“وہ یہاں سے جا رہا ہے… تم اسے اس کا حصہ دے دو…”
“کون سا حصہ؟ وہ جو اتنے سال یہاں رہا ہے… میں نے اس کے اخراجات پورے کیے… اس کی تعلیم کی ذمہ داری اٹھائی…” اپنی ماں کے اس مطالبے پر اسے بہت غصہ آیا… ابھی تانیہ کمرے میں نہیں آئی تھی…
“احمر….! اگر میں حساب کتاب کرنے لگی تو تمہارے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا… اس کے باپ کی پراپرٹی میں اس کا حصہ بھی تھا….. تمہارے برابر….. وہ سب میں نے تمہارے حوالے کر دیا….. غلط کیا….. اس کے حصے کے پیسوں کا منافع صرف تم نے استعمال کیا اور میرے ہاتھ پر تم صرف چند ہزار پونڈز رکھتے رہے…” بھرم کا پردہ مسز گوہر نے چاک کیا اور صاف صاف حساب پر آ گئیں… فرزام کے ساتھ وہ زیادتی کیسے ہونے دیتیں…
“اس پیسے سے کاروبار میں نے شروع کیا… اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام میں نے کیا ہے اور آپ دونوں کو میں بہت پیسے دیتا رہا ہوں… اتنا تو کما کما کر دیا ہے میں نے… ماما! آپ ایسے کیسے حساب اور حصے پر اتر آئیں؟ آپ نے یہ نہیں سوچا کہ میں کتنے سالوں سے کتنی محنت کر رہا ہوں؟” احمر کو پہلے سے ہی خدشہ تھا کہ ماما ایسا کچھ کہیں گی…
“ٹھیک کہہ رہے ہو تم… اب تم صرف یہ کرو کہ جو میرا چوتھائی حصہ ہے… وہ تم اپنے پاس رکھو… تم فرزام کو اس کے حصے کے پیسے دے دو… تم اسی قدر دے دو جتنے تمہیں ملے تھے…” وہ تحمل سے بولیں… انہیں معلوم تھا کہ بات کرنے کی دیر ہو گی اور وہ چیخنے چلانے پر آ جائے گا… واویلا کرے گا اور وہ یہی نہیں چاہتی تھیں…
“میرے پاس پیسے نہیں ہیں ماما! آپ صرف اسی کے بارے میں سوچ رہی ہیں… میری محنت آپ کو نظر نہیں آ رہی… میں نے کیا کچھ نہیں کیا آپ دونوں کے لیے…..”
“میں نے تمہاری ہر بات مانی احمر…..! اپنا کاروبار تک تمہارے لیے چھوڑ دیا… سب کچھ بیچ دیا…”
“تو کیا میں نے آپ کو یہاں نہیں بلایا؟ آپ کے اخراجات نہیں پورے کیے؟ آپ کا خیال نہیں رکھا؟”
“احمر……!” انہوں نے کڑی نظروں سے اسے گھورا… “صرف فرزام اور اپنے حصے کا پیسہ میں کسی بھی بزنس میں لگا دیتی تو مجھے اس سے کئی گنا زیادہ منافع ہوتا جو تم مجھے دیتے ہو اور میں کسی بھی وقت اپنا پیسہ واپس نکال سکتی تھی… فرزام کے ساتھ یہ زیادتی میں نہیں ہونے دوں گی… تمہیں اس کے حصے کے پیسے واپس کرنے ہوں گے…”
“اور جو رات دن میں محنت کرتا رہا ہوں؟”
“اس رات دن کی محنت کا پھل تم نے خوب کھایا ہے…” انہوں نے گھر پر ایک نظر دوڑائی… اس بات اور انداز پر احمر تلملا کر رہ گیا…
“کون سے پیسے اور کیسے پیسے؟” تانیہ زیادہ دیر تک اس گفتگو سے الگ نہیں رہ سکی…
“ہم دونوں بات کر رہے ہیں…” مسز گوہر نے سختی سے کہا اور تانیہ کو آگ ہی لگ گئی…
“آپ پوچھ لیں احمر! ماما سے کہ یہ کن پیسوں کی بات کر رہی ہیں… ایسے ہی اتنی لمبی گفتگو میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں…” وہ صاف صاف جتا رہی تھی کہ رقم دی تھی؟ اچھا! تو کوئی ثبوت ہے؟ اگر ہے تو کہاں ہے….. کیسا ہے….. کیا ثابت کرو گے؟
احمر نے اپنی ماں اور سویٹ ہارٹ کی طرف دیکھا… سویٹ ہارٹ کا پیش کیا گیا خیال اسے پسند آیا…
“ماما! آپ کن پیسوں کی بات کر رہی ہیں؟”
“احمر……!” مسز گوہر کو یقین نہیں آیا…
“تانیہ ٹھیک کہہ رہی ہے ماما!”
تانیہ نے اپنی ساس کی طرف ایسے دیکھا’ جیاے پوچھ رہی ہو… “اور کچھ ماما جی؟”
“تم ایسے نہیں کر سکتے…” اتنا کہتے ان کی آواز کانپ
گئی… وہ پیسے دینے میں تامل کرے گا’ ان کا خیال تھا مگر وہ تو صاف مکر ہی رہا تھا…
“آپ اس لفنگے کی اتنی حمایت کیوں کر رہی ہیں؟”
مسز گوہر نے بےیقینی سے اپنے پڑھے لکھے بیٹے کی طرف دیکھا… ساتھ ہی یہ الفاظ لاؤنج کی طرف آتے فرزام نے بھی سنے… وہ ماما کو لینے کے لیے آیا تھا… اکیلے کھانا کھانے کو اس کا جی نہیں چاہ رہا تھا… ماما کو لے کر وہ باہر کہیں جا کر کھانا چاہتا تھا…
“اپنے بھائی کو لفنگا کہہ رہے ہو؟” سب باتوں سے بڑھ کر انہیں اس بات کا زیادہ صدمہ ہوا…
“تو جیل میں کون لوگ جاتے ہیں… کالج سے کن کو نکالا جاتا ہے… اس کا تو ویزہ بھی منسوخ کر دیا گیا ہے… اور کیا نشانیاں ہوتی ہیں بدمعاش لوگوں کی؟”
“بدمعاش لوگوں کی کچھ اور نشانیاں بھی ہوتی ہیں… وہ دوسروں کے مال ہضم کر جاتے ہیں…”
“ماما پلیز! آپ جائیں یہاں سے…” احمر نے اتنے ہتک آمیز لہجے میں کہا کہ مسز گوہر کو چکر آ گئے… فرزام لپک کر اپنی ماں کے پاس آیا…
“یہ کیسے بات کر رہے ہیں آپ ماما سے؟” دونوں بھائیوں نے کبھی ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی… فرزام کی آواز یہ کہتے کافی بلند ہو گئی…
“یہ تم مجھ سے کس طرح بات کر رہے ہو؟”
“اس سے اچھے انداز میں ہی بات کی ہے’ جس انداز میں آپ نے ماں سے کی…”
مسز گوہر اٹھیں… فرزام کا ہاتھ پکڑا…
“چلو فرزام! یہ میرے اور احمر کے درمیان کی بات ہے… تم آؤ میرے ساتھ…” وہ کبھی بھی نہیں چاہتی تھیں کہ دونوں بھائی آمنے سامنے آئیں…
“آپ کی آپس کی بات میں یہ مجھے بدمعاش کہہ رہے
تھے…”
“تو سچ ہی تو کہا ہے احمر نے…” احمر کی سویٹ ہارٹ بولی…
ان سب کے تعلقات اس نوعیت پر پہنچ چکے ہیں… اس کا اندازہ فرزام کو اپنے اکلوتے بھائی کے انداز سے اب ہو رہا تھا… ٹھیک ہے لمحوں میں حالات بدل جاتے ہیں… لیکن یہ رشتوں’ پیاروں اور لوگوں کو کیا ہو جاتا ہے کہ وہ لمحوں کا وقت بھی نہیں لیتے بدلنے میں… مسز گوہر کو تانیہ کی یہ بات آگ لگا گئی…
“ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے نا تمہارے خاندان والے؟ فرزام کے پیسوں سے ایک بڑا گھر انہیں بھی نصیب ہو گیا…”
تانیہ کا منہ ایسے سرخ ہو گیا… جیسے دائیں بائیں گال پر زور زور سے تین چار تھپڑ لگے ہوں…
“فرزام کے پیسے….. مائی فٹ….. اوقات ہے اس کی اتنی؟ اب تک تو اپنے بھائی کے پیسوں پر پل رہا ہے…”
“اب تک تم اس کے پیسوں پر پل رہی ہو اور دوسروں کو بھی پال رہی ہو…”
مسز گوہر اب پیچھے ہٹنے والی نہیں تھیں… فرزام کو ان پیسوں کے معاملات کے بارے میں نہیں معلوم تھا… اب تک اس نے ایک بےفکری کی زندگی گزاری تھی… مسز گوہر اسے کسی بھی معاملے کی ہوا لگنے دینا نہیں چاہتی تھیں کہ وہ اپنے بھائی سے متنفر ہو جائے’ لیکن اتنی احتیاط کے باوجود ان سے برا ہی ہوا…
احمر اپنی بیوی کے منہ کی طرف دیکھنے لگا… بات واقعی بڑھ گئی تھی…
“آپ کو جو کرنا ہے’ کر لیں ماما جی!” تانیہ نے “ماما جی” کو کھینچ کر کہا… “یہاں سے جائیں اب…”
مسز گوہر کی زندگی بھر کسی نے اس طرح بےعزتی نہیں کی تھی’ جو اب ہو رہی تھی…
“اپنا لہجہ اور زبان سنبھال کر بات کریں مسز احمر…..
پلیز….” فرزام نے یہ بات تحمل سے ہی کی تھی… لیکن وہاں بیٹھے دو لوگ بہانے اور بھڑکنے کے لیے تیار ہی بیٹھے تھے… اس لیے احمر فوراً بھڑک اٹھا…
“تم اپنی زبان سنبھالو اور نکلو یہاں سے….. جاؤ….. دفع ہو جاؤ…”
وہ صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا… فرزام گھبرا گیا… جو بھی تھا’ وہ احمر سے ڈرتا تھا… اس کا احترام تو بہت ہی کرتا تھا… اس کے باپ کی جگہ تھا وہ…
مسز گوہر گھبرا کر کھڑی ہو گئیں… پیسے مانگنے کی دیر تھی کہ یہ سب ہو گیا… اب پاکستان میں وہ کیا فٹ پاتھ پر رہیں گے… ان کے پاس تو کچھ تھا ہی نہیں اور جو حالات اب بن گئے تھے… اگر وہ یہاں رہتیں تو بھی احمر انہیں سپورٹ نہ کرتا…
“چلو آؤ فرزام! میرے ساتھ…” انہوں نے اسے لے جانا چاہا… لیکن اس انداز پر فرزام کو جس صدمے نے آن گھیرا تھا’ وہ اس کی بابت بات کرنا چاہتا تھا… لیکن مسز گوہر اسے چلنے کے لیے کہہ رہی تھیں…
“پلیز ماما! دوبارہ میرے گھر ایسے لڑائی جھگڑا کرنے مت آئیے گا…” احمر یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکا… مطلب گھر آئیے گا ہی مت…
“کیا ماما آپ سے لڑ رہی ہیں؟ آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟” فرزام جاننا چاہتا تھا… مسز گوہر نے اس کا بازو تھا رکھا تھا…
“تم اپنی بکواس بند کرو…”
“میں بکواس کر رہا ہوں؟”
“فرزام! چلو میرے ساتھ….”
“ایک سیکنڈ مام…. ذرا کلیئر کر لینے دیں… آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے… آپ ایسے بات کیوں کر رہے ہیں؟
“مجھے تمہیں ایک روپیہ نہیں دینا… سن لیا ماما آپ نے بھی؟ یہ سب میں نے رات دن کی محنت سے بنایا ہے… آپ ایسے ہی میرے ساتھ یہ سب نہیں کر سکتیں…” فساد کی جڑ وہی پیسہ….
“مام! کوئی پیسوں کا مسئلہ ہے؟” فرزام اپنی مام کی طرف دیکھنے لگا… مسز گوہر نے خود کو بولنے سے روک لیا… اب تو لڑائی اور ہی بڑھتی نظر آ رہی تھی…
“یہ مجھ سے پیسے مانگ رہی ہیں’ تمہیں دینے کے لیے…” احمر نے زیادتی اور جھوٹ کی حد پار کر لی مزے سے… جب اس نے حد پار کر لی تو مسز گوہر نے بھی سوچا کہ کم سے کم فرزام کو اب تو سچ معلوم ہونا ہی چاہیے…
“پاکستان میں جو ہماری پراپرٹی تھی… اسے میں نے احمر کے کہنے پر بیچ دیا اور سارے پیسے اسے دے دیے… اب اصولاً اسے تمہارے حصے کے پیسے تمہیں دے دینے
چاہئیں…”
“یہ جو آپ اتنا عرصہ یہاں رہی ہیں… یہ یہاں رہا ہے… اسے کالج تک بھیجا… ہر طرح کے اخراجات پورے کیے تو وہ تھوڑے سے پیسے ابھی تک باقی ہیں؟”
“تھوڑے سے احمر….. ڈھائی کروڑ کا تو صرف میرا گھر ہی تھا…
“ڈھائی کروڑ یہاں پر ڈھائی کروڑ نہیں رہتے…”
“ماما….” فرزام نے اپنی ماں کے کندھے پر ہاتھ رکھا…
“ابھی دو دن پہلے آپ نے مجھے کہا تھا کہ وقت کی زبان پڑھنا سیکھو… اب میں سیکھ رہا ہوں تو آپ کیوں بھول رہی ہیں؟”
“لیکن فرزام……!” آنسو ان کی آنکھوں سے نکلنے لگے… تانیہ صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی تھی’ احمر “ہونہہ” کی صورت بنائے کھڑا تھا…
“ماما……!” احمر بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں… آپ کو ان سے اختلاف نہیں کرنا چاہیے آپ آئیں میرے ساتھ…” مسز گوہر نے اپنے بیٹے کی آنکھوں میں دیکھا اور دکھی ہو گئیں… دونوں ماں بیٹا بلڈنگ سے باہر آ گئے بہت دیر تک واک کرتے رہے خاموشی سے…
“دو دن بعد میں جا رہا ہوں ماما….. یقین جانیے میں اتنا بڑا ہو گیا ہوں… مجھے عقل نہیں آئی… لیکن اتنے سے دنوں میں مجھے بہت عقل آ گئی ہے… اب میں مرد ہوں… رو نہیں سکتا اور ایسا کچھ برا بھی نہیں ہوا ہمارے ساتھ… جو کچھ ہوتا ہے’ اچھے کے لیے ہی ہوتا ہے…” وہ آنکھیں صاف کرتی اپنی ماں کو تسلی دے رہا تھا… لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس سب پر مسز گوہر بہت دکھی تھیں…
“آپ بھائی کے پاس ہی رہیں گی… جب تک پاکستان میں’ میں سیٹل نہیں ہو جاتا…”
“میں تمہارے ساتھ جاؤں گی… میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گی… تانیہ کے شوہر کے ساتھ میں کہاں رہوں گی؟”
“چند ماہ تو رہیں یہاں…”
رات گئے تک ان کی واک جاری رہی…
اگلے دن فرزام نے گتے کے ایک بڑے ڈبے میں کارڈز’ کچھ شرٹس’ چند کھلونے اور چند اور مختلف چیزیں رکھیں… ڈبہ اٹھا کر ٹیوب سے وہ اپنے کالج آ گیا اور گیٹ کے باہر ایک طرف بیٹھ کر انتظار کرنے لگا…
“رومی!” بیٹھے بیٹھے ہی اس نے اسے آواز دی… وہ اپنی تین دوستوں کے ساتھ باہر آ رہی تھی… وہ ان تین دوستوں کو بھی اچھی طرح سے جانتا تھا… انہیں دور سے ہی ہاتھ ہلا کر “ہائے” کہا… انہوں نے بھی ہاتھ ہلایا اور وہیں کھڑی رہیں’ نہ چاہتے ہوئے بھی رومی کو اس کے قریب آنا پڑا… منہ بنا کر کھڑی رہی کہ بولو کیا بات ہے…
“یہ تمہاری چیزیں لایا ہوں…” اس نے ڈبے کی طرف اشارہ کیا…
رومی کا منہ اور بگڑ گیا… “گھر تو تم ملتیں نہیں… سوچا یہیں دے جاؤں…”
“اس ڈرامے کی کیا ضرورت تھی؟”
“جیسے تمہیں “محبت” کا ڈرامہ کرنے کی ضرورت تھی…”
“کافی غصے میں لگ رہے ہو…” وہ تمسخر سے ہنسی… “ٹیک اٹ ایزی…”
“اب ہی تو غصے میں نہیں ہوں… پھر تو تم سے کبھی ملاقات ہو گی نہیں… تم میری دی ایک ایک چیز واپس کردینا…” وہ کہہ کر جانے لگا…
“اپنی اگلی گرل فرینڈ کو دو گے’ میری استعمال کی گئیں چیزیں……؟” وہ ہنسی…
“اسے دکھاؤں گا اور بتاؤں گا کہ چیزوں سے محبت کرنے والوں سے مجھے سخت نفرت ہے… سجی بنی محبت کرنے والوں سے ساتھ….. صرف’ ہنسنے’ گانے’ مزے کرنے والوں سے….. جب تک اسکول’ کالج کی ہر لڑکی کا مجھ پر کرش رہا… اس وقت تک میں تمہیں عزیز رہا کہ “میں نے جیت لی فرزام نام کی ٹرافی…” جب اسی کالج میں میرے خلاف باتیں کی گئیں تو تم نے ٹرافی کو اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا…”
“ہونہہ…… اب تو تم پاگل بھی ہو گئے ہو…” ہو ‘بہو وہ اپنی بہن تانیہ جیسی لگ رہی تھی…
“بہت وقت پر پاگل ہوا ہوں… نہ جانے مجھے کیوں لگ رہا ہے… میرے ساتھ بہت بڑا معجزہ ہوا ہے… مجھے اتنا کچھ معلوم ہو گیا… اتنا سب کچھ تو گوگل بھی نہیں بتا سکتا… ورنہ میں تو ہر سنڈے تمہارے ساتھ موویز پر ہی جاتا
رہتا…”
“معجزہ تو میرے ساتھ ہوا ہے مسٹر فرزام…..! میری زندگی بچ گئی…” بالوں کو جھٹک کر کوٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ دے کر اس نے کہا…
“اور میرا دل…… تمہاری زندگی نہیں بچی… صرف تمہاری پلاننگ محفوظ رہی ہے… ایک بڑا گھر ہو’ خوب صورت شوہر ہو’ ویک اینڈ پر پارٹی ہو’ آؤٹنگ ہو….. اس برائٹ پلاننگ میں تمہیں مشقت نامی چیز گوارا نہیں تھی… مشکلات تمہیں پسند نہیں اور پاکستان میں ایک تھرڈ کلاس زندگی کا تم سوچ بھی نہیں سکتیں…”
“اب تم جو چاہو’ سوچو……. میں تمہیں فارغ کر چکی
ہوں…” بھرپور طنز کیا… اسے طیش دلانا چاہا…
“اس پر میں تمہارا شکر گزار ہوں…” جھک کر وہ کورنش بجا لایا… رومی پلٹ کر آگے چلنے لگی…
“رومی…..!” اس نے پیچھے سے آواز دی… رومی نے صرف گردن موڑ کر دیکھا…
“نہ جانے مجھے یہ بھی کیوں لگتا ہے کہ تمہاری زندگی میں آنے والے بھی تمہیں بار بار فارغ کریں گے… اگر ان میں تھوڑی سی بھی عقل ہوئی تو…”
“ہونہہ!” کی شکل بنائے رومی ڈبے کو وہیں چھوڑ کر چلی گئی… اس محبت کا اختتام بہت آرام سے ہو گیا’ جس کا رومی صرف چند ہفتے پہلے تک بہت دھوم دھام سے جشن مناتی رہی تھی…
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...