(Last Updated On: )
رئیس الدین رئیس
وہ جو کچھ دیکھتا ہے بس وہی تحریر کرتا ہے
وہ بس غالبؔ کو غالبؔ، میرؔ کو ہی میرؔ کرتا ہے
فن چہرہ شناسی کا وہ ماہر،معترف ہوں میں
کہ جو بھی سوچتا ہوں میں وہی تصویر کرتا ہے
مجھے لگتا ہے وہ سقراط ہے اگلے زمانے کا
کہ چھو کر بھی وہ اکثر زہر کو اکسیر کرتا ہے
مصور ہے کہ وہ سادہ ورق زنداں بناتا ہے
کہ ہر منظر پس منظر کو وہ زنجیر کرتا ہے
اسی اک مشغلے میں روزو شب اُس کے گزرتے ہیں
کہ وہ زخموں کو سی سی کر ترازو تیر کرتا ہے
طلسمِ قصہ گوئی اب کہاں باقی رئیسؔ اُس کی
وہی قصے پرانے ہیں جنہیں تقریر کرتا ہے