(Last Updated On: )
رئیس الدین رئیس(علی گڑھ)
وہی دشتِ نظر رقصاں یہی وحشت ابھی تک
ادا کب ہو سکی ہے خون کی قیمت ابھی تک
نہیں بھولے ہیں باہم لمس کی لذت ابھی تک
کف و شمشیر کو ہے جنگ کی حسرت ابھی تک
مِری آنکھوں کو ہے اس بات پر حیرت ابھی تک
نظر کو خواب منظر سے ہے کیوں نسبت ابھی تک
لگا کر قہقہے بارش ہوئی خاموش کب کی
مگر مصروفِ گریہ ہے ہماری چھت ابھی تک
رواں سب کارواں در کارواں ہیں سمتِ منزل
نہ ہو پائے مگر ہم مائلِ ہجرت ابھی تک
رئیسؔ اکثر گھمایا چاک بھی، مٹی بھی گوندھی
نہیں بن پائی لیکن چاند سی صورت ابھی تک