۱۹۹۸ءکے آغاز میں مجھے کلیم شہزاد کا ایک خط ملا جس کے ساتھ ان کے ۲۰ماہیے بھی منسلک تھے۔ اپنے خط میں انہوں نے پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ گوجرانوالہ کے ماہیا نمبر اور بالخصوص اس میں شامل میرے مضمون کے حوالے سے، ماہیے کے وزن کے سلسلے میں میرے موقف سے مکمل اتفاق کیاتھا اور اسے اصولی موقف قرار دیا تھا۔ خط اتنی محبت سے لکھا گیا تھا کہ میں حیران رہ گیا۔ جہاں ایک طرف مجھ جیسے گناہگار پر مخالفوں، حاسدوں اوربدخواہوں کی یلغار ہے وہاں صرف چند دوستوں کا پیار ہے جو مجھے حوصلہ دیئے رکھتا ہے۔ لیکن کلیم شہزاد سے نہ تو میرا پہلے سے کوئی رابطہ تھا نہ تعلق۔ پھر میں نہ کسی ادبی ادارے کا سربراہ نہ کسی ادبی رسالے کا ایڈیٹر۔۔۔۔سو بورے والا کے رہنے والے کلیم شہزاد اگر ماہیے کے مسئلے پر غیر جانب داری سے غور کرتے ہیں اور پھر اس تخلیقی حوالے سے ہمارا محبت کا تعلق قائم ہوتا ہے تو یہ خدا کا فضل و کرم بھی ہے اور ماہیے کے مسئلے پر ہمارے مضبوط اور درست موقف کی سچائی بھی ہے۔ کلیم شہزاد سے خط وکتابت ہوئی تو پتہ چلا کہ ”بھنگڑا“ کے ماہیا نمبر کے بعد سے اب تک وہ ۵۰۰کے لگ بھگ اردو ماہیے کہہ چکے ہیں۔ گویا ابھی تک اردو ماہیے کے جتنے مجموعے چھپے ہیں تعداد کے لحاظ سے ان میں سے کسی بھی مجموعے سے ان کے ماہیے کہیں زیادہ ہیں اور اب انہوں نے اپنے ماہیوں کے مجموعہ ”وہ چاند گواہ میرا“ کا مسودہ مجھے بھیجا ہے تو ان کے ماہیوں کے کئی اور منفرد اوصاف بھی سامنے آئے ہیں۔
کلیم شہزاد نے ماہیے کے بنیادی وزن کو پوری طرح قائم رکھتے ہوئے اس کی ظاہری ہیئت میں دو طرح کے دلچسپ تجربے کئے ہی۔ ماہیا گائیکی میں دہرایا بھی جاتا ہے۔ ابھی تک کے پنجابی اور اردو ماہیوں کی مثالوں سے دہرانے کی جو روایت ملتی ہے اس کے مطابق پہلے مصرعے کو شروع میں دوبارہ گایاجاتا ہے اور اس کے بعد دوسرے اور تیسرے مصرعوں کو ایک ساتھ دہرا کر گایا جاتا ہے۔ دہرانے کی مثال ان دو ماہیوں کے مصرعوں کے نقشہ سے سمجھی جا سکتی ہے۔
پنجابی ماہیا
اردو ماہیا
چٹا ککڑ بنیرے تے
چٹا ککڑ بنیرے تے
تم روٹھ کے مت جانا
تم روٹھ کے مت جانا
کاسنی دپٹے والیے
منڈا صدقے تیرے تے
کاسنی دپٹے والیے
منڈا صدقے تیرے تے
مجھ سے کیا شکوہ
دیوانہ ہے دیوانہ
مجھ سے کیا شکوہ
دیوانہ ہے دیوانہ
یوں تین مصرعوں کا ماہیا گائیکی کے حساب سے دہراتے ہوئے چھ مصرعوں میں لکھاجاسکتا ہے مگر ظاہر ہے گائے جانے کی بات اور ہے، لکھے جانے میں ماہیا تین مصرعوں میں ہی مناسب لگتا ہے۔ اب کلیم شہزاد نے ماہیے کی ظاہری ہیئت میں یہ انوکھا تجربہ کیا ہے کہ پہلے مصرعہ کو تیسرے مصرعے کے بعد پھر دہرادیا ہے۔ بات صرف مصرعے کو دہرانے کی حد تک ہوتی تو اسے کلیم شہزاد کی منفرد دِکھنے کی کاوش سمجھا جا سکتا تھا لیکن معاملہ صرف اتنا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کلیم شہزاد کے اس پہلے مصرعہ کا چوتھی لائن میں دہرایا جانا معنوی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے کسی داخلی حوالے تک بھی لے جاتا ہے۔ ان کے یہ ماہیے دیکھیں اور ان کے مصرعوں کے ربط باہم سے پیدا ہونے والے معنوی تسلسل پر غور کریں۔
سب کچھ تھا اشاروں پر
جیون پیاسا تھا
دریا کے کناروں پر
پانی تو بھرنا ہے
میرا دلبر تو
اک پیار کا جھرنا ہے
سب کچھ تھا اشاروں پر
پانی تو بھرنا ہے
جیون یہ بنا روگی
دکھ زنجیریں ہیں
خوشیوں نے سزا بھو گی
جیون یہ بنا روگی
تتلی پر پہرے تھے
زنگ آلود ہوئے
جو رنگ سنہرے تھے
تتلی پر پہرے تھے
٭
ان ماہیوں میں پہلا مصرعہ چوتھی لائن میں آ کر پورے ماہیے کے معنوی ربط میں ایک نئے بُعدکا اضافہ کر رہا ہے پھر تیسرے اور چوتھے مصرعوں کے معانی کی الگ سے کونپل پھوٹتی محسوس ہوتی ہے۔ تاہم اس تجربے میں تین مصرعوں کے ماہیے کا اصل اور بنیادی وزن برقرار رہتا ہے۔ ماہیے کی ظاہری ہیئت میں دوسرا تجربہ کلیم شہزاد نے شروع میں ”میرے اے ماہی! “ کے الفاظ کی اضافی سطر کا کیا ہے۔ اس خطابیہ سطر میں دراصل پنجابی کے لوک گیتوں کے ایک خطابیہ ”میریا وے ماہیا“ کا سیدھا سادھا ترجمہ کر دیا گیا ہے ۔اس تجربے کے ماہیے بہت کم ہیں۔ تاہم ان سے کلیم شہزاد کی ذہنی اپج کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
میرے اے ماہی!
فصلیں پک گئی ہیں
کب تُو آئے گا
اب آنکھیں تھک گئی ہیں
میرے اے ماہی!
اک جنگل بیلہ ہے
گھر کو واپس آ
اب شام کا ویلا ہے
ان دو تجربوں کے علاوہ کلیم شہزاد نے اپنے پرانے پنجابی ماہیوں کو اردو روپ دیا ہے اور ایسے ماہیوں کو ڈیڑھ مصرعی صورت میں پیش کیا ہے۔
کوئی چاند کے ٹوٹے تھے
پارس کر چھوڑے، دمڑی سے کھوٹے تھے
اک ریل کی سیٹی ہے
میری جانب سے ، اکھ جان کے میٹی ہے
٭
اک جیکٹ کالی ہے
اس کو دو تاریں، جاں جانے والی ہے
خوشیاں سی چھا گئی ہیں
کل وہ آئے گا، اب خبریں آ گئی ہیں
کلیم شہزاد کے ڈیڑھ مصرعی ہیئت کے ماہیے ان” کرم فرماﺅں“ کو ماہیے کے وزن کے سلسلے میں ، تخلیقی رنگ میں عمدہ جواب ہیں جو ڈیڑھ مصرعی ہیئت کی آڑ لے کر تین مساوی الوزن مصرعوں کے ثلاثی نگاروں کو ”ماہیا نگار“ منوانے کی کوشش ناکام میں لگے ہوئے ہیں۔ کلیم شہزاد نے اپنے ڈیڑھ مصرعی ماہیوں میں ماہیے کے وزن کو پوری طرح اجاگر کرکے کج بحثی کرنے والوں کے لئے جائے فرار بھی نہیں رہنے دی۔
”وہ چاند گواہ میرا“ کے ماہیوں کے یہ تجرباتی ماہیے اور ڈیڑھ مصرعی ماہیے پڑھتے وقت مجھے ذاتی طور پر ایک انوکھا سا احساس ہوا۔ مجھے ایسا لگا جیسے پنجاب کی جٹی لڑکپن سے جوانی میں داخل ہو رہی ہے۔ اسے اپنے جسم سے روح تک انوکھی تبدیلیاں محسوس ہو رہی ہیں۔ لڑکپن کا بالا پن جیسے ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں ظاہر ہوتا ہے۔ تبدیلیوں کا احساس، کچھ سمجھ میں آنا ، کچھ سمجھ میں نہ آنا۔ نئی جوانی کا خمار، الہڑ پن اور سادگی ۔۔۔۔ اس سادگی اور معصومیت میں وہ جٹی کبھی آئینے کے روبرو ہو کر سرخی پاﺅڈر لگاتی ہے۔ آنکھوں میں کاجل کے لمبے ڈورے کھینچتی ہے ”میرے اے ماہی“ کا ٹیکا اپنے ماتھے پر سجاتی ہے اور پھر کبھی گوٹہ کناری والی قمیص کے ساتھ پہنی ہوئی سلوار کے اوپر ہی بڑا سا چولستانی گھاگھرا پہن لیتی ہے ۔۔۔ آنکھ سے باہر تک نکلی ہوئی کاجل کی لکیر ، بے جوڑ سرخی اور تھوپے ہوئے پاﺅڈر پر کسی کو ہنسی بھی آ سکتی ہے اور سلوا رکے اوپر گھاگھرا پہننے کا مذاق بھی اڑایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سارے عمل کے دوران اس الہڑ مٹیا رکے جذبوں میں جو حلاوت ہے اور اس کی تبدیل ہوتی ہوئی شخصیت میں جو سادگی اور معصومیت ہے، ان سب کی سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کلیم شہزاد کے ماہیے ایسے ہی جذبوں کی حلاوت اور شخصیت کی سادگی سے عبارت ہیں۔
جب دودھ بلوتی ہوں
یاد تری آوے
چھپ چھپ کے روتی ہوں
جب دودھ بلوتی ہوں
مت دینا کبھی جھڑکی
چاند کو تکتی ہوں
میں کھول کے دل کھڑکی
مت دینا کبھی جھڑکی
٭
٭
میرے اے ماہی!
جاں سولی پہ تل جاوے
تجھ کو جب سوچوں
ایک مینڈھی کھُل جاوے
گڑیا کو لگا گوٹے
جان نمانی کو، کر چھوڑا ہے کیوں ٹوٹے
پنجابی ماہیوں کی طرح کلیم شہزاد کے ماہیوں میں کہیں عورت بولتی سنائی دیتی ہے تو کہیں مر دکی آواز میں بات کی گئی ہے۔ چونکہ یہ دونوں روایتیں پنجابی ماہیے میں موجود ہیں اس لئے اردو میں ان دونوں کے برتاﺅ میں کوئی حرج نہیں۔ اردو ماہیے میں پنجابی روایت کے زیر اثر ماہیا اور ڈھولا کے الفاظ بکثرت استعمال ہوئے ہیں۔ کلیم شہزاد کے ہاں ”میرے اے ماہی“ والی اضافی سطر کے ماہیوں کے علاوہ اکا دکا مثالوں میں یہ الفاظ ملیں گے۔ انہوں نے محبوب کے لئے ان تمام مروج الفاظ کی جگہ سانول اور ساجن کے الفاظ کو زیادہ استعمال کیا ہے۔ اس سے یہ تاثر لیا جا سکتا ہے کہ کلیم شہزاد نے شاید شعوری طور پر پنجابی روایت سے انحراف کیا ہے لیکن یہ تاثر اس لئے درست نہیں کہ ان کے ماہیے تو پنجابی ماہیے کے لوک رس میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاں سانول یارکا حوالہ سرائیکی روایت سے آیا ہے۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ چاچڑاں شریف والوں کی کافیوں میں سانول یار کا خوبصورت انداز میں ذکر ہوا ہے۔ مجھے کلیم شہزاد کے ہاں اسی کا اثر محسوس ہوتا ہے۔ ایسا ہے تو تب بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ماہیے لوک رس کے مختلف ذائقوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
”وہ چاند گواہ میرا“ میں موضوعات کے تحت ماہیے کہنے کی روایت تھوڑی سی مزید مستحکم ہوئی ہے ۔سب سے پہلے ”محبت کے پھول“میں ایسے ماہیے سامنے آئے تھے۔ اب کلیم شہزاد نے حمد، نعت، کربلا، وطن سے محبت اور کشمیر کے موضوعات پر متعدد ماہیے کہہ کر اس میدان میں پیش قدمی کی ہے۔ اس مجموعہ کے ماہیوں میں پنجابی الفاظ کا استعمال کثرت سے ہوا ہے۔ کلیم شہزاد نے اپنے پنجابی ماہیوں کا جو اردو ترجمہ کیا ہے اگر اس میں سے بعض کو اردو ماہیوں کا پنجابی ترجمہ کہہ دیا جائے تو یہ بات بھی مانی جاسکتی ہے مثلاً
کوئی چلتی گاڑی ہے
ہجرو چھوڑے نے، رَت جسم کی ساڑی ہے
رُوڑی پر کچرا تھا
میں انبھول بڑی، وہ دل کا کھچرا تھا
٭
چرخے کی لٹھ ہووے
ہولے چل ماہی، مجھ سے نہ نٹھ ہووے
سنیارے ”ہس“ گھڑیا
جانے کیا غلطی، وہ پھرتا ہے کیوں لڑیا
پاکستان اور ہندوستانی پنجاب میں تو ایسے اردو ماہیے بخوبی سمجھے جاتے ہیں لیکن اردو دنیا کی ایک بڑی آبادی کے لئے ان کی تفہیم میں دقت ضرور پیش آئے گی۔ ان ترجمہ کردہ ماہیوں کے علاوہ کلیم شہزاد کے باقی ماہیوں میں بھی پنجابی الفاظ بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر۔
ہجراں کا روگی ہے
خیر زیارت کی
در آیا جوگی ہے
پیغام گَھلا دینا
بازی میں ہاری
تم سکھیو بتا دینا
٭
گاڑی کی سیٹی ہے
ڈھونڈوں ساجن کو
سر پیار کی ”میٹی،، ہے
کانٹا سا کھُب جاوے
درد کی لہراٹھے
دل غم میں ڈُب جاوے
ان ماہیوں میں پہلے ماہیے میں خیر کا لفظ خیرات مانگنے کے معنی میں آیا ہے ۔دوسرے ماہیے میں گھَلا دینا کا مطلب ہے بھجوا دینا، تیسرے ماہیے میں آنکھ مچولی کاکھیل، پنجابی متبادل لُکن میٹی مذکور ہے۔ جب ایک ڈھونڈنے والا دوسرے کو ڈھونڈنے لگتا ہے تو پھر پہلا چھُپتا ہے اور دوسرا اسے ڈھونڈتا ہے، یوں باری (میٹی) بدلتی رہتی ہے۔ چوتھے ماہیے میں کھُب کا لفظ چبھنے کے معنی ہیں اردو میں بھی مستعمل ہے، البتہ ڈُب بمعنی ڈوب آیا ہے۔ ان وضاحتوں کے باوجود پنجابی سے بالکل ناواقف احباب کے لئے شاید ان ماہیوں سے صحیح طور پر لطف اندوز ہونا مشکل ہے لیکن پنجابی زبان سے آشنا قارئین کو ان ماہیوں سے اور ایسے ہی دیگر ماہیوں سے جو سرور حاصل ہوگا اسے وہی بخوبی جان سکتے ہیں۔ لیکن ایسے ماہیوں میں پنجابی الفاظ کے بکثرت استعمال اور ان کے تئیں اجنبیت کے احساس کی شکایت کسی نہ کسی کونے سے آ تو سکتی ہے۔ میرا خیال ہے اردو زبان کا وہ سرمایہ جو بہت زیادہ فارسی آمیز ہے اور وہ سرمایہ جو ہندی آمیز ہے اسے رد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح ماہیے کے ذریعے اگر پنجابی الفاظ اردو زبان کا حصہ بنتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ جو پنجابی الفاظ اردو زبان کو راس نہیں آئیں گے وہ رائج نہیں ہوپائیں گے لیکن جو الفاظ اردو زبان میں رائج ہوں گے وہ یقیناً اس میں اضافہ کا موجب بنیں گے۔ سو کلیم شہزاد کے اس تجربے کی میں تائید کرتا ہوں۔۔۔ ہاں ایک الجھن ہے جو بعض ایسے الفاظ کے تلفظ کے بارے میں ہے جو اردو پنجابی کے مشترکہ الفاظ ہیں مثلاً ”معاف“ کو پنجابی میں لکھا تو معاف ہی جاتا ہے لیکن بولا”ماف“ جاتا ہے۔ ایسے ہی تسبیح، روح اور نہ کو لکھا تو ایسے جاتا ہے لیکن پڑھنے میں تسبی، رُو اور ناں پڑھتے ہیں۔ کلیم شہزاد نے بعض جگہ اس قسم کے الفاظ کو پنجابی تلفظ کے مطابق برتا ہے جبکہ اردو میں انہیں عیب سمجھا جاتا ہے۔ اس الجھن کا فیصلہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا جائے گا یا تو اردو زبان مشترکہ الفاظ کے پنجابی لہجے کو قبول کر لے گی،یا ہمارے ماہیا نگار خود ہی احتیاط کرنے لگیں گے۔ فی الوقت کلیم شہزاد اور ایسے ہی دیگر ماہیا نگاروں کی یہی بڑی خوبی ہے کہ تخلیقی سطح پر الفاظ کے برتاﺅ کے نئے تجربے کر رہے ہیں۔
یوں تو کلیم شہزاد کے ماہیوں میں حمدیہ، نعتیہ اور کربلائی رنگ کی اپنی ایک شان ہے۔ سلگتے ہوئے سیاسی و سماجی مسائل پر ان کے افکار انہیں ایک محبِ وطن اور درد مند انسان ثابت کرتے ہیں۔۔ عشق سے جڑے ہوئے مختلف مضامین کا اپنا رنگ ڈھنگ ہے۔ تاہم ان کے اُن ماہیوں میں ایک انوکھی لذت پیدا ہوگئی ہے جو لوک رَس اور نئے طرز احساس سے مل کر تخلیق ہوئے ہیں۔ ایسے چند ماہیے دیکھیں۔ میں نے اپنے طور پر ان ماہیوں کا سرخی، پوڈر، کاجل اور اضافی گھاگھرا وغیرہ خود ہی ہٹا دیئے ہیں تاکہ یہ ماہیے اپنے اوریجنل روپ میں زیادہ واضح ہوکر محسوس ہوں۔
بس اﷲ والی ہے
جیون گاڑی تو
اب چلنے والی ہے
یہ ناانصافی ہے
بھوک ہے برسوں کی
روٹی ناکافی ہے
٭
٭
آباد رہیں ڈیرے
کاسے نینوں کے
کیوں خالی رہیں میرے
نیندوں کو سجا جانا
نین اداسے ہیں
سپنوں میں چلے آنا
٭
مت چھیڑ فقیروں کو
جان سے پیاری ہے
یہ قید اسیروں کو
دھارے سے بہتے ہیں
نیند بھلا کیسی
دُکھ جاگتے رہتے ہیں
٭
کھلتے ہیں خوابوں میں
پھول ہیں یادوں کے
ان سانس کتابوں میں
٭
پانی وہ چلی بھرنے
دید پیاسی تھی
آنکھوں سے بہے جھرنے
٭
اظہار پہ سختی ہے
دل دروازے پر
اک نام کی تختی ہے
٭
روحیں کیوں روتی ہیں
پلکوں کے آنچل
اشکوں سے بھگوتی ہیں
٭
کیوں ہاتھ ترا چھوٹا
نیند نہیں آئی
بے چین بدن ٹُوٹا
٭
آنسو کب ٹانکے تھے
رات نے پلکوں سے
کچھ موتی مانگے تھے
٭
اتنی مثالوں پر ہی بس کرتا ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میں ساری مثالیں پیش کرنے بیٹھا تو آدھے سے زیادہ مجموعے کے ماہیے درج کرنے پڑجائیں گے۔ اردو ماہیے کے اس ابتدائی دور میں ماہیا نگاروں کی جو دوسری بڑی کھیپ سامنے آئی ہے کلیم شہزاد اس میں اپنی ذہن اپچ اور تخلیقی فعالیت کے باعث ابھی سے الگ سے پہچانے جانے لگے ہیں۔
میری دعا ہے کہ اردو ماہیے کی تحریک میں ان کی بے لوث تخلیقی شرکت ان کے لئے بھی اور اردو ماہیے کے لئے بھی بابرکت ثابت ہو!
(کلیم شہزاد کے ماہیوں کے مجموعہ”وہ چاند گواہ میرا “میں شامل)