباً پانچ ہزار سات سو امائنو ایسڈز کوڈ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن جب سائنسدانوں نے اس آر ین اے کا جائزہ لیا تو کوئی وجہ سمجھ میں نہ آسکی جس سے یہ آر این اے اتنی لمبی چین کو کوڈ کرسکے۔ Xist میں جگہ جگہ سٹاپ کوڈونز ( جو پروٹین کے خاتمے کا سگنل دیتے ہیں) موجود تھے اور سب سے لمبا حصہ جو کسی سٹاپ کوڈون کے بغیر تھا وہ 894 بیس کے جوڑوں پر مشتمل تھا یعنی 298 امائنو ایسڈز۔ ایسا جین کیونکر موجود ہوسکتا ہے جو 17kb کا ٹرانسکرپٹ بناتا ہو لیکن اسکا صرف پانچ فیصد پروٹین کوڈ کرنے کیلئے استعمال کرتا ہو؟ یہ توانائی کا بہت غلط استعمال ہوگا۔
لیکن کیونکہ Xist نیوکلئس سے باہر ہی نہیں جاتا تھا تو اسکی پروٹین کوڈنگ کی کم صلاحیت غیر متعلقہ ہے۔ یہ آر این اے بطور میسینجر آر این اے کام نہیں کرتا جو پروٹین کیلئے کوڈ لیکر جاتا ہے۔ یہ آر این اے کی ایسی قسم ہے جسکو نان کوڈنگ آر این اے ncRNA کہا جاتا ہے۔ Xist پروٹین کیلئے کوڈ نہیں کرتا لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اسکا کوئی کام نہیں ہے۔ بلکہ Xist بذاتِ خود ایک فنکشنل مالیکول ہے اور ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
1992 میں نان کوڈنگ آر این اے ایک نئی دریافت تھی اور صرف ایک مزید قسم موجود تھی۔ یہاں تک کہ آج بھی Xist کے بارے کچھ غیرمعمولی پن موجود ہے۔ اس لئیے نہیں کہ یہ نیوکلئس سے باہر نہیں جاتا بلکہ یہ اس کروموسوم سے بھی باہر نہیں جاتا جس سے یہ بنتا یے۔ جب ای ایس خلیات مخصوص ہونے لگتے ہیں تو صرف ایک کروموسوم Xist آر این اے بناتا ہے۔ یہ وہ کرومو سوم ہے جو غیر فعال ہوتا ہے۔ Xist اس کرومو سوم سے الگ نہیں ہوتا بلکہ اس پر پھلینے لگتا ہے۔
چلیں ڈی این اے کوڈ بطور سکرپٹ کی اپنی مثال کی طرف واپس چلتے ہیں۔ اس بار ہم فرض کریں گے کہ سکرپٹ دیوار پر لکھا ہوا ہے۔ یہ کمرہ جماعت میں لکھی ہوئی کوئی نظم ہوسکتی ہے یا کوئی تقریر۔ گرمیوں کی چھٹیوں کے آغاز پر سکول کو رہائشی اپارٹمنٹس میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ لوگ آتے ہیں اور سکرپٹ کے اوپر رنگ کردیتے ہیں۔ یہاں اب رہائشیوں کے پڑھنے کیلئے کوئی نظم یا تقریر موجود نہیں لیکن سکرپٹ دراصل اب بھی موجود ہے لیکن صرف ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔
جب Xist اس کروموسوم پر جڑتا ہے جس نے اسکو بنایا ہوتا ہے تو یہ ایک سرایت کرنے والے ایپی جینیٹک فالج کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ جینز میں سرایت کرتا ہوا انھیں آف کرتا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ ایسا جینز اور انکو میسنجر آر این اے میں تبدیل کرنے والے اینزائمز کے درمیان رکاوٹ بنکر کرتا ہے۔ لیکن جیسے ہی ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت مستحکم ہوتی ہے یہ کروموسوم ہر ایہہ جینیٹک ترامیم کو تبدیل کردیتا ہے۔ وہ ہسٹون ترامیم جوکہ عام طور پر جینز کو آن کرتی ہیں اتار لی جاتی ہیں۔ انکو جینز کو آف کرنے والی ریپریسیو ہسٹون ترمیم سے بدل دیا جاتا ہے۔
کچھ نارمل ہسٹون پروٹینز کو یکسر اتار لیا جاتا ہے۔ ہسٹون H2A کو قدرے مختلف میکرو H2A سے بدل دیا جاتا ہے۔ جینز کے پروموٹرز پر ڈی این اے میتھائی لیشن کردی جاتی ہے جو جینز کو آف کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ تمام تبدیلیاں ریپریسیو مالیکولز کے کروموسوم پر جڑنے کا نتیجہ بنتی ہیں اور ڈی این اے کو اس طرح سے ڈھانک دیا جاتا ہے کہ جینز کو ٹرانسکرائب کرنے والے اینزائمز کی اس تک رسائی نہ ہوسکے۔ ڈی این اے مظبوطی کیساتھ مڑجاتا ہے جسطرح ایک گیلے تولیے کے دونوں سرے مروڑ دیے جاتے ہیں۔ اور اسکے نتیجے میں پورا کروموسوم نیوکلئس کے کنارے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس سٹیج تک تمام ایکس کروموسوم غیرفعال ہوچکا ہوتا ہے سوائے Xist کے جوکہ ٹرانسکرپشن کے صحرا کے درمیان میں فعالیت کے ایک چھوٹے نخلستان کی طرح ہوتا ہے۔
جب بھی ایک خلیہ تقسیم ہوتا ہے تو ایکس کروموسوم ہر موجود ترامیم نئے خلیے میں کاپی ہوجاتی ہیں اسطرح وہی ایکس خلیے کی تمام نسلوں میں غیر فعال رہتا ہے۔
گوکہ Xist کے اثرات حیرت انگیز ہیں اوپر موجود تفصیل میں ابھی بھی کچھ سوالات کے جوابات موجود نہیں ہیں۔ Xist کا اظہار کسیے کنٹرول ہوتا ہے؟ جب ای ایس خلیات مخصوص ہونے لگتے ہیں تو یہ آن کیوں ہوجاتا ہے؟ کیا Xist صرف مادہ کے خلیات میں فنکشنل ہوتا ہے یا پھر یہ مردوں میں بھی فعال ہوسکتا ہے؟.
___________________________________________
References
https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/3834036/
https://www.nature.com/articles/349038a0
https://www.nature.com/articles/351325a0
https://www.sciencedirect.com/…/abs/pii/009286749290520M
https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/1423610/
https://www.nature.com/articles/351325a0?proof=true
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...