لاریب صبح اُٹھی تو اُس کی طبیعت بوجھل سی تھی اُس نے نظرانداز کرتے ہوۓ اپنے آپ کو فریش کیا اور نیچے آگئی۔۔
بابا جانی آپ۔۔وہ سیڑھیوں پر ہی تھی جب اُس کی نظر سامنے حبیب خان پر پڑی
لاریب فوراً اُن کی طرف لپکی
حبیب نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا اور پوچھا۔۔بھائی کل کا گھر نھی اور تم اب تک سکون سے سوتی رہی۔۔۔
نسرین بیگم نے منہ چڑھایا
بابا جانی مجھے کیا پتا ہو وہ کہا جاتا یا کہاں سے آتا ہے۔۔
لاریب بولی
ارے خان صاحب رہنے بھی دیں اُس نے بھائی سمجھا ہو کبھی انس کو تب ہے نا۔۔
آپ بس جلدی کریں میرا بچہ پتا نھئ کہا ہو گا۔۔۔
کس حال میں ہو گا۔۔۔
نسرین بیگم چڑھ کر بولی تو لاریب بولی۔۔۔ آنٹی بھائ تو تب سمجھتی نا جب آپ مجھے ماں کہنے کا عہدہ دیتی
لاریب بول کر پلٹ گئی۔۔۔
اپنے کمرے میں آکر اُس کا دل ہلکا ہو گیا۔۔۔
کوئ پیار نھی تھا اُسکے پاس کوئ بھی نھی لیکین اُس کو یقین تھا
ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والی زات ہے ایک۔۔وہی خدا ہے۔۔وہی خدا ہے۔۔۔
********
بارش میں بھیگ رہی تھی وہ دوستوں کے ہمراہ
میں اُسے کب سے دیکھ رہا تھا وہ انجان تھی۔۔
کافی وقت گزر گیا۔۔
مجھے وہ حسن کی پوٹری لگ رہی تھی۔۔
ایک ایک ادا اُس کی سب سے نرالی تھی۔۔۔۔
حسیناؤ کی ملکہ تھی وہ ۔۔
خوبصورت ترین۔۔
وقت گزر گیا۔۔ساری سہیلیاں چلی گئ۔۔وہ وہاں رہ گئ۔۔میں نشے میں دھند تھا وہ شائد اپنی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔
میں اُس کی طرف بڑھا اور پتا نھی کیسے اور کب وہ میرے ہاتھ میں آگئ۔۔زور زبردستی کے ساتھ ہی آگئ ۔۔
میں نے برستی رات میں اُس کو بہا دیا۔۔وہ روتی رہی چیختی رہی لیکین میں شیطان کے روپ میں اپنی شیطانیت دکھا گیا۔۔
دیکھا تو اُسکی سانسیں چل رہی تھی۔۔۔
اُس کے ڈوبٹے سے اُس کا منہ باندھا اور پھر اِن ہاتھوں سے گلا دُبا دیا۔۔۔۔
اور وہاں سے فرار ہو گیا۔۔۔۔
انس بولتا گیا بولتا چلا گیا۔۔کوئ بات جھوٹ نھی تھی۔۔۔سب سچ تھا خلیل اور رحیم کا ضبط ٹوٹنے کو تھا،۔۔
پولیس نے ایف آئ آر کاٹی اور انس کو حراست میں لیا۔۔۔۔۔
حبیب تک یہ بات پہنچ گئ تو وہ تو آناً فانً گھر سے نکلے کسی کو کچھ نھی بتایا بس خود ہی مسلے کو سلجھانا چاہا۔۔۔
*********
لاریب چاۓ لے کر چھت پر آگئ ملازمہ شکر ہے اُسکے ساتھ نھی تھی بلکہ نسرین کو رپوڑٹ پیش کر رہی تھی۔۔۔
وہ گرل کے پاس آئ تو سانسیں اٹک گئ وہ وہی کھڑا تھا۔۔۔
مُعیز لاریب کی زُبان پر اُسکا نام آگیا۔۔
مُعیز نے کچھ نھی کا بس اُس کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔لاریب فوراً پیچھے ہوئ۔۔ اور نیچے آگئ
اپنے کمرے میں آکر سوچنا چاہا کہ یہ کون ہے اور کیا اِسنے سچ میں پہلی نظر میں رُک کر مُحبت کی۔۔۔واہ بئ واہ ۔۔
محبت بھی کسی کو ہوئ میرے سے تو اُس دوران جب میں خود کو سنبھال نھی سکتی ۔۔تو محبت کیا خاک رکھو گی سنمبھال کر۔۔وہ لیٹ گئ توفون بجنے لگ گیا۔۔اُس نے بغیر دیکھے اُٹھایا۔۔۔
ہیلو۔۔لاریب بولی
ہائ۔۔مُعیز خوش ہو کر بولا
میں مُعیز
لاریب نے فون کان سے ہٹا کر دیکھا اور پھر کان کو لگایا میرا نمبر کیسے لیا تم نے۔۔جلدی بولو لاریب تیزی سے بولی۔۔۔
وہ آپکی وفادار مُلازمہ نے ۔۔۔میں نے کہا پیسے واپس کرو گا نا تو نمبر دے دیں شائد وہ خود نہ دیں تو نام کے ساتھ نمبر دیا اُسنے۔۔لاریب حبیب خان۔۔وہ فخر سے بولا
لفنگے۔۔۔میرا نمبر ابھی ڈیلیٹ کرو اور ملازمہ سے رابطہ کرو۔۔لاریب فون کاٹنے لگی تو وہ فوراً بولا۔۔
لاریب جی۔۔بات سنیں۔۔۔میں آپ سے پیار کرتا ہوں پہلا پیار ہوا ہے سمجھ نھی آرہا کیا کرو آپ بتائیں نا۔۔وہ بچوں کی طرح بولا۔۔
لاریب کو غصہ آیا ۔۔نئ میں تو آۓ دن جیسے یہی کرتی رہتی ہوں نا ۔۔۔۔
کیا کرتی آپ۔۔۔؟ آۓ دن۔۔۔مُعیز شرارت سے بولا
پاگل انسان ۔۔ لاریب بولی۔۔
پیار میں آپکے۔۔وہ پیار سے بولا
لمحے بھر کو لاریب کی دھڑکن رُکی وہ لہجہ جھوٹا نھی تھا۔۔۔
لاریب نے فون بند کر دیا۔۔۔
اِس دنیا کےسارے پاگل میرے پلے کیوں پڑ جاتے۔۔۔
وہ دوائ لے کر دوبارہ لیٹ گئ۔۔۔
****************************
وہ پولیس اسٹیشن پہنچے تو انس کی حالت دیکھ کر وہ پریشان ہوۓ ۔۔۔جگہ جگہ تشدد کیا گیا تھا۔۔
اور وہ سب یقینً خلیل کا کام تھا۔۔
خلیل اور رحیم آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔۔
حبیب خان ۔۔آپ کا بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پوری کہانی پولیس افسر نے سُنائ۔۔۔۔۔۔
وہ کچھ بولنے کے لیے نھی رہے تھے۔۔۔
جو چاہے کریں آپ مجھے کوئ اطراض نھی اور ۔۔۔۔واپس پلٹ گۓ۔۔۔
اُن کا دل رو رہا تھا جاوان اولاد جب وحشی جانوروں والے کام کرے تو خود کو لعنت ملالت کرنے کے علاوہ کُچھ باقی نھی رہتا ۔۔۔
وہ گھر پہنچے تو نسرین نے سر چڑھ کر ساری بات سُن ہی لی۔۔لاریب بھی پاس ہی تھی۔۔۔
نسرین بھت کُچھ بول رہی تھی۔۔آپ اُس کو چھوڑ آۓ۔۔۔بیچارہ کھانا نھی کھایا ہو گا۔۔درد میں ہو گا کیا سوچ رہا ہو گا۔۔
کتنی عجیب ہو تم نسرین جو اولاد وہ بھی بیٹا۔۔
لڑکیوں کی عزت لوٹتا ہے وہ ۔۔۔۔وہ بیچارہ ہے۔۔؟
بولو نا۔۔۔وہ بیچارہ ہے۔۔
کوئ اُسکی زمانت کو نھی جاۓ گا۔۔سُن لو تم حبیب خان بول کر کمرے میں بند ہو گۓ۔۔۔۔جبکہ وہ بولتی رہی
********
آپا خلیل کی آواز پر سر اُٹھایا
بول خلیل۔۔ آریانہ بولی۔۔
خلیل نے جب اُنھے بتایا کہ اُس کا باپ خود سزا کے لیے چھوڑ گیا ہے تو وہ بہت خوش ہوئیں
شکر ہے خدا کا۔۔اُس کے باپ نے انصاف دکھایا۔۔۔
خدا اُس کی بیٹی کی عزت کی حفاظت کرے۔۔
آمین ۔۔
وہ آمین بھی خود ہی بول کر چُپ ہوئ۔۔خلیل اُس کو انجام تک پہنچا دینا۔۔۔
آدھا نہ چھوڑنا۔۔اور تیرے بھائ جی کہاں ہیں۔۔
آپا حقہ پی رہے ہیں۔۔اُپر چھت پر بیٹھ کر ۔۔۔
چل اچھا ہے۔ آریانہ جائنماز بجھانے لگی۔۔اور نفل ادا کیے۔۔۔
*****************
نسرین بی بی کوئ ڈرائنگروم میں آیا ہے دو عورتیں ہیں۔۔۔
اچھا۔۔تم چلو میں آتی ہوں۔۔نسرین اُٹھ کر ڈرائنگروم میں داخل ہوئ۔۔اور سلام لی۔۔۔
نسرین کی حالت ٹھیک نھی تھی۔۔۔باہری میک اپ سے بھی اُس کھ آنکھیں اور مُرجھایا ہوا چہرہ نظر میں تھا۔۔۔
آپ کی بیٹی ہے نا ہم رشتے کرواتے ہیں اگر آپ چاہیں تو۔۔ہماری نظر میں ایک دو رشتے ہیں۔۔
آپ دیکھ لیں تو ۔۔
ارے عجیب عورتیں ہو تم دونوں ۔۔پتا نھی کہاں سے آکر بیٹھ گئ۔۔
رشتے کرواتے ہیں چلو اُٹھو اور چلتی بنو۔۔نسرین تپ کر بولی۔۔۔۔
وہ دونوں عورتیں بھی بڑبڑاتی ہوئ اُٹھ پڑیں لیکین اپنا کارڈ وہیں چھوڑ آئیں
اور باہر کھڑی گاڑی میں بیٹھ گئ۔۔
بیٹا کیا فضول عورت تھی۔۔۔ ہم اِس اداکاری میں اور حصہ نھی لے سکتے
ارے آنٹی ابھی تو پہلی بار تھا نا۔۔۔پلیز آپ جتنے پیسے مانگو گ دوں گا۔۔۔ اب امی کو بھی آپ نے منانا۔۔۔اور صرف اِسی رشتے کی بات کرنا آہستہ آہستہ پو گا سب آپ دیکھنا۔۔۔
مُعیز نے اپنی ماں کو رشتے ڈھونڈتی دیکھا تو اُن ہی عورتوں سے بات کی اور پلین بنایا۔۔جو ابھج گک ایک فیصد بھی کامیاب نھی تھا۔۔۔
وہ اُنھی عورتوں کو اُس کے گھر بھیج رہا تھا۔۔۔تاکہ وہ
اُس کی ماں کو بھی اِسی رشتے کا کہے۔۔۔
********************