نیّر جہاں
*
کوئی شریکِ درد نہ پا کر
اور تنہائی سے گھبرا کر
اپنی چھوٹی سی بچی کو
میں نے اک شب پاس بلایا
اور بتایا۔۔۔۔۔
’’چھٹی میں نے زیادہ لے لی
تنخواہ اب کے بھی کم ہو گی
گھر کا کرایہ
دودھ کے پیسے
بجلی کا بل
فیس تمہاری
جانے یہ سب کیسے ہو گا؟‘‘
چھوٹا سا معصوم سا چہرہ
سخت پریشاں،سوچ میں ڈوبا
آنکھ میں فکر کے بادل چھائے
ننھے سے ماتھے پر بَل تھے
دھیمے لہجے میں وہ بولی
’’اب کیا ہوگا؟۔۔۔اب کیا ہوگا؟۔۔‘‘
کتنے خدشے،کتنی فکریں
اس جملے میں جاگ رہی تھیں
اُس سے میں نے اُس کا بچپن
بے فکری کے خواب سہانے
سب کچھ اک لمحے میں چھینا۔۔۔
اُن لمحوں کو بیتے اب تو صدیاں بیتیں
پھر بھی اب تک
میری بچی کے چہرے کی
اک اک سلوٹ
دنیا سے پوچھا کرتی ہے
’’اب کیا ہو گا۔۔۔؟‘‘
’’اب کیا ہوگا۔۔۔؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* وسطی امریکہ کے کئی ملکوں میں دھاگے اور تاروں سے ننھی ننھی،چھوٹی چھوٹی گڑیاں بنائی جاتی ہیں،جن کے بارے میں وہاں کے لوگوں کا یہ عام یقین ہے کہ روز رات کو سونے سے پہلے اپنے تمام دُکھ اگر اُن کو سنا دئیے جائیں تو صبح تک گڑیاں اپنے اوپر سب دکھ لے لیتی ہیں اور اس طرح سارے دکھوں سے نجات مل جاتی ہے۔